جوانوں کوامام علی علیہ السلام کی وصیتیں

 

اس مقالے کی سندنہج البلاغہ کا خط ۳۱ ہے۔ سیدرضی کے بقول صفین سے واپسی پر”حاضرین“ کے مقام پرحضرت نے یہ خط اپنے فرزند امام حسن بن علی علیہ السلام کے نام تحریر فرمایا۔ حضرت اس کے حکیمانہ کلام کا مخاطب امام حسن علیہ السلام کے توسط سے حقیقت کا متلاشی ہرجوان ہے۔ ہم یہاں فقط چنداہم بنیادی اصولوں کوبیان کریں گے۔

 

۱۔ تقوی اورپاک دامنی :

امام فرماتے ہیں : ”واعلم یابنی ان اجب ماانت آخذبه الی من وصیتی تقوی الله“۔
بیٹاجان لوکہ میرے نزدیک سب زیادہ محبوب چیزاس وصیت نامے میں تقوی الہی ہے جس سے تم وابستہ رہو۔مضبوط حصار(قلعہ)
جوانوں کے لئے تقوی کی اہمیت اس وقت اجاگرہوتی ہے جب زمانہ جوانی کے تمایلات،احساسات اورترغیبات کو مدنظر رکھاجائے۔ وہ جوان جوغرائز، خواہشات نفسانی، تخیلات اورتندوتیزاحساسات کے طوفان سے دوچارہوتاہے ایسے جوان کے لئے تقوی ایک نہایت مضبوط ومستحکم قلعے کی مانندہے جواسے دشمنوں کی تاخت وتاراج سے محفوظ رکھتاہے یاتقوی ایک ایسی ڈھال کی طرح ہے جوشیاطین کے زہرآلودتیروں سے جسم کومحفوظ رکھتی ہے۔
امام فرماتے ہیں :اعلمواعبادالله ان التقوی دارحصن عزیز۔[1]
ترجمہ : اے اللہ کے بندوجان لوکہ تقوی ناقابل شکست قلعہ ہے۔
شہیدمطہری فرماتے ہیں ”یہ خیال نہیں کرناچاہئے کہ تقوی نمازوروزے کی طرح دین کے مختصات میں سے ہے بلکہ یہ انسانیت کالازمہ ہے انسان اگرچاہتے ہے کہ حیوانی اورجنگل کی زندگی سے نجات حاصل کرے تو مجبورہے کہ تقوی اختیارکرے“۔[2]
جوان ہمیشہ دوراہے پرہوتاہے دومتضادقوتیں اسے کھینچتی ہیں ایک طرف تواس کا اخلاقی اورالہی وجدان ہے جواسے نیکیوں کی طرف ترغیب دلاتاہے دوسری طرف نفسانی غریزے،نفس امارہ اورشیطانی وسوسے اسے خواہشات نفسانی کی تکمیل کی دعوت دیتے ہیں عقل وشہوت،نیکی وفساد،پاکی وآلودگی اس جنگ اورکشمکش میں وہی جوان کامیاب ہوسکتاہے جوایمان اورتقوی کے اسلحہ سے لیس ہو۔
یہی تقوی تھا کہ حضرت یوسف عزم صمیم سے الہی امتحان میں سربلندہوئے اورپھرعزت وعظمت کی بلندیوں کوچھوا۔ قرآن کریم حضرت یوسف کی کامیابی کی کلیددواہم چیزوں کوقراردیتاہے ایک تقوی اوردوسراصبر۔ ارشادہے:”انه من یتق و یصبر فان الله لایضیع اجرالمحسنین“ یوسف۹۰۔
ترجمہ: وکوئی تقوی اختیارکرے اورصبر(واستقامت) سے کام لے تواللہ تعالی نیک اعمال بجالانے والوں کے لئے اجرکوضائع نہیں فرماتا۔

 

ارادہ کی تقویت :

