اٹھائسویں پارے کا مختصر جائزه

اٹھائسویں پارے کا مختصر جائزه:
اس پارے کے ضمن میں سورهٔ المجادلہ ،الحشر، الممتحنہ ،الصّف، الجمعہ ،المنافقون، التغابن، الطلاق ،التحریم کا ذکر کیا جائے گا۔
58۔سوره مجادله کا مختصر جائزه
سوره مجادلہ قرآن کریم کی 58ویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے اور قرآن کے 28ویں پارے میں واقع ہےاس سورت کو اس لئے "مجادلہ" کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک عورت کی رسول خدا1سے مجادلہ اور شکایت سے ہوتا ہے جس کے شوہر نے اس کے ساتھ ظہار کیا تھا اسی مناسبت سے سوره مجادلہ میں ظہار کا حکم، معاشرت اور ہمنشینی کے آداب اور منافقین کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے اور مؤمنین کو شیاطین اور منافقین سے دور رہنے کی تلقین ہوتی ہے۔آیت نجوا اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہے ۔
مضامین
تفسیر نمونہ کے مطابق سوره مجادلہ کے مضامین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا حصہ ظِہار کے حکم پر مشتمل ہے جو زمانہ جاہلیت میں ایک قسم کی دائمی طلاق شمار ہوتی تھی جسے اسلام نے تبدیل کر کے صحیح سمت دے دیا۔
دوسرے حصے میں ہمنشینی اور معاشرت کے آداب بیان ہوئی ہے، من جملہ ان میں نجوا (سرگوشی) سے پرہیز کرنا اور مجلس میں نئے آنے والوں کو جگہ دے دینا شامل ہیں۔
آخری حصے میں منافقین سے بحث ہوتی ہے؛ یعنی وہ اشخاص جو بظاہر اپنے آپ کو اسلام کا خیر خواہ ظاہر کرتے ہیں؛ لیکن باطن میں یہ لوگ اسلام کے دشمنوں کے ساتھ مخفیانہ تعلقات رکھتے ہیں اس حصے میں اسلام کے حقیقی پیرکاروں یعنی مؤمنین کو شیاطین اور منافقین سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتے انہیں "حزب اللّہ" یعنی اللہ والوں میں شامل ہونے نیز محبت اور نفرت میں بھی خدا کی مرضی شامل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
فضیلت اور خواص
احادیث میں اس سورت کی تلاوت کے بارے میں آیا ہے۔ پیغمبر اکرم1نے فرمایا۔ "جو شخص سورہ مجادلہ کی تلاوت کرے وہ قیامت کی دن "حزب اللّہ"(اللہ والوں) میں سے ہوگا"[1]۔ایک اور حدیث میں امام صادقB سے نقل ہے۔ "جو شخص سورہ حدید اور مجادلہ کو یومیہ نمازوں میں پڑھے اور اس پر مداومت کرے تو یہ شخص زندگی میں کسی عذاب میں مبتلا نہیں ہوگا، اپنے اندر اور اپنی اہل و عیال میں کسی بری چیز کا مشاہدہ نہیں کرے گا اور یہ شخص کبھی بھی فقر اور بدبختی میں گرفتار نہیں ہوگا"[2]۔
59۔سوره حَشْر کا مختصر جائزه
سوره حَشْر قرآن کی 59ویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے اور قرآن کے 28ویں پارے میں واقع ہے اس سورت کا نام اس کی دوسری آیت سے لیا گیا ہے اس سورت میں مدینہ سے یہودیوں کو نکالے جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے سوره حشر کا آغاز خدا کی تسبیح جبکہ اس کا اختتام خدا کی تقدیس سے ہوتا ہے جنگ بنی‌ نضیر میں مسلمانوں کے ہاتھوں یہودیوں کی شکست، جنگ کے بغیر حال ہونے والے اموال اور غنائم کی تقسیم کا حکم، منافقین کی ملامت اور ان کی منافقت کا برملا ہونا نیز مہاجرین کی ایثار و فداکاری کی تعریف و تمجید اس سورت کے مضامین میں سے ہیں۔
مضامین
سوره حشر کا آغاز خدا کی تسبیح یعنی "سَبَّحَ للہ‌" سے ہوتا ہے اس سورت کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے که اس کی آخری تین آیات میں خدا کی صفات اور اسمائے حُسنیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی علاوہ اس سورت درج ذیل موضوعات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ جنگ بنی‌ نضیر میں مسلمانوں کے ہاتھوں یہودیوں کی شکست، جنگ کے بغیر حال ہونے والے اموال اور غنائم کی تقسیم کا حکم، منافقین کی ملامت اور ان کی منافقت کا برملا ہونا نیز مہاجرین کی ایثار و فداکاری کی تعریف و تمجید اس سورت کے مضامین میں سے ہیں جس طرح اس سورت کا آغاز خدا کی تسبیح سے ہوتا ہے اسی طرح اس کا اختتام بھی خدا کی تقدیس سے ہوتا ہے۔
فضیلت اور خواص
پیغمبر اکرم1سے منقول ہے۔ "جو شخص سورہ حشر کی تلاوت کرے گا اس پر بہشت، جہنم، عرش الہی، کرسی، سات آسمان اور سات زمین، ہوا، پرندے، درخت، پہاڑ، چاند، سورج اور فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں اور اس کی مغفرت کیلئے دعا کرتے ہیں اور یہ شخص اگر اسی دن اس دنیا سے فوت ہوجائے جس دن اس نے اس سورت کی تلاوت کی ہے، تو اسے شہیدوں میں شمار کیا جائے گا"[3]۔ امام صادقBسے بھی نقل ہے۔ "جو شخص عصر کے وقت سورہ الرحمن اور سورہ حشر کی تلاوت کرے، خداوند متعال ایک فرشتے کو مأمور کرے گا جو صبح تک اس کی حفاظت کرے گا"[4]۔
60۔سوره مُمتَحِنه کا مختصر جائزه
