زمانہ غیبت میں حضرت (عج)کا کردار


ایک سوال جو بہت زیادہ کیا جاتا ھے وہ یہ ھے کہ حضرت بقیة اللہ (عج) زمانہ غیبت میں کس طرح استفادہ کریں ؟ جبکہ غیبت کے زمانہ میں امام علیہ السلام تک کسی کی رسائی بھی نھیں ھے تو وہ کون سا طریقہ ھے یا سادہ الفاظ میں یوں بیان کریں کہ وجود مقدس بقیة اللہ (عج)کا ھماری زندگی میں کیا کردار ھے ؟
یہ ھماری خوش قسمتی ھے کہ یہ سوال آئمہ علیھم السلام کے زمانہ میں بھی کیا جاچکا ھے اور متعدد روایت میں ھمیں اس کا جواب ملتا ھے ھم نمونہ کے طور پر چند ایک روایت کو بیان کرتے ھیں۔


پھلی روایت:

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری نے حضرت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے سوال کیا کہ ” آیا زمانہ غیبت میں شیعہ حضرت قائم آل محمد علیہ السلام سے استفادہ کرسکیں گے۔
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:
”ای والذی بعثنی بالنبوة انهم لیستضیوٴن بنوره و ینتفعون بولایته فی غیبته کانتفاع بالشمس و واٴن تجلَّها سحاب“
ھاں اس خدا کی قسم جس نے مجھے پیغمبری کے لیئے منتخب کیا ان سے شیعہ ان سے اور انکے نور ولایت سے اسی طرح فائدہ اٹھائیں گے جس طرح سورج جب بادلوں میں چھپ جائے تو اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ھے۔۱


دوسری روایت:

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا” جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو خلق کیا ھے اور روز قیامت تک یہ زمین نہ حجّت خدا سے خالی رھی ھے اور نہ رھے گی“
راوی نے سوال کیا: ”پھر غائب امام علیہ السلام سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ھے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:
”کما ینتفعون بالشمس اذا سترها السحاب “ جیسا کہ بادلوں میں چھپنے کے بعد سورج سے استفادہ کیا جاتا ھے۲


تیسری روایت:

حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف خود اپنی توقیع میں جو اپنے دوسرے نائب
خاص حضرت محمدبن عثمان کے ذریعہ اسحاق بن یعقوب (رہ) کے نام بھیجتے ھیں، فرمایا :
اماوجه الإنتفاع بی فی غیبتی فکالإنتفاع بالشمس اذا غیبتها عن الابصار السحاب ۳
”اور لوگ مجھ سے غیبت میں اس طرح مستفیض ھونگے جیسے سورج کے بادلوں میں چھپ جانے کے بعد مستفیض ھوتے ھیں۔“


حدیث ” من مات ولم یعرف“ کی توضیح اور تشریح:

البتہ بہت سے مخالفوں نے یہ سوال اٹھایا ھے کہ جب ھم امام علیہ السلام کو دیکھ نھیں سکتے اور ان کی بات کو سن نھیں سکتے تو ھم کس طرح اس متفقہ حدیث پر عمل کرسکتی ھیں ۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:
”من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة“
(جو بھی اس حالت میں مرے کہ اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانتا ھو تو وہ جاھلیت کے زمانہ کے کافر کی موت مرے گا)
جیسا کہ ذکر ھوچکا ھے اس حدیث کا صادر ھونا تواتر۴سے ثابت ھوچکا ھے اسی وجہ سے بعض علماء اھل سنت نے سوال اٹھایا تو پھر زمانہ غیبت میں ھم کیونکر امام علیہ السلام کو پہچان سکتے ھیں ؟ اور کیسے فائدہ اٹھا سکتے ھیں ؟
علمائے شیعہ نے جواب د یا کہ پھلی بات یہ ھے کہ فائدہ فقط اس بات پر منحصر نھیں ھے کہ امام علیہ السلام کی زیارت کی جائے ۔
خود حضرت(عج) کے وصی ھونے کی تصدیق کرنا کیونکہ منصب خدا کی طرف سے عطاء شدہ ھے اور دراصل یہ خدا کی تصدیق ھے یہ بھی ذاتاً مطلوب ھے ۔اور یہ بات ارکان دین میں سے ھے جیسا کہ حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ میں تھا۔
فقط حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زیارت کرنے والوں کو مسلمان نھیں کھا جاتا تھا۔بلکہ زیارت کرنا یا نہ کرنا تو کبھی بھی معیار نھیں رھا۔ معیار تو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی نبی اللہ کی حیثیت سے تصدیق اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر ایمان لانا تھا۔
دوسری بات یہ ھے کہ جو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد دنیا میں آئے انھوں نے تو حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زیارت نھیں کی جبکہ آج تک کیا بلکہ قیامت تک کسی کے مسلمان ھونے کی بنیادی شرط یہ ھے کہ خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر ایمان لایا جائے۔
اسی اعتراض کی بنا پر بعض علماء مخالف نے حدیث شریف میں معرفت امام کا مطلب کتاب خدا کی معرفت جانا ھے۔۵
جس کے جواب میں عرض کرتی چلیں کہ روایت میں امام کا ساتھ زمانہ کا اضافہ ھے یعنی ”زمانہ کے امام“ اس کا مطلب یہ ھے کہ ھر زمانہ میں امام مختلف ھوگا یا دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کہ یہ تو امام کے تبدیل ھونے کا ثبوت ھے جبکہ قرآن تو ھر زمانے میں ایک ھی رھا ھے اور رھے گا اور اس کتاب خدا کے بدلنے کا کوئی سوال ھی پیدا نھیں ھوتا اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ھے۔
اگر یھی بات ھوتی تو کہہ دیا جاتا کہ کتاب خدا کی معرفت حاصل کرو نہ یہ کہ زمانہ کی کتاب کی معرفت حاصل کرو۔


