حضرت علی علیہ السلام اور نا اہل گورنروں کا تقرر



تمہید

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے نظام حکومت میں منفی کردار اور نا پسندیدہ کار ناموں کے مالک گورنروں کا تعارف کرانے سے پہلے خلاصہ کے طور پر ان اسباب و علل کی تلاش و تجحص ضروری ہے جو حکومت علوی میں منفی کردار اور ناکارہ کارندوں اور گورنروں کے ظہور کا باعث بنے ہیں:

 

1۔ عدل وانصاف کی بنیاد پر قائم حکومت کی ظرفیت کا فقدان

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنی حکومت و سیاست کو حقوقی، مالی اور اداری بالاخص اور تمام میدانوں میں بالعموم عدل وانصاف اور برابری و مساوات کی بنیاد پر قائم کیا۔ حقوقی مسائل میں یعنی قانون کے تئیں ہر شخص حکومت اسلامی میں برابر ہے اس مسئلہ میں جس طرح پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایتیں نقل ہوئی ہیں جیسے کہ روایت (الناس امام الحق سواء) تمام لوگ قانون کے مقابلہ میں مساوی و برار ہیں اسی طرح امیر المومنین علی علیہ السلام سے بھی اسی سلسلہ میں بہت سی حدیثیں موجود ہیں اور آپ نے اپنے مختلف خطبوں میں معاشرہ کے اندر موجود تمام طبقون اور قبیلوں کی نسبت قانون سب کے لئے یکساں ہے کا مسئلہ بیان فرمایا ہے یہاں تک مذہبی اقلیت میں زندگی بسر کرنے والووں کے حقوق کو بھی بیان کیا ہے کمزور وتہی دست لوگ جن پر عام طور سے معاشرہ میں کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے نزدیک اس قدر اہم ہے کہ آپ اس کا حق دنیا پرستوں اور ظلم و ستم کرنے والوں سے لئے بغیر نہیں چھوڑتے ۔ مرفہ ٔ الحال اور فارغ البال افراد جنھیں اپنے مال ودولت پر ناز ہے لیکن حضرت علی علیہ السلام کے نزدیک اس قدر ناتوان ہیں کہ آپ ان سے مظلوموں اور دیگر لوگوں کا حد لے لیتے ہیں۔
اس لئے آپ بڑی بے باکی سے فرماتے ہیں:
(الذلیل عندی عزیزحتی اخذالحق له، والقوی عندی ضعیف حتی آخذالحق منه) 1 ذلیل وخوار میرے نزدیک عزیز ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق دلوادوں اور قوی میرے نزدیک ضعیف و کمزور ہے یہاں تک کہ اس سے دوسروں کا حق لے لوں۔
یہاں تک کہ امام علی علیہ السلام قسم کھاکر کہتے ہیں محروموں اور ناداروں کا حق ظالموں اور لوٹ مار کرنے والوں سے لے کر رہیں گے اور اس سلسلہ میں کسی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے ۔
اس لئے آپ فرماتے ہیں:
خدا کی قسم! مظلوم کا حق ظالم سے لے کر رہوں گا اور ظالم پر اس قدر سختی کروں گا کہ وہ حق کی طرف مڑ جائے اگر چہ وہ حق کی طرف میلان نہ رکھتا ہو۔2
جی ہاں! حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام حق وحقیقت کے دلدادہ مرد ہیں حضرت علی علیہ السلام کا نام لینے سے ہی ذہن سچائی و انصاف کی طرف مائل ہو جاتا ہے عدالت اور حقیقت کا مھور ہی حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی ہے اگر کوئی حقیقت کا متلاشی ہے اسے چاہئے کہ امام کی ذات پر برکت میں تلاش کرے۔ دوسری جانب اگر حضرت علی علیہ السلام کو ڈھونڈھتا ہے تو پھر میدان عدالت وحقیقت میں ہی انھین پایا جا سکتا ہے علی (ع) اور عدالت میں تفکیک ہی ممکن نہیں ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا ہی نہیں ہو سکتے ۔ لہٰذا اگر کوئی اس مرد الٰہی کی راہ سے ہٹ بڑی غلطی میں مبتلا ہے اور وہ ہر گز اپنے مطلوب کو نہیں پاسکتا۔
اسی واسطے آپ کا ارشاد ہے:
(عزب رای امری ء تخلف عنی) 3 جس کی رائے و نظر مجھ سے پھر جائے تو وہ واقعیت وحقیقت سے دور ہے۔
اس طرح حضرت علی علیہ السلام کو سب کو سفارش کر رہے ہیں کہ: اپنے آپ کو حقیقت کی قوۃ جاذبہ سے نزدیک کرو اور حقیقت کے تابناک چراغ سے اپنے آپ کو ظلمت و تاریکی سے باہر نکالو اور اس کی بدولت اپنے کا باطل سے دور کرو تاکہ منزل مقصود تک پہنچ جاؤ ۔
اس واسطے کہ حضرت خود ہی حقیقت کا مرکز اور ہمیشہ باطل سے نبردآزما رہے ہیں اس لئے آپ اپنے گورنروں سے مسلسل یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے اعمال کو میزان حق وحقیقت پر تولو، دیکھو ان میں باطل سے مخلوط نہ کرنا ۔ لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کے بعض گورنروں نے خود سری سے کام لیا آپ کی باتوں پر کان نہیں دھرا اور نہ ہی سیاسی ماہرین سے مشورہ کر کے اقدام کیا۔

 

2۔ حقوق انسانی کا پاس ولحاظ نہ رکھنا

علوی حکومت م میں حاکم کو چاہئے کہ حقوقی مسائل میں قاطعیت سے کام لے اور تمام لگوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے، اور نہ خاندانوں اور طبقاتی امیتاز کو سامنے رکھ کر ایک گورہ کو دوسرے گروہ پر فوقیت دے اور اس طریقہ سے رخنہ اور اختلاف ان کے درمیان پیدا کرے۔
چنانچہ حضرت امیر لمومنین اپنے گورنروں کو وہی طور طریقہ اپنا نے کا حکم فرمرہے ہیں کہ جس پر خود عمل پرا ہیں۔ خدا کے دین کے سلسلہ میں اس قدر سخت ہیں کہ عدل وانصاف کو باقی رکھنے میں اولاد، قریبی رشتہ دار کا لحاظ نہ ہو۔ جس طرح حضرت امیر نے جناب عقیل اور ابن عباس بلکہ اپنی اولاد کے ساتھ سلوک کیا ہے جو کہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے ۔ جس طرح روایت میں آیا ہے کہ عبد اللہ جعفر طیار کے فرزند نے حضرت علی علیہ السلام سے عرض کیا ۔ اے امیر المومنین ! کتنا اچھا ہوتا اگر حکم فرماتے کہ مجھے زندگی گذارنے کے لئے کچھ مال عطا کیا جاتا۔ خدا کی قسم! کچھ بھی مال میرے پاس نہیں ے ۔ جس سے اپنی ضرورت کو پورا کروں۔ سوائے اس کے کہ اپنی سواری کو بیچ دوں۔ حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا: خدا کی قسم! کوئی چیز تمہارے لئے نہیں رکھتا ہوں ۔ مگر یہ کی تم اپنے چچا سے چاہو کہ وہ چوری کرے اور تم کو عطا کرے۔ 4
حضرت امیر علیہ السلام ہمیشہ اپنے گورنروں کو عدالت اور انصاف کو انجام دینے کی نصیحت کرتے ہیں اور اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو جائے کہ خدا کے دین کی مصلحتیں تمہارے روابط اور شخصی لگاؤ کی وجہ سے تحت الشعاع قرار پائیں ۔ بلکہ جو ہمیشہ ایک حاکم کی نظر میں ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ مساوات اور توازن کو ہر جہت سے جامعہ میں بر قرار رکھے۔کیونکہ اگر معیار سلیقہ ذاتی قوم و قبیلہ کے لحاظ سے برتری یا انفرادی واجتماعی لگاؤ کی بنیاد پر کوگا تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ لوگوں کی فکریں خراب ہوں گی اوراجتماعی فساد رواں پائیں گے کہ سرانجام اسلامی حکومت کا ضعیف ہونا ظلم کے ذریعہ اور جو چیزیں اس سے وجود میں آئیں گی اس کا لازمہ ہوں گی۔
جس طرح آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے ایک کلی قانون اور اصول و فریضہ اپنے گورنروں کے لئے خطبوں اور خطوط کی شکل میں ایک دستور العمل منتخب کر کے ان کے پاس ارسال کیا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ۔ کچھ گورنروں نے اس لحاظ سے کہ ان کے اندر جامعہ کو ادارہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی بناء پر عدل وانصاف کو بالائے تاک رکھ کر ان احکام و قوانین کی مخالفت کی۔ حقیقت میں ان لوگوں نے اپنے اس سہل انگاری عمل کی وجہ سے حضرت کے اصلاحی اقدامات اور جامعہ کی اصلاح میں سد راہ کا سبب بنے ۔