سوره مُمتَحِنہ قرآن کی 60ویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے اور 28ویں پارے میں واقع ہے اس سورت کا نام "مُمتَحنہ" اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس کی دسویں آیت میں پیغمبر اکرم1کو مہاجر خواتین سے امتحان لینے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ ان کا اپنے شوہروں کو چھوڑ کر مدینہ سے مکہ ہجرت کرنے کی علت معلوم ہو سکے سوره ممتحنہ میں مؤمنین اور کُفار کی دوستی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس کام سے سختی سے منع کیا گیا ہے اس سورت کی تلاوت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے کہ جو شخص اس سورت کی تلاوت کرے، فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں اور اس کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں اور اگر اسی دن اس دنیا سے چلا جائے تو شہادت کی موت مرے گا اور قیامت کے دن مؤمنین اس کی شفاعت کریں گے۔
مضامین
سوره ممتحنہ میں مؤمنین اور کفار کی دوستی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سختی سے اس سے منع کیا گیا ہے اس بات کی تاکید کیلئے سورت کی ابتداء میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے اور آخر میں بھی جبکہ درمیان میں مہاجر خواتین اور ان کی بیعت سے متعلق بھی گفتگو کی گئی ہے۔سورہ ممتحنہ میں درج ذیل داستان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔حضرت ابراہیم کا بت‌پرستی سے بیزاری اور اپنے چچا آزر کیلئے استغفار کرنا(آیت نمبر 4)۔
فضیلت اور خواص
جو شخص سورہ ممتحنہ کی تلاوت کرے قیامت کے دن مؤمنین اس کی شفاعت کریں گے اور وہ اس دنیا میں بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔ ایک حدیث میں امام سجادBسے نقل ہے کہ اگر کوئی شخص اس سورت کو اپنی واجب اور مستحب نمازوں میں پڑھے تو خداوند عالم اس کے دل کو ایمان کیلئے تیار اور اس کی آنکھوں کو نورانی کرے گا اور یہ شخص کبھی بھی فقر اور تنگدستی کا شکار نہیں ہو گا۔ اسی طرح اسے پڑھنے والا اور اس کی اولاد جنون کی بیماری میں مبتلا نہیں ہونگے[5]۔ پیغمبر اکرم1سے نقل ہے کہ جو شخص اس سورت کی تلاوت کرے، فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں اور اس کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں اور اگر اسی دن اس دنیا سے چلا جائے تو شہادت کی موت مرے گا اور قیامت کے دن مؤمنین اس کی شفاعت کریں گے[6]۔
61۔سوره صف کا مختصر جائزه
سوره صف قرآن پاک کے ۲۸ویں پارے میں اکسٹھویں سوره ہے جو مدنی سورتوں کا حصہ ہے سورے کی چوتھی آیت میں جہادیوں کی صف کا ذکر ہونے کی مناسبت سے اسے «‌صفّ‌» کہتے ہیں خدا کی تسبیح و تقدیس ، گفتار و کردار میں مطابقت نہ رکھنے والوں کی سرزنش و توبیخ، دین خدا کی نہائی کامیابی اور اس کا جہانی ہونا، اس دین کو روکنے والوں کی کوششوں کا بلاثمر رہنا اور جان و مال سے جہاد کنے والوں کی حوصلہ افزائی اس سورت کے اہم عناوین ہیں۔
نَصْرٌ‌ مِّنَ اللَّہِ وَفَتْحٌ قَرِ‌یبٌ اس سوره کی مشہور آیات میں سے ہے کہ جس میں مؤمنوں کو کامیابی کی بشارت دی گئی ہے مفسرین نے اس آیت کو فتح مکہ سمیت مختلف فتوحات پر منطبق کیا ہے اسی طرح فتح قریب کی تفسیر قائم آل محمد(عجل) کی کامیابی سے بیان ہوئی ہے ۔
مضامین
یہ سورت مؤمنین کو راہ خدا میں جہاد کرنے کی ترغیب دیتی ہے نیز دین اسلام کوایسے درخشان نور سے تشبیہ دیتی ہے کہ جس نور کو کافر اور اہل کتاب خاموش کرنا چاہتے ہیں لیکن خدا اس نور کو مکمل کرے گا اور اسے ہر دوسرے دین پر غلبہ عطا کریگا اگرچہ کافر اور مشرکین اس سے ناخوش ہی کیوں نہ ہوں پھر اس سوره میں آیا ہے کہ محمد1خدا کے بھیجے ہوئے نبی ہیں اور عیسی بن مریمB نے بنی‌اسرائیل کو اس نبی کے آنے کی بشارت دی تھی پس مؤمنوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس کی پیروی کریں اور جہاد کے ذریعے خدا کی مدد کریں جس چیز پر خود عمل نہیں کرتے ہیں ہر گز کسی دوسرے کو نہ کہیں اور وعدہ کرنے کی صورت میں وعدہ خلافی نہ کریں کیونکہ یہ اعمال خدا کی ناراضگی اور اذیت کا سبب بنتے ہیں۔
فضیلت اور خواص
سوره صف کی تلاوت میں پیغمبر1 سے مروی ہے۔ جو کوئی سورهٔ حضرت عیسی (سوره صف) کی تلاوت کرے گا جب تک وہ اس دنیا میں رہے گا حضرت عیسیB اس پر درور بھیجتے رہیں گے اور اس کیلئے مغفرت گناہوں سے استغفار کرتے رہیں گے نیز قیامت کے دن وہ شخص حضرت عیسیB کے ہمراہ ہو گا[7]، امام محمدباقرBسے روایت ہے کہ واجب اور مستحب نمازوں میں ہمیشہ اس سورت کی تلاوت کرنے والےکو خدا فرشتوں اور انبیائے الہی کی صف میں رکھے گا[8]۔
62۔سوره جمعه کا مختصر جائزه
