حسین میراحسین تیراحسین رب کاحسین سب کا(حصہ اول)


جب ہم احساسات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں امامحسین کے نام کی خاصیت اورحقیقت و معرفت یہ ہے کہ یہ نام دلربائے قلوب ہےاور مقناطیس کی مانند دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔البتہ مسلمانوں میں بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو ایسے نہیں ہیں اور امام حسینکی معرفت و شناخت سے بے بہرہ ہیں، دوسری طرف ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیںکہ جن کا شمار اہل بیعت میں بھی نہیں ہوتا لیکن اُن کے درمیان بہت سےایسے افراد ہیں کہ حسین ابن علی کا نام سنتے ہی اُن کی آنکھوں سے اشکوںکا سیلاب جاری ہو جاتاہے۔خداوند عالم نے امام حسین کے نام میںایسی تاثیر رکھی ہے کہ جب اُن کا نام لیا جاتا ہے تو دل و جان پر ایکروحانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔

جو کربلا کی اندھیری راتوں میں روشنی ھے حسین وہ ھے
شہادتوں کے سفر کا حاصل جو زندگی ھے حسین وہ ھے
گلاب میں جو لہو کی خؤشبو سے تازگی ھے حسین وہ ھے
بزیرٍ خنجر جو ایک پیاسے کی بندگی ھے حسین وہ ھے
حسین میرا، حسین تیرا، حسین سب کا
حسین حیدر کا،مصطفی کا،حسین رب کا
(صفدر ھمدانی)

اسم گرامی : حسین (ع)
لقب : سید الشھداء۔اس کے علاوہ سید وسبط اصغر، شہیداکبر، اورسیدالشہداء زیادہ مشہورہیں۔ علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ سبط اورسید خود رسولکریم کے معین کردہ القاب ہیں (مطالب السؤل ص 312) ۔
کنیت : ابو عبد اللہ
والد کا نام : علی (ع)
والدہ کا نام : فاطمہ زھرا (ع)
تاریخ ولادت : 3شعبان 4ھء
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : 12 سال
عمر : 57 سال
تاریخ شہادت :10 / محرم الحرام 61ھء
شہادت کا سبب: یزید ابن معاویہ کے حکم سے شہید کیے گئے
روضہ اقدس : کربلائے معلّیٰ
اولاد کی تعداد :4 بیٹے اور 2 بیٹیاں
بیٹوں کے نام : علی اکبر, علی اوسط , جعفر , عبد اللہ ( علی اصغر )
بیٹیوں کے نام : سکینہ , فاطمہ

خدا کے پیارے نبی کے پیارے علی کے پیارے حسین آئے
ھوا نے سورج کو دی مبارک براں کے پارے حسین آئے
زمیں خوشی سے تھرک رھی تھی تھے رقصاں تارے حسین آئے
شفق،صدف،روشنی، ھوایئں سبھی پکارے حسین آئے
(صفدر ھمدانی)

ابھی آپ کی ولادت نہ ہونے پائی تھی کہ بروایتی ام الفضل بنت حارث نے خواب میںدیکھا کہ رسول کریم کے جسم کاایک ٹکڑا کاٹ کران کی آغوش میں رکھا گیا ہےاس خواب سے وہ بہت گھبرائیں اوردوڑی ہوئی رسول کریم کی خدمت میںحاضرہوکرعرض پرداز ہوئیں کہ حضورآج ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ حضرت نےخواب سن کرمسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ خواب تونہایت ہی عمدہ ہے۔ اے امالفضل کی تعبیر یہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہو گا جو تمہاری آغوش میں پرورش پائے گا ۔

ھجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ھوئی . اس خوشخبری کوسن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے , بیٹے کو گود میں لیا , دائیں کان میںاذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دی . پیغمبر کامقدس لعاب دھن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا . ساتویں دن عقیقہ کیا گیا . آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جارھی تھی مگرآنے والے حالات کاعلم پیغمبر کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہتا تھا .

