نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی مسئلہ (ایک تحقیقی جائزہ)-دوسری قسط

عالمی مجلس اہل بیت ,اہل بیت علیہم السلام  کی رکاب میں  (۲۱)
نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی مسئلہ (ایک تحقیقی جائزہ)-دوسری قسط
تالیف : تحقیقی کمیٹی  ، ترجمہ: شیخ محمد علی توحیدی

دوسری قسط-

ہاتھ باندھنے  کے جواز  میں  دئے گئے دلائل
جو حضرات نماز میں ہاتھ باندھنے کو جائز یا مستحب سمجھتے ہیں  وہ  کچھ احادیث  و روایات کے علاوہ  استحسان کی بعض صورتوں  سے استدلال کرتے ہیں  جیساکہ نووی  کہتے ہیں : ہمارے علماء  کہتے ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنا  اسے  فضول حرکات سے محفوظ رکھنے کا  نیز تواضع  اور عاجزی کے اظہار کا بہتر طریقہ ہے ۔( دیکھئے : نووی کی المجموع  ، ۳/۳۱۳)
ان حضرات نے جن  روایات  اور استحسانی صورتوں سے استدلال  کیا ہے ان کا درج ذیل طریقے سے  تحقیقی  جائزہ   لینا  ضروری ہے ۔
الف ۔ احادیث سے استدلال
نماز میں ہاتھ باندھنے  کے طرفداروں  نے جن روایات سے استدلال کیا ہے ان میں سب سے اہم  روایات تین ہیں :
۱۔ سہل بن سعد کی حدیث جو صحیح بخاری میں مروی ہے۔
۲۔ وائل بن  حجر کی حدیث  جو صحیح مسلم  میں مروی ہے۔ اسے بیہقی نے  تین اسانید کے ساتھ  نقل کیا ہے ۔
۳۔عبد اللہ بن مسعود کی حدیث  جسے بیہقی  نے سنن  میں نقل کیا ہے ۔
پہلی حدیث :سہل بن سعد کی حدیث
بخاری نے  ابن حازم سے روایت کی ہے کہ  سہل بن سعد نے کہا : لوگوں  کو حکم  دیا جاتا تھا کہ مرد حضرات نماز میں  دایاں ہاتھ  اپنے بائیں  بازو   پر رکھیں۔
ابو حازم  (راوی)  کہتا ہے : جہاں تک  میں  سہل کو جانتا ہوں  وہ اس روایت  کی نسبت  رسول اللہ ﷺ کی طرف  ہی دے گا(یعنی وہ رسول کی سنت کو نقل کرے گا،کسی اور کی نہیں )-( دیکھئے : ابن حجر کی فتح الباری  فی شرح  صحیح البخاری ۲/۲۲۴، باب وضع الیمنی علی الیسری  ،بیہقی کی  السنن الکبریٰ  ۲/۴۴، باب وضع الید الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ  ،ح  ۲۳۲۶، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ  ،بیروت، اشاعت اول  ،سال ۱۴۱۴ ھ )
ٍاسماعیل(  اسماعیل  بن  اویس بخاری کے استاد  تھے  جیساکہ حمیدی نے کہا ہے۔  دیکھئے :فتح الباری ۲/۲۲۵)  کا بیان ہے کہ  : ابو حازم  نے  یَنْمیْ  (وہ نسبت دے گا) نہیں کہا ہے بلکہ یُنْمیٰ (نسبت دی جاتی  ہے ) کہا ہے ۔
یہاں یہ دیکھنا ہوگا  کہ کیا یہ حدیث مطلوب پر دلالت کرتی ہے  ؟
حدیث کا راوی  حدیث کی ابتداء  میں کہتا ہے :  ’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا ۔‘‘
سوال یہ ہے کہ  حکم دینے والا کون تھا ؟ کیا  حکم دینے والے سے مراد نبی ہیں  یا صحابہ  ؟