سوره جمعہ قرآن کی 62ویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے جو 28ویں پارے میں واقع ہے اس سورت میں نماز جمعہ کا حکم بیان ہوا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "جمعہ" رکھا گیا ہے اس سورت میں خدا نماز جمعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ نماز جمعہ کے وقت خرید و فروخت میں مشغول نہ ہوں۔
پانچویں آیت میں توریت کے حاملین کا تذکرہ اور آیت نمیر 9 میں نماز جمعہ کا حکم آیا ہے اسی مناسبت سے یہ دو آیتیں اس سورے کی مشہور آیات میں شمار ہوتی ہیں۔
مضامین
علامہ طباطبائیؒ کے مطابق سوره جمعہ مسلمانوں میں نماز جمعہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی ادائیگی کی ترغیب دیتا ہے؛ چونکہ نماز جمعہ شعائر اللہ میں سے ہے جس کی تعظیم انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی کی میں اصلاح میں اہم کردار ادا کرتی ہے، سوره جمعہ خدا کی تسبیح کے ساتھ شروع ہوتی ہے، اس سورت میں خدا کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کیلئے ان کے درمیان انبیاء مبعوث کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو انہیں اچھے اخلاق سے آراستہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
ملاصدرا سوره جمعہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ سوره ایمان کے ارکان اور عرفانی حقائق کے اصول پر مشتمل ہے اسی طرح اس میں خدا کی معرفت، معاد کی حقیت اور اس کی کیفیت، انبیاء کی بعثت، آسمانی کتابوں کا نزول اور ان کی تعلیم کے بارے میں بھی گفتگو ہوئی ہے[9]۔
نماز جمعہ کی اذان کے وقت خرید و فروخت سے ہاتھ اٹھا کر ذکر خدا(نماز جمعہ) کی طرف دوڑنا اور نماز جمعہ میں پیغمبر اکرم1 کے خطبے کے دوران خرید و فروخت میں مشغول رہنے والوں کی مذمت سوره جمعہ کے آخری آیات میں بیان ہونے والے موضوعات میں سے ہیں۔
فضیلت اور خواص
سورہ جمعہ کی فضیلت اور تلاوت کے بارے میں آیا ہے کہ سورہ جمعہ کی تلاوت کرنے والے کو خدا نماز جمعہ کے لئے آنے والوں اور نہ آنے والوں میں سے ہر ایک کے مقابلے میں دس حسنہ بطور ثواب عطا کرتا ہے[10]۔ یا اگر کوئی شخص اس سورت کو ہر شب جمعہ پڑھے تو یہ چیز اس جمعہ اور آنے والے جمعہ کے درمیان اس شخص کے کے گناہوں کا کفاره ہو گا[11]۔ اسی طرح احادیث میں آیا ہے کہ جمعہ کے دن صبح، ظہر اور عصر کی نماز میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقون کا پڑھنا مستحب ہے[12]۔ اس سورت کے خواص میں آیا ہے کہ یہ سورہ شیطان کے وسوسے اور خوف کو انسان سے دور کرتا ہے[13]۔
63۔سوره منافقون کا مختصر جائزه
سوره منافقون قرآن مجید کی 63ویں سورت جس کا شمار مدنی سورتوں میں ہوتا ہے اور 28ویں پارے میں واقع ہوئی ہے یہ سورت منافقین کا اصل چہرہ بے نقاب کرتی ہے اور ان کے علائم و نشانیاں بیان کرتی ہے اس سورت میں اللہ تعالی پیغمبر اکرم1کو منافقوں کے خطرات سے احتیاط کرنے اور مومنین کو اللہ کی راہ میں انفاق کرنے اور منافقت سے بچے رہنے کی تلقین کرتا ہے ،تفسیر قمی میں کہا گیا ہے کہ اس سورت کی آٹھویں سورت عبدالله بن اُبَیّ کے بارے میں نازل ہوئی جو مہاجروں کو مدینہ سے خارج کرنا چاہتا تھا ۔
مضامین
سوره منافقون، منافقین کا اصل چہرہ بے نقاب کرتی ہے اور مسلمانوں کے خلاف ان کی دشمنی کو بیان کرتی ہے اس سورت میں حضرت محمد1 کو حکم ہوتا ہے کہ منافقوں کے خطرات کے بارے میں احتیاط کریں اور اسی طرح مومنوں کو اللہ کی راہ میں انفاق کرنے اور منافقت سے اجتناب کرنے کی تلقین ہوئی ہے۔
فضیلت اور خصوصیات
تفسیر مجمع البیان میں پیغمبر اکرم1 سے منقول ہے کہ جو بھی سورہ منافقون کی تلاوت کرے وہ ہر قسم کی منافقت سے پاک ہوگا[14]۔ایک اور روایت جو ثواب الاعمال میں امام صادقB سے منقول ہے اس میں شیعوں کو تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن نماز ظہر میں سورہ حمد کے بعد سورہ جمعہ اور سورہ منافقون پڑھیں۔ اس حدیث میں آیا ہے کہ۔ جس نے ایسا کیا گویا اس نے پیغمبر اکرم1کا عمل انجام دیا اور اس کا اجر بہشت ہے[15]۔بعض فقہا کے فتوے کے مطابق نماز جمعہ کی دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ منافقون کی تلاوت مستحب ہے[16]۔
64۔سوره تَغابُن کا مختصر جائزه
سوره تَغابُن قرآن کی 64ویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے جو 28ویں پارے میں واقع ہے اس سورت کی نویں آیت میں روز قیامت کو "یوم التغابن" (روز حسرت) کے نام سے یاد کیا گیا ہے اسی مناسبت سے اس سورت کا نام "تغابن" رکھا گیا ہے اس سورت میں بیان موضوعات میں معاد، انسان کی آفرینش اور بعض اخلاقی اور سماجی موضوعات جیسے خدا پر توکل، قرض الحسنہ کا پسندیدہ ہونا اور بُخل سے پرہیز وغیره شامل ہیں۔
