حضرت حسنین (ع)کے بارے ارشادات رسول(ص)


امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے بارے میں ارشادات رسول(ص) گزشتہ مباحث میں ہم نے حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کے بارے میں بعض نصوص کا ذکر کیا ہے۔ یہاں ہم نواسہ رسول امام حسن اور نواسہ رسول امام حسین کے بارے میں بعض احادیث کا تذکرہ کریں گے۔ ان میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک فرمان یہ ہے:
هذان منی۔یہ دونوں مجھ سے ہیں۔
یا د رہے کہ گزشتہ بحث میں ہم منّی کا مفہوم بیان کر چکے ہیں۔
امام حسن اور امام حسین پیغمبر اسلام(ص) سے ہیں اور آپ(ص) کے نواسے ہیں
حضرت مقدام بن معدی کرب سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن کو اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا:
هذا منی۔ ۱ یہ مجھ سے ہے۔
حضرت براءبن عازب کہتے ہیں: نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن یا حسین کے بارے میں فرمایا:
هذا منی۔ ۲
یعلیبن مرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا؛
حسین منی وانا من الحسین۔ احب الله من احب
حسیناً۔ حسین سبط من الاسباط۔

حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ خدا اُس سے محبت کرے جوحسین سے محبت کرے۔ حسین اسباط (اولاد) میں سے ایک نواسا ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے:
الحسن والحسین سبطان من الاسباط
”حسن اور حسین اولاد یا نواسوں میں سے دو نواسے ہیں“۔ ۳
ابو رمثہسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حسین منی وانا منه هو سبط من الاسباط۔
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں وہ نواسوں میں سے ایک نواسا ہے۔
ایک روایت میں ہے:
الحسن و الحسین سبطان من الاسباط۔
حسن اور حسین نواسوں میں سے دو نواسے ہیں۔
حضرت براء بن عازبسے روایت ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:
حسین منی وانا منه احب الله من احبه۔ الحسن والحسین سبطان من الاسباط
حسین مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اللہ اس کو دوست رکھے جو اسے دوست رکھے۔ حسن اور حسین نواسوں میں سے دو نواسے ہیں۔ ۴
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان روایات میں حسنین کے لئے ”منی“ فرمایا: ان سب میں آپ کی مراد یہ ہے کہ اسلامی احکام کی تبلیغ میں وہ آپ کے ساتھ شریک ہیں۔
اسی طرح ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ حضور (ص) کا امام حسن اور امام حسین کے بارے میں سبطان من الاسباط فرمانا اس نقطہ نظر سے نہیں کہ وہ آپ کے نواسے ہیں کیونکہ ان دونوں کے علاوہ باقی سارے انسان بھی کسی نہ کسی کے نواسے ہیں۔ لہذایہ کہنا کہ وہ صرف نواسے ہیں ایک لغو اور بے فائدہ بات ہے جس سے رسول اللہ کی ذات منزہ ہے۔ بکہ لفظ ”الاسباط“ میں الف اور لام(ا ل) قرآن میں ذکر شدہ ”اسباط“ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ”عہد ذہنی“ ۵ ہے۔ بنابرین ان احادیث میں سبطان من الاسباط سے مراد یہ ہے کہ یہ دونوں قرآن میں ذکر شدہ اسباط میں سے دو سبط ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِا للهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰهیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَمَآاُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهمْ وَنَحْنُ لَہمُسْلِمُوْنَ ۶
(مسلمانوں) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے۔ اور جو ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق، یعقوباور ان کے اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا (ان سب پر ایمان لائے)۔ ہم ان میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم اسی کے فرمان بردار ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰهیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطَ کَانُوْا هوْدًا اَوْ نَصَارٰی ۷
کیا تم لوگ کہتے ہو کہ ابراہیم، اسمعٰیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟
ان کے علاہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اٰمَنَّا بِاللهِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰهیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ ۸
کہہ دیجئے: ہم اللہ پر ایمان لائیں ہیں اور جو ہماری طرف نازل ہوا ہے اس پر بھی نیز ان (باتوں) پر جو ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوباور ان کی اولاد پر نازل ہوئی ہیں۔
نیز ارشاد ربانی ہے:
اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّنَ مِنْم بَعْدِہج وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰهیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَهرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ۹
(اے رسول) ہم نے آپ کی طرف اس طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی اور جس طرح ہم نے ابراہیم ، اسمعیل ، اسحاق ، اولادِ یعقوب، عیسیٰ ، ایوب ، یونس ، ہاروناور سلیمان کی طرف وحی بھیجی۔
بنا بریں حسنین کے باے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث میں لفظ الاسباط کا الف اور لام (ال) مذکورہ آیات کے سبب سے مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا شدہ تصور کی طرف اشارہ ہے۔ اس قسم کے الف لام کو ”عہد ذہنی“ کہتے ہیں اور ان دونوں کے حق میں آپ(ص) کا فرمان ان دونوں کے پدر بزرگوار کے حق میں حضور(ص) کے اس فرمان کے مشابہ ہے جس کی رو سے علی(ع) کی رسول(ص) سے نسب وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ سے چنانچہ اللہ تعالیٰ اس نسبت کی وضاحت حضرت موسیٰ کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرماتاہے:
وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْراً مِّنْ اَهلِیْلاO هارُوْنَ اَخِیO اشْدُدْ بِه اَزْرِیْO وَاَشْرِکْه فِی اَمْرِیْO کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْرًاO وَّنَذْکُرَکَ کَثِیْرًاO اِنَّکَ کُنْتَ بِنَا بَصِیْرًاO قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُوٴْلَکَ یٰمُوْسٰیO ۱۰
اور میرے کنبے میں سے میرا ایک وزیر بنا دے میرے بھائی ہارون کو۔ اس سے میرا پشت پناہ بنا دے اور اسے میرے امر (رسالت) میں شریک بنا دے تاکہ ہم تیری خوب تسبیح کریں اور تجھے کثرت سے یاد کریں۔ یقینا تو ہی ہمارے حال پر خوب نظر رکھتا ہے۔ فرمایا: اے موسیٰ یقینا آپ کو آپ کی مراد دے دی گئی۔
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَخِیْ هرُوْنُ هوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْه مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیز اِنِّی اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِO قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ ۱۱
اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے لہذا اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ وہ میری تصدیق کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ وہ میری تکذیب کریں گے۔ فرمایا: ہم آپ کے بھائی کے ذریعے آپ کے بازو مضبوط کریں گے۔
اس کے علاوہ اللہ ے فرمایا:
وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْه هرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ۔ ۱۲
اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کا راستہ اختیار نہ کرنا۔
ایک جگہ موسیٰ اور حضرت ہارون کے بارے میں فرماتا ہے:
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَه اَخَاه هرُوْنَ وَزِیْرًا ۱۳
اور بتحقیق ہم نے موسی کو کتاب عنایت فرمائی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کر دیا۔
سورة مومنون میں فرمایا:
ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسیٰ وَ اَخَاه هرُوْنَلابِاٰیٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ۱۴
پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب ہارون کو موسیٰ کا مددگار وزیر اور نبوت میں موسیٰ علیہ السلام کا شریک قرار دیا ہے۔ حضرت موسیٰ نے ان کو اپنی قوم میں اپنا جانشین بنایا۔ پھر جب خاتم الانبیاء نے صاف بتا دیا کہ حضرت علی(ع) اورآپ کی نسبت ہارون (ع) اور موسیٰ(ع) کی نسبت جیسی ہے اور اس نسبت سے صرف نبوت کو مستثنیٰ قرار دیا اور کہا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا تو پھر حضرت علی (ع) آپ کے لئے عہد رسول(ص) میں مددگار، وزیر اور شریک تبلیغ باقی رہ گئے اور حضور(ص) کی زندگی کے بعد آپ کے لئے رسول(ص) کی جانشینی اور تبلیغی ذمہ داریاں باقی رہ گئیں۔ یہی حال آپ کے بیٹوں حسن اور حسین کا ہے یعنی نبوت کے علاوہ اسباط کو حاصل ساری چیزیں ان دونوں کو حاصل ہیں۔ کیونکہ خاتم الابنیاء کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ پس ان کے واسطے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلامی احکام کی تبلیغ کی ذمہ داریاں باقی رہ جاتی ہیں۔


