حضرت زینب(س) کا ایک خواب

حضرت زینب(س) کا ایک خواب
یہ پانچ سال اچھا خاصا وقت تھا جس میں حضرت زینب(ص) اپنے جد اطہر سے بہت کچھ سیکھ سکتی تھیں پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی آغوش تربیت میں معرفت کے جام دے دے کر انکے وجود کو صبر و استقامت کا پیکر بنا دیا ،رسول اکرم(ص) کیونکہ آیندہ کے حالات سے باخبر تھے اور جانتے تھے کہ انکے اس جگر پارے کو کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا ہے اور یہ کہ ان مصائب کا سامنا کرنے کے لئے پہاڑ سا دل ،آسماں بوس حوصلہ اور عشق خدا سے سرشار دل کی ضرورت ہے اسی لئے زینب (س) کو صبر و استقامت کا ایسا نمونہ بنا دیا کہ قیام قیامت تک صاحبان قلم انگشت بدنداں رہیں گے۔
قارئین کرام! جہاں اللہ نے بنی نوع بشر کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء(ع) اور بارہ آئمہ(ع) بھیجے ہیں وہیں نصف نسواں سے تعلق رکھنے والی با عظمت خواتین کو بھی کہکشان ہدایت کا حصہ بنایا تاکہ دنیا کی عورتوں کے لئے کامل و اسوہ نمونہ رہے اور وہ کمال کی منازل تک پہونچ جائیں۔
اگر تمام دینی و الہی رہنما صرف مردہوتے اور خواتین میں کچھ کو اللہ نے مکمل نمونہ بننے کے لئے انتخاب نہ کیا ہوتا تو صنف نسواں کے سامنے یہ بہانے کا موقع ہوسکتا تھا کہ ہم ایک مرد امام کا اقتداء تو کرتے ہیں لیکن ہم سے مکمل اتباع ممکن نہیں ہے چونکہ خواتین کے کچھ اپنے خاص مسائل ہیں جو مردوں کو پیش نہیں آتے یا بہت سے کردار ایسے ہیں جن میں مرد و عورت کی افادیت یکساں طور پر واضح ہے لیکن خواتین کے درمیان سے کچھ منتخب ہستیاں نہ ہونے کے سبب بشریت کو پہونچنے والے فوائد حاصل نہ ہو پاتے لہذا اللہ نے جہاں کچھ مردوں کو ہدایت و ارشاد کی ذمہ داری دی ہے اسی طرح کچھ خواتین کو بھی اس میں شریک کار کی حیثیت سے منتخب کرکے بشریت پر مزید احسان کردیا ہے۔
ان باعظمت خواتین کی فہرست میں جہاں سارا، حوا، آسیہ وغیرہ کا نام آتا ہے وہیں شہید کربلا کا مکرمہ بہن، علی و فاطمہ(س) کی لخت جگر جناب زینب علیا مقام کا نام بھی شامل ہے۔
جناب زینب(س) کی ولادت
جناب زینب(س) کی ولادت باسعادت ،بیت نبوت وامامت،مرکز طہارت،شہر عزت وسخاوت مدینہ منورہ میں ۵جمادی الاول۶ ہجری میں ہوئی۔ آپ نےطاہر ترین آغوش میں آنکھیں کھولیں آپ گلشن علی و زہرا سلام اللہ علیہما کی تیسری کلی تھیں۔
باپ کی زینت
زینب یعنی باپ کی زینت یہ نام خداوند عالم نے اس باعظمت خاتون کے لئے منتخب کیا جس نے اپنے پیغام سے تاریخ کو مزین کردیا اور خاندان رسالت کو دین اسلام اور خداوندعالم کے حضور سرخ رو فرمادیا،کربلا اسلام کی تاریخ میں ایسا جاوداں باب ہےجس پر اسلام و شیعت ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے اور رہتی دنیا تک زینب سلام اللہ علیہا کا اسم گرامی اپنے باپ علی مرتضیٰ(ع) کی زینت بنا رہیگا۔
رسول اللہ(ص) کی آغوش تربیت
جس وقت جناب زینب(س) کی ولادت باسعادت ہوئی رسول اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم مدینہ میں نہیں تھے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے حضرت علی علیہ السلام سے نام مبارک رکھنے کے لئے کہا علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: میں آپکے پدر گرامی پر سبقت نہیں کر سکتا ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم کے مدینہ میں وارد ہونے تک انتظار کرین گے جب رسول اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم تشریف لائے اور ولادت کی خبر سنی تو فرمایا زہرا کی اولاد میری اولاد ہے۔ لیکن ان کے بارے میں خداوندعالم فیصلہ لینے والا ہے اسکے بعد جبرئیل امین نازل ہوئے اور سلام و تحیت عرض کرنے کے بعد عرض کیا خدا آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے اس بیٹی کا نام زینب رکھئے! رسول خدا نے زینب کو آغوش میں لیا اور فرمایا سب اس بچی کا احترام کریں کیونکہ یہ خدیجۃ الکبری کی شبیہ ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے جس طرح حضرت خدیجہ نے اسلام کے نشر ہونے میں اپنے احسانات کا سکہ جما دیا اسی طرح زینب کبری(س) نے کربلا کے میدان سے اشہد ان لاالہ الا اللہ کی وہ صدا بلند کی کہ قیامت تک کوئی یزید توحید اور اسلام کو اپنا کھلونا نہیں  بنا سکے گا۔
اگر 6 ہجری میں ولادت والی روایت کو معتبر مانا جائے تو حضرت زینب نے پانچ سال تک رسول اکرم(ص) کے وجود مبارک سے فیض حاصل کیا اور یہ مدت انکے صحابی رسول ہونے کے لئے کافی ہے اسی بنیاد پر جن لوگوں نے اصحاب رسول(ص) کے موضوع پر کتابیں تألیف کی ہیں اکثر نے حضرت زینب(س) کے اسم گرامی سے اپنے صفحات کو مزین کیا ہے۔
یہ پانچ سال اچھا خاصا وقت تھا جس میں حضرت زینب(ص) اپنے جد اطہر سے بہت کچھ سیکھ سکتی تھیں پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی آغوش تربیت میں معرفت کے جام دے دے کر انکے وجود کو صبر و استقامت کا پیکر بنا دیا ،رسول اکرم(ص) کیونکہ آیندہ کے حالات سے باخبر تھے اور جانتے تھے کہ انکے اس جگر پارے کو کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا ہے اور یہ کہ ان مصائب کا سامنا کرنے کے لئے پہاڑ سا دل ،آسماں بوس حوصلہ اور عشق خدا سے سرشار دل کی ضرورت ہے اسی لئے زینب (س) کو صبر و استقامت کا ایسا نمونہ بنا دیا کہ قیام قیامت تک صاحبان قلم انگشت بدنداں رہیں گے۔
ایک دردناک خواب
رسول خدا(ص) کی رحلت کے ایام قریب تھے زینب سلام اللہ علیہا نے خواب دیکھا اور اپنے نانا جان سے بیان کیا : نانا جان میں نے خواب دیکھا ہے کہ شدید آندھی چل رہی ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا اندھیرے میں ڈوب گئی ہے میں آندھی کی شدت سے زمین پر گر گئی ہوں اور ہوا کے تھپیڑوں سے ادھر ادھر ڈگمگا رہی ہوں یہاں تک کہ ایک بڑے درخت کے نیچے پناہ حاصل کی لیکن وہ بھی کچھ دیر کے بعد ساتھ چھوڑ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں خواب سے بیدار ہوگئی ، رسول خدا(ص) نے  یہ خواب سن کر گریہ کیا اور فرمایا : جس درخت کے نیچے تم نے پہلی بار پناہ لی تھی وہ تمہارے جد ہیں جو بہت جلد اس دنیا سے جانے والے ہیں اور وہ دو شاخیں جو آپس میں ملی ہوئی ہیں تم نے ان سے پناہ لی وہ تمہارے دو بھائی حسن اور حسین ہیں جن کی مصیبت میں دنیا تاریک ہو جائیگی۔
کچھ ہی روز بعد رسول اکرم(ص) اس دنیا سے رحلت فرما گئے یہ پہلی مصیبت تھی جو زیب کبری(س) کے قلب نازنین کو تڑپا گئی۔
ماں فاطمہ  الزہراء(س) کا  ساتھ
بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے پدر بزرگوار کے بعد صرف چند ماہ تک زندہ رہیں اسی لئے زینب سلام اللہ علیہا نانا کے بعدصرف چند ماہ شفقت و عطوفت مادری کے سائے میں رہیں یہی وہ مصائب تھے جنھوں نے زینب کو صبر و استقامت کا کوہ آسماں رشک بنا دیا کہ جس کی تا ریخ میں نظیر ملنا ممکن نہیں۔