 

3۔ ھیڈنگ کا ترجمہ نہیں ہوا ہے

حضرت امیر علیہ السلام حکومت اور اس کی زعامت و سرپرستی کو دنیاوی منصب اور مقام کو خاطر خواہ میں نہیں لاتے ہیں، بلکہ اگر کوئی شخص اس منصب کو حاصل کرنے کے لئے یا اس سے شہرت طلبی یا مقام طلبی یا مادی و دنیاوی مقصد کو مد نظر رکھ کر استفادہ کرے تو آنحضرت(ع) کی نگاہ میں ایسی حکومت کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس لئے حضرت کی نظر میں اگر حکومت وسیلہ ہو عدالت برقرار کرنے اور جامعہ کی ایک ایک فرد کے حقوق کو ادا کرنے کے لئے ہو تو اس وقت حکومت ایک مقدس اور گرانقدر ہوگی، اور حقیقت میں ایسی حکومت کی حفاظت اور پشت پناہی در واقع عدالت سے دفاع ہے۔ جو کچھ حضرت کے جملوں سے استفادہ ہوتا ہے اور ایک مجموعی قانون کے عنوان سے سمجھا جا سکتا ہے وہ یہ کہ حکومت بنائی۔اس کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ہے مگر یہ کہ برابری اور مساوات حکم فرما ہوں۔ اور عدالت اپنے تمام جہت سے جامعہ میں محقق ہو۔
یہ ہے نظریہ اور پاک پاکیزہ فکر حضرت امیر علیہ السلام کی حکومت کے سلسلہ میں ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آنحضرت کی حکومت کے زمانے میں کچھ کم ظرف اور بے انصاف افراد نے محض یہ کہ مقام منصب نصیب ہوا۔ اور اس طرح ان کے اندر تبدیلی واقع ہوئی کہ عادی شرائط کی بنیاد پر نہ یہ کی فقط ایسے ھالات ان کے اندر پیدا نہ ہوئے بلکہ دوسروں کو عدل وانصاف انجام دینے پر لعنت و ملامت کرتے تھے تعجب کا مقام ہے کس طرح کچھ لوگ ایسے ہیں؟ کیا فقط مقام ومنصب کے عطا ہو جانے یا مالہ فروانی کی وجہ سے انسان کی حقیقی شخصیت میں کس چیز کا افاضہ ہوگا۔؟ یا اس کو ذات کے لحاظ سے تبدیل کر دے گا؟ حضت علی علیہ السلام نے بہت سے خطوط حکومت کے والیوں کے نام لکھا ہے۔
مال اور مقام کا زیادہ ہونا سبب نہ ہوکہ والی (حاکم) کا طور طریقہ تبدیل ہو جائے کہ اپنی رعایہ کی طرف توجہ نہ رہ جائے وحقیقت میں خدا وند عالم نے جو مال ومنصب عطا کیا ہے خدا کے بندوں کو پہچاننے اور قریب ہونے اور اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ مہربانی کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ 5
حضرت کی نظر میں تمام گورنروں کے طور طریقے کا بدل جانا نا پسند ہے ۔ خصوصاً وہ حاکم جو کہ اسلامی حکومت می ہو اور مسلمانوں کے پیشوا کے زیر نظر خدمت میں مشغول ہے اور اس کے حکم کے مطابق۔ سیاسی اور اجتماعی فعالیت میں اقدام کرتا ہے یقیناً اس طرح کا مقام اور مسئولیت والے شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر لحاظ سے دوسروں کے لئے نمونہ ہو۔ تاکہ امت اسلامی کو اطمینان حاصل ہو جائے کہ وہ اور ان کے ارد گرد رینے والے اور خد مت کے لئے ہر وقت آمادہ ہیں نہ یہ کہ قدرت اور منصب کے پیاسے ہیں۔
اسی لئے حضرت علی علیہ السلام نے باوجود اس کے کہ بہت سے لوگوں کا باربار آنا اور جانا ۔ منجملہ ان میں سے طلحہ اور زبیر اور ان لوگوں کا اصرار قدرت کو حاصل کرنے اور مال وا سباب کو صرف کرنے وسیاسی و اجتماعی مقامات کو حاصل رکنے کے لئے جس طرح عثمان کی خلافت کے زمانے میں انجام دیتے تھے اور اپنے اپنے مقصد کو پہونچے تھے ۔ ان لوگوں کی درکواست کو قبول نہیں کیا۔ 6 کیونکہ وہ آگ حقیقتاً مادی اور قدت طلبی کی طمع میں تھے ۔ اور آنحضرت کے ساتھ مشارکت نہیںکرتے تھے۔ اور حقیقی اسلامی حکومت کی بنیاد کو مضبوط کرنے اور دینی بنیادوں کے اصول وقوانین و جامعہ کی تہذیب کے لئے کوئی نفع بخش قدم نہیں اٹھا سکتے تھے اسی وجہ سے حجرت کے حاکموں میں اپنی ذاتی سازش اور طور طریقے کی بنیاد پر جو امتیاز طلبی و شہرت طلبی کے ساتھ آنحضرت کی انقلابی اور پاک سیرت کے بر خلاف تھی ۔ بر طرف ہوگئے۔اور حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کے خوف سے معاویہ سے ملحق ہوگئے۔اور یہ اس مطلب کو ثابت کرتا ہے کہ وہ لوگ دنیا کے پوجاری تھے نہ کی حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے تھے ۔
حقیقتاً ۔ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت بھی ان کے گورنروں اور حاکموں کے منفی چہروں کو مطالعہ کرنے کے بعد اس معنی کی صراحت کے ساتھ تصدیق کروگے۔یہاں پر اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے صرف کچھ جانے پہچانے چہروں کو ذکر کیا ہے وہ بھی جو شہر کے گورنر اور حاکم تھے ۔ ورنہ اگر منفی چہروں کی شناخت کرائی جائے تو گورنروں اور حاکموں کے علاوہ، اقتصادی کاموں کے جو منصب دار تھے ۔ چھان بین کرنے والے ۔ قصاوت کرنے والے اور ان کے علاوہ خط وکتابت کرنے والے کے لئے ایک دوسری کتاب کی ضرورت ہے تاکہ ہر جہت سے ان کی کارکردگی پر روشنی ڈالی جا سکے۔
یہاں پر صرف کچھ چہروں کو (حیف ومیل) کرنے والے گورنوں جو کہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں تھے بیان کرتے ہیں اور حضرت کا ان کے مقابلہ میں رد عمل پڑھیں گے۔

