مذھب شیعہ ایک نظر میں

شیعیت کیا ھے ؟

دین اسلام کو اس کے تمام نظری اور عملی تقاضوں کے ساتھ اختیار کرنا ۔

اسلام کے معنی ایک ” سر نھادن بطاعت “ کے ھیں اور دوسرے ” سپردن “ ۔ یہ دونوں باتیںکس کے لئے ؟ اللہ کے لئے ۔ اسی کو دوسری لفظوں میں یوں کھا جا سکتا ھے کہ حکومت ِالھیّہ کو اُس کے پورے تقاضوں کے ساتھ تسلیم کرنا جس کے لئے حاکم اور اُس کے مرتب کردہ نظام کی معرفت ضروری ھے ۔ یہ ” اُصول دین “ ھیں اور پھر اُس نظام کے قواعد و ضوابط کو معلوم کر کے اُ ن پر عمل ھے ۔ یہ پابندیٴ شریعت ھے جس کے خاص ارکان کو ” فروع دین “ کھتے ھیں ۔
یہ عقائد وہ ھیں جو عمل کا احساس پیدا کرتے ھیں اور اعمال وہ ھیں جو عقیدہ پر جلا کرتے ھیں ۔
جامع لفظ سے تعبیر کرنا چاھیں تو برابر کے دو جز ھیں ” حق شناسی “و ” فرض شناسی “۔ اسی کو وسعت دی جائے تو عقائد و اعمال کی پوری دنیا آجائے گی اور انھی کے ماننے اور برتنے کا نام ھو گا ” حقیقی اسلام “ اور ” شیعیت “ جس کی تفصیل مجمل طور پر مندرجہ ذیل ھے :
اصول دین ( ۱) توحید (۲) عدل (۳) نبوت (۴) امامت (۵) قیامت۔


توحید

یہ ایک جامع عنوان ھے جس کے تحت حسب ذیل حقیقتیں مضمر ھیں :


(۱) حدوث عالم ۔

یعنی دنیا اور اُس کی ھر چیز نابود تھی ۔ ھوا ، پانی ، آگ ، چاند ، سورج اور سیارے ۔کوئی بھی ایسی چیز نھیں جو ھمیشہ موجود ھو اور وہ چھوٹے چھوٹے ذرے بھی جن سے اس تمام دنیا میں مختلف شکلیں نمودار ھوتی ھیں وہ بھی قدیم یعنی ھمیشہ سے موجود نھیں ھو سکتے ، اس لئے کہ اُن میں حرکت موجود ھے اور حرکت کا ھونا خود زوال اور تغیّر کی نشانی ھے ۔


(۲) خالق کا وجود ۔

جب یہ تمام کائنات ھمیشہ سے وجود نھیں رکھتی تو ضرور اُ سکا کوئی وجود میں لانے والا ھے ۔ اُسی کو خالق کھتے ھیں ۔


(۳) خالق کُل وہ ھے جو سراسر ” ھستی “ ھے

اس لئے وہ ھمیشہ سے ھے اور ھمیشہ رھے گا ۔ اگر ایسا نہ ھو تو پھر وہ بھی اِسی دنیا کا جزوھوگا اور اُس کے لئے بھی کسی پیدا کرنے والے کی ضرورت ھوگی ۔


(۴) خالق نے اس دنیا کو ارادہ و اختیار کے ساتھ پیدا کیا ھے

اس لئے کہ اُس کی پیدا کی ھوئی مخلوق میں حکمتیں اور مصلحتیں مضمر ھیں اور ایک خاص انتظام نظر آتا ھے جو کسی بے شعور اور بے حس قوت کا نتیجہ نھیں ھو سکتا ۔


(۵) کمال ذات از صفات ۔

یعنی خدا کو سراسر ” ھستی “ ماننے ھی کا نتیجہ ھے کہ اُس کی ذات ھر حیثیت سے کامل ھو کیونکہ نقائص اور خرابیاں سب ” نیستی “ کے پھلوسے پیدا ھوتی ھیں اور خدا کی ذات میں نیستی کا گزر نھیں ۔ تمام صفات ثبوتیہ و سلبیہ کا خلاصہ اتنا ھی ھے ۔ نہ یہ کہ اُس میں علاوہ ذات کے نو صفتیں ھوں اور خدا ذات اور صفات کے مجموعہ کا نام ھو جس طرح عیسائی اُسے ایک ھوتے ھوئے تین مانتے ھیں ۔ یہ تصور توحید خالق کے خلاف ھے اور تعلیم اھلبیت (ع) کے لحاظ سے درست نھیں ھے ۔


صفات ثبوتیہ

کمال ذات کے تقاضوں کوصفات ثبوتیہ کھا جاتا ھے ۔


۱۔ قدیم :

