حضرت فاطمۃ الزھراءؑ کا درس حق طلبی اور آپؑ کی آخری وصیت

زبان از گفتن منزلت حضرت فاطمه زهرا(س) ناتوان است – صاحب نیوز

حضرت فاطمۃ الزھراءؑ کا درس حق طلبی اور آپؑ کی آخری وصیت

اا ہجری میں جب رسول اسلامؐ کی آنکھ بند ہو چکی ، منبر رسول پر غاصبانہ قبضہ کیا گیا ،جعلی حدیثیں بیان کی جانے لگیں، تاریخ اسلام میں حکمرانوں کے ذریعہ ظلم واستبداد کا آغاز ہوا، شعائر اللہ کی دھجیاں اڑائی جانے لگیں ، منبر رسول کو حق بیانی کے بجائے خلیفہ وقت نے اپنی مد ح سرائی کا ذریعہ بنایا، اقوال پیغمبر فراموشی کے سپرد کئے جانے لگے، سیرت رسول ص کو ناگوار داستانوں کے مانند ذہنوں سے مٹائے جانے کی کوششیں کی جانے لگیں ،حکومت اسلامی میں نام نہاد حاکم اسلامی کے ذریعہ اہل حق کو انکے حق سے محروم کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوا ،حلال محمدی کو حرام اور حرام محمدی کو حلال قرار دینے کے لئے زمینہ سازی شروع ہوئی ، تو ایسے ماحول میں کسی ایسی شخصیت کی ضرورت محسوس ہوئی جو ظلم و استبداد کے بڑھتے ہوئے قدم کو لگام دے سکے ،چہرہ باطل سے پردہ ہٹاکر جویان حق کی مشکل آسان کر دے اور یہ اعلان کرے کہ تخت حکومت پر بیٹھ جانا ہی صداقت وحقانیت کی دلیل نہیں ، بلکہ طلبگاران حق کو چاہئے کہ سیاق و سباق زمانہ اور اعمال و کردار حاکم کا جائزہ لینے کے بعد یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ کہیں ایسا تو نہیں، کہ باطل، نقاب حق اپنے رخ سیاہ پر ڈال کر ، جلوہ افروز ہونے کی ناکام کوششیں کر رہا ہو۔

اس عظیم کارنامہ کو انجام دینے کا جذبہ کسی عظیم شخصیت میں ہی پیدا ہو سکتا تھا شاید اسی لئے عظیم باپ کی عظیم بیٹی نے یہ آواز دی کہ اے حاکم! اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ ہر تجاوز پر دنیا خاموش رہ جائےگی تو یہ تیری بھول ہے ،یاد رکھ کہ اگر تونے یہ ٹھان لیا ہے کہ میرے بابا کی نشانیوں کو مٹا ڈالے گا تو میں نے بھی یہ ارادہ کر لیا ہے کہ دین محمدی کی حفاظت کرونگی اور دنیا کو حق طلبی کا درس دونگی ۔
اس وقت کہ جب باغ فدک جناب زہراؑسے چھین لیا گیا تو ابن ابی الحدید کی روایت کے مطابق جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے بچوں اور عورتوں کو ساتھ لیا ،حجاب کامل کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں اور اس طریقہ سے گامزن تھیں گویا پیغمبر اسلامؐ چل رہے ہوں ، یہاں تک کے وارد مسجد ہوئیں کہ جہاں خلیفہ اول کے ہمراہ مہاجرین و انصار کا ہجوم تھا ، اور اس بھری مسجد میں ایک سفید پردے کے پیچھے سے آپ آیات قرآنی سے مزیّن وہ فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرماتی ہیں کہ چشم کائنات متحیّر ہو جاتی ہے۔ آپ اپنے خطبہ کے آغاز میں خدائے وحدہ لا شریک کی حمد و ثنا فرماتی ہیں اور کہتی ہیں :
کہ میں تعر یف و تقدیس کرتی ہوں اسکی کہ جو تمام عطا کرنے والوں سے زیادہ عطا کرنے والا ہے اور اپنی مخلوق کے سلسلے میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔
اسکے بعد نبیؐ کی نبوت کا اقرار اور آپ کی توصیف بیان کرتی ہیں اور فرماتی ہیں:
کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے پدر بزرگوار حضرت محمّدؐ خدا کے نیک بندے اور اسکے پیغمبر ہیں ، خدا نے انھیں اس سے پہلے کہ اپنی رسالت کیلئے بھیجے، اپنے تمام بندوں میں سے برگزیدہ قرار دیا ، اس سے پہلے کہ انھیں مبعو ث کرے انھیں پاک و پاکیزہ قرار دیا ،اور جب ساری مخلوقات پس پردۂ عدم تھیں تو آپ کو لباس وجود سے آراستہ کیا ۔
پھر لوگوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرماتی ہیں:
کہ ا ے لوگو !تم خدا کے بندے ہو اور اس کے امر ونہی کے پابند ہو تم کو چاہئے کہ دین خدا پر عمل کرو اور اسکی تبلیغ وترویج کرو ،خدا نے دو نمائندے کتاب و ولی ناطق کی صورت میں بھیجے ہیں،پس خدا سے ڈرو اس طرح سے جو ڈرنے کا حق ہے اور ایسے رہو کہ اگر مرو تو حالت اسلام میں ،اطاعت کرو خدا کی اس چیز میں کہ جسکا خدا نے حکم دیا یا اس سے منع کیا ہو (انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء )
اے لوگو! جان لو کہ میں فاطمہؑ بنت محمّدؐ ہوں اور وہ جو میں نے پہلے کہا اب بھی کہونگی۔ ہمارے کردار و گفتار ،حق ودرست و با معنی ہیں ۔
پھر آپ نے اس آیت کی تلاو ت فرمائی:
(لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتّم حریص علیکم بالمومنین رئوف رحیم )
پس جب چاہو انکا(نبیؐ)احترام کرو ،انسے نسبت رکھنے والوں کا بھی احترام کرو (المرء یکر م فی ولدہ) تم نے قرآن مجید کی تمام تر آفاقیت وافادیت کے باوجود اسکے احکا م کی پروا نہ کی (کیوں)؟
آیا تم نے قرآن سے بے توجہی اختیار کی ؟ یا تمھاری قضاوت وحاکمیت قرآن کے توسط سے نہیں ؟
اگر ایسا ہے تو تم نے قرآن پر ظلم کیا ہے اور جو قرآن پر ظلم کرے اور قرآان کے علاوہ کسی کو حاکم تسلیم کرے اسکی عاقبت بخیر نہ ہوگی اور وہ خاسرین میں سے ہے ۔
( ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرہ من الخاسرین )
پھر آپؑ نے مختلف آیات قرآنی (للرجال نصیب ۔۔۔وللنساء نصیب ۔۔۔،یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین فان کنّ نساء ۔۔۔،وورث سلیمان داؤود ۔۔۔،فہب لی من لدنک ولیا ۔۔۔،و اولوالارحام ۔۔۔،و۔۔۔،)کی تلاوت فرما کردنیا پریہ واضح کر دیا کہ میراث پیغمبرؐ کے ہم وارث ہیں اور حاکم وقت کا اس پر غاصبانہ قبضہ ہے ۔جناب فاطمہؑ کا یہ اقدام صبح قیامت تک آنے والی تمام خواتین کے لئے درس عبرت ہے۔ شہزادی اسلامؑ نے طلب حقّ کے لئے قدم گھر سے باہر نکال کر یہ درس دیا ،کہ دیکھو ظلم جب بھی حد سے تجاوز کرنے کی کوشش کرے تو خاموشی سے تحمل نہ کرو بلکہ ظلم سے ڈٹ کر مقابلہ کرو ۔اور اگر اس طرح تم ظالم کو اسکے کیفر کردار تک نہ پہونچا سکے تو کم سے کم چہرہ باطل سے نقاب تو ہٹ جائے گی اور دنیا والوں کے لئے یہ سمجھ لینا تو آسان ہوجائے گا کہ حقّ کیا ہے اور باطل کیا ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام کو حضرت زہراء علیہا السلام کی آخری وصیت
ابن عباس سے منقول ہے کہ شہزادیؑ بابا کے ارتحال کے بعد 40 دن زندہ رہیں اور بعض روایتوں میں ہے کہ 6 مہینے زندہ رہیں۔
