تئسویں پارے کا مختصر جائزه

تئسویں پارے کا مختصر جائزه
تیئسویں پارے کےچیدہ نکات

لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴿٤٠﴾سورة يس
علما ء فلکیات نے ہر دور میں ان آیات کی نئی نئی تفسیریں کی ہیں اور جس قدر فلکیات کا علم بڑھتا جا رہا ہے آیات کے مفاہیم میں تبدیلی ہوتی جا رہی ہے،متقدمین کا خیال تھا کہ آفتاب ایک مرکز پر چکر لگا رہا ہے،بعد والوں کے نزدیک دوڑنا اور چکر لگانا دو مختلف کام ہیں اور آفتاب اپنے محور پر چکر لگانے کے علاوہ ۱۲ میل فی سکنڈ کی رفتار سے آگے بھی بڑھ رہا ہے، اب یہ کدھر جا رہا ہے اس کا علم پروردگار کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، بیشک کیسا صاحب قدرت و اختیار ہے وہ معبود جس نے اتنی طویل وعریض فضائے بسیط کو خلق کر دیا ہے کہ ہزاروں سال سے یہ دوڑ جاری ہے اور فضا کی وسعتوں میں کوئی کمی نہیں پیدا ہوئی ہے ۔
واضح رہے کہ آفتاب کی موجودہ حرکت کو پروردگار نے اپنی عزت اور اپنے علم کی علامت قرار دیا ہے، اور عزیز علیم کی مقرر کردہ تقدیر سے تعبیر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس بندے کی دعا سے اس حرکت میں تبد یلی پیدا ہو جائے اسے تقدیرساز کہا جا سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ خدا یہ کام خود اپنی طاقت سے کرتا ہے اوربندہ یہ کام اپنی دعا ؤں اور عبادتوں سے انجام دیتا ہے ۔
وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ﴿٦١﴾ سورة يس
صراط مستقیم دو حدود کے مجموعہ کا نام ہےیعنی شیطان کی عبادت نہیں کرنا ہے اور رحمان کی عبادت کرتے رہنا ہے لہذا صراط مستقیم سے وه افراد بھی دور ہیں جو دونوں کی عبادت کرتے ہیں اور رِندی ہی میں جنت تلاش کر رہے ہیں ،اور وہ افراد بھی دور میں جو دونوں سے الگ ره کر اپنی دنیا آباد کرنا چاہتے ہیں اور ہر مسئلہ میں غیر جانبداری ہی کو عافیت کا راستہ تصور کرتے ہیں ۔
وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ ﴿٢٤﴾ سورة الصافات
روایات میں وارد ہوا ہے کہ عرصه محشر میں محبت اہلبیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ یہی وہ شے ہے جس کے بارے میں دنیا میں رسول اکرم نے بطور اجر رسالت سوال کیا تھا اور ہر انسان کو مسئول اور ذمہ دار قرار دیا تھا۔
وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ ﴿٨٣﴾ سورة الصافات
لفظ شیعہ نیک کردار افراد کیلئے ایک قرآنی اصطلاح ہے، اس لئے جناب ابراہیمؑ کو بھی ان کے اتباع کی بنا پر جناب نوح ؑکے شیعوں میں سے قرار دیا گیا ہے جب کہ بعض مفسرین کے مطابق دونوں کے درمیان ۲۶۴۰سال کا فاصلہ ہے تو اگر اس طویل فاصلہ کے بعد جناب ابراہیمؑ جناب نوحؑ کے شیعوں میں شمار ہو سکتے ہیں تو اتباع اور پیروی کی بنا پر آج کے مؤمنی شیعہ علی ؑ کیوں نہیں ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں خود پیغمبرؐ اسلام نے بشارت دی ہے کہ یاعلیؑ تم اور تمہارے شیعہ کامیاب اور کامران ہیں ۔
إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ ﴿١٧٢﴾ سورة الصافات
