کربلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درس انسانیت

افق پر محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی دل محزون و مغموم ہوجاتا ہے ، ذہنوں میں شہداء کربلا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور اس یاد کا استقبال اشکوں کی نمی سے ہوتا ہے جو دھیرے دھیرے عاشورا سے قریب سیل رواں میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اس کے بعد آنسو وں کے سوتے خشک ہوتے جاتے ہیں اور دل، خون کے آنسو وں بہانے پر مجبور ہوجاتا ہے ، یہ کیسا غم ہے جو مندمل نہیں ہوتا، یہ کیسا الم ہے جو کم نہیں ہوتا، یہ کیسا کرب ہے جسے افاقہ نہیں ہوتا، یہ کیسا درد ہے جسے سکون میسر نہیں آتا ۔صادق مصدق رسول(ص) نے فرمایا تھا: ان لقتل الحسین (ع)حرارۃ فی قلوب المومنین لا تبرد ابدا۔ واقعا یہ ایسی حرارت ہے جو نہ صرف یہ کہ کم نہیں ہوتی بلکہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی بڑ ھتی ہی جاتی ہے ، بڑ ھتی ہی جاتی ہے ۔میدان کربلا میں فرزند رسول(ص) سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور ان کے انصار واقرباء کو تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کر دیا گیا۔ کربلا والوں کا ایسا کون سا عمل ہے جو دوسروں کے بہ نسبت خاص امتیاز کاحامل ہے ، جہاں ہمیں کربلا کے میدان میں عظمت اعمال و کردار کے بہت سے نمونے نظر آتے ہیں ان میں ایک نہایت اہم صفت ان میں آپس میں ایک دوسرے کے لئے جزبۂ ایثار کا پایا جانا ہے ۔ شہداء کربلا کی زندگی کے ہر ہر مرحلہ پر، ہر ہر منزل پر ایثار وقربانی کی ایسی مثالیں موجود ہیں جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ شہادت پیش کرنے کے لیے انصار کا بنی ہاشم اور بنی ہاشم کا انصار پر سبقت کرنا تاریخ ایثار عالم کی سب سے عظیم مثال ہے ۔


کربلا کرامات انسانی کی معراج ہے ۔

کربلا کے میدان میں دوستی، مہمان نوازی، ا کرام و احترام، مہر ومحبت، ایثار و فداکاری، غیرت وشہامت و شجاعت کا جو درس ہمیں ملتا ہے وہ اس طرح سے یکجا کم دیکھنے میں آتا ہے ۔ میں نے اوپرذکر کیا کہ کربلا کرامات انسانی کی معراج کا نام ہے ۔ وہ تمام صفات جس کا تذکرہ کربلا میں بطور احسن و اتم ہوا ہے وہ انسانی زندگی کے بنیادی اور فطری صفات ہیں جن کا ہر انسان میں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے پایا جانا ضروری ہے ۔ اس کے مظاہر کربلا میں جس طرح سے جلوہ افروز ہوئے ہیں کسی جنگ کے میدان میں اس کی نظیر ملنا محال ہے ۔ بس یہی فرق ہوتا ہے حق وباطل کی جنگ میں ، جس میں حق کا مقصد، باطل کے مقصد سے سراسر مختلف ہوتا ہے ۔ اگر کربلا حق وباطل کی جنگ نہ ہوتی تو آج چودہ صدیوں کے بعد اس کا تذکرہ باقی رہ جانا ایک تعجب خیز امر ہوتا مگر یہ حق کا امتیاز ہے اور حق کا معجزہ ہے کہ اگر کربلا قیامت تک بھی باقی رہے تو کسی بھی اہل حق کو حتی متدین انسان کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے ۔
اگر کربلا دو شاہزادوں کی جنگ ہوتی؟ جیسا کہ بعض حضرات حقیقت دین سے نا آشنا ہونے کی بنا بر یہ بات کہتے ہیں اور جن کا مقصد سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے علاوہ کچھ اور ہونا بعید نظر آتا ہے ۔ تو وہاں کے نظارے قطعا اس سے مختلف ہوتے جو کچھ کربلا میں واقع ہوا۔
وہاں غیرانسانی و غیر اخلاقی محفلیں تو سج سکتی تھیں مگر وہاں شب کی تاریکی میں ذکر الہی کی صداؤں کا بلند ہونا کیا معنی رکھتا؟!اصحاب کا آپس میں ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے ؟!ماؤوں کا بچوں کو خلاف مامتا جنگ اور ایثار کے لئے تیار کرنا کس جزبے کے تحت ممکن ہو سکتا ہے ؟ کیا یہ وہی چیز نہیں ہے جس کے اوپر انسان ، جان، مال، عزت اورآبرو، سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے ۔ مگر اس کے مٹنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یقینا یہ انسان کا دین حق ہوتا ہے ، اس کا مذہب حق ہوتا ہے جو اسے یہ جرات اور شجاعت عطا کرتا ہے کہ وہ باطل کی چٹانوں سے ٹکرانے میں خود کو آہنی محسوس کرتا ہے ۔ اس کے جزبے آندھیوں کا رخ موڑ نے کی قوت حاصل کر لیتے ہیں ۔ ان کے عزم و ارادے بلند سے بلند اور مضبوط سے مضبوط قلعے مسخر کرسکتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ امام حسین (ع) کے پائے ثبات میں لغزش کا نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ فرزند رسول ہیں ، امام معصوم ہیں مگر کربلا کے میدان میں اصحاب وانصار نے جس ثبات کا مظاہرہ کیا ہے اس پر عقل حیران وپریشان رہ جاتی ہے ۔ عقل یہ تجزیہ کرنے سے قاصر رہ جاتی ہے ۔ اس لئے کہ تجزیہ وتحلیل ہمیشہ ظاہری اسباب وعوامل کی بناء پر ہوتے ہیں مگر انسان اپنی زندگی میں بہت سے ایسے عمل کرتا ہے جس کی تحلیل ظاہری اسباب کی بناء پر کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اور یہی کربلا میں نظر آتا ہے ۔
ہمارا سلام ہو حسین مظلوم پر۔ ہمارا سلام ہوبنی ہاشم پر۔ ہمارا سلام ہو مخدرات عصمت وطہارت پر۔ ہمارا سلام ہو اصحاب وانصار پر۔ یالیتنی کنت معکم۔ ۔ ۔