ائمہ عسکرئین کا عہد امامت اور علمی فیوض

بسم اﷲ الرحمن الرحیم


ابتدائیہ:

تاریخ ہزاروں سال کے واقعات ، اقوام عالم کی ترقی و تنزل ، کمال و زوال علم و دانش اور ایجادات اور خدمات کی امین ہوتی ہے۔ انسانی عمر کے حوالہ سے تاریخ کا مطالعہ انسان کو ایک محدود اور مختصر عمر کے دوران وسیع معلومات مہیا کرتا ہے، یہ تاریخ ہی کا کرشمہ ہے کہ ہم محمد (ص) و آل محمد (ص) کی مقدس زندگیوں سے متعارف ہوتے ہیں جنہوں نے علم کے دریا بہائے اور اپنے علم کے فیض سے دین کی راہ کو روشن کردیا۔ آنحضرت ؐ کے ان جانشینوں کا ایک بے مثال کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے علمی فیوض کے استحکام، حفاظت اور ان کے سیل رواں کو جاری رکھنے کے لئے ذہین اور پاکباز شاگرد تیار کئے جو اپنے اپنے دور میں رشد و ہدایت کا مینارہ ثابت ہوئے۔ خطرناک ادوار میں جبکہ مذہب اہلبیت(ع) کا صرف اظہار ہی موت کو دعوت دینا تھا انہوں نے اپنی کاوشوں سے تعلیمات محمد (ص) و آل محمد (ص) کو ہمیشہ کےلئے محفوظ کردیا۔
دنیا کے ہرکونے میں محبان اہلبیت(ع) اپنے اپنے انداز میں علم اہلبیت سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اسی استفادہ کی ایک شکل گروہ جعفری پاکستان کی یہ فکری نشستیں ہیں جو گزشتہ ٦ سال سے جاری ہیں پیغام خداوندی یعنی ''مطالعہ قرآن '' سے ان کی ابتدا ہوئی اور ائمہ علیم السلام کے علمی فیوض اور شخصیات اور عہد امامت کے تعارفی اور مطالعاتی جائزے پیش کئے گئے۔ الحمد اﷲ ہم سال گزشتہ امام علی ابن موسیٰ الرضا کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کئے، معرفت ائمہ کا یہ نثری قصیدہ اب اپنے مقطع کے قریب ہے۔ اسی مناسبت سے اس مقالہ کا موضوع ہے ''آئمہ عسکرئین کا عہد امامت اور علمی فیوض''
آغاز کلام میں یہ عرض ہے کہ ان فکری نشستوں کے معیار ، سامعین کی توقعات اور رجحانات کے تقاضوں کے تحت میں محسوس کرتا ہوں کہ مقالوں کے موضوعات میں تنوع ضروری ہے تاکہ آئندہ آنے والوں کے لئے فکر کی طبع آزمائی کا ایک دریچہ کھلا رہے اور فیض علم اور وصل قول کا یہ عمل جاری رہے، اس ضمن میں تدوین حدیث وفقہ، فلسفہ غیبت، مرجعیت اور اجتہاد اور برصغیر میں علما کی خدمات کے عنوانات پر کام کیا جاسکتا ہے، معروضی حالات میں ان فکری نشستوں کا یہی بنیادی مقصد ہے۔


تاریخ آئمہ ، سر سری جائزہ :

ائمہ عسکرئین کے عہد امامت کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لئے جب ہم اپنے ائمہ کی دوسو سالہ تاریخ (١١ھ تا٢١٤ھ ولاوت امام علی النقی ) پر ایک سر سری نظر ڈالتے ہیں تو متضاد واقعات کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے۔ ابھی آنحضرت ؐ کی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی کہ ثقیفہ میں اعلان غدیر کی صریح خلاف ورزی کے نتیجہ میں علی حق خلافت پیغمبری سے محروم کر دیئے گئے۔ لیکن چند سال بعد خلیفہ ثانی کی وفات پر علی کو خلافت پیش کی گئی جو سیرت شیخین سے مشروط ہوتی ہے۔ علی نے بلا تامل'' نہیں'' کہا اور اس کو رد کردیا، اسی ''نہیں'' کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے دور کے ممتاز مفکر ڈاکٹر علی شریعتی اپنے مخصوص انداز میں کہتے ہیں کہ اسلام کا آغاز بھی ایک نہیں یعنی لفظ ''لا'' سے ہو اور تشیع کا آغاز بھی اس ایک ''نہیں'' سے ہوا جو علی نے شوریٰ میں کہا۔ (علی شریعتی مترجم موسیٰ رضا )۔ ٣٥ھ میںخلیفہ سوم کے قتل پر علی کو مجبوراً خلافت قبول کرنی پڑی لیکن وفات رسول کے ٣٥ سال کے اندر اس وقت کا عرب معاشرہ اس حالت پر پہنچ گیا تھا جو بوقت بعثت پیغمبر تھا۔ علی جیسے اصول پرست کے لئے ممکن نہ تھا کہ ماحول سے سمجھوتہ کرلے، علی کو مختلف جنگوں میں الجھا دیا گیا۔ شیعوں کے لئے معاویہ اور یزید کا ٢٤ سالہ دور بہت مشکل زمانہ تھا۔ اس دوران شہادت ا میر المومنین اور امام حسن واقع ہوئی اور ٦١ھ میں سانحہ کربلا واقع ہوا۔ اموی حکمرانوں کے ظلم وستم اس قدر مکروہ ثابت ہوئے کہ بالآخر مورخین خلفا کو دو گرہوں میں تقسیم کرنے پر مجبور ہوگئے ایک خلفائے راشدین اور دوسرے وہ جو معاویہ اور اس کے بعد منظر پر آئے۔ (محمد حسین طباطبائی ۔ مترجم شاہد چودہری)
یزید کے بعد حکومت آل مروان میں منتقل ہوئی جو ٧٠ سال تک جاری رہی۔ اس عرصہ میں امام سجاد نے اپنی دعاؤں سے اور ائمہ صادقین (امام باقر جعفر صادق) نے درس و تدریس سے تدوین فقہ اور علم کے فیوض پھیلائے کیونکہ ملوکیت اپنی پریشانیوں میں مصروف تھی۔ اس ماحول میں شیعیت کو فروغ و تقویت ملی اور اسی زمانہ میں ایران میں شہر قم کی بنیاد رکھی گئی۔ ١٤٨ھ میں امام صادق کی شہادت واقع ہوئی۔ بنی امیہ کے روز افزوں ظلم و ستم کے رد عمل کے طور پر ایران میں ابو مسلم خراسانی کے زیر اثر '' تحریک انتقام قتل حسین'' نے زور پکڑا۔ اس ہنگامہ میں بنو عباس نے خاندان رسالت سے اپنی وابستگی کی بنیاد پر بغداد میں غلبہ حاصل کر لیا اور ١٣٢ھ میں سلطنت عباسیہ و جود میں آئی۔ تیسری صدی ہجری کے آغاز پر وہ وقت بھی آیا کہ حکومتی اور سیاسی مصالح کے تحت ماموں رشید نے امام رضا کو اپنا داماد اور ولیعہد بنالیا، یہ ماحول شیعہ علما و متکلمین کے لئے فیض علم اور و صل قول کی ذمہ داریوں کو جاری رکھنے کےلئے ساز گار تھا۔ (محمد حسین جعفری ، خیر البریہ فی تاریخ الشیعہ) لیکن امام رضا کے علم و فضل کی بڑھتی ہوئی شہرت سے خائف ہو کر ماموں رشید نے ٢٠٣ھ میں امام کو شہید کردیا۔ امام رضا کی شہادت کے نتیجہ میں علوئیں میں بددلی اور بے چینی پھیل گئی تو ماموں نے امام محمد تقی کو مدینہ سے بغداد بلالیا جبکہ امام کی عمر ٨۔٩ سال تھی۔ صغر سنی کے باوجود آپ کے بے شمار علمی کمالات سے ماموں اس قدر متاثر ہوا کہ اپنی بیٹی ام الفضل کا عقد امام سے کردیا۔ ماموں کے بعد معتصم تخت نشین ہوا اور ام الفضل کی مسلسل شکا یات پر ٢٢٠ھ میں امام کو شہید کردیا جبکہ آپ کی عمر صرف ٢٥ سال تھی۔ یہ ہمارے کمسن ترین امام ہیں۔ دوسرے کمسن امام حسن عسکری (ع) ہیں جن کی ٢٨ سال کی عمر میں شہادت ہوئی۔ اس طرح ٢٢٠ھ مین امام علی النقی (ع) ہادی کی امامت سے ائمہ عسکرئیں کا دور شروع ہوتا ہے۔ اور ٢٦٠ھ یعنی امام حسن عسکری (ع) کی شہادت تک پھیلا ہوا ہے۔