 

1۔ ابو موسیٰ اشعری؛ کوفہ کا گورنر

یہ شخص عثمان کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا۔ اور حضرت علی علیہ السلام نےبھی کچھ وجوھات کی بنا پر اس کو اسی منسب پر باقی رکھا۔ لیکن آخر میں وہی ہوا جو اس کےبارے میں پیشین گوئی کی گئی تھی ۔ اپنی مسئولیت کے زمانے میں کوئی نمایاں کام انجام نہیں دیا۔ بلکہ اکثر وبیشتر حضرت امیر المومنین کی حکومت کے مقابلے میں مخالفت کی ہے ۔ یقین ہے کہ عثمان کی طرف سے ایک لمبی مدت تک دواہم شہر بصرہ اور کوفہ کا حاکم رہا ہے اور مرکزی حکومت کی اطاعت و فرمانبرداری نہ کرنا جو کہ حضرت کی رہبری میں تھی حقیقت ہے دور نہیں، اس کے علاوہ ابو موسیٰ اشعری منجملہ ان منافقوں میں سے رہا ہے کہ جن لوگوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنگ تبوک کی واپسی پر قتل کرنے کا ارادہ کیا تھابلا وجہ نہیں ہ کہ پیغمبر(ص) کے ایک روایت میں بروز قیامت مسلمان پر علم والوں کے سلسلے میں خاص طور سے فرماتے ہیں تیسرا گمراہی کا پرچم اس امت کے یہودی ابو موسیٰ اشعری کے ہاتھ ہوگا۔ 7
ظاہرا وہ مسلمان تھا لیکن حقیقت میں اسلام کو سب سے زیادہ نقصان اور ضرر اس کی ذات سے ہوا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے خوارج کو وجود میں لانے کا اہم کردار ادا کیا ہے اپنی غلط فکر اور احمقانہ عمل کے ذریعہ حکومت اسلامی کے راستے کو منحرف کیا اگر چہ اپنی زندگی کے چند اسل کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمنشینی اور مصاحبت میں گذاری ہے ۔ لیکن اپنی حماقت اور پست فکرکے ذریعہ اسلام کے مقدس مقصد کو نہ سمجھ سکا ۔ وہ صرف اسلام کے ظاہری قوانین اور بعض مسائل سے طور عمومی آگاہی رکھتا تھا ۔ وہ مردہ دل اور سادہ لوح انسان تھا۔ کہ اس نے اپنی زندگی میں اسلام کو پست نگاہ سے اور ہر ایک کے ساتھ سازش کے ذریعہ سکون وآرام کی زندگی بغیر زحمت اور مقشت کے چاہئے حقائق کی طرف سے ہاتھ دھونا ہی پڑے فکر کرتا تھا۔ اور یقیناً اس کے برخلاف حضرت امیر المومنین اور ان کے شاگردوں کے جو ہمیشہ آمادہ اور تیار رہتے تھے ۔ سمجھا جا سکتا ہے، یعنی حضرت علی علیہ السلام اسلام کی سر بلندی اور شجاعت کا مطہر تھے ۔ اور ابو موسیٰ اشعری خاموشی اور موجودہ حالت پر قناعت سے کام لیتا تھا۔ 8 وہ اگر چہ حضرت علی علیہ السلام کی علمی اور معنوی شخصیت کا اعتراف کرتا تھا، لیکن اس حیثیت سے کہ اگر چاہے انقلاب پیدا کرے اور جامعہ کو متغیر کرے۔اور اصلاحی کاموں کو انجام دے کر دینی اجتماع کو ظلم وجور سے رھائی بخشے اور منکرین اور طاقت کے ذریعہ ظلم کرنے والوں وہ زروجواہر جمع کرنے والوں کے ہاتھوں کو جامعہ کے مختلف لوگوں سے روکے اور ایک ایسی حکومت جو عدل وانصاف کی بنیاد پر خدا وند عالم کے حکم کے مطابق وجود میں آئے ۔ اس کی طرف کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا اور اس کی حمایت نہیں کرتا تھا ۔ اسی وجہ سے کوفہ کے لوگوں سے کہا:
(امام ھدی وبیعتہ صحیحۃ الا انہ لا یجوز القتال معہ لاھل القبلۃ) 9 علی ہدایت کے رہنما ہیں ۔ اور لوگوں کی بیعت ان کے ساتھ صحیح ہے ۔ لیکن ان کی حمایت کرکے اور ساتھ دے کر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنا جائز نہیں ہے ۔
یہ اس وقت کہ جب کوفہ کا گورنر تھا، اور اسلام کی فوج حضرت امیر المومنین کی رہبری میں طلحہ وزبیر جو کہ اپنے کو دوسروں کے مقابلے میں برتری کے قائل تھے جنگ میں مصروف تھے۔ حق تو یہ تھا کہ اپنے منصب کو مد نظر رکھ کر اپنے فریضہ کو انجام دینے، خون، اسلحہ اور کھانے پینے کی ضروریات کو جنگ کے میدان میں بھیجتے۔ اس حساس موقع پر اپنے فریضہ پر عمل نہ کیا۔ اور اس کام کو اسلام کی مصلحت نہیں سمجھا! وہ نہ صرف یہ کی اپنے وظیفہ کو انجام نہ دیا بلکہ رسمی طور پر امیر المومنین کے حکم کی مخالفت کی۔ اور کوفہ والوں کو اپنی گورنر ی کے بل بوتے اکٹھا کیا۔ اور ان کے درمیان تقریر کی۔ اور اس کے ضمن میں کوفہ والوں کو حرکت کرنے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے سے منع کیا۔ اس صورت میں جب کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے اس بذدل گورنری کی فکر کو سناتو اپنے بیٹے اور شجاع فرزند حضرت امام حسن علیہ السلام اور اپنے بڑے افسروہ مثل عمار ومالک اشتر کو ایک سخت الفاظ میں خط لکھ کر روانہ کیا ۔ اور اس کو جنگ اور ہم فکری اور اتحاد کی طرف دعوت دی۔ 10 جس وقت حضرت کا خط اس کے پاس پہونچا، اس نے نہ یہ کہ خط کے مطالب کو اہمیت نہ دی بلکہ کوفہ والوں کو سہر کی بڑی مسجد میں جمع کیا اور ان دونوں افسروں (عمار اور مالک اشتر) کے سامنے تقریر کی ۔ سب لوگوں کو اصلاح اور خیرخواہی کی طرف صلح و سازش کے ذریعہ اور جنگ وجھاد سے دوری کی دعوت دی، اور صرف اس روش اور طریقے کو صحیح جانا ۔ اور لحاظ سے اصولی طور پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے حکم کی مخالفت کی۔ واضح ہے ۔ اس نے اپنے عمل کے ذریعے ایسے راستے کو ختیار کیا کہ جس راستے سے معاویہ حق کی راہ میں جھاد کرنے آزادی و عدالت کے راستے کو تلاش کرنے والوں کو نیست نابود کرنے کے لئے اپنا یا ہے ۔
حنف بن قیس اس کے سلسلے میں فرماتے ہیں: میں اس کی حقیقت کو جانتا ہوں۔ اس کی سطحی اور کوتاہ فکر والا پایا، وہ یمن کا ہرنے والا ہے ۔ اور اس کاقبیلہ معاویہ کا دوست ہے۔ 11

