عزاداری کی ماہیت


محرم سے مربوط مسائل میں دو نوعیت کی باتیں ہیں، پہلی، عاشورائ کی تحریک کے بارے میں گفتگو ہے، اگرچہ بزرگوں نے امام حسین ٴ کے قیام کے فلسلفے کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے، لکھا بھی ہے اور اس مفہوم پر بہت قیمتی گفتگو بھی فرمائی ہے لیکن اس تابناک و درخشاں حقیقت کے بیان کے لئے ایک عمر درکار ہے۔
عاشورائ کے مسئلے اور قیامِ حسینی پر جتنا ہی زیادہ غورو فکر کریں ،اس کے باوجود یہ مسئلہ مختلف پہلوو ں میں غور و فکر ، سوچ بچار اور گفتگو کی کشش اور گنجائش رکھتا ہے۔ جتنا بھی اس عظیم قیام کے بارے میں سوچیں، ممکن ہے(ہر مرتبہ) تازہ حقائق سے دوچار ہوں۔ یہ وہ پہلا مفہوم ہے جس کے بارے میں اگرچہ پورے سال گفتگو کی جاتی ہے اور کی بھی جانی چاہئیے لیکن محرم کو ایک خصوصیت حاصل ہے اور ايّام محرم میں اس مفہوم پر زیادہ سے زیادہ گفتگو کی جانی چاہئیے۔ جس طرح کرتے ہیں اور ان شائ اللہ آئندہ بھی کریں گے۔
محرم کی مناسبت سے گفتگو کے لئے دوسرا مفہوم، جس کے بارے میں کم ہی گفتگو ہوتی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آج رات اس کے بارے میں کچھ گفتگو کریں وہ حسین ابن علی ٴ کی عزاداری اور عاشورائ کا ذکر زندہ رکھنے کی برکات ہیں۔
مسلمہ طور پر دوسرے مسلمان بردران سے، شیعوں کے نمایاں امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے یہاں واقعہ عاشورا موجود ہے۔
وہ دن کہ جب سے حسین ابن علی ٴ کی مصیبت کے ذکر کا آغاز ہوا، اہل بیت ٴ پر اعتقاد رکھنے والوں اور ان کے محبین کے قلب و ذہن میں فیض و معنویات کا ایک چشمہ جاری ہوا، جو آج تک اسی طرح مسلسل رواں دواں ہے اور ان شائ اللہ آئندہ بھی جاری و ساری رہے گا، اس کا سبب بھی واقعہ کربلا کی یاد مناتے رہنا ہے۔
عاشورائ کی یاد محض ایک واقعہ کا تذکرہ نہیں بلکہ ایک ایسے حادثے کا بیان ہے جس کے بے شمار پہلو ہیں۔ اس واقعے کی یاد درحقیقت خود ایک ایسا مفہوم ہے جو کثیر برکات پر منتہی ہوسکتا ہے۔ لہذا آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ آئمہ ٴ کے زمانے میں امام حسین ٴ پررونے اور رلانے کا مسئلہ ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ایسا نہ ہو، کسی ذہن میں خیال آئے کہ فکر و منطق اور استدلال کی موجودگی میں رونے اور قدیم ابحاث کی کیا گنجائش ہے؟
نہیں جناب ! یہ غلط فہمی ہے ان میں سے ہرچیز کا اپنا ایک مقام ہے، ان میں سے ہر ایک کا انسانی شخصیت کی تعمیر میں ایک حصہ ہے، جذبات و احساسات کا اپنا مقام ہے اور صرف منطق و استدلال کافی نہیں۔ آپ اگر جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ انبیائ کی تحریکوں میں، اُس وقت جب کہ انبیائ ٴ مبعوث ہوتے تھے تو پہلے مرحلے پر ان کے گرد جمع ہونے والے لوگوں کے اکھٹا ہونے کا اصل محرک منطق و استدلال نہ تھا۔
آپ کو پیغمبر اسلام ۰ کی تاریخ میں، جو ایک مدون اور واضح تاریخ ہے، نہیں ملے گا کہ مثلاً آنحضرت نے کفار قریش کے ایک با اہلیت اور صاحب استعداد گروہ کو بٹھایا ہو اور ان پر استدلال کیا ہو اور مثلاً کہا ہو کہ اس دلیل سے خدا کا وجود ثابت ہے یا اس دلیل سے خدا واحد ہے ،یا اس عقلی دلیل سے، بت باطل ہیں۔ پیغمبر اسلام ۰ کے استدلال بعد کے دور سے مربوط ہیں۔ عقلی دلائل اُس زمانے سے مربوط ہیں جب آپ ۰ کی تحریک آگے بڑھی ، ابتدائ میں آپ ۰ کی تحریک جذبات و احساسات پر مبنی تھی۔
پہلے مرحلے میں پیغمبر ۰ نے نا گہاں آواز بلند کی کہ ان بتوں کی جانب نظر اٹھاو ، دیکھو کہ یہ ناتواں ہیں، اسی مرحلے میں آپ ۰ نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو خدا واحد ہے۔ ’’ قولوا لااله الا الله تفلحوا ‘‘ کس دلیل سے ’’ لااله الا الله ‘‘ موجب فلاح ہے ؟ یہاں کون سا عقلی اور فلسفی استدلال پایا جاتا ہے؟ لیکن ہماری بحث اس بات میں ہے کہ جب نبی اپنی دعوت شروع کرنا چاہتا ہے تو فلسفی استدلال پیش نہیں کرتا، سچے احساس و جذبات کو سامنے لاتا ہے۔