حوالہ جات

۱ مسند احمد ج۴ صفحہ ۱۳۲، کنز العمال ج۱۳ صفحہ ۹۹، ج۱۶ صفحہ ۲۶۲، جامع الصغیر مع شرح فیض القدیر ج۳ صفحہ ۱۴۵
۲ کنز العمال ج۱۶ صفحہ ۲۷۰۔
۳ صحیح بخاری باب معانقة الصبی حدیث ۳۶۴، سنن ترمذی ج۱۳ صفحہ ۱۹۵، باب مناقب الحسن ولحسین سن ابن ماجہ باب ۱۱ حدیث ۱۴۴، مسند احمد ج۴ صفحہ ۱۷۲، مستدرک حاکم ج۳ صفحہ ۱۷۷، کنز العمال ج۱۶ صفحہ ۲۷۰
۴ کنز العمال ج۱۳ صفحہ ۱۰۶،۱۰۱،۱۰۵ ج۱۶ صفحہ ۲۷۰
۵ ذہن میں پہلے سے موجود کسی چیز کی یاددہانی
۶ سورة بقرة آیت ۱۳۶
۷ سورة البقرة آیت ۱۴۰
۸ سورة آل عمران آیت ۸۴
۹ سورة النسا آیت ۱۶۳
۱۰ سورة طہ آیت ۲۹ و ۳۶
۱۱ سورة قصص، آیت ۳۴، ۳۵
۱۲ سورة اعراف آیت ۱۴۲
۱۳ سورة الفرقان آیت ۳۵
۱۴سورة مومنون آیت ۴۵