ائمہ عسکرئین۔ مختصر احوال:

امام علی الالنقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) مشترکہ طور پر عسکرئین کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں ۔ شیخ صدوق کی علل الشرایع( مترجمہ حسن امداد ۔ الکساء پبلیکشنز) کے بموجب'' سرّ من را'' جواب کثرت استعمال سے سامرہ، کہلاتا ہے کے اندر محلہ عسکر ہے جس میں امام علی النقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کو قیدی رکھا گیا تھا۔ دونوں ائمہ یہاں طویل مدت رہے اس حوالے سے آپ کو عسکرئین کہتے ہیں۔



امام علی النقی علیہ السلام:

اب کچھ ائمہ عسکرئین کے حالات۔ امام علی لنقی کی ولادت ٢١٤ھ میں ہوئی جبکہ ماموں رشید کی حکومت تھی۔ ٢٣٠ھ میں آپ کی عمر صرف ٦ سال تھی جب امام محمد تقی کی شہادت پر آپ امامت پر فائز ہوئے۔ اس صغر سنی کی امامت میں آپ اپنے والد سے مماثلت رکھتے ہیں جو تقریباً ٨ سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے تھے ( ولادت ١٩٥ھ شہادت امام رضا ٢٠٣ھ) لیکن زمانہ کے حالات نے دونوں ائمہ کے بچپن کو مختلف صورت حال سے دو چار کیا۔ امام تقی جوادکو مامون رشید کی طرف سے علمی فیوض کو آشکار ا کرنے کا موقع دیا گیا اور وہ بے شمار کرامات ظاہر ہوئیں جن کا تواریخ میں ذکر ہے۔ دنیا میں آپ کو کہیں نظیر نہیں ملیگی کہ اس کمسنی میں علم کا بہتا ہوا دریا سائلین کو یوں سیراب کرے (علامہ ترابی ، تقاریر عسکرئین) لیکن امام علی لالنقی (ع) کے سامنے خلفائے بنی عباس میں ظالم ترین فرد متوکل تھا جو اپنے دور کا یزید ثانی تھا آپ کا بچپن ایک جارحیت کے ماحول میں گزرا۔ اس کمسن امام کو حکومت کی طرف مائل کرنے کےلئے ایک عالم عبید اﷲ جنیدی کے زیر نگرانی رکھا گیاتاکہ وہ امام کوآ شنائے مزاج خلافت بنائے لیکن عبیداﷲ کو تعجب ہوا کہ وہ قرآن کی ایک آیت پڑھتا اور امام اس کی سو شقیں بتاتے وہ تنزیل سمجھانے کو شش کرتا امام اس کو تاویل بتاتے۔
بالآخر مقصد میں نا کام واپس آیا البتہ اپنے لئے تو امام کی بارگاہ سے بہت کچھ حاصل کرلیا لیکن حکومت کو کچھ نہیں دے سکتا( فیروز حیدر عابدی، تقاریر آکٹن ہال لندن) امام کے خلاف حکومتی کارندوں کی شکایات کے دباؤ میں ٢٣٤ھ میں متوکل نے یحییٰ ابن ہر ثمہ کے ذریعہ امام کو سامراہ بلوالیا اور ٢٥٤ھ میں شہادت تک وہی قیام رہا۔ (سامرہ پہنچنے پر متوکل نے امام کو خان الصعالک، میں ٹہرایا جو محتاجین کے لئے تھا، یہ محض امام کی توہین کے لئے تھا) امام علی الالنقی (ع) کے ٣٤ سالہ عہد امامت میں ٦ خلفائے بنی عباس آپ کے ہمعصر رہے ان کے نام معتصم، واثق، متوکل ،مستنصر، مستعین اور معتزہیں اور آخر الذکر ہی امام کا قاتل تھا۔



شہادت:

متوکل نے اپنی ساری زندگی امام کو تکلیف دینے میں صرف کی لیکن وہ امام کو قتل نہ کرسکا بلکہ امام کے ساتھ ظلم اور توہین کے نتیجہ میں امام کی تین دن کی مہلت کی پیشگوئی پر کاقہ صالح کے قاتل کی طرح وہ خود ختم ہو گیا۔ متوکل کا بیٹا معتز باﷲ نے ٣٥٤ھ میں حضرت کو زہر سے شہید کردیا اور سامرہ مدفن بنا۔


اولاد:

آپ کی اولاد میں امام حسن عسکری (ع)، حضرت سید محمد جن کا روضہ سامرہ کے قریب بلد میں ہے اور صاحب کرامات ہیں ، جعفر جنہوں نے امام حسن عسکری (ع) کے بعد امامت کا دعویٰ کیا اور بعد میں تائب ہو گئے اور حسین جو عابد و زاہد تھے۔ ایک بیٹی علیہ تھی۔