سوره تغابن کی پندرہویں آیت اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہے جس میں مال و دولت اور اولاد کو انسان کی آزمائش اور امتحان کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اسی طرح آیت نمبر 17 بھی اس کی مشہور آیات میں سے ہے جس میں خدا کی راہ میں انفاق اور خدا کو قرضہ دینے کی بات کرتے ہوئے خدا کی طرف سے اس کے بدلے میں دس گنا برکت دینے کا بیان آیا ہے۔
مضامین
سوره تغابن میں بیان ہونے والے موضوعات میں۔ معاد اور روز جزا، انسان کی آفرینش اور یہ کہ انسان بہترین خلقت کے ساتھ خلق ہوئی ہے، بعض اخلاقی اور سماجی احکام جیسے خدا پر توکل کرنا، خدا کی راہ میں قرض اور قرض الحسنہ کا پسندیدہ عمل ہونا اور بُخل سے پرہیز کرنا، مصیبت کے وقت ناراض نہ ہونا اور افسوس کا اظہار نہ کرنا اور خدا پر ايمان لانے، خدا کی راہ میں جہاد کرنے اور اس کی راہ میں انفاق کرنے میں پیش آنے والی سختیوں کو خدا کی طرف سے جاننا وغیره شامل ہیں۔
فضیلت اور خواص
پیامبر1سے منقول ہے کہ جو شخص سورہ تغابن کی تلاوت کرے گا وہ ناگہانی موت سے محفوظ رہے گا[17]۔ اسی طرح امام صادقB سے نقل ہے کہ اس سورت کو واجب نمازوں میں پڑھے تو یہ سورت قیامت کے دن اس شخص کی شفیع ہو گی اور ایک عادل  گواہ بنے گی جو خدا کے نزدیک اس شخص کے حق میں گواہی دے گہی، اس کے بعد یہ سورت اس شخص سے جدا نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ بہشت میں داخل ہو[18]۔ امام باقرB سے بھی نقل ہے کہ اگر کوئی شخص تمام مُسَبِّحات کی تلاوت کرے تو یہ شخص مرنے سے پہلے امام زمانہ(عجل)کو درک کرے گا لیکن اگر اس سے پہلے مر جائے تو پیغمبر اکرم1 کے جوار میں ہو گا[19]۔تفسیر برہان میں اس سورت کیلئے بعض خواص کا تذکرہ ہوا ہے من جملہ یہ کہ دشمن کے شر سے محفوظ رہے گا،اسی طرح گم شدہ شئ کا پیدا ہونا بھی اس سورت کے خواص میں سے ہے[20]۔
65۔سوره طلاق کا مختصر جائزه
سوره طلاق قرآن کریم کی 65ویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے جو 28ویں پارے میں واقع ہے اس سورت کی اکثر آیات میں طلاق کے حکم کا تذکرہ ہونے کی وجہ سے اس کا نام "سوره طلاق" رکھا گیا ہے ابتدائی آیات میں طلاق کے کلی احکام کو تنبیہ، تہديد اور بشارت کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں خدا کی عظمت، پیغمبر اکرم1 کا مقام، نیک لوگوں کے اجر و ثواب اور برے لوگوں کے عذاب کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
مضامین
سوره طلاق میں طلاق کے کلی احکام کو تنبیہ، تہدید اور بشارت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اس سورت میں احکام طلاق، عده طلاق، مطلقہ عورتوں، عدہ طلاق میں عورتوں کا نفقہ، رضاع، اور عبرت کی خاطر گذشتہ اقوام کی داستان وغیرہ کا تذکرہ ہوا ہے توحید، معاد، نبوت اور متقین کی توصیف کے ساتھ ساتھ تقوا، خدا پر توکل کے علاوہ بعض دوسرے موضوعات سے بھی اس سورت میں بحث و گفتگو کی گئی ہے۔
فضیلت اور خواص
سورہ طلاق کی تلاوت کے بارے میں پیغمبر اکرم1سے نقل ہے کہ جو شخص سورہ طلاق کی تلاوت کرے اس کی مورت رسول خدا1کی سنت پرہو گی[21]۔ شیخ صدوق نے امام صادقBسے نقل کیا ہے کہ جو شخص اپنی واجب نمازوں میں سورہ طلاق اور سورہ تحریم کی تلاوت کرے خدا قیامت کے دن اسے دوزخ کی آگ سے امان میں رکھے گا اور ان دو سورتوں کی تلاوت کی وجہ سے اسے بہشت میں داخل کرے گا؛ کیونکہ یہ دو سورتیں پیغمبر اکرم1 سے متعلق ہیں[22]۔
66۔سوره تحریم کا مختصر جائزه
سوره تحریم قرآن کی چھیاسٹھویں(66ویں) اور مدنی سورت ہے اور قرآن کے اٹھائیسویں پارے میں واقع ہے سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے جس میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ نے ازواج کی رضایت کی خاطر قسم اٹھا کر اپنے اوپر حلال چیز کو حرام کیا سوره تحریم گناہکاروں کو توبہ نصوح کی ترغیب، قیامت میں ایمان کے آثار، مسلمانوں کو کفار اور منافقین سے جہاد اور ان پر سخت گیری کی طرف دعوت دیتی ہے اس سورت میں زوجہ نوح اور لوط کو غیر صالح اور زوجہ فرعون (آسیہ) اور حضرت مریم کو صالح خواتین میں سے شمار کیا ہے۔اس سورت کی چھٹی آیت مشہور آیات میں سے ہے جس میں مؤمنوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ اور اہل خانہ کو آتش جہنم سے بچائیں ۔
مضامین
سوره تحریم عتاب پیغمبر1 (کہ جو حقیقت میں عتاب ازواج نبی ہے) سے شروع ہوتی ہے کہ تم نے ازواج کی خوشنودی کی خاطر حلال خدا کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو آگے چل کر خداوند مؤمنین سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اس عذاب آتش سے بچانے کی تدبیر کرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جان لو کہ انہیں اپنے کیے ہوئے اعمال کے علاوہ کوئی سزا نہیں ملے گی، گناہگاروں کو توبہ (توبۂ نصوح)، قیامت میں آثار ایمان، منافقین اور کفار سے جہاد، ان کے ساتھ سخت برتاؤ، غیر صالح خواتین زوجۂ نوح اور زوجۂ لوط، صالح خواتین زوجۂ فرعون اور حضرت مریم (بنت عمران) کا مقام و منزلت اس سورت کے اہم موضوعات میں سے ہیں۔