البتہ وہ سچا احساس غیر منطقی اور غلط نہیں ہوتا، اپنے اندر خود ایک استدلال رکھتا ہے۔ ابتدائ میں یہ احساس معاشرہ میں جاری ظلم و ستم ، طبقاتی اختلافات نیز اس دباو کی جانب متوجہ کرتا ہے جو جنسِ بشر و شیاطینِ انس میں سے خدا بن بیٹھنے والے لوگ لوگوں پر روا رکھتے ہیں۔ پھر جب تحریک معقول اور معمول کی روش پر چل پڑتی ہے تو منطقی کی باری آتی ہے ۔ ایسے لوگ جو عقلی طور پر پختہ اور فکری نمو کے حامل ہوتے ہیں عام استدلال سے واقف ہوجاتے ہیں، بعض انہی ابتدائی درجات میں رہ جاتے ہیں، البتہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ لوگ جو استدلال کے اعتبار سے بلند درجے پر ہوتے ہیں وہ معنوی درجات کے لحاظ سے بھی لازماً بالاتر درجات پر ہوں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ لوگ جن کی عقلی سطح نیچے ہوتی ہے مبدائ غیبی اور پیغمبر ۰ کے ساتھ ان کا جوش وجذبات اور ارتباط و علاقہ زیادہ اور ان کی محبت زیادہ پرجوش ہوتی ہے اور یہی لوگ بالاترین درجات حاصل کرلیتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ جذبات کا اپنا مقام اور اہمیت ہے، نہ ہی جذبات ،استدلال کی جگہ لے سکتے ہیںاور نہ استدلال جذبات کی،عاشورا ئ کا حادثہ اپنی ذات و طبیعت میں خود ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سچے جذبات کا ایک سمندر ہے۔بلند مرتبہ ، پاکیزہ ، منور اور بے عیب ملکوتی شخصیت رکھنے والا ایک انسان، ایک اعلی ہدف کے لئے قیام کرتا ہے، ظلم و جور اور جنگ و عدوان سے معاشرے کی نجات کے لئے، جس کی صحت پر تمام منصفینِ عالم متفق ہیں۔
ایها الناس ! ان رسول الله قال : من رآی سلطانا جائرا ‘‘
’’ اے لوگو ! رسول اللہ ۰ نے فرمایا : جو کوئی کسی ظالم بادشاہ کو دیکھے ۔‘‘
گفتگو یہ ہے کہ امام حسین ٴ اپنی تحریک کا فلسفہ و مقصد ظلم سے مقابلہ قرار دیتے ہیں۔
’ یعمل فی عباد الله بالجور والطغیان ‘‘ یا ’’ بالاثم والعدوان ‘ ‘ لوگوں پر ظلم و ستم کرتا ہے۔‘‘

بحث اس موضوع پر ہے۔
ایک ایسا انسان، مقدس ترین راہ میں ، جس کو تمام انصاف پسند قبول کرتے ہیں ،دشوار ترین جنگ کو برداشت کرتا ہے، دشوار ترین جنگ، عالم تنہائی میں لڑی جانے والی جنگ ہے۔،دوستوں کے نعروں اور عام لوگوں کی تحسین و آفرین کی صداو ں کے درمیان موت کا سامنا کرنا چنداں مشکل نہیںلیکن جب حق و باطل کی صف آرائی ہو اور پیغمبر ۰ اور امیر المومنین ٴ (علی ٴ) کی مانند کوئی حق کے محاذ کے راس و رئیس کے طور پر کھڑا ہو اور کہے کہ ’’ کون ہے جو میدان میں جائے؟ تو سب ہی لپکتے ہیں، پیغمبر ۰ میدان میں جانے والوں کے لئے دعا کرتے ہیں،ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں، چند قدم ان کے ساتھ چلتے ہیں، مسلمان ان کے لئے دعا مانگتے ہیں۔ اس کے بعد وہ میدان کی طرف جاتے ہیں، جہاد کرتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں۔
یہ قتل ہونے اور جہاد کرنے کی ایک قسم ہے ،جہاد کی ایک اور قسم وہ جہاد ہے جب انسان میدان نبرد کی جانب قدم بڑھاتا ہے تو پورا معاشرہ یا تو اس سے منکر ہے یا غافل ، یا تو اس سے لا تعلق ہے یا اس کا مخالف، دل سے اسے قابل تحسین سمجھنے والے کم لوگ ہوں اور وہ بھی اس کی زبانی تحسین کی جرآت نہ رکھتے ہوں۔ یعنی عاشورائ کے حادثے میں عبداللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن جعفر جیسے لوگ کہ جو خود خاندان بنی ہاشم کا حصہ تھے، اس شجرہ طیبہ کا جز تھے، جرآت نہیں کرتے کہ آئیں اور آکے مکہ یا مدینہ میں صدا بلند کریں اور امام حسین ٴ کے نام کا نعرہ لگائیں۔