نشو و نما پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دن بھردو بچّوں کی پرورش ھونے لگی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کااور اسلام کا ایک ھی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رھے تھے . ایک طرفپیغمبر اسلام جن کی زندگی کا مقصد ھی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اوردوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام جو اپنے عملسے خدا کے محبوب تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا جو خواتینکے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ھی قدرت کیطرف سے پیدا ھوئی تھیں، اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ھوئی.

 

رسول کی محبت

حضرت محمد مصطفےٰ (ص)اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے ، سینہپر بٹھاتے تھے ، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھےکہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھخاص امتیاز رکھتے تھے .

ایسا ھوا ھے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میںحسین پشت مبارک پرآگئے تو سجدہ میں طول دے دیا اور جب بچہ خود سے بخوشیپشت پر سے علیٰحدہ ھوگیا اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتےھوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ھونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نےاپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پرتشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ دیکھو یہ حسین ھے اسے خوبپہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو رسول(ص) نے حسین علیہ السّلام کےلیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائےتھے کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سےھوں ۔ مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیامیں حسین کی بدولت قائم رھے گا .

 

جنت کے کپڑے اور فرزندان رسول کی عید

امام حسن اورا مام حسین کا بچپنا ہے عید آنے والی ہےاوران اسخیائے عالم کےگھرمیں نئے کپڑے کا کیا ذکر پرانے کپڑے نہیں ہے ۔بچوں نے ماں کے گلے میںبانہیں ڈال دیں مادرگرامی اطفال مدینہ عید کے دن زرق برق کپڑے پہن کرنکلیںگے اورہمارے پاس بالکل لباس نونہیں ہے ہم کس طرح عید منائیں گے ماں نے کہابچوگھبراؤ نہیں، تمہارے کپڑے درزی لائے گا عید کی رات آئی بچوں نے ماں سےپھرکپڑوں کا تقاضا کیا،ماں نے وہی جواب دے کرنونہالوں کوخاموش کردیا۔

ابھی صبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا، دروازہ کھٹکھٹایا فضہدروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدہ عالم کی خدمتمیں اسے پیش کیا اب جوکھولاتواس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامےدوقبائیں،دوعبائیں غرضیکہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کا دل باغ باغہوگیا وہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہابچوں کوجگایا کپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کیتوکہا مادرگرامی یہ توسفید کپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے،امام جان ہمیںرنگین کپڑے چاہئیں ۔

حضور انورکواطلاع ملی،تشریف لائے، فرمایا گھبراؤ نہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گےاتنے میں جبرائیل آفتابہ لیے ہوئے آ پہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمدمصطفیکے ارادے سے کپڑے سبزاورسرخ ہوگئے سبزجوڑاحسن نے پہنا سرخ جوڑاحسین نے زیبتن کیا، ماں نے گلے لگا لیا باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پرسوارکرکےمہارکے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اورکہا،میرے بچو، رسالت کی باگڈورتمہارے ہاتھوں میں ہے جدھرچاہو موڑدو اورجہاں چاہولے چلو(روضہ الشہداءص 189 بحارالانوار) ۔

بعض علماء کاکہناہے کہ سرورکائنات بچوں کوپشتپربٹھا کردونوں ہاتھوں اورپیروں سے چلنے لگے اوربچوں کی فرمائش پراونٹ کیآوازمنہ سے نکالنے لگے (کشف المحجوب)۔

 

امام حسین کا سردار جنت ہونا

یغمبراسلام کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ ”الحسن و الحسین سیدا شباباہل الجنہ و ابوہما خیر منہما“ حسن اور حسین جوانان جنت کے سردارہیں اورانکے پدر بزرگواران دنوں سے بہتر ہیں (ابن ماجہ) صحابی رسول جناب حذیفہیمانی کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سرور کائنات صلعم کو بے انتہا مسروردیکھ کرپوچھا حضور،افراط مسرت کی کیا وجہ ہے فرمایا اے حذیفہ آج ایک ایساملک نازل ہوا ہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرےبچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہا ہے کہ”ان فاطمہ سیدہ نساء اہلالجنہ وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنہ“ فاطمہ جنت کی عورتوں کیسردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد 7 ص 107،تاریخ الخلفاص 123، اسدالغابہ ص 12، اصابہ جلد 2ص 12، ترمذی شریف، مطالبالسول ص 242 صواعق محرقہ ص 114) ۔

رسول کی وفات کے بعد امام حسین علیہ السّلام کی عمر ابھی چھ سال ھی کی تھی جب انتہائی محبت کرنےوالے نانا کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالبعلیہ السّلام کی خانہ نشینی کادور تھا .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوارحالات امام حسین علیہ السّلام دیکھتے رھے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرتکا بھی مطالعہ فرماتے رھے .

