مصیبت سے مقابلہ کی مہارتیں

قرآن وحدیث وہ گراں قدر سرمایہ ہیں جنہیں عملی تعلیمات میں تبدیل کرنا چاہیے اور عصر حاضر کی زبان میں بیان کرنا چاہیے، اس خصوصیت کی اس مقالہ میں بخوبی رعایت کی گئی ھے اور اسی وجہ سے نفسیات کے ماھر دانشوروں اور ڈاکٹروں کی طرف سے اس کا بہت اچھا استقبال کیا گیا ھے۔۔
مصیبت زمین میں خدا کی قطعی سنت ھے۔ہم خاکی لوگ سختی میں پیدا کئے گئےہیں 1 اور ہماری روح کے جوہر کی جلاء کے لئےرنج ومصیبت کا صیقل برداشت کرنا ضروری ھے۔خداوند متعال نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ اس مسٔلہ کی طرف اشارہ کیا ھے اور گزشتہ امتوں اور بزرگ رسولوں کی مصیبتوں کو ہمارھےسامنے بیان کیاھے۔سورۂ بقرہ کی ۱۵۵ویں آیۂ شریفہ میں مصیبتوں کی قسموں کو بیان کیا ھے اور صبر کرنے والوں کو بشارت دی ھے:
"ولنبلونّکم بشیٍٔ من الخوف والجوع ونقصٍ من الاموال والانفس والثمرات وبشّر الصابرین"۔
"ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے اور اے پیغمبر(ص) صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجئے۔"
صبر وتحمل اس مصیبت بھری دنیا میں زندگی کا ایک لازمہ ھے اور ہمارے ہستی شناس ائمہ معصومین علیھم السلام نے بہت سے ارشادات وتعلیمات اپنے پیروؤں کے لئے یادگار میں چھوڑے ہیں تاکہ اس عظیم امتحان پر صابر وشاکر بن کر بشارت حاصل کریں۔ہم ان ارشادات وتعلیمات کوان پر عمل کرنے کے مناسب وقت اور مرحلہ کی بنیاد پر تین حصوں میں تقسیم کر رھے ہیں:

(۱) اضطراب کے اضافہ سے روکنا
(۲) اضطراب کی کمی
(۳) مکمل کنٹرول
ان مرحلوں میں سے ہر ایک مرحلہ متعدد روشوں اور طریقوں کا حامل ھےجو کہ روایات سے اخذ کئےگئےہیں۔ان کے بیان کرنے سے پہلے اس بات کا ذکر ضروری ھے کہ اس مقالہ میں مصیبت، مالی اور جانی مصیبتوں اور روحی صدموں سب کو شامل ھے اور حدیث نبوی(ص) کی تعبیر میں: "کل شیء ساءالمؤمن" 2 ھے، یعنی: ہر وہ چیز جو ہم کو اور ہماری روح کو آزار وتکلیف دے، جوتے کے فیتے ٹوٹنے اور لباس پھٹنےسے لے کر تمام مال ودولت، اعزاء اور اولاد کے کھودینے تک۔

الف) اضطراب کے اضافہ سے روکنے کے طریقے

مصیبت کے وقت ابتدائی دن اور گھڑیاں سخت اور تلخ ہوتی ہیں۔مصیبت کا شدید دباؤ اوراس سے پیدا شدہ دہشت انسان کو کبھی کبھی غیر عادی کاموں کی طرف ابھارتی ھے، بعض لوگ رونے پیٹنے لگتے ہیں، بعض سکون بخش دوائیاں استعمال کرتے ہیں اور بعض بیہودہ حرکتیں انجام دینے پر اتر آتے ہیں، لہذا ہمارا فریضہ سب سے پہلے بیہودہ حرکتوں سے روکنا ھےکہ کبھی کبھی خاص اور شدید حالات میں احمقانہ کام جیسے نشیلی چیزوں کا استعمال کرنے لگتےہیں۔