ابن حجر اس سوال  کا جواب یوں  دیتے ہیں  :
جب ایک صحابی یہ کہتا ہے : ہمیں فلاں  حکم دیا جاتا تھا  ،تو بظاہر اس سے مراد اس شخص کا حکم ہے جو حکم دینے کا حق اور اختیار ؛ رکھتا ہو ۔ظاہر ہے کہ یہ رسول  ہی ہوسکتے ہیں  ۔ پس صحابی کے اس قول کا مقصود رسولﷺ ہیں  کیونکہ  یہاں  صحابی شریعت کا حکم بیان کرنے کے درپے ہے۔ لہذا   وہ اپنے کلام کو  اس شخص  سے منسوب کرے گا جو شریعت  لے آیا ہو ۔حضرت عائشہ کا یہ قول بھی اسی نوعیت کا ہے : ’’ہمیں  روزے کی قضا کاحکم دیا جاتا تھا ‘‘ اس کلام  کا مقصد بھی یہی  لیا جائے گا کہ حکم دینے والا رسول اللہﷺ تھے ۔( دیکھیے فتح الباری ۲/۲۲۴)
یہ اہل سنت کے اکثر علماء کا نظریہ ہے جیساکہ سیوطی نے تدریب الراوی میں اس کی تصریح کی ہے۔
( دیکھیے تدریب الراوی ،ص ۱۱۹،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت ،سال ۱۴۱۴ھ)
ابن حجر کی یہ تاویل  ظن و گمان  پر مبنی  بے تکی بات ہے جو ارباب ِخردد سے پوشیدہ نہیں،  خاص کر اس وقت جب ہر صحابی کے جملہ  حالات پر اس کی تطبیق کی جائے ۔ جب کوئی صحابی  یہ کہے : ہمیں  فلاں  چیز کا حکم  دیا جاتا تھا ‘‘ تو ہم یہ بات  کیونکر  ثابت کرسکتے ہیں  کہ حکم دینے  والا رسول ہی تھے ؟ بنابریں  مذکورہ جملہ  مجمل ہے  اور اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صحابی  نے رسول اللہﷺ کے اوامر  کو بیان  کرنے کے لئے ایسا کہا  تھا ۔
عین ممکن  ہے کہ  اس صحابی نے دیگر  صحابہ  کے فتوؤں اور اوامرکو نقل کیا ہو   یعنی جن امور  کا اس  صحابی  کو علم  حاصل نہیں تھا  ان کے بارے میں  اس نے  دیگر اصحاب سے استفسار کیا ہو  اور انہوں   نے اس مسئلے  میں  فتوی دیتے ہوئے اس سے کہا ہو :’’ ایسا  کرو ۔۔۔‘‘
 اگر کوئی صحابی شریعت کا حکم بیان کرنے کے درپے ہوتو  اسے چاہیے کہ اس حکم کو براہ راست نبی ﷺسے منسوب کرے کیونکہ  صحابی کا مقصد نبی کے اوامر کو براہ راست بیان کر کے  شریعت کی ترجمانی کرنا ہے یا صحابہ  کے  ان اوامر   کو بیان کرکے شریعت کی  ترجمانی کرنا جو ان کے اپنے  فہم کے مطابق  سنت رسول یا  صحابہ کی روایت کردہ احادیث رسول سے  ماخوذ ہیں ۔
پس جب کوئی صحابی یہ کہتا ہے : ہمیں  فلاں حکم دیا جاتا تھا ‘‘ تو اس کا  یہ بیان رسول ﷺکے اوامر کی ترجمانی کے مقابلے  میں صحابہ کے اوامر کی ترجمانی  پر زیادہ  واضح دلالت  کرتا ہے  کیونکہ  صحابی کے  نزدیک  اس کے لئے یہ بات  زیادہ باعث  شرف  اور باعث  افتخار  ہے کہ  وہ نبی  کے اوامر  کو براہ راست نقل کر  کے  حضور کے ساتھ نسبت کا  اظہار کرے۔پس اگر کوئی صحابی، رسول کے  اوامر کو بیان کرنے کے درپے ہوتو اس کے لئے یہ بات زیادہ بہتر ہے کہ وہ اس کا صریح  اظہار کرے اور مبہم گفتگو سے احتراز کرے ۔