یہوھی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کیمنزلوں کو طے کیا۔35ھ میں جب حسین کی عمر31 برس کی تھی عام مسلمانوں نےحضرت علی ا بن ابی طالب علیھما السّلام کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین علیہ السّلام کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میںجمل، صفین اور نھروان کی جنگ ھوئی اور امام حسین علیہ السّلام ان میں اپنےبزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ھوئے اور شجاعت کے جوھر بھیدکھلائے 40ھ میں جناب امیر علیہ السّلام مسجد کوفہ میں شھید ھوئے۔

اوراب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن علیہ السّلام کے سپرد ھوئیں جوحضرت امام حسین علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے .حسین علیہ السّلام نے ایکباوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن علیہ السّلام کاساتھ دیااور جب امامحسن علیہ السّلام نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکےمعاویہ کے ساتہ صلح کرلی تو امام حسین علیہ السّلام بھی اس مصلحت پر راضیھوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعتمیں مصروف رھے مگر معاویہ نے ان شرائط کو جو امام حسن علیہ السّلام کےساتھ ھوئے تھے بالکل پورا نہ کیا بلکہ امام حسن علیہ السّلام کو زھر کےذریعہ شھید بھی کرا دیا-

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کےشیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا، سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیااور سب سے آخر میں اس شرط کے بالکل خلاف کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی کوجانشین مقرر کرنے کا حق نہ ھو گا معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے لئے ولیعہد بنا دیا ۔ تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی اور زورو زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکادیا گیا-

 

امام حسین کا دورانِ جوانی

پیغمبراکرم کی وفات کے بعد سے امیر المومنین کی شہادت تک کا پچیس سالہ دور ہے۔اِس میں یہ شخصیت، جوان، رشید، عالم اورشجاع ہے ، جنگوں میں آگے آگے ہے،عالم اسلام کے بڑے بڑے کاموں میں حصہ لیتا ہے اور اسلامی معاشرے کے تماممسلمان اِس کی عظمت وبزرگی سے واقف ہیں۔ جب بھی کسی جواد و سخی کا نام آتاہے تو سب کی نگاہیں اِسی پر مرکوز ہوتی ہیں، مکہ ومدینے کے مسلمانوں میں،ہر فضیلت
میں اور جہاں جہاں اسلام کا نور پہنچا، یہ ہستی خورشید کیمانند جگمگا رہی ہے، سب ہی اُس کا احترام کرتے ہیں، خلفائے راشدین بھیامام حسن اور امام حسین کا احترام کرتے ہیں ، اِن دونوں کی عظمت و بزرگیکے قولاً و عملاً قائل ہیں، ان دونوں کے نام نہایت احترام اور عظمت سے لیےجاتے ہیں ، اپنے زمانے کے بے مثل و نظیر جوان اور سب کے نزدیک قابلاحترام۔ اگر اُنہی ایام میں کوئی یہ کہتا کہ یہی جوان (کہ جس کی آج تماتنی تعظیم کررہے ہو) کل اِسی امت کے ہاتھوں قتل کیا جائے گا تو شاید کوئییقین نہ کرتا۔

 