یعنی ھمیشہ سے ھے اور ھمیشہ رھے گا ۔ یہ کوئی اُس کی ذات سے جدا گانہ صفت نھیں ھے بلکہ اُس کے سراسر ” ھستی “ ھونے ھی کا تقاضا ھے کہ وہ ” واجب الوجود “ ھو یعنی اُس کی ذات کے لئے ”نیستی “ ممکن ھی نہ ھو اور جو واجب الوجود ھواسی کو اصطلاحی معنی کے لحاظ سے قدیم کھتے ھیں کیونکہ ” حادث “ وہ ھوتا ھے جو ” نیستی “ کے بعد ” ھست “ ھوا ھوا وریہ وھی ھو گا جس کی ذات سے ” ھستی “ الگ ھو مگر جھاں ” ھستی “ ذات سے جدا ھی نہ ھو ، اس میں نیستی کا شائبہ کھاں ممکن ھے لھذا اُسے یھی ماننا پڑے گا کہ وہ ھمیشہ سے ھے اور ھمیشہ رھے گا ۔


۲۔ قادر:

یعنی ھر چیز پر قابو رکھتا ھے اور کسی امر میں بے بس نھیںھے کیونکہ عاجزی نقص ھے اور یہ بات معلوم ھو چکی ھے کہ اُ س کی ذات کامل ھی کامل ھے، ناقص نھیں ھے ۔ بے شک محال اور غیر ممکن چیزوں میں یہ صلاحیت نھیں ھے کہ اُ ن سے خدا کی قدرت کا تعلق ھو لیکن اس سے خدا کی ذات میں کوئی نقص لازم نھیں آتا ۔


۳۔ عالم:

یعنی وہ ھر شے کا جاننے والا ھے اس لئے کہ جھالت نقص ھے اور خدا کی ذات ھر نقص سے بری ھے ۔
چھوٹی چھوٹی چیز اور چھوٹی سے چھوٹی بات خدا وند عالم کے علم میں ھے ۔ یعنی وہ حاضر و ناظر ھے ۔ اُس کے علم میں کبھی تغیر نھیں ھوتا اور یہ ممکن نھیں کہ وہ کسی امر کو پھلے نہ جانتا ھو پھر اس سے واقف ھو اسی لئے اس کے افعال میں ندامت اور پشیمانی کا گزر نھیں ھے ۔


۴۔حی:

وہ قدرت اور علم کا مالک ھے ۔ اسی اعتبار سے کھا جاتا ھے کہ وہ زندہ حی ھے ۔


۵۔مدرک:

اُ س کے صفات ثبوتیہ میں مُدرک ھونا بھی ھے ۔ اس کے معنی صحیح طور پر یھی ھیں کہ وہ تمام چیزوں کا جو احساس سے متعلق ھیں، جاننے والا ھے جس طرح مسموعات یعنی آوازوں کے جاننے کی بناء پر سمیع اور مبصرات یعنی دیکھنے کی چیزوں کے جاننے سے بصیر ھے ۔ یہ عالم ھونے کے مفھوم کے شعبے ھیں ۔ الگ الگ صفتیں نھیں ھیں ۔ نہ یہ سمجھنا صحیح ھے کہ خدا کے جسمانی طور پر آنکہ اور کان ھیں جن سے وہ دیکھتا اور سنتا ھے ۔ ایسا ھرگز نھیں ھے ۔


۶۔مرید:

قدرت کو علم اور مصالح کے مطابق صرف کرنے کی بنا پر وہ مُرید ھے یعنی ارادہ کے ساتھ جو چاھتا ھے کرتا ھے اور جو نھیں چاھتا نھیں کرتا ۔


۷۔متکلم:

اُ س کے متکلم ھونے کے یہ معنی نھیں کہ وہ زبان و دھن سے کلام کرتا ھے بلکہ اپنی قدرت سے اپنے علم کے مطابق جب چاھتا ھے اپنی طرف نسبت کے ساتھ کلام پیدا کر دیتا ھے ۔


صفات سلبیہ

صفات سلبیہ یعنی نقائص سے پوری طرح بری ھونا ، اس کے تحت جو کچھ باتیں آئیں انھیں صفات سلبیہ کھتے ھیں ۔ اس میں چند باتیں جو خصوصیت کے ساتھ سمجھنے کی ھیں حسب ذیل ھیں :


۱۔ خدا کا کوئی شریک نھیں ۔

یہ اصل توحید ھے ۔ اس کا ثبوت اسی سے ظاھر ھے کہ خدا ایک کامل ” وجود “ ھے ۔ اگر اُس کے ساتھ دوسرے کی ضرورت ھو تو وہ کامل نہ رھے گا ، ناقص ھو جائے گا ۔
اسے یوں بھی کھا جا سکتا ھے کہ اگر دو کی طاقت کا مجموعہ ایک سے زیادہ نھیں ھے تو دوسرا بیکار محض ھے اور اگر زیادہ ھے تو ھر ایک ناقص اور محدود ھیں اور خدائی کے قابل نھیں ھے ۔