1) سکون

ہماری روایات میں اس طرح کے کاموں سے منع کیا گیا ھے۔امیرالمؤمنین حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں:
"اذاأتتک المحن فاقعد لها، فأن قيامک فيها زيادۃ لها" 3
جب تم پر مصائب ٹوٹ پڑیں تو ان کے سامنے بیٹھ جاؤ اس لئےکہ ان کے سامنے تمہارا قیام کرنا ان کے اضافہ کا باعث ہوگا۔یہ حدیث مصیبت پڑنے کے وقت بیہودہ حرکتوں کو صحیح نہیں سمجھتی اور بتاتی ھے کہ نہ صرف وہ تسکین کا سبب نہیں بنتیں بلکہ مصیبت زدہ کی روحی اور جسمی قوتوں کے بیکار ہو جانے کا باعث بن جاتی ہیں (کہ جن قوتوں کو عقلانی اور منظم طریقے سے استعمال کرنا چاہئے) ۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی طرف منسوب ایک ارشاد میں ایسے شخص کومختنق سے تشبیہ دی گئی ھے (مختنق اسے کہتے ہیں جس کی گردن رسی سے باندھ دی گئی ہو اور اس کادم گھٹ رہاہو) ایسا شخص جتنا ہی زیادہ کوشش کرے گا اور ہاتھ پاؤں مارے گا اس کی حالت اتنی ہی زیادہ سخت اور بدتر ہوگی۔ 4
وہ تاجرجس کی تجارت ٹوٹ گئی ہو اگر وہ یکبارگی بے سوچے سمجھے اپنی طاقت وقوت کی حد سے بڑھ کرجسمانی قوتیں صرف کرتا ھے اور چاہتاھے کہ پہلی فرصت میں اپنے نقصان کی تلافی کرلے تووہ نہ صرف اپنی مصیبت کی تلافی نہیں کرپاتا بلکہ وہ اپنی صحت وسلامتی اور سکون وآرام بھی ہاتھ سے دھو بیٹھتا ھے۔
شاید مصیبت زدہ شخص کے اپنے مرحوم عزیز کی قبر میں وارد ہونے کی کراہت کا جو فقہی حکم ھے اس کا راز بھی یہی ہو، کیوں کہ بہت سے مصیبت زدہ لوگ اپنے مرحوم عزیز کی قبر میں وارد ہونے اور اس کے دوبارہ دیدار سے تاب ضبط نہیں لاتے اور اپنی پریشانی اور دوسرے ہمراہوں کے گریہ وزاری کے اضافہ کاباعث بن جاتے ہیں۔

2) بیتابی نہ کرنا

بے تاب ہونا، تڑپنا یا جزع وفزع، مصیبت کے مقابل کمزور افراد کا عکس العمل ھے۔
جزع یعنی مصیبت زدہ شخص کے روحی اور نفسانی تعادل وتعاون وتوازن کا بگڑنا ھے جودوشکلوں میں ظاہر ہوتا ھے:
(۱) اضافی کام
(۲) کم کاری۔
ایسا شخص یا ایسے کام کرنے لگتا ھے جو اس سے پہلے نہیں کرتا تھا اور وہ کام زیادہ تر گریہ وزاری، بے تابی، تڑپ، اور فریاد و واویلا کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، یا وہ زندگی کے لازمی اور اپنے روز مرہ کے کاموں سے ہاتھ کھینچ لیتا ھے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرخاموش بیٹھ جاتا ھے اور برق زدہ افراد کے ماننداپنے دائمی کاموں کوچھوڑ دیتا ھے۔ بہت سی روایات میں اس حالت سے منع کیا گیا ھےاور اس سے پرہیزکرنے پر تاکید کی گئی ھے۔امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام جزع وفزع اور بے تابی کونہ صرف مصیبت زدہ شخص کا اضطراب ختم ہونے کاسبب نہیں سمجھتے بلکہ اسے اس کے لئے مصیبت کے اور اضافہ کاسبب سمجھتے ہیں 5 ، کیونکہ یہ شخص روزانہ کے کاموں سے کنارہ گیری اور گوشہ گیری کی وجہ سے اور کام دھندے میں مشغول ہونے کے بجائےباربار اسی مصیبت کو یاد کرتاھے اور ہمیشہ اسی کے بارے میں فکر کرتاھے۔
یہ مصیبت کے حقیقی معنی ہیں اس لئے کہ خود مصیبت اس کے یاد کرنے سے کم نقصان پہنچاتی ھےاور یہ وہی مولیٰ الموحدین حضرت علی علیہ السلام کاارشاد ھے:
"الجزع عندالبلاء تمام المحنة" 6 مصیبت کے وقت جزع وفزع کرنا پوری مصیبت ھے۔ہمارے دوسرے ائٔمہ معصومین علیھم السلام نے بھی اس مسٔلہ پر پوری توجہ دی ھےاور ان سے وارد شدہ بہت سی روایات میں جزع وفزع اور بے تابی سے منع کیا گیاھے۔ 7 اس بناپر غیر عادی کام جیسے کالا لباس بدن سےنہ اتارنا، کئی دنوں یاہفتوں تک سراورداڑھی کے بال نہ کاٹنا، صفائی کرنا، گریبان چاک کرنا اور سرو سینہ پیٹنا یہ سب غلط ھے۔

