مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۵

مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۵
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹ: درج ذیل  مقالات کے تمام اقساط کتاب: مسافر کا روزہ  - سے ماخوذ ہے

۔۔۔

اب ہم ان احادیث کا ترتیب وار جواب دیں گے جو سفر میں روزہ رکھنے کے جواز پر بطور دلیل پیش ہوئی ہیں۔ان احادیث و روایات کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں ۔
پہلی حدیث: حضرت عائشہ کی روایت میں کہا گیا ہے کہ جب حمزہ بن عمرو نے مسافر کے روزے کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ ﷺنے حمزہ سے فرمایا:’’چاہو تو روزہ رکھو اور چاہو تو نہ رکھو۔‘‘ اس حدیث پر یہ اعتراضات وارد ہوتے ہیں:
۱۔ اس حدیث میں رمضان کا کوئی ذکر نہیں ہے جبکہ ہماری بحث رمضان کے روزے کے بارے میں ہے۔اسی طرح سائل کے سوال میں بھی رمضان  کے روزے کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
پس یہ احتمال موجود ہے کہ سائل نے نذر کے روزے یا مستحب  روزے کے بارے میں سوال کیا ہو اور اس بات کے قرائنِ حالیہ موجود ہوں اور اسی بنا پر رسول اللہ ﷺنے سفر میں نذر کا یا مستحب روزہ رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہو جبکہ ہماری بحث ہر قسم کے روزے سے نہیں بلکہ رمضان کے روزے سے ہے اور حدیث میں کسی قسم کی شرط موجود نہیں ہے۔
۲۔اگر ان  کی دلیل یہ ہو  کہ چونکہ روایت مطلق ہےلہٰذا یہ حکم رمضان کے روزے کے بشمول ہر قسم کے روزے کو شامل ہو گا  تو اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ اطلاق پر وہاں عمل ہوتا ہے جہاں استثناء پر کوئی دلیل قائم نہ ہو حالانکہ سابق الذکر آیت کریمہ واضح طورپر بتاتی ہے کہ سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں بعد میں آنے والی بہت سی احادیث نبوی بھی بتاتی ہیں کہ سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے۔ پس سابق الذکرحدیث کا اطلاق، آیت قرآنی کی ظاہری دلالت  اور بہت ساری صریح احادیث نبوی سے متصادم ہے۔ بنا بریں ہمیں رمضان میں مسافر کے روزے کے بارے  میں اس حدیث کے اطلاق سے دستبردار ہونا پڑے گا جبکہ باقی روزے اس اطلاق میں شامل رہیں گے ۔
۳۔ صحیح بخاری میں یہ قرینہ موجود ہے کہ سائل کا مقصد رمضان کا روزہ نہیں تھا۔وہ یوں کہ حضرت عائشہ سوال کرنے والے یعنی حمزہ بن عمرو کے بارے میں فرماتی ہیں کہ وہ  کثیر الصیام یعنی زیادہ روزے رکھنے والاتھا۔ظاہر ہے کہ کثیر الصیام کی  صفت اس شخص کے لیے استعمال نہیں ہوتی جو صرف رمضان کا روزہ رکھے کیونکہ رمضان میں تو ہر مسلمان روزہ رکھتا ہے بلکہ اس کے لیے استعمال ہوتی ہے جو زیادہ مستحب روزے رکھتا ہو۔

دوسری حدیث: یہ بھی حمزہ بن عمرو سے مروی ہے جس میں اس نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا:یا رسول اللہ!میں سفر کے دوران روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے؟آپ نے فرمایا: ’’یہ تو اللہ کی طرف سے ایک سہولت اور رخصت ہے۔ پس اگر کوئی  اس پر عمل کرے تو بہتر ہے اوراگر کوئی روزہ رکھنا چاہے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘

اس حدیث کا جائزہ لینے سے معلوم  ہوتا  ہے کہ :
الف۔اس حدیث میں بھی رمضان کے روزے کا کوئی ذکر نہیں۔
ب۔ چونکہ سائل کثیر الصیام تھا لہٰذا یہ قوی احتمال موجود ہے کہ اس نے مستحب روزوں کے بارےمیں سوال کیاہوجو ہماری بحث کے دائرے سے ہی خارج ہے۔(۲۲)
ج۔ ابن حزم نے محمد ابن حمزہ کو ضعیف قرار دیا ہے جس نے اپنے باپ حمزہ بن عمرو سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔(۲۳)

