عمار یاسر,صحابی رسول(ص)

عمار یاسر
صحابی رسول  ابو یقظان عمار یاسر ۳۶ ھ میں جنگ صفین میں  لشکر معاویہ کے ہاتھوں  درجہ شہادت پر فائز ہوئے ۔

دعوت اسلام کے آغاز میں  عمار یاسر اور آپ کے والدین   پر  مسلمان ہونے  کے جرم میں  سخت ترین تشدد کیا گیا  لیکن وہ مصائب ومشکلات کے باوجود  دین اسلام پر ڈٹے رہے ۔
قبیلہ مخزوم  کے لوگ عمار یاسر ،ان کے والد  اور ان کی والدہ  کو (جو ایک مسلمان گھرانے کے افراد  تھے ) دوپہر  کی گرمی  میں  باہر لے جاتے تھے اور مکہ  کی تپتی زمین  پر لٹا  کر سزا دیتے تھے رسول کریم  ﷺ ان کے پاس سے گزرتے اور فرماتے تھے :
صبراً آل یاسر موعدکم  الجنۃ ،صبراً آل یاسر موعدکم الجنّۃ۔
اے آل یاسر ! صبر کرو کہ تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے ۔ اے آل یاسر ! صبر سے کام لو کہ تمہاری وعدہ گاہ بہشت ہے ۔
رسول اعظم ﷺ نے عمار یاسر کی تعریف و تمجید فرمائی ہے جو عمار یاسر کے عظیم مقام و مرتبے پر دلالت کرتی ہے ۔
ارشاد نبوی ہے :
 ملئی عمار ایمانا ً الی اخمص قدمیہ ۔
 (عمار یاسر اپنے دونوں  پاؤں  کے تلوؤں  تک ایمان  سے لبریز ہے۔)
 حضرت عائشہ  ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
  عمار  ملئی  ایمانا  الی مشاشہ ۔( دیکھئےسیرۃ ابن ہشام  ،ج۱،ص ۳۴۲  نیز حلیۃ الاولیاء ،ج۱،ص ۱۴۱ )
عمار  اپنی ہڈی کے گودے  تک  ایمان  سے بھرا ہوا ہے ۔
ابن ماجہ ، اور ابو نعیم  نے ہانی  بن ہانی  سے یوں  روایت کی ہے : ہم علی علیہ السلام  کے پاس  موجود تھے ۔اتنے میں  عمار  آپ کے پاس آگئے ۔آپ نے فرمایا :
مرحباً بالطیب المطیب ، سمعت  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ یقول : عمار ملئی  ایمانا ً  الی مشاشہ ۔( دیکھئےالاصابۃ ،ج۲،ص ۵۱۲)
خوش آمدید اے پاکیزہ  انسان  جسے پاک کیا گیا  ہے!  میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے : عمار اپنی ہڈیوں  کے گودے تک ایمان سے  لبریز ہے ۔
مروی ہے کہ  خالد  بن ولید نے کہا : میرے اور عمار کے درمیان زبانی  لے دے ہوئی اور میں  نے عمار سے سخت کلامی کی  ۔پس عمار نے نبی کے پاس  میری شکایت کردی ۔جب میں ( آنحضرت کے پاس ) آیا تو آپ نے اپنا سر اوپر اُٹھاکر فرمایا : جو شخص عمار سے عداوت برتے اس کے ساتھ اللہ عداوت برتے گا  ۔جو شخص عمار سے بغض رکھے اس سے خدا  بغض رکھے گا ۔
من عادی  عماراً عاداہ اللہ ،ومن ابغض عمارا ابغضہ اللہ ۔  (دیکھئے الاصابۃ  ،ج۲،ص ۵۱۲ نیز الاستیعاب  حاشیہ الاصابۃ  ۔)
خالد کا بیان ہے : اس دن سے میں ہمیشہ عمار سے محبت برتتاہوں ۔
رسول اللہ ﷺ  لوگوں کو فتنوں  کے دوران عمار کی پیروی کی ترغیب دیتے تھے اور فرماتے تھے  کہ عمار صرف حق  کا ساتھ دے گا : ان عماراً لایکون الّا مع الحقّ ۔ بیہقی  نے حاکم وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ ابن مسعود  نے کہا : میں نے  رسول اللہﷺ کو عمار سے یہ فرماتے سنا : جب لوگ آپس میں  اختلاف کریں گے تو سمیّہ کا بیٹا حق  کے ساتھ  ہوگا ۔
 اذا اختلف االناس  کان ابن سمیّۃ  مع الحق ۔ (دیکھئے تاریخ ابن کثیر ،ج۷،ص ۲۷۰)