3) سکوت دوسرا طریقہ

جو مصیبت کے پہلے دنوں میں مفید ھے، وہ سکوت اور خاموشی ھے۔شکوہ کرنے اور اپنے درد منددل کا دستر خوان ہر شخص کے سامنے بچھا دینے کا نتیجہ صرف اپنے کوخوار وذلیل کرنا ھے اور یہ مصیبت سےپیدا شدہ درد کوذرہ برابر کم نہیں کرتا۔دوسرے لفظوں میں مصیبت کے وقت آپے سے باہر ہونااور اپنے اوپر قابو نہ رکھنے کے بجائے بے صبری کا مظاہر ہ کرناممدوح نہیں ھے بلکہ سکوت وخاموشی مصیبت کے مقابلہ میں روح وجسم کی کمزوری سے روکنے کا راستہ ھے۔سکوت سے بہت ممکن ھے کہ ذھن میں زندگی کے حادثوں سے پیدا شدہ صدموں کے جبران اور حل کا راستہ اور خلاقیت کا موقع حاصل ہو۔اور انسان کو اس بات کی فرصت ملتی ھے کہ مصیبت کے چھوٹے بڑے ہونے اور اس کے سبب کے بارے میں سوچے اور اس سے مقابلہ کے طریقوں کو سمجھے۔
حضرت پیغمبر اکرم(ص) کی وفات حسرت آیات کے بعد بعض بنی ہاشم اتنا پرشان اور غمگین ہوگئے تھے کہ اپنی حالت کی پرواہ کئے بغیر سرو سینہ پیٹتے تھے اور بے تابی کا اظہار کرتے تھے لیکن امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے جیسا کہ خود فرمایا ھے سکوت وخاموشی اختیار کیا اور اس طرح عالم وجود کی سب سے زیادہ عزیز ہستی کے فقدان کو برداشت کیا۔ 8

4) خدا سے گفتگو

بہت سے ایسے ہیں جونہ خاموش رہنے کی قوت رکھتے ہیں اور نہ کچھ نہ بولنے کی طاقت اور شکوہ شکایت کرنے اور نا خوشی ظاہر کرنے کی خواہش رکھتے ہیں،
نہ تو وہ شکایت نہیں کرسکتے اور نہ تووہ خدا سے گلا کرنا چاہتے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ اعتراض اور شکایت کرکےاور کون ومکان کو برابھلا کہہ کے کفر گوئی کو ظاہر کریں۔ہماری روایات نے ایسےافراد کو تاکید کی ھے کہ اپنے دل کاخوان خدایا اپنے حقیقی دوستوں کے سامنے بچھائیں اور اپنے اعتراضات جوان کے انتقال کرنے، فقیر کے محتاج ہونے، ضعیف اور بوڑھا ہونے اور زخمی شخص کے کمزور ہونے سے متعلق ھےخدا کی بارگاہ میں پیش کریں۔
دوسرے لفظوں میں، ہماری روایات میں مصیبت زدہ افراد کے عکس العمل کوناخوشی کے اظہار اور شکوہ وشکایت کی صورت میں منع کیاھے، لیکن اس کے بجائے ایک مناسب بدل اور عوض کا حکم دیا ھے کہ وہ بدل خدا سے مناجات، اس کی بارگاہ میں گریہ وزاری اور اس سے صبر وتحمل اور ہر اس طریقہ سے صدمات کے جبران کی درخواست ھے جس میں ہماری خیر صلاح سمجھے۔یہ مناسب بدل، توبہ کے ساتھ قابل مقایسہ ھے کہ ایک طرح خدا کے سامنے اپنی کمیوں اور حاجتوں کو فاش کرنا ھے۔توبہ، دوسروں کے سامنے "اپنے انتقاد" اور عیب وگناہ کے فاش کرنے کا بدل ھے۔دوسرے لفظوں میں خدا اس درمیان ہمارا بہترین صمیمی دوست اور محرم راز ہوجاتاھے چونکہ وہ رئوف، مہربان اور عالم وقادر ھے۔ہم اپنے درد اس سے بیان کرتے ہیں اور اس سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہم پر رحمت نازل کرے اور کھوئی ہوئی نعمت کو دوسری صورت میں ہمیں واپس کرے یا عالم آخرت میں ہمارے لئے ذخیرہ کرے۔اس بات پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں، ہم ان میں سے روایت پر اکتفا کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ھے:
"اذاأضاق المسلم فلا يشکونّ ربّه۔عزوجل۔وليشک الیٰ ربه الذی بيدہ مقاليد الامور وتدبيرھا" ۔ 9
جب مومن پر کوئی سختی پیش آۓتو وہ ہر گز اپنے پروردگار کی شکایت نہ کرے بلکہ اس سے شکایت کرےے کہ تمام امور کی کنجیاں اور تدبیر اسی کے ہاتھ میں ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ھے کہ جو شخص اپنے حال کی شکایت لوگوں سے نہ کرے اس کی جزا، اللہ کے نزدیک مغفرت ھے اور حضرت پیغمبراکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق خدا نے اس بات کو اپنے اوپر واجب قرار دیاھے۔10 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
"من شکا الیٰ اخيه فقد شکا الیٰ الله ومن شکا الیٰ غير اخيه فقد شکا الله"
جو شخص اپنے دینی بھائی سے شکوہ کرے اس نے گویا خدا سے شکوہ کیا ھے اور جوشخص اس کے علاوہ دوسرے سے شکوہ کرے اس نے خداکاشکوہ کیاھے۔

