کیا آپ رَمَضان یا رَمَضان المُبارَک کو جانتے ہیں؟

رَمَضان یا رَمَضان المُبارَک قمری سال کا نواں مہینہ ہے

جس میں مسلمانوں پر روزہ رکھنا واجب ہے۔ بعض آیات کے مطابق قرآن کریم اسی مہینے میں نازل ہوا ہے۔ شب قدر بھی اسی مہینے میں ہے۔ شیعوں کے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام اسی مہینے کی اکیس تاریخ کو شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔
اس مہینے کی اہم ترین عبادت‌ میں روزہ رکھنا، قرآن مجید کی تلاوت، شب قدر میں شب بیداری کرنا، دعا و استغفار، مؤمنین کو افطاری دینا اور فقیروں اور حاجتمندں کی مدد کرنا شامل ہے۔
مسلمان اس مہینے کو عبادت کا مہینہ قرار دیتے ہوئے اس کے لئے نہایت احترام اور قدر و منزلت کے قائل ہیں۔ مؤمنین رجب و شعبان کے مہینوں میں روزہ رکھنے اور دیگر عبادتوں کے ذریعے اس مہینے میں داخل ہونے کیلئے پیشگی تیاری کرتے ہیں تاکہ اس مہینے کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہو سکیں۔
وجہ تسمیہ اور معانی
"رَمَضان" سورج کی شدید حرارت کے معنی میں ہے[1] اور قمری سال کے نویں مہینے کو کہا جاتا ہے[2] جس میں مسلمانوں پر روزہ رکھنا واجب ہے۔[3]
قرآن کریم[4] اور بعض دوسری آسمانی کتابیں اس مہینے میں نازل ہوئی ہیں۔[5] لفظ "رمضان" خدا کے اسماء میں سے ایک ہے۔[6] رمضان المبارک کو اسلامی معاشرے کے مذہبی تشخص کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[7]
رمضان کا لفظ قرآن میں ایک دفعہ آیا ہے[8] اور یہ واحد مہینہ ہے جس کا نام قرآن میں آیا ہے:[9]

    شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَینَاتٍ مِّنَ الْهُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْیصُمْهُ ۖ[؟–؟]
    ماہ رمضان وہ (مقدس) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں رہنمائی اور حق و باطل میں امتیاز کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جو اس (مہینہ) میں (وطن میں) حاضر ہو (یا جو اسے پائے) تو وہ روزے رکھے۔... .[10]
    سورہ بقرہ: آیت 185

اسی طرح سورہ قدر میں شب قدر کو نزول قرآن کی رات قرار دی گئی ہے اور مفسرین کے مطابق شب قدر ماہ رمضان میں واقع ہے۔[11]
ماہ رمضان کی فضیلت
پیغمبر اکرمؐ نے خطبہ شعبانیہ میں اس مہینے کی فضیلتیں بیان کی ہیں من جملہ یہ کہ: اس مہینے میں لوگوں کو خدا کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے۔ شب قدر اس مہینے میں واقع ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس مہنے کی ایک رات شب بیداری اور نماز پڑھنا دوسرے مہینوں میں 70 رات نماز پڑھنے کے برابر ہے۔ یہ مہینہ صبر کا مہنیہ ہے اور اس کا ثواب بہشت ہے۔ یہ مہینہ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مؤمن کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس مہینے میں کسی مؤمن کو افطاری دینا ایک مؤمن غلام کو آزاد کرنے کے برابر ہے۔[12] اسی طرح آپؐ اس مہینے کو ایسا مہینہ قرار دیتے ہیں کہ اگر اس کی صحیح شناخت ہو جائے تو انسان تمام سال ماہ رمضان ہونے کی تمنا کرتا؛[نوٹ 1] پیغمبر اکرمؐ کے مطابق ماہ رمضان جہنم کے دروازے بند کرنے، بہشت کے دروازے کے کھولنے اور شیاطین کو زنجیروں میں جھکڑے جانے کا مہینہ ہے۔[نوٹ 2]

پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کے علاوہ دوسرے معصومینؑ کی متعدد احادیث میں بھی ماہ رمضان کے فضائل نقل ہوئے ہیں۔ من جملہ کچھ خصوصیات درج ذیل ہیں:

    اگر کوئی شخص اس مہینے میں بخشا نہ گیا تو کسی دوسرے مہینے میں بخشے جانے کی کوئی امید نہیں؛[نوٹ 3]
    ماہ رمضان خدا کا مہینہ ہے[نوٹ 4]
    خدا کی رحمت اور بخشش کا مہینہ ہے[نوٹ 5]
    گناہوں کے ختم ہونے کا مہینہ،[نوٹ 6]
    آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا مہینہ؛[نوٹ 7]
    ثواب میں کئی گنا اضافہ ہونے کا مہینہ؛[نوٹ 8]
    ماہ رمضان قرآن کی بہار ہے؛[نوٹ 9]

امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کی روشنی میں ماہ رمضان میں اچھے اخلاق (حسن خلق) کا مظاہرہ کرنا پل صراط پر ثابت قدمی کا باعث بنتا ہے۔[نوٹ 10]
پہلی اور آخری تاریخ کا تعیّن
ماہ رمضان کی پہلی تاریخ نیز دوسرے قمری مہینوں کی طرح درج ذیل طریقوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ثابت ہوتی ہے:

    خود شخص کو چاند نظر آئے۔
    ایک گروہ جس نے چاند دیکھا ہے ان کے کہنے پر یقین اور اطمینان پیدا ہوجائے۔
    دو عادل مردوں کی گواہی جبکہ دونوں کی باتوں میں کوئی تضاد نہ ہو۔
    پہلے مہینے کے 30 دن پورے ہوں۔
    (بعض مراجع کے مطابق) حُکم حاکم شرع[13]

بعض احادیث میں ماه رمضان کو ہمیشہ 30 دن کا قرار دیا گیا ہے[14] اور قدیم فقہاء کا ایک گروہ بھی اسی نظریے کا قائل تھا۔[15] اس کے مقابلے میں بعض روایات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ماہ رمضان بھی دوسرے قمری مہینوں کی طرح کبھی 30 اور کبھی 29 دن کا ہوتا ہے۔[16] اور اکثر فقہاء بھی اسی نظریے کے قائل ہیں۔[17]
اعمال


ماه رمضان مسلمانوں کی عبادت کا سب سے اہم مہینہ ہے۔ احادیث میں اس مہینے کے حوالے سے مختلف عبادتوں کا تذکرہ ملتا ہے ان اعمال میں سے بعض کو اعمال مشترک یعنی ماہ رمضان کے تمام دنوں اور راتوں میں انجام دینے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ بعض اعمال مخصوص ایام کے ساتھ مختص ہیں۔ جیسے شب قدر کے اعمال وغیرہ۔

ماہ مبارک رمضان کے تمام دنوں کی مشترکہ دعائیں درج ذیل ہیں:
«     یا عَلِیُ یا عَظیمُ یا غَفُورُ یا رحیمُ أنْتَ الرَّبُّ العظیمُ الَذی لیس کَمِثْلِهِ شَی ءٌ و هُوَ السَّمیعُ الْبَصیرُ وَ هذا شَهْرٌ عَظَّمْتَهُ و کَرَّمْتَهُ و شَرَّفْتَهُ و فَضَّلْتَهُ عَلَی الشُّهُورِ و هُوَ الشَّهْرُ الَّذی فَرَضْتَ صِیامَهُ عَلَی و هُوَ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذی أَنْزَلْتَ فِیهِ الْقُرانَ هُدی لِلنّاسِ و بَیناتٍ مِنَ الْهُدی و الْفُرْقانِ و جَعَلْتَ فیهِ لَیلَةَ الْقَدْرِ و جَعَلْتَها خَیرا من أَلْفِ شَهْرٍ فَیاذَ الْمَنِّ و لا یمَنُّ عَلَیکَ مُنَّ عَلَی بِفَکاکِ رَقَبَتی مِنَ النّارِ فیمَنْ تَمُنُّ عَلَیه وَ أَدْخِلْنی الْجَنَّة بِرَحْمتِکَ یا أرْحَم الرّاحِمِینَ[18][یادداشت 1]     »
روزہ
تفصیلی مضمون: روزہ

روزہ، اذان صبح سے اذان مغرب تک بعض امور من جملہ کھانے اور پینے سے اجتناب کرنے کو کہا جاتا ہے۔[19] ماہ رمضان میں روزہ رکھنے اور اس کے بہت سے احکام سورہ بقرہ میں آیا ہے۔[20]

ماہ مبارک رمضان میں روزہ کا واجب ہونا اسلامی تعلیمات کے لازمی امور میں سے قرار دیا جاتا ہے جس کا انکار کرنے والا مرتد ہو جاتا ہے۔[21]

