اولیائے الٰہی کیلئے عزاداری کا فلسفہ کیا ہے؟

اولیائے الٰہی کے سوگ اور غم میں کیوں ماتم اور عزاداری کرتے ہیں؟

کیا انھیں ہمارے ماتم کی ضرورت ہے؟ ہم کیوں ماضی کو یاد کرکے ان کی یاد مناتے ہیں؟ وھابی لوگ اس فعل کو بدعت جانتےہیں اور شیعوں کو عزاداری برپا کرنے کی وجہ سے سرزنش اور ملامت کرتے ہیں۔ اب ہم ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے عزاداری کی دلیلوں کو بیان کریں گے۔

 

1۔ عزاداری حب و بغض کا مظہر

حب اور بغض ایسے دو متناقض امر ہیں جو انسان پہ عارض ہوتے ہیں اور انھیں نفس کے تمایل و عدم تمایل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جن کی محبت واجب ہے عقلی اور نقلی دلیلوں سے پتہ چلتا ہے کہ بعض افراد کی انسانوں پر محبت واجب ہے، ملاحظہ کریں:

 

1۔ خداوند متعال

خدا وند متعال کی ذات با برکت ان افراد میں سرفہرست ہے جس کی محبت اس کے جامع کمال و جمال ہونے کی وجہ سے اور تمام موجودات کےاسی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے، بنیادی طور پہ واجب ہے۔
خدا وند متعال فرماتا ہے:"قل ان کان اٰباؤکم و ابناؤکم و اخوانکم و ازواجکم و عشیرتکم و اموال اقترفتموها و تجارة تخشون کسادها و مساکن ترضونها احب الیکم من الله و رسوله و جهاد فی سبیله فتربصوا حتی یأتی الله بامر ه والله لا یهدی القوم الفاسقین" (توبہ:۲۴) اے رسول! امت سے کہو کہ اے لوگو اگر تم اپنے آباءو اجداد فرزندوں، بھائیوں، عورتوں، رشتہداروں اور وہ مال جو تم نے جمع کیا ہے اور وہ مال تجارت کہ جس کی کساد بارازی سے ڈرتے ہو اور وہ گھر کہ جن سے تم کو دلی خوشی ہے، کو "خدا اور رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ دوست رکھتے ہو پس منتظر رہو تا کہ خدا کا امر جاری ہوجائے اور خدا فاسقوں اور بدکاروں کی ہدایت نہیں کرتاہے۔

 

2۔ رسول خدا (ص)

وہ افراد کہ جن سے خدا کیلئے محبت کی جائے، رسول اسلام (ص) کی شخصیت ہے کیونکہ وہ تشریع و تکوین کے واسطہ فیض اور شفیع ہیں۔ اسی وجہ سے مذکورہ آیت میں خدا کے نام کے ساتھ ان کا اسم گرامی بھی ذکر کیا گیا ہے اور ان سے محبت کا حکم ہوا ہے۔
پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں:"والله لما یغذوکم و احبونی بحبّ الله" 1 خدا کو دوست رکھو کیونکہ وہ تمھیں رزق دیتا ہے اور مجھے خدا کیلئے دوست رکھو۔ دوسری طرف سے آنحضرت (ص) کے ذاتی فضائل اور کمالات ایسے عوامل ہیں جو انسان کو ان سے محبت کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور ان کی طرف راغب کرتے ہیں۔

 

3۔ اہل بیت علیہم السلام

اہل بیت (ع) کی محبت بھی واجب ہے کیونکہ وہ بھی فضائل و کمالات کا مظہر ہونے کے علاوہ تکوین و تشریع کے درمیان واسطۂ فیض ہیں۔ اسی لئے پیغمبر (ص) نے ان سے محبت کا حکم دیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں: "واحبّوا اهل بیتی لحبّی" اور میرے اہل بیت سے میرے لئے محبت کرو۔

 