فضیلت اور خواص
پیغمبر1 سے مروی ہے۔ جو کوئی سورہ تحریم کی تلاوت کرے گا وہ توبۂ نصوح میں کامیاب ہو گا اور وہ دوبارہ گناہ کی طرف نہیں لوٹے گا[23]۔ امام صادق Bسے روایت ہے۔ جو کوئی سورہ طلاق اور سورہ تحریم کو نماز یومیہ میں قرأت کرے گا پروردگار روز قیامت اسے ڈر، خوف، حزن اور اندوہ سے امان میں رکھے گا اور اسے آتش جہنم میں گرنے سے بچائے گا اور ان دو سورتوں کی مسلسل تلاوت کرنے کے نتیجے میں بہشت میں داخل کرے گا کیونکہ یہ دو سورے پیغمبر سے متعلق ہیں[24]۔اس کے خواص میں منقول ہے کہ جان کنی کے موقع پر اگر اس سورت کو لکھ کر محتضر کے پاس رکھے تو اس کی جان کنی میں آسانی ہوگی اور مردوں سے عذاب میں تخفیف کا موجب بھی ہے[25]۔ اسی طرح یہ سورہ اضطراب کو دور کرتا ہے اور اسکی مسلسل تلاوت مقروض کیلئے مفید ہے[26]۔
اٹھائسویں پارے کےچیدہ نکات
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴿١١﴾ سورة المجادلة
 مسلمانوں میں ایک شوق یہ بھی تھا کہ ہر وقت بزم رسول1 میں حاضررہو تا کہ اپنے تقرب کا پروپیگنڈہ کیا جا سکے اور اس طرح عدیم الفرصت مسلمانوں کو زحمت ہوتی تھی، تو قدرت نے تنبیہ کی کہ اول تو آنے والوں کو جگہ دو اور پھر جگہ کم ہو تو اٹھ جاو اور اسے برا نہ مانو اس لئے کہ صاحبان علم و ایمان کو بہرحال برتری حاصل ہونی چاہیے اور انہیں محفل میں مناسب جگہ ملنی چاہیے، انہیں جاہلوں اور کم رتبہ افراد کے برابر نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ۔
عالم عالم ہوتا ہے اور جاہل جاہل صرف محفل میں آ کر بیٹھ جانے سے جاہل عالم نہیں کہا جا سکتا اورمحفل میں حاضر نہ رہ سکنے کی بناپر عالم جاہل کے مانند  نہیں ہوسکتا ،اعلم ایک کمال بشریت ہے جو اپنے حامل کو ہمیشہ سرفراز اور سر بلند رکھتا ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾ سورة المجادلة
 جب بعض مسلمانوں نے صحبتِ پیغمبر1کو شخصیت سازی کا ذریعہ بنا لیا اور غریبوں کا داخلہ بند کر دیا تو قدرت نے یہ پابندی عائد کر دی کہ پہلے صدقہ دو اس کے بعد بزمِ پیغمبر1میں آؤ تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ کون اپنی صحابیت کی کس قدر قیمت لگاتا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فخر رازی اور طبری جیسے مفسرین کے اعتراف کے مطابق اس آیت پر حضرت علیBکے علاوہ کسی نے عمل نہیں کیا؛ صرف آپ کے پاس ایک دینار تھا تو اسے دس درہم میں بُھنایا اور ایک ایک کر کے صدقہ دیتے رہے اور بزم پیغمبر1میں حاضری دیتے رہے جس کے بعد آیت کا حکم منسوخ ہو گیا اور سارے صاحبان ریا کی صحابیت کا راز کھل گیا ۔
واضح رہے کہ آیت کا رخ ان افراد کی طرف ہے جنہیں بلا سبب محفل میں جمے رہنے کا شوق تھا، اس سے ان افراد کا کوئی تعلق نہیں ہے جنہیں اس طرح کی شخصیت سازی کا خیال نہیں تھا اور جو اپنے رتبہ سے خود بھی باخبر تھے اور بوقت ضرورت حاضری دیتے تھے اور پھر اپنے فرائض میں مصروف ہو جاتے تھے ۔
هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ  ﴿٢﴾ سورة الحشر
یہودیوں کا ایک قبیلہ بنی نضیر جس نے پیغمبراسلام1 سے صلح کا معاہدہ کر لیا تھا اور دونوں مدینہ میں سکون کی زندگی گزار رہے تھے لیکن جب احد میں مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو ان کے سردار کعب بن اشرف نے رسول اکرمؐ کی ہجو میں اشعار پڑھنے شروع کر دیئے، آپ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا اور ایک لشکر بھیج کر  ان یہودیوں کا محاصرہ کر لیا، ادھر منافقین نے یہودیوں سے سازش کر لی کہ ہم مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہارا ساتھ دیں گے لیکن ۲۱ دن کے مسلسل محاصرہ میں بھی کوئی ایک بھی ہمدرد نہ نکالا اور بالآخر یہودیوں نے جلا وطن ہوجانے پر صلح کر لی اور ہر تین آدمی پر ایک اونٹ سامان لے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئے مفسرین کا بیان ہے کہ یہ یہودیوں کی پہلی سزا تھی ؛ اس کے بعد دوبارہ انہیں حضرت عمر نے نکالا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج رسول اکرم1کا کلمہ پڑھنے والے اور حضرت عمر سے خصوصی عقیدت رکھنے والے مسلمان بھی یہودیوں سے سازش اور دوستی کر رہے ہیں اور دونوں کی روح کو اذیت دے رہے ہیں، انہیں یہ بھی احساس نہیں ہے کہ اس طرح نہ سنت رسولؐ پر باقی رہ سکیں گے اور نہ سیرت شیخین پرعمل کر سکیں گے خدا برا کرے سیاست دنیا کا کہ اس نے مسلمانون سے سب کچھ چھین لیا اور غیرت اسلامی کا بھی خاتمہ کر دیا جب کہ خدا مسلمانوں کی امداد کیلئے ہمیشہ تیار ہے اور اس کے اسباب فراہم کرتا رہتا ہے اور یہودیوں کے دل میں خوف اور دہشت خودبھی ایک بہترین وسیلہ ہے جس کے ذریہ یہودی آج تک لرز رہے ہیں اور منافق مسلمان ان یہودیوں سے لرزہ براندام ہیں اور جبکہ یہودیوں میں حقیقی مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے ۔
مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚوَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧﴾ سورة الحشر
 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس مال کے حصول میں مسلمانوں کا جہاد شامل نہ ہو اس میں مسلمانوں کا کوئی حصہ بھی نہیں ہے اور اس کا مکمل اختیار رسول اکرم1کے ہاتھ میں ہوتا ہے گویا یہ رسالت کی شخصی ملکیت ہوتی ہے اور اس کا استعمال صرف اس کے اختیار میں ہے اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ غریبوں میں تقسیم کر دیں تا کہ دولت ابل دولت کے درمیان نہ رہ جائے اور سارے سماج میں سکون اور اطمینان پیدا ہو سکے، یہ مال کے صرف کرنے کا ایک طریقہ ہے اس کا اجتماعی ملکیت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اسلام کو اشتراکیت کا مرادف قرار دیدیا جائے، اشتراکیت ایک الگ نظام ہے اور اسلام ایک الگ قانون حیات ہے جس میں ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ایک کی خصوصیات کو دوسرے میں تلاش کیا جاسکتا ہے ۔
وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٩﴾ سورة الحشر
 یہ زندگی کا ایک بڑا بنیادی قانون ہے کہ انسان حرص سے بچ گیا تو ہر بلا سے محفوظ ہو گیا، دنیا میں ادنی ٰمظالم سے لے کر استعمار اور ملک گیری تک سارے مظالم کی بنیاد یہی ایک حرص ہے جو دولت و اقتدار کے ساتھ بڑھتی بھی جاتی ہے اور انسان کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑتی؛ ملک گیری، استحصال ، توسیع پسندی ، استعمار یہ سب اس حرص و ہوس کے شعبے ہیں جو وقتا فوقتا مختلف شکلوں میں سامنے آتے رہتے ہیں، رب کریم ہر مرد مومن کو اس بدترین بلا سے محفوظ رکھے اور قناعت و کفایت کا جذ بہ عطا فرمائے ۔
لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٢١﴾ سورة الحشر
حرف ’’لو‘‘ اشارہ ہے کہ قرآن کا پہاڑ پرا تار دینا ناممکن تھا اس لئے کہ پہاڑ میں اس قدر قوت تحمل نہیں ہوتی ہے کہ اس کے معنی اور معارف کا وزن برداشت کر سکے اور یہیں سے انداز ہوتا ہے کہ جس قلب پیغمبؐر پر اتارا گیا ہے اس میں کسی قدر ہمت اور طاقت پائی جاتی ہے کہ پورے قرآن کے وزن کو برداشت کرلیا اور پھر نبی1 کے بعد وہ افراد کیسے قوی القلب اور باصلاحیت ہوں گے جنھیں حقائق قرآن کا مرکز قرار دیا گیا ہے، اور شائد اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے سرکار دو عالم 1نے قرآن اور اہلبیتFدونوں کو ثقلین سے تعبیر کیا تھا کہ دونوں کی سنگینی ایک جیسی ہے اور دونوں ایک دوسرےکے واقعی اہل اور مرکز ہیں اور ایک دوسرے کے وزن کو برداشت کر سکتے ہیں۔
 بیشک اگر قرآن اس قد رسنگین ہے کہ پہاڑ پر نازل ہو جائے تو پہاڑ ٹکڑےٹکڑے ہو جائے تو وارثان قرآن کو اس قدر طاقت اور قوت کا مالک ہونا چاہیے کہ بقول نصاریٰٔ نحران پہاڑ سے کہہ دیں کہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ایک حرف دعا سے ہٹ سکتا ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ ﴿١﴾ سورة الممتحنة
 کہا جاتا ہے کہ سورة الممتحنة حاطب بن بلتعہ کے کردار کے گرد گھوم رہا ہے کہ وہ اسلام لانے کے بعد شریک ہجرت رہا، بدر میں جنگ بھی کی لیکن جب فتح مکہ کا موقع آیا تو کفار کو ایک عورت کے ذریعہ خفیہ خط بھیج کر انہیں پیغمبرؐ کی تیاری سے باخبر کر دیا، جس کی وحی الٰہی نے نبی کو اطلاع دیدی تو آپ نے حضرت علیBکو چند اصحاب کے ساتھ اس عورت کے تعاقب میں روانہ کر دیا، اس نے نامہ بر ہونے سے انکار کیا تو حضرت علیBنے قتل کا ارادہ کر لیا، اس نے مجبور ہو کر اپنے جوڑے میں سے خط نکال کر دےد یا، اور حضرت علیBنے واپس آ کر اسے رسول اکرم1 کی خدمت میں پیش کیا، آپ1 نے حاطب سے سوال کیا، اس نے اقرار کر لیا اور کہا کہ میرے بال  بچے مکہ میں تھے، میں نے چاہا کہ کفار پر ایسا احسان کر دوں کہ کفار انہیں اذیت نہ دیں ؛ قدرت نے حاطب کو اس عذر پر معاف کر دیا لیکن اس کردار کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قابل مذمت قرار دید یا جہاں مال اور اولاد کی خاطر اسلام کے خلاف سازش کی جاتی ہے اور اسے نقصان پہنچایا جاتا ہے زمانے کے حالات پر غور کیا جائے تو آج عوام سے لے کر حکام تک میں حاطب کی ایک مسلسل نسل پائی جاتی ہے جسے بال بچے اور مال و دولت ،اسلام سے کہیں زیادہ عزیز ہیں اور جو اسلام کو ہر قدم پر بھینٹ چڑھانے کیلئے تیار رہتی ہے ۔.
 لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ سورة الممتحنة
یہ اسلام کی مکمل ترین سیاست صلح و جنگ ہے کہ جو قومیں ظلم و تعدی سے کام نہ لیں ان سے جنگ نہ کی جائے اور جو قومیں ظلم و تعدی پر کمر بستہ ہو جائیں ان سے صلح نہ کی جائے لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے آیت کو بالکل الٹ کر رکھ دیا اور جس امریکہ نے عالم اسلام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور قلب  عالم اسلام میں اسرائیل کو ایجاد کر دیا ہے اور ہمیشہ اس کی حمایت میں ویٹو کا استعمال کیا ہے اس سے صلح کی جارہی ہے اور جو ملک اسلامی مفادات کیلئے ہر طرح کی قربانی دے رہا ہے اس سے جنگ کی تیاریاں ہورہی ہیں، خدا اس صورت حال کی اصلاح کرنے اور مسلمانوں کو عقل سلیم اور صحت ایمان عطا کرے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿١٠﴾ سورة الصف
 دنیا میں ہر انسان مزاجی اعتبار سے تاجر ہے اور فائدے کا طلبگار رہتا ہے اور فائدہ کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دینا چاہتا، قدرت نے اسی مزاج پر نظر رکھتے ہوئے فائدہ کی عظمت کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ تجارت ہی کرنا ہے تو خدا سے معاملہ کرو اور فائدہ ہی لینا ہے تو جنت جیسا فائدہ حاصل کرو جیسا کہ امیر المونینؑ کا ارشاد ہے کہ تمہارے نفس کی قیمت صرف جنت ہے لیکن خبردار کسی اور دام پر اسے مت بیچنا۔
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ ﴿٥﴾ سورة الجمعة
 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہودیوں نے توریت میں تحریف کر دی ہے ،اور مسلمانوں نے قرآن میں تحریف نہیں کی ہے لیکن اس کے باوجود جو مسلمان قرآنی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ہیں وہ حقیقتاً انسان کہے جانے کے قابل نہیں ہیں اس لئے کہ توریت جیسی کتاب کا بار نہ اٹھانا انسان کو گدھا بنا دیتا ہے تو قرآن کا مرتبہ تو اس سے کہیں زیادہ بلند و برتر ہے اور اس کا بار نہ اٹھانے والا تو کسی رخ سے انسان کہے جانے کے لائق نہیں ہے ۔
وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّـهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّـهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿١١﴾ سورة الجمعة
 حضور اکرم1 خطبہ پڑھ رہے تھے اور مال تجارت کا قا فلہ آ گیا تو بارہ افراد کے علاوہ سب بھاگ کھڑے ہوئے اور ساری صحابیت رخصت ہوگئی اور حقیقت امر یہ ہے کہ آج بھی ایسے کردار پائے جاتے ہیں جنہیں تجارت اور تماشہ کے آگے نماز کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا، کچھ لوگ کاروبار میں لگے رہ جاتے ہیں اور کچھ ریڈیو ر پورٹ اور ناچ گانے اور فلموں کے پروگرام کی نذر ہو جاتے ہیں ، ایسے لوگوں کا شمار عملی طور سے انہیں منافقین میں ہے اگر چہ بظاہر مومنین میں شمار کیے جاتے ہیں ۔
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ  ﴿١﴾ سورة المنافقون
 منافقت کی بہترین تعریف حضرت علیB نے ان الفاظ میں کی ہے کہ مومن کی زبان دل کے پیچھے ہوتی ہے اور منافق کا دل زبان کے پیچھے ہوتا ہے مؤمن جو دل میں رکھتا ہے وہی کہتا ہے اور منافق جو کہتا ہے وہ دل میں نہیں رکھتا ہے ۔
يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ  ﴿٩﴾ سورة التغابن
 تغابن ہار جیت کو کہا جا تا ہے اور اس سوره میں دہرے کر دار کا ذکر کر کے اسی حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے کہ نیک کردار افراد زندگی کی  بازی میں جیتنے والے ہیں اور بدکردار خسارہ اٹھانے والوں میں ہیں، اب انسان کا فرض ہے کہ وہ میدان حیات کو اپنی جیت کا میدان بنا دے اور شکست کا میدان نہ بننے دے کہ روز قیامت شرمندگی اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑے اور اس انعام سے محروم ہو جائے جو اس بازی کے جیتنے والوں کیلئے معین کیا گیا ہے اور جس کے لئے بہترین ایمان اور کردار کی شرط لگا دی گئی ہے ۔
لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّـهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّـهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧﴾ سورة الطلاق
 اسلام کے نظام عدل کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ انسان کسی حالت میں بھی انسانیت کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور طلاق کے بعد بھی اگر عورت سے بچہ کی رضاعت کا کام لے تو اسے دودھ کی قیمت دیدےاور بلا سبب غربت کا بہانہ نہ کرے بلکہ جس حالت میں پروردگار نے رکھا ہے اسی اعتبار سے خرچ بھی کرے ،اگر غریب ہے تو غریبوں کی طرح کرے اور اگر صاحب وسعت ہے تو اس طرح خرچ کرے جس طرح ایک صاحب وسعت کرتا ہے اور بخل سے کام نہ لے کہ خدا کسی شخص کو بھی اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے جتنا اسے عطا کیا ہے اور خدا بخیل کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے۔