۲۔ خدا مرکب نھیں ھے

یعنی اُ س کے اجزاء نھیں پائے جاتے کیونکہ اس صورت میں وہ اُن اجزاء کا محتاج ھو گا اور اجزاء اُس سے مقدم ھوں گے ۔ لھذا وہ سب کا پیدا کرنے والا نھیں قرار پاسکے گا ۔


۳۔ خدا جسمیت نھیں رکھتا

کیونکہ ھر جسم کا مرکب ھونا ضروری ھے اور یہ معلوم ھو چکا کہ خدا مرکب نھیں ھے ۔


۴۔ خدا کسی مکان اور سمت میں نھیں ھے

کیونکہ اس صورت میں وہ محدود ھو جائے گا اور محتاج قرار پائے گا اور اس کی ذات پابندی و احتیاج سے بری ھے ۔


۵۔ حلول و اتحاد نھیں ھو سکتا ۔

اس کے معنی یہ ھیں کہ ایک چیز دوسرے میں ھو کر پائی جائے اس طرح کہ اُ س کی صفت بن جائے جیسے رنگ و بو پھول میں یا دو چیزیں اس طرح ایک ھو جائیں کہ ایک طرف اشارہ عین دوسرے کی طرف اشارہ قرار پائے ۔ خدا کی ذات اس سے بالکل بری ھے کیونکہ اُس صورت میں وہ محتاج اور محدود ھو جائے گا اور ناقص کے ساتھ یکساں بلکہ ایک ھو کر خود بھی ناقص ھو جائے گا ۔


۶۔ وہ مرئی نھیں ھے ۔

یعنی اُ س کو آنکھوں سے دیکھنا نا ممکن ھے کیونکہ آنکھوں سے وھی چیز دیکھی جاتی ھے جو سامنے ھو اور رنگ و شکل رکھنے والا جسم ھو ۔
خدا نہ جسم ھے ، نہ رنگ و شکل رکھتا ھے ، نہ کسی خاص سمت میں محدود ھے اس لئے اُس کے دیدار کا اعتقاد صحیح نھیں ھے ۔


۷۔ اُس کی ذات میں تغیرات کا ھونا اور حالتوں میں تبدیلی پیدا ھونا ممکن نھیں ھے

کیونکہ یہ پیدا ھونے والی حالت اگر کمال ھے تو اس کی ذات سے جدا نھیں ھے اس لئے ھمیشہ سے یہ کمال ثابت ھوگا اور اگر کمال نھیں ھے تو اس کی ذات سے اس کا تعلق نھیں ھو سکتا ۔
بے شک اُ س کے افعال دنیا میں مصالح کے مطابق مختلف صورتوں سے ظاھر ھوتے رھتے ھیں اور مصلحتوں کی تبدیلی سے اُن میں تبدیلیاں بھی ھوتی ھیں ۔ انھی کو ” بداء “ کھا جاتا ھے لیکن ان تمام تبدیلیوں کا علم اُس کو ھمیشہ سے ھوتا ھے اس لئے نہ وہ علم کے تغیر کا سبب ھیں اور نہ پشیمانی و ندامت کا نتیجہ ۔


۸۔ خدا کے صفات اس کی ذات سے علیحدہ نھیں ھیں

اس لئے کہ اگر خدا کی صفتیں ذات کے علاوہ ھوں تو خود ذات کمال سے خالی ھو گی اور صفتوں کی محتاج ھو گی پھر اُس کو ان صفتوں سے متصف ھونے کے لئے کسی دوسرے سبب کی ضرورت ھو گی اور اس طرح خدا کی ھستی اپنے کمال میں غیر کی محتاج ھو جائے گی اور اس کے معنی یہ ھیں کہ وہ غیر اُس سے مقدم ھو گااور اس طرح توحید کہ جو تمام اُصول کی اصل ھے ، باقی نھیں رہ جائے گی ۔


عدل

خدا کے تمام افعال حکمت اور مصلحت کے ساتھ ھوتے ھیں ۔ وہ کوئی بُرا کام نھیں کرتا اور نہ کسی ضروری کام کو ترک کرتا ھے ۔ اُس میں حسب ذیل نکات داخل ھیں :


(۱) دنیا کے تمام افعال بجائے خود یا اچھے ھیں یا برے ۔یہ اور بات ھے کہ کسی بات کی اچھائی ، برائی ھماری عقل پورے طور پر نہ سمجہ سکے لیکن اس کے معنی یہ نھیں کہ حقیقةً بھی وہ اچھے یا برے نھیں ھیں ۔ خدا جو کام کرتا ھے وہ اچھا ھی ھوتا ھے ۔ برا کام وہ کبھی نھیں کرتا ۔ خدا ظلم اور نا انصافی سے بری ھے ، یہ نھیںھو سکتا کہ وہ بندوں کو غیر ممکن باتوں کا حکم دے یا ایسے کام کرنے کا حکم دے جو بالکل فضول ھوں اور جن کا کوئی فائدہ نہ ھو ۔ اس لئے کہ یہ تمام باتیں نقص ھیں اور خدا ھر نقص سے بری ھے ۔