قرآن اور اہل‌ بیتؑ کی احادیث میں روزہ رکھنے کے بہت سارے فوائد کا ذکر ملتا ہے من جملہ ان میں تقوا،[22] امتحان اور آزمائیش کا ذریعہ اور اخلاص کا معیار،[23] قیامت کی بھوک اور پیاس یاد،[24] اور افطار کے وقت دعا کی قبولیت[25] قابل ذکر ہیں۔
شب قدر
شیعہ شب قدر کو ماہ مبارک رمضان کی 19، 21 اور 23ویں رات میں سے ایک قرار دیتے ہیں اور 23 رمضان کی رات شب قدر ہونے کا احتمال دوسری دو راتوں سے زیادہ ہے۔[26] جبکہ اہل‌ سنت 27 رمضان کی رات کو شب قدر ہونے پر زیادہ تاکید کرتے ہیں۔[27]

شیعہ ہر سال مساجد، امام بارگاہوں، ائمہ یا امامزادوں کے حرم یا اپنے اپنے گھروں میں شب قدر کے اعمال بجا لاتے ہیں اور پوری رات سحری کے وقت تک شب بیداری کر کے عبادت میں بسر کرتے ہیں۔[28] عموما ان راتوں میں وعظ و نصیحت کی مجالس، نماز جماعت، دعائے افتتاح، دعائے ابوحمزہ ثمالی، دعائے جوشن کبیر اور قرآن سر پر رکھنے کا عمل اجتماعی یا انفرادی طور پر انجام دیتے ہیں۔[29]
مستحب نمازیں
تفصیلی مضمون: ماہ رمضان کی مستحب نمازیں

مشہور شیعہ فقہاء رمضان المبارک کی مستحب نمازوں کی تعداد ہزار رکعت تک بتاتے ہیں جنہیں دو دو رکعت کی صورت میں پڑھی جاتی ہیں۔[30] ان نمازوں کی ترتیب کچھ اس طرح ہیں: ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے بیسویں تاریخ تک ہر رات 20 رکعت اور بیسویں تاریخ سے آخری تاریخ تک ہر رات 30 رکعت پڑھی جائے اور تینوں شب قدر کی راتوں میں سو سو رکعت اس پر پر اضافہ کیا جائے تو ان کی مجموعی تعداد 1000 رکعت بن جاتی ہیں۔[31]

اہل سنت ماہ رمضان کی ہر رات 20 مستحب نمازیں پڑھتے ہیں۔ اصطلاح میں ان نمازوں کو نماز تراویح کہا جاتا ہے۔[32] اہل سنت خلیفہ دوم کی پیروی کرتے ہوئے ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں جبکہ ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کو بدعت قرار دیتے ہیں۔[33]
آخری عشرے کا اعتکاف
تفصیلی مضمون: اعتکاف

پیغمبر اکرمؐ نے شروع میں رمضان المبارک کے پہلے عشرے کو اس کے بعد دوسرے عشرے کو اور آخر میں تیسرے عشرے کو اعتکاف کے لے انتخاب فرمایا، اس کے بعد عمر کی آخری لمحات تک ماہ رمضان کے تیسرے اور آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے۔[34]

