امام جعفر صادق اورفکری جمود سے مقابلہ


تقریر کا موضوع ” امام جعفر صادق علیہ السلام اور فکری جمود سے مقابلہ“ھے یعنی ھماری گفتگو کا موضوع یہ قرار دیا گیا ھے کہ امام صادق علیہ السلا م اپنے دور میں فکری جمود سے کس طرح نبر د آزما ھوئے ۔


فکری جمود اورروشن فکری

فکری جمود کا مطلب یہ ھوتا ھے کہ کوئی شخص کسی مسئلہ سے باخبر ھونے کے بعد اس سے متعلق دلائل فراھم کرے اور کسی نتیجہ تک پھونچ کر اسے اپنا عقیدہ بنالے پھر اس مسئلہ سے متعلق کسی مزید گفتگو یا اس کے خلاف کوئی دلیل سننے کے لئے آمادہ نہ ھو ،یعنی اسی عقیدہ پر اپنی فکر کومحدود کرلے ۔ اسی طرح جب فکری جمود کی لفظ استعمال کی جاتی ھے تو اس سے کچھ قدامت پسندی کی بھی بوآتی ھے، یعنی فکری جمود کا حامل شخص قدامت پسند ھوتا ھے، قدیم افکار میں گم ھوتا ھے اور کوئی نئی بات سننے کے لئے تیار نھیں ھوتا ۔ فکری جمود کے مقابلے میں روشن فکری کا لفظ استعمال کیا جاتا ھے۔ روشن فکر اسے کھتے ھیں جو کھلی اور روشن فکر کا مالک ھو یعنی پڑھا لکھا ھو،اچھا مطالعہ رکھتا ھو اور نئی بات مان لیتا ھو ۔
ھماراموضوع ھے کہ امام صادق علیہ الصلوٰة و السلا م نے فکری جمود سے کیسے مقابلہ کیا لیکن میرے خیال میں امام صادق علیہ السلام کا دور فکری پرورش کا دور تھا ،البتہ چند ایک گروہ جامد فکر بھی رکھتے تھے جن سے آپ نے مقابلہ کیا ھے لیکن عام طور سے آپ کا دور ایک فکری نقل و انتقال اور تبادلہ آراء کا دور تھا ۔اس کا سبب یہ تھا کہ سیاسی نظام میں تبدیلی آچکی تھی۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ھے کہ ھمارے ائمہ میں صرف امام صادق(ع) ھی وہ تنھا امام ھیں جنھوں نے بنی امیہ اور بنی عباس دونوں کا دور حکومت دیکھا ھے اور دونوں ادوار میں موجود رھے ھیں ۔
۱۱۴ھ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی شھادت ھوئی جس کے بعد امام صادق علیہ السلام منصب امامت پر فائز ھوئے۔۱۳۲ھ میں بنی عباس بنی امیہ کا قلع قمع کرکے خود تخت حکومت پر قابض ھو گئے ۔ تاریخ میں ھم نے یہ مشاھدہ کیا ھے کہ جس وقت کوئی نئی حکومت آتی ھے اور طویل مدت تک حکومت کرنا چاھتی ھے تو وہ اپنے طرز فکر سے ھم آھنگ کلچر اور ماحول پیدا کرتی ھے پھر جب تک وہ حکومت رھتی ھے اس کا ایجاد کردہ طرز فکر اورماحول بھی باقی رھتا ھے اور جب وہ حکومت ختم ھو جاتی ھے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کا بنایا ھوا ماحول اور طرز فکر بھی جاتا رھتا ھے ۔ بالکل اسی طرح جیسے نئے سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ نیا طرز فکر بھی لوگوں میں آجاتا ھے ۔اس کی زندہ مثال عر۱ق ھے جھاں تیس چالیس سال تک بعث پارٹی برسر اقتدار رھی ھے ۔ اس نے اپنا پسندیدہ کلچر اور طرز فکر رائج کر رکھا تھا ۔ بھت سارے جوانوں کی تربیت اپنے ماحول کے مطابق کی تھی ۔ صدام نے جمھوری اسلامی پر جو جنگ تھوپی تھی اس کے شروع کے چند سالوں میں اسے اس لئے برتری مل رھی تھی کہ اس نے آرمی ٹرینیڈ کر رکھی تھی اوران میں اس نے بعث پارٹی کا کلچر کوٹ کوٹ کر بھررکھا تھا۔وہ صدام ھی کی طرح سوچتے تھے لیکن اب عراق میں بعثی نظام ختم ھو ا ھے تو تھذیبی لحاظ سے بھی ایک نیا ماحول پےدا ھوگیاھے۔اب کُردوں کو بھی بولنے کا مو قع مل گیا ھے ، سنی بھی اپنی بات کھہ رھے ھیں اور شیعہ بھی خاموش نھیں ھیں ، ھر گروپ اپنی بات کھہ رھا ھے۔ یہ ایک تجربہ کی بات ھے ایران میں بھی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک نئی فضا اور نیا ماحول بن گیا تھا ۔


