امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے اہداف


تبلیغ حقیقت کے مقام میں،

امام حسین علیہ السلام کی تحریک حق و انصاف کی برقراری کے لئے تھی: «انّما خرجت لطلب‏الاصلاح فى امّة جدّى ارید ان امر بالمعروف وانهى عن‏المنكر ...» زیارت اربعین میں جو بہترین زیارتوں میں سے ہے ہم پڑھتے ہیں : «و منح‏النّصح و بذل مهجته فیك لیستنقذ عبادك من‏الجهالة و حیرةالضّلاله» آپ راستے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی معروف حدیث بیان کرتے ہیں «ایهاالنّاس انّ رسول‏اللَّه صلّى‏اللَّه علیه و اله و سلّم قال: من رأى سلطانا جائرا مستحلّا لحرم‏اللَّه ناكثا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسول‏اللَّه صلّى‏اللَّه علیه و اله و سلم یعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان فلم یغيّر علیه بفعل و لاقول كان حقّا على‏اللَّه ان یدخله مدخله».
آپ کے تمام اقوال اور افعال نیز آپ کے بارے میں معصومین سے منقول تمام اقوال ثابت کرتے ہیں کہ مقصد، حق و انصاف کا قیام و دین خدا کی تبلیغ اور شریعت کی حکمرانی اور ظلم و جور و سرکشی کی بیخ کنی تھا۔ مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دیگر انبیاء کے راستے کو نمایاں رکھنا تھا۔ یا وارث ادم صفوةاللَّه یا وارث نوح نبىّ‏اللَّه ...» اور یہ بھی واضح ہے کہ پیغمبروں کو کس لئے بھیجا گیا تھا : «لیقوم‏النّاس بالقسط». یعنی عدل و انصاف کے قیام اور اسلامی حکومت و نظام کی تشکیل کے لئے۔
جس چیز نے ہماری تحریک کو سمت عطا کی وہ وہی چیز ہے جس کی راہ میں حسین بن علی علیھما السلام نے قیام کیا تھا۔ آج ہم اپنے ان شہدا کا جو مختلف محاذوں پر اس نظام کی راہ میں اور اس کے تحفظ کے لئے شہید ہوتے ہیں، سوگ مناتے ہیں۔ جو شہید مسلط کردہ جنگ یا پھر انواع و اقسام کے دشمنوں، مناففوں اور کفار لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرتا ہے اس کے سلسلے میں ہمارے عوام میں کسی طرح کا شبہہ نہیں پایا جاتا کہ وہ شہید اسی نظام کی راہ میں شہید ہوا اور اسی نظام اور انقلاب کی بنیادوں کو استحکام بخشنے کے لئے شہید ہوا ہے۔ حالانکہ آج کی شہادت کی کیفیت، کربلا کے ان شہدا سے مختلف ہے جنہوں تنہائی اور بے کسی کے عالم میں قیام کیا اور کسی نے بھی انہیں اس راستے پر چلنے کی ترغیب نہیں دی تھی بلکہ تمام لوگ اور اسلام کی بڑی شخصیتیں انہیں منع کر رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا ایمان و ایقان اتنا زیادہ تھا کہ وہ گئے اور مظلومیت کے عالم میں شہید ہو گئے۔ شہدائے کربلا کی حالت، ان شہدا سے مختلف ہے جنہیں تمام تشہیراتی وسائل اور سماج کے اہم لوگ ترغیب دلاتے ہیں کہ جاؤ آگے بڑھو اور وہ چلے جاتے ہیں اور پھر شہید ہو جاتے ہیں۔ البتہ یہ شہید بھی عظیم مرتبہ رکھتا ہے لیکن ان شہداء (کربلا) کی بات ہی کچھ اور ہے۔ میں تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکر گزار ہوں اور آپ سب لوگوں کو، خاص طور پر شہدا کے گھر والوں اور ان جوانوں اور نوجوانوں کو جو ہمارے ملک کے سب سے زیادہ محبوب و اور جاں نثاری کے پیکر جانبازوں کی یادگار ہیں اور اسی طرح جنگ میں زخمی ہونے والوں اور ان کےگھر والوں کو اور ان تمام لوگوں کو جو ملکی امور میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں ۔
اس نشست میں موجود تقریبا سب یا آپ میں سے اکثر ، پر جوش نوجوان اور ملک و انقلاب کے حال و مستقبل کی امیدیں ہیں۔ آپ ملک کے حال و مستقبل میں اہم کردار کے حامل اور جوش و ولولے سے سرشار ہیں۔ آپ لوگوں کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ملک و قوم کے لئے عزت و سربلندی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اس نشست میں امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور ان کی قربانیوں کا ذکر ہواور ہم ان سے درس حاصل کریں خاص طور پر اس لئے بھی کہ یہ ایام، ماہ صفر کے آخری ایام ہیں اور یہ دو مہینے جن کے دوران عاشور کے واقعے کی یاد تازہ کی جاتی ہے، ختم ہو رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں، جو چہلم کے دن پڑھی جاتی ہے ایک بہت ہی پر معنی جملہ ہے اور وہ یہ ہے : «و بذل مهجته فیك لیستنقذ عبادك من‏الجهالة». حسین ابن علی علیھما السلام کی قربانی کا فلسفہ اس جملے میں پوشیدہ ہے ۔ زائر خداوند عالم سے عرض کرتا ہے تیرے اس بندے(حسین) نےاپنا خون قربان کر دیا تاکہ لوگ جہالت سے نجات پا جائیں۔ «وحیرةالضّلالة» لوگوں کوگمراہی کی پریشانی و سرگردانی سے نجات دلا دیں۔ غور کریں یہ جملہ کتنا پر معنی و پر مغز ہے اور اس میں کتنے جدید معانی و مفاہیم ہیں(جنگ سے متاثرین، اساتذہ اور کھلاڑیوں کے ایک مجمع سے خطاب سے اقتباس 1990-9-12)