ایک شخص نے عبد اللہ بن مسعود کے پاس  آکر کہا :  اللہ تعالی نے ہمیں  اس بات سے محفوظ رکھا ہے کہ وہ ہمارے اوپر ظلم  کرے لیکن  اس بات سے محفوظ نہیں  رکھا کہ ہمیں  فتنے اور آزمائش  میں ڈالے ۔جب کوئی فتنہ درپیش ہو تو  آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟
ابن مسعود نے کہا : آپ کو چاہیے کہ اللہ کی کتاب کا سہارا  لیں  ۔ اس شخص  نے کہا : اگر سارے فریق کتاب خدا  کی طرف  دعوت دے رہے ہوں  تو آپ کے خیال میں کیا کرنا ہوگا ؟
 ابن مسعود  نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺکو  یہ فرماتے سنا ہے :
 اذا اختلف االناس  کان ابن سمیّۃ  مع الحق ۔( دیکھئے الاستیعاب ،ج۲،ص ۴۸۰)
 (جب  لوگ اختلاف کے شکار  ہوں گے   تو سمیہ کا بیٹا  حق کے ساتھ ہوگا) ۔
 جب حذیفہ بن یمان  کی رحلت کا وقت آگیا تو وہاں  فتنے کا ذکر آیا   اور حذیفہ  سے سوال ہوا : جب لوگ اختلاف  کے شکار ہوں گے تو آپ ہمیں  کس کا ساتھ دینے کا حکم دیں گے ؟ حذیفہ نے کہا :
علیکم بابن سمیۃ فانّہ لن یفارق الحق حتی  یموت ۔ او قال: فانّہ یدور مع الحق حیث دار۔( دیکھئے الاستیعاب ،ج۲،ص ۴۸۰)
تمہیں  سمیہ کے بیٹے کا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ وہ حق  سے جدا نہیں  ہوگا  یہاں تک کہ  وہ مرجائے ۔یا یوں کہا : کیونکہ وہ حق کے ساتھ ساتھ  چکر لگائے گا ۔
ابن سعد  نے الطبقات میں  نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
ان عماراً مع الحق والحق معہ ،یدور مع الحق اینما دار و قاتلُ عمار فی النّار ۔( دیکھئے ابن سعد کی الطبقات ،ج۳،ص ۱۸۷ ،مطبوعہ  لیدن)
 بے شک عمار حق کے ساتھ  ہے اور حق اس کے ساتھ ہے ۔ حق جہاں  جہاں  گھومتا ہے وہاں  اس کے ساتھ عمار بھی گھومتا ہے ۔ عمار  کا قاتل جہنمی ہے ۔
رسول اللہ  کی ایک اور حدیث  عام شہرت  رکھتی ہے  کہ عمار کو سرکش اور ظالم گروہ قتل کرے گا :
 تقتلہ الفئۃ الباغیۃ  ۔
یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے ۔صحابہ کی ایک جماعت نے اسے نقل کیا ہے جن میں  عثمان بن عفان ،ام المومنین  عائشہ ،انس بن مالک ،ابو ہریرہ  ،جابر بن  سمرہ  اور عبد اللہ  بن مسعود وغیرہ  شامل ہیں  ۔عجیب  بات یہ ہے کہ  ان کے علاوہ معاویہ بن  ابو سفیان ،عمرو بن عاص اور عمار  کے قاتل ابو الغادیۃ   نے بھی اے نقل کیا ہے ۔لوگوں  کو اس حدیث کا علم تھا لیکن  جب عمار  قتل ہوگئے اور لشکر شام   شدید مخمصے کا شکار ہوگیا اور انہیں  پتہ چل گیا  کہ حدیثِ رسول میں  مذکور  باغی گروہ سے مراد  وہ خود ہیں  تو معاویہ نے اس حدیث میں  غلط تاویل کر کے لوگوں  کی آنکھوں  میں  دھول جھونک دیا  تاکہ وہ مواخذے سے  بچ جائے ۔
پس معاویہ  نے ایک ایسی چال چلی جس سے سادہ  لوح عوام متاثر ہوئے ۔اس نے کہا : عمار کو ہم نے قتل نہیں  کیا بلکہ  اسے میدن جنگ میں  لاکر  ہمارے نیزوں  کے آگے ڈالنے والا ہی اس کا قاتل  ہے ۔ یہ عمرو بن عاص کی حیلہ گری اور چالاکی  کا ایک جلوہ تھا ۔اس مغالطہ  آمیز چال نے بہت سے سادہ لوح  لوگوں  کو متاثر کیا ۔