5) گریہ سے تسکین

یہ روش بھی گزشتہ روش کے مانند ان لوگوں کے لئے ھےجو کھوئےھوئی یا مفقود شخص سے کچھ زیادہ ہی جزباتی تعلق رکھتے ہیں۔مصیبت پڑنے کے پہلے مرحلوں میں مرحوم عزیز کی یاد باطنی غم اور ظاہری گریہ کا باعث ھوتی ھے اور یہ کسی بھی طرح ناپسند نہیں ھے۔ہماری احادیث اس فطری عکس العمل اور اثر کو انسانی احساسات وجزبات کا نتیجہ جانتی ہیں۔
ایسا جذبہ جو کھوئی ھوئی شے اور مرحوم شخص سے نزدیکی رابطہ کے احساس کی بنا پر فراق وجدائی کی تاب نھیں رکھتا، خصوصا اگر یہ جدائی دائمی اور بغیر بازگشت کے ھو۔ایسی حالت میں ہمارے آئمہ معصومین علیھم السلام کی مکرر نصیحت صرف ھزیان گوئی اور بیھودہ کاری سے پرھیز کرنا ھے۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نےاس بارے میں فرمایاھے:
"رخص رسول الله فی البکاء عند المصيبة وقال: النفس مصابۃ والعين دامعة والعهد قريب، فقولوا مارضی الله ولا تقولوا الھجر"12
حضرت پیغمبر صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصیبت کے وقت رونے کی اجازت دی ھے،
اور فرمایا ھے: نفس مصیبت زدہ ھے، آنکھ گریاں ھے اور عہد ویاد نزدیک ھے۔لہذاایسی بات کھو جو خدا کو خوشنود کرے اور ھزیان گوئی نہ کرو۔
"رخص" کے لفظ سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ گریہ کا حکم نھیں دیا گیا ھے اور صرف ان لوگوں کے لئے جائز سمجھا گیا ھے جو اپنے اوپر قابو نھیں رکھتے۔اس بات کی تائید مندرجہ ذیل دو روایتوں سے بھی ھوتی ھے: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
"من خاف علیٰ نفسه من وجد بمصیبة فلیفض من دموعه فانه یسکن منه"13
جو شخص مصیبت پڑنے سے اپنی جان کے متعلق خائف ھوتو است چاہئے جی آنسو بھائے اس لئے کہ وہ اسے تسکین دیتاھے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایک دوسری روایت میں ایک مصیبت زدہ شخص سے فرماتے ھیں: "فافض من دموعک فانها تسکن" 14
تم آنسو بھاؤ کہ وہ تسکین بخشنے والاھے۔
اس کے معنیٰ یہ ھیں کہ جو لوگ مصیبتوں سے دور ھوتے ھیں اور جذبات واحساسات سے بہت کم متاثر ھوتے ھیں یاجو لوگ قوی دل کے مالک ھوتے ھیں اور مصائب کے سامنے نھیں جھکتے وہ رونے کی احتیاج نھیں رکھتے اور یہ روش ان لوگوں کے لئے لازم ھے کہ آنسوؤں کو روکنے اور غم کے دبانے سے جن کی جان پر آبنتی ھے اور گریہ وزاری کا مظاہرہ نہ کرنے کی صورت میں ان کی روح فرسودہ ھوجاتی ھے اور دل مردہ ھوجاتا ھے۔یہ بالکل ان بعض تندرو فرقوں اور شدت پسند افراد کے مد مقابل ھے جو مردہ پر رونے کو حرام سمجھتے ھیں اور اس سے منع کرتے ھیں یا کم از کم اسے جائز نھیں سمجھتے۔

6) تسلی (صبر وتحمل کی تلقین)