یہ ہے غریبانہ جنگ، جنگوں میں دشوار ترین یہ جنگ ہے۔ سب اس انسان کے دشمن ہیں، سب اس سے روگرداں حتی اس کے دوست بھی اس سے چشم پوشی کئے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ جب امام حسینٴ ایک شخص سے مدد کی درخواست کرتے ہیں تو وہ خود مدد کرنے کے بجائے اپنے گھوڑے کی پیش کش کرتا ہے کہ آئیے میرے اس گھوڑے سے استفادہ کیجئے۔
آیا اس سے زیادہ کوئی غربت ہوسکتی ہے اور اس سے زیادہ کوئی غریبانہ جنگ ہوسکتی ہے؟
اس جنگ کے دوران ان کی نگاہوں کے سامنے ان کے عزیز ترین فرزند قربان ہوئے ہیں، ان کے بچے ، بھتیجے ، بھائی ، چچا زاد بھائی اور بنی ہاشم کے پھول ان کے سامنے زمین پر بکھر رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ ان کا چھ مہینے کا بچہ بھی ذبح ہوجاتا ہے، ان سب کے علاوہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جوں ہی ان کی روح جسم مطہر سے جدا ہوگی ان کے بے آسرا ہوجانے والے اہل و عیال پر یورش ہوگی۔ یہ بھوکے بھیڑئیے جوان بیٹیوں کو گھیر لیں گے، ان کو خوفزدہ کریں گے، ان کے اموال کو غارت کریں گے، انہیں اسیر بنائیں گے، ان کی اہانت کریں گے۔
امیر المومنین ٴکی عظیم بیٹی زینب کبری جو دنیائے اسلام کی ممتاز خواتین میں سے ہیں، ان کے سامنے جسارت کریں گے۔ ابا عبداللہ الحسین ٴ یہ سب کچھ جانتے تھے۔ ملاحظہ کیا۔ یہ جنگ ، یہ مقابلہ کس قدر سخت ہے۔
اس قدر عظیم المرتبت انسان، پاک ، مطہر اور منور ہستی ،وہ انسان جس کے دیدار کے لئے آسمانی فرشتے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ حسین ابن علی ٴ کا دیدار کریں اور متبرک ہوجائیں، انبیائ و اولیائ جن کے مقام کے حصول کی آرزو کرتے ہیں وہ ایسے شدید اور ابتلائ و آزمائشوں سے پر، مقابلے کے بعد جام شہادت نوش کرتاہے۔
کون ایسا انسان ہے جس کے جذبات و احساسات اس حادثے پر مجروح نہ ہوں، اور کون انسان ہے جو اس حادثے کے بارے میں جانتا ہو، اِسے سمجھتا ہو اور پھر اس سے دلبستہ نہ ہو؟ یہ وہ پرجوش چشمہ ہے جو روز عاشور جاری ہوا، اُسی وقت جب( ایک نقل کے مطابق) زینب کبری ’’ تل زینبیہ ‘‘ پر تشریف لے گئیں اور پیغمبر اکرم ۰ کو خطاب کرکے فرمایا،
’’ یا رسول الله صلی علیک ملائکة السمائ هذا حسینک مرمل بالدمائ مقطع الاعضائ مسلوب العمامة والردائ‘‘
’’ یا رسول اللہ آپ پر آسمان کے فرشتے درود بھیجتے ہیں، اور یہ آپ ۰ کا حسینٴ ہے جو خون میں ڈوبا ہوا ہے، جس کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہے اور جس کا عمامہ اور ردا چھن چکی ہے۔‘‘
زینب نے باآوازِ بلند امام حسین ٴ کا نوحہ پڑھنا اور ماجرے کو بیان کرنا شروع کیا ،وہ ماجرا جسے (ان کے دشمن)چھپانا چاہتے تھے ،وہ انہوں نے با آواز بلند نشر کردیا، کربلا میں بیان کیا، کوفہ میں بیان کیا ، شام میں بیان کیا، مدینہ میں بیان کیا اور یوں اس چشمے نے جوش مارنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ آج بھی جوش مار رہا ہے ، یہ واقع عاشورائ ہے۔
ایک وقت ممکن ہے کسی کے پاس کوئی نعمت نہ ہو، لہذا اس سے اس نعمت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگر کسی کو نعمت میسر ہو تو پھر اس سے سوال ہوگا۔ ایک عظیم ترین نعمت حسین ابن علیٴ کی یاد ہے ،یہی مجالس عزائ کی نعمت ہے، محرم اور عاشورائ کی نعمت ہے جو ہم شیعوں کو میسر ہے۔ افسوس کہ ہمارے غیر شیعہ مسلمان بھائیوں کو یہ نعمت میسر نہیں، وہ اس نعمت عظیم کو حاصل کرسکتے ہیں، البتہ کہیں کہیں ان میں سے بعض لوگ امام حسین ٴ کی عزاداری مناتے ہیں۔ لیکن (عام طور پر)عزاداری ان کے یہاں رائج نہیں، جبکہ ہمارے (شیعوںکے) درمیان رائج ہے۔
ان مجلسوں اور اس یاد سے کیا فائدہ اٹھانا چاہئیے؟ اس نعمت کے شکر کا طریقہ کیا ہے؟ یہ وہ بات ہے جسے میں آپ کے سامنے سوال کی صورت میں پیش کرنا چاہتا ہوں اور آپ اس کا جواب دیجئے؟