امام حسین کا دورانِ غربت

سیدالشہدا کی حیات کا تیسرا دور، امیر المومنین کی شہادت کے بعد کا دور ہے،یعنی اہل بیت کی غربت و تنہائی کا دور۔ امیر المومنین کی شہادت کے بعدامام حسن اور امام حسین مدینے تشریف لے آئے۔حضرت علی کی شہادت کے بعد امامحسین بیس سال تک تمام مسلمانوں کے معنوی امام ١ رہے اور آپ تمام مسلمانوںمیں ایک بزرگ مفتی کی حیثیت سے سب کیلئے قابل احترام تھے۔ آپ عالم اسلاممیں داخل ہو نے والوںک ی توجہ کا مرکز، اُن کی تعلیم وتر بیت کا محوراوراہل بیت سے اظہا رعقیدت و محبت رکھنے والے معنوی امام اس لحاظ سے کہامیر المومنین کی شہادت کے بعد امامت ، امام حسن کو منتقل ہوئی اور آپ کیشہادت کے بعد امامت ، امام حسین کو منتقل ہوئی۔ امام حسن کی امامت کازمانہ یا امام حسین کی اپنی امامت کا دور، دونوں زمانوں میں امام حسین ٢٠سال تک تمام مسلمانوں کے معنوی امام رہے ۔ (مترجم)

 

اخلاق و اوصاف امام حسین

علیہ السّلام سلسلہ امامت کی تیسری فرد اور عصمت و طہارت کا باقاعدہمجسمہ تھے- آپ کی عبادت, آپ کے زہد, آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کےدوست و دشمن سب ھی قائل تھے- آپ نےپچیس حج پاپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اورشجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا “ حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ھے “۔ چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروںاور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رھتا تھا اور کوئی سائل محروم واپسنھیں ھوتا تھا-

اسی وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ھو گیاتھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھےاور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارکپر پڑ گئے تھے- حضرت ھمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ “ جب کسی صاحبِ ضرورت نےتمھارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارےہاتھ بیچ ڈالی- اب تمھارا فرض یہ ھے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو, کمسے کم اپنی ھی عزتِ نفس کا خیال کرو“۔

غلام وںاور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپانھیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ھواتھا- مذھبی مسائل اور اھم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا- ۔ آپرحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثارایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتےتھے-

ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہراستے میں چند مساکین بیٹھے ھوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رھے تھے اور آپ کوپکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت فوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہکھانے میں شرکت نہیں فرمائی اس بناء پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ھے مگران کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نھیں ھوا-

اس خاکساری کے باوجود آپکی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماھوتے تھے لوگنگاہ اٹھا کر بات بھی نہیں کرتے تھے - جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھےوہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے-

ایک مرتبہ حضرت امام حسین علیہ السّلام نے حاکم شام معاویہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں اس کےاعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی ۔ اس خط کو پڑھ کرمعاویہ کو بڑی تکلیف محسوس ھوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپبھی اتنا ھی سخت خط کاجواب لکھئیے- معاویہ نے کہا, “میں جو کچھ لکھوں گاوہ اگر غلط ھو تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں اور اگر صحیح لکھنا چاھوں تو بخداحسین میں مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی عیب نھیں ملتا“۔

آپ کی اخلاقی جراَت , راست بازی اور راست کرداری , قوتِ اقدام, جوش عمل اور ثبات واستقلال , صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ھیں-

ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کیکوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی مگر جو صحیح راستہ پہلے دناختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ھٹے- آپ نے بحیثیت ایک سردار کے کربلامیں ایک پوری جماعت کی قیادت کی اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بےمثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی۔

دین میں ہونے والی تحریفات سے مقابلہ امامحسین کی عبادت اور حرم پیغمبر میں آپ کا اعتکاف اور آپ کی معنوی ریاضت اورسیر و سلوک؛ سب امام حسین کی حیات مبارک کا ایک رُخ ہے۔ آپ کی زندگی کادوسرا رُخ علم اور تعلیمات اسلامی کے فروغ میں آپ کی خدمات اور تحریفات سےمقابلہ کیے جانے سے عبارت ہے۔

اُس زمانے میں ہونے والی تحریف دیندرحقیقت اسلام کیلئے ایک بہت بڑی آفت و بلا تھی کہ جس نے برائیوں کے سیلابکی مانند پورے اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ یہ وہ زمانہتھا کہ جب اسلامی سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درمیان اِسبات کی تاکید کی جاتی تھی کہ اسلام کی سب سے عظیم ترین شخصیت پر لعن اورسبّ و شتم کریں۔