ہم مصیبت زدہ اشخاص سے ملاقات کے وقت روایات سے استفادہ کرتے ھوئےان کو مصیبت زدہ اشخصاص پر الہٰی سلوت (تسلی) کے نزول کا پیغام سنا سکتے ھیں اور اس طرح سے انھیں صبر وتحمل کی تلقین کرکے صبر وتحمل کا درجہ بلند کرسکتے ھیں۔سلوت یعنی یہ کہ انسان مصیبت کو اپنے فعال حافظہ سے دور کرسکے اور اسے بھلا سکے۔وہ اس حالت میں دھیرے دھیرے مصیبت کی دائمی فکر سے دور ھوجاتاھے اور اسے اسی پھلی شدت کے ساتھ نھیں یاد کرتا۔یہ فراموشی اور بھول انسان کو مصیبت کے اولین جان کادرد وغم کے چنگل سے چھڑا کراسے زندگی ضروریات اور دوسرے کاموں میں مشغول رکھتاھے۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اسی بارے میں ارشاد فرمایا ھے:
"اذاتباعدت المصیبة قربت السلوۃ" 15 جب مصیبت دور ھوجاتی ھے تو تسلی نزدیک ھوجاتی ھے۔نیز آپ ھی سے یہ بھی منقول ھے۔"ان اللہ ینزل الصبر علی قدر المصیبۃ"بے شک خداوند متعال صبر کو مصیبت کی مقدار بھرنازل فرماتاھے۔"اذاصبرت فللت حدھا" 17 صبر مصیبت کو بھلا دیتا ھے اسے انسان کے لئےقابل تحمل بنادیتاھے۔مصیبت زدہ شخص کو اس بلند معرفت کی رہنمائی کرنا اور اسے سمجھانا اس کی روح بلند کرنے میں موثٔراور اھلبیت علیھم السلام کے ارشادات کے معتقدین کے لئےتسلی بخش ھے۔تعزیت کے وقت تسلیت دینے کے معنیٰ بھی اس کے علاوہ اور کچھ نھیں ھیں۔
بعض روایات میں سلوت (تسلی) کے نزول کی ضرورت کی طرف اشارہ کیاگیا ھے اور اسے انسان پر اس کی زندگی اور نسل کی حفاظت کے لئےخدا کا احسان سمجھا ھے۔ 18 یہ بات قابل توجہ ھے کہ یہ الہٰی سلوت خانوادہ کے سب سے دردمند شخص پر نازل ھوتی ھے اور اسے تسکین دیتی ھےکہ اگر ایسا نہ ھوتو دنیا کا نظام درھم وبرھم ھوجائےاور دنیا آبادنہ ھو۔ 19