امام حسن عسکری علیہ السلام

امام حسن عسکری (ع) (ولادت ٢٣٢ھ) ابتداء میں سے اپنے والد کے زیر سایہ مدینہ اور سامرہ میں رہے۔ یوں تو ائمہ معصومین کی زندگی ہمیشہ مصائب و مظالم کا نشانہ رہی لیکن بالخصوص امام حسن عسکری ظالم حکام کی شدید نگرانی میں رکھے گئے کیونکہ عالم اسلام نے آنحضرت(ص) سے سن رکھا تھا کہ ان کا بارہواں وارث/ جانشین مہدی موعود ہو گا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیگا۔ حکومت کی پوری کوشش تھی کہ آخری حجت خدا کو دنیا میں آنے نہ دیں یا قتل کردیں۔ (ذیشان حیدر، نقوش عصمت)
آنے والی حجت کے جدا مجد کی حیثیت سے امام علی النقی کو ایک بڑی ذمہ داری نبھانی تھی۔ امام نے اپنے مصاحب خاص بشیربن سلیمان انصاری کے ذریعہ آنے والی حجت کی والدہ محترمہ نرجس خاتون کو جوکہ قیصر روم کی پوتی تھی بہ حفاظت سامرہ لانیکا انتظام کیا( تفصیلات کتابوں میںموجود ہیں ) خوابوں کے سہارے زندگی گزارنے والی شہزادی کا امام حسن عسکری (ع) سے عقد موجودہ دنیوی اصطلاح میں مشرق و مغرب کا امتزاج ہے۔ وہ اس طرح کہ حضرت ابراہیم کی اولاد اسمعٰیل کی نسل پیغمبر آخر الزمان تک اور اسی سلسلہ سے امام حسن عسکری (ع)تک پہنچتی ہے۔ حضرت ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسحٰق کی نسل سے حضرت موسیٰ اور پھر شمعون وصی عیسٰی کی نسل سے قیصر روم کی پوتی نرجس خاتون ہے۔ اس طرح نرجس خاتون اور امام حسن عسکری (ع) کا عقد مغرب و مشرق کا امتزاج ہے۔ تہذیبوں کے ٹکراؤ کی موجودہ بحث میں عیسیٰ اور محمد مصطفی ؐ کی نسلوں کے امتزاج سے دنیا میں آنیوالا ہادی عدل و انصاف کی کرن بن کر نمودار ہوگا۔ ( فیروز حیدر عابدی، تقریر اکٹن ہال لندن)۔مشیت الہٰی کامیاب ہوئی اور ٢٥٥ھ میں پیغمبر کے آخری وارث کی ولادت با سعادت ہوئی۔


شہادت:

سلسلہ عصمت کے آخری ائمہ کے ساتھ مصیبتیں اپنی تنہائی نقطہ آخر پر پہنچ گئیں ۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت وقت کو ١٢ویں نائب رسول کے آنے کا خوف تھا اور وہ ہر وہ حکمت عمل اختیار کرنے پر تیار تھی جو اس واقعہ کو ٹال سکے۔ قید سخت اور قید تنہائی کی بناء ڈالی۔ کربلا کے بعد ان سے تلواروں سے مقابلہ کی ہمت نہ تھی تو پھر وہی بزدلانہ کام کہ زہر دیدو لیکن اس میں بھی ظلم اتنا رسوا ہوا کہ ظالم جبراً چہرہ سے چادر ہٹا کر کہتا ہے کہ گواہ رہنا ہم نے زہر نہیں دیا۔ پوچھ کون رہا تھا کہ کس نے زہر دیا؟ یہ ظالم کے اندر کا ضمیر تھا جو سامنے آگیا اور عوام ظلم کے گواہ بن گئے ( فیروز حیدر عابدی، آکٹن ہال لندن) معتصم کے دور حکومت میں ٢٦٠ھ میں امام حسن عسکری (ع)کو زہر دیکرشہید کر دیا گیا ''ایک سیل خوں رواں ہے حمزہ سے عسکری تک۔''


عہد عسکرئیں :

چند اہم پہلو: ائمہ اثنا عشری کے ٢٥٠ سالہ دور امامت میں آخری ٤٠ سال یعنی ٢٢٠ھ سے ٢٦٠ھ عہد عسکرئین کہلاتا ہے یہ دو امام یعنی امام علی النقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کے عہد امامت پر محیط ہے۔ یہ دور تاریخ کے ایسے موڑ پر واقع ہے جہاں سے اہم واقعات رونما ہوئے ۔چند اہم خصوصیات کاتجزیہ حسب ذیل ہے۔


١۔ یہ دور ایک رواجی سلسلہ ہدایت اور غیبت صغریٰ کے درمیان ایک کڑی ہے۔ اس عرصہ میں ائمہ کی ذمہ داری
بڑھ گئی تھی کہ ایسے اقدامات کریں جو بتدریج امت کو غیبت کبریٰ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ مسلسل قید و بند اور کڑی نگرانی میں یہ کام اور بھی مشکل تھا۔


٢۔ ائمہ اہلبیت سے وابستہ افراد کے لئے یہ زمانہ پریشانی تشویش اور انقلابی تحریکوں کا دور تھا۔ حکومت کے
مسلسل سخت رویہ کے خلاف مملکت میں علویوں کی شورشیں پھیل رہی تھیں۔


٣۔ دربار خلافت کی ہیبت ختم ہو رہی تھی خلافت چند لوگوں کے ہاتھوں ایک گیند کی طرح تھی۔ اور بار بار حکومت
بدل رہی تھی۔ متوکل نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے شہر سامرہ کو بطور دار الخلافہ چناتاکہ حکومت پر لشکری دباؤ کم کیا جائے۔


٤۔ ائمہ عسکرئین یہ جانتے تھے کہ ١٢ ویں ہادی کی غیبت ایک امر مشیت الہٰی ہے اور اس امر کو اپنے
معتقدین کے افکار کاحصہ بنا نا مشکل لیکن ضروری فریضہ ہے کیونکہ غیبت بطور ضرورت کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں تھی۔ البتہ پیغمبر اکرم اور ائمہ گزشتہ کی روایتوں سے اس امر سے کچھ آشنائی پیدا ہوگئی تھی امام حسن عسکری (ع) کے لئے ''موعود منتظر'' کے والد ہونے کی حیثیت سے یہ کٹھن ذمہ داری تھی کہ عام مسلمانوں کو آگاہ کریں کہ انکا بیٹا ہی ''قائم آل محمد (ص)'' ہے اور اس ضمن میں معلومات کی تحقیق کا وقت آچکا ہے۔ ان تمام دشواریوں کے منجملہ اس زمانہ کے سیاسی حالات اور حکومتی سخت پہرہ میں لوگوں کے اذہان میں اس عقیدہ کی تبلیغ بہت حساس کام تھا۔ ( تاریخ اسلام ۔ گروہ نگارش)


٥۔ اس دور کے سیاسی مضمرات طبری کے الفاظ میں ''بنی عباس کے لئے اس دور کی تاریخ میں بہت کچھ
سبق موجود ہیں نبی عباس نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے جس نسلیت اور گروہ بندی سے فائدہ اٹھایا تھا اور جس مرکز گریز قوت نے ١٣٢ھ میں بنو امیہ کی سلطنت کو ختم کیا تھا تو یہی قوت پورے ایک سو سال بعد ٢٣٢ھ میں عباسی خلیفہ جعفر المتوکل کے دور خلافت میں بنی عباس کے بھی ٹکڑے کرسکتی تھی اور بالآخر یہی ہوا'' (تاریخ طبری ۔ باب نہم ) اس زمانہ میں رضائے آل محمد (ص) کے نام حکومت کے ظلم کے خلاف بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ مورخین نے ایسی ١٨ تحریکوں کا ذکر کیا ہے۔
٦۔ اپنے الفاظ میں ارشاد حسین ازہر نے'' تخت و تاج خلافت'' میں بھی سیاسی طور پر اس دور کی اہمیت کا ذکر کیا


ہے ''بنی عباس کی حکومت بنی امیہ کی قبر پر تیار ہوئی تھی اور بنی عباس نے ان جذبات نفرت سے فائدہ اٹھا کر یہ سلطنت حاصل کی تھی جو بنی امیہ کے بے اعتدالیوں اور دشمنی آل رسول(ص) کی وجہ سے مملکت میں جابہ جا موجود تھے۔ لیکن تخت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے آل رسول(ص) کے خلاف اپنے مظالم میں بنی امیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔''