2۔ حب آل رسول کے لازم ہونے کی وجوہات

آل رسول (ع) کی محبت خدا و رسول خدا (ص) کی مانند چند دلیلوں کی بناء پر واجب ہے۔
1۔ اہل بیت (ع) ،صا"حب رسالت سے منسوب ہیں جیسا کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: قیامت کے دن میرے علاوہ ہر حسب ونسب قطع ہوجائے گا۔
2۔ اہل بیت خدا و رسول کے محبوب ہیں جیسا کہ حدیث"رأیہ"اور حدیث "طیر" میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
3۔ اہلبیت (ع) سے محبت اجر سالت ہے بقول خداوند متعال"قل لا اسئلکم علیه اجراً الا المودة فی القربیٰ" (شوریٰ:۲۳)
4۔ قیامت کے دن آل رسول (ص) کی محبت کے بارے میں پوچھا جائے گا جیسا کہ خدا فرماتا ہے "وقفوھم انھم مسئولون" (صافات: ۲۴) سبط ابن جوزی مجاہد سے نقل کرتے ہیں: قیامت کے دن علی (ع) سے محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ 2
5۔ اہل بیت (ع) کتاب خدا کے ہم پلہ ہیں جیسا کہ رسول خدا (ص) نے حدیث ثقلین میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ "انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی"
6۔ اہلبیت (ع) سے محبت ایمان کی شرط ہے جیسا کہ فریقین سے صحیح السند احادیث وارد ہوئی ہیں کہ رسول (ص) نے علی (ع) کو مخاطب کرکے فرمایا: اے علی!آپ کو صرف مومن دوست رکھتا ہے اور صرف منافق دشمن رکھتا ہے۔
7۔ اہل بیت (ع) امت کےلئے کشتیٔ نجات ہیں جیسا کہ صحیح السند احادیث میں فریقین نے ذکر کیا ہے کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: "مثل اهل بیتی فیکم مثل سفینة نوح من رکبها نجی ومن تخلف عنها غرق"
8۔ اہلبیت (ع) کی محبت اعمال و عبادت کے قبول ہونے کی شرط ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی (ع) سے فرماتے ہیں: اگرمیری امت کے لوگ اتنے روزے رکھیں کہ ان کی کمر جھک جائے سینہ اندر چلا جائے اور اتنی نمازیں پڑھیں کہ ٹہنی کی طرح بن جائیں، لیکن اگر تم سے دشمنی کریں تو خدا وند عالم انھیں منہ کے بل آتش جہنم میں ڈالے گا۔ 3
9۔ اہل بیت (ع) اہل زمین کیلئے امان ہیں: رسول اسلام (ص) فرماتے ہیں: ۔۔۔اور میرے اہلبیت (ع) زمین والوں کیلئے امان ہیں۔
قابل ذکر یہ ہے کہ محبت ایسی قدرت اور طاقت ہے جو انسان کو متحرک کر کے فعال بنا دیتی ہے تا کہ وہ اپنے محبوب اور مقتداء کی طرف حرکت کرے۔ فوق الذکر مطالب سے مجموعاً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مجالس عزاداری بپا کرنا، محبوب سے محبت کرنے کا ایک ذریعہ، راستہ، مظہر اور جلوہ گاہ ہے کیونکہ ایک طرف سے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ محبت کے سلسلے میں مختلف درجوں پر فائز ہیں اور دوسری طرف سے محبت کا اثر، صرف تحریک نفس ہی نہیں ہے بلکہ اس کا اثر عیاں کرتی ہے۔ اسی طرح اس کا خارجی اثر، صرف محبوب کی اطاعت ہی نہیں ہے اگر چہ اطاعت، محبت کے فہم اور اصلی آثار میں سے شمار کی جاتی ہے بلکہ اس کے آثار اور بھی ہیں اور ان دلیلوں کا اطلاق لزوماً ان سب آثار پر شامل ہوتا مگر یہ کہ دوسری دلیلوں میں تعارض پیدا کرے جیسے محبوب کی محبت میں کسی کو قتل کرنا یا شریعت کے خلاف کوئی کام انجام دینا وغیرہ۔

 

انسان کی زندگی میں محبت کے جلوے

1۔ اطاعت اور پیروی۔
2۔ محبوب کی زیارت۔
3۔ محبوب کی تعظیم ۔
4۔ محبوب کی حاجت روائی ۔
5۔ مختلف طریقوں سے محوب کا دفاع ۔
6۔ محبوب کے فراق میں غم و ماتم جیسے یوسف (ع) کے فراق اور جدائی میں یعقوب (ع) کا حزن۔
7۔ محبوب کے آثار کی حفاظت ۔
8۔ محبوب کی نسل اور اولاد کا احترام ۔
9۔ محبوب سے مربوط چیزوں کا بوسہ لینا ۔
10۔ محبوب کی ولادت کے موقع پہ جشن منانا اور قصیدہ خوانی غیرہ
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عزاداری، اہلبیت (ع) کی محبت کا لازمہ ہے۔