7) عبادت وذکر

روایات میں لے کہ مصیبت کے وقت حضرات آئمہ طاھرین علیھم السلام کی سیرت نماز پڑھنا،
صدقہ دینا، روزہ رکھنا اور ذکرکرنا بھی رھی ھے۔روایات ھوئ ھے کہ امیرالمٔومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی زندگی کی سخت مصیبتوں کے وقت ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور کبھی کبھی ساٹھ لوگوں کو صدقہ دیتے تھے اور تین دن تک روزہ رکھتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی ان چیزوں کو حکم دیتے تھے۔ 20
یہ عبادتیں الہٰی رحمت ورضایت اور خدائ محبت پیداکرنے کے علاوہ کس قدر انسان کے مصیبت بھلادینے کا سبب بنتی ھیں اور اسے عام زندگی کی طرف لے جاتی ھیں۔
ذکربھی آئمہ علیھم السلام کی سیرت میں مصیبت کے وقت ایک خاص مرتبہ کا حامل ھےخصوصا مخصوص اذکار جیسے ذکر ھونسیہ جوکہ قرآن کریم سے ماخوذھے:
"وذاالنون اذذهب مغاضبا فظن ان لن نقدر علیه فنادیٰ فی الظلمٰت ان لااله الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین، فاستجبناله ونجینٰه من الغم وکذالک ننجی المؤمنین"۔ 21
اور ذوانون (یونس کویادکرو) جبکہ غصہ میں آکرچلتے ھوۓاور یہ خیال کیا کہ ھم ان پرروزی تنگ نہ کریں گے(تو ھم نے انھیں مچھلی کے ھیٹ میں پھونچا دیا) توگھٹا ٹوپ اندھیرے میں (گھبراکر) چلا اٹھا کہ (پروردگارا) تیرے سوا کوئی معبود نھیں تو (ھر عیب سے) پاک وپاکیزہ ھے شک میں قصور وار ھوں تو ھم نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں رنج سے نجات دی اور ھم تو ایمانداروں کویوں ھی نجات دیا کرتے ھیں۔
آیۃٔکریمہ کی آخری عبارت تمام مؤمنین کو یہ خبر دیتی ھے کہ خداوند تعالیٰ ھر مؤمن کی آواز کو سنتاھے اور اسے رنج وغم سے نجات دیتاھے۔
ذکر"لاحول ولاقو ةالا بالله" بھی نھایت تاثیررکھتا ھے یہ ذکر جس کے معنیٰ یہ ھیں کہ تمام تغیرات وتبدیلات اور نشیب وفراز کی قوت خداکے ھاتھ میں منحصر ھے اور جس کی طرف ھم مقالہ کے تیسرے حصہ میں اشارہ کریں گے، آیۃ استرجاع (ان للہ وانا الیہ راجعون) کے مانند مصیبت زدہ شخص کو ایک بنیادی نظر اور عقیدت بخشتاھےاور اسے غم واندوہ سے بچنے کے لئے دفاعی اسلحلہ سے مسلح کرتاھے۔اگردنیا میں ھر گردش وتغییرحق مطلق کے ھاتھ میں ھےاور ھرچیز اسی کی طرف سےاور اسی کی طرف پلٹنےوالی ھےتو ھم وغم کیوں؟
ذکر استرجاع کا حکم متعدد روایات میں دیا گیاھے ۔حضرت پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زھرا صلوات اللہ علیھا سے احتضار کے وقت فرماتے ھیں:
"قولی اذا مامت: انا لله وانا الیه راجعون، فان لکل انسان بها من کل مصیبة معوضة"۔ 22
میں جب دنیا سے چلا جاؤں تو کھو: انا لله وانا الیه راجعون (بیشک ھم خدا کے لئے ھیں اور اسی کی طرف پلٹنے والے ھیں) کہ ھر انسان اس کے ذریعہ اپنی ھر مصیبت کے لئے عوض اور بدل پاتا ھے۔
نیز امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر رضی اللہ عنہ کی خبر شھادت سنے کے وقت اسی ذکر کو زبان مبارک پر جاری کرتے ھیں (جیساکہ سب سے پھلے یہ ذکر استرجاع آپ ھی نے حضرت حمزہ علیہ السلام کی شھادت کے موقع پر فرمایا تھا اور آیت کی صورت میں اس کے بعد نازل ھوا ۔مترجم) ۔

8) اھم کاموں میں مشغول ھونا

کبھی کبھی حادثہ اور مصیبت اتنی عظیم ھوتی ھے جس کے سبب انسان زندگی کے فعال دائرہ سے خارج ھوجاتا ھے اور بے تابی اور بے صبری کی وجہ سے اپنے اھم کاموں کو ترک کردیتا ھے اور غیر معمول رنج وغم اٹھانے اور حد سے زیادہ طولانی عزاداریوں میں لگ جاتا ھے ایسے لوگوں کے درد کی دوا زندگی کے اھم اور بنیادی کاموں میں مشغول ھونا ھے ۔حتیٰ اگر کوئی انسان ایسا بھی نہ ھو اور اپنے اوپر کنٹرول رکھتا ھو اس کے لئے بھی بہتر ھے کہ مصیبت کو اھم اور بڑےکاموں میں مشغول رکھ کر اپنے ذہن سے دورکردے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے حضرت پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم مصیبت میں اسی روش کو اختیار کیا تھا۔آپ خاموشی اختیارکرنے کے علاوہ قرآن کریم کی جمع آوری میں لگ گئےاور کلام الھی نیز پیغمبر(ص) کے عھدکی جمع آوری کے اھم اور بنیادی کام میں مشغول رہ کراپنی دردمند روح کو سکون بخشا ۔اس بات کی سند وھی ھے کہ جس کا ایک حصہ سکوت سے متعلق مطلب میں ذکر کیا جا چکا ھے۔