عصر امام صادق علیہ السلام

امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں جب بنی امیہ کی حکومت ختم ھو گئی تو ان کا ایجاد کیا ھوا طرز فکر اور ان کی بنائی ھوئی تھذیب بھی ختم ھو گئی۔ جب بنی عباس نے اقتدار سنبھالا تو ان کے افکار اور بنی امیہ کے افکارمیں کافی فرق تھا۔یہ اپنی جدید فکر پےش کرتے تھے پھر اسی دور میں جیسا کہ ھم نے سیرئہ پیشوایان میں بھی تذکرہ کیا ھے، تھوڑا بھت یونانی کتب کے ترجمہ کا باب کھل گیا تھا۔ مسلمانوں نے یونانی فلاسفہ کے اقوال و کتب کا ترجمہ کرنا شروع کردیا ، مختلف مذھبی فرقے پیدا ھوئے ،آزادیٴ فکر کا ماحول بنا ، بحث و مناظرے ھونے لگے ۔اس طرح مختلف گروہ اور مختلف فرقے وجود میں آگئے ۔کھا جاتا ھے کہ یہ سب بنی عباس کی دین تھی لیکن شھید مطھری فرماتے ھیں کہ آزادی فکر تبادلہ خیال ،گفتگو،بحث اور استد لال، یہ سب اسلام کی برکات تھیں ، نہ یہ کہ بنی عباس کی دین تھی ۔ھاں ! بنی عباس نے اتنا کیا کہ ان سب پر پابندی نھیں لگائی ۔ بنی امیہ نے تو لوگوں کا دم گھونٹ رکھا تھا۔ وہ صرف اپنی فکر رائج کرنا چاھتے تھے لیکن بنی عباس نے ایسا نھیں کیا جس کی وجہ سے اسلام میں موجود آزادی ٴ فکر ،بحث و گفتگو اور استدلال کو راستہ ملا تو اس نے رشد کرنا شروع کردیا۔ اس طرح آپ کے زمانے میں ایک عجیب ماحول پیدا ھو گیا تھا۔ میرا اپنا خیال یہ ھے کہ امام صادق علیہ السلام کا دور وسعت فکری کے ساتھ ساتھ فکری تناؤ کا بھی دور تھا یا شھید مطھری کے بقول آپ کے دور میں ادیان و مکاتب اور افکار و نظر یات کا بازار گرم تھا ۔جو شخص چاھتا تھا بولتا تھا لھٰذا اسلام واقعی یعنی مکتب تشیع کے وارث امام صادق علیہ السلام کو حقیقی اسلام کی حمایت اور ترویج میں صرف ایک دو محاذپر مقابلہ نھیں تھا بلکہ آپ کو کئی ایک فکری محاذ سر کرنے پڑرھے تھے ۔


امام صادق علیہ السلام کا دھریوں سے مقابلہ

ان میں فکری جمود رکھنے والے کچھ زندیق اور دھرئیے تھے جن کا وھی کھنا تھاجو رسول (ص) کے دور کے دھرئیے کھتے تھے ”اِنْ ھی اِلاّ حیاتنا الدنیا نموت و نحیی وما یھلکنا الا الدھر“ آج کے دور کے مادّہ پرستوں کی طرح وہ کھتے تھے کہ محسوسات کے علاوہ ھم کسی چیز کے وجود کے قائل نھیں ھو سکتے ۔ معقولات کوئی چیز نھیں ھے ۔ جس چیز کو ھم چھوتے ھیں ، دیکھتے ھیں ، سنتے ھیں یا چکھتے ھیں اسی کو مانتے ھیں ۔ تو یہ اس دور کے میڑیالسٹ یا مادّہ پرست تھے جن کو زندیق یا دھریہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔امام صادق علیہ السلام کو جن فکر ی گروھوں سے مقابلہ کرنا تھا ان میں بھت زیادہ فکری جمود رکھنے والا گروہ یھی تھا۔


امام صادق علیہ السلام اور مکتب ابو حنیفہ

آپ کے سامنے ایک دوسرا محاذ فقہ میں قیاس کے ماننے والوں کا تھا ۔اس گروہ کے سرغنہ ابو حنیفہ تھے۔ ابو حنیفہ ذاتی راٴی اور قیاس کی بنیاد پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔ علماء اھل سنت بھی مانتے ھیں کہ ایک قول کے مطابق ابو حنیفہ کو صرف ستّرہ حدیثیں یاد تھیں ۔کچھ اس سے بھی زیادہ بڑہ کے بولے ھیں ۔ مقدمہ ابن خلدون میں ابن خلدون کھتے ھیں کہ ابو حنیفہ احادیث سے کم کام لیتے تھے اوروہ اس لئے کہ شاید ان کی نظر میں بیشتر احادیث غیر معتبر تھیں ۔ بھر حال اتنا طے ھے کہ ابو حنیفہ کو بھت تھوڑی سی حدیثیں یاد تھیں ، یہ اور بات ھے کہ ابن خلدون نے خوش فھمی سے کام لیتے ھوئے اسے ایک دوسرا رخ دے دیا ھے کہ ابو حنفیہ کے نزدیک احادیث معتبرہ بھت کم تھیں ۔ چونکہ ماضی میں جنگ و جدال ا ورصنع حدیث کا دور تھا اس لئے ابو حنیفہ ان احادیث کو معتبر نھیں سمجھتے تھے اور احکام شریعت میں اپنی ذاتی راٴی اور قیاس سے کام لیتے تھے۔ اس طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے ایک محاذ ان لوگوں کا تھا جو احکام میں قیاس کے قائل تھے ۔