یہ نعمت اپنی تمام تر عظمت کے ساتھ دلوں کو اسلامی ایمان کے پرُ جوش سرچشمے سے متصل کر دیتی ہے،اس نعمت نے وہ کام کیا ہے کہ تاریخ میں ظالم حکمران عاشورائ اور امام حسینٴ کی مر قدِاطہر سے خوفزدہ رہے ہیں، یہ خوف بنی اُميّہ کے خلفائ کے دور سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے اور آپ نے اس کا ایک نمونہ خود ہمارے انقلاب میں دیکھا ہے۔ جب محرم آتا تھا تو فاسق ، فاسد اور کافر و رجعت پسند پہلوی نظام کے کار ندے خود کو بے دست و پا اور عاجز و ناتواں پاتے تھے، انہیں معلوم تھا کہ محرم آگیا ہے۔ اس منحوس حکومت کی بچی کچی رپورٹوں میں صراحتاً ایسی باتیں موجود ہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محرم کی آمد پر ہوا س باختہ ہوجاتے تھے۔ اور ہمارے امام بزرگوار (رضوان اللہ علیہ) حکیم، دور اندیش ، دنیا شناس اور انسان شناس ہستی خوب جانتی تھی کہ امام حسین ٴ کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے اس حادثے سے کس طرح استفادہ کیا جائے۔ آپ نے محرم کو شمشیر پر خون کی فتح کا مہینہ قرار دیااور اسی تجزیہ، منطق اور محرم کی برکت نے خون کو شمشیر پر فاتح کیا۔ یہ ایک ایسی مثال ہے جسے آپ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
اس نعمت سے استفادہ کرنا چا ہیے، لوگوں کو بھی اور علمائ کو بھی۔ عوام الناس اس سے اس طرح استفادہ کر سکتے ہیںکہ عزاداری کی مجالس میں دل سے شرکت کریں اور یہ مجالس برپا کریں، لوگوں کو چا ہیے کہ ہر سطح پر مجالسِ عزائ میں اضا فہ کریں،ان مجالس میں خلوص کے ساتھ شریک ہوں اور ان سے استفادہ کے لئے شرکت کریں ،صرف وقت گزاری کے لئے نہیں یا آمیانہ صورت میں محض ثوابِ اُخروی کے لئے نہیں کہ یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ اُخروی ثواب کیوں کر حاصل ہوتا ہے۔
مسلّما طور پر ان مجالس میں حا ضری اُخروی ثواب کی حامل ہے لیکن یہ اُخروی ثواب کس بنا پر ہے؟ کس وجہ سے ہے؟ اس ثواب کی یقینا ایک وجہ ہے اور اگر یہ وجہ مفقود ہو تو ثواب بھی نہ ہوگا، بعض لوگ اس وجہ اور سبب کی جانب متوجہ نہیں ہوتے۔
لوگوں کو ان مجالس میں شرکت کرنی چا ہیے، ان کی قدروقیمت کو جاننا چاہیے اور ان سے استفادہ کرنا چاہیے، لوگوں کو چاہیے کہ وہ ان مجالس کو حسین ابنِ علیٴ، خاندانِ پیغمبر۰ اور قرآن و اسلام کی روح سے ہر ممکن حد تک مضبو ط روحانی اور قلبی اتصال و ارتباط کا وسیلہ بنائیں۔
لیکن جو بات علمائ سے مربوط ہے وہ دشوار تر ہے، کیونکہ مجالسِ عزائ کی ماہیت یہ ہے کہ کچھ لوگ جمع ہوں اور ایک عالم اس مجلس میں شریک ہو اور مجلسِ عزائ برپا کرے تاکہ دوسرے لوگ اس سے استفادہ کر یں۔

 

آپ لوگ کس طرح مجلسِ عزائ برپا کرتے ہیں؟

میرا یہ سوال ان تمام لوگوں سے ہے جو اس مسئلہ کے بارے میں احسا سِ ذمّہ داری رکھتے ہیں،میری نظر میں مجلس میں تین چیزوں کو ہونا چاہیے۔
پہلی چیز یہ کہ مجالس محبت اہل بیت ٴ میں اضافہ کریں، کیونکہ جذباتی تعلق ایک قیمتی تعلق ہے۔ لہذا آپ کو وہ کام کرنا چاہئیے جس کے ذریعہ ان مجالس میں شرکت کرنے والوں کی حسین ابن علی ٴ خاندان رسول ۰ اور معرفت الہی کے چشموں سے محبت و تعلق میں روز بروز اضافہ ہو۔
اگر خدانخواستہ آپ ان مجالس میں ایسے حالات پید اکردیں کہ اس مجلس کے سامعین اور شریک فرد ،جذبات و احساسات کے لحاظ سے اہل بیت ٴ سے نزدیک نہ ہو اور خدانخواستہ دور ہوجائے اور بیزاری کا احساس کرے تو ایسی صورت حال میں مجلس عزائ نہ صرف اپنا ایک بڑا فائدہ کھو بیٹھے گی بلکہ ایک لحاظ سے مضر بھی ہوگی۔