بہت سے جوان ارادے کی کمزوری اورفیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کی شکایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں : کہ ہم نے بری عادات کوترک کرنے کابارہافیصلہ کیالیکن کامیاب نہیں ہوئے امام علی علیہ السلام کی نظرمیں تقوی اردے کی تقویت نفس پرتسلط،بری عادات اورگناہوں کے ترک کرنے کابنیادی عامل ہے آپ فرماتے ہیں ”آگاہ رہوکہ غلطیاں اور گناہ اس سرکش گھوڑے کے مانندہیں جس کی لگام ڈھیلی ہواورگناہ گاراس پرسوارہوں یہ انہیں جہنم کی گہرائیوں میں سرنگوں کرے گااورتقوی اس آرام دہ سواری کی مانند ہیں جس کی لگام ڈھیلی اور گناہ گاراس پرسوارہوں یہ انہیں جہنم کی گہرائیوں میں سرنگوں کرے گا اور تقوی اس آرام دہ سواری کی مانندہے جس کامالک اس پر سوار ہے اس کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے اوریہ سواری اس کوبہشت کی طرف لے جائے گی“۔[3]
متوجہ رہناچاہئے کہ یہ کام ہونے والاہے،ممکن ہے۔ جولوگ اس وادی میں قدم رکھتے ہیں اللہ تعالی کی عنایات اورالطاف ان کے شامل ہوجاتے ہیں جیساکہ ارشادہے: ”والذین جاهدوافینالنهدینهم سبلنا“ عنکوبت۶۹۔
ترجمہ : اوروہ لوگ جوہماری راہ میں جدوجہدکرتے ہیں ہم بالیقین وبالضرور ان کو اپنے راستوں کی طرف ہدایت کریں گے۔

 

۲۔ جوانی کی فرصت اورغنیمت :

بلاشک کامیابی کے اہم ترین عوامل میں سے ایک فرصت اورفراغت کے اوقات سے صحیح اوراصولی استفادہ ہے۔ جوانی کازمانہ اس فرصت کے اعتبارسے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔معنوی اورجسمانی قوتیں وہ عظیم گوہرنایاب ہے جواللہ تعالی نے جوان نسل کوعنایت فرمایاہے۔ یہی سبب ہے کہ دینی پیشواؤں نے ہمیشہ جوانی کو غنیمت سمجھنے کی طرف توجہ اورتاکیدکی ہے۔ اس بارے میں امام علی فرماتے ہیں:
بادرالفرصة قبل ان تکون غصة ۔[4]
ترجمہ : قبل اس کے کہ فرصت تم سے ضائع ہو اور غم و اندوہ کاباعث بنے اس کو غنیمت جانو۔
اس آیہ مبارکہ ”لاتنس نصیبک من الدنیا“قصص۷۷۔
(دنیا سے اپنا حصہ فراموش نہ کر) کی تفسیرمیں فرماتے ہیں : لاتنس صحتک وقوتک وفراغک وشبابک نشاطک ان تطلب بهاالاخرة[5]
ترجمہ : اپنی صحت، قوت، فراغت، جوانی اورنشاط کو فراموش نہ کرو اور ان سے اپنی آخرت ک لئے استفادہ کرو۔
جو لوگ اپنی جوانی سے صحیح استفادہ نہیں کرتے امام ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
انہوں نے بدن کی سلامتی کے دنوں میں کئی سرمایہ جمع نہ کیا،اپنی زندگی کی ابتدائی فرصتوں میں درس عبرت نہ لیا۔ جو جوان ہے اس کوبڑھاپے کے علاوہ کسی اور چیزکا انتظارہے[6]

 