امام صادق علیہ السلام اور مشبّھہ

ایک دوسرا فکری محاذ ان لوگوں کا تھا جنھیں مشبّھہ کھا جاتا ھے ۔یہ لوگ خدا کو انسان سے تشبیہ دیتے تھے۔ان کا کھنا تھا کہ خدا کے اعضاء ھیں ، جسم اور آنکھیں ھیں ۔قرآن میں موجود اس طرح کی آیات کو ان کے ظاھر پر حمل کرتے تھے مثلاً ”واللهیسمع تحاورکما “ اے پیغمبر تمھارے پاس جو عورت اپنے شوھر کی شکایت لے کر آئی تھی خدا تم لوگوں کی باتوں کو سن رھا تھا ۔یہ لوگ کھتے ھیں کہ خدا سن رھا تھا یعنی اس کے کان ھیں ، یا مثلاً ” الرحمن علی العرش استوی“ کھتے ھیں یعنی رحمٰن عرش پر اپنا مکان رکھتا ھے۔ ابن تیمیہ منبر پر بیٹھ کر کھتا ھے: ”الرحمن علی العرش استوی “ کا مطلب یہ ھے کہ جیسے میں اس وقت منبر پر بیٹھا ھوں ایسے ھی خدا عرش پر بیٹھتاھے ۔یہ سب باتیں ان کی کتابوں میں بھی موجود ھیں اور اب بھی وہ یہ باتیں زور د ے کر کھتے ھیں ، یا مثلاً قیامت کے بارے میں خدا فرماتا ھے ” وجاء ربک والملک صفاً صفا “ اے پیغمبر ! روز قیامت تمھارارب اور ملائکہ صف در صف آئیں گے ،ھم شیعہ اور معتزلہ کھتے ھیں کہ یھاں پر ”امر“ پوشیدہ ھے یعنی امر خدا اور ملائکھ، جبکہ وہ لوگ کھتے ھیں کہ نھیں یہ امر وغیرہ تم نے اپنی طرف سے گڑہ لیا ھے، خدا کھتا ھے ” وجاء ربّک“ یعنی خود خدا آئے گا ۔کھتے ھیں کہ دنیا میں خدا دیکھا نھیں جاسکتا لیکن آخرت میں جب وہ خود آئے گا تو سب اس کا دیدار کریں گے ۔ اس طرح کے لوگ امام صادق علیہ السلا م کے زمانہ میں تھے ۔


امام صادق علیہ السلام اور مرجئہ

ایک اور خطر ناک گروہ تھا جس کا نام”مرجئہ“ تھا۔ایک قول یہ ھے کہ بنی امیہ ان لوگوں کی پشت پناھی کرتے تھے اور اگر بنی امیہ ان کی پشت پناھی نہ بھی کرتے رھے ھوں تب بھی ان کے اور بنی امیہ کے رجحانات ایک جیسے تھے ۔ ان کے نظر یات بنی امیہ کے لئے بڑے فائدہ مند ثابت ھوئے ۔ ان کا کھنا تھا کہ ایمان ایک امر قلبی ھے ۔دل میں ایمان ھو بس کافی ھے یعنی کسی شخص کے دل میں ایمان ھو عمل میں چاھے بت پرستی کرے ،شراب پیئے یاکچھ بھی کرے اس کے ایمان کو کوئی نقصان پھنچنے والا نھیں ھے۔ یہ نظریہ بنی امیہ کے لئے بڑا مفید ثابت ھوا۔وہ اس نظریہ کی بھت ترویج کرتے تھے اورکھتے تھے کہ اگر ھم نے کوئی غلط کام کیا ھے یا گناہ کیا ھے تو اس سے ھمیں یا ھمارے ایمان کو کوئی ضرر پھنچنے والا نھیں ھے ۔ اس طرح امام علیہ السلام کے سامنے فکری محاذ پر ایک دوگروہ نھیں تھے بلکہ کئی ایک گروھوں سے آپ برسر پیکار تھے ۔


روش مبارزہ

اب جائزہ لیتے ھیں کہ امام علیہ السلام ان تمام گروھوں سے کس طرح مقابلہ کرتے تھے۔ امام علیہ السلام در حقیقت دو طرح سے ان لوگوں کا مقابلہ کرتے تھے ؛ایک یہ کہ خود براہ راست ان کے مقابلے میں آتے تھے، دوسرے یہ کہ آپ شاگرد تربیت کرتے تھے اور آپ کے شاگرد جاکر بحث کیا کرتے تھے لیکن آپ کا مقابلہ منطقی اور استدلالی ھوا کرتا تھا ۔کبھی حضرت ایک فکری جھٹکا دے دیا کرتے تھے کہ سامنے والا کچھ سوچنے پر مجبور ھو جائے اور کم از کم احتمال تو دے کہ میری بات غلط بھی ھو سکتی ھے ۔فکری اعتبار سے منجمد شخص اپنی بات کے غلط ھونے کا احتمال تک نھیں دیتالھذاحضرت ان کو فکری جھٹکا دیا کرتے تھے کہ کم از کم دل میں اپنی بات کے غلط ھونے کا احتمال پیدا ھوجائے اور پھر یھی احتمال ایک محرّک بن کرانسان کو اپنے خیال پر نظر ثانی کرنے کے لئے مجبور کردے ۔
حضرت عام طور سے استدلالی انداز سے وارد میدان ھوتے تھے اور استدلال کبھی عقلی ھوتا تھا تو کبھی نقلی ، کبھی جدل کی شکل میں تو کبھی منطقی ۔ حضرت کبھی خود براہ راست ان کے بڑوں کے مقابلے میں جاتے تھے جن کا اصرار ھوتا تھا کہ خود حضرت سے بحث کریں اور کبھی ان شاگردوں کو میدان میں بھیجتے تھے جن کی آپ نے تربیت کر رکھی تھی یا تربیت کررھے تھے ۔ یہ مطلب بھی قابل ذکر ھے کہ ایک قول کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام یونیورسٹی میں طلاب کی تعداد چار ھزار تھی۔ مرحوم شیخ مفید ۺنے فرمایا ھے کہ یہ چار ھزار شاگرد مختلف مو ضوعات میں تربیت شدہ تھے ۔ کلام اور مناظرات کلامی میں ھشام بن عبدالملک، ھشام بن سالم یا مومن طاق ،فقہ میں محمد بن مسلم ،زرارة ابن اعین اور زرارة کے بھائی حمران بن اعین، ادبیات میں آبان بن تغلب اور اس طرح دسیوں دوسرے افراد کہ جن کا تذکرہ ھم نے سیرئہ پیشوایان میں بھی کیا ھے، مختلف علوم میں مھارت رکھتے تھے۔ حضرت نے مختلف موضوعات میں (Specialization) یعنی تخصصی سلسلہ قائم کیا تھا ۔ فقہ ،کلام ، تفسیر، حدیث ، علم قرائت اور ادبیات وغیرہ اور جس علم میں بھی کوئی شخص رجوع کرتا تھا تو آپ اسے اپنے شاگردوں کی طرف بھیج دیتے تھے ۔ ایک جگہ ملتا ھے کہ ایک آنے والے کا اصرار تھا کہ خود حضرت سے بحث کرے گا۔ حضرت نے اس سے فرمایا: اگرتو نے میرے اس شاگرد کو شکست دے دی گو یا مجھے شکست دے دی ۔ آپ اس طرح کے ماھر شاگردوں کی تربیت کررھے تھے ۔