حدیث شریف میں حضرت کی سورج سے تشبیہ:

اس حدیث شریف کو سمجھنے کے لیئے جس میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کوسورج سے تشبیہ دی گئی ھے ضروری ھے کہ سورج کے کردار پر ایک نظر ڈالی جائے۔
ھمارا منظومہ شمسی(سولر سیسٹم) اگرچہ کائنات میں ایک ناچیز حیثیت رکھتا ھے ابھی تک کی تحقیق کے مطابق تیس ہزار سے زیادہ منظومہ کا انکشاف ھوچکا ھے جبکہ یہ جستجو اور تحقیق ھمیشہ جاری رھے گی با وجود اسکے کہ اس عظیم خلقت خداوند متعال کو دیکھ کرھمارے منظومہ شمسی کی کوئی حیثیت باقی نھیں رہ جاتی لیکن کیونکہ ھم اسی منظومہ سی زیادہ ماٴنوس ھیں لہذا اسی کو معیار گفتگو قرار دیں گے۔
سورج کے گرد متعدد سیارے مسلسل گردش میں ھیں جس میں سے تیسرا نمبر ھماری زمین کا آتا ھے ھماری یہ زمین ۵۹۵۵ بلین ٹن وزن کے ساتھ چار ہزار ملین سال سے ۱۰۶۲۰۰ کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رھی ھے اس کے باوجود کبھی بھی اپنے مدار سے خارج نھیں ھوتی ھے اس کی وجہ وہ جاذبہ اور کشش ھے کہ جو سورج میں پایا جاتا ھے۔جو زمین کو اپنی جانب کھینچتا ھے اور دوسری طرف سے زمین میں وہ قدرت ھے کہ جو مسلسل اپنے مرکز(سورج) سے دور ھونے کے اوپر صرف کررھی ھے۔انھی دونوں قوتوں اور کشش کا نتیجہ ھے کہ زمین اپنے مدار میں باقی ھے۔
اگر ایک لمحہ کے لئے بھی سورج اپنی کشش کو روک لے تو یہ زمین اپنے مدار سے خارج ھونے کے بعد دوسرے سیاروں سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ھوجائے گی اسی طرح سے اگر زمین اپنی قوت دافعہ کو ایک لمحہ کے لئے بھی ختم کرلے تو سورج سے جا ٹکرائے گی یہ سورج جو ۳،ملین اور ۳۳۰ ہزار زمین کے برابر وزن رکھتا ھے جس کی وجہ سے زمین کا نام و نشان باقی نھیں رھے گا۔
حیات اور بقاء زمین اس پر متوقف ھے کہ زمین اور سورج مسلسل اپنی قوت دافعہ اور جاذبہ کو برقرار رکھیں اگر یہ رابطہ لمحہ بھر کے لئے بھی منقطع ھوجائے تو اسی وقت زمین کا وجود عدم میں بدل جائے گا۔سورج کا کردار زمین اور منظومہ شمسی کے دوسرے سیاروں کی بقاء کے لیئے بنیادی حیثیت رکھتا ھے۔
اسی طرح کائنات میں جھان ھستی کی نسبت سے مرکزی کردار امام زمانہ(عج) کا ھے یہ جھان ھستی اپنے محور اور مرکز حضرت حجّت(عج)کے گرد گردِش میں ھے میں ھے اگر ایک لمحہ کے لئے بھی رابطہ منقطع ھوجائے تو سب کے سب فوراً ھلاک ھوجائیں گے۔حجّت خدا کا صرف موجود ھونا ھی بقاء زندگی کے لئے کافی ھے اگر یہ حجّت نہ رھے تو کائنات فنا ھوجائے گی۔


۱:کمال الدین ج۱،ص۲۵۳،بحارالانوار ج۳۶،ص۲۵۰ ،مراٴة العقول ج۴،ص۲۷۔
۲:امالی صدوق ص۱۵۷،کمال الدین ص۲۰۷، بحارالانوار ج۵۲،ص۹۲، فرائد السمطین ج۱،ص۴۶، ینابیع المودة ج۱،ص۷۶،ج۳،ص۳۶۱۔
۳:بحار الانوار ج۵۳ ص۱۸۱،کمال الد ین ج۲ ص۴۸۵،غیبت شیخ طوسی(رہ)ص۱۷۷،احتجاج طبر سی (رہ)ص۴۷۱،اعلام الوری ص۴۲۴،کشف الغمہ ج۳ص۳۲۲،النوادر فیض کاشانی ص۱۶۴،کلمہ الامام مھدی ص۲۲۵،المختارمن کلمات الامام المھدی ج۱ص۲۹۴۔
۴:تواتر اسے کہتے ھیں کہ ایک روایت اتنی تعداد میں مختلف روایوں اور واسطوں سے ایسے نقل کی جائے کہ اس کے جھوٹ ھونے کا احتمال بھی باقی نہ رھے۔
۵:مراٴة العقول،ج۴،ص۲۸۔