جوانی کے بارے میں سوال

جوانی اورنشاط اللہ کی عظیم نعمت ہے جس کے بارے میں قیامت کے روز پوچھا جائے گا۔ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت ہے آپ فرماتے ہیں: قیامت کے دن کوئی شخص ایک قدم نہیں اٹھائے گامگریہ کہ اس سے چارسوال پوچھے جائیں گے :
۱۔ اس کی عمرکے بارے میں کہ کیسے صرف کی اورکہاں اسے فنا کیا؟
۲۔ جوانی کے بارے میں کہ اس کاکیاانجام کیا؟
۳۔ مال ودولت کے بارے میں کہ کہاں سے حاصل کی اورکہاں کہاں خرچ کیا؟
۴۔ اہل بیت کی محبت ودوستی کے بارے سوال ہوگا۔[7]
یہ جوآنحضرت نے عمرکے علاوہ جوانی کا بطورخاص ذکرفرمایاہے اس سے جوانی کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔ امام علی فرماتے ہیں: شیئان لایعرف فضلهما الامن فقدهماالشباب والعافیة۔[8]
انسان دوچیزوں کی قدروقیمت نہیں جانتا مگریہ کہ ان کو کھودے ایک جوانی اور دوسرے تندرستی ہے۔

 

۳۔ خودسازی :

خودسازی کابہترین زمانہ جوانی کادورہے۔ امام اپنے فرزند عزیز امام حسن سے فرماتے ہیں :
انماقلب الحدث کالارض الخالیة ماالقی فیهامن شئی قبلته فبادرتک بالادب قبل ان یقسواقلبک ویشتغل لبک۔[9]
ترجمہ : نوجوان کادل خالی زمین کے مانندہے جواس میں بویاجائے قبول کرتی ہے پس قبل اسکے کہ تو قسی القلب (سنگدل) ہوجائے اورتیری فکرکہیں مشغول ہو جائے میں نے تمہاری تعلیم وتربیت میں جلدی کی ہے۔
ناپسندیدہ عادات جوانی میں چونکہ ان کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں اس لئے ان سے نبردآزمائی آسان ہوتی ہے۔ امام خمینی فرماتے ہیں ”جہاداکبرایک ایساجہادہے جو انسان اپنے سرکش نفس کے ساتھ انجام دیتاہے۔ آپ جوانوں کو ابھی سے جہادکوشروع کرناچاہئے کہیں ایسانہ ہوکہ جوانی کے قوی تم لوگ ضائع کربیٹھو۔
جیسے جیسے یہ قوی ضائع ہوتے جائیں کے ویسے ویسے برے اخلاقیات کی جڑیں انسان میں مضبوط اورجہادمشکل تر ہوتاجاتا ہے ایک جوان اس جہادمیں بہت جلد کامیاب ہوسکتاہے جب کہ بوڑھے انسان کی اتنی جلدی کامیابی نہیں ہوتی۔
ایسانہ ہونے دیناکہ اپنی اصلاح کوجوانی کی بجائے بڑھاپے میں کرو)۔[10]
امیرالمومنین ارشادفرماتے ہیں : غالب الشهوة قبل قوت ضراوتها فانها ان قویت ملکتک واستفادتک ولم لقدرعلی مقاومتها۔[11]
ترجمہ:اس سے قبل کہ نفسانی خواہشات جرائت اورتندرستی کی خواپنالیں ان سے مقابلہ کروکیونکہ اگر تمایلات اور خواہشات اگرخودسر اورمتجاوز ہوجائیں تو تم پر حکمرانی کریں گی پھرجہاں چاہیں تمہیں لے جائیں گی یہاں تک کہ تم میں مقابلے کی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔

 

۴۔ بزرگ منشی۔

اپنے خط میں امیرالمومنین جوانوں کو ایک اور وصیت ارشادفرماتے ہیں : اکرم نفسک عن کل دنیه وان ساقتک الی الرغائب فانک لن تعتاض بماتبذل من نفسک عوضاولاتکن عبدغیرک وقدجعلک الله اجرا۔[12]
ترجمہ : ہرپستی سے اپنے آپ کو بالاتر رکھ (اپنے وقارکابھرپورخیال رکھ) اگرچہ یہ پستیاں تجھے تیرے مقصدتک پہنچادیں پس اگرتونے اس راہ میں اپنی عزت وآبرو کھودی تو اس کاعوض تجھے نہ مل پائے گا اور غیرکا غلام نہ بن کیونکہ اللہ تعالی نے تجھے آزادخلق فرمایاہے۔عزت نفس انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔
اس کابیج اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں بویاہے البتہ اس کی حفاظت، مراقبت اوررشدوتکامل کی ضرورت ہے۔ فرعون کے بارے میں قرآن کریم میں ارشادہے :

