حضرت ابو ذر غفاری

ابوذر غفاری
حضرت ابو ذر غفاری یعنی  جندب  بن جنادہ بن سکن ۳۱ ھ یا ۳۲ ھ میں ربذہ کے مقام  پر رحلت فرماگئے ۔

سب سے  پہلے  اسلام  قبول کرنے والوں  میں  آپ چوتھے نمبر پر ہیں  ۔ اسلام کی تبلیغ و دعوت  کے جرم میں آپ کو سخت تکلیف  دی گئی ۔آپ زہد و تقوی  اور راستگوئی میں معروف تھے چنانچہ رسول اللہﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا :
ما اقلّت الغبراء ولا اظلت الخضراء اصدق لھجۃ من ابی ذر۔
زمین  نے کسی ایسے شخص کو نہیں  اُٹھایا  اور آسمان نے کسی ایسے شخص پر سایہ نہیں کیا  جو ابوذر سے زیادہ راستگو  ہو ۔
ترمذی  کی روایت  کچھ یوں ہے :
ما اظلت الخضراء ولا اقلت الغبراء من ذی لھجۃ اصدق ولا اوفیٰ  من  ابی ذر شبیہ عیسی بن
 مریم۔
زمین  نے کسی ایسے شخص  کو اپنے دامن میں  نہیں  سمیٹا  اور آسمان نے  کسی ایسے شخص پر سایہ  نہیں کیا  جو ابو ذر سے زیادہ  راستگو  اور عہد کا پابند ہو۔وہ عیسی بن مریم کے شبیہ  ہے ۔
یہ  ایک مشہور  و معروف حدیث  ہے جسے محدثین  کی ایک جماعت  نے نقل کیا ہے ۔ترمذی ،ابن ماجہ ، حاکم ، اور ابو نعیم  جیسے حفاظ نے اسے اپنی  کتابوں  میں  نقل کیا ہے ۔( دیکھئے  ابن حجر کی الاصابۃ۴/۶۴)
جناب ابوذر  تاریخ اسلام کے چوتھے مسلمان تھے ۔آپ نے سب سے پہلے کھل کر اسلام کی دعوت دی نیز اپنی  قوم کے درمیان  اور مکہ  میں  اسلام کا اعلان کیا جس کے باعث انہیں  تشدد کا سامنا کرنا پڑا ۔
 اللہ تعالی نے اپنے رسول  کو ابوذر سے محبت کرنے کا حکم دیا چنانچہ بریدہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے  فرمایا  : ان اللہ عزّوجلّ امرنی بحبّ اربعۃ  واخبرنی انّہ یحبّھم :علی و ابوذروالمقداد وسلمان  (دیکھئے صحیح ترمذی ،ج۲،ص ۲۲۱  اور مستدرک الحاکم ،ج۳،ص ۳۴۲)
للہ تعالی نے مجھے چار افراد  سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ وہ خود بھی  ان سے محبت کرتا ہے ۔(وہ  یہ ہیں :) علی  ،ابوذر ، مقداد  اور سلمان ۔
 اس حدیث  کو ترمذی نے اپنی صحیح میں  ،( دیکھئے صحیح ترمذی  ،ج۵،ص ۶۳۶ ، حدیث ۳۷۱۸)  ابن حجر نے الاصابۃ میں   ،( دیکھئے الاصابۃ  ،ج۷،ص ۱۰۵ ، حدیث  ۹۸۷۷ ) ابو نعیم  نے الحلیۃ  میں  (دیکھئے حلیۃ الاولیاء ،ج۱،ص ۱۹۰ )،ابو عمر نے الاستیعاب میں  (دیکھئے  الاستیعاب،ج۲،ص ۴۲۳) اور  دیگر محدثین  نے نقل کیا ہے ۔
ارشاد نبوی ہے : ابو ذر فی امتی علی زھد عیسی بن مریم ۔( دیکھئے اسد الغابۃ  ،ج۵،ص ۱۸۷)
 میری امت میں  ابو ذر عیسی ا بن مریم  کے زہد کے درجے  پر فائز ہے ۔
علی علیہ السلام نے فرمایا : ابو ذر وعاء ملئی علماً ثمّ اوکیٔ علیہ ۔( دیکھئے الاصابۃ ،ج۴،ص ۲۴  اور اُسد الغابۃ ،ج۵،ص ۱۸۷)