فرہنگ عاشورا کو زندہ رکھنا اور اولیاء الٰہی کو یاد کرنا عقل کے مطابق ہے

اس بحث کے آغازمیں بتایا گیا کہ عزاداری حب وبغض کا ایک جلوہ اور مظہر ہے۔ اگر عقل سلیم کی طرف رجوع کریں تو اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء خدا خاص کر سرور شہیدان امام حسین (ع) کی عزاداری عقل کے مطابق ہےکیونکہ ان کی تعظیم در حقیقت ان کی شخصیت اور اہداف کی تعظیم وتکریم ہے اور اگر ایک امت اپنے بزرگوں کی تعظیم نہ کرے اور انھیں یاد نہ کرے تو اس کا انجام فقط فنا ونابودی ہے اور یہ رہبر وبزرگ ہیں جو امتوں کی تاریخ میں اصلی کردار ادا کرتے ہیں اور یہی شخصیتیں تاریخ ساز بھی ہوتی ہیں۔

 

حسینی مشن کے بعض اہداف

امام حسین (ع) فرماتے ہیں:
" انی لا اری الموت الا سعادة، والحیاة مع الظالمین الا برما " 4 میں ان حالات میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو رنج وغم کے علاوہ کچھ بھی نہیں جانتا۔
" لیس الموت فی سبیل العز الا حیاة خالدة و لیست الحیاة مع الذل الاموت الذی لا حیاة معه": عزت کی موت (عزت کی راہ میں موت) جاودانی حیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور ذلت کی زندگی موت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
"ألا و ان الدعی وابن الدعی قد رکز بین اثنتین ، بین السلة والذلة و هیهات منا الذلة": جان لو کہ زنا زادہ فرزند زنا زادہ (ابن زیاد) نے مجھے دو چیزوں میں مخیر کررکھا ہے، یا ننگی تلوار کے ساتھ کیلئے تیار ہوجاؤں یا ذلت کی زندگی اختیار کروں (اور یزید کی بیعت کروں) لیکن ذلت ہم سے دور ہے۔
"انا لله و انا الیه راجعون وعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید" 5 ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں، جب امت یزید جیسے کی رہبری میں گرفتار ہوجائے تو اسلام کو سلام کہہ دینا چاہیے۔
"انی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی ارید ان آمر بالمعروف وانهی عن المنکر واسیر بسیرة جدی و ابی علی ابن ابی طالب" 6 میں نے طغیان، اختلاف، فساد اور ظلم کیلئے قیام نہیں کیا ہے بلکہ میں نے اپنے نانا کی امت کی اصلاح کیلئے خروج (قیام) کیا ہے، میں چاہتا ہوں امر بمعروف اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے جد اور والد حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی سیرت پہ عمل کروں۔

 

3۔ امت کا اولیاء خدا کے ساتھ عاطفی رابطہ

لو گوں کے عقیدتی، سیاسی اور اجتماعی مسائل کی توجیہ کا ایک مہم اور اصلی طریقہ، انسان کے احساس کو بیدار کرنے کا طریقہ ہے یعنی اس راستے سے ہم ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ اس لحاظ سے انسان عقل اور دوسرے پہلوؤں کی نسبت زیادہ تاثیر پذیر ہے، دوسری عبارت میں یہ طریقہ زیادہ مؤثر ہے۔ پس اولیاء خدا خاص کر سرور شہیدان امام حسین (ع) کی شہادت کے ذریعہ لوگوں کو متوجہ کرکے ان کے احساسات اور عواطف کو بیدار کیا جاتا ہے اور اس طرح سے ان بزرگوں کو اسوہ قرار دے کر ان کے دستورات اور اوامر اور اہداف (جوکہ خدا کے اوامر ہیں) کو لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے امام سجاد (ع) واقعہ عاشورا کے بعد 20 سال تک شہداء کربلا خاص کر امام حسین (ع) کیلئے گریہ وزاری کرتے رہے۔
یہ بحث، پیغمبر اسلام (ص) کی امام حسین (ع) کیلئے مدح اور تمجید کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ واضح ہوتی ہے۔
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: "حسین منی و انا من حسین،احب الله من احب حسیناً" 7 حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، خداوند اسے دوست رکھے جو حسین کو دوست رکھتا ہے۔
نیز پیغمبر (ص) نے فرمایا: "الحسن والحسین سیدا شباب اهل الجنة" 8 حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔

 

عزاداری پرروائی دلیلیں

روایات معصومین (ع) اور صحابہ کی سیرت کو مدنظر رکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ بزرگوار ہیں جنھوں نے سب سے پہلے مجالس عزا کے اس مہم موضوع پر توجہ کرتے ہوئے اسے بپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
حاکم نیشابوری اپنی صحیح سند میں ام الفضل سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں رسول خدا (ص) پہ وارد ہوئی اور عرض کیا: اے رسول خدا! آج رات میں نے ایک بہت ہی برا خواب دیکھاہے، حضرت نے فرمایا: کیا خواب دیکھا؟ میں نے عرض کیا: بہت ہی برا، فرمایا: کیا دیکھا؟ میں نے عرض کیا: میں نے عالم رؤیا میں دیکھا گویا کہ آپ کے بدن کا ایک حصہ جدا ہوا اور میری آغوش میں آگیا، پیغمبر نے فرمایا: بہت ہی اچھا خواب دیکھا ہے حضرت فاطمہ (ع) کو اگر خدا نے چاہابہت ہی جلد ایک بیٹا ہوگا جو تمھاری آغوش میں ہوگا۔ ام الفضل کہتی ہیں: فاطمہ زہرا (ع) کے ہاں امام حسین (ع) پیدا ہوئے اور وہ میری آغوش میں قرار پائے۔ جیسا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا تھا یہاں تک کہ میں رسول خدا (ص) کے پاس حاضر ہوئی اور انھیں ان کی گود میں رکھا۔ میں رسول خدا (ص) کی طرف متوجہ ہوئی، ناگاہ کیا دیکھا کہ آنحضرت (ص) کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں۔ میں نے عرض کیا: اے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائیں، کیا ہوا ہے کہ آپ کو روتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ حضرت نے فرمایا: جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور مجھے خبر دی کہ بہت جلد میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی۔ میں نے عرض کیا: اس فرزند کو؟ فرمایا: ہاں اور اس وقت مجھے اس تربت خونین سے تھوڑی سی خاک دی۔ 9
حافظ طبرانی اپنی صحیح سند میں شیبان سے نقل کرتے ہیں: میں علی (ع) کے ساتھ تھا جب حضرت سرزمین کربلا پر وارد ہوئے، اس وقت فرمایا: اس جگہ پر کچھ شہید ہوں گے کہ ان جیسا شہداء بدر کے علاوہ کوئی نہیں ہوگا۔ 10
ترمذی صحیح السند حدیث میں سلمی سے نقل کرتا ہے: میں ام سلمی کے پاس حاظر ہوا جبکہ وہ رو رہی تھیں۔ میں نے ان سے عرض کیا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ فرمایا: میں نے عالم رؤیا میں رسول خدا (ص) کو دیکھاجبکہ ان کا سر اور چہرہ خاک آلود تھا، میں نے عرض کیا اے رسول خدا! کیا ہوا؟ یہ کیاحالت ہے؟ آپ نے فرمایا: میں ابھی حسین (ع) کی شہادت (قتل ہونے) کو دیکھ رہاتھا۔ 11

 

اولیاء خدا کی عزاداری میں حاضر ہون

اولیاء خدا خاص کر امام حسین (ع) کی عزاداری بپا کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ثواب بھی ہے اور بزرگان دین اس عمل کو انجام دیتے آئے ہیں۔ بخاری اپنی سند میں عائشہ سے نقل کرتا ہے: جب زید بن حارثہ جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی شہادت کی خبر پیغمبر (ص) تک پہنچی آپ کے چہرے پر حزن اور غم کے آثار نمایاں تھے، آپ مسجد میں داخل ہوئے اور وہیں بیٹھ گئے۔ 12
ابن ہشام اپنی کتاب سیرہ میں لکھتا ہے: جب پیغمبر (ص) مدینہ میں داخل ہوئے تو شہداء پر نوحہ اور ماتم کی آواز سننے لگے۔ اس وقت آنحضرت (ص) کی آنکھوں میں آنسو بھر آئےاور آپ نے روتے ہوئے فرمایا: حمزہ (ع) پہ رونے والا کوئی نہیں ہے۔ پیغمبر (ص) کا یہ کلام سن کر بنی اشہل کی عورتیں آئیں اور پیغمبر (ص) کے چچا پہ روئیں 13