اب اس حیثیت سے کہ آپ مجلس کے بانی اور خطیب ہیں، جائزہ لیجئے کہ کیا کام کیا جائے کہ ان مجالس میں شرکت سے حسین ابن علی ٴ اور اہل بیت پیغمبر ۰ کے بارے میں لوگوں کے جذبات میں روز بروز اضافہ ہو۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان مجالس میں لوگوں کے لئے واقعہ عاشورا کے بارے میں ایک واضح اور روشن تر معرفت وجود میں آئے ،ایسا نہ ہو کہ ہم مجلسِ حسین ابن علی ٴ میں آئیں، ایک تقریر کریں، مبنر پر جائیں یہاں تک کہ اگر اس مجلس میں غور و فکر کرنے والا کوئی شخص موجود ہو (آج انقلاب اسلامی کی برکات سے ہمارے معاشرے میں بکثرت ایسے افراد موجود ہیں) اور وہ سوچے کہ میں کیوں یہاں آیا ہوں، مسئلہ کیا تھا ؟ امام حسین ٴ پر گریہ و زاری کرنا کیوں ضروری ہے ؟ امام حسین ٴ آخر کربلا کیوں آئے اور عاشورائ کا واقعہ کیوں پیش آیا؟
(ہماری مجلس کو ) ایسا ہونا چاہئیے کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوں تو آپ اس کے سوال کا جواب دیں، پس آپ جو تقریر کرتے ہیں، جو اشعار پڑھتے ہیں اور جو مفاہیم بیان کرتے ہیں اگر ان میں ان معنوں کی جانب کوئی نکتہ نہ ہو حتی ان کی جانب اشارہ تک نہ ہو تو ہم نے جن تین ارکان کا تذکرہ کیا ان میں سے ایک رکن کم یا ناقص ہے اور ممکن ہے اس مجلس سے ضروری فائدہ حاصل نہ ہو اور ممکن ہے خدا نخواستہ بعض مقامات پر نقصان بھی پہنچے۔
تیسری چیز جو ان مجالس میں ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کی دینی معرفت اور مذہبی ایمان میں اضافے کا موجب ہوں، آپ کو چاہئیے کہ دین میں سے کوئی ایک ایسی چیز اس مجلس میں بیان کیجئے جو ایمان و معرفت میں اضافے کا سبب ہو، ایک صحیح نصیحت، ایک حدیث، تاریخ کا کوئی سبق آموز موضوع، ایک آیتِ قرآن کی تفسیر یا کسی عالم اور عظیم اسلامی مفکر کا کوئی نکتہ ان چیزوں میں سے ہیں، جنہیں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم منبر پر جائیں، کچھ لفاظی کریں اور اگر کوئی بات بیان کریں بھی تو ایسی بے سر و پا جو نہ صرف یہ کہ سننے والوں کے ایمان میں اضافہ نہ کرے بلکہ لوگوں کا ایمان کمزور کردے۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بدقسمتی سے کبھی کبھی ایسے مواقع دیکھنے میں آتے ہیں، کہ کسی مجلس کا خطیب ایسا مفہوم نقل کرتا ہے جو استدلال کے لحاظ سے بھی اور عقلی و نقلی مدرک کے اعتبار سے بھی بے سرو پا ہوتا ہے اور ایک بابصیرت اور منطق و استدلال رکھنے والے سامع کے ذہن پر بھی مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔بعض لوگوں نے کتابوں میں کچھ ایسی باتیں لکھی ہیں جن کے جھوٹا ہونے کی کوئی دلیل ہمارے پاس موجود نہیں۔ ممکن ہیں صحیح ہوں اور ممکن ہے غلط۔ ان کے جھوٹا ہونے پر کوئی دلیل نہیں، لیکن جب آپ اس کو بیان کریں اور آپ کا سامع جو ممکن ہے ایک جوان ہو، ایک طالب علم ہو، ایک جانباز ہو، یا ایک انقلابی ہو (کہ بحمدا للہ انقلاب نے ذہنوں کو کھول دیا ہے) اس چیز کو آپ سے سنے اور ممکن ہے اس کی وجہ سے دین کے بارے میں اس کے دل میں کوئی شک و شبہ ایجاد ہو اور اس کے ذہن میں ایک گرہ پڑجائے۔ لہذا کوئی ایسی بات نہیں کہنی چاہئیے، حتی اگر اس مفہوم کی سند بھی درست ہو لیکن کیونکہ یہ بات انحراف و گمراہی کا موجب ہے اس لئے اسے نہیں کہنا چاہئیے ،چہ جائیکہ ان میں سے اکثر چیزیں درست سند بھی نہیں رکھتیں۔
ایک شخص کسی سے کوئی بات سنتا ہے، ایک نے نقل کیا ہے کہ میں فلاں جگہ پر تھا ، فلاں سفر میں فلاں واقعہ رونما ہوا خطیب نے کسی سند کے ساتھ یا بغیر کسی سند کے یہ بات بیان کی اور سامع نے بھی اس پر یقین کرلیا اور پھر اتفاق سے اس نے اسے کسی کتاب میں بھی نقل کردیا،
ہم کیوں ایسی بات کہیں جو ایک بڑے مجمع اور ذی فہم اور باشعور شخص کے لئے قابل قبول نہ ہو؟ کیا انسان پر ہر وہ چیز بیان کردینا لازم ہے جو کہیں تحریر ہو؟آج یہ ہمارے معاشرے کا ایک تمدنی بحران ہے۔