 

2۔ زیاد ابن ابیہ؛ فارس کا گورنر

سمیہ زیاد کی ماں۔ عرب کی بد کردار عورتوں میں شمار ہوتی تھی۔ اس کے شوہر کا نام عبید تھا۔ اسی لئے زیادہ ابن عبید ۔ عبید کا بیٹا کہتے تھے۔ شیخ طوسی(رح) فرماتے ہیں: زیادہ بن عبید حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے بصرہ کا گورنر تھا۔ 12 اس کو زیادہ بن سمیہ اور اس کے بعد جب وہ معاویہ سے ملحق ہوا تو اس کو زیاد بن ابو سفیان کہا ہے۔لیکن وہ زیادہ بن ابیہ کے نام سے مشہور ہے سب سے پہلے جس نے اس کو زیادہ بن ابیہ کہا ہے وہ عائشہ تھی۔ زیاد طائف میں جس سال فتح مکہ ہوا یا ہجرت کے پہلے سال میں پیدا ہوا۔ 13
حضرت علی علیہ السلام سن۳۹ ھ میں زیاد کو کرمان اور فارس کا گورنر منتخب کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بصرہ میں ابن حضرمی کے قتل کے بعد لوگ اختلاف اور کشمکش کی حالت میں تھے ۔ اور کچھ لوگوں نے حضرت علی علیہ اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا تھا ۔ فارس اور کرمان کے لوگ بھی اس لال میں گرفتار ہو گئے کہ حکومتی مالیات اور ٹیکس کو ادانہ کریں ۔ تمام شہر اور اطراف کے لوگوں نے اپنے اپنے شہر سے ٹیکس وصول کرنے والوں کو شہر سے با ہر نکال دیا تھا۔ فارس والے بھی سہل بن حنیف کو جو کہ حضرت علی علیہ السلام کے گورنر تھے باہر نکال دیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں سے مشورہ کیا کہ ایک سیاست جاننے والے عقل مند اور تدبیر چاہنے والے اور سیاست کے ہر پیچ وخم کو سمجھنے والے کا انتخاب کریں۔ ابن عباس نے زیاد کے سلسلہ میں فارس کی گورنری کا اظہار فرمایا: اور جاریۃ بن قدامۃ نے بھی اس کی تائید کی ۔ اس لئے حضرت نے زیادکو ایک بڑے لشکر کےساتھ ابن عباس کی دد سے فارس کی طرف روانہ کیا۔ زیاد نے ہر سردار اور بزرگوں کے پاس اپنا نمائندہ بھیجا اور ان لوگوں کو اطاعت، تسلیم اور اختلاف کو ختم کرے اور ہر ایک کو مدد کرے کی دعوت دی۔ اور نا فرمانی کی صورت میں ان لوگوں کو ڈرایاکہ جو بھی مخالفت کرے گا، وہ گرفتار ہوگا۔ اور اس کے علاوہ ایک کو سورے پر ورغلا یا تاکہ آپسی اور داخلی جنگ میں مبتلا ہو جائیں تاکہ اس کے سیلے سے تمام فارس کو اپنے قضبہ قدرت میں کر لے۔ اور اسی طریقے سے کرمان کو اپنے اختیار میں لے لیا۔ اور کرمان سے فارس کی طرف روانہ ہوا۔ اور سب کے سب لوگ آرام و سکون می ہوگئے۔ وہ اسستخر میں ایک قلعہ کے اندر جو کہ قلعہ زیاد کے نام سے مشہور تھا ٹھہراکہ وہی قلعہ اس کے بعد۔ منصور یشکری کی پناہ گاہ ہوا اور قلعہ منصور کے نام سے مشہور ومعروف ہوا۔
معاویہ ہمیشہ تاک میں لگا تھا کہ زیاد کو اپنی طرف لائے ۔ اور اسے علی علیہ السلام سےجدا کرے۔ چنانچہ معاویہ نے ایک خط کے ذریعہ اس کو اپنی طرف دعوت دی ۔ اس وقت زیاد نے ایک خط حضرت امیر علیہ السلام کو لکھا اور اسی خط کے ساتھ معاویہ کے خط کو بھی ضم کر کے کوجہ روانہ کر دیا۔
پس اس کے بعد حضرت امیر علیہ السلام نے زیاد کو ایک خط لکھا ۔ اور اس کو معاویہ کے مکر وفریب سے دور رہنے کی ہدایت کی اصل می زیاد اپنے باپ کی وضعیت معلوم ہونے کی وجہ سے بڑی مدت سے فکر مند رہتا تھا۔ اور ہمیشہ اپنے اندر حقارت اور مایوسی محسوس کرتا تھا ۔اور حضرت امیر علیہ السلام کے14 خط کو پڑھ کر وہ یہ فکر کرنے لگا کہ گویا ابو سفیان نے گواہی دی ہے کہ وہ زیاد کا باپ ہے اور یہ مسئلہ حضرت امیر المومنین کی شہادت اور امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد وہاں تک پہونچا کہ معاویہ خط کے ذریعہ اس سے بیعت کی درخواست کرتا ہے ۔ اور اس خط میں زیاد کو ابو سفیان سے ملحق ہونے کے موضوع کو بیان کرتا ہے۔ 15 اس وقت زیاد معاویہ کے خط کے جواب میں لکھتا ہے اور اپنی کچھ درخواست کو ظاہر کرتا ہے اور معاویہ اس کی تمام آرزوؤں کو انجام دینے کے لئے آمادہ ہوتا ہے اسی طرح زیاد معاویہ سے ملحق ہوجاتا ہے اور معاویہ نے اسے عراق کا حاکم مقرر کیا۔اس کے بعد زیاد اپنے کو خود زیاد بن ابو سفیان کہتا ہے۔ اور اسی نام کے ذریعہ خطوں پر دستخط کرتاتھا۔
زیاد اس زمانے میں علی (ع) کے شیعوں کے ساتھ سختی سے پیش آتا۔ان لوگوں پر ظلم وستم کرتا۔ اس طرح کہ لوگوں کو کوفہ کے قصر کے سامنے اکٹھا کرتا اور ان لوگوں کو علی پر لعنت کرنے پر مجبور کرتا ۔ اور جو شخص بھی اس کے حکم کی مخالفت کرتا۔ اسے تہہ تیغ کردیتا۔ 16
جس وقت امام حسن علیہ السلام نے یہ دیکھا کہ زیاد ابن ابیہ ظلم وستم کر رہا ہے ۔ اور کچھ علی(ع) کے دوستوں کو قتل کر رہا ہے ۔ اس کے لئے بدعا کی ۔ اسی وقت وہ طاعون یا فلج کی بیماری میں گرفتار ہوا۔ اور دنیا سے چلا گیا۔ 17

 