بعض نمونے

اب حضرت کے مخالفین سے مقابلہ کے کچھ نمونوں کا جائزہ لیتے ھیں ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس زمانے میں ایک گروہ دھریوں اور زندیقیوں کا تھا جو کسی بھی صورت میں خدا کو نھیں مانتے تھے۔ زندیق کی لغت کے بارے میں بعض کا خیال ھے کہ یہ کلمہ فارسی سے ماخوذ ھے ۔ حال ھی میں ناچیز کی ایک کتاب ” تاریخ اسلامی “کے نام سے یونیورسٹی نے شائع کی ھے۔ اس کتاب میں ھم نے پےغمبر اسلام (ص) کے زمانے کے ادیان و مذاھب کے بارے میں بحث کی ھے اسی ضمن میں زیدیق بھی زیر بحث آئے ھیں ۔اس کے حاشیہ میں بحث کی گئی ھے کہ یہ کلمہ زندیق کھاں سے آیا ھے ۔
انھیں زندیقوں میں ایک شخص عبدالکریم بن ابی العوجاء تھا جس کی معلومات کافی زیادہ تھیں اور وہ بھت ھی شاطر دماغ کا مالک تھا۔ کبھی ایسا بھی ھوتا تھا کہ حضرت کے شاگرد اس سے بحث کرنے میں اپنی بات ثابت نہ کرپاتے تو حضرت ھدایت کرتے تھے اور یہ جاکر اسے جواب دیتے تھے ،پھر وہ کھتا تھا کہ یہ بات جو تم کھہ رھے ھو وہ تمھارے ذھن کی نھیں ھے ۔یہ حجاز سے آئی ھے، یعنی تم امام صادق علیہ السلام سے پوچہ کر آئے ھو۔یہ تمھارے اپنے ذھن کی پیداوار نھیں ھے ۔
مومن طاق جو کوفہ (عراق)میں رھتے تھے، انھیں حضرت کی خدمت میں حاضری کا موقع کم ملتا تھا۔ ایک روز مدینہ (حجاز)میں حضرت کی خدمت میں پھونچے اور عرض کرنے لگے مولا! ابن ابی العوجا ء سے بحث چل رھی ھے۔ اس نے مجھ سے کھا کہ کیا ایسا نھیں ھے کہ جو شخص کسی چیز کو بنائے وہ اس کا خالق ھوا کرتا ھے ؟ میں نے کھا ھاں ! ایسا ھی ھے تو اس نے کھا کہ دو مھینہ مجھے وقت دو میں تمھارے سامنے ایک ایسی مثال پیش کروں گا جس سے تمھیں اندازہ ھوگا کہ میں بھی خالق ھوں ۔تم کھتے ھو خداایک ھے اوروھی خالق ھے لیکن میں تمھیں بتاوٴں گا کہ نھیں ایک دوسرا خالق بھی ھے اوروہ ابن ابی العوجاء ھے۔ امام نے فرمایا اس نے جوتم سے دو مھینہ کی مھلت مانگی ھے اس میں وہ دو بھیڑ کی کھالوں میں گندگی بھر کے رکہ دے گا اورپھر دو مھینے میں اس گندگی سے کیڑے ھی کیڑے پیدا ھوجائیں گے پھر وہ ان کھالوں کو لے کرتمھارے پاس آئے گا اور کھے گا کہ ان کیڑوں کو میں نے خلق کیا ھے ۔ قرآن نے جس بات پر زیادہ تاکیدکی ھے کہ خدا خالق موت وحیات ھے خصوصاً حیات کے بارے میں زیادہ تاکید ھے،” فاذا نفخت فیہ من روحی“ روح میری جانب سے ھے اورابن ابی العوجاء اس بات کو رد کر نا چاھتا ھے کہ خالق فقط ایک ھے ۔ وہ کھے گا کہ دیکھو یہ کیڑے زندہ موجود ھیں اور انھیں میں نے خلق کیا ھے ۔ تم مسلمان کھتے ھو کہ خالق ایک ھے جبکہ میں بھی ان کیڑوں کاخالق ھوں ۔ حضرت نے فرمایا جب یہ ان کھالوں کو لے کرتمھارے پاس آئے تو تم کھنا کہ ھم اگر کھتے ھیں کہ خدا خالق ھے تو ساتھ میں یہ بھی کھتے ھیں کہ وہ اپنی مخلوقات سے آگاہ ھے اوربنیادی طور پر ھر صانع اپنی مصنوع سے باخبر ھوتا ھے۔ خداکو اپنی مخلوقات کی ھر بات کاعلم ھے خواہ وہ چھوٹی سی بات ھو یا بڑی۔ اسے پتہ ھے کہ میری کون سی مخلوق نر ھے اورکون سی مادھ۔اب تم اگر اپنے اس دعوے میں سچے ھو کہ ان کیڑوں کو تم نے خلق کیا ھے تو بتاوٴ ان میں سے کتنے مذکر ھیں اور کتنے مونث۔
مومن طاق ایک دو ماہ بعدجب کوفہ لوٹے توابن ابی العوجاء کا وقت معینہ آگیاتھا اورجیسا کہ حضرت نے پیشنگوئی کی تھی ابی العوجاء گندگی سے بھری بھیڑ کی دو کھالیں لے کر آن پھونچا اورکھنے لگا مومن طاق!اب وقت آگیا ھے تمھیں تمھارے دعوے سے منحرف کرنے کا ۔مومن نے کھا:کھوکیا بات ھے ؟!اس نے کھا دیکھو !اورنے بھیڑ کی کھال کھول دی جو کیڑوں سے بھری ھوئی تھی۔ کھنے لگا دیکھو یہ زندہ موجودات ھیں اور انھیں میں نے خلق کیا ھے۔ تم جو یہ کھتے ھو خالق فقط خداھے، غلط ھے ۔مومن طاق بھی کہ جو امام صادق (ع)سے سیکہ کر آئے تھے ،کھنے لگے: ھر خالق کو اپنی مخلوق کا علم ھوتا ھے۔ تم یہ کھتے ھو کہ ان کیڑوں کو تم نے خلق کیا ھے۔ اگر ایسا ھے تو یہ بتاوٴ کہ ان میں سے کتنے مذکر ھیں اورکتنے مونث؟اس نے اس طرف سوچا تک نہ تھا کھنے لگا: یہ بات تو بڑی عجیب ھے لیکن یہ بات تمھاری نھیں ھے۔ اسے کوئی قافلہ مدینہ سے لے کر آیا ھے یعنی تم نے یہ بات جعفر بن محمد (علیھما السلام )سے سیکھی ھے ۔ پس حضرت کا ایک طریقہ یہ تھا کہ آپ تشریح کرتے تھے شاگردوں کو طریقہ بتاتے تھے حتیٰ آپ کے وہ شاگرد جو دور رھتے تھے ان کو بھی آپ تعلیم دیتے اورتربیت کرتے تھے۔