ہم انقلاب سے پہلے کہتے تھے کہ پڑھے لکھے جوان، لیکن آج پڑھے لکھے لوگ محض جوانوں تک محدود نہیں بلکہ جوانوں کے علاوہ بھی زن و مرد، لڑکے لڑکیوں کے اذہان روشن ہوچکے ہیں،وہ مسائل کو نگاہ بصیرت سے دیکھتے ہیں، سمجھنا چاہتے ہیں، ان لوگوں کو شبہات کا سامنا ہوتا ہے، یہ ہمارے زمانے کا تمدنی بحران ہے، نہ صرف ہمارے دشمن بلکہ ہماری اور آپ کی فکر کے منکرین بھی شبہات پیدا کرتے ہیں،کیا یہ کہا جاسکتا ہے جو کوئی ہماری فکر کو قبول نہیں کرتا ،گونگا ہوجائے، زبان نہ کھولے اور کوئی شبہہ پیدا نہ کرے؟ (جب کہ دوسرے) شبہات پیدا کرتے ہیں، باتیں بناتے ہیں، مفاہیم پھیلاتے ہیں، شک و تردید ایجاد کرتے ہیں، لہذا آپ ایسی چیز بولئیے جو شبہات کو دور کرے، ایسی بات نہ کیجئے جو شبہات میں اضافہ کرے۔
بعض لوگ اِس اہم ذمہ داری پر توجہ کئے بغیر بالائے منبر ایسی گفتگو کرتے ہیں، جو نہ صرف یہ کہ سامع کے ذہن میں موجود کسی گرہ کو نہیں کھولتی بلکہ اس کے ذہن میں مزید گرہیں ڈال دیتی ہے، فرض کیجئے اگر ہم بالائے منبر ایک بات کہیں، جس سے دس، پانچ یا صرف ایک ہی جوان دین کے کسی مسئلے میں شک و شبہ کا شکار ہوجائے، وہ چلا جائے اور ہم اسے پہچانتے نہ ہو، تو کس طرح اس کا ازالہ کریں گے؟ کیا کسی صورت اس کی تلافی ممکن ہے؟ کیا خدا ہمیں معاف کردے گا؟ مشکل مسئلہ ہے۔
پس خطاب کو تین محوروں پر مشتمل ہونا چاہئیے، پہلا یہ کہ حسین ابن علی ٴ اور اہل بیت پیغمبر ۰ سے جذباتی لگاو میں اضافہ کرے اور احساس و جذبات کے بندھن کو مضبوط کرے۔ دوسرے یہ کہ عاشورائ کے بارے میں سامع کو ایک واضح اور روشن نظریہ دے اور تیسرے یہ کہ معارف دینی کے بارے میں معرفت بھی پیدا کرے اور ایمان بھی ایجاد کرے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر خطاب میں لازماً یہ تمام چیزیں موجود ہوں، آپ اگر ایک معتبر کتاب سے ایک صحیح حدیث نقل کرکے حدیث میں اس قدر گل کاریاں کرتے ہیں کہ اس کے اصل معنی ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ اسی ایک حدیث کے صحیح معنی کریں تو ممکن ہے جو ہم چاہتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ اس میں موجود ہو، اگر آپ ایک معتبر تفسیرسے ایک آیہ قرآن کو غور و فکر ، مطالعہ اور تجزیہ کے بعد بیان کریں تو مقصود حاصل ہوجائیگا،اور مصائب کے ذکر کے لئے مرحوم محدث قمی کی نفس المہموم کھول کر پڑھ دیجئے، آپ دیکھیں گے اس سے سامع پر گریہ طاری جائے گا، جذبات میں ہیجان بپا ہو گا۔
کیاضروری ہے کہ ہم اپنے خیال میں مجلس جمانے کے لئے ایسے کام کریں جن سے مجلس عزائ اپنے اصل فلسفے ہی سے جدا ہوجائے؟ میں حقیقتاً اس بات سے وحشت زدہ ہوں کہ کہیں ہم خدانخواستہ اس زمانے میں جو کہ اسلام کے ظہور و نمو اور اسلام اور فکر اہل بیت ٴ کی تجلی کا دور ہے اپنے فریضے کو انجام نہ دے سکیں۔
ایک چیز ہے، جو لوگوں کو خدا اور دین سے نزدیک کرتی ہے، یہ سنتی عزاداری ہے جو لوگوں کو دین کے قریب لاتی ہے۔ امام (خمینی۲) نے فرمایا ہے کہ ’’ سنتی عزاداری بپا کیجئے۔‘‘ مجالس میں بیٹھنا ، مصائب پڑھنا ، گریہ کرنا ، سر و سینہ پیٹنا، عزاداری کے جلوس، ماتمی انجمنیں ، یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو اہل بیت ٴکے لئے جذبات کو ابھارتی ہیں، جو ایک بہت اچھی چیز ہے۔
اس کے برخلاف ایک اور چیز ہے جو لوگوں کو دین سے منحرف کردیتی ہے، انتہائی افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ گزشتہ تین چار برسوں میں ایسے کاموں کا آغاز ہوا ہے جنہیں میرے خیال میں بعض (پوشیدہ) ہاتھ ہمارے معاشرے میں ترویج دے رہے ہیں، جنہیں جو کوئی دیکھتا ہے اس کے ذہن میں سوال ابھرتا ہے،قدیم زمانہ میں عوام الناس کے ایک طبقے کا معمول تھا کہ عزاداری کے ایام میں اپنے جسم کو قفل لگاتے تھے، بزرگ علمائ نے اس کی مخالفت کی اور یہ رسم ختم ہوگئی، اب پھر اسے دوبارہ شروع کیا گیا ہے اور میں نے سنا ہے کہ مختلف مقامات پر بعض لوگ قفل لگاتے ہیں، یہ کیا کام جسے بعض لوگ انجام دیتے ہیں؟ قمہ زنی بھی اسی طرح ہے، قمہ زنی بھی غلط کاموں میں سے ہے،مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگ کہیں گے کہ حقیقت یہ ہے کہ فلاں صاحب کو قمہ کا نام نہیں لینا چاہئیے تھا، آپ کو کیا ، چھوڑئیے، انہیں لگانے دیجئے۔
