حضرت فاطمہ زہراء(سلام اللہ علیہا) کے چالیس گوہربار نورانی احادیث (قسط-4)

حضرت فاطمہ زہراء(سلام اللہ علیہا) کے چالیس گوہربار نورانی احادیث (قسط-4)
ترجمہ: یوسف حسین عاقلی پاروی

۳۰.جهاد
رَغَّبَ النَّبِی(ص) فِی الجِهادِ، وذَکرَ فَضلَهُ،
فَسَأَلتُهُ الجِهادَ،
فَقالَ: ألا أدُلُّک عَلی شَیءٍ یسیرٍ، وأجرُهُ کثیرٌ؟
ما مِن مُومنٍ ولا مُومنَةٍ یسجُدُ عَقِبَ الوَترِ سَجدَتَینِ، ویقولُ فی کلِّ سَجدَةٍ: «سُبّوحٌ قُدّوسٌ رَبُّ المَلائِکةِ وَالرّوحِ» خَمسَ مَرّاتٍ، لا یرفَعُ رأسَهُ حَتّی یغفِرَ اللّهُ لَهُ ذُنُوبَهُ کلَّها، وإن ماتَ فی لَیلَتِهِ ماتَ شَهیداً.
نبی اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد کی ترغیب دی اور اس کےمناقب و فضائل کو بیان فرمایا۔تو میں نے ان سے جہاد سے متعلق پوچھا :تو انہوں نےفرمایا:کیا میں تمہیں ایک آسان کام کی طرف رہنمائی نہ کروں جس کا اجر عظیم ہو ؟
کوئی بھی مومن مرد اورمؤمنہ  عورت،نماز وتر کے بعد دو سجدے کرے اور ہرسجدے میں پانچ مرتبہ کہے:
«سُبّوحٌ قُدّوسٌ رَبُّ المَلائِکةِ وَالرّوحِ»
تو(پروردگار اس کےسجدے سے)سر اٹھانےسے پہلے، اس کے تمام گناہ معاف فرمائےگا۔اور اگر وہ شخص اسی رات کو مر جائے تو اس کی موت شہید کی موت ہے۔
(مختصر المحاسن المجتمعة في فضائل الخلفاء الأربعة : ص ۱۹۲)
۳۱. مسجد میں داخل اور مسجد سےنکلنے کی دعاء اورذکر
کانَ رَسولُ اللّهِ(ص) إذا دَخَلَ المَسجِدَ یقولُ: «بِسمِ اللّه ، وَالسَّلامُ عَلی رَسولِ اللّه ، اللّهُمَّ اغفِر لی ذُنوبی، وَافتَح لی أبوابَ رَحمَتِک».
وإذا خَرَجَ قالَ: «بِسمِ اللّهِ، وَالسَّلامُ عَلی رَسولِ اللّه ، اللّهُمَّ اغفِر لی ذُنوبی، وَافتَح لی أبوابَ فَضلِک۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی مسجد میں داخل ہوتے تویہ جملہ فرماتے:
«بِسمِ اللّه ، وَالسَّلامُ عَلی رَسولِ اللّه ، اللّهُمَّ اغفِر لی ذُنوبی، وَافتَح لی أبوابَ رَحمَتِک».
اور جب بھی مسجد سے باہر تشریف لاتے تویہ جملہ فرماتے:
«بِسمِ اللّهِ، وَالسَّلامُ عَلی رَسولِ اللّه ، اللّهُمَّ اغفِر لی ذُنوبی، وَافتَح لی أبوابَ فَضلِک۔
(سنن ابن ماجة : ج ۱ ص ۲۵۳ ح ۷۷۱)
۳۲. روز غدیرکی یاد آوری
لَمّا مُنِعَت فَدَک وخاطَبَتِ الأَنصارَ، فَقالوا: یا بِنتَ مُحَمَّدٍ، لَو سَمِعنا هذَا الکلامَ مِنک قَبلَ بَیعَتِنا لِأَبی بَکرٍ ما عَدَلنا بِعَلِیٍّ أحَداً،
فَقالَت ـ : وهَل تَرَک أبی یومَ غَدیرِ خُمٍّ لِأَحَدٍ عُذراً؟ !