فاستخف قومه فاطاعوه انهم کانواقوما فاسقین(زخرف۵۴)۔

فرعون نے اپنی قوم کی تحقیرکی پس انہوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ یہ لوگ فاسق تھے۔
عزت نفس اوروقارکے لئے مندرجہ ذیل امورضروری ہیں:

 

الف۔ گناہ کاترک کرنا۔

مختلف موارد میں سے ایک گناہ اورپلیدی ہے جو انسان کی عزت نفس کونقصان پہنچاتے ہیں۔ پس گناہ اور آلودگی سے اجتناب شرافت نفس اور وقارکاباعث ہوتاہے۔ امام فرماتے ہیں :
من کرمت علیه نفسه لم یهنهابالمعصیة ۔[13]
جواپنے لئے کرامت و وقار کا کا قائل ہو خود کو گناہ کے ذریعے ذلیل نہیں کرتا۔

 

ب۔ نیازی

دوسروں کے اموال پر نظر رکھنااوراضطراری مواردکے علاوہ کمک مانگناعزت نفس اور وقارکو تباہ کردیتاہے۔ امام (ع) فرماتے ہیں:
المسئلة طوق المذلة تسلب العزیزعزه والحسب حسبه ۔[14]
لوگوں سے مانگنا ذلت کا ایسا طوق ہے جو عزیزوں کی عزت اورشریف النسب انسانوں کے حسب ونسب کی شرافت کوسلب کرلیتاہے۔

 

ج۔ صحیح رائے۔

عزت وشرافت نفس کابہت زیادہ تعلق انسان کی اپنے بارے میں رائے سے ہے۔ جو کوئی خود کو ناتوان ظاہرکرے تولوگ بھی اسے ذلیل و خوار سمجھتے ہیں اس لئے امام فرماتے ہیں :
الرجل حیث اختارلنفسه ان صانهاارتفعت وان ابتذلهااتضعت۔[15]
ہرانسان کی عزت اس کی اپنی روش سے وابستہ ہے جواس نے اختیارکی ہے اگراپنے آپ کوپستی وذلت سے بچاکے رکھے تو بلندیاں طے کرتاہے اور اگرخود کوذلیل کرے توپستیوں اورذلتوں کاشکارہوجاتاہے۔

 

د۔ ذلت آمیز گفتاروکردارسے پرہیز:

اگرکوئی چاہتاہے کہ اس کا وقار اورعزت نفس محفوظ رہے تواسے چاہئے کہ ہر ایسی گفتگو اور عمل میں کمزوری کاباعث بنے اس سے اجتناب کرے اسی لئے اسلام نے چاپلوسی، زمانے سے شکایت،اپنی مشکلات کولوگوں کے سامنے بیان کرنے،بے جا بلند و بانگ دعوے کرنا یہاں تک کہ بے موقع تواضع وانکساری کے اظہار سے منع فرمایا ہے امام علی فرماتے ہیں:
کثرة الثناملق یحدث الزهوویدنی من العزة۔ [16]
تعریف وتحسین میں زیادہ روی چاپلوسی ہے اس سے ایک طرف تومخاطب میں غرور و تکبر پٍیدا ہوتاہے جب کہ دوسری طرف عزت نفس سے دورہوجاتاہے۔
اسی طرح فرماتے ہیں:رضی بالذل من کشف ضره لغیره۔[17]
جوشخص اپنی زندگی کی مشکلات کودوسروں کے سامنے آشکارکرتاہے دراصل اپنی ذلت وخواری پرراضی ہوجاتاہے۔

 

۵۔ اخلاقی وجدان :