اگر کسی پر الزام ہوتا کہ یہ امیر المومنین کیولایت و امامت کا طرفدار اور حمایتی ہے تو اُس کے خلاف قانونی کاروائی کیجاتی، ’’اَلقَتلُ بِالظَنَّۃِ وَالآَخذُ بِالتُّھمَۃِ‘‘،(صرف اِس گمان وخیال کی بنا پر کہ یہ امیرالمو منین کا حمایتی ہے ، قتل کردیا جاتا اورصرف الزام کی وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ لیا جاتا اور بیت المال سے اُسکاوظیفہ بند کردیا جاتا)۔

اِن دشوار حالات میں امام حسین ایک مضبوطچٹان کی مانند جمے رہے اور آپ نے تیز اور برندہ تلوار کی مانند دین پر پڑےہوئے تحریفات کے تمام پردوں کو چاک کردیا، (میدان منی میں) آپ کا وہمشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات یہ سب تاریخ میں محفوظ ہیںاور اِس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ امام حسین اِس سلسلے میں کتنی بڑی تحریککے روح رواں تھے۔

 

امر بالمعروف و نہی عن المنکر

آپٴنے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی وسیع پیمانے پر انجام دیا اور یہامر و نہی، معاویہ کے نام آپ کے خط کی صورت میں تاریخ کے اوراق کی ایکناقابل انکار حقیقت اورقابل دید حصّہ ہیں۔ آپ کا وہ عظیم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اوردلیرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دینا دراصل یزیدکے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدینے سے کربلا کیلئے آپ ٴکی روانگی تک کےعرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپٴ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہیعن المنکر تھے۔ آپ ٴخود فرماتے ہیں کہ ’’اُرِیدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ واَنهی عَنِ المُنکَرِ‘‘، ’’میں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

 

زندگی کے تین میدانوں میں امام حسین کی جدوجہد

امام حسین اپنی انفرادی زندگی _ تہذیب نفس اور تقوی میں بھی اتنی بڑی تحریک کے روح رواں ہیں اورساتھ ساتھ ثقافتی میدان میں بھی تحریفات سے مقابلہ، احکام الہی کی ترویج و اشاعت ، شاگردوں اور عظیم الشان انسانوں کی تربیت کو بھی انجام دیتے ہیں نیز سیاسی میدان میں بھی کہ جو اُن کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے، عظیم جدوجہد اور تحریک کے پرچم کو بھی خود بلند کرتے ہیں۔ یہ عظیم انسان انفرادی ، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں بھی اپنی خود سازی میں مصروف عمل ہے۔

اب ہم واقعہ کربلا کی طرف رُخ کرتے ہیں ۔ واقعہ کربلا ایک جہت سے بہت اہم واقعہ ہے اورخود یہ مسئلہ اُن افراد کیلئے درس ہے کہ جو امام حسین کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔

واقعہ کربلا آدھے دن یا اِس سے تھوڑی سی زیادہ مدت پر محیط ہے اور اُس میں بہتر (٧٢) کے قریب افراد شہید ہوئے ہیں ۔ دنیا میں اور بھی سینکڑوں شہدا ہیں لیکن واقعہ کربلا نے اپنی مختصر مدت اور شہدا کی ایک مختصر سی جماعت کے ساتھ اتنی عظمت حاصل کی ہے اور حق بھی یہی ہے ؛ واقعہ کربلا روح اور معنی کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔

آوازہ یا حسین کا پھر نینوا میں ھے
شبیر تیرے خون کی خوشبو ھوا میں ھے

چہلم کی شان سے ھے پریشان یزیدٍ وقت
زینب تری دعا کا اثر کا اثر کربلا میں ھے
(صفدر ھمدانی)

 

روح کربلا

واقعہ کربلا کی روح و حقیقت یہ ہے کہ امام حسین اِ س واقعہ میں ایک لشکر یا انسانوں کی ایک گروہ کے مد مقابل نہیں تھے، ہرچند کہ وہ تعداد میں امام حسین کے چند سو برابر تھے،بلکہ آپ انحراف و ظلمات کی ایک دنیا کے مد مقابل کھڑے تھے اور اِ س واقعہ کی یہی بات قابل اہمیت ہے ۔ سالار شہیدان اُس وقت کج روی، ظلمت اور ظلم کی ایک پوری دنیا کے مقابلے میں کھڑے تھے اور یہ پوری دنیا تمام مادی اسباب و سائل کی مالک تھی یعنی مال و دولت، طاقت ، شعر، کتاب، جھوٹے راوی اور درباری ملا، سب ہی اُس کے ساتھ تھے اور جہان ظلم و ظلمت اور انحراف کی یہی چیزیں دوسروں کی وحشت کا سبب بنی ہوئی تھیں۔