سیوطی نے اپنی کتاب تدریب الراوی  کے اندر اس موضوع کے بارے میں  کسی سائل کے  ایک سوال کو رد کیا ہے۔  وہ سوال یہ ہے : ان موارد میں  صحابی نے یہ کیوں  نہیں کہا  : رسول اللہ  نے یہ فرمایا ہے ؟ سیوطی نےاس کایہ جواب دیا ہے:صحابہ نے احتیاط اورپرہیز گاری کی رعایت کے پیش نظر قطعی گفتگوسے اجتناب کیا ہے۔( دیکھیے تدریب الراوی ،ص ۱۲۰)
ملاحظہ ہو کہ سیوطی کا یہ جواب خود اس کےحق میں جانےکی بجائےسائل کےحق میں جاتاہے کیونکہ صحابی نے( سیوطی کے قبول) اس قسم کےموارد میں صریح نص کوذکر کرنے سے تو پرہیز کیا ہے لیکن حکم کو بطور قطع بیان کرنے سے پرہیزنہیں کیا۔
پس اگر صحابی کو یہ  یقین ہوتا کہ یہ رسول کا بیان  کردہ  حکم ہے تو وہ کہہ سکتا تھا :’’ ہمیں  نبی نے یہ حکم دیا تھا ‘‘ اگر چہ وہ  نبی کے  الفاظ  کو بیان نہ کرے۔ صحاح ستہ  میں مذکور   متعدد  احادیث  کا انداز بیان  یہی ہے ۔پس اس قسم کے اوامر  میں  نبی کا نام لینے  سے صحابی  کا احتراز  ایک  نکتے پر دلالت کرتا ہے   جو اس احتراز  کی وجہ  بنا ہے  ۔یہ اس بات پر زیادہ دلالت کرتا ہے  کہ  مذکورہ حکم  نبی سے نہیں بلکہ  کسی صحابی  سے  صادر ہوا ہے ۔اگر ایسا نہیں  تو کم از کم یہ   بیان مجمل ہوکر رہ جاتا ہے ( کہ حکم  کا ماخذ کیا ہے ؟) ظاہر ہے کہ اس اجمال اور ابہام کی موجودگی  میں ہمارے لئے  یہ جائز  نہیں کہ  ہم  ان اوامر  کو رسول کی طرف نسبت  دیں ۔ اس صورتحال میں   جو فقہی  نتیجہ مرتب  ہوتا ہے  وہ یہ ہے کہ اس  طرح  کے اوامر  پر مبنی احادیث  کے ذریعے ہم  کسی  شرعی حکم   کے اثبات  پر براہ راست  استدلال  نہیں کرسکتے  ۔البتہ  ہم انہیں  دیگر دلائل کی تائید کے لئے قرینہ  اور مؤید  قرار دے  سکتے ہیں  ۔
یہ تھا اس قسم کی احادیث کے بارے میں  ایک کلی اور عمومی  نقطہ نظر  ۔رہی بات  سہل  بن سعد کی اس خاص حدیث کی   تو  اس میں  ایک اضافی نکتہ موجود ہے جو اس  بات کی گواہی  دیتا ہے  کہ مذکورہ  حکم  نبی ﷺ  سے صادر نہیں ہوا۔یہ نکتہ  حدیث کے آخر میں  ابن حازم کا یہ تبصرہ ہے : ’’جہاں تک میں سہل کو جانتا ہوں  وہ   اس حدیث کی نسبت رسول کی طرف  ہی دے گا ۔‘‘ اس کی وجہ  یہ ہے  کہ ابن حازم  کے اس کلام  سے پتہ چلتا ہے کہ سہل  بن سعد کی یہ حدیث بذات خود  اس بات کو ثابت  نہیں  کرتی کہ مذکورہ حکم  نبی ﷺسے صادر ہوا ہے کیونکہ  جہاں  اس  بات کا احتمال  ہے  کہ یہ حکم رسول سے صادر ہوا ہو وہاں  اس بات کا بھی   احتمال ہے کہ کسی اور سے صادر ہوا ہو ۔
اس شک اور تردد کو ختم کرنے  اور اپنے ذاتی  خیال کو بیان کرنے کے لئے  ابو حازم کو یہ تبصرہ داغنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس حدیث میں سہل بن سعد کا اصل مقصود رسول اللہ  ﷺہیں  جن کی طرف حدیث میں مذکور  حکم کو منسوب کیا گیا ہے ۔ اس تبصرے کے ذریعے ابو حازم نے  اس احتمال کا  دروازہ بند کرنے کی کوشش کی ہے  کہ یہ  حکم نبیﷺ سے نہیں  بلکہ کسی  اورشخص  سے صادر  ہوا ہے ۔
