مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۶

مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۶
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹ: درج ذیل  مقالات کے تمام اقساط کتاب: مسافر کا روزہ  - سے ماخوذ ہے
۔۔۔
مذکورہ بالا دلائل کا تنقیدی جائزہ

سفر میں روزہ رکھنے کے جواز میں جو دلائل پیش کیے گئےان  پر درج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں:
پہلا اعتراض :ان لوگوں نے جس تاویل کا سہارا لیا ہے اس کے بارے میں واضح ہو کہ ہر  تاویل یا  توجیہ مخصوص قواعد و ضوابط کی تابع ہوتی ہے۔ کسی کو قواعد و ضوابط  سے ہٹ کر دلائل کی من پسند توجیہ و تأویل کرنے کا حق نہیں پہنچتا تاکہ دین میں تحریف واقع نہ ہو، دینی حقائق مسخ نہ ہوں اور دین کی نشانیاں  محو نہ ہوں ۔
اگر دینی تعلیمات میں مختلف و متضادمعانی کی گنجائش  رہے تو وہ مٹ جائیں گی۔  ان قواعد وضوابط میں سے پہلا قاعدہ یہ ہے کہ جب تک تاویل  کی ضرورت پر دلالت کرنے والے مضبوط قرائن و عوامل موجود نہ ہوں تب تک تأویل سے اجتناب کیا جائے۔
 اس قاعدے کو مدنظر رکھتے ہوئےجب ہم آیت صوم پر نظر کرتے ہیں تو وہ تأویل سے بے نیاز نظر آتی ہے۔
آیت میں کوئی ایسا قرینہ یا دلیل موجود نہیں ہے جو ہمیں اس آیت میں کسی لفظ کو محذوف ماننے پر مجبور کرے۔
پھراگر  ہم تسلیم بھی کر لیں کہ یہاں کوئی چیز محذوف ہے تب بھی  یہ امر اس بات کا سبب نہیں بنتا کہ آیت سفر میں روزہ رکھنے کے جواز پر دلالت کرےکیونکہ یہ  عبارت: فمن کان منکم مریضا او علی سفر (فَاَفطَرَ) فعدۃ من ایام اُخر جوازِ صوم پر قطعی اور یقینی دلالت نہیں کرتی اور کسی لفظ کو محذوف رکھنے سے  روزہ رکھنے کا جواز ثابت نہیں ہوتا بلکہ ممکن ہے کہ اس صورت میں آیت کا یہ مقصود ہو:جو مسافر سفر میں روزہ نہ رکھنے کا پابند ہو اور نہ رکھے تو اس سے یہ فرض سرے سے ساقط نہیں ہو گا بلکہ اسے رمضان کے بعد  اس کی قضا  کرنی ہوگی۔
بالفاظ دیگر سفر میں روزے کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے لفظ فافطر کو محذوف سمجھنا کافی نہیں کیونکہ ممکن ہے کوئی اس  نیت سے روزہ نہ رکھے کہ اس پر روزہ  نہ رکھنا واجب ہے اور کوئی اس نیت سے  روزہ نہ رکھے کہ روزہ رکھنا اور نہ رکھنا دونوں جائز ہیں۔پس جب ان دونوں باتوں کا احتمال موجود ہو تو لفظ فافطر کو محذوف سمجھنے سے  سفر میں روزے کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔  
علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں:اہل سنت والجماعت کے اکثر علما کہتے ہیں کہ اللہ کے قول:
فمن کان منکم مریضا او علی سفرفعدۃ من ایام اُخر
روزہ نہ رکھنے کے وجوب پر نہیں بلکہ اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔پس مسافر اور مریض کو اختیار حاصل ہے کہ وہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں جبکہ آپ  جان  چکے ہیں کہ اللہ کے فرما
نفعدۃ من ایام اُخر
سے صاف ظاہر ہے کہ روزہ کھولنا صرف جائز نہیں بلکہ  واجب ہے اور یہی بات ائمہ اہل بیت  سے مروی ہے۔
بعض صحابہ مثلا عبدالرحمن بن عوف،
عمر بن خطاب، عبداللہ بن عمر، ابو ہریرہ اورعروہ بن زبیر کا بھی یہی نظریہ ہے۔ وہ اللہ کے فرمان
  فعدۃ من ایام اُخر
سے اس بات پر استدلال کرتے ہیں۔