امام اپنے فرزند سے فرماتے ہیں :یابنی اجعل نفسک میزانا فیمابینک وبین غیرک۔[18]
اپنے بیٹے ! خودکواپنے اوردوسروں کے درمیان فیصلے کامعیارقراردو۔ اگرمعاشرے میں سب لوگ اخلاقی وجدان کے ساتھ ایک دوسرے سے روابط رکھیں، ایک دوسرے کے حقوق، مفادات اورحیثیت کااحترام کریں تومعاشرتی روابط میں استحکام،سکون اور امن پیدا ہوگا ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص پیغمبراسلام کی خدمت میں حاضرہوا ۔ اور عرض کیا : یارسول اللہ میں اپنے تمام فرائض کوبخوبی انجام دیتاہوں لیکن ایک گناہ ہے جوترک نہیں کرپاتا اوروہ ناجائز تعلقات ہیں یہ بات سن کر اصحاب بہت غصے میں آگئے لیکن آنحضرت نے فرمایاآپ لوگ اس کوکچھ نہ کہیں میں خوداس سے گفتگوکرتاہوں اس کے بعدارشادفرمایا: اے شخص کیاتمہاری ماں بہن یا اصلاکیاتمہاری آبرو،ناموس ہے؟
عرض کیا: جی ہاں یارسول اللہ !
آنحضرت نے فرمایاکیا تو یہ چاہتاہے کہ لوگ بھی تیری ناموس کے ساتھ ایسے ہی روابط رکھیں ؟
عرض کیاہرگزنہیں توحضرت نے فرمایا پس تو تم خودکیسے آمادہ ہوتیہو کہ اس طرح کا گناہ بجالاؤ؟
اس شخص نے سرجھکالیااورعرض کیا آج کے بعدمیں وعدہ کرتاہوں کہ یہ گناہ انجام نہ دوں گا۔[19]
امام سجادفرماتے ہیں لوگوں کایہ حق ہے کہ ان کواذیت و آزار دینے سے اجتناب کرو۔ اوران کے لئے وہی پسندکروجواپنے لئے پسندکرتے ہواوروہی جواپنے لئے نا پسند کرتے ہوان کے لئے ناپسندکرو۔ قرآن حکیم میں جونفس لوامہ کی قسم کھائی گئی ہے یہ وہی انسان وجدان ہے ارشادہے :
”لااقسم بیوم القیامة ولااقسم بالنفس اللوامة (القیامة،۱۔۲)۔
قسم ہے روزقیامت کی اورقسم ہے اس نفس کی جو انسان کوگناہ کرنے پر سخت ملامت اورسرزنش کرتاہے۔

 

6۔ تجربات حاصل کرنا۔

امام اپنے مذکورہ وصیتنامے میں امام حسن سے فرماتے ہیں:
اعرض علیه اخبارالماضین وذکره بمااصاب من کان قبلک من الاولین و سرفی دیارهم وآثارهم فانظرفیمافعلواوعماانتقلواواین حلواونزلوا
اپنے دل پرگذشتہ لوگوں کی خبریں اوراحوال پیش کروجوکچھ گذشتگان پرتم سے پہلے گزرگیاہے اس کویادکروان کے دیاروآثاراورویرانوں میں گردش کرواوردیکھوکہ انہوں نے کیا کیا۔ وہ لوگ کہاں سے منتقل ہوئے کہاں گئے اورکہاں قیام کیا۔
ایک جوان کوچاہئے کہ وہ تاریخ کی معرفت حاصل کرے اورتجربات کوجمع کرے کیونکہ :
اول : جوان کیونکہ کم عمر،اس کاذہن خام اورتجربات سے خالی ہوتاہے اس نے زمانے کے سرودگرم نہیں دیکھے ہوتے اوراسی طرح زندگی کی مشکلات کاسامنانہیں کیاہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ایک جوان کاقلبی سکون تباہ ہوجاتاہے اوروہ افسردگی یااس کے برعکس طبیعت کی تندی اورتیزی کاشکار ہوجاتاہے۔
دوم : تخیلات اورتوہمات جوانی کے زمانے کی خصوصیات ہیں جوبسااوقات جوان کوحیقیت کی شناخت سے محروم کردیتے ہیں جب کہ تجربہ انسانی توہمات کے پردوں کوپارہ پارہ کردیتاہے،امام فرماتے ہیں : التجارب علم مستفاد۔[20]

