پانچویں پارے کا مختصر جائزه

پانچویں پارے کا مختصر جائزه

پانچویں پارے کےچیدہ نکات

1. آیت 24سوره نساء۔ازدواج موقت۔اس آیت میں واضح طور پر ازدواج موقت کا جواز موجود ہے جیسا کہ روایات اہل بیت علیھم السلام میں بھی ازدواج موقت کے لیے اس آیت سے استناد کیا گیا ہے، امام باقر علیہ السلام سےجب ابو بصیر کے ذریعے سوال کیا گیا تو امام نے فرمایا۔ قرآن مجید نے اس سلسلے میں بیان دیا ہے؛ وہاں پر کہ جہاں ارشاد ہے فَمَا اسْتَمْتَعْتُم ،اسی طرح امام باقر علیہ السلام یہ بھی منقول ہے۔اسے قرآن نے زبان پیغمبر سے حلال گردانہ ہے اور یہ تا روز قیامت حلال ہے تاریخ سے بھی یہ بات روشن ہے کہ ازدواج موقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے میں جائز تھا اور مسلمان اس پر عمل کرتے تھے اور پھر عمر بن خطاب نے اپنے شخصی رائے اور نظریے کی بنیاد پر اس سے منع کردیا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے معروف صحابی جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل ہے متعہ ہمارے درمیان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے میں اور خلافت ابوبکر میں اور خلافت عمر کے کچھ حصے میں عام سی بات تھی پھر اس کے بعد عمر نے اسے منع کردیا خود عمر سے منقول ہے کہ زمانۂ پیغمبر میں دو متع تھا کہ جسے میں حرام کر رہا ہوں اور جو بھی اس پر عمل کرے گا اسے سزا دوں گا۔ ایک متعۃ النسا اور حج تمتع [6]۔

2. آیت ۲۹سوره نساء۔خود کو قتل نہ کرو۔مفسرین نے اس آیت کے جملے وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ جملہ خودکشی کی نہی میں ہے۔

3. آیت ۵۸سوره نساء۔امانت کی اہمیت۔امانت کے معنی بہت وسیع ہیں اور ہر طرح کے مادی اور معنوی سرمائے کو اپنے اندر شامل کرتا ہے اور ہر مسلمان اس آیت کے واضح بیان کے بعد وظیفہ رکھتا ہے کہ کہ وہ کسی بھی امانت میں کسی کے ساتھ بھی خیانت نہ کرے چاہے صاحب امانت مسلمان ہو یا غیر مسلمان ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اپنے ایک صحابی سے فرمایا۔ اگر کوئی ایسا شخص کہ جس نے علی علیہ السلام کو شمشیر سے قتل کیا ہو اگر وہ بھی میرے پاس امانت رکھے یا مجھ سے نصیحت مانگے یا مجھ سے مشورہ کرے اور میں اسے قبول کرلوں تو قطعی طور پر حقِ امانت کو ادا کروں گا ،اسی طرح ایک دوسری روایت میں امام صادق علیہ السلام سے ہی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا۔ لوگوں کے طولانی رکوع و سجود کی طرف ہی فقط نگاہ نہ کرو کیونکہ ممکن ہے کہ یہ ان کی عادت بن چکی ہو جسے انہیں چھوڑنا ناگوار گزرتا ہو، بلکہ گفتگو میں صداقت اور ادائے امانت میں وہ کیسے ہیں اس کی جانب نگاہ کرو [7]۔

4. آیت ۵۹سوره نساء۔ایک روایت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے خاص صحابی جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے پیغمبر خدا ہم نے خدا اور اس کے پیغمبر کو پہچان لیا، یہ اولی الامرلوگ کون ہیں جنکی اطاعت کو پروردگار نے اپنی اطاعت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے ارشاد فرمایا وہ میرے بعد میرے جانشین ہیں جو مسلمانوں کے پیشوا ہیں جن میں سے سب سے پہلے علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں اس کے بعد حسن علیہ السلام اس کے بعد حسین علیہ السلام ہیں [8]۔