3۔ اشعث بن قیس؛ آذر بائیجان کا گورنر

اشعث کے معنی

وہ جس کا بال بکھرا ہوا ہو۔ اور اس کانام معدی کرب تھا۔مرحوم شیخ طوسی (رح) اپی کتاب رجال میں اس کو حضرت امیر علیہ السلام کے دوستوں میں شمار کیا ہے۔ اس وقت کہتے ہیں ۔ وہ خارجی اور ملعون ہوا۔ 18
امام جعفر صادق علیہ السلام اشعث اور اس کی خاندان کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: اشعث بن قیس حضرت علی علیہ السلام کے قتل میں شریک تھا۔ اور اس کی بیٹی جعدہ نے امام حسن علیہ السلام کو زہر دیا۔ اور اس کا بیٹا محمد۔ امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک تھا۔ 19 اور محمد بن اشعث نے حضرت مسلم علیہ السلام کو کوفہ میں گرفتار کرکے ابن زیاد کے حوالہ کیا ۔ اشعث بن قیس عثمان کی طرف سے آذربائیجان کا گورنر تھا۔ اور عثمان ہر سال ۱۰۰۰۰۰ لاکھ درہم جو کہ آذر بائیجان سے بعنوان خراج ومالیات وصول کرتا تھا اس کو بخش دیتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کے مالوں میں تصرف و خرچ کرنے کو اپنے لئے کسی حدوقید کا پابند نہ تھا۔ اور جب کسی چیز کے بارے میں قسم کھاتا اور اس کو پورا نہ کرپاتا تواس کے جبران کی خاطر ڈیڑھ لاکھ درہم کفارہ دیا۔ 20
حضرت علی علیہ السلام جنگ جمل کے بعد کوفہ واپس آئے ۔ ایک خط اشعث بن قیس کے پاس کہ جب وہ عثمان کی طرف سے آذر بائیجان کا گورنر تھا زیاد بن مرحب ھمدانی کے ذریعہ روانہ کیا۔

حضرت کے خط کا مضمون اس طرح ہے۔
جس طرح کہ تم جانتے ہو لوگوں نے میرے ساتھ بیعت کی ہے ۔ اور طلحہ اور زبیر بھی وہ پہلے شخص تھے کہ میرے ہاتھ پر بیعت کی ۔ لیکن اس کے بعد عذر کے میری بیعت کو توڑ دیا۔ اور عائشہ کو ان کے گھر سے باہر لائے۔ بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ پس میں بھی مہاجرین اور انصار کے ساتھ ان لوگوں کی طرف گیا اور ان لوگوں کو دیکھا۔ اور عہد وپیمان کو حفظ کرنے کی دعوت دی۔ لیکن اس کے باوجود میری طرف سےرخ موڑ لیا۔ پس میں نے حجت تمام کیا اور باقی جو ان کے دوست احباب تھے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا۔اور جان لوکی حکومت اور اس پر عمل پیرا ہونا۔ تمہارے لئے کھانے پینے کا سامان نہیں ہے بلکہ وہ تمہاری گردن پر امانت ہے ۔ اور تم اس کے محفوظ کرنے والے ہو۔ اس شخص کی طرف سے جو تم سے بر تر ہے ۔تم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ رعایہ کے کاموں میں اپنی مرضی سےعمل کرو۔ اور تم اپنے وظیفہ کو انجام نہیں دوگے مگر اس اعتقاد کے ساتھ کہ جو حکم تو تک پہونچا ہے اس پر عمل کرو اور تمہارے ہاتھ میں بیت المال اور خدا کی امانت ہے اور خدا کے مال کی نگہبانی کرنے والے ہو۔ یہاں تک کہ اسے میرے پاس پہونچاؤ۔اور امید ہے کہ میں تمہارے لئے بُرا حاکم ووالی نہ ہوں والسلام۔ 21
اشعث امام(ع) کے خط کو پڑھنے اور لوگوں کے درمیان تقریر کرنے کے بعد اپنے گھر گیا ۔ اور اپنے دوستوں کو بلایا۔ اور ان لوگوں سے کہا: علی (ع) کے خط نے مجھے تردد میں ڈال دیا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ مجھ سے آذربائیجان کے مال کو لے لیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ معاویہ کے والیوں سے ملحق ہو جاؤں۔حضرت اس ماجرا سے آگاہ ہوجاتے ہیں ۔ اس موقع پر ایک خط اس کے نام لکھا اور اس کی سر زنش کی۔ اور حکم دیا کہ وہ کوفہ آئے۔ وحجر بن عدی کی جو حضرت امیر علیہ السلام کی طرف سے مامور کئے گئے تھے ۔ اس کو کوفہ واپس لائے ۔

 

اشعث بن قیس کے سلسلہ میں تفصیلی بیان

اس شخص کا کارانامہ سیاہ اور پڑھنے کے قابل ہے، اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اسلام کو قبول کیا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں اسلام سے منحرف ہو گیا اور مرتد ہوا۔ اس کے علاوہ اپنے قوم وقبیلہ کو اکٹھا کرکے ظلم و زیادتی کی طرف بڑھا۔ اور ان لوگوں کو ورغلایا کہ حکومت وقت کے خلاف جنگ کریں، لیکن کچھ دیرنہ ہوئی تھی کہ جب اس نے اپنی شکست اور نابودی کو یقینی سمجھ لیا تو اپنے افراد کو حکومت وقت کے حوالے کر کے توبہ کرنے کے لئے اسلامی حکومت کے مرکز یعنی مدینہ گیا۔ اور ابو بکر سے ملاقات کی۔ اور اس ضمن میں نہ صرف یہ کہ ابو بکر کی سزا سے چھٹکا را پائے۔ بلکہ ان کی بہن (ام فروہ) سے شادی کی۔ اور اس طریقے سے ان کے نزدیک تقرب حاصل کیا اور خلیفہ وقت کا داماد ہوا۔ وہ عمر کی حکومت کے زمانے میں کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکا۔لیکن عثمان کے زمانے میں دربارہ اس کا چہرہ نمایا ہوا۔ اور حکومت کے کچھ کاموں کو انجام دینے کے لئے ایران کے اندر عثمان کی حکومت کی طرف سے معین ہوا۔ اور جس طرح اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حضرت امیر المومنی (ع) کی حکومت کے زمانے میں ایک ٹھوری مدت تک آذربائیجان کا گورنر تھا، یہاں تک کہ اس منصب اور عہدہ سے بر کنار ہوا۔ 22
اشعث اصولی طور پر متکبر اور ریاست طلب تھا۔ اور کبھی بھی خیال نہ کیا کہ اپنے عہدہ سے بر کنار ہوگا اس لئے تمام فرصت سے استفاد کیا تاکہ حضرت امیر علیہ السلام کے نیک اور اچھے ارادہ کے بیچ رکاوٹ سبب بنے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کی شرح میں کہتا ہے: اشعث حضرت امیر علیہ السلام کی خلافت کے زمانے میں منافقین میں سے شمار ہوتا تھا۔اوراس کا کارنامہ۔ اصحاب امیر المومنین(ع) کے بیچ مثل عبد اللہ بن ابیہ کے کارنامے کی طرح کہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے درمیان تھا۔ ان دونوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے زمانے میں گروہ منافقین کے رأس رائیس تھے۔ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران جو بھی اضطراب و خیانت رونما ہوئی تھی اس کا بانی اور زمینہ فراہم کرنے والا اشعث تھا۔ 23

 