جب (آپ علیہا السلام کو) فدک سے منع کیا گیا۔توآپ (علیہا السلام)انصار سے مخاطب ہوئے
تو انصار کہنے لگے: اے محمد (ص)کی بیٹی!اگر ہم نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے پہلے آپ کی یہ باتیں سن لی ہوتیں تو ہم کبھی بھی  علی(ع) سے منہ نہ موڑتے،
اس وقت آپ(ع)نےفرمایا:کیا میرے والد نے غدیر خم کے دن کسی کے لیے کوئی عذر باقی چھوڑا تھا؟!
(الخصال : ص ۱۷۳ ح ۲۲۸)
۳۳.محبت اور بغض امام علی(ع)
خَرَجَ عَلَینا رَسولُ اللّهِ(ص) عَشِیةَ عَرَفَةَ، فَقالَ:... هذا جَبرَئیلُ یخبِرُنی أنَّ السَّعیدَ کلَّ السَّعیدِ حَقَّ السَّعیدِ مَن أحَبَّ عَلِیاً فی حَیاتِهِ وبَعدَ مَوتِهِ، وأنَّ الشَّقِی کلَّ الشَّقِی حَقَّ الشَّقِی مَن أبغَضَ عَلِیاً فی حَیاتِهِ وبَعدَ وَفاتِهِ.
رسول خدا( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )عرفہ کی شام ہمارے پاس تشریف لائے اورارشادفرمایا:"۔۔۔یہ جبرائیل ہے جس نے مجھے خبر دی ہے :حقیقی خوش نصیب اور سعید و  کامل وہ شخص ہے جو علی (ع)سے ان کی زندگی میں اور ان کی شہادت کے بعد محبت کرے اور حقیقی بدبخت اور شقی شخص، وہ ہےجو علی (ع)سے ان کی زندگی میں اور ان کی شہادت کے بعد ان سےبغض وحسد رکھے۔
(الأمالي للصدوق : ص ۲۴۸ ح ۲۷۰)
۳۴. ہم نے رسول اللہ( ص)کو چھوڑ دیا
سَمِعتُ أبی(ص) فی مَرَضِهِ الَّذی قُبِضَ فیهِ یقولُـ وقَدِ امتَلَأَتِ الحُجرَةُ مِن أصحابِهِ ـ:
أیهَا النّاسُ! یوشِک أن اُقبَضَ قَبضاً سَریعاً، وقَد قَدَّمتُ إلَیکمُ القَولَ مَعذِرَةً إلَیکم، ألا وإنّی مُخَلِّفٌ فیکم کتابَ رَبّی عزوجل وعِترَتی أهلَ بَیتی.
ثُمَّ أخَذَ بِیدِ عَلِی فَقالَ: هذا عَلِی مَعَ القُرآنِ وَالقُرآنُ مَعَ عَلِی، لا یفتَرِقانِ حَتّی یرِدا عَلَی الحَوضَ، فَأَسأَلُکم ما تَخلُفونّی فیهِما .
میں نے اپنے والد سے ان کی بیماری جو، آپ(ص) کی شہادت کا باعث بنی اس  وقت یہ فرماتے سنی :- جب کہ اس وقت آپ(ص) حجرہ، بیت الشرف اصحاب سے بھرا ہوا تھا –
آپ(ص)نے فرمایا: (آپ( ص )کی سخن، خطاب اورتقریر کی  حالت تھی )
"اے لوگو! میں دیکھ رہا ہوں کہ جلدی اس دنیا سے جانے والا ہوں، اور میں تم لوگوں کو پہلے ہی بتا چکا ہوں
تاکہ اس کے بعد کوئی عذرباقی نہ رہ جائے۔ جان لو کہ میں تمہارے درمیان سےاپنےحقیقی رب کی  جانب عازم سفر ہوں لیکن کتاب الہی، قرآن مجید اور میرے اہل  بیت و عترت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہا ہوں۔
پھر علی (ع)کا ہاتھ پکڑ کرارشاد فرمایا: یہ علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔یاد رکھنایہ دونوں اس وقت تک ایک دوسرے سے الگ  اور جدا نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس نہ آئیں
 اوراس وقت میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دونوں کے ساتھ (کس طرح ان کی مخالفت کی) کیا سلوک کیا۔
(ينابيع المودّة : ج ۱ ص ۱۲۴ ح ۵۶)
۳۵.شیعیان امام علی(ع) بهشت میں
قالَ رَسولُ اللّهِ(ص) لِعَلِی(ع): أما إنَّک یابنَ أبی طالِبٍ وشیعَتَک فِی الجَنَّةِ.