 امام حسین علیہ السلام کے اقوال او خطبوں میں، کہ جو اہم نکات سے لبریز ہیں اور میرا مشورہ ہے کہ لوگوں سے ر‎‎سا و واضح زبان میں بات کرنے کے لئے آپ امام حسین علیہ السلام کے اقوال اور خطبوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں، اس جملے کو اس نشست کے لئے مناسب سمجھتا ہوں جس میں آپ نے فرمایا ہے : «اللّهم انّك تعلم انّ الّذى كان منا لم یكن منافسة فى سلطان ولاالتماس شى‏ء من فضول الحطام»؛ پروردگارا! یہ جو ہم نے اقدام کیا ہے، یہ جو ہم نے قیام کیا ہے، یہ جو ہم نے فیصلہ کیا ہے اس کے بارے میں تجھے معلوم ہے کہ وہ اقتدار کے لئے نہیں ہے۔ اقتدار کسی انسان کا ہدف نہیں ہو سکتا۔ ہم عنان حکومت ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے تھے، دنیوی جاہ و مقام کے لئے بھی ہمارا قیام نہیں ہے کہ ہم پر تعیش زندگی گزاریں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں، مال و دولت جمع کریں ۔ ان سب چیزوں کے لئے نہیں ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کس لئے ہے ؟ آپ نے کچھ جملے فرمائے ہیں جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں ہر دور کے لئے یہ ایک درس اور رہنمائی ہے ۔ «ولكن لنرى المعالم من دینك» دین کے پرچم لوگوں کے لئے لہرائیں اور (یہ پرچم) اس(دین) کی نشانیاں ان(لوگوں) کی نظروں کے سامنے لے آئیں۔


نشانیاں اہم ہیں۔

شیطان ہمیشہ اہل دین کے درمیان تحریف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور غلط راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا بس چلے تو لوگوں کو دین سے علاحدگی پر اکساتا ہے تاکہ زہریلے پروپیگنڈوں اور نفسانی خواہشات کی آگ بھڑکا کر لوگوں سے ان کا دین و ایمان چھین لے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تو یہ کرتا ہے کہ دین کی علامتوں اور مظاہر کو غلط جگہوں پر نصب کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ جب کسی سڑک پر چل رہے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ علامت کسی ایک سمت کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ اب اگر کسی بدعنوان شخص نے اس علامت کوبدل دے اور اسے دوسری سمت میں موڑ دے۔ (تو اس کا نتیجہ راہرو کی گمراہی کی صورت میں نکلے گا۔) امام حسین علیہ السلام اپنا اولین ہدف یہ قرار دیتے ہیں : «لنرى المعالم من دینك و نظهر الاصلاح فى بلادك»؛اسلامی ممالک سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ دیں اور اصلاح کریں۔ اصلاح یعنی کیا ؟ یعنی بدعنوانی کا خاتمہ۔ بد عنوان یعنی کیا ؟ بدعنوان کی بہت سی قسمیں ہیں: چوری بدعنوانی ہے، غداری بدعنوانی ہے، دھونس و دھاندلی بدعنوانی ہے، اخلاقی انحطاط بدعنوانی ہے، غبن بدعنوانی ہے، اپنوں سے دشمنی بد عنوانی ہے، دین کے دشمنوں کی طرف جھکاؤ بد عنوانی ہے، دین مخالف چیزوں میں دلچسپی کا مظاہرہ بدعنوانی ہے۔ سب کچھ دین کے سائے میں وجود پاتا ہے۔ اس کے بعد کے جملوں میں آپ فرماتے ہیں: «و یأمن المظلومون من عبادك»؛ تاکہ تیرے مظلوم بندے محفوظ رہیں، اس سے مراد سماج کے مظلوم لوگ ہیں، نہ کہ ظالم، نہ ظالمانہ روش رکھنے والے، نہ ظلم کی تعریف کرنے والے، نہ ظالموں کے ہرکارے ! مظلوم وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس کچھ نہ ہو، کوئی چارہ نہ ہو۔ مقصد یہ ہے کہ سماج کے ستائے ہوئے لوگ اور کمزور افراد چاہے جس سطح پر اور چاہے جہاں ہوں انہیں تحفظ حاصل ہو۔ عزت آبرو سلامت رہے، مال و دولت سلامت رہے، انصاف کے تقاضے پورے ہوں، یہ وہ چیزیں ہیں جو آج دنیا میں نہیں ہیں۔ امام حسین علیہ السلام اس صورت حال کے بالکل مخالف سمت میں جانا چاہ رہے تھے جو اس ظالمانہ دور پر محیط تھی۔ آج بھی اگر آپ دنیا کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ پھر وہی حالات ہیں۔ دین کے پرچم کو ہٹایا جا رہا ہے، خدا کے مظلوم بندوں پر مزید ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اور ظالم کے ہاتھ مظلوموں کے خون میں سنتے جا رہے ہیں۔
دیکھیں دنیا مں کیا ہو رہا ہے؟! دیکھیں کوسوو کے مسلمانوں کےساتھ کیا ہوا؟! پانچ لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ، انسانوں، بچوں، بڑوں، عورتوں، مردوں اور بیماروں کے ساتھ کیا کیا گیا؟! صحراؤں میں، سرحدوں پر، وہ بھی پر امن سرحدوں پر نہیں، دشمن کے سامنے وہ بھی ایسے دشمن کے سامنے جو ان کے راستے پر بارودی سرنگ بچھاتے ہیں ، اور پیچھے سے گولیاں برساتے ہیں، مقصد ان سب کو ختم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں میں یہاں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، بس یہ عرض کر دوں کہ منصوبہ یہ ہے کہ بلقان میں مسلمانوں کو تباہ اور بکھیر دیا جائے۔ منصوبہ یہ ہے کہ ایک اسلامی حکومت، ایک اسلامی گروہ کی تشکیل کو روک دیا جائے۔ خواہ وہ جیسی اسلامی حکومت ہو۔ چاہے ایسا اسلامی گروہ ہو جس کے کانوں تک سو برسو‎‎‎ں سے صحیح اسلامی تعلیمات نہ پہنچی ہوں۔ کیونکہ وہ بھی ان کے لئے خطرناک ہے! انہیں معلوم ہے کہ اگر بلقان کے مسلمانوں کی آج کی نسل مثال کے طور پر اسلام سے آشنا نہ بھی ہو تب بھی ان کی کل کی نسل اسلام سے آشنا ہو جائے گی۔ ان کے اندر اسلامی شناخت اور اسلامی بیداری خطرناک ہے۔ ان کے کچھ لوگوں نے اپنے بیانوں میں اس جانب اشارہ بھی کیا ہے۔ حکومتیں آپس میں لڑ رہی ہیں لیکن اس ٹکراؤ اور لڑائی میں جس چیز پر توجہ نہیں ہے اور جس چیز کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور بس زبانی طور پر کچھ باتیں کہی جاتی ہیں وہ مظلوم مسلمانوں کی حالت زار ہے۔ «یأمن المظلومون من عبادك». ہر قیام ، ہر انقلاب، ہر اسلام پسندانہ اقدام بلکہ دین خدا کے اقتدار کا مقصد، مظلوموں کی حالت پر توجہ اور الہی فرائض و احکام پر عمل در آمد ہے۔ امام حسین علیہ السلام آخر میں فرماتے ہیں : «و یعمل بفرائضك و احكامك و سننك». آپ کا مقصد یہ چیزیں ہیں ۔ اب مثال کے طور پر کوئی صاحب کہیں سے آتے ہیں اور اسلامی علوم اور امام حسین علیہ السلام کے بیانات سے معمولی سی آشنائی اورعربی زبان کے ایک لفظ سے بھی واقفیت کے بغیر، قیام حسینی کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے فلاں ہدف کے لئے قیام کیا تھا ! (تو سوال اٹھتا ہے کہ) آپ یہ کہاں سے کہ رہے ہیں؟ یہ امام حسین علیہ السلام کا کلام ہے : «و یعمل بفرائضك و احكامك و سننك»؛ یعنی امام حسین علیہ السلام اپنی اور اس دور کے پاکیزہ ترین انسانوں کی جانیں قربان کرتے ہیں تاکہ لوگ الہی احکام پر عمل کریں۔ کیوں؟ کیونکہ سعادت الہی احکام پر عمل میں ہے ۔ کیونکہ انصاف، دینی احکام پر عمل میں ہے کیونکہ انسان کی آزادی و حریت، دینی احکام پر عمل میں ہے۔ وہ آزادی کہاں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ دینی احکام کے زیر سایہ ہی انسانوں کی آرزوئیں پوری ہوتی ہیں ۔
آج کا انسان ، ایک ہزار سال قبل یا دس ہزار سال قبل کے انسان سے، بنیادی ضرورتوں کے لحاظ سے مختلف نہیں ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہ ہیں: وہ امن و تحفظ چاہتا ہے، آزادی چاہتا ہے، شناخت چاہتا ہے، پر سکون زندگی چاہتا ہے۔ امتیازی سلوک سے دوری چاہتا ہے۔ ظلم سے بچنا چاہتا ہے۔ ہر زمانے کی ضرورتوں کی تکمیل، ایسی چیز ہے جو ان ضرورتوں کے دائرے اور سائے میں ممکن ہے۔ یہ بنیادی ضرورتیں صرف دین خدا کے سائے میں ہی پوری ہو سکتی ہیں اور بس۔ یہ دنیا کے تمام ازم اور یہ انسانی مکاتب فکر اپنے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ، انسانوں کو نجات دینے پر قادر نہیں ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ مادیات، یعنی دولت، وہ بھی دولت کی ہر قسم کچھ لوگوں کے لئے اچھی زندگی کا باعث بنتی ہیں لیکن کیا یہ انسان کی ضرورت ہے؟ آج کے انسان کی ضرورت یہ ہے کہ فلاں ملک میں قومی پیداوار اتنے ارب تک پہنچ گئ ہے جبکہ یہ پیداوار اسی سماج کے بہت سے لوگوں کا پیٹ بھرنے پر قادر نہیں ہے؟ کیا یہ کافی ہے؟ کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟
اس کا کیا فائدہ کہ ملک مالدار رہے لیکن اس میں بہت سے لوگ بھوکے رہیں۔ پیداوار زیادہ ہو لیکن سماج میں امتیازی سلوک اور لوگوں میں تفریق ہو۔ کچھ لوگ ایسے ہوں جو ملک کی بے پناہ دولت کے سہارے عوام کے ایک بڑے حصے پر ظلم کرنے پر قادر ہوں۔ اپنی مرضی چلائیں اور طاقت کا غلط استعمال کریں ! کیا اس کے لئے انسان کا کام کرنا مناسب ہے؟ کیا اس چیز کے لئے انسان کی جانب سے قربانی پیش کرنا مناسب ہے؟ قربانی، عدل و انصاف و آزادی و خوشحالی و قلبی سکون کے لئے دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ دین سے حاصل ہوتا ہے۔ قربانی اس لئے ہوتی ہے تاکہ انسان اچھے سلوک اور اچھی صفات سے آراستہ ہو جائیں۔ انسانوں میں باہمی محبت کا جذبہ ہو۔ اس چیز کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اس کی تشہیر کریں اس چیز کو رائج کریں ۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں، میں نے ایک حدیث دیکھی ہے اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے کے لئے جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک «رفیق فیما یأمر و رفیق فیما ینهى‏» ہے جہاں نرمی مناسب ہو وہاں نرمی کرے ویسے اکثر اوقات نرمی کا ہی مقام ہوتا ہے۔ تاکہ محبت کے توسط سے ان حقائق کو لوگوں کے دل و دماغ میں اتارا جا سکے۔ تبلیغ اسی لئے ہوتی ہے۔ تبلیغ الہی و اسلامی احکام کو حیات نو بخشنے کے لئے ہوتی ہے ۔