(۲) خدا نے انسان کو اُس کے افعال میں خود مختار بنایا ھےیعنی وہ جو کچھ کام کرتا ھے اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ھے ۔ بے شک یہ قدرت خدا کی طرف سے عطا کی ھوئی ھے اور جب وہ چاھتا ھے تو اس قدرت کو سلب کر لیتا ھے لیکن جب وہ قدرت کو سلب کرلے تو انسان پر ذمہ داری باقی نھیں رہ سکتی یعنی اُ س صورت میں جو کچھ سرزد ھو اُس پر کوئی سزا نھیں دی جاسکتی جیسے پاگل آدمی ۔
خدا بندوں کو اچھی باتوں کا حکم دیتا ھے اور بری باتوں سے روکتا ھے ۔ اچھے کاموں پر وہ انعام عطا کرتا ھے اور برے کاموں پر سزا دیتا ھے ۔ اگر اُس نے انھیں مجبور پیدا کیا ھو یعنی وہ خود ان کے ھاتھوں سب کچھ کام کراتا ھو تو احکام نافذ کرنا اور جزا و سزا دینا بالکل غلط اور بے بنیاد ھو گا ۔ خدا کی ذات ایسے غلط اور بے جا طرز عمل سے بری ھے ۔


(۳) خدا کو بندوں کے تمام افعال کا علم ھمیشہ سے ھے لیکن اُس کا علم ان لوگوں کے افعال کا باعث نھیں ھوتا بلکہ چونکہ یہ لوگ ان افعال کو اپنے اختیار سے کرنے والے ھیں اس لئے خدا کو ان کا علم ھے ۔


(۴) خدا کے لئے عدالت کو ضروری قرار دینے کے یہ معنی نھیں ھیں کہ وہ ظلم،فعل شر یا فعل عبث پر قادر نھیں ھے بلکہ یہ معنی ھیں کہ خدا کی کامل ذات اور اُس کے علم و قدرت کے لئے یہ مناسب نھیں ھے کہ وہ ظلم وفعل شر وغیرہ کا ارتکاب کرے ۔ اس لئے اُس سے ان افعال کا صادر ھونا بالکل غیر ممکن ھے ۔