رسول اکرم(ص) نے علی (ع) سے فرمایا: اے ابو طالب کے بیٹے! تم اور تمہارے شیعہ جنت میں (ساتھ)ہوں گے۔
(دلائل الإمامة : ص ۶۸ ح ۴)
۳۶.فضایل اهل بیت(ع)
فی خُطبَتِها الفَدَکیةِ ـ : ...وَاحمَدُوا اللّه الَّذی لِعَظَمَتِهِ ونورِهِ یبتَغی مَن فِی السَّماواتِ وَالأَرضِ إلَیهِ الوَسیلَةَ، ونَحنُ وَسیلَتُهُ فی خَلقِهِ، ونَحنُ خاصَّتُهُ، ومَحَلُّ قُدسِهِ، ونَحنُ حُجَّتُهُ فی غَیبِهِ، ونَحنُ وَرَثَةُ أنبِیائِهِ .
فدک کے بارے میں اپنی خطبہ فدکیہ میں: فرمایا ۔۔۔ تمام تعریفیں اس کی ذات اقدس کی عظمت ، اور نور الہی کی وجہ سے، زمین اور آسمانوںمیں ہر کوئی اس تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ تلاش کر رہا ہے۔
ہم پیغمبر(ص) کے اہل بیت ہیں، جو پروردگار اور مخلوق کے درمیان رابطے کا ذریعہ۔ہم اللہ کے پاک و مقدّس ،خالص اور مقدس چنے ہوئے ہستیاں ہیں، ہم  ہی حجت الہی اور رہنما ہیں۔اور ہم ہی  پروردگار عالم کے نبیوں کے وارث ہیں۔
(شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد : ج ۱۶ ص ۲۱۱)
۳۷. تجهیز و تکفین کی وصیت
لِلإِمامِ عَلِی(ع)ـ : إنّی اُوصیک فی نَفسی وهِی أحَبُّ الأَنفُسِ إلَیّ بَعدَ رَسولِ اللّهِ(ص)، إذا أنا مِتُّ فَغَسِّلنی بِیدِک، وحَنِّطنی، وکفِّنّی، وَادفِنّی لَیلاً، ولا یشهَدنی فُلانٌ وفُلانٌ، وَاستَودَعتُک اللّه تَعالی حَتّی ألقاک، جَمَعَ اللّهُ بَینی وبَینَک فی دارِهِ وقُربَ جِوارِهِ .
امام علی علیہ السلام سے خطاب:
میں تمہیں اپنے بارے میں وصیت کرتی ہوں کہ آپ ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )کے بعد میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے۔
جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے اپنے ہاتھوں سے غسل وحنوط دینا اور مجھے آپ ہی تجہیز و تکفین کرنا اور رات کی تاریکی میں دفن کر دینا تاکہ فلاں فلاں میرے جنازے اور تشییع جنازہ میں شریک نہ ہوں۔ میں آپ کو پروردگار عالم کے سپرد کرتی ہوں یہاں تک کہ میں آپ سے اس وقت ملوں گی کیونہ پروردگار عالم نے آپ کو اور مجھے اپنے گھر میں اور اپنے جوار میں جگہ عطا کی ہے۔
(بحار الأنوار : ج ۸۱ ص ۳۹۰ ح ۵۶)
۳۸ .حقیقی روزه
ما یصنَعُ الصّائِمُ بِصِیامِهِ إذا لَم یصُن لِسانَهُ وسَمعَهُ وبَصَرَهُ وجَوارِحَهُ؟ !