٧۔ تدوین حدیث و فقہ کے حوالہ سے بھی ائمہ عسکرئین کے عہد امامت کی اہمیت ہے۔ اس ضمن میں
علامہ ترابی کے الفاظ میں '' ائمہ عسکرئین طویل قید تنہائی میں وطن سے بہت دور رہے۔ ان سے متعلق معلومات نسبتاً کم ہیں اس کے باوجود تفسیر حدیث ، نقل حدیث، سفرروایت میں اور تدوین آثار رسولؐ میں جو کام اس زمانہ میں ہوا وہ ایک اعجاز ہے۔ عسکرئین کا زمانہ وہ ہے جو بغداد میں جنید بغدادی،با یزید بسطامی اور دیگر علماء محدثین تصوف کے کمال پر خانقا ہوں کی تعمیر میں مصروف تھے اور آبادی کا بڑا حصہ تصوف کی طرف راغب ہو رہا تھا۔ اس زمانہ میں واقفیہ ، اسمعیلیہ اور زیدیہ اور دیگر فرقے اپنی پوری قوت سے کام کر رہے تھے ان حالات میں اگر یہ اعجاز نہیں تو کیا ہے کہ ہمارے ائمہ نے دنیا سے دور سرہ من را کے گوشہ میں کڑی نگرانی میں بیٹھ کر قول معصوم کو اغیار کی دست برد سے بچا کر ہم تک پہنچایا۔ ٧ لاکھ سے زائد حدیثوں پرمشتمل یہ وہ علمی ذخیرہ ہے جن کو ہمارے محدثین نے جمع کر کے ان نصوص کا انتظام کیا ہے جن پر قیامت تک ہمارے علماء اجتہاد کرتے رہیں گے۔'' (علامہ ترابی۔ تقریر عسکرئین )


٨۔ ایک اور لیکن عجیب و غریب حوالہ سے بھی یہ دور اہم ہے ۔ یہ ہے ظلم کی حد۔ اس دور میں بنی عباس
کے مظالم نے ایک نیا رخ اختیار کیا بنی امیہ اور بنی عباس میں دشمنی اہلبیت ایک قدر مشترک ہے دونوں ظالم تھے۔ لیکن خلفائے بنی عباس میں اہلبیت سے بیحد دشمنی کی بنا ء پر متوکل کو یزید ثانی کہتے ہیں۔ اس کی حکومت کے ١٤ سال ائمہ عسکرئین کے لئے سخت ترین زمانہ تھا۔ تقابلی طور پر کربلا ایک منزل ہے جہاں ظلم زندوں اور بے جان لاشوں تک محدود رہا۔ لیکن متوکل کے ظلم نے کربلا کے مصائب بھلا دیئے ۔ ظلم کے نت نئے طریقے اختیار کئے گئے اور قبر حسین کے انہدام کا منصوبہ بنایا گیا۔ (شاید جنت البقیع کا سانحہ بھی اس جرم کا تسلسل ہے) قبر حسینی کے اطراف کی زمین پر ہل چلادیئے گئے اور چاہتے تھے کہ قبر حسین کو منہدم کر دیں لیکن ہل چلانے والے جانوروں نے قبر کا رخ نہیں کیا اور نگرانوں کی سختی کے باوجود اپنی جگہ اڑ گئے۔ شائد جانوروں کا شعور بھی عصمت کا عارف ہوتا ہے چاہے بدبخت انسان نہ جانے۔ متوکل اپنی فطری شرارت کی بناء پر نئے مظالم سوچتا رہتا تھا انہدام کے منصوبہ میں ناکام ہونے پر ٢٤٤ھ میں قبر حسین کو دریا برد کرنے کےلئے نہر علقمہ کا رخ موڑ دیا لیکن پانی مزار کے اطراف حلقہ بنا کر رک گیا زائرین جانتے ہیں کہ قبر کے اطراف کا علاقہ نسبتا اونچا ہے اور اصل قبر نشیب میں ہے لیکن پانی نے فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی اور حلقہ بنا کر ٹہر گیا اور لوگوں کو متحر کر دیا یہ رقبہ آج تک حائر کہلا تا ہے شاید میر تقی میر کا اس طرف اشارہ ہے۔

اے سیل رواں رکھیو قدم دیکھ بھال کے
ہر جا یہاں دفن میری تشنہ لبی ہے

مسلسل ناکامیوں کے بعد اب مظالم کا رخ زائرین کی طرف موڑ دیا گیا زائرین پرنت نئی پابندیاں عائدکی گئیں جن میں نقد ٹکس مال متاع کا نقصان ، دست و پیر کا ٹنا اور حتی کہ سزائے موت بھی شامل تھی۔لیکن زیارت حسین کا جوش اور ولولہ کم نہیں ہوا بلکہ اس کا الٹا اثر ہوا۔ اور لوگوں نے اپنے نفرت و غصہ کو نعروں اوراشعار کی شکل میں بغداد کے شہر اور مسجد کی دیواروں پر لکھ کر ظاہر کیا۔ ان تمام نا مساعد حالات میں امام علی نقی علیہ السلام ایک ستون کی طرح ڈٹے رہے اور اپنے محبوں کو یہ بتلاتے جاتے تھے کہ متوکل مصیبت پر مصیبت، ڈھا دے تم پر واہ نہ کرو، اگر حسین یاد آئیں تو زیارت جامعہ پڑھو۔ آپ نے خود اس زیارت کو تحریر کروایا۔ ( تفصیل آگے ہے) المختصر یہ کہ یہ دور تاریخی، علمی اور سیاسی اعتبار سے اہم خصویصات کا حاصل رہا ہے۔


ائمہ عسکرئین کے علمی فیوض :

مخلوقات کی ہدایت کےلئے آنحضرت ؐ کے بعد ائمہ کا سلسلہ بھیجا گیا لیکن کسی بھی امام کو کام کرنے کا موقع میسر نہ ہوسکا۔ ہر امام اپنے پیش رو امام کی طرح ہدایت و رشد اور دعوت الی اﷲ اور افہام و تبلیغ دیں کا منشور عام کرتا رہا قرآن کی جمع و تددین اور تفسیر ، حدیث کی کتابت ، عقائد کی تعلیم و تشریح کو بطورفرض منصبی ادا کیا۔ ائمہ عسکرئین کے حوالے سے قید تنہائی اور وطن سے دوری کی وجہ سے ان کے متعلق نسبتاً کم معلومات تک رسائی ہوتی ہے۔اس کے باوجود ان کے علمی فیوض ، کمالات اور کرامات کا احصا مشکل ہے۔ مقالہ کے تقاضوں کے تحت ان ائمہ سے متعلق بطور نمونہ چند واقعات کی نشاندہی کیجاتی ہے جن کی تفصیل کتب سیر و تواریخ میں دیکھی جاسکتی ہے۔


امام علی النقی علیہ السلام کے علمی فیوض ۔

١۔ بادشاہ روم کے استفسار پر نشاندہی کی کہ قرآن مجید کے سورہ فاتحہ میں سات حروف تہجی یعنی ث،
ج،خ، ز ، ش، ظ اور ف نہیں ہیں کیونکہ ان میں مذموم کیفیات والے الفاظ بھی شامل ہیں مثلا ث ثبور یعنی ہلاکت، ج سے حجیم یا جہنم ، خ سے خسران یا نقصان ، ز زقوم ناپسندیدہ پھل ، ش سے شقاوت، ظ سے ظلمت یا تاریکی اور ف سے فرقت، لہٰذا پرور گار نے اس بابر کت سورۃ کو جو فاتحہ کتاب بھی ہے ان حروف سے خالی رکھا۔ (ذیشان حیدر، نقوش عصمت)