ابن ابی العوجاجب کبھی اصحاب امام سے منا ظرہ کرتا تھا تو جلدی ھار نھیں مانتا تھا۔ نئی سے نئی بات بنا لاتا تھااور کبھی کبھی حد سے تجاوز کرجاتا تھا مثلاً خداوپیغمبرکا انکار کرتا تھا تو امام کے اصحاب کا پیمانہ صبر لبریز ھوجاتا تھااور غصّہ میں آجاتے تھے پھر وہ کھتا تھا کہ تمھارے آقا جعفر ابن محمد (علیھما السلام )تو اس طرح نھیں ھیں ؟میں ان کے سامنے اس سے بھی بری باتیں پیش کرتاھوں مگر وہ کبھی غصّہ نھیں ھوتے ۔وہ بیٹھتے ھیں اور بحث کرتے ھیں ۔
ایک بارامام صادق علیہ السلام مکہ میں خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول تھے۔ ابن ابی العوجاء آیا اور امام کی طرف رخ کرکے کھنے لگا اس میں کون سی بات ھے کہ آپ بار بار اس کا چکر لگاتے ھیں ، پھر کھتا ھے کہ یہ گھر پتھر ھی سے تو بنا ھے جس کے گرد آپ لوگ گھومتے ھیں ۔ اِس پتھر میں اور اُس پتھر میں کیا فرق ھے جس کا بت بنا کراس کی پوجاکی جاتی ھے ۔ وہ لوگ پتھر کے بتوں کو پوجتے ھیں اور آپ لوگ پتھر کے بنے اس گھر کو خانہ خدا مان کر اس کا طواف کرتے اور اس کے گرد گھومتے ھیں ۔ اس کا کیا فائدہ ھے ؟ حضرت نے دیکھا کہ یھاں استدلال پیش کرنے کا مناسب موقعہ نھیں ھے لھذاآپ نے فرمایا ” اے ابن العوجاء ! ھم جو کھتے ھیں کہ خدا ھے ،بھشت ھے،قیامت ھے اور اگر یہ ھمارے عقیدے تمھاری فکر کے مطابق جھوٹے اور بے بنیاد ھوں تب بھی ھمیں کوئی نقصان نھیں ھوگا سوائے اس کے کہ ھم نے کچھ بے کار کام انجام دیئے ھوں گے لیکن دوسرے رخ سے بھی سوچو ! اگر وہ سب درست ھو جو ھم کھتے ھیں ،بھشت ھو ،جھنم ھو اورایک خالق ھو اور تم ان سب چیزوں کا انکار کرتے ھو، اگر یہ باتیں سچ ھوئیں تو تم کیا کرو گے اور تمھیں کتنا گھاٹا اٹھانا پڑے گا ؟ ابن ابی العوجاء یہ سن کر سُست پڑ گیا اور کھنے لگا صحیح بات ھے اگر یہ سب کچھ صحیح نکلاتو مجھے بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ حضرت نے اس کے ذھن کو جھٹکا دیا کہ کم سے کم اسے اپنی بات کے غلط ھونے کا احتمال ھو جائے ۔
ایک روز انھیں زندیقیوں میں سے ایک شخص امام کی خدمت میں آیا۔ اس کا نام عبدالملک بن عبدالله تھا۔وہ حضرت سے بحث کرنا چاھتا تھا۔ حضرت نے پھلے ھی اس سے اس کے نام کے بارے میں سوال کر دیا: ” تم کون ھو اورتمھارا نام کیا ھے ؟ اس نے کھا :عبدالملک بن عبدالله۔ امام نے سوال کیا :پھلے مجھے یہ بتاؤ کہ یہ ملک کون ھے جس کے تم بندے ھو؟یہ آسمان کا ملک ھے یازمین کا ملک ھے ؟ چونکہ ملک اور بادشاہ سے مراد یھاں پر ذات خدا وند تھی اسی لئے آپ نے پوچھا کہ پھلے مجھے بتاؤ کہ تم جس بادشاہ کے غلام ھووہ کون سا بادشاہ ھے؟ حضرت کبھی کبھی ان کے نام کو ھی مرکز بنا کر بحث شروع کردیتے تھے اس لئے کہ وہ اپنے نام کو تو کم سے کم مانتے ھی تھے ۔ پھر آپ نے فرمایا: تمھارے باپ کا نام عبدالله ھے ۔یہ کس خدا کا بندہ ھے اور وہ خدا کھاں کا خدا ھے ؟ آسمان کا خدا ھے یا زمین کا ؟ وہ کون سا خدا ھے جس کا یہ بندہ ھے ؟ پھلے مجھے ان سب کا جواب دو پھر مجھ سے بحث کرنا ؟ وہ شخص مات و مبھوت رہ گیا اور بحث اپنے اگلے مرحلے میں داخل نہ ھوسکی ۔ امام نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ وہ سمجھنے کے لئے نھیں بلکہ فقط بحث و جدال کرنے کے لئے آیا تھا۔
حضرت موقع محل دیکہ کر اس طرح سے بھی مخالفین کا مقابلہ کرتے تھے ۔ چونکہ محاذ مختلف تھے ،افراد مختلف تھے لھٰذا ان سے مقابلے کے لئے آپ مختلف طریقے اختیار کیا کرتے تھے۔دوسرے فرقوں اور فکری محاذوں پر بھی آپ اسی طرز استدلال سے اپنی بات پیش کرتے یا دفاع کرتے تھے۔ میں آپ کے مناظروں میں سے نمونہ کے طور پر ابو حنیفہ سے ھونے والا ایک مناظرہ پیش کرتا ھوں ۔ یہ احتجاج طبرسی میں ھے۔ آپ کے علم میں ھوگا کہ احتجاج طبرسی ان مناظرات سے مخصوص ھے جو چھارہ معصومین (ع) نے مختلف ابواب میں انجام دیئے ھیں ۔یہ ایک اچھی اور قیمتی کتاب ھے ۔ اگر اس کا مطالعہ کرنا چاھیں تو تحقیق شدہ ایڈیشن کا مطالعہ کریں ۔ میرے پاس نجف کا پرانہ ایڈیشن ھے لیکن امام صادق (ع) فاونڈیشن قم سے سات آٹھ سال قبل اس پر تحقیق کی گئی ھے اور محققین سے جھاں تک ھو سکا ان مناظرات کے مصاور ڈونڈ ہ نکالے ھیں ۔