 

مجالس عزاداری کے اہداف و مقاصد

اگر شیعوں کے درمیان اس طرح کی سنت رائج ہے تو اس کے مخلتف اہداف ہیں جو مختصراً عرض ہیں:
1۔ اسلام کے بزرگوں اور پیشواؤں کا مقام پہچنوانا کہ جن کی تمام زندگی اسلامی معاشرے کیلئے نمونہ عمل اور سرمشق ہے۔
2۔ اہل بیت (ع) سے عشق اور محبت میں اضافہ اور زیادتی
3۔ طلب کمال اور فضیلت
4۔ دین کی طرف دعوت اور حقائق سے آگاہی اور لوگوں کو اصلاح کی طرف بلانا اور فساد و انحراف سے روکن
5۔ لوگوں کو امام حسین (ع) کے قیام سے آگاہ کرن
6۔ مجالس عزا کے ضمن میں بھوکوں اور ناداروں کو کھانا کھلانا (جو کہ قرآن و اسلام کے مؤکد دستورات میں سے ہے)
7۔ اہلبیت (ع) کے مصائب کو یاد کرنا جس سے اپنی سختیاں اور مصائب آسان ہوجاتی ہیں۔
8۔ رسول خدا (ص) ،حضرت فاطمہ زہرا (س) اور تمام ائمہ علیہم السلام سے ہمدردی کا اظہار
9۔ واقعہ عاشورا فراموش نہ ہونے دینا، کیونکہ اگر یہ عزاداری نہ ہوتی تو آنے والی نسلیں حقیقت سے بے خبر رہتیں
10۔ ظالموں خاص کر بنی امیہ اور بنی عباس کے ظلم و ستم کو افشا کرن
11۔ انسانی اور خدائی فضائل میں رشد اور شہادت کیلئے روح کی پرورش کرن
12۔ اسلام کو زندہ رکھنا کیونکہ اس عزاداری سے اسلام بھی زندہ رہاہے
امام خمینی (رح) عزاداری کے بارے میں فرماتے ہیں: "۔۔۔ وہ بالکل نہیں جانتے کہ سید الشہداء کا مکتب کیا تھا اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان منبروں، گریہ و زاری اور ماتم نے ۱۴۰۰ سال سے ہمیں اور ہمارے مکتب کو بچائے رکھا ہے اور اب تک اسلام کوبچایا ہے" 14
لہٰذا امام حسین (ع) کی عزاداری ایک انقلاب، قیام، موج اور اجتماعی مبارزہ وجہاد ہے۔ یہ عزاداری ہی ہے کہ جس کی وجہ سے عواطف اور احساسات میں شعور اور شناخت پیدا ہوجاتی ہے اور یہی عزاداری معاشرے کے ذہن میں ایمان کو اجاگر کرتی ہے اور مکتب عاشورا کو ایک فکر ساز عنوان کے طور پہ پیش کرتی ہے اور الہام بخش حادثہ کی صورت میں پہچنواتے ہوئے اپنی تاثیر کی حفاظت کرتی ہے۔ عزاداری کا مقصدخط خون و شہادت کو زندہ کرنا اور آل علی (ع) کی مظلومیت کی آواز کو تاریخ کے تمام لوگوں تک پہنچاناہے۔ اسی عزاداری کے سائے تلے امام حسین (ع) پر گریہ و زاری کے علاوہ امام حسین (ع) کے قیام اور نہضت کا ہدف بھی معلوم ہوجاتا ہے۔

1. مستدرک "حاکم، ج۳، ص۱۹۴
2. تذکرۃ الخواص، ص۱۰
3. تاریخ مدینۃ دمشق، ج۲، ص۱۴۳
4. تاریخ دمشق، ج۱۴، ص۲۱۸
5. مقتل خوارزمی، ج۱، ص۱۸۴
6. بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۲۸
7. سنن ابن ماجہ، ج۱، فضائل اصحاب رسول
8. صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۱۷؛ مسند احمد، ج۳، ص۳۶۹
9. المستدرک، ج۳، ص۱۷۶؛ کنز العمال،ج۶، ص۲۲۳
10. مقتل خوارزمی، ص۱۶۲
11. مستدرک، ج۴، ص۱۹
12. ارشاد الساری، ج۲، ص۳۹۳
13. السیرۃ النبویۃ، ج۳، ص۱۰۵
14. قیام عاشورا در کلام امام، ص۱۶