دوسرے پارے کا مختصر جائزه

دوسرے پارے کا مختصر جائزه
دوسرے پارے کےچیدہ نکات

(سورهٔ البقرہ)

1. آیت ۱۴۲۔یہودیوں کی سازشوں کو بے پردہ کرنے کے لئے قبلے کی تبدیلی۔۔۔۔۔ کائنات کی ہر چیز خدا کے لئے ہے اور کعبہ اور بیت المقدس بذات خود کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں بلکہ یہ خدا کی ذات ہے کہ جس نے اہمیت عطا کی ہے[1] ۔

2. آیت۱۴۳۔ امت وسطی بعض بزرگ مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آیت میں امت وسط سے مراد امت اسلامی کا ایک خاص گروہ ہے یعنی ائمہ اطہار علیہم السلام ،اس آیت کے ذیل میں امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے۔ لوگوں کے گواہ سوائے پیغمبر اور ائمہ کے کوئی اور نہیں ہے اور یہ بات کسی طور معقول نہیں ہے کہ اس سے مراد تمام امت اسلامی ہو، اور خدا ان سے گواہی طلب کرے، کیونکہ امت میں تو کچھ ایسے بھی ہیں کہ جن کی گواہی سبزی کی ایک گٹھری ، یا مکھی کے پر کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتی[2]۔

3. آیت۱۴۶۔ گذشتہ آسمانی کتابوں میں پیغمبر اسلام کی خصوصیات کا ذکر کہ جسے یہودی چھپاتے تھے[3]۔

4. آیت ۱۵۰۔ اتمام نعمت کا تحقق خلافت بلافصل علی علیہ السلام میں۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ پروردگار نے اس آیت میں مسلمانوں کو اس بات کا وعدہ دیا ہے کہ اپنی نعمت کو ان پر تمام کرے گا اور اس کا عملی نمونہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر تین میں پیش فرمایا ہے جیسا کہ اکثر علماء نے بیان کیا ہے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3 غدیر خم میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ کے ہاتھوں حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی پر فائز ہونے کے بعد نازل ہوئی [4]۔

5. آیت ۱۵۲۔یاد خدا اور اسکے شکر کی فضیلت و حقیقت۔یاد خدا سے مراد فقط اس کا زبانی ذکر نہیں ہے بلکہ ذکر خدا دل و جان کی عبادت ہے اور اگر زبانی ذکر دل سے نہ ہو تو کوئی اہمیت نہیں رکھتا ،جاننا چاہیے کہ خدا کی حقیقی یاد انسان کے عمل سے نمایاں ہوتی ہے جیسا کہ ایک روایت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ سے منقول ہے۔ جس نے خدا کی اطاعت کی گویا اس نے خدا کو یاد کیا چاہے اس کا نماز ، روزہ اورتلاوت قرآن کم ہی کیوں نہ ہو لیکن جس نے خدا کی نافرمانی کی اس نے خدا کو فراموش کردیا ہے چاہے اس کا نماز روزہ اور تلاوت قرآن زیادہ ہی کیوں نہ ہو[5]۔

6. آیت۱۵۵۔ صبر کرنے والے سربلند ہیں۔اس آیت کے مطابق پروردگار ہمیشہ ہی انسان کو مختلف طریقوں سے آزماتا رہتا ہے اور اس امتحان میں قبول ہونے والے افراد فقط اور فقط صبر کرنے والے ہیں جو مصائب و مشکلات میں بس یہی کلمہ دہراتےرہتے ہیں کہ ہم تو خدا ہی کے لیے ہیں اور خدا ہی کے جانب پلٹ کر جائیں گے واضح رہے کہ کہ اس سے مراد صرف زبانی کہنا نہیں ہے بلکہ اس جملے پر دل سے اعتقاد رکھنا ضروری ہے اس سلسلے میں کے صبر اور انا للہ وانا الیہ راجعون کا آپس میں کیا ربط موجود ہے بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ انسان کا وجود اور اس کی تمام ملکیت؛ مال ودولت بچے استقلال نہیں رکھتے ہیں اور خدا کے ارادے کی وجہ سے اور اس کی خواہش کے مطابق موجود ہوئے ہیں اور خدا ہی انسان کا حقیقی مالک اور اس کی ملکیت کا مالک ہے اگرچہ خدا نے ظاہراً انسان کو ان چیزوں کا مالک بنادیا ہے لیکن یہ مالکیت نسبی ہے اور یہی مالکیتِ ظاہری اور نسبی دوبارہ انسان سے لے لی جائے گی اور انسان بغیر اس کے کہ کسی چیز کا مالک رہے گا خدا کی طرف خالی ہاتھوں واپس پلٹ جائے گا ،امیرالمومنینؑ سےروایت ہے کہ آپ نے فرمایا ۔ جو ہم کہتے ہیں ’’ان للہ ‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ہی حقیقی فرمانروا ہے اور ہم اس کے مملوک ہیں اور یہ جملہ کہ جو ہم کہتے ہیں ’’انا الیہ راجعون‘‘ یہ اس بات کا اقرار ہے کہ ہم ایک دن مرنے والے ہیں [6]۔

7. آیت۱۶۰۔پروردگار کا انسان کی توبہ کو قبول کرنا۔سوائے اس آیت کے قرآن مجید میں کہیں پر بھی پروردگار نے توبہ کے لئے اپنی زبان سے اسے اپنی جانب نسبت دیتے ہوئے کوئی گفتگو نہیں کی اور کہیں بھی ’’انا التوّاب الرحیم‘‘ نہیں کہا اور یہ چیز خدا کے لطف و کرم کو توبہ کرنے والے کے لئے بیان کرتا ہے کہ جس نے اپنے ماضی کی اصلاح کر لی ہے اور مستقبل میں اپنی اصلاح پر باقی رہنے کا عزم مصمم کرلیا ہے اسکے لیے خدا تواب و رحیم ہے، اس آیت میں خدا نے اپنے آپ کو دو صفات سے یاد کیا ہے ایک تواب اور دوسرے رحیم جو اس خصوصیت کو اپنے کمال تک پہنچاتی ہے ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے۔ پروردگار کی خوشی آپ نے توبہ کرنے والے بندے کے لئے اس خوشی سے بڑھ کے ہوتی ہے کہ جب رات کے اندھیرے میں کوئی اپنا سامان سفر گم کر دے اور اچانک سے پھر وہاں سے پالے[7]۔

8. آیت۲۴۷۔ شرائط رہبری۔ علم و قدرت ہے حسب و نسب، مال و ثروت نہیں۔

[1] المیزان ج۱ص۳۱۳ اور ۳۲۶

[2] اطیب البیان ج۲ ص ۲۲۸ اور المیزان ج۱ ص۳۱۴

[3] اطیب البیان ج۲ ص ۲۴۰

[4] المیزان ج۱ص۳۲۴

[5] المیزان ج۱ص۳۲۴

[6] المیزان ج۱ص۳۴۹

[7] سفینۃ البحار ج۱ ص۴۷۶