ان بیانات کی روشنی میں  یہ  بات واضح  ہوتی ہے کہ  اوامر  والی احادیث  ،اصولی طور پر مجمل ہیں  اور ان اوامر کو نبیﷺ سے منسوب کرنے کے لئے مضبوط دلیل درکار  ہے ۔ ابو حازم نے اپنے نقطہ نظر کے حق میں  کوئی دلیل  پیش نہیں کی ۔پس اس کا کلام  خود اس کے برخلاف جاتا ہے ۔ یہ کلام  اس کے عقیدے کو دوسروں کے لئے ثابت کرنے  کی خاطر دلیل  اور حجت نہیں بن سکتا ۔
خلاصہ  یہ کہ زیر بحث مسئلے میں   سہل بن سعد کی حدیث سے  استدلال  نہیں کیا جاسکتا  ۔
دوسری حدیث:وائل بن حجر کی روایت
یہ حدیث مختلف صورتوں میں نقل ہوئی ہے ۔
مسلم نے وائل بن حجر سے نقل کیا ہے کہ اس نے نبی کریم ﷺ کو یوں  نماز پڑھتے ہوئے دیکھا  کہ آپ نے نماز شروع کرتے ہوئے ہاتھوں  کو اُٹھا کر تکبیر  کہی  پھر اپنی اوڑھنی  اُوڑھ لی۔  پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ۔رکوع کرتے وقت آپ نے  اپنے ہاتھوں کو  اوڑھنی سے باہر نکالا  پھر انہیں اوپر اُٹھایا  ، پھر تکبیر  کہی اور رکوع  کیا۔
( صحیح مسلم۱/۳۸۲،باب ۱۵ ، کتاب الصلاۃ ،باب وضع  یدہ الیمنی علی الیسری ،مطبوعہ موسسہ عزالدین ،بیروت ،سال ۱۴۰۷ ھ)
اس حدیث کا  ایک راوی ’’ہمام ‘‘ہے ۔ اگر اس سے مراد  ہمام بن یحییٰ ہو تو ابن  عمار نے اس کے بارے میں  کہا ہے :
یحیی بن قطّان  کی نظر میں  ہمام  کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔عمر بن شیبہ  کہتے ہیں  :  ہم سے عفان  نے کہا : یحیی  بن سعید  ہمام کی بہت ساری احادیث پر معترض تھا ....ابو حاتم  کا بیان ہے : وہ قوت حافظہ  کے زاوئے  سے موثق اور سچا ہے۔( دیکھئے : ہدی الساری۱/۲۶۷)
یہی حدیث  دیگر مآخذ  مثلاً  سنن  بیہقی  (سنن بیہقی ۲/۴۳) میں(مذکورہ شواہد کے بغیر )  وائل  بن حجر سے مروی ہے ۔
بیہقی نے  تین  احادیث   نقل کی  ہیں جن  کی سند وائل بن حجر پر منتہی  ہوتی ہے ۔
پہلی روایت  کا ایک راوی  ہمام ہے  جس کے بارے میں   تبصرہ ہوچکا ہے  ۔
دوسری روایت  کا  ایک راوی عبد اللہ بن جعفر ہے  ۔عبد اللہ سے مراد  ابن نجیح ہو تو  اس کے بارے میں  ابن معین  کہتے ہیں : اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ نسائی اس کے بارے میں  فرماتے ہیں : وہ  متروک ہے اور وکیع اس کی حدیث پر پہنچتے تھے  تو اسے کاٹ کر پھینک  دیتے تھے  ۔اس کے ضعیف ہونے پر  سب کا اتفاق ہے ۔( دیکھئے : تہذیب  التہذیب  ۵/۱۷۴، حرف عین،  نمبر  ۲۹۸)
تیسری روایت  کی سند میں  عبد اللہ بن  رجاء واقع ہواہے  جس کے بارے میں   عمرو بن علی فلاس  کہتے ہیں : اس کی فضول باتیں  اور غلطیاں  بہت زیادہ ہیں  ۔وہ  حجت نہیں ہے (دیکھئے : ہدی الساری ۱/۴۳۷)