احتجاج طبرسی میں امام کا ابو حنیفہ کے ساتھ ھونے والا مناظرہ نقل ھوا ھے ۔میں نے عرض کیا کہ ابو حنیفہ اھل قیاس تھے یعنی مسائل کو ایک دوسرے سے جوڑتے تھے اور پھر جس مسئلے کا حکم معلوم ھوتا تھا اس کے مشابہ مسئلے پر اسی کے مشابہ حکم لگادیتے تھے۔اس طرح ابو حنیفہ کے اکثر فتوؤں کا مبنیٰ راٴی اور قیاس ھے، برخلاف حنبلیوں کے کہ وہ حدیث اور منقول سے زیادہ استفادہ کرتے ھیں ۔حنبلی سب سے پھلے قرآن سے استناد کرتے ھیں اور وہ بھی ظواھر قرآن سے مثلاً قر آن میں آیا کہ ” اولا مستم النساء “ یعنی جن چیزوں کے بعد نماز کے لئے غسل یا تیمم کرنا ضروری ھے ان میں ”لمس النساء“ بھی ھے ۔یھاں لمس سے مراد جماع ھے لیکن حنبلیوں کے بقول لمس سے مراد وھی لمس کرنا اور چھونا ھے ۔
” افق حوزہ “ میں ابھی حال ھی میں علامہ عسکری کا سوڈانی علماء سے مناظرہ شائع ھوا ھے ۔علامہ نے سوڈانی علماء سے بحث کی تھی جن میں سے ایک شافعی تھے ۔علامہ نے ان سے پوچھا کہ امام شافعی کا فتویٰ ھے کھ” لمس النساء“ سے وضو باطل ھو جاتا ھے ۔ شافعی نے یہ بات کھاں سے اخذ کی ھے کہ عورت کو چھونے سے وضو باطل ھو جاتا ھے۔ شافعی عالم جواب دیتے ھیں کہ اس آیت کے ظاھر سے ” اولا مستم النساء “ ۔ یہ شافعی تھے اسی طرح حنبلی افراد ظواھر آیات اور ظواھر روایات سے بھت زیادہ چپکے ھوئے ھیں ۔ مجاز کو نھیں مانتے۔ھر مجاز کو حقیقت پر حمل کرتے ھیں جبکہ ھر زبان میں مجاز کا استعمال عام ھے ۔
بھر حال ابو حنیفہ اھل قیاس تھے۔ امام (ع) ابو حنیفہ کو سمجھانا چاھتے تھے کہ قیاس نہ کیا کرے۔ ھر جگہ قیاس سے صحیح نتیجہ اخذ نھیں ھوتا ھے اور فقہ و فتویٰ وحی سے ماخوذ ھونا چاھیئے نہ کہ اپنی ذاتی راٴی سے۔ اسے سمجھانے کے لئے آپ نے ابو حنیفہ سے چند سوالات کئے۔آپ نے پوچھا کہ بتاؤ نفس محترمہ کے قتل میں گناہ زیادہ ھے یا زنا میں ۔ابو حنیفہ نے کھا : قتل میں اور یہ درست بھی ھے۔ خدا وند متعال فرماتا ھے ” مَنْ قَتَلَ نَفَساً۔ ۔ ۔ ۔ فَکانَّما قَتَلَ الناس جمیعاً “ ( جو کسی ایک انسان کو قتل کرے گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کردیا ھے ) یا دوسرے مقام پر فرماتا ھے:” ومن یقتل مومناً متعمّداً فجزا ئہ جھنم خالدًا فیھا “ ( جو کسی بندئہ مومن کو جان بوجہ کر قتل کردے اس کی سزا جھنم ھے جھاں وہ ھمیشہ رھے گا ) ۔ حضرت نے پوچھا کہ قتل کا مفسدہ اور گناہ زیادہ ھے یا زنا کا ؟ابو حنیفہ نے کھا :قتل کا ۔آپ نے فرمایا : اگر ایسا ھے تو پھر کیوں قتل کے ثبوت کے لئے دو گواہ کافی ھوتے ھیں لیکن زنا کے ثابت ھونے کے لئے چار گواھوں کا ھونا ضروری ھے ؟ اگر اس مسئلے کو عقل سے حل کر سکتے ھو تو کرکے دکھاؤکہ اس کا راز کیا ھے ؟ ابو حنیفہ کوئی جواب نہ دے سکے ۔
حضرت نے پھر پوچھا کہ بتاؤ منی کی نجاست زیادہ ھے یا پیشاب کی ؟ ابو حنیفہ نے کھا : پیشاب کی۔آپ نے فرمایا : اگر پیشاب کی نجاست زیادہ ھے تو ایسا کیوں ھے کہ پیشاب کے بعد صرف نجس مقام دھل دینا کافی ھے لیکن منی نکلنے کے بعد غسل کرناواجب ھے ؟ عقلی بنیا د پر بڑی نجاست کے ازالہ کے لئے غسل کا حکم ھونا چاھیئے جب کہ ایسا نھیں ھے۔ ایسا کیوں ھے ؟
پھر حضرت نے تیسرا سوال کیا کہ بتاؤ نماز کی اھمیت زیادہ ھے یا روزہ کی ؟ ابو حنیفہ نے کھانماز کی ۔ آپ نے فرمایا : اگر نماز کی اھمیت زیادہ ھے تو پھر ایسا کیوں ھے کہ عورت سے حالت حیض میں جو نمازیں چھوٹتی ھیں اس پر ان کی قضاواجب نھیں ھے لیکن مذکورہ حالات میں جو روزے چھوٹتے ھیں ان کی قضا واجب ھے ؟ عقل کی روشنی میں نماز کی قضا واجب ھونی چاھیئے اس لئے کہ نماز کی اھمیت روزہ سے زیادہ ھے ۔ امام (ع) ابو حنیفہ کو متوجہ کرنا چاھتے تھے کہ عقل اور قیاس کو بنیاد بنا کر سارے کے سارے فقھی مسائل حل نھیں کئے جاسکتے۔
جو حضرات کچھ دیر سے تشریف لائے ھیں ان کی خدمت میں عرض کردوں کہ ناچیز کو جھاں کھیں بھی کسی جلسے میں تقریر کے لئے بلا یا جاتا ھے تو اگر بانیان جلسہ کی طرف سے کوئی پابندی نہ ھوتو میں جلسے کا زیادہ وقت سامعین کے سوالات کے لئے مخصوص کردیا کرتا ھوں خاص طور سے اس طرح کے علمی جلسات میں ۔ میرا خیال ھے کہ اس طرح کے جلسات میں مقرر کی گفتگو کم سے کم ھونی چاھیئے اس لئے کہ نھیں معلوم جو باتیں مقررپیش کر رھا ھے و ہ سامعین کے لئے مفید بھی ھیں یا نھیں ؟ ھو سکتا ھے سننے والوں کے نزدیک ان کے اذھان میں موجودسوالات کی ا ھمیت مقرر کی گفتگو سے زیادہ ھو لھٰذا میرے خیال سے جلسہ کا بقیہ وقت سوالات و جوابات سے مخصوص کردیا جائے تاکہ اپنی استطاعت بھر آپ کے سوالات کے جوابات عرض کیئے جا سکیں ۔