اسلام نے یہی قانون طاقت کے بارے میں بھی رکھا ہے اور یہی قانون مالیات کے بارے میں بھی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ طاقت کے سلسلہ میں اسے لفظ وسع سے تعبیر کیا ہے جو طاقت کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے اور مالیات میں مِمَّا آتَاهُ سے تعبیر کیا ہے جو انسان کو یہ احساس دلانے کیلئے کافی ہے کہ وہ جو کچھ بھی خرچ کر رہا ہے وہ اس کا اپنا نہیں ہے اور نہ پروردگار نے زبردستی اس کے سر پر قانون کو لادیا ہے بلکہ اس نے پہلے مال عطا کیا ہے اور اسکے بعد خرچ کا مطالبہ کیا ہے ۔
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّـهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا ۖقَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ﴿٣﴾ إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ﴿٤﴾  سورة التحريم
 واقعہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام 1کے گھر میں ازواج کی دو پارٹیاں تھیں، ایک طرف عائشہ وحفصہ تھیں اور ایک طرف باقی ازواج اور یہ دونوں دیگر ازواج کو برداشت نہ کرتی تھیں چنانچہ ایک روز پیغمبر1نے زینب بنت جحش کے یہاں شہد کھا لیا تو دونوں نے سازش کر لی کہ جب پیغمبر1گھر میں آئیں تو ان سے کہا جائے کہ آپ کے منہ سے بو آ رہی ہے، چنانچہ اس کے بعد پہلی ملاقات حفصہ سے ہوئی اور انہوں نے منصوبہ پر عمل کر دیا، آپ نے صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اچھا اب نہ کھاؤں گا تا کہ ان کے دل سے زینب کا حسد نکل جائے اور گھر میں کوئی فساد نہ برپا ہو؛ لیکن دیکھو کسی سے اس وعد ہ کا ذکر نہ کرنا، حفصہ نے فورا اپنی شریک کار کو مطلع کر دیا ،اور جب پیغمبر1 نے یہ کہا کہ مجھے اس خیانت کا علم ہے تو گھبرا کر پوچھا کہ آپ کو کس نے بتا دیا ہے،تو فرمایا کہ پروردگار نے اور اب عافیت اسی میں ہے کہ دونوں توبہ کرو کہ تمہارے دلوں میں کجی آگئی ہے اور اگر توبہ نہ کی اور سازش کا سلسلہ جاری ر ہا تو یاد رکھو کہ میرے ساتھ خدا، ملائکہ اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نیک کردار ہیں اور مجھے تمہاری پرواہ بھی نہیں ہے تم کو چھوڑ بھی دوں تو مجھے تم سے کہیں بہتر عورتیں مل سکتی ہیں ۔
حیرت کی بات ہے کہ ان حقائق قرآنیہ کے ہوتے ہوئے بھی بعض مسلمان ان خواتین کو ساری کائنات سے بہتر قرار دیتے ہیں اور انہیں دین کا مأخذ اور مدرک قرار دینے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیتے ہیں، اسلام میں شریعت سازی کا کیا معیار ہے اور دین خدا ایسے ہی افراد سے لیا جائے گا جن کے دلوں کی کجی کا خودقرآن مجید نے اعلان کیا ہے تو ’’على الاسلام بعدہ السلام‘‘۔
تدوین:سیدلیاقت علی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
________________________________________
[1] علی‌بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۵، ص۱۱۶
[2] علی‌بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۵، ص۱۱۶
[3] شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۷۔
[4] طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۹، ص۳۸۴۔
[5] صدوق،‌ ثواب الاعمال، ص۱۱۸۔
[6] بحرانی،‌ تفسیر البرہان، ج۵، ص۳۵۱۔
[7] طبرسی، مجمع البیان، ج۹، ص۴۵۹۔
[8] شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۸۔
[9] ملا صدرا، تفسیر سورہ الجمعہ، ۱۴۰۴ق، ص۱۵، بہ نقل از صفوی، «سورہ جمعہ»، ص۷۱۶۔
[10] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۲۷۔
[11] مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۶، ص۳۶۲۔
[12] صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۳۵۶۔
[13] بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۳۷۱۔
[14] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۳۷۔
[15] شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۸۔
[16] امام خمینی، توضیح المسائل (مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۸۴۸۔
[17] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۴۶۔
[18] شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۸۔
[19] شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۸۔
[20] بحرانی، تفسیر البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۳۹۱، بحرانی، تفسیر البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۳۹۱۔
[21] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۵۴۔
[22] صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۹۔
[23] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۶۸۔
[24] صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۸۔
[25] نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۴۱۔
[26] بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۴۱۷۔