ایک معمولی انسان یا اُس سے ذرا بڑھ کر ایک اور انسان کا بدن اُس دنیا ئے ظلمت و ظلم کی ظاہری حشمت ، شان وشوکت اور رعب و دبدبہ کو دیکھ کر لرز اٹھتا تھا لیکن یہ سرور شہیداں تھے کہ آپ کے قدم و قلب اُس جہان شر کے مقابلے میں ہرگز نہیں لرزے ، آپ میں کسی بھی قسم کا ضعف و کمزوری نہیں آئی اور نہ ہی آپ نے (اپنی راہ کے حق اور مدمقابل گروہ کے باطل ہونے میں) کسی قسم کا شک وتردید کیا، (جب آپ نے انحرافات اور ظلم و زیادتی کا مشاہدہ کیا تو) آپ فوراً میدان میں اتر آئے۔ اس واقعہ کی عظمت کاپہلو یہی ہے کہ اس میں خالصتاً خدا ہی کیلئے قیام کیا گیا تھا۔

’حُسَین مِنِّی وَاَنَا مِنَ الحُسَینِ‘‘کا معنی کربلا میں امام حسین کا کام بعثت میں آپ کے جد مطہر حضرت ختمی مرتبت کے کاموں سے قابل تشبیہ و قابل موازنہ ہے، یہ ہے حقیقت۔ جس طرح پیغمبر اکرم نے تن ِ تنہا پوری ایک دنیا سے مقابلہ کیا تھا امام حسین بھی واقعہ کربلا میں جہانِ با طل کے مدمقابل تھے؛ حضرت رسول اکرم بھی ہرگز نہیں گھبرائے ، راہ حق میں ثابت قدم رہے اور منزل کی جانب پیش قدمی کرتے رہے، اسی طرح سید الشہدا بھی نہیں گھبرائے، ثابت قدم رہے اور آپ ٴنے دشمن کے مقابل آکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ تحریک نبوی اور تحریک حسینی کا محور و مرکز ایک ہی ہے اور دونوں ایک ہی جہت کی طرف گامزن تھے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں’’حُسَین مِنِّی وَاَنَا مِنَ الحُسَینِ ‘‘ کا معنی سمجھ میں آتا ہے ۔ یہ ہے امام حسین کے کام کی عظمت۔
ْْْْٰ


قیام امام حسین کی عظمت!

امام حسین نے شب عاشور اپنے اصحاب و انصار سے فرمایا تھا کہ’’ آپ سب چلے جائیے اور یہاں کوئی نہ رہے ، میں اپنی بیعت تم سب پر سے اٹھالیتا ہوں اور میرے اہل بیت کو بھی اپنی ساتھ لے جاو، کیونکہ یہ میرے خون کے پیاسے ہیں‘‘۔ امام حسین کے یہ جملے اگر اُن کے اصحاب قبول بھی کرلیتے اور امام حسین یکتا و تنہا یا دس افراد کے ساتھ میدان میں رہ جاتے توسید الشہدا کے کام کی عظمت کبھی کم نہیں ھوتی بلکہ ھمیشہ کی طرح اسی عظمت و اہمیت کے حامل ہوتے ۔

 

امام حسین کی عظمت و شجاعت

امام حسین کے کام کی عظمت یہ تھی کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافت رسول ۰ کے مدعی اور انحراف کے پورے ایک جہان کے دباو کو قبول نہیں کیا۔ مدینے میں صحابہ کرام کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد مدینہ میں رونما ہونے والے واقعہ حرّہ میں مسلم ابن عقبہ کے قتل عام کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور جنگ کی ۔