٢۔ آپ کے زمانہ میں مسئلہ جبر و تفویض کا پھر شور اٹھا تو آپ نے کہا'' امربین ا لامرین'' یعنی معاملہ دونوں کے
درمیان ہے کہ اختیارا ت اﷲ کے دیئے ہوئے ہیں عمل کا ذمہ دار انسان ہے۔ تقریبا ١٥٠ سال پہلے علی نے بھی
یہی کہا تھا۔یہ ہے وصل قول کا ثبوت۔


٣۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں دربار کے قاضی کا فیصلہ تھاکہ کہنی سے کاٹے جائیں۔ لیکن امام سے مشورہ کیا
تو سورہ جن کی آیت سے استنباط کر کے لفظ مساجد کی تشریح کی کہ آعضا سجدہ اللہ کےلئے ہیں اس لئے صرف ٤
انگلیاں کاٹی جائیں۔


٤۔ دستر خواں پر ہند جادو گر کی گستاخی کہ مولا کے ہاتھ سے روٹی ہڑپ کر لینا، جواباً قالین کے شیروں نے مجسم
ہو کر جادو گر کو نگل گیا۔


٥۔ ایک عورت کے زینب بنت علی ہونے کے دعویٰ کے ثبوت میں کہ اہلبیت کا گوشت جانوروں پر حرام ہے
متوکل نے مکاری سے امام کو آزمانے کو کہا تمام دررندوں نے امام کے قدموں پر سر رکھ دیا اور آپ نے ان
کے سر پردست شفقت پھیرا۔


٦۔ مختلف زبانوں سے واقفیت، طوفان اوربرفباری کا پیشگی علم اور تیاری ۔ ایک نہایت ہی معمولی نسخہ سے متوکل
کے زخم کا علاج، اور بادشاہ کو اپنی فوج کا نظارہ دکھا کرمبہوت کر دیا۔


٧۔ متوکل کے اصرار پر دنیا کے بے ثباتی پرفی البد یہ اشعار سنائیے کہ بلندیوں پر رہنے والے موت کے بعد قبر
کے گڑھے میں گڑا دیئے جاتے ہیں اور ان کا گوشت پوست کیڑوں کی غذا بنتا ہے، یہ عبرت انگیز اشعار سنکر
متوکل بیہوش ہو گیا۔


٨۔ امام کا وہ عظیم علمی فیض جس سے رہتی دنیا تک محبان اہلبیت مستفیض ہوتے رہیں گے زیارت جامعہ
ہے، امام علی النقی نے ایک ایسے زمانہ میں جبکہ زائرینِ قبرِ حسین انتہائی مشکلات کا مقابلہ کر رہے تھے، مناسب سمجھا کہ اپنے دوستوں کو زیارت جامعہ تعلیم کریں۔ اس زیارات کی فضیلت اور معانی کے سلسلہ میں علامہ ترابی کی ایک تقریر سے استفادہ کرتے ہوئے عرض ہے'' اس زیارت سے واضح ہوتا ہے کہ امام علی النقی (ع) کو اپنے گھرانے پر کتنا ناز تھا۔ السلام علیکم سے لیکر آخر جملہ تک تمام زیارت معرفت آل محمد (ص) سے بھری ہے، ہمارے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی نے زیارت جامعہ کو رد کردیا تو گویا اس نے ائمہ کی امامت کے عقیدہ کو ترک کردیا۔ اس زیارت میں معصومین کی صفات کے بارے میں جو کچھ انسان تصور کرسکتا ہے وہ اس سے بہت بلند ہیں۔ امام نے اپنے انتہائی فصیح و بلیغ کلام میں موسیٰ ابن نخعی کی درخواست پر اس کا املا فرمایا ہے، ہمارے بزرگ علما و محدثین نے اسے بہترین زیارت جامعہ قرار دیا ہے۔ یہ امام کا کلام ہے محبت کا غلو نہیں۔ یہ عصمت کی عدالت ہے۔ اس زیارت کی خصوصیت یہ ہے کہ ہمارے علما کہتے ہیں کہ جس نے جس نیت کے ساتھ اس زیارت کوپڑھا کبھی محروم نہیں رہا ۔یہ قوم کے لئے امام کا سب سے بڑا عطیہ ہے۔
زیارت جامعہ کی سند کے لئے حضرت امام علی الالنقی (ع) کا نام ہی کافی ہے۔ لیکن استناد کے تقاضوں کے پیش نظر بیان کیا جاتا ہے کہ شیخ صدوق نے ''من لا یحضر الفقیہ'' اور عیون اخبار رضا، شیخ طوسی نے'' تہذیب الاحکام'' میں علامہ مجلسی نے ''بحار لانوار ''میں اور اس کے علاوہ روضۃ المتقین اور صاحب نجم الثاقب نے اپنی کتاب میں اس زیارت کو درج کیا ہے ۔ علامہ مجلسی کے والد نے ''من لا یحضر الفقیہ'' کی شرح میں اس زیارت کو دیگر تمام زیارت پر اکمل قرار دیا ہے۔ یہ زیارت پڑھنے سے پہلے ١٠٠ مرتبہ اﷲ اکبر کی تکرار سے غلو کا شائبہ نہیں رہتا اور دوران زیارت توحید اور عظمت الہٰی پر توجہ رہتی ہے۔
زیارت جامعہ سے علامہ ترابی کا لگاؤ صرف منبر تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کی اسناد کی تحقیق اور تجسس میں ان کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ان کے افرادخاندان سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر عرض ہے کہ ١٩٥٨ء میں سفر ایران میں علامہ مرحوم اعلم وقت آیت اﷲ بروجردی اور آیت اﷲ شہاب الدین مرعشی اور دیگر علماء کی موجود گی میں اس نادر دستاویز کی مختلف اسناد پیش کیں اور آقا بروجردی سے تائید مزید اور سند اعتبار تحسین حاصل کی۔ علامہ کے لئے یہ امتیاز نہ صرف باعث سعادت و افتخار ہے بلکہ ایک تو شہئ آخرت ہے۔
حجۃ الاسلام سید رضی جعفر نقوی نے زیارت جامعہ کا بہت عمدہ اردو ترجمہ کیا ہے جس کو دار الثقافتہ الاسلامیہ پاکستان نے دیدہ زیب شکل میں شائع کیا ہے۔
امام علی الالنقی (ع) کے علمی فیوض کا ایک اور حوالہ تفسیر قرآن کی نسبت ہے۔ یمن میں حدیدہ نامی گاؤںمیں جوعلمی اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے وہاں ایک بڑے کتب خانہ میں امام علی التقی کی تفسیر قرآن کی بیس جلدیں ہیں جو تمام قلمی ہیں۔ نہیں معلوم وہ کیا مصالح ہیں کہ حکومت اس علمی ذخیرہ کو عام کرنے سے گریز کرتی ہے۔ ( علامہ ترابی تقریر عسکرئین)