عقیدہ توحید و عدل کا انسانی معاشرہ پر اثر

توحید سے عالم انسانیت ایک مشترک نقطہ کی طرف متوجہ ھوتی ھے جو سب کا مرکز قرار پائے ۔ ھزار نسل ، وطن ، قوم اور رنگ کے تفرقوں کے باوجود دنیا خدائے واحدکے اقرار سے ایک ایسے نظام میں منسلک ھو جاتی ھے جس پر حاکم خود اسکی ذات ھے جو سب کا خالق اور معبود ھے ۔
علاوہ ازیں اس سے انسان میں احساس پیدا ھوتا ھے کہ وہ مطلق العنان نھیں ھے ۔ اگر سب ذاتی خواھشوںکے غلام ھوتے تو ھر ایک کی طبیعت اور خواھش کے اختلاف سے مقصد اور عمل میں اختلاف پیدا ھو سکتا تھا مگر یہ سب ایک حاکم کے فرماں بردار ھیں اس لئے اُن کا آھنگ عمل اور مقصد ایک ھونا چاھئے ۔ یہ حاکم کیسا ھے ؟ حاضر و ناظر ھے ۔ ھر جگہ موجود ھے اور ھر بات کو جانتا ھے ۔ اس لئے انسان کو ھوشیار رھنا چاھئے کہ کوئی بات خلاف قانون بجا نہ لائے ،کسی کام کو چوری چھپے کرتے ھوئے مطمئن نہ ھو کہ کسی نے نھیں دیکھا کیونکہ اُسی نے دیکھا ھے جس کے ھاتہ میں جزا وسزا ھے ۔
وہ ایک اکیلا ھے ۔ کوئی اُ س کا مدّ مقابل نھیں۔ اس لئے بس اُسی کی رضا مندی کی فکر رھنا چاھئے اور اُسی کی ناراضگی سے اجتناب چاھئے اُس کی طاقت ھر ایک پر غالب ھے اس لئے ناحق کسی طاقت سے مرعوب نھیں ھونا چاھئے ۔ وہ ھر بات پر قادر ھے اس لئے اپنی ناتوانی سے کبھی نا اُمیدنھیں ھونا چاھئے ۔
اس عقیدہ سے ایسی انسانی برادری کی تشکیل ھوتی ھے جس میں ھر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و مساوات کا احساس رکھتا ھو اور سب ایک نصب العین پر گامزن ھوں ۔ سب اپنی خواھشوں کو مشترک مقصد اور اُصول میں فنا کر دیں اورخلوت و جلوت ھر حالت میں، سب اپنے واحد حاکم کی رضا مندی کے طلبگار رھیں اور کسی وقت قانون کے احترام کو ھاتہ سے نہ جانے دیں ۔ اس جماعت کے افراد میں خود داری ھو کہ وہ کسی مادّی طاقت کے سامنے سر نہ جھکائیں ، بلند حوصلگی ھو کہ کسی دشوار مقصد کو نا ممکن نہ سمجھیں اور اعتماد ھو جس سے کبھی اپنے دل میں یاس کا گزر نہ ھونے دیں ۔
یھی وہ عناصر ترقی ھیں جو بلند مرتبہ اقوام کے شایان شان ھیں ۔ عدل کے ماتحت یہ احساس پیدا ھوتا ھے کہ اُس کا قانون جو اس کے تمام کاموں میں جاری ھے وہ عدالت ھے لھذا وہ بندوں سے بھی انصاف اور عدالت کا طالب ھے ۔ اُس نے ھمیں ایک امانت دی ھے جس کا نام ھے ” قوت اختیار “ ھمیں اس اختیار کو قانون ِ عدالت کے مطابق صرف کرنا چاھئے ۔
اس عقیدہ سے اس برادری میں جو انسانیت کے حدود میں قائم کی گئی ھے ،تبادلھٴ حقوق اور انصاف و مساوات کی بنیادیں مضبوط ھوتی ھیں ۔ اس برادری کے افراد ایکدوسرے کو حقارت کی نگاہ سے نھیں دیکھتے کیونکہ یہ ظلم ھے ۔ وہ سمجھتے ھیں کہ ایک کو دوسرے پر دولت و ثروت یا طاقت و اقتدار میں جو فوقیت نظر آتی ھے بالکل وقتی ھے اور عارضی ۔خالق کی نگاہ میں ان سب کے لئے ایک قانون ھے ۔ گناہ امیر کرے یا غریب ھر ایک کو سزا ملے گی ، ھر ایک کو جزا ملے گی وھاں اُس کی دولت مندی کچھ کام نہ آسکے گی ۔ نہ وہ رشوت دے کر اپنے بچاؤ کا سامان نکال سکے گا ۔ اسی طرح اچھا کام امیر کرے یا غریب کرے ھر ایک کو جزا ملے گی ۔ اُس کی غربت اُس کی کس مپرسی کا باعث نہ ھو گی ۔ اس طرح ھر شخص کو اپنے فرائض کا احساس پیدا ھوتا ھے اور اپنے اعمال کی جانچ کی ضرورت پڑتی ھے ۔ افراط اور تفریط، اسراف اور کنجوسی سب ظلم ھیں اور ھر چیز میں وسط کا نقطھ، عدالت کا مرکز ھے ۔ انسانی کمالات کی دنیا اسی اعتدال کے نقطہ پر مبنی ھے ۔
خدا کو عادل سمجھنا ، اس اعتدال کی پابندی کا واحد محرک ھے اور اسی لئے جو اس اعتدال پر قائم رھیں انھیں عادل کھا جاتا ھے اور سچّے مسلمان وھی ھیں جو عدالت کی صفت سے ممتاز ھوں ۔

نبوت اس کے تحت حسب ذیل باتیں ھیں : ۔
(۱) انسانی جماعت کو صحیح راستے پر چلانے کے لئے خدا کی جانب سے رھنما اور مصلح مقرر ھوتے رھے ھیںتاکہ ان کے ذریعہ سے اُن کو خداوندی احکام پھنچتے رھیں اور انتظامِ خلق دُرست رھے ۔ ان مصلحین کو جو خدا کی طرف سے احکام پھنچانے کے لئے مقرر ھوتے ھیں، نبی اور رسول کھتے ھیں اور انسانوں کی بھبودی کے لئے جو تعلیمات خدا کی طرف سے کسی معلم کے ذریعہ آتی ھیں اُ ن تعلیمات کے مجموعہ کو ” شریعت “ کھتے ھیں اور وہ رسول کے ذریعہ سے دنیا تک پھونچتی ھیں ۔


(۲) انسانی آبادی کا کوئی خطّہ اور کوئی طبقہ خدا کی جانب سے رھنمائی سے محروم نھیں کیا جا سکتا ۔ یہ ممکن ھے کہ بعض اقوام اور بعض ممالک کے متعلق ھم کو صحیح علم نہ ھو کہ خدا کی طرف سے اُن کی سچی رھنمائی کن اشخاص سے متعلق تھی لیکن یہ کلیہ بھر حال صحیح ھے کہ ھر قوم کے لئے خدا کی طرف سے رھنما ضرور قرار دیا گیا ھے ۔