تیسری حدیث : عبد اللہ بن مسعود کی روایت
بیہقی نے اپنی سند  کے ساتھ ابن مسعود سے روایت  کی ہے کہ موصوف نے  نماز میں  اپنا بایاں  ہاتھ دائیں ہاتھ  پر رکھا ۔ نبیﷺنے یہ دیکھا اور ان کے دائیں  ہاتھ کو   بائیں  کے اوپر رکھا۔( سنن بیہقی ۲/۴۴، ح ۲۳۲۷، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت ،اشاعت اول، سال ۱۴۱۴ھ)
تبصرہ :
اولاً  : یہ بات  بعید از قیاس  ہے کہ  عبد اللہ  بن مسعود  جیسے  جلیل القدر صحابی  کو یہ معلوم  نہ ہو  کہ نماز میں  کیا چیز مسنون  ہے  حالانکہ  ان  کا شمار  دین اسلام کے سابقین میں  ہوتا ہے ۔
ثانیاً : اس حدیث کی سند میں  ہشیم بن بشیر واقع  ہوا ہے  جو تدلیس  میں  معروف  ہے۔( دیکھئے : ہدی الساری۱/۴۴۹)
یہ وہ اہم روایات تھیں  جن سے نماز میں  ہاتھ باندھنے کے حق میں  استدلال کیا جاتا ہے ۔ان کے علاوہ  کچھ روایات  اور ہیں  جن کی سند اور متن  پر اعتراضات وارد ہوتے ہیں ۔
ب۔ استحسانی صورتوں سے استدلال
نماز میں ہاتھ باندھنے  کے قائل علماء  نے’’ قاعدۂ استحسان ‘‘  کی  بعض صورتوں  سے بھی استدلال کیا ہے ۔چنانچہ وہ کہتے ہیں :  ہاتھ پر ہاتھ رکھنا  ہاتھوں کو فضول  کاموں  سے بچانے کا اور تواضع  و عاجزی کے اظہار  کا بہتر طریقہ ہے ۔
تبصرہ : اگر اس قسم  کی باتوں سے شریعت کی تعلیمات  ثابت ہوتیں  تو دین  نیست و نابود  ہوجاتا  ۔انسان کی ذمہ داری تو بس  یہ ہے کہ  وہ خود شریعت  کے آگے سرتسلیم  خم  ہو ۔اگر انسان  کی ذوقیات اور اس کی پسند کو حلال و حرام کا معیار  قرار دیا جائے تو اُلٹا  نتیجہ  نکلے گا    یعنی بجائے  اس کے کہ انسان شریعت کا تابع  بن جائے شریعت  اس کی تابع بن جائے گی ۔
گاہے انسان کو تصویر کا ایک  رُخ پسند  آجاتا ہے لیکن  اس کے دوسرے رخ جو زیادہ  اہم اور بڑے ہوتے ہیں  اس کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں ۔ پس ہم  یہ کیسے ثابت کرسکتے ہیں  کہ شریعت  نے  اس استحسانی صورت  کو پسند کیا ہے  اور ہماری  نگاہوں  سے مستور   دیگر استحسانی صورت یا صورتوں  کو  جو گاہے زیادہ  اہم  اور بڑی ہوں  پسند نہیں فرمایا  ہے ؟
اس کی مثال  وہ قول  ہے  جسے  قرطبی  نے  نماز میں  ہاتھ باندھنے کی ردّ میں ذکر کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں  : ہاتھ  باندھنا  مدد لینے سے عبارت ہے  اور اسی وجہ سے  یہ نماز  کے افعال کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔( بدایۃ المجتہد ،۱/۱۳۷)
البتہ بعض استحسانی صورتیں  کتاب و سنت  پر مبنی شرعی  دلائل  سے ثابت شدہ احکام اور تعلیمات  کی تائید ،تقویت اور حمایت کے لئے مفید ثابت ہوسکتی ہیں ۔ پس استحسان  بجائے خود کوئی دلیل نہیں  ہے  بلکہ  اس کا مرحلہ دلیل  کے بعد آتا ہے ۔