 ابو ذر  ایک ایسا  ظرف ہے جسے علم سے بھر دیا گیا ہے پھر اسے سر بمہر کر دیا گیا ہے۔
ابن عبد البر نے اعمش سے نقل کیا ہے کہ  عبد الرحمن  بن غنم نے کہا : میں  ابو درداء کے پاس  موجود تھا ۔اتنے میں  مدینہ کا ایک شخص آیا  ۔ابو درداء  نے اس شخص  سے پوچھا  : تونے ابو ذر  کو کہاں  چھوڑا ہے ؟ : اس نے کہا  : ربذہ میں ۔ ابو درداء  نے کہا : انا للہ انا الیہ راجعون۔اگر ابو ذر  میرے کسی  عضو کو کاٹ لیتا تو  میں اس بات  کی وجہ  سے جو میں  نے اس کے بارے میں رسول اللہ سے سنی ہے اس سے خشم گین  نہ ہوتا ۔( دیکھئےالاستیعاب ،ج۱،ص ۲۱۷)
طبرانی نے ابن مسعود سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے : منْ سرّہ ان ینظر الی شبہ عیسی خلقاً فلینظرالی ابی ذر(دیکھئے ایضا ،ج۱،ص ۲۱۶)
جسے اس شخص کو دیکھنا  پسند ہو جس کا اخلاق  عیسی بن مریم کے مشابہ ہے  وہ ابو ذر کو دیکھے۔
جناب ابو ذر کے علم  و فضل ،مقام  و مرتبے اور زہد و تقوی کے بارے میں  بہت سی  احادیث مروی  ہیں ۔ اسلام کی حمایت و حفاظت ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے میدانوں  میں  آپ کا کردار اور موقف مشہور  و معروف ہیں  ۔ اس مختصر کتاب میں  ان سب کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔
زیادہ افسوسناک  بات  یہ ہے کہ اس  مرد مجاہد کے بارے میں  ایسی ناروا باتیں  کی گئی ہیں  جو ان کی شان میں گستاخی ہے چنانچہ کہا گیا ہے کہ وہ (ابن سبا کے ) جھوٹے دعؤوں  اور اس کی گمراہ کن  تلقینات  سے متاثر  اور مبہوت ہوگئے نیز  وہ ابن سبا  اور اس  کے افکار و  نظریات  کے ترجمان بن گئے جیساکہ ابن سبا کے افسانے سے ظاہر ہے ۔
کیا وجہ ہے کہ صحابہ کی حمایت کا دم بھر نے والے عناصر جو صحابہ پر تنقید  کی حامل روایات و احادیث کے ظاہری اور واضح مفہوم میں تاویل سے کام  لیتے ہیں  ابو ذر کے معاملے میں ایسا نہیں کرتے ؟ گویا ابو ذر ان کی حمایت کے دائرے سے خارج  ہیں  ۔یہ لوگ  ابو ذر کی توہین پر مشتمل روایات  نقل کرنے والوں   کی تصدیق  کرتے ہیں  حالانکہ وہ علمائے         اہل سنت  کی نظر میں  غیر معتبر اور ناقابل تصدیق  ہیں  ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ابو ذر جسے رسول اللہ ﷺنے راستگو  قرار دیا ہے ابن سبا کے افکار  کا معتقد  اور داعی بن جائے  ؟ اس قسم کی تہمت طرازی  دراصل یہودیت کی حمایت ہے ۔ ایک ایسی  شخصیت کا یہودیت کی طرف مائل  ہونا جسے رسول اللہ ﷺنے سچا ،امانتدار اور زہد و تقوی کا پیکر قرار دیا  ہو یہودیت کی مدد  نہیں  تو اور کیا ہے ؟
اقتباس از  کتاب:اہل بیت کی رکاب میں ۔افسانہ ابن سبا  ۔ص ۷۴سے۷۶
مولف :علامہ  اسد حیدر /تحقیقی کمیٹی  ،مترجم : شیخ محمد علی توحیدی، ناشر: عالمی مجلس اہل بیت