نہیں جناب! ایسا نہیں ہوسکتا، جس طرح گزشتہ چار پانچ برسوں اور جنگ (ایران عراق جنگ کی جانب اشارہ ہے) کے بعد قمہ زنی کی ترویج کی جارہی ہے، اگر ایسا امام ۲ (خمینی) کی حیات مبارکہ میں ہوتا تو قطعی طور پر وہ اس کی مخالف میں کھڑے ہوجاتے (حاضرین کا نعرہ تکبیر) ۔ یہ ایک غلط عمل ہے کہ بعض لوگ قمہ ہاتھ میں لے کر اپنے سر پر ماریں اور خون بہائیں، یہ کیا عمل ہے؟ کس طرح اس کام کو عزاداری میں سے کہا جاسکتا ہے؟ قمہ سر پر مارنا عزاداری ہے؟
اگر آپ دیکھیں تو جن لوگوں کو مصیبت پیش آتی ہے وہ اپنا سر و سینہ پیٹتے ہیں،یہ ہے عزاداری ، آپ نے کہاں دیکھا ہے کہ ایک شخص اپنے محبوب ترین عزیز کے غم میں اپنی تلوار اپنے سر پر مارتا ہو اور اپنے سر سے خون بہاتا ہو، کس اعتبار سے یہ کام عزاداری ہے؟ یہ جعلی کام ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جو دین کا حصہ نہیں ہے، بے شک خدا ان کاموں سے راضی نہیں ہے۔
علمائ سلف(گزشتہ) کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ یہ باتیں نہیں کہہ سکتے تھے، لیکن آج اسلام کی حاکمیت اور اسلام کی تجلی کا زمانہ ہے، ہمیں ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں کہ اعلی اسلامی اقدار کا حامل ہمارا معاشرہ ، یعنی محبان اہل بیت ٴ کا معاشرہ ، وہ معاشرہ جس کے لئے ولی عصرٴ (ارواحنا فداہ) حسین ابن علی ٴ اور امیر المومنین ٴ کے اسمائے مبارک باعث افتخار ہیں ،مسلمانان عالم اور غیر مسلموں کی نظر میں ایک خرافات پرست اور بے منطق گروہ کے طور پر پہچانا جائے۔
میں نے جس قدر سوچا ، غور و فکر کیا، اس نتیجے پر پہنچا کہ کسی طور ممکن نہیں کہ اس قطعی بات اور بدعت سے اپنے عزیز عوام کو آگاہ نہ کروں،یہ عمل انجام نہ دیجئے میں قطعاً اس سے راضی نہیں، اگر کوئی قمہ زنی کا مظاہرہ کرے تو میں دلی طور پر اس سے ناراض ہوں، یہ جو میں نے (مظاہرے والی بات) عرض کیا اس لئے ہے کہ کسی زمانے میں کسی مقام پر چند لوگ جمع ہوتے تھے اور یہ کام کرتے تھے ، ایسا ایک گوشے میں ہوتا تھا، کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا،ا س طرح مظاہرہ نہیں ہوتا تھا، لہذا کسی کو ان سے کوئی غرض بھی نہ تھی، اب یہ بات خواہ اچھی تھی یا بری لیکن ایک محدود دائرے میں انجام پاتی تھی، لیکن جب یہ طے کیا جائے کہ چند ہزار لوگ اچانک تہران، قم، آذربائیجان کے کسی شہر یا خراسان کی کسی شاہراہ پر قمہ ہاتھوں میں لئے ظاہر ہوں گے اور انہیں اپنے سر پر ماریں گے تو یہ بات قطعاً غلط ہے ،امام حسین ٴ اس کام سے راضی نہیں۔ مجھے نہیں معلوم اس کام کا آغاز کہاں سے ہوا اور کون سی ذہنیت اسے ہمارے اسلامی اور انقلابی معاشرے میں لارہی ہے۔
حال ہی میں زیارت کے حوالے سے ایک عجیب و غریب اور نا مانوس بدعت ایجاد کی گئی ہے، آپ ملاحظہ فرمائیے کہ پیغمبر ۰ اور آئمہ ہدی ٴکی قبور مطہر کی سب زیارت کرتے ہیں، پیغمبر اسلام ۰ اور امام حسین ٴ کے مزارات کی ہمارے آئمہ ٴ امام جعفر صادق ٴ، امام موسی ابن جعفر ٴ اور بقیہ آئمہ ٴ زیارت کرتے تھے۔ ایران و عراق میں آئمہ اہل بیت ٴ کی قبور مطہر کی ہمارے علمائ و فقہا زیارت کیا کرتے تھے ،کیا آپ نے کبھی سنا کہ علمائ یا آئمہ ٴ میں سے کوئی جب زیارت کے لئے آتا ہے تو مزار کے صحن کے دروازے سے سینے کے بل چلتے ہوئے حرم میں داخل ہوتا ہو؟