ہاتھ باندھنے  کے عدم جواز کے دلائل
پہلی دلیل : نماز میں ہاتھ باندھنے کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ  ہے جس سے انسان کا روزانہ  بلکہ  ہر روز متعدد بار  واسطہ پڑتا  رہتا ہے ۔ صدر ِ اول  کے مسلمان  تقریبا ۲۳  سالوں تک  رسول اللہ  ﷺکے ساتھ زندگی گزارتے رہے ۔اس دوران  آنحضرت  ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہے اور دن میں کم از کم پانچ بار  ان سے ملتے رہے ۔
پس اگر رسول اللہ  ﷺہاتھ باند کر نماز پڑھتے تو صحابہ  کے سامنے  یہ مسئلہ  روز روشن کی طرح  عیاں ہوتا  جبکہ  حقیقت  اس کے برخلاف ہے ۔اسی لئے ہاتھ باندھنے کے بارے میں  جو روایات  موجود ہیں  وہ صرف بعض صحابہ تک محدود ہیں  ۔علاوہ ازیں  یہ روایات  مجمل   اور مبہم ہیں  نیز ان کی اکثراسانید  پر اعتراضات وارد ہوئے ہیں  ۔پھر  ان کے مقابلے میں  وہ روایات ہیں جن سے ان کی نفی ہوتی ہے ۔
اس قسم کی صورتحال  میں ہم کیونکر  تصدیق  کر سکتے ہیں  کہ رسول اللہﷺ  اپنی  ہر نماز میں   یا اکثر نماز وں میں  اپنا  دایاں ہاتھ بائیں   بازو پر رکھتے تھے جیساکہ اس عمل کو مستحب قرار دینے والوں  کے قول کا تقاضا ہے ۔
دوسری دلیل :  جن روایات میں  ہاتھ  باندھنے  کا تذکرہ ہوا ہے  ان کے مقابلے میں وہ احادیث مذکور ہیں  جن میں ہاتھ باندھنے  کی نفی ہوئی ہے  یہاں تک کہ قرطبی  اپنی کتاب  بدایۃ المجتہد میں رقمراز ہیں : بہ تحقیق  ایسی  صحیح  احادیث  مروی  ہیں جن میں آنحضرت علیہ  الصلاۃ والسلام  کی نماز  کی کیفیت  نقل ہوئی ہے  ۔ان احادیث   میں  یہ مذکور  نہیں ہے کہ  آنحضرت اپنا  دایاں  ہاتھ بائیں  پر رکھتے تھے .... بعض کا لوگوں کا  نظریہ  ہے کہ ان احادیث کی طرف رجوع کرنا  زیادہ ضروری ہے  جن میں  اس اضافی  عمل  کا ذکر نہیں ہے  کیونکہ  ان احادیث  کی تعداد بیشتر ہے ۔
( دیکھیے بدایۃ المجتہد ،۱/۱۳۷)
فقہ مالکی کا نقطہ نظر بھی یہی ہے ۔ مالک  کو فقیہ مدینہ کہا جاتا ہے  کیونکہ  وہ اہل مدینہ  کے عمل کو  بہت سخت  اہمیت   دیتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ  ان کی نظر میں  اہل مدینہ  کا عمل صحابہ  سے ماخوذ  تھا  ۔یہ حقیقت سے نزدیک  تر ہے ۔
نماز میں ہاتھ باندھنے کی مخالفت پر مشتمل  احادیث  میں سے ایک ابو حمید  ساعدی کی حدیث ہے  ۔اسے ایک سے زیادہ  محدثین  نے نقل کیا ہے  ۔ہم اسے بیہقی کے الفاظ  میں نقل کررہے ہیں  ۔
بیہقی  کہتے ہیں:  ابو علی عبد اللہ  حافظ  نے ہم سے بیان کیا  کہ ابو  حمید ساعدی  نے کہا :  میں رسول اللہﷺ کی نماز  کے بارے میں  تم  سب سے زیادہ  آگاہی رکھتا ہوں ۔لوگوں نے کہا : وہ کیسے ؟  نہ تم نے ہم سے زیادہ رسول  کی متابعت کی ہے اور نہ  تمہیں  ہم سب سے  پہلے رسول کی مصاحبت  کا شرف حاصل ہوا ہے  ؟ ابو حمید نے کہا : ہاں ۔