انہوں (علمائے اہل سنت ) نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے اس آیت میں ایک لفظ کو محذوف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اصل مقصود کچھ یوں ہے:
 فمن کان منکم مریضا او علی سفرفَاَفطَرَ فعدۃ من ایام اُخر۔
اس نظرئے پر پہلا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ کسی چیز کو محذوف قرار دینا ظاہری دلالت کے منافی ہے(جیسا کہ  ان کے علما نے خود  تصریح فرمائی ہے)او ر اس کے لیے کسی قرینے  یا اشارے  کی ضرورت ہوتی ہے   جبکہ اللہ کے اس کلام میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔
دوسرا اعتراض یہ کہ (لفظ" فَاَفطَرَ" کو) محذوف فرض کرنے کے باوجود  یہ آیت سفر میں روزہ رکھنے کے جواز کی  دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ خود ان کی تصریح کی رو سے  یہاں اللہ تعالی حکمِ شریعت بیان فرما رہا ہے۔
اگر ہم یہاں لفظ "فَاَفطَر "کو محذوف مان کر یہ کہیں : فمن کان منکم مریضا او علی سفرفَاَفطَرَ تب بھی آیت زیادہ سے زیادہ یہ بتاتی ہے کہ مریض اور مسافر پر روزہ کھولنا حرام نہیں ہےبلکہ جائز ہے۔یہ جواز کا وسیع تر مفہوم ہے جو واجب،مستحب اورمباح کو شامل ہے۔آیت کریمہ میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جو یہ بتائے کہ سفر میں روزہ کھولنا حرام،واجب اورمستحب نہیں بلکہ صرف اور صرف مباح ہے بلکہ یہاں دلیل اس کے برخلاف ہے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ قانون سازی کے وقت اس چیز کو بیان نہ کرنا جسے بیان کرنا ضروری ہو صاحب حکمت قانون ساز کے لیے زیبا نہیں ۔(۱۳)
علامہ حلّی اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
’’آیت کریمہ میں  مسافرکے حکم  اور مقیم کے حکم  کو الگ  کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں  کا حکم یکساں نہیں ۔
پس جس طرح مقیم پرروزہ رکھنا  لازم اور واجب ہے اسی طرح  مسافرپر روزے کی قضاء واجبِ مُضیَّق (جس کی انجام دہی کا وقت تنگ ہو )ہے۔پس جب مسافر پر روزے  کی قضا ہر صورت میں واجب ہے (خواہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے ) تو اس  سے روزے کی فرضیت  ساقط ہو گی۔  (۱۴)
مذکورہ بالابحث سے واضح ہوا کہ:
۱۔ اصولی طور پر  آیت کریمہ کو اس کے حقیقی معنیٰ  پر حمل کرنا چاہیے۔سوائے استثنائی اور اضطراری حالت کے مجاز، تأویل ، توجیہہ اور کسی لفظ کو محذوف ماننے کی گنجائش ہی نہیں ہےجبکہ یہاں نہ تو کوئی استثنائی حالت موجود ہے نہ ہی کوئی مجبوری جس کے باعث ہم حقیقی معنی ٰسے دستبردار ہو جائیں۔علاوہ ازیں یہ بھی واضح ہوا کہ  تاویل سے  آیت کے اصل معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔
۲۔اگر  آیت مبارکہ کو اس کے حقیقی معنی پر حمل کیا جائے تو یہ سفر میں روزہ کھولنے کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن اگر مجازی معنی مراد لیے جائیں اور ایک لفظ(فَاَفْطَرَ) کو محذوف  مان لیا جائے تو  بھی آیت جواز اور رخصت کے قول  پر دلالت نہیں کرتی بلکہ  یہ عمل زیادہ سے زیادہ آیت کو مجمل بنا دیتا ہے کیونکہ آیت کو مجاز پر حمل کرنے کی صورت میں مسافر کا روزہ نہ رکھنا یا تو اس وجہ سے ہے کہ اس پر روزہ نہ رکھنا واجب ہے یا اس لیے کہ سفر میں روزہ  رکھنا اور نہ رکھنا دونوں  جائز ہیں۔

یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں جو اس تردّد کو ختم کرے اور دونوں احتمالوں میں سے  ایک جانب کو معین کرے اور دوسرے احتمال کی  نفی کرے۔پس اس  آیت میں تعیین اور اجمال دونوں کا  احتمال پایا جاتا ہے جبکہ صاحب عقل و حکمت متکلم کا اپنے مقصود  کو مجمل رکھنا اور اپنی مراد  کو واضح کرنے والے قرینے کا ذکر نہ کرنا قبیح ہے۔ بنا بریں اس آیت کو اس کے حقیقی معنی پر حمل کیے بغیر چارہ نہیں ہے کیونکہ  اصولی طور پر ہر کلام  کو اس کے حقیقی معنی پر ہی  حمل کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں تاویل اصل مراد کو مجمل بنا دیتی ہے جو قبیح ہے۔

یاد رہے کہ سفر میں روزہ رکھنے کے جواز کے حامی فقہاء نے اللہ کے اس  فرمان سےبھی  استدلال کیاہے:
’’وَاَن تَصُومُوا خیَرٌ لکُم‘‘
(اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے)۔وہ اس آیت شریفہ سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ یہ اندازِ خطاب:(اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے لیے بہترہے) اس مخاطَب کےلیے مناسب ہے جو روزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں کا اختیار رکھتا ہو۔ لیکن اگر اس کے لیے روزہ کھولنا  واجب ہو تو پھر ایسے شخص سے یوں مخاطب ہونا(کہ تمہارے لیے  روزہ رکھنابہترہے)بےمعنی اور نامعقول بات ہے۔
ابن حزم  (۱۵)نے اس استدلال کو سختی سےرد کرتے ہوئے لکھاہے:’’جو کوئی ارشاد ربانی:
" وان تصوموا خیر لکم "
سے سفر میں
ر وزہ رکھنے کے جواز  پر استدلال کرے اس نے گناہ کبیرہ کا اتکاب کیا اورسفیدجھوٹ بولا ہے کیونکہ اس نے اللہ کے کلام میں تحریف سے کام لیا ہے (ہم ایسے کاموں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں)۔
یہ ایسا عاروننگ ہے جس سے کوئی محقق راضی نہیں ہو سکتا  کیونکہ آیت کریمہ صاف صاف کہتی ہے:
کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ایاما معدودات فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدّۃ من أیام اُخروعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین فمن تطوع خیرا فھو خیر لہ وان تصوموا خیر لکم ۔
(اے ایمان والو تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔ یہ روزے گنتی کے چند دن ہیں۔  اگر تم میں سے کوئی بیمار یا مسافر  ہو تو وہ  دوسرے دنوں میں مقدار پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھا نا ہے ۔  جو اپنی خوشی سے نیکی کرے اس کے لیے یہ بہتر ہے ۔ اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔)  
 یہ آیت کریمہ روزے کےمنسوخ شدہ حکم  کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔وہ یوں کہ جب شروع میں رمضان کا روزہ واجب ہوا تو مسلمانوں کو اختیار تھا کہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں اور  نہ رکھنے کی صورت میں  ہر روزے کے بدلے ایک غریب کو کھانا کھلائیں۔البتہ روزہ رکھنا بہتر تھا۔
یہ اس آیت کا واضح اور صریح مفہوم  ہے ۔ اس کا سفر کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسی طرح فقیر کو کھانا کھلانے کا سفرمیں روزہ  کھولنے سے کوئی ربط نہیں ہے۔
پھر ان فقہاء نے کس طرح اس المیے کو درست قرار دیا  حالانکہ  ہمارے نظرئے کی تائید احادیث نے بھی کی ہے؟‘‘  (۱۶)
بخاری نے اپنی صحیح میں
’’وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ‘‘
کے نام سےایک باب   مرتب کیا ہے اور اس میں ابن عمر اور سلمہ بن اکوع سے نقل کیا ہے کہ مذکورہ بالا آیت بعد والی آیت کے ذریعے منسوخ ہوئی ہے جو یہ ہے:
شهرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْءَانُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى‏ وَ الْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَلْيَصُمْهُ۔
(رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں۔لہٰذا تم میں سے جو اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے۔)
بخاری نے اسی باب میں نقل کیا ہے کہ نمیر نے اعمش سے، اس نے عمرو بن مرہ سے اور اس نے ابن ابی لیلیٰ سے روایت کی ہے کہ اصحاب رسول نے اس سے بیان کیا :جب (شروع میں) مسلمانوں پر رمضان کا روزہ واجب ہوا تو یہ ان پر سخت گزرا۔پس ان کے لیے یہ رخصت نازل ہوئی کہ وہ بے شک روزہ نہ رکھیں لیکن ہر چھوڑے ہوئے روزے کے بدلے ایک فقیر کو کھانا کھلا ئیں۔ پھر یہ سہولت اسی آیت کے ذیل میں مذکور کلام الہٰی:

’’وان تصوموا خیر لکم‘‘

کے ذریعے منسوخ ہوئی اور سب کو حکم دیا گیا کہ وہ رمضان میں روزہ ہی رکھیں۔(۱۷)
اگر ہم اس آیت کے منسوخ ہونے کو تسلیم نہ بھی کریں پھر بھی یہ آیت ان کے مطلوب(سفر میں روزے کے جواز) پر دلالت نہیں کرتی۔ علامہ طباطبائی ؒاس سلسلے میں لکھتے ہیں:
اللہ کا فرمان:
وان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون
(اگر تمہیں علم ہو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے)سابقہ  کلام کا تتمہ ہے اور آیت کا مقصود کچھ یوں ہے: تم واجب روزے کے ذریعے اللہ کی اطاعت و فرمانبردای کرو کیونکہ نیک کام کے ذریعے اللہ کی بندگی بہت اچھا عمل ہے اور چونکہ روزہ بھی تمہارے لیےبہتر عبادت ہے لہٰذا اس کے ذریعے اللہ کی اطاعت بھلائی پر بھلائی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قول الہی:
"ان تصوموا خیر لکم  "
کےمخاطب عام مؤمنین نہیں جن پر روزہ واجب ہے بلکہ اس کے مخاطَب وہ صاحب  عذر افراد ہیں جن کے لیے روزہ  نہ رکھناجائز جبکہ رکھنا بہترہے جیسا کہ خطاب کے لحن سے ظاہر ہے ۔ لہٰذا یہ وجوب سے نہیں بلکہ استحباب سے مناسبت رکھتا ہے۔ یوں اس آیت میں مریضوں اور مسافروں سے کہا جا  رہا  ہے کہ ان کے لیے بیماری اورسفر کی حالت میں روزہ کھول کر بعد میں قضا کرنے کے مقابلے میں رمضان میں روزہ رکھنا ہی بہتر اور مستحب ہے۔
اس نقطۂ نظر پر درج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں:
۱۔ اس حکم کو مریض اورمسافر سے مختص سمجھنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
۲۔ آیت کے دو حصوں  کے انداز بیان میں اختلاف ہے۔بالفاظ دیگر قول الہی :
"فمن کان منکم ....الخ "
میں کلام کا تعلق غائب شخص سےہے جبکہ
" وان تصوموا خیر لکم...الخ "
میں کلام کاتعلق حاضر مخاطب سے ہے۔(ان دو جملوں کا اختلاف بتاتا ہے کہ یہ دونوں ایک موضوع سے مربوط نہیں ہیں ۔)
۳۔ پہلا جملہ اجازت اور اختیار پر دلالت کرتا ہے جبکہ
" فعدۃ من ایام اُخر"
قضاء ہی کو واجب قرار دیتا ہے۔
۴۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ پہلا فقرہ مریض و مسافر کے لیے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے  کے اختیار پر دلالت کرتا  ہے تب بھی آیت میں مسافر کےروزہ رکھنے کا ذکر ہوا ہے نہ کھولنے کا۔ پس
"ان تصوموا خیر لکم"
 اس تخییر کے کسی بھی شق کو بیان نہیں کرتا بلکہ آیت صرف یہ  بتاتی ہے کہ رمضان کا روزہ رکھا جائے نیز مریض اور مسافر دوسرے ایام میں روزہ رکھیں۔ لہٰذا صرف  
"ان تصوموا خیر لکم"
 سے قضاء کے مقابلے میں ادا کے بہتر ہونے پر استدلال کی کوئی گنجائش نہیں  جبکہ اس بارے میں کوئی  واضح قرینہ موجود نہیں ہے۔
۵۔ اس  آیت  کا مقصد مسافر اورمریض کے رمضان میں روزہ رکھنے کے استحبابی حکم  کو بیان  کرنا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ کہا جا  سکتا  کہ رمضان میں روزہ رکھنے کا استحباب،قصر کے واجب ہونے کے ساتھ ناقابل جمع ہے بلکہ آیت روزے کے واجب ہونے کے فلسفےاورعلت کو بیان کررہی ہے کہ شارع مقدس کا حکم مصلحت اور انسانوں کی بھلائی  کا حامل ہے۔بطور مثال  قول خداوندی:
"فتوبوا الی بارئکم فاقتلوا انفسکم ذالک خیر لکم (۱۸)
یز فاسعوا الی ذکراللہ وذروا البیع۔ ذالکم خیر لکم(۱۹)