علمی فیوض امام حسن عسکری:

١۔ تدوین حدیث کے لئے بے شمار مواد امام حسن عسکری (ع) کے عہد میں تیار ہوا۔ محدثین اور مفسرین نے کثرت
سے آپ سے نقل کیا ہے ان میں ابوہاشم داؤد، محمد بن حسن، ابراہیم ابن ابی حفعی و غیرہ شامل ہیں۔


٢۔ یوں تو عموماً شیعی فقہا کی تاریخ غیبت صغریٰ سے شروع کیجاتی ہے لیکن ائمہ اطہار کے دور امامت میں بھی ان کا
وجود تھا۔ دور عسکرین کے حوالہ سے ان میں حسن بن محبوب، احمد بن نصر بزنطینی، حسین بن سعید اہوازی اور فضل بن شاذان کے نام قابل ذکر ہیں۔


٣۔ پادشاہان وقت امام کو کڑی نگرانی میںقید رکھتے تھے لیکن جب مصیبت آتی ہے ان سے امداد طلب کرتے
ہیں۔ ان میں وہ واقعہ بہت مشہور ہے جب مسلسل تین سال قحط کے بعد ایک نصرانی عالم نے بارش برسائی، امام نے نصرانی کے ہاتھ سے ہڈی لے کر بے بس کردیا اور پھر خود بارش برسا کر بگڑتے ہوئے عقیدوں کو استوار کیا۔


٤۔ مومینن کو حکومت کے دباؤ سے محفوظ رکھنے تابعین اور سفرا کے ذریعہ پیغام رسانی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس طرح نظام مرجعیت
کی بناء پڑی۔


٥۔ امام حسن عسکری کے علم بالقران کے حوالہ سے ایک فلسفی اسحق کندی کا واقعہ ہے کہ کس طرح امام نے اپنے
ایک شاگرد کے ذریعہ تناقصات القران لکھنے سے دستبردار کردیا مراد الہی اور فہم بندہ میں ٹکراؤ میں صاحب
کلام کسی کی سمجھ کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ (ذیشان حیدر جوادی ۔نقوش عصمت)


٦۔ علمی اور ثقافتی پہلو کے بارے میں علماء نے کہا کے آپ سے نقل ہو ینوالے مختلف علوم و دانش نے کتابو ں کے
صفحات پر کردئے ۔


٧۔ کفر آمیز افکا ر اور شبہات کی رد میں استدلالی اور منطقی جوابات، مناظر ے، علمی بحثیں، بیانات 'خطوط آپ کی
کوششو ں کے آئینہ دارہیں ۔ (تاریخ اسلام ۔ گروہ نگاش)


٨۔ امام حسن عسکری کی علمی فیوض کے ذیل میں درود طوسی کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ بعض عرفا خواجہ نصیر الدین طوسی کی
نسبت سے اس کو درد و طوسی کہتے ہیں۔ بر روایت شیخ صدوق اس درود کی اصل دعائے توسل ہے اور ائمہ معصومین سے منسوب ہے ۔ ہر امام کے لئے مختلف اور مخصوص الفاظ اور القاب کے ذکر ہے یہ معصوم ہی کا حق ہے کہ معصوم کی نظر سے دیکھتا ہے کہ کون کس لقب کا حقدار ہے؟


٩۔ امام حسن عسکری کا بہت عالی قدر علمی فیض قرآن کی وہ تفسیر ہے جو عرف عام میں'' تفسیر عسکری'' کہلاتی ہے۔
بعض محققین کو شک ہے کہ یہ امام سے منسوب کر دگئی ہے لیکن اس میں امام نے تفسیر قرآن سے متعلق اس قدر تشریحات بیان فرمائی ہیں کہ ان کے مجموعہ سے ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ ان تحفظات کے باوجود کوئی ادبی پیشکش پوری کی پوری مسترد نہیں کر دیجاتی ۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ تفسیر امام حسن عسکری کو اس کا صحیح مقام نہیں ملا۔ اس سلسلہ میں علامہ ابن حسن نجفی نے اپنی تازہ کتاب ''تقلید اور اجتہاد'' میں بتایا ہے کہ اس کتاب کے ٤٢ تنقیدی و ثائق میں سے ٣٠ موافقت میں اور ١٢ منفی رائے رکھتے ہیں۔ موافقانہ یا مثبت رائے والوں میں مجلسی اول و دوم، وحید بہبہانی اور آیت اﷲ بروجردی ہیں۔ منفی رائے میں قابل ذکر آیت اﷲ خوئی ہیں۔ علامہ ذیشان حیدر کی رائے میں بالفرض اگر یہ تفسیر بالراست امام حسن عسکری سے متعلق نہ بھی ہو، اس کتاب سے ایک تفسیر تیار ہوسکتی ہے۔ علامہ مجلسی (بحار الانوار) کے بموجب کہ امام حسن عسکری (ع) کی طرف منسوب تفسیر مشہور کتابوں میں سے ہے ہر چند کہ کچھ محدثین نے امام کی طرف اس کی نسبت سے انکار کیا ہے صدوق کا قول معتبر ہے کیونکہ وہ امام کے زمانہ سے قریب تھے۔
( گروہ نگارش ، تاریخ اسلام ۔ اعیان الشیعہ )
امام حسن عسکری (ع) کی تفسیر کے ضمن میں ایک کتاب آثار حیدری کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام حسن عسکری نے اپنے شاگردوں، ابو یعقوب یوسف بن محمد بن زیاد اور ابو الحسن علی بن محمد بن سیار کو وقتاً فوقتاً قرآن مجید کی آیات کی تفسیر بیان کر تے تھے۔ یہ شاگر دسات برس تک امام کی خدمت میں رہے اور امام ہر روزکچھ تفسیر لکھواتے تھے۔ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس مجموعہ کا بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔ جو کچھ حصہ مل سکا، اس کا مولانا سید شریف حسین بھریلوی نے اردو بامحاورہ ترجمہ کیا اور اس کا نام ''آثار حیدری'' رکھا۔ یہ کتاب تقریباً ٦٠٠ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے آخر میں مولانا محمد ہارون زنگی پوری ، مولانا نجم الحسن( مدرسہ مشارع الشرائع لکھنو) اور مولانا سیداحمد کبیر (سنٹرل ماڈل اسکول لاہور) کی تقریظات ہیں ان علمانے ترجمہ کی صحت پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تقریظات کی تواریخ کے لحاظ سے یہ کتاب ١٣٠٨ اور ١٣٢٠ میں طبع ہوئی۔ ( ناشر امامیہ کتب خانہ لاہور)
آثار حیدری کے مندرجات کی ابتدا قرآن کی فضیلت اور کرامت سے متعلق آنحضرت(ص) اور ائمہ کی احادیت و اقوال کی تفسیر سے ہوتی ہے۔(صفحہ ١٨ تا ٥٥) صفحہ ٥٥ سے ٤٩٧ پر مشتمل جز اول سورہ بقرہ کی تفسیر ہے، جزو دوم پارہ سیقول کے انسیویں رکوع سے شروع ہوتا ہے اور صفحہ ٤٩٧ سے ٥٣١ پر مشتمل ہے، تفسیر کے آخری حصے سورہ بقرہ کی چند آیات کی تفسیر درج ہے۔
اس تفسیر کے اہم اجزا تلف ہو جانے کے باوجود اس کے مندرجات میں مطالب عالیہ، اخلاق وادب ، احکام شرعی اور فضائل محمد و آل محمد کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ در حقیقت اس کے مطالعہ سے تفسیر قرآن کے اداب ، لوازمات، گہرائی، تاریخ ، علوم قرآن اور احکامات شرع کا باہم امتزاج سمجھ میں آتا ہے۔
(بشکریہ کتب خانہ باب العلم ، فروغ ایمان ٹرسٹ کراچی )