اشعث کی رفت وآمد

حضرت امیر علیہ السلام کے بیت الشرف میں اشعث حضرت کی مرضی کو جلب کرنے اور اپنی سیاسی و اجتماعی موقعیت کو محفوط رکھنے کی خاطر مسلسل حضرت کے گھر آتا جاتا۔ اور یہاں تک کہ بعض اوقات اپنے ساتھ کچھ ھدیہ بھی آنحضرت کے لئے جا تا ۔تاکہ اپنے خیال کام میں اس عظیم انسان اور الٰہی شخصیت کو فریب دے! جیسا کہ خود حضرت اس داستان کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں:
جناب عقیل کی داستان سے زیادہ تعجب خیر یہ ہے کہ ایک شخص (اشعث بن قیس) ایک رات میرے پاس آیا۔ اس پاس ایک سر بستہ ظرف میں حلوہ باندھ کر لایاتھا میں اس شخص پر ہی سے بد بین تھا۔ اور وہ حلوہ میرے نزدیک گویا تھوک یا سانپ کی قی سے خمیر کیا ہوا تھا میں نے اس سے کہا: کیا یہ ھدیہ ہے یا زکات یا صدقہ۔ کہ زکات اور صدقہ ہم اہل بیت پر حرام۔ اس نے کہا ۔ نہ صدقہ ہے نہ زکات بلکہ ھدیہ ہے۔ پس میں نے کہا: تمہاری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے!کیا تم دین خدا کے راستے سے مجھ کو فریب دینا چاہتے ہو؟ کیا تم نہیں سمجھتے ۔ یا عقل و شعور نہیں رکھتے ہو یا دیوانے ہو یا بیہودہ بات کہتے ہو؟ خدا کی قسم!اگر ساتوں زمین کو اور جو کچھ آسمان کے نیچے ہے مجھ کو عطا کریں۔ اور مجھ سے کہیں کہ چیونٹی کے منھ سے جَو کہ بھونسی کو چھین لو ۔ میں اس میں خدا کی نافرمانی کرں گا۔ اور حقیقتاً تمہاری دنیا میرے نزدیک اس پتے سے زیادہ ذلیل اور حقیر ہے جو ایک ملخ کے منھ ہوتا ہے اور اس کا چباتا ہے ۔ علی(ع) کو اس سے کیا مطلب ہے۔ جو نعمت ہاتھ سے جاتی ہے یا کیا خوشی ہے جو باقی نہیں رہتی ہے ۔ غفلت کے خواب اور برائی کی لغزش سے خدا کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ اور صرف اس سے مدد حاصل کرتا ہوں۔ 24

 

اشعث افسر شاطر

اشعث جنگ صفین میں سپہ سالار کے عنوان سے اسلامی سپاہیوں کے درمیان جنگ کر رہا تھا ۔ لیکن چونکہ یمنی لوگوں کے درمیان ایک خاص موقعیت رکھتا تھا اور مشہور معروف بھی تھا۔ لہٰذا اس فرصت سے سوء استفادہ کیا ۔ اس لحاظ سے کہ حکمین کے اجباری انتخاب میں حضرت علی علیہ السلام کی نظر ابن عباس کے لئے موافق تھی۔اور اکثر لوگ ابو موسیٰ اشعری کے موافق تھے۔(اشعث) نے ابو موسیٰ کے انتخاب میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ کیونکہ وہ لوگ ابو موسیٰ اشعری کو صلح پسند اور سنجیدہ جانتے تھے یہاں تک کہ وہ لوگ حاضر نہ ہوتے ۔ کم سے کم احنف بن قیس کہ جو ابو موسیٰ اشعری سے زیادہ عقل مند تھا۔ منتخب ہو۔ یا ابو موسیٰ کے بعد دوسرا نمائندہ ہو، آخر کار رسواء اور دردناک کیفیت کے ساتھ حکمین کا انتخاب ہوا۔ 25 اسی لئے اشعث ہمیشہ حضرت علی علیہ اسلام کی نظر میں قابل لعنت وملامت تھا۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے حکمین کے سلسلہ میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا: اسی وقت اشعظ بن قیس کو سخت لھجہ میں مخاطب کر کے فرمایا:
(ما یدریک ماعلی ممالی، علیک لعنة الله ولعنة  والعنة  اللاعنین!حائک ابن حائک! منافق ابن کافر! واللہ لقد اسرک الکفر مرة والاسلام اخریٰ ! فما فذاک من واحدة منهمامالک والا حسبک !وان امر ادل علی قومه السیف۔ وساق الیهم الحتف، لحری ان یمقته الاقرب)؛ 26 تمہیں کیا معلوم کون سی چیز میرے ضرر میں ہے اور کون سی چیز میرے فائدہ میں ہے؟ خدا کی لعنت اور لعنت کرنے والوں کی لعنت تم پر ہو۔ اے متکبر اور متکبر کرنے والے کے بیٹے۔ منافق کافر کے بیٹے۔ خدا کی قسم! کفر کی حالت میں ایک مرتبہ اسیر ہوئے اور دربارہ اسلام لانے کے بعد لیکن تیرے حسب ونسب تیرے بزرگوں نے مجھے ان دونوں اسارت میں سے کسی ایک سے بھی نجات نہیں دے سکی وہ شخص جو کہ اپی قوم کو جنگ کی طرف ہدایت کرے۔ اور انھیں موت کی طرف لے جائے ۔ مستحق ہے اس کے قریب لوگ اسے دشمن رکھیں اور دوسرے لو گ اس پر اطمینان نہ رکھیں۔

 

4۔ مُنذر بن جارود عبدی؛ اسطخر (فارس) کا گورنر

منذر بن جارود حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے اصطخر کا گورنر منتخب ہوا وہ ظاہری لحاظ سے بہت شریف آدمی تھا۔ اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوتا تھا۔ اصل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہیں دیکھا نہیں تھا۔ لوگوں کے درمیان فخر ومباھات میں زبان زد تھا۔ 27 نہایتاً اس کاباپ فرد صالح اور نیک سیرت و کردار کا مالک تھا۔اور ہمیشہ لوگوں کو دینی عقائد کی تقویت کے لئے رغبت دلاتا تھا۔ بیان ہوا ہے کہ حضرت امیر علیہ السلام نے منذر کو فارس کی گورنری کے لئے منتخب کیا، لیکن اس نے مالیات و خراج میں خیانت سے کام لیا۔ اور چار لاک درہم اس میں سے اپنے لئے مخصوص کر لیا۔ حضرت امیر علیہ السلام نے منذر کی خیانت کی خبر پانے کے بعد ۔ ایک خط اس مضمون کے ساتھ روانہ کیا:
خدا وند عالم کی حمد وثنا و پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد (فان صلاح ابیک غرنی منک، وظننت انک تتبع ھدیہ، وتسلک سبیلہ) تمہارے نیک باپ کی نیک کرداری نے مجھے دھوکے میں ڈال دیا۔ اور میں نے خیال کیا تھا کہ تم اس کی سیرت پر عمل کروگے اور اس کے راستے پر چلو گے ۔پس اچانک مجھ تک خبر پہونچی کہ تم نے خیانت کی ہے اور اپنے نفس کی خواہش کے لئے اس کی اطاعت کو رہا نہیں کرتے۔اور آخر ت کے لئے زاد راہ نہیں چھوڑتے اپنی دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ویران کرتے ہو۔ اور اپنے دین سے الگ ہوکر قریبی رشاتہ داروں سے ملحق ہوئے ہو۔اگر وہ (خیانت) کی خبر جو کہ تمہارے سلسلے میں مجھ تک پہونچی ہے صحیح ہو تو اپنی بیوی کے اونٹ اور اپنے جوتے کے فیتے سےمیرے نزدیک پست ہے۔ اور اگر کوئی شخص تمہاری طرح ہو مناسب نہیں ہے اس کے ذریعہ اختلاف ختم ہو ۔ یا کوئی اور کام انجام پائے ۔ یا ان کے مقام اور منزلت کو بلند کریں یا امانت میں اس کو شریک کریں۔ مالیات کو جمع کرنے کے لئے اس کو منتخب کیا جائے ۔ پس جس وقت یہ خط تم تک پہونچے ۔ میرے پاس آجاؤ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
سید رضی(رح) فرماتے ہیں: منذر وہ ژخص ہے جس کے سلسلے میں حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا ہے: وہ اپنے دونوں طرف (دائیں بائیں) زیادہ نظر رکھتا ہے ۔ اور قیمتی، گرانقدر یمنی لباس پر بہت ناز کرتا ہے اور بہت زیادہ اپنے جوتے سے گرد غبار کو صاف کرتا ہے۔(شخص متکبر اور فخر ومبابات کرنے والا ہے کہ خود اور اپنے لباس پر فخر کرتا ہے، اور اپنے کو بہت زیادہ سنوارتا ہے) 28
منذر کو جیسے ہی حضرت کا خط موصول ہوا کوفہ پہونچا ۔ اس وقت حضرت نے اسے گورنری کے عہدے سے معزول کردیا۔ اور تیس ہرا درہم کا بعنوان (تاوان) مطالبہ کیا۔ اور اس کے بعد (صعصہ بن صوحان) کی شفاعت پر کہ اس نے بیت المال میں تصرف نہیں کیا ہے ۔ حضرت نے اسے معاف کر دیا ۔
منذر امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں بھی کچھ علتوں کی بنیاد پر عبید اللہ کے حکم کی اطاعت کی اور امام حسین علیہ السلام کی حمایت نہ کی ۔ یہ اس کے کردار اس باعث کی عکاسی کرتےہیں کہ منذر ذاتاً صحیح آدمی نہیں تھا۔