آج خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں یہ موقع حاصل ہے اور مالداروں کے دل میں دین کا درد ہے ہاں غیر ملکی پروپگنڈوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک کے حکام اور اہم لوگ یا ان میں سے کچھ لوگوں کو دینی امور میں دلچسپی نہیں ہے۔ جی نہیں ایسا نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ کی تو سمجھ میں نہیں آتا اور کچھ دوسرے لوگ عمدا چشم پوشی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اسی طرح سے پروپیگنڈہ کریں وہ لوگوں کو بد گمان کرنا چاہتے ہیں۔ آج ہمارے ملک میں، صف اول کے حکام کے دل میں دین کا درد ہے۔ دین کے بارے میں انہیں جتنا علم ہے اس پر سماج میں عمل در آمد چاہتے ہیں۔ حالات سازگار ہیں۔ البتہ یہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی اصلاح کریں لیکن آپ لوگوں کو مسجد و امام بارگاہوں اور عزاداری کے دوران تبلیغ کا جو موقع حاصل ہوا ہے اسے غنیمت سمجھیں، اس کی قدر کریں یہ بہت زیادہ موثر اور بابرکت ہے۔
لوگوں کی رہنمائی کریں ، لوگوں کے ذہنوں میں روشنی بھریں، لوگوں کو دین کے بارے میں معلومات بڑھانے کی جانب راغب کریں۔ انہیں صحیح دین کی تعلیم دیں۔ انہیں اخلاقی فضائل سے آشنا کریں۔ عمل اور زبان کے ذریعے اخلافی خوبیاں ان میں پیدا کریں، لوگوں کو نصحت کریں۔ خدا کے عذاب، خدا کے قہر و غضب اور آتش دوزخ سے انہیں ڈرائیں۔ انہیں ڈرائیں، ڈرانے کا بھی بہت بڑا کردار ہے اسے نہ بھولیں، انہیں خدا کی رحمت کی خوشخبری دیں۔ مومنین، صالحین، مخلصین اور با عمل لوگوں کو بشارت دیں۔ انہیں عالم اسلام کے بنیادی مسائل اور ملک کے بنیادی معاملات سے آگاہ کریں۔ تب اسے وہ روشن مشعل کہا جائے گا جسے آپ میں سے جو بھی جہاں بھی جلائے گا وہاں لوگوں کے دل روشن ہو جائیں گے۔ آگاہی پیدا ہوگی، سرگرمی پیدا ہوگی، ایمان میں استحکام پیدا ہوگا۔ اس ثقافتی یلغار اور دشمن کے حملے کا مقابلہ کرنے کا سب سے اہم حربہ یہی ہے۔ مجھے بڑی تشویش ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ نوجوان، مومن، بہادر، آگاہ، اچھی فکر والے علماء، مختلف مقامات پر، یونیورسٹیوں میں، بازار میں، گاؤں میں، شہر میں اور کارخانے میں اپنا کام کریں۔ ان کی سازشوں سے مقابلے کے لئے آپ کا وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے جسے اخلاص کے ساتھ انجام دیا جانا چاہئے «لم یكن منافسة فى سلطان ولا التماس شى‏ء من فضول الحطام».
محرم کے موقع پر علماء و مبلغین سے ایک خطاب سے اقتباس 1999-4-12

انسان نے طول تاریخ میں سب سے زیادہ غلطیاں گناہ اور لاپروائی ، حکومتی شعبے میں انجام دی ہں جو گناہ حاکموں، بادشاہوں اور لوگوں پر مسلط تاناشاہوں نے کئے ہیں ان کا موازنہ عام لوگوں کے بڑے بڑے گناہوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس شعبے میں انسان نے عقل و خرد و اخلاقیات و حکمت کا کم ہی استعمال کیا ہے۔ اس شعبے میں عقل و منطق، دیگرشعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں کم ہی استعمال ہوئی ہے اور جن لوگوں نے اس بے عقلی و بد عنوانی و گناہوں کی سزا بھگتی ہے وہ عام لوگ رہے ہیں کبھی ایک ہی سماج کے عام لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں اور کبھی کئی سماجوں کے افراد۔ یہ حکومتیں شروع میں تو کسی ایک فرد کی آمریت کی شکل میں رہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی انسانی سماجوں میں تبدیلیوں کی وجہ سے ایک منظم آمریت میں بدل گئیں۔ اس لئے انبیاء کی سب سے اہم ذمہ داری ظالم بادشاہوں اور ان لوگوں کا مقابلہ کرنا ہے جنہوں نے خدا کی نعمتوں کو ضائع کیا ہے «و اذا تولّى سعى فى الأرض لیفسد فیها و یهلك الحرث و النسل»؛ قرآن کی آیتوں میں ان بد عنوان حکومتوں کو ان دہلا دینے والے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ ان لوگوں کی کوشش تھی کہ ظلم و جور کو عالمگیر بنا دیں۔ «ألم ترى الى الّذین بدّلوا نعمة اللَّه كفراً و احلّوا قومهم دارالبوار جهنّم یصلونها و بئس القرار» ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کا، انسانوں کو حاصل نعمتوں اور قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کا انکار کیا اور ان انسانوں کو، جنہیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا تھا، ان کے کفران نعمت سے بنائی گئ جہنم میں جلا ڈالا۔ انبیاء نے ان کا مقابلہ کیا۔ اگر انبیاء دنیا کے ظالم و آمروں کے سامنے ڈٹ نہ جاتے تو جنگ و جدال کی نوبت ہی نہ آتی۔ یہ جو قرآن میں کہا گیا ہے کہ «و كأيّن من نبىّ قاتل معه ربيّون كثیر» بہت سے پیغمبروں نے مومنوں کے ساتھ مل کر جنگ کی تو اس سے مراد کون سے لوگوں کے خلاف جنگ ہے؟ انبیاء کی جنگ میں مد مقابل یہی بدعنوان حکومتیں، تباہ کن طاقتیں اور تاریخ کے آمر تھے جو بشریت کو تباہ کر رہے تھے۔ انبیاء در اصل انسانوں کے نجات دہندہ ہیں اسی لئے قرآن مجید میں انبیاء اور رسولوں کا ایک بڑا مقصد مساوات کی ترویج قرار دیا گیا ہے۔ «لقد ارسلنا رسلنا بالبيّنات و أنزلنا معهم الكتاب و المیزان لیقوم النّاس بالقسط» در اصل کتب آسمانی اور انبیاء کی آمد کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ سماج میں عدل و انصاف قائم کریں یعنی ظلم و بدعنوانی کے مظہر کو مٹا دیں۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک ایسی ہی تھی۔ آپ نے فرمایا : «انّما خرجت لطلب الأصلاح فى امّة جدّى».، اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا «من رأى سلطانا جائرا مستحلا لحرام الله او تاركا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسول‏اللَّه فعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان ثمّ لم یغيّر علیه بقول و لا فعل كان حقا على اللَّه أن یدخله مدخله»؛ یعنی اگر کسی کو ظلم و بدعنوانی کا مرکز نظر آئے اور وہ خاموش بیٹھا رہے، تو خدا اسے اس کے ہی ساتھ محشور کرے گا۔ آپ نے کہا کہ میں جبر و استبداد اور حکمرانی کے لئے نہیں نکلا ہوں۔ عراقی عوام نے امام حسین علیہ السلام کو حکومت کی دعوت دی تھی اور آپ نے ان کے اسی بلاوے کو قبول کیا۔
امام حسین علیہ السلام کو علم تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو ان کی خاموشی اور ان کے سکوت کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ جب کوئی طاقت تمام سماجی وسائل کے ساتھ کسی سماج پر غالب ہو اور ظلم و جور کا راستہ اختیار کرے اور آگے بڑھے تو اگر حق کے علمبردار اس کے سامنے نہ کھڑے ہوں اور اس کے راستے کو نہ روکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی تائید کرتے ہیں۔ یعنی اس صورت میں غیر ارادی طور پر اہل حق بھی ظلم و جور کے حامیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ گناہ تھا جس کے اس دور میں بڑے بڑے سردار اور بنی ہاشم کے بزرگان مرتکب ہوئے تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے ایسا نہیں کیا اور اسی لئے انہوں نے قیام کیا۔
منقول ہے کہ جب امام زین العابدین علیہ السلام واقعہ عاشور کے بعد مدینہ لوٹے تو ایک شخص نے آپ کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا : اے فرزند رسول ! دیکھا آپ گئے تو کیا ہوا؟ وہ سچ کہہ رہا تھا یہ کاروان جب گیا تھا تو اس کی قیادت اہل بیت کے خورشید درخشاں، فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کر رہے تھے۔ بنت علی عزت و سرافرازی کے ساتھ گئی تھیں۔ علی کے بیٹے حضرت عباس، امام حسین علیہ السلام کے بیٹے، امام حسن علیہ السلام کے بیٹے، بنی ہاشم کے بہادر جوان سب لوگ اس قافلے میں موجود تھے لیکن جب یہ قافلہ واپس آیا تو اس میں صرف ایک مرد تھا، امام زین العابدین علیہ السلام۔ عورتوں کو اسیر کیا گیا۔ بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ امام حسین نہیں رہے، علی اکبر چلے گئے، یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی قافلہ کے ساتھ واپس نہ آیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس شخص کو جواب دیا : سوچو اگر ہم نہ جاتے تو کیا ہوتا۔ جی ہاں اگر وہ لوگ نہ جاتے تو جسم تو زندہ رہتے لیکن روح کا وجود نہ رہتا، ضمیر مرجاتے۔ تاریخ میں عقل و منطق کو شکست ہوتی اور اسلام کا نام بھی باقی نہ رہتا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ملاقات میں ایک تقریر سے اقتباس 2002-3-18

 

حسینی وقار و افتخار

حسینی وقار و افتخار ہے؟ یہ کیسا افتخار ہے؟ جو امام حسین علیہ السلام کی تحریک سے آشنا ہے اسے علم ہے کہ یہ کیسا وقار ہے۔ تین نظریات کے تحت تین زاویوں سے تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہو جانے والی حسینی تحریک پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ تینوں پہلوؤں میں جو چیز سب سے زیادہ واضح طور پر نظر آتی ہے وہ عزت و سربلندی کا جذبہ ہے۔ ایک پہلو، طاقتور باطل کے مقابلے میں حق کی جد و جہد ہے جو امام حسین علیہ السلام نے اپنی تحریک کے ذریعے کی۔ ایک دوسرا پہلو امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں معنویت و اخلاقیت کا تجسم ہے۔ اس تحریک کے دامن میں ایک ایسی جد و جہد پنہاں ہے جو حق و باطل کی جنگ کے سماجی و سیاسی و انقلابی و اصلاحی تحریک کے پہلوؤں سے مختلف ہے اور وہ ہے انسانوں کا نفس اور باطن۔ جہاں انسان کے وجود کے اندر چھپے لالچ، کمزوریاں، محرومیاں، خواہشات نفسانی اسے بڑے قدم اٹھانے سے روکتی ہیں وہ جگہ ہے میدان جنگ۔ نہایت دشوار جنگ کا میدان، جہاں مومن مرد عورتیں امام حسین علیہ السلام کے پیچھے چل پڑتے ہیں، دنیا و ما فیہا، دنیوی لذتیں اور رنگینیاں، ان کی فرض شناسی کے سامنے ہیچ ہو جاتی ہے۔ ایسے انسان، جن کے باطن میں مجسم معنویت کی چمک غالب ہو جاتی ہے اور وہ ایک اعلی و نمونہ عمل انسان کی شکل میں تاریخ کے صفحات پر جاویداں ہو جاتے ہیں۔ تیسرا پہلو جو عام لوگوں کے درمیان زیادہ معروف ہے وہ عاشور کی مصیبتیں ، غم و اندوہ اور مصائب و آلام ہیں لیکن اس تیسرے پہلو میں بھی عزت و افتخار پوشیدہ ہے۔ غور و فکر کرنے والوں کو تینوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔
اول الذکر پہلو بھی جس میں امام حسین علیہ السلام کی تحریک ایک عظیم انقلاب کی شکل میں ہویدا ہے، عزت و افتخار کا مظہر ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے سامنے کون کھڑا تھا۔ وہ ظالم و بدعنوان حکومت تھی جو معاشرے کو ظلم کی چکی میں پیس رہی تھی۔ وہ اپنے زیر تسلط سماج پر ظلم و جور روا رکھتی تھی اور خدا کے بندوں کے ساتھ ظلم و ستم و غرور و تکبر کا رویہ اپنائے ہوئے تھی۔ یہ اس حکومت کی واضح خصوصیت تھی۔ اس کے نزدیک جس چیز کی بالکل اہمیت نہیں تھی وہ معنویت اور انسانوں کے حقوق تھے۔ اسلامی حکومت کو، اسلام سے قبل اور مختلف زمانوں میں موجود ظالم و جابر حکومت میں، بدل دیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں کہ جب اسلامی نظام کے تحت قائم ہونے والی حکومت کا نصب العین ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جو دین اسلام کو مطلوب ہے تو حکومت کی نوعیت اور حاکم کا رویہ خاص اہمیت رکھتا ہے ۔
اس زمانے کے بزرگوں کے بقول امامت کو سلطنت میں بدل دیا گیا تھا۔ امامت سے مراد ہے دینی و دنیوی امور میں معاشرے کی قافلہ سالاری۔ ایک ایسے قافلے کی رہنمائی جس میں شامل تمام مسافر ایک ہی سمت میں ایک اعلی مقصد کی طرف گامزن ہوں اور امام، لوگوں کی رہنمائی کرے۔ اگر کوئی گم ہو جائے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صحیح راستے پر واپس لائے ۔ اگر کوئی تھک جائے تو اسے آگے چلنے کے لئے ہمت و حوصلہ دے۔ اگر کسی کا پیر زخمی ہو جائے تو اس کے پیر پر پٹی باندھے اور اس کی ہر طرح سے مدد کرے۔ اسے اسلامی اصطلاح میں امام کہا جاتا ہے۔ سلطنت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ موروثی بادشاہت، سلطنت کی ایک شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بہت سے سلطان ہیں جنہیں سلطان نہیں کہا جاتا لیکن ان کا باطن، دیگر انسانوں پر تسلط و ظلم و جور کے جذبے سے بھرا ہوتا ہے۔ کوئی بھی، چاہے جس دور میں ہو، اس کا جو بھی نام ہو، جب کسی ایک قوم یا کئ اقوام پر ظلم کرتا ہے تو اس کی حکومت کو، سلطنت کہا جاتا ہے۔ تمام زمانوں میں استعماری حکومتیں رہی ہیں اور آج اس کا مظہر امریکا ہے۔ یعنی کسی حکومت کا صدر، بڑی آسانی سے اور بغیر کسی اخلافی علمی و قانونی جواز کے، اپنے اور اپنی حامی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کو، کروڑوں انسانوں کے مفادات پر ترجیح دیتا ہے اور اقوام عالم کے لئے احکامات صادر کرتا ہے تو اس کی حکومت کو استعمار کہتے ہیں۔ چاہے اس کے سربراہ کو سلطان کہا جائے یا نہ !
امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں، اسلامی امامت کو ایسا ہی بنا دیا گیا تھا اور امام حسین علیہ السلام نے اسی صورت حال کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی جد و جہد کا مقصد حقائق کو واضح کرنا، ذہنوں کو روشن کرنا، سماج کی ہدایت اور یزید اور اس سے پہلے کے دور میں حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کرنا تھا۔ بس یزید کے زمانے میں جو کچھ ہوا یہ تھا کہ ظلم و جور و گمراہی کے اس رہنما کو یہ توقع تھی کہ ہادی امام اس کی حکومت کی تائید کر دیں گے۔ بیعت کے یہی معنی ہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ لوگوں کی ہدایت اور اس کی حکومت کی کجروی و گمراہی کو واضح کرنے کے بجائے اس ظالم حکومت کی تائید کریں! امام حسین علیہ السلام کا قیام یہیں سے شروع ہوا۔ اگر یزیدی حکومت کی جانب سے اس قسم کا احمقانہ و غلط مطالبہ نہ کیا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام دور اس انداز سے پرچم ہدایت اٹھاتے جس انداز سے بعد کے ادوار میں ائمہ معصومین نے بلند کئے۔ اسی انداز میں لوگوں کی ہدایت کرتے اور حقائق بیان فرماتے ۔ لیکن یزید نے جہالت و تکبر اور انسانیت و انسانی خصائص سے دوری کی وجہ سے جسارت کی اور یہ توقع کر بیٹھا کہ امام حسین علیہ السلام ، اسلامی امامت کو سلطنت میں تبدیل کرنے کے اس کے سیاہ کارنامے کی تائید کریں یعنی بیعت کریں۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : «مثلى لا یبایع مثله»؛ حسین یہ کام نہیں کر سکتے۔ امام حسین علیہ السلام کو ہمیشہ کےلئے حق کے علمبردار کی شکل میں باقی رہنا تھا۔ پرچم حق، باطل کی صفوں میں نہیں رہ سکتا اور نہ ہی باطل کی عار کو قبول کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا «هیهات منّا الذّلّة». امام حسین علیہ السلام کی تحریک ، عزت و وقار کی تحریک تھی ۔ یعنی حق کی آبرو، دین کی آبرو، امامت کی آبرو اور اس راہ کی آبرو بچانے کی تحریک تھی جس کی جانب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے راہنمائی کی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام اسی آبرو کے مظہر تھے اور چونکہ جد و جہد کی اس لئے قابل فخر و مباہات بھی تھے۔ اسے حسینی عزت و افتخار کہتے ہیں۔ اگر کبھی کوئی شخص اپنی کوئی بات کہے اور اپنا عندیہ بیان کر دے لیکن اپنی بات پر ڈٹا نہ رہے بلکہ پیچھے ہٹ جائے تو اس صورت میں اس پر فخر نہیں کیا جا سکتا ۔ فخر اس شخص ، قوم و جماعت کو کرنا چاہئے جو اپنی بات پر ڈٹی رہے اور جو پرچم اٹھائے اسے طوفانوں کی زد سے بچائے رکھے۔ امام حسین علیہ السلام نے اس پرچم کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور اس کے لئے اپنے پیاروں کی قربانی و اسیری بھی قبول کی ۔ کسی انقلابی تحریک میں یہ فخر کا پہلوہوتا ہے۔ معنویت کے پہلو میں بھی یہی صورت حال ہے۔ میں نے کئ بار بیان کیا ہے کہ بہت سے لوگ امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور اس قیام پر ان کی ملامت کی وہ لوگ برے یا چھوٹے نہیں تھے کچھ تو بزرگان اسلام میں سے تھے لیکن باشعور نہیں تھے اور انسانی کمزوریاں ان پر غالب آ چکی تھیں اسی لئے وہ چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کو بھی اسی کمزوری میں مبتلا کر دیں۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے صبر کیا اور جھکے نہیں۔ جو لوگ بھی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے وہ باطن کی اس معنوی جنگ میں فاتح قرار پائے۔ وہ ماں جس نے اپنے نوجوان بیٹے کو ہنستے ہوئے میدان جنگ میں بھیجا، وہ نوجوان جس نے زندگی کی ظاہری لذتوں سے منہ پھیر لیا اور خدا کی راہ میں قابل ستائش جہاد کیا۔ حبیب ابن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ جیسے بوڑھے ساتھی جو بڑی آسانی سے بڑھاپے کی آرام طلبی و اپنے گھر کے نرم بستروں کو بھول گئے اور عمدا سختیوں سے روبرو ہوئے، وہ بہادر سردار جس کا دشمن کی فوج میں ایک مقام تھا ، حر بن یزید ریاحی ، جنہوں نے اس مقام سے منہ پھیر لیا اور امام حسین علیہ السلام سے جڑ گئے یہ سب کے سب ، اس معنوی جنگ میں فاتح رہے ۔
اس دن جو لوگ اخلاقی اچھائیوں و برائیوں کی جنگ میں فاتح ہوئے اور عقل و جہل کے درمیان صف آرائی میں ، جن کی عقلیں جہل پر چیرہ دست ہوئیں ان کی تعداد مٹھی بھر سے زیادہ نہیں تھی لیکن شرف و عزت کی جنگ میں ان کی پائیداری و جواں مردی کی وجہ سے طول تاریخ میں آج کروڑوں انسانوں نے ان سے درس حاصل کیا اور انہیں کا راستہ اختیار کیا ۔ اگر ان کے وجود کی فضیلتوں کو ضلالتوں کے مقابل فتح نصیب نہ ہوتی تو تاریخ میں فضیلت کا درخت خشک ہو جاتا لیکن انہوں نے اس درخت کی آبیاری کی اور آپ نے اپنے زمانے میں بھی بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے باطن میں فضیلتوں کو فتح عطا کی اور اور نفسانی خواہشات پرقابو پاکر صحیح دینی نظریات پر عمل کیا ۔ یہی دو کوہہ نامی فوجی چھاونی اور دیگر چھاونیاں اور ملک کے مختلف میدان جنگ و محاذوں نے ایسے ہزاروں لوگوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ آج دوسرے آپ سے سبق لے رہے ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے باطن میں، حق و حقیقت کو فاتح دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی پائیداری نے ، چاہے مقدس دفاع کے دوران ہو یا دیگر بڑے امتحانات کے موقع پر، ان فضیلتوں کو ہمارے زمانے میں پائیدار کیا ہے ۔ ہمارا زمانہ، مواصلاتی نظام کی ترقی کا زمانہ ہے اور یہ بھی ہے کہ یہ قریبی رابطہ ہمیشہ شیطان اور شیطانی قوتوں کے مفادات میں نہیں ہوتا معونیت کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ دنیا والوں نے آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ فلسطین میں جو ایک ماں اپنے نوجوان بیٹے کو چومتی ہے اور میدان جنگ میں بھیج دیتی ہے اس کی ایک مثال ہے۔ فلسطین میں سالہا سال سے مرد و عورت ، بوڑھے و جوان لوگ تھے لیکن کمزوریوں اور جہل و غفلت پر غلبہ حاصل کرنے کی عدم توانائی کی وجہ سے فلسطین ذلت و رسوائی سے دوچار ہوا اور اس کی یہ حالت ہو گئ اور اس پر دشمنوں کا غلبہ ہو گیا۔ لیکن آج فلسطین کی صورت حال بدل چکی ہے۔ آج فلسطین اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ آج فلسطینی قوم ، اپنے باطن میں جاری جنگ میں معنویت کو فتح عطا کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے اور اب فتح اسی قوم کی ہوگی ۔