(۳)انبیاء یعنی خدا کی طرف سے مقرر شدہ مصلحین عملی حیثیت سے دنیا کے لئے نمونہ ھوتے ھیں اس لئے انھیں گنھگار نھیں ھونا چاھئے اور نہ غلطیوں میں مبتلا ھونا چاھئے ۔اور نہ ھی بھول چوک میں گناہ کا مرتکب ھونا چاھئے ۔ اگر ایسا ھو گا تو اُن کے ھاتھوں خلق خدا کے گمراہ ھونے کا اندیشہ پیدا ھو گا اور ایسے اشخاص کا جن سے یہ اندیشہ ھو ،خدا کی طرف سے مقرر کیا جانا دُرست نھیں ھے ۔


(۴) خدا کی طرف سے مقرر شدہ نبی کے پاس کوئی ایسی غیر معمولی مخصوص بات ھونا ضروری ھے جس کو وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرے اور کوئی دوسرا شخص اس کے مقابلہ میں اس کی مثال پیش نہ کر سکے ۔ ایسی غیر معمولی بات کو ” معجزہ “ کھتے ھیں ۔ اگر ایسا نہ ھو تو سچے اور جھوٹے میں کوئی تمیز نہ ھو گی اور ھر شخص نبوت کا دعویٰ آسانی کے ساتھ کر سکے گا ۔


(۵) ھمارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ کا سب سے بڑا معجزہ جو دنیا کے سامنے ھمیشہ کے لئے باقی ھے، قرآن مجید ھے ۔ یہ اُس زمانہ کے لوگوں کے لئے بھی معجزہ تھا اس لئے کہ اُس کی فصاحت و بلاغت انسانی طاقت سے بالاتر تھی اور اب بھی معجزہ ھے اور ھمیشہ معجزہ رھے گا ۔


(۶)قرآن خدا کا کلام ھے یعنی وہ رسول کی ذاتی طاقت کا نتیجہ نھیں ھے بلکہ خدا کی طرف سے اُ ن کے دل پر اُتارا گیا ھے ۔قرآن رسول کے زمانہ ھی میں متفرق طور پر لکہ کر بطور کامل جمع کر لیا گیا تھا ۔ بعدِ وفات رسول اسے کتابی صورت دی گئی ۔ نہ اُس میں کوئی زیادتی ھوئی ھے اور نہ کمی اور نہ تبدیلی ۔


(۷) شریعت اسلام اپنی جامعیت کے لحاظ سے ھر زمانہ کے ضروریات کے لئے مکمل حیثیت رکھتی ھے اس لئے اس شریعت کے بعد کسی شریعت کے آنے کی ضرورت نھیں رھی اور نہ حضرت محمد مصطفیٰ کے بعد کسی نبی و رسول کے آنے کی ضرورت باقی رھتی ھے ۔ قرآن مجید میں واضح طور پر اعلان کر دیا گیا ھے کہ یہ سب سے آخری رسول ھیں اور خود پیغمبر نے بھی بتلایا ھے کہ آپ کے بعد کوئی نبی و رسول آنے والا نھیں ھے ۔

عقیدہ ٴ رسالت کا عملی تقاضا

رسول، خدا ئے احکم الحاکمین کا نمایندہ ھوتا ھے ۔ اُس کے احکام خدا کے احکام ھوتے ھیںلھذا کسی کو رسول کے مقابلہ میں رائے زنی ،عقل آرائی اور طبع آزمائی کا حق نھیں ھے ۔ نہ اُس کے فیصلہ کے بعد کسی چوں و چرا کا موقع ھے۔ اس طرح رسول کے اقتدار کے تحت آپس کی طرفداری، جاہ طلبی ، خود غرضی ، انانیت ، جبر وت اور نفسانیت سے پیدا شدہ ھر کشمکش کو جو جماعت کے افتراق کا باعث ھوتی ھے ،ختم ھو جانا چاھئے۔ اسی میں جماعت کی تنظیم اور ترتیب اور تمام افراد کی فرض شناسی کا راز مضمر ھے ۔