ائمہ عسکرین کے اصحاب اور شاگرد

ائمہ عسکرین کا زیادہ وقت دور افتادہ شہر سامرہ کے قید خانوں میں حکومتی کار ندوں کی کڑی نگرانی میں گزرا، اس گھٹن والے ماحول اور محدودیت کے باوجود یہ ائمہ قد آور شخصیت اور با فضیلت لوگوں کی تربیت میں کامیاب رہے، شیخ طوسی نے ان لوگوں کی تعداد جوامام علی النقی (ع) سے روایت کرتے تھے ١٨٥ بتائی ہے۔ چند نمایاں افراد کے نام درج ذیل ہیں ۔
١۔ حسین بن سعید الاہوازی، ٣٠ کتابوں کے مصنف
٢۔ حسن بن سعید ٥٠ کتابوں کے مصنف
٣۔ ابو ہاشم جعفر ، امام رضا (ع) سے امام زمانہ تک کی خدمت میں رہے۔
٤۔ عبدالعظیم بن عبداﷲ بن علی، اکابر محدثین اور علما میں شمار ہوتے ہیں۔
٥۔ ابن السکیت بن یعقوب بن اسحٰق، امام جواد اور امام ہادی کے مخصوص اصحاب میں تھے۔ متوکل کے سوال پرکہ
اس کے بیٹے افضل ہیں یا حسنین ، جواب دیا کہ حسنین کا غلام قنبر بھی تجھ سے اور تیرے بیٹوں سے بہتر ہے۔ متوکل نے گدی سے زبان کھنچوادی اور اتنا مارا کہ شہید ہوگئے۔
امام حسن عسکری (ع) کی زندگی کے ٢٨ سال میں ٢٢ سال اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ گزرے ، آپ کی امامت کا عرصہ صرف ٦ سال رہا۔ آپ کے چند اصحاب کے نام:
١۔ ابو علی احمد بن اسحٰق بن عبداﷲ الاشعری، موثق اور معتبر امام کے سفیر اوروکیل۔
٢۔ احمد بن محمد بن مطہر، اتنے معتبر کہ امام نے اپنی والدہ کے حج میں ان کو سفر کا نگراں رکھا۔
٣۔ ابو سہل ۔ بغداد کے بزرگ ترین علما علم کلام میں تھے۔ الانوار فی تاریخ الائمہ والا طہار، کے مصنف کی حیثیت
سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔


حاصل کلام:

مقالہ کے اختتام پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حاصل کلام کیا ہے؟ عنوان کے تحت بیان کئے گئے نگارشآت کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عہد امامت عسکرئین تاریخ ائمہ حقہ میں اہم واقعات کار مرکز اور پیش رو ہے ۔ ایک نہایت جار حانہ ماحول میں قیام حق میں ائمہ عسکرئین کی ثابت قدمی ظاہر کرتا ہے۔ مستقبل کے امر مشیت یعنی فلسفہ غیبت جیسے عجیب اور حساس نظریہ کو متارف کرنے اور اس کی بتدریخ پذیرائی میں ائمہ عسکرئین کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ اس کا ئنات کو قیامت تک جاتا ہے اور پیغام حق کو بھی قیامت تک باقی رہنا ہے ۔ دنیا کے تمام مذاہب میں مہدی کا تصور اور عقیدہ موجود ہے اسلام میں یہ عقیدہ آنحضرت کی ١٢ وین جانشینی اور قریش سے نسلی وابستگی سے مشروط ہے۔ اس کی ولایت کا اعلان بھی ضروری ہے تاکہ مرنے والے جاہلیت کی موت نہ مریں۔ شیعہ عقیدہ کی رو سے مہدی نسل حسین کی نویں پشت میں ہے۔ مشیت اب تک ١١ ہادیوں کو بھیجکر دنیا کا ان سے برتاؤ دیکھ چکی تھی اپنے آخری نور عصمت کی دو امی حفاظت کے لئے خدا نے اپنے ولی کو ایک عارضی عرصہ کے لئے پردہ میں رکھا جو غیبت صغریٰ کہلا تا ہے۔ عہد عسکرئین سے ہی قابل اعتماد اصحاب کا سلسلہ شروع ہوا جو امام اور عوام کے درمیان رابطہ کا کام انجام دیتا تھا بالآخر یہ نواب اربعہ۔ کی شکل اختیار کر گیا جو تقریباً ٧٠ سال کے عرصہ تک یکے بعد دیگرے چار نائبوں پر مشتمل رہا۔اس طرح ٧٠ سال کی عارضی غیبت میں امام کے زیر ہدایت ذہنی پختگی کا عمل شروع ہوا جو امام کی غیر معینہ مدت کی پوشیدگی یعنی غیبت کبریٰ پرمرجعیت اور اجتہاد کے ادارہ کی شکل اختیار کر گیا جو تشیع کا نشان امتیاز ہے۔ غیبت کبریٰ منزل نہیں بلکہ ایک طویل تسلسل ہے جس کی انتہا اﷲ ہی جانتا ہے یا وہ جس کو اﷲ نے علم دیا ہے۔ یہ ائمہ عسکرئین کا احسان ہے کہ قیامت تک آنے والی نسلوں کو تعلیمات محمد (ص) و آل محمد (ص) کی روشنی میں اپنی زندگی استوار کرنے کےلئے ایک مستحکم نظام مہیا کردیا۔ خدا ہمیں علوم معصومین سے استفادہ اور عمل کی توفیق دے۔


اظہار تشکر۔

اس مقالہ کی تدوین میںکئی افراد اور اداروں کا شکریہ واجب الادا ہے جن کے نام حوالے اور کتابوں میں شامل ہیں۔ خصوصی طور پر میں ممنون ہوں اسلامک ریسرچ اور کلچرل سینٹر کراچی کی شیخ مفید لائبریری اور لائبریرین موسی رضا صاحب اور آلِ عبا ریسرچ سینٹر لائبریری کے جناب مشرف حسین صاحب کا۔ مقالہ میں علامہ ترابی کے گراں بہا حوالے کو شامل کرنے میں جناب ہادی عسکری صاحب کا خصوصی تعاون رہا جن کے ذریعہ محمدی ٹیپ بنک سے علامہ مرحوم کی تقاریر تک رسائی ممکن ہوسکی۔ تحقیقی کام کرنے والوںکے لئے یہ بینک ایک قیمتی ذخیرہئ معلومات ہے، میں خطیب آل عبا مولانا ناصر عباس زیدی صاحب کا مشکور ہوں کہ بہ نظر اصلاح مقالہ کو پڑھا، منتظمین گروہ جعفری پاکستان قابل مبارک باد ہیں کہ تسلسل سے اس مطالعاتی نشستوں کو جاری رکھا۔ میں اپنے اہل خانہ کا ممنون ہوںکہ ان کے تعاون سے فرصت کے لمحات کو عمل خیر میں استعمال کرسکا خدا ان کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ آپ سامعین کا ممنون ہوں کہ اپ نے عزت افزائی فرمائی۔ آخر میں میں خدائے تعالیٰ اور چہاردہ معصومین کا شرک گزار ہوں کہ مجھے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا ایک اور موقع ملا۔ خدا اس خدمت کو قبول فرمائے۔