ان لوگوں نے کہا : پس ہمارے سامنے اسے پیش کرو  ۔
ابو حمید نے کہا : جب رسول اللہﷺ نماز  کے لئے کھڑے ہوتے تھے  تو آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں  کی سطح  تک اوپر اُٹھاتے تھے اور تکبیر کہتے تھے  یہاں تک کہ آپ کا ہر عضو ِبدن  اپنی جگہ  ساکن ہوجائے ۔اس کے بعد  آپ (حمد و سورت ) پڑھتے تھے ،پھر تکبیر کہتے تھے   اور اپنے  دونوں  ہاتھوں   کو کندھوں کی سطح تک اوپر اُٹھاتے  تھے ،پھر رکوع  کرتے  تھے اور اپنی  دونوں  ہتھیلیاں  اپنے  گھٹنوں  پر رکھتے  تھے ۔پھر آپ کا بدن  اعتدال و سکون   کی حالت  میں   آتا تھا  ۔(رکوع میں )آپ  نہ اپنا سر(معمول سے ) اوپر اُٹھاتے تھے نہ  نیچے جھکاتے تھے ۔پھر آپ رکوع سے اٹھتے اور کہتے تھے: سمع اللہ لمن حمدہ۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کی سطح تک اٹھاتے تھے یہاں  تک کہ آپ کے بدن کی  ہر ہڈی  اپنی  اپنی جگہ  اعتدال  اور سکون  کی حالت  میں آجائے  ۔اس کے بعد آپ  اللہ اکبر  کہتے تھے۔ پھر  سجدے  میں جاتے  تھے  اور اپنے دونوں  ہاتھوں کو  اپنے پہلؤوں  سے فاصلے پر رکھتے  تھے  ۔اس کے بعد آپ  اپنا  سر (سجدے سے ) اُٹھاتے  تھے اور بایاں  پاؤں  تہہ کر کے  اس پر بیٹھتے تھے ۔ سجدے میں آپ  اپنے  دونوں  پیروں  کی انگلیاں  کھلی رکھتے تھے ۔اس کے بعد  پھر (سجدے میں )لوٹتے تھے ۔پھر سجدے  سے سر اُٹھاتے  تھے اور کہتے  تھے : اللہ اکبر  ۔پھر اپنا دایاں  پاؤں تہہ  کر کے  اس پر  سیدھے  ہوکر بیٹھتے  تھے یہاں تک کہ آپ  کے بدن کی  ہر ہڈی  اپنی اپنی جگہ معتدل  اور ساکن  ہوجائے۔
اس کے بعد  آپ دوسری رکعت  میں بھی  یہی  کچھ کرتے تھے ۔پھر جب آپ  دو رکعتوں  کے بعد  کھڑے ہوتے تھے  تو تکبیر  کہتے تھے  اور اپنے  دونوں  ہاتھوں  کو کندھوں کی سطح تک اُٹھاتے  تھے  جس طرح  آپ  نے نماز  کے شروع  میں  کیا تھا  اور تکبیر کہی تھی  ۔اس کے بعد  آپ  باقیماندہ  نماز بھی  اسی طرح  انجام دیتے تھے  یہاں تک کہ آپ آخری رکعت (جس میں  سلام کہا جاتا ہے ) میں اپنا  بایا ں  پیر  پیچھے کی جانب لے  جاتے اور بائیں  ران پر بیٹھ جاتے تھے ۔
یہ سن کر  سب نے کہا : اس نے درست  کہا ہے  رسول اللہﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
( سنن بیہقی ۲/۱۰۵ ،ح  ۲۵۱۷، سنن ابی داؤد ،باب  افتتاح الصلاۃ ،حدیث ۷۳۰، سنن ترمذی ۲/۱۰۵،ح ۳۰۴، باب صفۃ الصلاۃ ،مطبوعہ دارالفکر ،بیروت ۱۴۰۸ھ)
اس  روایت کی روشنی میں  درج ذیل نکات ہمارے مدعا کی سچائی پر دلالت کرتے ہیں :