اور

تومنون باللہ ورسولہ وتجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم۔ ذالک خیر لکم ان کنتم تعلمون"(۲۰)
 نیز دوسری بہت ساری آیات میں خیر لکم مذکورہے۔(۲۱)
(یعنی ان آیات میں خیر لکم فلسفہ تشریع سے مربوط ہے کہ احکام خداوندی لوگوں کے مصالح پرمشتمل ہیں۔ان آیات میں خیر لکم کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں مذکور احکام مستحب اور مسنون ہیں۔مترجم)
یہ تھا ان لوگوں کی قرآنی دلیل کا مسکت  جواب جو یہ گمان کرتے ہیں کہ سفر میں روزہ  رکھنا جائز اور  مستحب ہے۔
(جاری ہے)
---
حوالہ جات:
۱۳ ۔ تفسیر المیزان  ۲/۱۲  
۱۴ ۔ تذکرۃ الفقہاء ۶/۱۵۲
۱۵ ۔ ابن حزم مکتب خلفاء کے مذہب ’’ظاہریہ‘‘سے تعلق رکھتے تھے۔وہ ان کے جلیل القدر عالم اور فقیہ تھے۔ ان کا شمار اندلس کے اسلامی عہد کے مایہ ناز علماء میں ہوتا ہے۔مترجم
۱۶-   المحلی ۶/۲۴۸۔۲۴۹  
۱۷۔صحیح بخاری ۲/ ۲۳۸۔۲۳۹
۱۸۔ البقرۃ/۵۴
۱۹ ۔جمعہ/۹
۲۰۔صف/۱۱
۲۱ ۔ المیزان ۲/۱۵
---


ماخوذ ازکتاب:  مسافر کا روزہ
)عالمی مجلس اہل بیت، اہل بیت علیہم السلام کی رکاب میں  (۲۷) (
نام کتاب:         اہل بیت کی رکاب میں ۔مسافر کا روزہ
موضوع :         علم فقہ
مولف :         سید عبد الکریم بہبہانی    
مترجم :          حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:        غلام حسن جعفری/محمد علی توحیدی        
ایڈیٹنگ :        حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین مفتی
کمپوز نگ :         حجۃ الاسلام غلام حسن جعفری
اشاعت :        اول  ۲۰۱۸
ناشر:         عالمی مجلس اہل بیت
جملہ حقوق محفوظ ہیں