 

5۔ نعمان بن عجلان زرقی؛ بحرین اور عمان کا گورنر

حضرت امام علی علیہ السلام نے عمر بن ابی سلمہ کو بحرین کی گورنری کے عہدے سے چرخاست کر نے کے بعد نعمان بن عجلان کو اس کی جگہ منتخب کیا ۔ نعمان انصار میں تھا۔وہ جناب حمزہ بن عبد المطلب کی شھادت کے بعد ان کی زوجہ خولہ سے شادی کی وہ انصار کا شاعر وتیز زبان تھا۔ اس جا چہرہ سرخ اور قدچھوٹا تھا اس کے علاوہ اپنی قوم کے درمیان ایک خاص حیثیت کا مالک تھا۔ 29
وہ اس وقت جب ابو بکر خلافت کے عہدے پر فائز ہوا۔ علی(ع) کی شان ومنزلت میں اشعار پڑا اور اس کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی تعظیم و تکریم کی اور ابو بکر کی خلافت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔لیکن مختلف وجوھات کی بناء پر اپنے کو حق اور عدالت کے راستے پر باقی نہ رکھ سکا۔ کیونکہ جس وقت اپنے کو بڑے منصب اور بلند مقام پر دیکھا۔ اور مال و دولت کی وجہ سے اصلی راستے سے منحرف ہوگیا۔ اور حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے کنارہ کشی اختیار کی۔
وہ اپنی فرض سے جس کو بھی جس مقدار میں چاہتا تھا مسلمانوں کے بیت المال سے عطا کرتا۔ اور خود بھی بذاتہ بیت المال سے جس مقدار میں چاہتا اپنے لئے صرف کرتا تھا۔
جس وقت حضرت علی علیہ السلام نعمان کی خیانت سے آگاہ ہوئے ایک خط اس کو مخاطب کر کے لکھا۔ اور وہ حضرت کی عدالت سے گریز کرتے ہوئے معاویہ سے ملحق ہو گیا۔

 

6۔خریت بن راشد؛ اہواز کا گورنر

ابن اعثم کوفہ کے نقل کے مطابق ۔خریت بن راشد ابتدا میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے اھواز کا گورنر تھا کہ اس کے بعد سن ۳۸ ھ میں حکمین کے قبضہ کے بعد ۳۰۰سو بنی ناجیہ کے ساتھ کہ جو جنگ صفین میں شریک تھے ۔ بغاوت کی اور کوفہ سے نکل اہواز اور عمان کیا۔ نصارای بن تغلب کو بھی اپنے ہمراہ کیا ۔ اور وہاں کے لوگوں سے چاہا کہ علی(ع) کو زکات اور خراج (مالیات) نہ دیں۔ اس کے اور(معقل بن قیس کے بیچ جنگ واقع ہوئی۔ خریت بن راشد قتل ہوا۔ اور دوسرے کچھ افراد مردت ہونے کی حالت میں اسیر ہوئے۔ 30

 

7۔ قعقاع بن شور؛ کسکر کا گورنر

کسکر عراق کے قدیم ترین شہر میں سے ایک مسیحی نشین شہر تھا۔ جو کہ ساسانیان کی حکومت کے زمانے میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے اور حجاج بن یوسف نے شہر(واسط) کو جوکہ کوفہ اور بصرہ کے درمیان واقع ہے، اس کے مقابلے میں بنایا تھا۔ 31
حضرت امیر علیہ السلام نے (قدامہ بن عجلان) کے بعد (قعقاع بن شور) کو گورنر کے عنوان سے اس علاقہ کو اس کے سپر د کیا۔ لیکن زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا کہ حضرت نے اس کے کارنامے کو ناپسند کرتے ہوئے۔ اس پر اعتراض اور انتقاد کیا۔ مثلاً اس نے ایک عورت سے شادی کی اور اس کے مہر کو ۱۰۰۰۰۰ ایک لاکھ درہم قراردیا جب وہ یہ سمجھ گیا کہ حضرت علی(ع) کو میرے کارنامے کی اطلاع ہوگئی ہے تو آنحضرت کی عدالت کے خوف سے معاویہ کی طرف چلا گیا اور اس سے ملحق ہوگیا۔ 32
قعقاع نے امام حسین علیہ السلام کے قیام کے دوران حضرت کے ساتھ خیانت کی جس وقت عبید اللہ بن زیاد نے حضرت مسلم اور ان کے ساتھیوں کی مقاومت اور ثابت قدمی کو دیکھا تو عبید اللہ نے ایک چال چلی کی لوگوں کو شام کے لشکر سے ڈرائیں ۔ اور اس طریقے سے ان لوگوں کو حضرت مسلم(ع) سے جدا کریں۔لہٰذا اس کے حکم کے مطابق (کچیر بن شہاب، محمد بن اشعث بن قیس، قرقاع بن شور ذھلی، شبچ بن ربعی، حجار بن ابجر اسلمی، شمر بن ذی الجوشن) نے حضرت مسلم کے دوستوں کو متفرق کرنے کی کمر باندھ لی۔ ایک طرف سے کوفیوں کو شام کے لشکر سے ڈرایا۔ اور دوسرے عبید الہ بن زیاد کی جانب سے زرو جواہر کی لال دے کر امید وار بنایا۔ ابھی تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ زیادہ تر لوگ جو کہ حضرت مسلم کے حامی اور مدد گار تھے عبید اللہ بن زیاد کی طرف چلے گئے۔ 33

 