ابن تیمیہ    کے شاگرد  ابن قیم  جوزیہ کا بیان  ہے : باطل تاویلوں  میں سے ایک شامیوں  کی وہ تاویل ہے جو انہوں نے رسول اللہﷺ کی اس حدیث میں  کی ہے جس میں  آپ عمار سے فرماتے ہیں  : تقتلک الفئۃ الباغیۃ  (اے عمار !  آپ کو باغی و سرکش جماعت قتل کرے گی ۔) پس شامیوں  نے کہا : عمار کو ہم نے قتل نہیں کیا  ۔اسے درحقیقت اس نے قتل کیا ہے جس نے  اسے (میدان  جنگ میں  ) لا کر  ہمارے نیزوں  کے آگے ڈال دیا ہے ۔
یہ تاویل  حدیث کی ظاہری دلالت کے برخلاف ہے کیونکہ قتل کرنے والے  سے مراد وہ ہوتا ہے  جو اسے براہِ راست قتل  کرے ۔قاتل  وہ نہیں  ہوتا جو مقتول سے مدد طلب کرے  ۔اسی لئے  اس شخص  نے جو ان سے زیادہ حق  و حقیقت کا شناسا اور سزاوار تھا  انہیں  جواب دیتے ہوئے کہا : کیا  رسول اللہ اور آپ کے اصحاب  نے حمزہ اور حمزہ کے ساتھی شہداء کو قتل کیا کیونکہ وہی انہیں  مشرکین  کی تلواروں  کے نیچے لے آئے تھے ؟ (دیکھئے ابن قیم  جوزیہ کی  الصواعق المرسلۃ    ،ص ۱۰ )
یہاں اس بات کی گنجائش نہیں  کہ ہم عمار  کے سارے فضائل و مناقب  ،عمار کے موقف اور عمار کے بارے میں  مذکور آیات و احادیث کا  تفصیل سے تذکرہ کریں  ۔ یہاں  ہمارا  مقصود  عمار  کے حالات کا تذکرہ  نہیں ہے  بلکہ   ہماری  گفتگو کا ہدف یہ بتانا ہے  کہ  اللہ  اور رسول  کی شان  میں  ایک سنگین  گستاخی  یہ ہے کہ اس عظیم  شخصیت کے ساتھ اس قم  کی توہین  آمیز باتوں  کی نسبت دی  جائے  یا یہ کہا جائے کہ انہیں  ابن سبا نے  اپنا گرویدہ، پیروکار اور مبلغ بنایا تھا حالانکہ عمار وہ شخصیت ہے جس نے اپنی زندگی کا آغاز راہ ِ خدا میں جد و جہد  ،جانفشانی اور مشرکوں  کی طرف سے تشدد پر صبر کے  ذریعے کیا  اور  آخرکار  اسلام کا دفاع  اور حق  کی پیروی کرتے  ہوئے حق کو حقدار تک پہنچانے  کی کوشش  میں جام شہادت  نوش کیا ۔
عمار  پر ابن سبا  کی حمایت کا الزام  لگانے والوں  کا مقصد یہ ہے کہ عمار کے  دشمنوں   کو  ان کے برے کرتوتوں  سے بری الذمہ  قرار دیا جائے  اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات سے   انہیں محفوظ رکھا جائے ۔مخالفین  نے عمار  کے بارے میں  جو ناروا  باتیں  کی ہیں  کاش وہ  انہیں  شبہات کی صورت میں پیش  کرتے اور قطعی  و یقینی  دلیل   کی  صورت میں پیش نہ کرتے ۔ اللہ عمار پر رحمت نازل کرے جو ہمیشہ حق پر کار بند رہے،باطل سے نبرد آزما رہے اور رسول اللہ ﷺکی پیشگوئی کے عین مطابق سرکش اور باغی گروہ کی تلواروں  سے جام  شہادت نوش فرماگئے ۔
جن لوگوں  نے صحابی رسول عمار یاسر کا شمار  ابن سبا کے پیروکاروں  میں کیا ہے  وہ ایک ایسے گناہ  کے مرتکب ہوئے ہیں  جو قابل  بخشش نہیں  ۔دراصل ان لوگوں  نے عمار کے مسئلے میں رسول  اللہﷺ کے فرمان  کی تردید اور تکذیب  کی ہے ۔
رسول اللہ ﷺکے جلیل القدر صحاب زید بن صوحان کے بارے میں  بھی  یہ لوگ اسی قسم کے جرم اور ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں  ۔انہوں نے زید  کو ابن سبا کے داعیوں  میںسرفہرست قرار دیا ہے ۔بہتر  ہے کہ ہم یہاں  زید  بن صوحان کے بارے میں  بھی مختصر اشارہ کرتے چلیں  تاکہ کسی کو یہ غلط فہمی  نہ ہوکہ  زید کے بارے میں  مذکورہ افترا پردازوں  کے بیانات درست ہیں  ۔
اقتباس از  کتاب:اہل بیت کی رکاب میں ۔افسانہ ابن سبا  ۔ص ۷۸ سے ۸۲
مولف :علامہ  اسد حیدر /تحقیقی کمیٹی  ،مترجم : شیخ محمد علی توحیدی، ناشر: عالمی مجلس اہل بیت