امامت

چونکہ رسول کی زندگی دار دنیا میں محدود ھے اور وہ شریعت جس کی تبلیغ رسول کی زبانی ھوئی ھے اُس کی حفاظت نیز افراد ملت کی عملی تربیت اور اُ ن کو احکام شریعت کی صحیح تعلیم دینے کی ضرورت ھے اس لئے رسول کے بعد آپ کا ایک جانشین ھونا ضروری ھے جو تمام افراد ملت میں پورے طور پر اس رسول کی شریعت اور تعلیم کی حفاظت کرنے کے قابل ھو ۔ یہ جانشین امام ھوتا ھے اور یھی رسول کا واقعی خلیفہ ھوتا ھے ۔ اس جانشین کا انتخاب خدا کی جانب سے پیغمبر خدا کے ارشاد پر ھونا چاھئے اس لئے کہ اگر رسول کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد عام افراد کو اُ ن کی رائے ، خواھش اور مرضی پر چھوڑ دیا جائے تو مطلق العنانی اور خود غرضی بر سرِ کار آجائے گی جس کا نتیجہ افتراق و انتشار و ابتری کے سوا کچھ نھیں ھو سکتا اور اس طرح جو شیرازہ پیغمبر خدا کی اطاعت مطلقہ کی بناء پر جمع ھوا تھا وہ بکھر جائے گا ۔ امامت ِ منصوصہ کا عقیدہ اس اجتماعی انتشار کا سدّ باب ھے ۔ اس کے تحت حسب ذیل اُمور ھیں ۔
(۱) رسول کے بعد بھی خدا وندی قانون پر دنیا کو چلانے کے لئے مرکز موجود رھتا ھے ۔
(۲) یہ مرکز ایسا ھوتا ھے جو خود قانون پر عمل کا بھترین نمونہ ھوتا ھے اس لئے اسے بھی گناھوں اور خطاؤں سے بری ھونا ضروری ھے ورنہ پھر اُس کے ھاتھوں خلق خدا کی گمراھی کا امکان ھو گا اور مفاد امامت ختم ھو جائے گا ۔
(۳) اسلام کسی شھنشاھیت کی بنیاد قائم نھیں کرتا بلکہ انسانیت کا نظام بناتا ھے اور ایک قوم کی تشکیل کرتا ھے جو انسانیت کا صحیح نمونہ ھو اور اس نظام انسانیت کے لئے ایک محافظ قرار دیتا ھے جو تمام انسانوں کا واحد مرکز ھو ۔یہ اپنے زمانہ میں رسول ھیں اور رسول کے بعد اُ ن کے نامزد کردہ جانشین یعنی امام اور اگر امام براہ راست راھنمائی کے لئے سامنے نہ ھوں تو ایسے افراد جو اُن کی تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ مطلع اور ان پرعامل ھوں ۔
(۴) امام کے مقابلے میں کسی کو حکومت کا حق نھیں ھے اور ا گر اس طرح کی حکومت قائم ھوتو غیر شرعی ھو گی ۔
(۵) نظریھٴ امامت میں صرف قرابت یعنی رسول سے رشتہ داری کا کوئی دخل نھیں ھے بلکہ اصل معیار صفات کی بلندی اور اُس کے لحاظ سے خالق کی جانب سے بحیثیت جانشینِ رسول نامزد ھونا ھے اور اسی لئے محبت اھلبیت (ع) نجات ِ آخرت کے لئے ضروری ھے اور بغیر اس کے انسان با ایمان نھیں سمجھا جا سکتا۔ یہ اُنھیں ھستیوں کی محبت ھے جو اپنے کردار کے لحاظ سے ” معصوم “ ھیں اورجنھیں خالق کی طرف سے ھدایت خلق اور نیابتِ رسول کے لئے مقرر کیا گیا تھا ۔
(۶) چونکہ ھدایت خلق اور حفاظت شریعت کا کام مستقل طور پر قائم ھے ۔ اس لئے اس سلسلہ کی کسی فرد کا آخر عمر ِ زمانہ تک موجود رھنا ضروری ھے اور جب کہ وہ آنکھوں کے سامنے نہ ھو تو اُ سے پردھٴ غیب میں باقی و برقرار اور اپنے طور پر بر سر کار ماننا ضروری ھے۔

قیامت اس کے تحت حسب ذیل امور ھیں ۔
(۱) خدا کی طرف سے بندوں کو اُ ن کے اچھے اور برے افعال کاصلہ ملنا ضروری ھے ۔جو اچھے کام کریںگے انھیں جزا ء اور جو برے کام کریںگے انھیں سزا ملے گی اس لئے کہ خدا عادل ھے اور عدالت کا تقاضا یھی ھے ۔
(۲) جزاء و سزا کے لئے ایک دن مقرر ھے جسے ” قیامت “ کھتے ھیں اس دن سب مرنے والے دوبارہ زندہ ھوں گے تاکہ انھیں جزا و سزا دی جائے ۔
(۳) جزاء یعنی اچھے کاموں پر جو انعام کا اعلان ھے وہ کبھی ٹل نھیں سکتا لیکن گناھوں پر سزا کا جو اعلان ھے وہ صرف استحقاق کا پتہ دیتا ھے یعنی یہ شخص سزا کے قابل ھے لیکن عفووکرم کے ما تحت ھو سکتا ھے کہ خدا اس سے درگزر کر دے ۔اس کا نام ” مغفرتِ ذ نوب “ یعنی گناھوں کی بخشش ھے ۔
(۴) ان گناھوں کی بخشش کبھی بارگاہ الٰھی میںرسول یا ائمہ (ع) دین کی عرضداشت سے بھی ھوتی ھے ۔ اس کو شفاعت کھتے ھیں ۔