 

انسانی تجربات ایک مفیدعلم ہے ۔

سوم : باوجود اس کے کہ جوان کی علمی استعداداورقابلیت اسی طرح مختلف فنون اورمہارتیں سیکھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن زندگی کے تجربات نہ ہونے کی بناپرغیرسنجیدہ فیصلے کرتاہے اوریہ چیزاس کودوسروں کے جال میں پھانس دیتی ہے۔امام فرماتے ہیں:
من قلت تجربته خدع۔ [21]
جس کاتجربہ کم ہووہ فریب کھاتاہے۔ امام فرماتے ہیں ۔ تجربہ کارانسانوں کے ہمنشین رہوکیونکہ انہوں نے اپنی متاع گرانبھایعنی تجربات کواپنی انتہائی گران قیمت چیزیعنی زندگی کوفداکرکےحاصل کیاہے جب کہ تواس گرانقدرمتاع کوانتہائی کم قیمت سے حاصل کرتاہے۔[22]
تجربات کی جمع آوری کایک بہت بڑاذریعہ سابقہ امتوں کی تاریخ کامطالعہ ہے۔ تاریخ،ماضی اورحال کے درمیان رابطہ ہے جبکہ مستقل کے لئے چراغ راہ ہے ۔ امام علی فرماتے ہیں گذشتہ صدیوں کی تاریخ تمہارے لئے عبرتوں کے بہت بڑے بڑے درس ہیں۔[23]

 

۷۔آداب معاشرت اوردوستی۔

اس میں شک نہیں کہ دوستی کی بقااس میں ہے کہ دوستی کی حدود اور معاشرتی آداب کاخیال رکھاجائے۔ دوست بناناآسان اوردوستی نبھانامشکل ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام سے فرماتے ہیں : کمزورترین انسان وہ ہے جودوست نہ بناسکے اوراس سے بھی عاجزتروہ ہے جودوست کو کھو دے۔[24]
بعض جوان دوستانہ تعلقات میں ناپائیداری اورعدم ثبات کی شکایت کرتے ہیں اس کی سلسلے میں اگرہم امام علی علیہ السلام کی نصیحتوں پرعمل کریں تویہ مشکل حل ہوسکتی ہے۔
امام کی گفتگوکے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:

 

الف:دوستی میں اعتدال ضروری ہے:

جوانی کے زمانے میں معمولادیکھاگیاہے کہ جوان دوستی کے حدودسے تجاوز کرجاتے ہیں اوراس کی دلیل زمانہ،جوانی کے عواطف اوراحساسات ہیں بعض جوان دوستی اوررفاقت کے زمانے میں حدسے زیادہ محبت کا اظہارکرتے ہیں جب کہ جدائی کے ایام میں اس کے برعکس شدیدمخالفت اوردشمنی کامظاہرہ کرتے ہیں یہاں تک کہ بغض خطرناک کام انجام دیتے ہیں۔
حضرت فرماتے ہیں اپنے دوست سے اعتدال میں رہتے ہوئے دوستی اورمحبت کا اظہار کرو ہوسکتاہے وہ کسی دن تمہارادشمن بن جائے اوراسی طرح اس پہ بے مہری اور غصہ کرتے ہوئے بھی نرمی وعطوفت کامظاہرہ کروچونکہ ممکن ہے وہ دوبارہ تمہارا دوست بن جائے۔[25]
موردبحث خط میں امام ارشادفرماتے ہیں:اگرتم چاہتے ہوکہ اپنے بھائی سے تعلقات منقطع کرلوتوکوئی ایک راستہ اس کے لئے ضرورچھوڑدوکہ اگرکسی روزہ لوٹنا چاہے تولوٹ سکے۔
شیخ سعدی اس بارے میں کہتے ہیں اپنے ہررازکواپنے دوست کے سامنے بیان نہ کرکیامعلوم کہ ایک دن وہ تمہارادشمن بن جائے اورتمہیں نقصان پہنچائے جودشمن بھی نہیں پہنچا سکتا۔ جب کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وقت دوبارہ تم سے دوستی اختیارکرجائے۔[26]