پہلا نکتہ : بڑے  بڑے صحابہ  (یہ دس لوگ تھے ۔ان میں ابو ہریرہ  ،سہل ساعدی ،ابو اُسید  ساعدی ،ابو قتادہ ،حارث بن  ربعی اور محمد بن مسلمہ وغیرہ شامل  تھے ۔دیکھئے : عون المعبود  ،شرح سنن ابی داؤد باب ۱۱۶،ح ۷۳۰) کی اتنی تعداد نے ابو حمید  کے بیان  کی تصدیق کی ہے جو اس حدیث کی درستی اور دیگر دلائل  پر اس کی ترجیح پر دلالت کرتی ہے ۔
دوسرا نکتہ : راوی  نے واجبات ،مستحبات اور سنن کو بیان کیا ہے لیکن  ہاتھ باندھنے کا کوئی  تذکرہ  نہیں کیا  ہے جبکہ سامعین نے بھی  اس پر کوئی اعتراض   نیز اس کے برخلاف  کسی رائے کا اظہار نہیں کیا جبکہ وہ اس کے خواہاں تھے کیونکہ انہوں نے شروع  میں  ابو حمید  کے اس دعوے کو قبول نہیں کیا تھا کہ وہ رسول اللہﷺ کی نماز کے بارے میں  ان سب سے زیادہ آگاہ ہے ۔بعد میں ان سب نے اس کی مخالفت کی بجائے  مل کر  کہا : تونے سچ کہا ہے۔رسول اللہ ﷺاسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے ۔
اگر کوئی یہ کہے  کہ سامعین  اس وقت   ہاتھ باندھنے کا معاملہ  بھول  گئے  ہوں گے تو یہ بہت ہی بعید از قیاس  ہے  کیونکہ  ان کی تعداد دس تھی اور وہ  اسی موضوع پر بحث و مذاکرہ کر رہے تھے ۔
تیسرا نکتہ : ہاتھوں کی حالت کے بارے میں  فطری  اور قدرتی  اصول  یہ ہے کہ  وہ کھلے ہوں  جیساکہ  حدیث  بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے ۔
چوتھا نکتہ :  ممکن ہے  کوئی  یہ دعوی  کرے کہ یہ حدیث عام ہے اور بعض احادیث  جن میں  ہاتھ باندھنے کا ذکر ہوا ہے اس حدیث کی تخصیص کرتی  یعنی  اس کی عمومیت کا دائرہ تنگ کرتی ہیں۔
تبصرہ: ظاہر ہے  یہ دعوی  غلط ہے کیونکہ  راوی نے جملہ فرائض  ،مستحبات ،مندوبات اور نماز کی مکمل ہیئت کا ذکر کیا ہے  ۔راوی  کا مقصد  ہی  یہ تھا کہ وہ رسول  ﷺکی نماز کا طریقہ  سکھائے اور بیان کرے ۔اس صورت میں کسی چیز کو حذف  کرنا خیانت ہے جو راوی  اور وہاں موجود  افراد کی شان کے برخلاف ہے ۔
پانچواں نکتہ :  جو صحابہ اس موقعے پر موجود تھے ان میں  سے بعض  نے وہ احادیث نقل کی ہیں  جن میں  ہاتھ باندھنے کا ذکر ہوا ہے  لیکن  ان اصحاب  میں  سے کسی نے ابو حمید ساعدی پر یہ اعتراض نہیں کیا کہ اس نے ہاتھ باندھنے کا تذکرہ  کیوں نہیں کیا  ۔
حوالہ:
نام کتاب: اہل بیت کی رکاب میں ۔  نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی  مسئلہ  
موضوع : فقہ ، تالیف : تحقیقی کمیٹی  ، ترجمہ: شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:شیخ سجاد حسین،کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری
اشاعت :اول  ۲۰۱۸ ،ناشر: عالمی مجلس اہل بیت ، جملہ حقوق محفوظ ہیں
ترجمہ تمام شد۔مورخہ ۲۴/۱۰/۲۰۱۷۔توحیدی،
حروف چینی و باز نگری تمام شد۔ توحیدی/جعفری ۲۹/۱۰/۲۰۱۷