اصول دین کا خلاصہ یا اصل جوھر

مذکورہ بالا اصول دین کو دیکھا جائے تو معلوم ھو گا کہ ان کوقبول کرنے کے بعد ایک ایسی قوم کی تشکیل ھوتی ھے جو خدا کی بادشاھت کو تسلیم کرتی ھے اور اسی کے ما تحت اس کے مقرر کردہ حاکم( رسول ) اور اس کے نائبین ( اولوالامر ) یعنی اٴئمہ معصومین (ع) کے احکام پر وفاداری کے ساتھ عمل کرتی ھے ، خالق کی عظمت کے مقابلہ میں کسی دنیوی طاقت سے مرعوب نھیں ھوتی اور اسی طرح کسی باطل اقتدار کی بیعت کے لئے بھی تیار نھیں ھوتی اور اقتدار الٰھی کے مقابلہ میں خود اپنے ذاتی اختیار اور ذاتی رائے سے کبھی کا م نھیں لیتی اور اس کے مقرر کردہ مرکز سے منحرف نھیں ھوتی اسی کا نام ” شیعیت “ اور یھی ھے ” حقیقت اسلام “ ۔
اصول دین کے نمایاں پھلو یہ ھیں ۔
(۱) خالق کی ذات کو اس کے شایان شان کمالات کے ساتھ ماننے کا نام توحید ھے ۔
(۲) خالق کے افعال کو اس کی شایان شان حکیمانہ رفعت کے ساتھ ماننا عدل ھے ۔
(۳) رھنمایان دین جو اللہ کے مقرر کردہ ھیں، کو کامل طور پر کردار کی ھرپستی سے بلند ماننے کا نام ” عصمت “ ھے ،
جو نبوت وامامت کا لازمی جزء ھے ۔
(۴) خالق کی طرف سے رھنمائی کے نظام کو تا قیامت باقی ماننے اور” حکومت الھیہ “کو اس کے تمام تقاضوں کے ساتھ قبول کرنے کا نام ” امامت “ ھے ۔
(۵) جزا و سزا کے لئے اس دورِ زندگی کے اختتام پر ایک دوسرے دور حیات کو تسلیم کرنا قیامت ھے ۔


مذھب شیعہ کی خصوصیات


( عقائد کے لحاظ سے )

(۱) تنزیہ خالق یعنی خدا وند عالم کے کمال ذات کے خلاف کسی طرح کے بھی نقص ، کسی طرح کی جسمانیت ، خدا کی غیر خدا کے ساتھ کسی طرح کی بھی مشابھت کو گوارانہ کرنا ۔
اسی بناء پر، دنیا یا آخرت کسی بھی عالم میں ، وہ جسمانی آنکہ سے خالق کے دیدار کو صحیح نھیں سمجھتے ۔
اس کے لئے ذات کے علاوہ صفات نھیں سمجھتے کیونکہ اس طرح ذات اپنے کمال میں صفات کی محتاج قرار پاتی ھے ۔ صفات خدا عین ذات خدا ھے ۔
ذات خالق کے سوا کسی قدیم کا تصور نھیں کرتے مثلاً اگر ذا ت کے علاوہ اس کے کلام کو بھی قدیم سمجھا جائے یا مزید آٹھ صفتوں کو قدیم سمجھا جائے تو صفت قِدَم میں ذات الٰھی کے شریک دوسرے امور ھو جاتے ھیں۔ اس لئے جس طرح تمام ادیان عالم میں دین اسلام میںتوحید سب سے زیادہ مکمل ھے اُسی طرح تمام فرق اسلامیہ میں شیعی مذھب کی توحید سب سے زیادہ خالص ھے ۔
(۲) عدل الٰھی کو اس کے پورے تقاضوں کے ساتھ تسلیم کرنا جیسا کہ پھلے عرض کیاگیااور اس کے معنی یہ ھیں کہ خالق کے افعال میں کوئی غلط، برا کام نھیں ھو سکتا ۔
(۳) شیعہ اتنی ھمہ گیری کے ساتھ ” حق کو طاقت “ مانتے ھیں کہ خالق کے افعال میں بھی سوا ئے حقانیت اور انصاف کے کسی دوسرے تصور کے قائل نھیں ھیں ۔
یہ خیال کہ وہ قادر مطلق ھے لھذا اس پرکوئی پابندی نھیں ” طاقت کو حق “ سمجھنے کا نتیجہ ھے جو شھنشاھان خود مختار کی مطلق العنانی کا سنگ بنیاد ھے ۔ شیعہ اس تصور کے شروع سے آخر تک خلاف ھیں ۔