 

ب : بالمقابل محبت کااظہار:

دوستی اوررفاقت کی بنیادایک دوسرے سے محبت کے اظہارپرہے اگردوطرف میں سے ایک طرف روابط کی برقراری کاخواہشمندہوجب کہ دوسری طرف سے بے رغبتی کااظہارہوتواس کانتیجہ سوائے ذلت کے کچھ نہیں۔
اسی لئے امیرالمومنین علیہ السلام اپنے مذکورہ خط میں امام حسن سے فرماتے ہیں :
لاترغبن فیمن زهدعنک
جوکوئی تجھ سے تعلق نہیں رکھناچاہتااس سے محبت کااظہارنہ کر۔

 

ج : دوستانہ روابط کی حفاظت کرنا۔

امام علی دوستانہ روابط کی حفاظت کی تاکیدفرماتے ہیں اوران عوامل کا ذکر فرماتے ہیں جودوستی کے استحکام کاباعث بنتے ہیں اس سلسلے میں فرماتے ہیں اگر تیرا دوست تجھ سے دوری اختیارکرے توتجھے چاہئے عطاوبخشش اختیارکر اورجب وہ دورہو توتم نزدیک ہوجاؤجب وہ سخت گیری کرے توتم نرمی سے کام لو۔ جب غلطی، خطا یا گناہ کامرتکب ہوتواس کے عذرکوقبول کرو۔
بعض لوگ چونکہ بہت کم ظرف ہوتے ہیں اوراحسان کانتیجہ دوسرے کی حقارت اور اپنی ذہانت خیال کرتے ہیں اسی لئے حضرت مزیدارشادفرماتے ہیں : ان سب موارد میں موقعیت کوپہچانواوربہت احتیاط کروکہ جوکچھ کہاگیاہے اس کوفقط اپنے موقع ومحل پرانجام دواسی طرح اس شخص کے بارے میں انجام نہ دوجو اہمیت نہیں رکھتا۔
امام اسی طرح ایک اورنصیحت ارشادفرماتے ہیں:
اپنی خیرخواہی کواپنے دوست کے ساتھ مخلصانہ بنیادپرانجام دواگرچہ یہ بات اسے پسندآئے یاناگوارگزرے۔

--------------------------------------------------
[1] نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۶۔
[2] دہ گفتارص۱۴۔
[3] نہج البلاغہ خطبہ۱۶۔
[4] نہج البلاغہ خط ۳۱۔
[5] بحارالانوارج۶۸ص۱۷۷۔
[6] نہج البلاغہ خطبہ۔۸۲۔
[7] بحارالانوراج۷۴ص۱۶۰۔
[8] غررالحکم ودررالحکم ج۴ص۱۸۳۔
[9] نہج البلاغہ خط ۳۱
[10] آئین انقلاب اسلامی ص۲۰۳۔
[11] غررالحکم ودررالحکم ج۴ص۳۹۲۔
[12] نہج البلاغہ خط ۳۱۔
[13] غررالحکم ودررالحکم ج۵ص۳۵۷۔
[14] غررالحکم ودررالحکم ج۲ص۱۴۵۔
[15] غررالحکم ودررالحکم ج۲ص۷۷۔
[16] غررالحکم ودررالحکم ج۴ص۵۹۵۔
[17] غررالحکم ودررالحکم ج۴ص۹۳۔
[18] نہج البلاغہ خط ۳۱۔
[19] اخلاق وتعلیم وتربیت اسلامی مؤلف زین العابدین قربانی ص۲۷۴۔
[20] غررالحکم ودررالحکم ج۱ص۲۶۰۔
[21] دررالکلم ج۵ص۱۸۵۔
[22] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج۲۰ص۳۳۵۔
[23] نہج البلاغہ خطبہ۱۸۱۔
[24] بحارالانوارج۷۴ص۲۷۸۔
[25] نہج البلاغہ کلمات قصار۲۶۰۔
[26] گلستان سعدی باب ۸۔