جنگ بدر ماہ رمضان میں لڑی گئی جس کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ اس سال اعتکاف میں نہیں بیٹھ سکے اس وجہ سے آنحضرتؐ اگلے سال ماہ رمضان میں 20 دن معتکف ہوئے؛ دس دن اسی سال کی نیت سے اور دس دن پچھلے سال کی قضا کی نیت سے۔[35]
اہم واقعات
ماہ رمضان کے اہم واقعات
    حضرت خدیجہؑ کی المناک رحلت (10 رمضان 10 بعثت)
    ولادت امام حسن مجتبی علیہ السلام (15 رمضان سنہ 3 ہجری)
    شب قدر اور نزول قرآن (19 رمضان یا 21 رمضان یا 23 رمضان 1 بعثت)
    فتح مکہ (20 رمضان سنہ 8 ہجری)
    شہادت امام علی علیہ السلام (21 رمضان سنہ 40 ہجری)
نوٹ
    اے عظمت والی ذات، اے بزرگوار، اے بخشنے والی اور مہربان ذات! آپ ہی پروردگار ہے اور تجھ سا کوئی نہیں ہے اور اپنے مخلوقات کی گفتار اور کردار سے مکمل آشنا ہے۔ یہ مہینہ جسے تو نے عظمت اور بزرگی دی ہے اور دوسرے مہینوں پر اسے کرامت اور شرف دی ہے اور اس مہینے میں میرے اوپر روزہ واجب کیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں تو نے قرآن کو لوگوں کی ہدایت، اور ہدایت کے راستے کی نشاندہی اور حق کو باطل سے ممتاز کرنے کیلئے نازل کیا ہے اور شب قدر کو اس مہینے میں قرار دیا ہے اور اس رات کو ہزار مہینوں پر فوقیت دی ہے۔ پس اے منت والی ذات خدا! تجھ پر کسی کی منت نہیں ہے ان تمام لوگوں کے درمیان جن کو تو نے عطا کی ہے میرے اوپر بھی منت کرکے مجھے جہنم کی آگ سے نجات دے اور ہمیشہ رہنے والی بہشت میں مجھے پہنچا دے تیری بے پایان رحمت کا واسطہ اے سب سے زیادہ مہربان ہستی۔
حوالہ جات
۱-راغب، مفردات ألفاظ القرآن‏، ۱۴۱۲ق، ص۳۶۶۔
۲-قرشی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۲۳۔
۳-بستانى‏، فرہنگ ابجدى‏، ۱۳۷۵ش، ص۴۴۳۔
۴-سورہ بقرہ، آیت نمبر ۱۸۵۔
۵-کلینی، الکافی، ج۲، ص۶۲۸۔
۶-میزان الحکمہ، روایت ۷۴۴۲۔
۷- «ماہ مبارک رمضان نمادی از ہویت دینی جامعہ اسلامی است».۔
۸-بقرہ، آیہ ۱۸۵۔
 ۹- قرائتی، تفسير نور، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۲۸۷۔
۱۰- سورہ بقرہ، آیہ ۱۸۵.
۱۱-سروش، «رمضان و قرآن»، کانال تلگرام عبدالکریم سروش۔
۱۲-صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، ج۱، حدیث ۵۳۔
۱۳-مقاله استهلال و نظرات فقهی پیرامون آن، مجله ره توشه، شماره ۱۰۲، شهریور ۱۳۹۰.
۱۴وسائل الشیعہ، ج۱۰، ص۲۶۸-۲۷۴
۱۵-الإقبال، ج۱، ص۳۳-۳۵
۱۶-وسائل الشیعہ، ج۱۰، ص۲۶۱-۲۶۸
۱۷-الحدائق الناضرۃ، ج۱۳، ص۲۷۰-۲۷۱ ؛ مصباح الہدی، ج۸، ص۳۸۴
۱۸-سید بن طاووس، الإقبال بالأعمال الحسنة، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۸۰.
۱۹-« احكام روزہ»۔
۲۰-سورہ بقرہ، آیات ۱۸۳-۱۸۵، و آیہ ۱۸۷ ۔
۲۱-طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی(محشی)، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۵۲۱۔
۲۲-سورہ بقرہ، آیہ ۱۸۳۔
۲۳-نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ص۵۱۲، ح۲۵۲۔
۲۴-حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱۰، ص۹، ح۱۲۷۰۱.
۲۵-علامہ مجلسی، بحار الانوار، بیروت، ج۹۳، ص۲۵۵، ح۳۳۔
۲۶-صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ص۵۱۹۔
۲۷-طباطبایی، تفسیر المیزان، ۱۳۶۳ش، ج۲۰، ص۵۶۶۔
۲۸-مجیدی خامنہ، «شب‌ہای قدر در ایران»، ص۲۱۔
۲۹-مجیدی خامنہ، «شب‌ہای قدر در ایران»، ص۲۲۔
«۳۰-تراویح»۔
۳۱-جواہر الکلام، ج۱۲، ص۱۸۷-۱۹۰۔
«۳۲-چرا شیعیان نماز تراویح نمی خوانند؟»۔
«۳۳-تراویح»۔
«۳۴-اعتکاف دہہ آخر ماہ رمضان»۔

  ۳۵-  شیخ صدوق، من لا يحضرہ الفقيہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۴۔

مآخذ

    قرآن کریم
    علامہ مجلسی محمد باقر، بحار الانوار، دار الکتب اسلامیۃ، تہران، ۱۳۶۲ش.
    نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، انتشارات دایرۃ المعارف فقہ اسلامی.
    محمدی ری شہری، میزان الحکمہ، انتشارات دارالحدیث.
    سید بن طاووس، الاقبال باعمال الحسنہ، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی.
    بحرانی، شیخ یوسف، الحدائق الناضرہ، دارالکتب الاسلامیہ.
    آملی، میرزا محمد تقی، مصباح الہدی فی شرح عروۃ الوثقی.
    محمدی ری شہری، شہراللہ فی الکتاب و السنّۃ (و ترجمہ فارسی: شہر خدا)، انتشارات دار الحدیث.