اگر یہ کوئی مستحسن ، مستحب ، اچھا م قابل قبول عمل ہوتا تو ہمارے بزرگ اسے انجام دیتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا حتی منقول ہے کہ عالم بزرگ ، قوی اور روشن فکر مجتہد آیت اللہ العظمی آقای بروجردی (رضوان اللہ تعالی علیہ )چوکھٹ کا بوسہ لینے سے بھی منع فرماتے تھے ، جب کہ شاید یہ ایک مستحب عمل ہو، شاید چوکھٹ کو چومنے کے بارے میں روایات میں بھی آیا ہے اور دعاو ں کی کتب میں بھی ہے اور میرے ذہن میں بھی ہے کہ اس بارے میں روایات موجود ہیں، گو یہ ایک مستحب عمل ہے ،اس کے باوجود کہا کرتے تھے کہ یہ کام نہ کیجئے کہ کہیں دوسرے خیال کریں کہ ہم آئمہ ٴ کی قبور مطہر کو سجدہ کرتے ہیں اور کہیں (اس بنیادپر ) دشمن شیعوں کے خلاف شک و شبہ ایجاد نہ کریں۔
اب بعض لوگ جوں ہی امام علی بن موسی الرضا ٴ کے صحن مطہر میں داخل ہوتے ہیں اپنے آپ کو گرا لیتے ہیں اور دو سو میٹر کا فاصلہ سینے کے بل طے کرتے ہیں۔ کیا یہ عمل درست ہے؟ نہیں یہ غلط کام ہے ، دین اور زیارت کی اہانت ہے۔
کون ان چیزوں کو لوگوں کے درمیان رائج کررہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ دشمن کی کارستانی ہو؟ آپ کو یہ باتیں لوگوں کو بتانا چاہئیں اور ذہنوں کو روشن کرنا چاہئیے۔ دین اور اسلام، منطق پر مبنی ہے اور اسلام کا منطقی ترین جز وہ تفسیر ہے جو شیعہ، اسلام کے بارے میں رکھتے ہیں۔ شیعہ متکلمین میں سے ہر ایک اپنے زمانے میں خورشیدِ تابناک کی مانند چمکتا تھا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ کی منطق کمزور ہے، خواہ وہ آئمہٴ کا زمانہ ہو، جس میں ’’ مومنِ طاق ‘‘ اور ’’ ہشام بن حکم ‘‘ (جیسے اصحاب آئمہٴ تھے) اور خواہ آئمہ ٴ کے بعد نبی نوبخت اور شیخ مفید جیسے افراد ہوں اور خواہ ان کے بعد کے زمانے میں مرحوم علامہ حلّی اور دوسرے لوگ ہوں۔ یہ سب کے سب اہل منطق و استدلال تھے۔ ہم اہل منطق و استدلال ہیں، آپ دیکھئے کہ شیعوں سے مربوط ابحاث میں کتنے قوی استدلال پر مبنی کتب تحریر کی گئی ہیں،ہمارے زمانے میں مرحوم عبد الحسین شرف الدین کی کتابیں اور علامہ امینی کی الغدیر سر تا پا استدلال اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مستحکم ہیں۔
شیعیت یہ ہے، وہ نہیں جو نہ صرف استدلال نہیں رکھتیں بلکہ ’’ اشبہ شئی بالخرافہ ‘‘ (یعنی خرافات سے زیادہ مشابہ) ہیں۔ ایسی چیزیں کیوں ہمارے معاشرے میں داخل کی جارہی ہیں؟ یہ دین اور معارف دینی کے لئے وہ عظیم خطرہ ہے جس کی جانب عقیدے کی سرحدوں کے محافظوں کو متوجہ رہنا چاہئیے۔
میں نے عرض کیا کہ ایک گروہ تک جب یہ باتیں پہنچیں گی تو وہ دل سوزی کے ساتھ کہے گا کہ اچھا ہوتا اگر فلاں ابھی یہ باتیں نہ کرتا۔
نہیں جناب ! مجھ پر لازم ہے کہ یہ باتیں کہوں، میری ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے۔ البتہ دوسرے حضرات کو بھی یہ باتیں کہنی چاہئیں۔ آپ کو بھی کہنی چاہئیں،امام خمینی ۲ جہاں کہیں ایک بھی انحرافی نکتہ دیکھتے تو کمال قدرت کے ساتھ اور بے پرواہ ہو کر اس کے مقابل ڈٹ جاتے تھے، اگر یہ چیزیں ان بزرگوار کے زمانے میں بھی ہوتیں یا اس سطح پر رائج ہوتیں تو بے شک وہ بھی یہی باتیں کرتے۔
ایک اور گروہ، جسے یہ چیزیں پسند ہیں اسے ان باتوں سے تکلیف پہنچے گی کہ فلاں نے ہماری پسندیدہ چیزوں کے بارے میں ایسی باتیں کیوں کیں؟ اور اس لہجہ میں ان کا ذکر کیوں کیا، ان لوگوں میں سے بھی اکثر مومنِ صادق اور بے غرض لوگ ہیں لیکن غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے جو ہر علاقے اور ہر حصے میں بسنے والے آپ علمائ و مبلغین پر عائد ہوتی ہے، امام حسین ٴ کی مجلس عزائ ایسی مجلس ہے جسے معرفت اور ان تین چیزوں کا مظہر ہونا چاہئیے جنہیں میں نے عرض کیا۔
امید ہے کہ خدا وند متعال آپ کو قدرت ، شجاعت ، جستجو اور سنجیدگی کے ساتھ ا نھیں بیان کرنے میں کامیابی عطا فرمائے ،جو پروردگار عالم کی رضایت کا سبب ہیں۔

والسلام علیکم ورحمة الله