اگر روزہ دار اپنی زبان، کان، آنکھ اور اعضاء کو محفوظ نہ رکھے تو وہ اپنے روزے کا کیا کرے گا؟!
(دعائم الإسلام : ج ۱ ص ۲۶۸)
۳۹ .غدیر خم کی یاد دیہانی
فی مُحاجَّتِها مَعَ الأنصارِ وَالمُهاجِرینَ لَمّا مُنِعَت فَدَک ـ : أنَسیتُم قَولَ رَسولِ اللّهِ(ص) یومَ غَدیرِ خُمٍّ: «مَن کنتُ مَولاهُ فَعَلِی مَولاهُ»؟ وقَولَهُ: «أنتَ مِنّی بِمَنزِلَةِ هارونَ مِن موسی علیهماالسلام»؟ .
جب   آپ علیہا السلام سےباغ ِفدک کو چھین لیا گیا تو آپ علیہاالسلام نےانصار اور مہاجرین کے ساتھ احتجاج  میں فرمایا:
 کیا تم بھول گئے ہو کہ رسول خدا (ص) نے غدیر خم کے دن جو فرمایا تھا؟!
"جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے"؟
اور یہ بھی فرمایاتھاکہ:اے علی تمہاری منزلت میرے لیے ایسے ہے جیسے ہارون کی نسبت موسیٰ (علیہما السلام) کے لیے تھے۔
(أسنى المطالب : ص ۵۰)
40. اصحاب رسول خدا(ص)کی سرزنش
حینَما هَجَمَ القَومُ عَلی دارِها(فاطمةُ(س)) لِأَخذِ البَیعَةِ مِن عَلِی(ع)ـ :
لا عَهدَ لی بِقَومٍ أسوَأَ مَحضَراً مِنکم! تَرَکتُم رَسولَ اللّهِ(ص) جَنازَةً بَینَ أیدینا وقَطَعتُم أمرَکم فیما بَینَکم ولَم تُومِّرونا ولَم تَرَوا لَنا حَقّاً! کأَنَّکم لَم تَعلَموا ما قالَ یومَ غَدیرِ خُمٍّ! وَاللّهِ لَقَد عَقَدَ لَهُ یومَئِذٍ الوَلاءَ لِیقطَعَ مِنکم بِذلِک مِنهَا الرَّجاءَ، ولکنَّکم قَطَعتُمُ الأَسبابَ بَینَکم وبَینَ نَبِیکم، وَاللّهُ حَسیبٌ بَینَنا وبَینَکم فِی الدُّنیا وَالآخِرَةِ .
جب لوگوں کے ایک گروہ ،امیر المؤمنین علی (علیہ السلام)سے بیعت لینے کے لئےجناب فاطمہ زہراء(سلام)کےگھر کے دروازے پرہجوم لیکرپہنچا: میرا تم سے زیادہ   بدتر اور بدتمیز کسی گروہ کا سامنا نہیں ہوا!
تم نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جنازہ اطہر کو ہمارے سامنے چھوڑکر، اپنی  امر[خلافت] کو آپس میںناٹنے اور تقسیم کرنے میں لگ گئے ہو،اور نہ ہماری امر(خلافت )کوتسلیم کیا اور نہ ہی  ہمارےحق(خلافت)کو دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے تم  لوگ نہیں جانتےاور جاہل ہو، کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیر خم کے دن کیا ارشادفرمایا تھا!۔
 خدا کی قسم!
 اس دن (رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولایت اور خلافت کو ان کےلئے(علی ع) استوار کیا، تو اس دن سے تمہاری امیدوں پر پانی پھیرگیا تھا۔ لیکن تم لوگوں نے اپنے اور اپنے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان سے رشتہ اسباب کو توڑ دی۔
پروردگار عالم، دنیا اور آخرت میں ہمارے اور تمہارے  درمیان بہترین حساب کرنے والی ذات ہے۔

(الاحتجاج : ج ۱ ص ۲۰۲ ح ۳۷)