اس مقام پر یہ شبہ نہ ہو کہ جب خدا نے اپنے پیغام کے پہنچانے والے خاص بندوں سے مدد کا وعدہ کیا ہے توکبھی کبھی یہ حضرات دنیا والوں سے مغلوب کیوں ہو جاتے ہیں اور ہر محاز پر غالب اور فاتح کیوں نہیں نظر آتے ہیں، اس لئے کہ نصرت کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں کبھی یہ نصرت دلائل کی مضبوطی کے ذریعہ کی جاتی ہے اور کبھی اس کا تعلق حق پر ثباتِ قدم سے ہوتا ہے کہ شدت مصائب میں بھی ان کے ثبات قدم میں فرق نہیں آتا اور ہر معرکہ کو صبر و استقلال کے ساتھ سَر کر لیتے ہیں اور کبھی اس کا تعلق سیاسی قوت اور اقدار و غلبہ سے ہوتا ہے جو نصرت کی سب سے واضح قسم ہے اور جس کا ہر انسان کو انتظار رہتا ہے؛ حالانکہ اصولی بات یہ ہے کہ اس نصرت کو قدرے دیر میں منظر عام پر آنا چاہیے تا کہ بندگان خدا کے اخلاص کا اظہار اور امتحان ہو جائے ورنہ اگر سامنا ہی نہ کرنا پڑا اور ہر مرحلہ کو نصرت الہی ہی نے طے کرا دیا تو ان کے کردار کی عظمت کا اندازہ کس طرح ہو گا اور یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ نصرت رشته و قرابت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان و کردار کی بنا پر شامل حال کی گئی ہے ۔
فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ﴿٧٣﴾ إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ﴿٧٤﴾ سورة ص
بظاہر شیطان نے آخر وقت تک ربو پریت پروردگار سے انکار نہیں کیا تھا اور یہی کہہ رہا تھا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدمؑ کو خاک سے بنایا ہے تیری عزت کی قسم میں لوگوں کو گمراہ کروں گا لیکن اس کے باوجود پروردگار نے اسے لفظ کا فر سے یاد کیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ نمائندۂ پروردگار کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرنا اور اس کی اطاعت سے انکار کر دینا درحقیقت عظمت الٰہی اور ربوبیت پروردگار کا انکار ہے اور اس کے بعد اسلام و ایمان کا کوئی امکان نہیں رہ جاتا ہے، اور انکار کرنے والا اسلام و ایمان سے نکل کر کفر اور لعنت کی حدوں میں داخل ہو جاتا ہے ۔
بعض افراد نے اس مقام پر یہ شبہ بھی وارد کیا ہے کہ خدا چاہتا تو ابلیس سجدہ کرلیتااور انکار نہ کرسکتا اور جب اس نے نہیں چاہا تو ابلیس کس طرح سجدہ کرتا؛ حالانکہ یہ ایک کھلا ہوا مغالطہ ہے دنیا میں چاہنے کی دو قسمیں ہوتی ہیں بعض اعمال کو حاکم خود انجام دینا چاہتا ہے ان میں مخالفت ممکن نہیں ہوتی ہے اور بعض دفعہ اپنی رعایا سے چاہتا ہے ان میں رعایا کو مخالفت اور بغاوت کی چھوٹ دی جاتی ہے تا کہ جبر کا الزام نہ آنے پائے!
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿٢١﴾ سورة الزمر
رب العالمین نے بار بار پانی کی نعمت کا ذکر کیا ہے کہ پانی اصل وجود انسان ہے اور پانی ہی سے ذی حیات کی حیات وابستہ ہے اور پانی کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ سب سے زیا دہ وافر اور فراواں ہونے کے با وجود سب سے زیادہ فوائد اور اثرات رکھتا ہے، تو انسان جب ایسی ارزاں نعمت کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا ہے تو باقی نعمتوں کا کیا شکر یہ ادا کرے گا جو اُس کی نگاہ میں بھی قدرو قیمت اور عظمت و اہمیت رکھتی ہیں۔