ضمیمہ:

علامہ سید رضی جعفر صاحب کے ترجمہ زیارت جامعہ سے اقتباسات

سلام ہو آپ لوگوں پر اے نبوت ؐ کے گھر والے، اے پیغام ِ ربانی کے مرکز، اے فرشتوں کے آمد ورفت کے محور، اے وحی خدوندِ کے نزول کی جگہ، اے رحمت کے سرچشمے، اے علم کے خزانہ دار، اے حلم کی آخری منزل، اے نعمتوں کے پاسبان ، اے رب العالمین کے منتخب بندے کی عترت آپ پر اﷲ کی رحمت و برکت ہو۔
یوں ان القاب کا سلسلہ اور ائمہ کے صفات کے ذکر کے بعد گواہیوں کا ذکر ہے کہ خداوند عالم نے آپ حضرت کو مکرم بندوں کے نہایت اشرف مرتبہ پر فائز کیا جن تک نہ کسی کی رسائی ہے اور نہ کوئی اس سے زیادہ بلند ہوسکتا ہے۔
ان توصیفات کا ذکر اپنے معراج پر پہنچتا ہے جب ہم کہتے ہیں اے آلِ محمد (ص) آپ ہی کے ذریعے اﷲ نے کائنات کا آغاز کیا آپ ہی پر اختتام ہوگا، آپ ہی کے صدقے میں بارش نازل ہوتی ہے اور آسمان و زمین اپنی جگہ پر قائم ہے۔ آپ ہی کے وسیلہ سے پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔ جو آپ کے ولایت کا انکار کرے گا اس پر رحمن کا غضب نازل ہوگا۔
رواز و نیاز کے انداز میں یہ زیارت آخری مرحلہ پر پہنچتی ہے جہاں امام نے یہ کہنے کی تعلیم دی ہے کہ ''اے ولی ئ خدا میرے اور خدا کے درمیان بہت سے معاصی کا پردہ حائل ہے جو آپ کی رضا و خوشنودی ہی سے دور ہوسکتا ہے آپ لوگوں کی ذاتِ بر حق کا واسطہ جس سے کائنات کے امور کی نگرانی آپ کے سپرد کی میرے گناہوں کو بخشوا دیجئے اور میری شفاعت کیجئے ۔ ''
زیارت اس طرح ذکر خدا پر ختم ہوتی ہے کہ اے پالنے والے مجھے ان لوگوں کے زمرہ میں شامل کرلے جو ان حضرات کی معرفت اور صفات سے فیضیاب ہونے والے ہیں اور حضرت محمد (ص) مصطفی اور ان کے اہلِ بیت پر کثرت سے درود و سلام۔ بے شک اﷲ ہمارے لئے کافی اور بہترین سرپرست ہے۔


حوالے/ کتابیات

١۔ ڈاکٹر علی شریعتی ۔ مترجم موسی رضا رضوی،'' تشیع محمدی اسلام کے آئینہ میں''ادارہ ن و القلم ، کراچی ۔ ٢٠٠٢ئ
٢۔ محمد حسین طباطبائی۔ مترجم ڈاکٹر شاہد چودھری، ''اسلام میں شیعہ ''موسسہ اطلاعات و تحقیقات فرہنگی، تہران ١٩٨٧ئ
٣۔ محمد حسین جعفری ''خیر البریہ فی تاریخ الشیعہ'' تحریک تحفظ تعلیمات آل محمد۔ سر گودھا
٤۔ شیخ صدوق۔ مترجم حسن امداد۔ ''علل الشرائع '' الکساء پبلکیشنز،کراچی۔ ١٩٩٣ئ
٥۔ علامہ رشید ترابی، تقاریر عسکرئین، عزاخانہ زہرا ١٩٧٣ئ۔ وڈیو ٹیپ،محمد ٹیپ بنک ۔
٦۔ فیروز حیدر عابدی۔ تقاریر ''مجالس محرم آکٹن ہال'' لندن وڈیو ٹیپ (٢) ( امام نہم تا امام زمانہ ) ١٩٨٠ئ
٧۔ ذیشان حیدر جوادی۔'' نقوش عصمت '' محفوظ بک ایجنسی کراچی ۔ ٢٠٠٠ئ
٨۔ گروہ نگارش ۔ ''تاریخ اسلام (٣)'' دار الثقافتہ الاسلامیہ ۔کراچی۔
٩۔ محمد بن جریر طبری ، مترجم عبدالعمادی،'' تاریخ طبری۔ حصہ نہم ، دھم''نفیس اکیڈمی کراچی ۔ ١٩٨٦ئ
١٠۔ سید رضی جعفر نقوی، مترجم، ''زیارت جامعہ'' دار الثقافتہ الاسلامیہ پاکستان۔ کراچی
١١۔ علامہ ابن حسن نجفی۔ ''تقلید اور اجتہاد'' ادارہ تمدن اسلام پاکستان ۔ کراچی ٢٠٠٣ئ
١٢۔ سید ارشاد حسین ازہر '' تخت و تاج خلافت'' شیعہ جنرل بک ایجنسی ۔ لاہور۔
١٣۔ نجم الحسن کراروی ''چودہ ستارے'' امامیہ کتب خانہ لاہور۔ ١٣٩٢ھ
١٤۔ سید مرتضیٰ حسین۔ ''تاریخ تدوین حدیث و تذکرہ شیعہ محدثین''ہمدرد پریس راولپنڈی۔ ١٩٥٧ئ
١٥۔ سید محمد حسین طباطبائی مترجم ۔ خالد فاروقی'' ولایت اور رہبری ''انصار یان پبلیکشنز، قم۔ ایران
١٦۔ سید مرتضیٰ حسین۔ ''مطلع انوار۔ تذکرہ شیعہ ١ فاضل و علما کبار برضغیر پاک و ہندخراسان
اسلامک ریسرچ سینٹر۔ کراچی ۔ ١٩٨١ئ
١٧۔ علی حسین رضوی'' تاریخ شیعیان علی '' امامیہ اکیڈمی کراچی ۔ ١٩٩٣ئ
١٨۔ سید محمد باقر الصدر ،مترجم محمد فضل حق'' انتظار امام '' جامعہ تعلیمات اسلامی کراچی۔ ١٩٨٥ئ
١٩۔ ڈاکٹر محمد مہدی رکنی ''نشانی از امام غایب علیہ السلام''۔ بنیاد پزو ہشھائی اسلامی، آستان قدس۔ مشہد، ١٣٨١ ( ایرانی)
٢٠۔ سید عبدالرزاق مقرم۔ مترجم ڈاکٹر پرویز دلاور'' نگاہی گزر بر زندگانی امام جواد علیہ السلام'' بنیاد پزو ہشھائی اسلامی،
آستان قدس رضوی، مشہد۔ ١٣٧٩ھ (ایرانی)
٢١۔ سید شریف حسینی بھر یلوی ، مترجم'' آثار حیدری'' امامیہ کتب خانہ، لاہور، ١٣٠٨ھ /١٣٢٠ھ