تیسرے پہلوں میں بھی جو عاشورا کے مصائب کا پہلو ہے سر بلندی و فخر کے کارناموں کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ مصائب و شہادتیں ہیں۔ حالانکہ، بنی ہاشم کے ہر نوجوان کی شہادت، امام حسین علیہ السلام کے اطراف موجود بچوں اوربوڑھے اصحاب کی شہادت بہت غم ناک اور دردناک ہے لیکن ہر ایک میں عزت و افتخار و کرامت کے گوہر چھپے ہیں۔ یہاں پر آپ لوگوں میں سے اکثر نوجوان ہیں ۔ اس دو کوہہ فوجی چھاونی میں بھی سیکڑوں نوجوان آئے اور چلے گئے۔ کربلا میں ایثار کی حقیقی مثال پیش کرنے والے نوجوان کا مظہر کون ہے؟ امام حسین علیہ السلام کے بیٹے حضرت علی اکبر ۔ جو جوانان بنی ہاشم میں سب سے زیادہ نمایاں تھے۔ جو ظاہری و باطنی خوبصورتی سے مالا مال تھے۔ جن میں امام حسین علیہ السلام کی امامت و ولایت کی معرفت اور شجاعت و قربانی اور دشمن کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور جنہوں نے اپنی جوانی کی امنگیں اور ولولے، اپنے اعلی مقصد پر قربان کر دیئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ غیر معمولی نوجوان میدان جنگ میں جاتا ہے اور اپنے باپ کی آنکھوں کے سامنے اور اپنے لئے پریشان عورتوں کی نظروں کے سامنے لڑتا ہے اور پھر خون میں ڈوبا اس کا جنازہ خیمے میں واپس آتا ہے۔ یہ معمولی غم نہیں ہے لیکن ان کا میدان جنگ میں جانا اور جنگ کی تیاری ، ایک مسلمان کے لئے عزت و فخر و مباہات کا عملی نمونہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم فرماتا ہے «و للَّه العزّة و لرسوله و للمؤمنین».امام حسین علیہ السلام نے بھی ایسے نوجوان کو میدان جنگ میں بھیج کر ، معنوی کرامت کا مظاہرہ کیا ۔ یعنی اسلامی وقار و حکومت کا پرچم ، جو اسلامی امامت اور ظالم سلطنت کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے ، اسے مضبوطی سے تھامے رہے اور اپنے عزیز ترین فرزند کی جا کی قربانی پیش کر دی۔
آپ نے سنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے تمام اصحاب میدان جنگ میں جانے اور لڑنے کے لئے آپ سے اجازت مانگتے تھے اور امام فورا ہی اجازت نہیں دے دیتے تھے۔ کسی کو منع کر دیتے اور کسی سے کہتے تھے کہ وہ کربلا سے ہی چلا جائے، بنی ہاشم کے نوجوانوں اور اپنے اصحاب کے میں ان کی یہ روش تھی۔ لیکن علی اکبر جو ان کے بڑے ہی عزیز بیٹے تھے ، جب لڑنے کی اجازت مانگتے ہیں تو آپ اجازت دے دیتے ہیں یہاں پر بیٹے کی معرفت اور باپ کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
جب تک اصحاب تھے کہتے تھے ہماری جانیں آپ پر قربان ہوں گی اور وہ بنی ہاشم کے کسی جوان یعنی امام حسن و امام حسین علیھم السلام کے بیٹوں کو میدان جنگ میں نہیں جانے دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے پہلے ہم جائیں گے اور مارے جائیں گے، ہمارے مرنے کے بعد اگر ضرورت ہوئی تو وہ لوگ میدان جنگ میں جائیں اور جب بنی ہاشم کی شہادت کی باری آئی تو سب سے پہلے جس نے لڑنے کی اجازت طلب کی یہی فرض شناس نوجوان تھا ۔ وہ علی اکبر تھے، مولا کے بیٹے امام کے فرزند اور سب سے زیادہ ان کے محبوب۔ اسی لئے قربان ہونے کے لئے وہی سب سے زیادہ مناسب تھے۔ یہ بھی اسلامی امامت کا ایک مظہر ہے۔ یہ وہ جگہ نہیں تھی جہاں دنیوی لذات، مادی مفادات، مالی اہداف اور نفسانی خواہشات کی چیزیں تقسیم ہو رہی تھیں۔ یہ تو جد و جہد و سختیوں کی منزل ہے۔ جو سب سے پہلے آگے بڑھتا ہے وہ علی ابن حسین ہیں۔ اس سے اس نوجوان کی معرفت کا پتہ چلتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام بھی اپنی روحانی عظمت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے عزیز بیٹے کو میدان جنگ میں جانے کی اجازت دے دیتے ہیں ۔
یہ سب ہمارے لئے درس ہیں ، تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والے درس ۔ وہی درس جس کی آج اور کل بھی بشریت کو ضرورت پڑے گی۔ جب انسان پر خود غرضی غالب رہتی ہے تو اس کی طاقت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے۔ اگر انسان پر نفسانی خواہشات کا غلبہ رہتاہے، اگر انسان سب کچھ صرف اپنے لئے چاہتا ہے تو اس کی طاقت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی خطرناک اور خونخوار ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں آپ دنیا میں دیکھتے ہیں۔ اسلام کا کمال یہی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو طاقت کی سیڑھیوں سے اوپر تک چڑھنے دیتا ہے تاکہ اس کے کچھ مرحلوں پر ان کا امتحان لیا جا سکے اور شاید وہ کامیاب ہو جائیں لیکن پھر اہم عہدے عطا کرنے سے قبل اسلام جو شرط پیش کرتا ہے وہ ان برائیوں سے نجات حاصل کرنے کی متقاضی ہوتی ہے۔ ہم عہدہ داروں کو سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ سب سے زیادہ، اپنے ہاتھوں، زبانوں، افکار و اعمال پر نظر رکھنی چاہئے۔ تقوی سب سے زیادہ ہمارے لئے ضروری ہے ۔ اگر کوئی بے تقوی شخص لوگوں پر حاکم ہو جاتا ہے،اگر ایٹم بم کا بٹن ایسے شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کے لئے انسانوں اور قوموں کی جانوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور نہ ہی نفسانی خواہشات سے دوری اس کے لئے کوئی حیثیت رکھتی ہے تو یہ انسانیت کے لئے خطرناک ہے۔ آج دنیا میں جو لوگ ایٹم بم اور تباہ کن اسلحے کے مالک ہیں انہیں اپنے نفس اور جذبات پر قابو رکھنا چاہئے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام ان اقدار کو رائج کرنا چاہتا ہے اور دنیوی طاقتوں کی اسلام دشمنی کی وجہ بھی یہی ہے۔

(دوکوہہ فوجی چھاونی میں ایک تقریر سے اقتباس)