سوالات و جوابات سوال :

امام صادق علیہ السلام کے پاس چار ھزار شاگرد تحصیل علم کرتے تھے،کیااتنے افراد آپ کی نصرت کے لئے کافی نھیں تھے کہ آپ قیام فرماتے ؟

جواب : اس سوال کا جواب ھم نے سیرئہ پیشوایان میں دیا ھے۔ یہ جو کھا جاتا ھے کہ آپ کے شاگردوں کی تعداد چارھزار تھی ۔یہ مجموعی تعداد بتائی جاتی ھے۔ ایک وقت میں ایک جگہ چار ھزار شاگرد نھیں تھے ۔شاگردوں کا ایک گروہ آتا تھا کسب فیض کرکے چلاجاتا تھا پھر دوسرا گروہ آجاتا تھا ۔اس طرح شاگردوں کے لئے آپ کا دروازہ کھلارھتاتھا لوگ آتے تھے اور کسب فیض کرکے چلے جاتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ ھرشخص میں اپنی مخصوص صلاحیت ھوا کرتی ھے ۔ اگریہ سب لوگ مثلاً فلسفہ اور کلام یا دیگر علوم میں استادانہ صلاحیت رکھتے تھے تو اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ فنون حرب میں بھی مھارت رکھتے تھے ۔ یہ سب علمی شخصیات تھیں ۔ فوجی صلاحیت بعض میں تھی لیکن بعض میں نھیں تھی ۔
ابو مسلم خراسانی اور ابو سلمہ خلال نے بنی عباس کے قیام کے آغاز میں آپ کو تحریک کی اورقیادت سنبھالنے کی پیشکش کی لیکن آپ نے اسے قبول نھیں کیا ۔بھر صورت ایک ایسی فوجی طاقت امام کے پاس نھیں تھی جس کے ذریعہ اسلامی حکومت تشکیل دی جاتی اور اسے چلایا جاتا ۔