تیسری حدیث :یہ ابو الدرداء سے منقول حدیث ہے جس میں  وہ کہتے ہیں :ہم شدید گرمی میں رسول اللہﷺکے ساتھ رمضان میں سفر پر نکلے۔اس وقت رسول اللہ ﷺاور عبداللہ بن رواحہ کے علاوہ ہم میں سے کوئی روزے سے نہیں تھا۔
تبصرہ: اس روایت میں یہ احتمال موجود ہے کہ شاید رسول اللہﷺ اورعبداللہ بن رواحہ کا روزہ نذر کا معین  روزہ تھا (رمضان کا نہیں)۔پس جب یہ احتمال موجود ہے تو  اس حدیث سے کوئی یہ استدلال نہیں کرسکتا کہ سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا جائز ہے۔

چوتھی اور پانچویں حدیث: یہ دونوں انس اور جابر بن عبداللہ سے مروی ہیں ۔ وہ دونوں کہتے ہیں  کہ آنحضرت کے اصحاب آپ کے ساتھ سفر پر جاتے تھے۔ اس دوران بعض روزہ رکھتے تھے اور بعض روزہ نہیں رکھتے تھے۔پھر  روزہ رکھنے والے اور نہ رکھنے والے ایک دوسرے پر اعتراض بھی نہیں کرتے تھے۔
تبصرہ:ان دو روایتوں میں بھی یہ ذکر نہیں ہوا کہ وہ روزے رمضان کےتھے یا نہیں ۔ شاید روزہ رکھنے والوں نے نذرکے روزے  یا مستحب روزے رکھے ہوں۔

یاد رہے کہ  جب رسول اللہﷺان کے درمیان موجود تھے اور ہر مسئلے کا حکم بیان فرما رہے تھے تو قدرتی بات ہے کہ صحابہ ایک دوسرے کی عیب جوئی اور ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا اصحاب کے ایک دوسرے پر اعتراض نہ کرنے سےصحابہ کا اجماع  ثابت نہیں ہوتا۔
علاوہ ازیں اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ اس سے اجماع صحابہ ثابت ہوتا ہے  تب بھی رسول اللہﷺ کی موجودگی میں اجماع صحابہ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں  ہے ۔البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہاں کوئی دلیل تھی تو وہ رسول خداﷺکی خاموش تائید تھی لیکن یہ کہاں سے ثابت ہو کہ روزہ رکھنے والے اصحاب نے رمضان کے ادا  روزے رکھے تھے جس کی بنا پر ہم یہ کہہ سکیں  کہ رسول اللہﷺ نے اپنی خاموش تائید کے ذریعے  سفر میں رمضان کے روزے ادا کی نیت سے رکھنے کوجائز قرار دیا تھا؟
چھٹی حدیث:  ابو سعید خدری سے مروی ہے: ’’ہم رمضان میں رسول خداﷺکے ساتھ جہاد پر جاتے تھے تو ہم میں سے بعض روزہ رکھ لیتے تھے جبکہ بعض روزہ نہیں رکھتے تھے۔پس روزہ رکھنے والے اور نہ رکھنے والے ایک دوسرے کےعمل کو معیوب نہیں سمجھتے تھے بلکہ صحابہ کا خیال تھا کہ جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور روزہ رکھ لے تو یہ اچھا ہے لیکن  اگر کوئی کمز وری محسوس کرے اور روزہ نہ رکھے تو یہ بھی مستحسن ہے۔‘‘
تبصرہ:  اس روایت میں  راوی بعض صحابہ کے فعل اور ان کے خیالات کو نقل کر رہا ہے نہ کہ رسول کے موقف کو ۔راوی نے اس بات کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں کیا ہے کہ رسولﷺ کو اس بات کی اطلاع تھی کہ آپ کے لشکر میں روزہ رکھنے والے بھی موجود ہیں تاکہ آپ کا سکوت ان کے عمل کی خاموش تائید محسوب ہو۔
واضح ہے کہ رسول خداﷺ کی موجودگی میں اصحاب کا قول و فعل   نہ حجت  محسوب  ہوتے ہیں،نہ اجماع اور نہ دلیل۔
یہاں راوی اپنے ساتھی اصحاب  کے عمل اور خیالات کو بیان کر رہا ہے جس کی دلیل اس کا یہ قول ہے:

’’صحابہ کا خیال تھا کہ جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور روزہ رکھ لے تو یہ اچھا ہے۔
 لیکن  اگر کوئی کمز وری محسوس کرے اور روزہ نہ رکھے تو یہ بھی مستحسن ہے۔‘‘

یہاں  راوی کے کلام میں معمولی سا اشارہ بھی موجود نہیں ہے کہ وہ رسول ﷺکے موقف کو بیان کر رہا ہےیا یہ کہ صحابہ کرام  رسول کے سامنے اپنا عملی موقف پیش کر رہے تھے۔راوی کے کلام میں  زیادہ سے زیادہ یہی  بیان کیا گیا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے کےبارے میں  بعض صحابہ کا  نقطہ نظر  کیا تھا۔
ظاہر ہے کہ اس   نقطہ نظر  کی کوئی شرعی  حیثیت  نہیں ہے جسے بنیاد بنا کر استدلال کیا جاسکے ۔
ساتویں حدیث: یہ اس  باب کی سب سے  عجیب اور غیر مربوط  حدیث ہے۔یہ بھی ابوسعید خدری  ہی سے مروی ہے جس میں وہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’جو شخص اللہ عز و جل کی خاطر ایک دن روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر خریف  (موسم سرما و گرما کے درمیانی زمانے )کے فاصلے کے برابر دور  رکھے گا۔‘‘
اس حدیث میں  سفر میں  رمضان کے واجب روزے رکھنے کا کوئی ذکر ہی نہیں،کہاں یہ کہ سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے کے جواز پر دلالت کرے۔حدیث کے الفاظ سے استحباب  کی بو آتی ہے۔اس میں مستحب روزے رکھنے کی  ترغیب  دی جارہی ہے اور تفصیلات  کا ذکر  نہیں ہوا جن میں سے ایک رمضان کے روزے کا مسئلہ ہے۔سفر میں  رمضان کے روزوں  کی تو بات ہی دور کی ہے۔  
آٹھویں حدیث: یہ ابن عباس سے منقول ہے۔وہ کہتے ہیں:
رسول خداﷺنے روزے کی حالت میں رمضان میں سفر فرمایا۔جب آپ عسفان نامی جگہ پہنچے تو آپ نے پانی کا ظرف طلب فرمایا جبکہ ابھی دن باقی تھا اور لوگوں کو دکھاتے ہوئے دن دھاڑے اس پانی کو نوش فرمایا۔ اس کے بعد آپ نے مکہ پہنچنے تک روزہ نہیں رکھا۔
ابن عباس کہا کرتے تھے  کہ رسول اللہﷺ نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے اور کھولا بھی ہے۔پس جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے روزہ نہ رکھے۔
تبصرہ: عنقریب  ابن عباس کی روایت آئے گی جس میں کہا گیا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے کی اجازت منسوخ ہو گئی  ہے۔
(جاری ہے)
----
حوالہ جات:
۲۲ ۔ روایت میں’’فھل علیَّ جناح‘‘ (کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے؟) کا  فقرہ بھی بتاتا ہے کہ سائل جانتا تھا کہ سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا گناہ ہے۔ لہٰذا وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا یہی حکم مستحب روزے کے لیے بھی ثابت ہے؟پس  رسول خداﷺ نے فرمایا کہ سفر میں مستحب روزہ نہ رکھنا اچھا ہے لیکن اگر کوئی  رکھ بھی لے تو گناہ نہیں۔ (مترجم)  
۲۳ ۔ المحلی ۶/۲۵۰
---
ماخوذ ازکتاب:  مسافر کا روزہ
)عالمی مجلس اہل بیت، اہل بیت علیہم السلام کی رکاب میں  (۲۷) (
نام کتاب:         اہل بیت کی رکاب میں ۔مسافر کا روزہ
موضوع :         علم فقہ
مولف :         سید  عبد الکریم بہبہانی    
مترجم :          حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:        غلام حسن جعفری/محمد علی توحیدی        
ایڈیٹنگ :        حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین مفتی
کمپوز نگ :         حجۃ الاسلام غلام حسن جعفری
اشاعت :        اول  ۲۰۱۸
ناشر:         عالمی مجلس اہل بیت
جملہ حقوق محفوظ ہیں