جب آپؑ کی شہادت ہوئی تو اسماء نے گریبان چاک کیا اور بیت الشرف سے باہر نکلی۔حضرات حسن و حسین علیہما السلام سے ملاقات ہوئی ان دونوں نے اسماء سے پوچھا کہ ہماری ماں کہاں ہیں؟
اسماء خاموش رہیں۔دونوں بچے گھر میں داخل ہوئے ، ماں کو بستر پر لیٹے دیکھا ۔امام حسینؑ نے ہلایا تو دیکھا کہ ماں اس دنیا میں نہیں رہیں۔فرمایا:
بھیا حسن! خدا آپ کو ماں کی مصیبت میں صبر عطا کرے۔
دونوں بچے بیت الشرف سے اس عالم میں برآمد ہوئے کہ” یامحمداہ” اور “یا احمداہ” کی فریاد بلند کررہے تھےاور کہہ رہے تھے: نانا جان ! ماں کے مرنے سے آپ کے فراق کا غم ہمارے لیے تازہ ہوگیا ۔پھر انہوں نے امیرالمومنینؑ کو خبر دی جو مسجد میں تھے ۔امیرالمومنینؑ غش کھا گئے پھر جب افاقہ ہوا دونوں بچوں کے ساتھ گھر آئے تو دیکھا اسماء ،فاطمہ کے سرہانے بیٹھی رو رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں :وا یتامی محمد ! اے محمدؐ کے یتیمو!ہم تمہارے جد کے بعد تمہاری ماں فاطمہ سے صبر اور حوصلہ پاتے تھے۔اب فاطمہ کے بعد کس سے صبر پائیں گے؟
مولاؑ نے شہزادیؑ کے چہرے سے پردہ ہٹایا تو دیکھا آپ کے سرہانہ ایک رُقعہ پڑا ہے اس میں لکھا دیکھا:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا أَوْصَتْ بِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ ص أَوْصَتْ وَ هِيَ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ وَ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النَّارَ حَقٌّ وَ أَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لا رَيْبَ فِيها وَ أَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ
يَا عَلِيُّ أَنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ زَوَّجَنِيَ اللَّهُ مِنْكَ لِأَكُونَ لَكَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ أَنْتَ أَوْلَى بِي مِنْ غَيْرِي حَنِّطْنِي وَ غَسِّلْنِي وَ كَفِّنِّي بِاللَّيْلِ وَ صَلِّ عَلَيَّ وَ ادْفِنِّي بِاللَّيْلِ وَ لَا تُعْلِمْ أَحَداً وَ أَسْتَوْدِعُكَ اللَّهَ وَ أَقْرَأُ عَلَى وُلْدِيَ السَّلَامَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة
یہ وصیت ہے جو رسول اللہؐ کی بیٹی نے کی ہے۔وہ گواہی دیتی ہے کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور یہ کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ جنت اور جہنم حق ہے اور قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے اور بتحقیق اللہ قبور میں مدفون لوگوں کو اٹھائے گا۔
اے علیؑ! میں فاطمہ بنت محمدؐ ہوں کہ اللہ نے مجھے آپ کی زوجیت میں قرار دیا ہے تاکہ میں دنیا اور آخرت میں آپ کے لیے ہوجاؤں۔آپ دوسروں سے میری نسبت زیادہ سزاوار ہیں۔آپ مجھے رات کے وقت میں حنو ط اور غسل اور کفن دیجئے گا اور رات کے وقت مجھ پر نماز پڑھ کر مجھے دفنا دیجئے گااور کسی کو خبر مت دیجئے گا اور میں آپ کو اللہ کے سپرد کرتی ہوں اور قیامت کے دن تک میری اولادوں کو میرا سلام۔
بحار ج 43 ص 214
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Source: http://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=1729