سوال:قرآن مجید نے الله کی راہ میں قیام کرنے پر بھت تاکید کی ھے خواہ افرادکی تعداد اور قوت کم ھی کیوں نہ ھو ” قل انما اعظکم بواحدة ان تقوموا للّہ مثنیٰ و فرادیٰ“۔امام حسین(ع) نے مختصر ساتھیوں سمیت یزید کے خلاف قیام کردیا لیکن چٹھے امام نے کیوں نھیں قیام فرمایا ؟

جواب : کسی بھی کام کے لئے ماحول ساز گار ھونا بھت ضروری ھے، امام حسین(ع) نے بھی معاویہ کے دور حکومت میں دس سال تک قیام نھیں کیا ! اس دور کے حالات کو میں نے سیرۂ پیشوایان میں ذکر کیا ھے کہ معاویہ کے زمانے میں امام حسین(ع) کے قیام کا نہ ھی کوئی امکان تھا اور نہ ھی فائدہ ،لیکن یزید کے زمانے کے جو حالات تھے وہ جنگ اور اس کے خلاف قیام کے لئے مفید تھے ۔ معاویہ کے زمانہ میں ایسے حالات قطعاً نھیں تھے ۔ جنگ کے لئے ضروری شرائط ھوا کرتے ھیں تاکہ قیام مفید ھو سکے۔ اس طرح کے حالات امام صادق(ع) کے زمانہ میں فراھم نہ تھے ۔

سوال :ثقافتی یلغار کی تعریف کیا ھے ؟ اس کے تحت کیا کیا چیزیں آتی ھیں ؟

جواب : چند سالوں سے اسلامی جمھوریہ ایران میں یہ اصطلاح خاصی رائج ھے۔ ”ثقافتی یلغار “ (Cultural Attack)کلچر یا تھذیبی طرز فکرکے رائج کرنے کو کھا جاتا ھے ۔ایک فوجی حملہ ھوتا ھے اور ایک ثقافتی حملہ ۔کسی ملک پر لشکر کشی اوربمباری وغیرہ فوجی حملہ ھے جیسے امریکہ کا افغانستان پر حملہ آور ھو کر اس پر قابض ھونا یا عراق پر حملہ کرنا لیکن فوجی حملہ کے ساتھ ساتھ امریکہ ثقافتی یلغاربھی کرتا ھے ۔خبریں مل رھی ھیں کہ انھوں نے افغانستان میں تھذیبی سرگرمیاں شروع کردی ھیں ۔ فوجی حملہ کرکے اس وقت عراق پر قابض ھے لیکن ثقافتی یلغاربھی جاری ھے ۔ خبروں میں تھا کی عراق کی عبوری حکومت کے ایک رکن نے ایک امریکی چینل پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ھے اس لئے کہ یہ چینل فحاشی کو فروغ دینے میں مصروف ھے اور اس طرح اپنی تھذیب کو رائج کرنا چاھتا ھے ۔ تھذیبی حملہ ایک ایسا حملہ ھوتا ھے جس میں کسی گھر یا علاقہ پر قبضہ نھیں کیا جاتا بلکہ آدمی کی فکر پر قبضہ کیا جاتا ھے ۔ ایران میں بھی یہ کام مختلف ذرائع سے کیا جا رھا ھے اور اس پر امریکہ ایک بڑا بجٹ صرف کرتا ھے جس کے نتیجہ میں آپ ملاحظہ کررھے ھیں ۔اسلامی جمھوریہ ایران میں مختلف شکوک و شبھات اچھالے جاتے ھیں ۔دین کے لئے اپنی اپنی فکر پےش کی جاتی ھے جو کہ واقعاً ایک بڑی خطرناک چیز ھے ۔کھتے ھیں کہ تم جو قرآن کی تفسیر کررھے ھو کیسے معلوم کہ یہ تفسیر صحیح ھے میں جو تفسیر کرتا ھوں وہ صحیح ھے ۔ آپ کا اجتھاد خطا ھے میرا اجتھاد صحیح ھے۔ اسلام کے لئے اپنا اپنا مفھوم پیش کرنا واقعاً خطر ناک ھے ۔
کھتے ھیں کہ یزید نے امام حسین(ع) کو اس لئے قتل کیا کیونکہ امام حسین(ع) کے نانا رسول الله (ص) نے جنگ بدر و احد وغیرہ میں یزید کے اجداد کو قتل کیا تھا۔ یزید نے بھی آکے انتقام لے لیا ”ضربة بضربة“جب کہ آپ جانتے ھیں کہ ایسا کچھ بھی نھیں تھا۔ پیغمبر نے اگر اس وقت انھیں مارا تھا تو اس لئے کہ وہ کفر و نفاق کی نمائندگی کرتے ھوئے آپ کے مقابلے میں آئے تھے ۔ اس طرح افکار پر قبضہ کرنے کو تھذیبی حملہ کھتے ھیں جو جمھوری اسلامی ایران اور افغانستان میں پوری طاقت سے کیا جارھا ۔