8۔ مصقلۃ بن ھبیرہ شیبانی؛ ارد شیر خرہ کا گورنر

(ارد شیرخرہ) فارس کے شہروں میں سے ایک تھا۔اور مصقلہ حضرت علی علیہ السلام کی جانب سے اسی شہر کا گورنر منتخب ہوا۔بعض مورخین کے نقل کے مطابق۔ وہ عبد اللہ بن عباس کی جانب سے جو کہ بصرہ کے گورنر تھے اور منطقہ فارس کرمان، اھواز، بصرہ کے حفاظتی حصہ میں شمار کئے جاتے تھے ۔ منصوب ہوا تھا۔وہ اپنے کو علی الاطلاق حاکم اور والی سمجھتا تھا یہاں تک کہ بیت المال سے ہر طریقے سےجس طرح وہ چاہتا تھا ۔ حتی شخصی کاموں میں بھی خرچ کرتا۔ اور جس شخص کو چاہتا تھا عطا کرتاتھا۔ اس لحاظ سے جیسے ہی حضرت علی علیہ السلام کو اس کی خبر ملی ۔ اسے ان کاموں سے منع کیا ۔ اور ایک خط لکھا۔
میرے پاس تمہارے سلسلے میں خبر پہونچی ہے کہ اگر تم نے اس کو انجام دیا ہے تو اپنے خدا کو ناراض کیا ہے ۔ اور اپے امام و پیشوا کو غضبناک کیا ہے کیونکہ تم مسلمانوں کے مالوں کو کہ جو نیزوں اور گھوڑوں کے زریعہ (جنگ کے ذریعہ) اکٹھا کیا ہے۔ اور ان کے خون اس کی وجہ سے بہے ہیں، تم اپنے عربی قوم ق بیلے کے درمیان کہ جنھوں نے تم کو منتخب کیا ہے تقسیم کرتے ہو۔ پس اس خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا ہے اور انسانوں کو پیدا کیا ہے اپنی دنیا کو دین کے بدلے اور اس کو بر باد کرکے آباد نہ کر ۔ ورنہ ان لوگوں کی صف میں شمار ہوگے کہ جن لوگوں نے اپنے کردار کے ذریعہ فقط زیادہ ضرر اٹھا یا ہے ۔ آگاہ ہو جا۔مسلمانوں کا حق جو تمہارے اور میرے پاس ہے ۔ بیت المال کی تقسیم میں برابر کا ہے لوگ میرے پاس مال لینے کے آتے ہیں اور واپس جاتے ہیں جس طرح کہ ہر انسان پانی کے چشمہ کے پاس جاکر استفادہ کرتا ہے اور واپس ہوتاہے ۔ اور چشمہ بغیرامتیاز کے سب کو سیراب کرتا ہے ۔اس وجہ سے تم کو حق حاصل نہیں ہے اس مال کو اپنے عزیزوں اور راشتہ داروں سے مخصوص کرو۔ 34
مصقلہ نے حضرت کو ایک خط کے ذریعہ اس ماجرا کا انکار کیا۔ اسے صرف بہتان جانا۔ یہاں تک کہ نصارای بن جانیہ کی اسارت (گرفتاری) کا واقعہ کہ جن کی تعداد ۵۰۰ تھی (معقل بن قیس) کے ذریعہ سے حضرت امیر علیہ السلام نے بھیجا تھا پیش آیا۔معقل کے مسلسل گفتگو کے بعد اسیروں کو ۵لاکھ درہم میں مصقلہ کے ہاتھ فروخت کیا۔ اور کہا کہ اس مال کو امیر المومنین کے پاس بھینے میں جلدی کر تھوڑے دن کے بعد کہ حضرت مصقلہ کے ذرایع حال کے پہونچنے کے منتظر تھے ۔ اطلاع پہونچی کہ اس نے اسیروں کو آزاد کردیا ہے اور اس نے آزادی کے مقابلے میں مال دریافت نہیں کیا ہے۔ اس وقت حضرت نے اسے ایک خط لکھا۔
اما بعد: سب سے بڑی خیانت ۔ قوم وملت کے ساتھ خیانت کرنا ہے ۔ اور سب سے بڑا دھوکا ۔ امام اور رہبر کے ساتھ دھوکا ہے ۵/لاکھ درہم مسلمانوں کے حق میں تمہارے پاس ہے ۔ جس وقت میرا نمائندہ آئے اس کے ذریعہ سے ان مالوں کو بھیج دو اور اگرایسا نہ کیا تو جس وقت میرے خط کو پڑھو میری طرف روانہ ہو جاؤ۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے نمائندہ سے کہا ہے کہ ایک لمحہ بھی تم کو تنہا نہ چھوڑے مگر یہ کہ مال کو میرے پاس روانہ کرو۔ 35

---------------------------------
1. نہج البلاغہ، حطبہ ۳۷۔
2. نہج البلاغہ، خطبہ ۱۳۶۔
3. نہج البلاغہ، خطبہ۴۔یعنی(لارای لمن تخلف عنی)
4. الفصول العلیۃ، ص۱۱۷۔
5. نہج البلاغہ، نامہ۵۔
6. علی ومناوئوہ، الدکتور نوری جعفری، ص۱۴۱۔
7. کتاب الخصال، ص۵۷۵۔
8. خوارج از دیدگاہ نہج البلاغہ، آیت اللہ حسین نوری، تنظیم شھید محمد تقی بشارت، ص۷۰۔
9. شرح نہج البلاغہ، خوئی، ج۲۰، ص۳۶۵، نامہ۶۲۔
10. شرح نہج البلاغہ، خوئی، ج۲۰، ص۷۲۔
11. عبد الفتاح عبد المقصود، الامام علی، ج۵، ص۱۰۳۔
12. رجال طوسی، ص۴۲۔
13. علی اکبر ذاکری، سیمای کارگزاران علی ابن ابی طالب(ع) ج ۱، ص۳۷۳۔
14. نہج البلاغہ، نامہ۴۴۔
15. علی ومناوئوہ، ص۲۰۵۔
16. مروج الذہب، ج۳، ص۲۶۔
17. سفینۃ البحار، ج۱، ص۵۸۰۔
18. رجال طوسی، ص۳۵۔
19. روضۃ الکافی، ص۱۶۷۔
20. سیر الاعلام النبلاء، ج۲، ص۲۷، بہ نقل از سیمای کار گزاران علی بن ابی طالب(ع) ج۱، ص۴۴۴۔
21. نہج السعادۃ، ج۴، ص۸۵۔
22. خوارج از دیدگاہ نہج البلاغہ، ص۶۵۔
23. شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱، ص۲۹۷۔
24. نہج البلاغہ، فیض الاسلام، خطبہ ۲۱۵۔
25. خوارج از دیدگاہ نہج البلاغہ، ص۶۶۔
26. نہج البلاغہ صبحی صالحی، خطبہ ۱۹۔
27. شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۸، ص۵۷۔
28. نہج البلاغہ، صبحی صالحی، نامہ ۷۱۔
29. شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص۱۴۹۔
30. کامل ابن اثیر، ج۳، ص۳۶۴ بہ نقل از سیمای کارگزاران علی ابن ابی طالب (ع) ج۱، ص۳۵۱۔
31. اعلام المنجد، ص۴۳۴۔
32. شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۸۷۔
33. بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۴۹بہ نقل از سیمای کارگزاران علی ابن ابی طالب(ع) ، ص۳۳۲۔
34. نہج البلاغہ، فیض الاسلام، نامہ ۴۳، صبحی صالح نامہ، ۴۳، ص۴۱۵۔
35. نہج السعادۃ ج۵، ص۱۹۰۔