لیکن امام حسین دوسری شجاعت کے مالک تھے، اِس واقعہ کربلا کی عظمت کا پہلو یہ ہے کہ امام حسین ایک ایسی طاقت و قدرت کے مد مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے کہ جو تمام مادی اسباب و وسائل کی مالک تھی۔
امام حسین کے دشمن کے پاس مال و دولت تھی ، وہ قدرت و طاقت کا مالک تھا، اسلحہ سے لیس سپاہی اس کی فوج میں شامل تھے اور ثقافتی و معاشرتی میدانوں کو فتح کرنے والے مبلغ و مروج اورمخلص افراد کا لشکر بھی اُس کے ساتھ تھا۔ کربلا قیامت تک پوری دنیا پر محیط ہے ، کربلا صرف میدان کربلا کے چند سو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی جگہ کا نام نہیں ہے۔ آج کی دنیائے استکبار و ظلم اسلامی جمہوریہ کے سامنے کھڑی ہے۔

نفس نفس علی علی زباں زباں حسین ھے
کہاں کوئی بتا سکا کہاں کہاں حسین ھے

کربلا کے بعد اب یہ فیصلہ ھو گیا
جہاں جہاں یزید ھے وہاں وہاں حسین ھے
(صفدر ھمدانی)

 

کربلا میں ورود

2محرم الحرام 61 ھ بروزجمعرات کو امام حسین علیہ السلام وارد کربلا ہو گئے۔ واعظ کاشفی اور علامہ اربلی کا بیان ہے کہ جیسے ہی امام حسین (ع) نے زمین کربلا پر قدم رکھا زمین کر بلا زرد ہو گئی اور ایک ایسا غبار اٹھا جس سے آپ کے چہرہ مبارک پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔یہ دیکھ کر اصحاب ڈرگئے اور جنابِ اُم کلثوم رونے لگیں۔

صاحب مخزن البکا لکھتے ہیں کہ کربلا پر درود کے فوراََ بعد جنابِ ام کلثوم نے امام حسین (ع) سے عرض کی،بھائی جان یہ کیسی زمین ہے کہ اس جگہ ہمارادل دھل رہا ہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا بس یہ وہی مقام ہے جہاں بابا جان نے صفیں کے سفر میں خواب دیکھا تھا۔یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارا خون بہے گا۔کتاب مائتین میں ہے کہ اسی دن ایک صحابی نے ایک بیری کے درخت سے مسواک کے لیے شاخ کاٹی تواس سے خون تازہ جاری ہو گیا۔

 

امام حسین (ع) کا خط اہل کوفہ کے نام

کربلا پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اتمام حجت کیلئے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسہر کے ذریعہ سے ایک خط ارسال فرمایا۔جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ تمھاری دعوت پر میں کربلا تک آگیا ہوں الخ۔قیس خط لیے جارہے تھے کہ راستے میں گرفتار کر لیے گئے۔اور انھیں ابن زیاد کے سامنے کوفہ لے جاکر پیش کر دیا گیا۔ابن زیاد نے خط مانگا۔قیس نے بروایتے چاک کرکے پھینک دیا اوربروایتے اس خط کو کھا لیاابن زیاد نے انھیں بضرب تازیانہ شہید کر دیا۔

 

عبیداللہ ابن زیاد کا خط امام حسین (ع) کے نام

علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے کربلا پہنچنے کے بعد حرنے ابن زیاد کو آپ کی رسیدگی کربلا کی خبردی۔ا س نے امام حسین (ع) کو فوراََ ایک خط ارسال کیا۔جس میں لکھا کہ مجھے یزید نے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے اس کے لیے بیعت لے لوں ،یا آپ کو قتل کر دوں۔امام حسین (ع) نے اس خط کا جواب نہ دیا۔اَلقَاہُ مِن یَدِہ اور اسے زمین پر پھینک دیا۔ اس کے بعد آپ نے محمد بن حنفیہ کو اپنے کربلاپہنچنے کی ایک خط کے ذریعہ سے اطلاع دی اور تحریر فرمایا کہ میں نے زندگی سے ہاتھ دھولیا ہے اور عنقریب عروس موت سے ہم کنار ہو جاؤں گا۔

جاری ہے