9) ماحول کے عوامل واسباب کی پاکیزگی

جس طرح سے جسمانی بیماریوں اور معمولی دردوں میں بیماری پیدا ھونے یا شدید ھونے کے عوامل واسباب سے بیمار کا دور رکھنا اس کی حفاظت کے لئے ایک اھم اور بنیادی اقدام ھے اسی طرح سے نفسیاتی مشکلات میں بھی مصیبت زدہ شخص کو مشکل بڑھانے والے عوامل واسباب سے دور رکھنا چاھیۓ۔انھیں مشکلات بڑھانے والوں میں سے ایک ان لوگوں کی شماتت اور زخم پر نمک چھڑکنا ھے جو مصیبت زدہ شخص پر مصیبت پڑنے سے خوش ھوتے ھیں اور اپنی دلی خوشی کو مختلف طریقوں سے ظاھر کرتے ھیں اور اپنا زھر شماتت، مسخرہ اور مزاق کرکے باھر نکالتے ھیں۔
یہ حالت ان مصیبتوں کے وقت جبکہ مصیبت زدہ شخص اپنے کو اس میں مقصر (قصوروار)
سمجھتا ھے، اور زیادہ سخت ھوجاتی ھے، اس لئے کہ ایسی مصیبتوں کی نفسیاتی تشویش کئی گنا بڑھ جاتی ھے۔اس وجہ سے بہت سی روایات میں مصیبت زدہ شخص کی سرزنش کرنے اور اس کا مزاق اڑانے سے منع کیا گیا ھے اور مسخرہ باز کو ھوشیار کیا گیا ھے کہ وہ بھی اسی مصیبت میں گرفتار ھوگا۔
حضرت پیغمبر خداصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں فرمایا ھے:
"لا تظهر الشماتة باخیک فیرحمه الله ویبتلیک" 24
تم اپنے بھائی کی شماتت نہ کرو کہ خدا اس پر رحم کرے گا اور تمھیں مبتلا کردےگا۔
ایک دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بات پر راکید کرتے ھیں اور شماتت کرنے والے کے بلا میں مبتلا ھونے کو یقینی سمجھتے ھیں اور فرماتے ھیں کہ جب تک وہ مصیبت نہ دیکھ لے اس دنیا سے نھیں جاتا۔
ابان ابن عبد الملک نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ھے:
"من شمت بمصیبۃ نزلت باخیہ لم یخرج من الدنیا حتیٰ یفتتن بہ" 25
جو شخص اپنے دینی بھائی کی اس کی مصیبت کی وجہ سے شماتت کرے تو وہ دنیا سے نھیں جاۓ گا یھاں تک کہ خود اس مصیبت میں مبتلا ھوجاۓ۔
مصیبت زدہ شخص کے حق میں ھمارا فریضہ ھےکہ ھم خود بھی اس کی شماتت سے پرھیز کریں اور دوسروں کوبھی ایسے برے کام سے باز رکھیں۔تربیتی سرزنش، تجربہ منتقل کرنے اور عبرت پیدا کرنے کے اعتبار سے ایک دوسرے مناسب موقع پر سنانی چاہئے۔جس شخص کا نھایت سرعت اور حد سے زیادہ تیز دوڑ کے سبب تصادم (ایکسیڈینٹ) ھوگیاھے اور اس نے اپنے اعزاء کو کھودیا ھے وہ نصیحت سننے کا کان اور قبول کرنے کی روح نھیں رکھتا، وہ اس وقت دستگیری اور رحم کا محتاج ھے نہ کہ سرزنش اور نصیحت کا۔تادیب اور تعلیم کے لئے ایک دوسرازمانہ چاہئے۔

ب) اضطراب کم کرنےکے طریقے

پھلے حصہ میں ھم نےایسے طریقےذکر کئے کہ مصیبت پڑنے کے پھلے مرحلہ میں جن کی تاکیدکی گیٔ ھے تاکہ مصیبت زدہ شخص کی نفسیاتی تشویش کے اضافہ سے باز رکھے اور درد کو اسی حد میں روک دے۔یھاں پر ھم مصیبت زدہ شخص کے لئےکچھ طریقے پیش کرکے کوشش کررھے ھیں کہ مصیبت کے درد کو اس کے لئے ھلکے سے ھلکا کریں،
ان طریقوں کوھم نے تین حصوں میں بیان کررھےھیں۔
الف۔ مصیبت کو چھوٹا سمجھنا
ب۔ مصیبت کو زوال پزیر سمجھنا
ج۔ عوض اور بدل کی طرف توجہ دینا

1) مصیبت کو چھوٹا سمجھنا

بھت سی روایات میں مصیبت کو چھوٹا سمجھنے کا حکم دیا گیا ھے اور اس کے حاصل کرنے کے لئے بھت سے طریقے بتائے گئے ھیں۔وہ طریقے یہ ھیں:

1/1) مصیبت کو عام سمجھنا
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
"المصائب باسویة، مقسومة بین البریة" 26
مصائب مساوی طور پر مخلوق کے درمیان تقسیم کئے گئےھیں۔ور پر مخلوق کے درمیان تقسیم کئے گئےھیں۔
اگر ھر شخص اس آسان نکتہ کو سمجھ لے تو اس کی تکلیف کی شدت کم ھوجاۓگی۔فارسی زبان میں اس مسٔلہ میں بھت سی ضرب الامثال موجود ھیں،
مثلا: "اجتماعی عزاشادی ھے" یا "یہ ایسا اونٹ ھے جو سب کے گھر میں ھوتا ھے" ۔کہ آخری مثل ممکن ھےآیۂ در "کل نفس ذائقةالموت" 27 سے لی گئی ھو۔
میدانی تحقیقات اس بات کی نشاندھی کرسکتی ھیں کہ عظیم جنگوں، شدید زلزلوں اور علاقائی سیلابوں کے موقع پر مشکلات کے سامنے انسان کا مقابلہ چھوٹی اور کم درجہ مصیبتوں کے سامنے مقابلہ کرنے سے زیادہ ھوتاھے یانھیں؟ دوسرے لفظوں میں خود کومصیبت میں تنھا نہ پانا اور ھرشخص کو ایک طرح سے مشکلات ومصائب میں گرفتار دیکھنا، مصیبت سے پیداشدہ نفسیاتی تشویش کے کم ھونے پر براہ راست اثر رکھتا ھے یا نھیں؟

1/2) مصیبت کو سنت الہٰی سمجھنا
خداوند متعال سورٔہ تغابن کی گیارھویں آیت میں فرماتاھے:
"مااصاب من مصیبة الا باذن الله" کوئی مصیبت نھیں آتی مگر خدا کے اذن سے۔
اور سورٔہ حدید کی بائیسویں آیت میں فرماتاھے۔
"مااصاب من مصیبة فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبرأهاان ذلک علی الله یسیر" جتنی مصیبتیں روئے زمین پر اور خود تم لوگوں پر نازل ھوتی ھیں (وہ سب) قبل اس کے کہ ھم انھیں پیداکریں کتاب (لوح محفوظ) میں لکھی ھوئی۔بیشک کہ خداپرآسانی ھے۔
ان دونوں آیتوں اور اس آیت کا مجموعی مفھوم جو کہ اس مقالہ کی ابتدا میں تحریر کی گئی ھے، یہ ھے کہ ان مصائب کے ذریعے ھمارا امتحان لیا جاتاھے جو خدا کی جانب سے ھمارے لئے پیش آتے ھیں، تنگدستی، قحط، بیماری، زلزلہ، موت، ھم وغم اور وہ تمام بلائیں اور مصیبتیں (جو کبھی کبھی سخت جان لیوا ھوتی ھیں) خدا کے اذن سے اور اس کے نظام کے دائرہ میں نازل ھوتیں ھیں تاکہ ھماری وجودی ماھر نکھر کر سامنے آجائے۔
مصیبت پر ایسی نگاہ رکھنا اور خداوندمتعال کے حکیم، رحیم اور رئوف ھونے پر توجہ رکھنا ھمیں آسانی سے اس نتیجہ تک پہنچاتا ھے کہ مصیبتیں اتفاقی، بے حکمت اور ھماری قدرت وطاقت سے بڑھ کر نھیں ھوتیں کہ"لایکلف الله نفسا الا وسعها" (خدا کسی کو اس کی قدرت وطاقت سے زیادہ تکلیف نھیں دیتا۔) اور خداصبر کوبھی مصیبت کے برابر نازل کرتاھے۔ 28
اور روایات کے الفاظ میں انسان بلا کے تیروں کا دائمی نشانہ ھے اور ھمارا وجود ھمیشہ مصائب میں گھرا ھوا ھے۔

1/3) بڑی مصیبت سے تولنا
مصیبت کادرد سے یاد رکھنے کی وجہ سے باقی رھتا ھے لہذا انسان چھوٹے چھوٹےدردوں کو ان سے بڑے بڑے دردوں کی طرف توجہ کرنے بھلا سکتا ھے۔
اگر ھم اپنے کو آخرت کا مسافر سمجھیں عالم برزخ میں وارد ھونے اور قبر سے محشور ھونے کی طرف توجہ کریں اور اس دن کو سامنے رکھیں جس وقت الھی عظمت وعدالت کی بارگاہ میں اس حال میں کھڑے ھوں گے کہ ھاتھ خالی ہ وں گے اور کاندھوں ھر گناھون کا بوجھ ھوگا اور حساب وکتاب کے لئےآمادہ ھوگے تو پھر کسی بھی طرح دینوی مصیبتوں کو عظمت ووحشت کی نگاہ سے نھیں دیکھیں گے۔اسی وجہ سے روایات نے حکم دیا ھے کہ ھم موت نیز برزخ وقیامت کو یاد کریں تاکہ مصیبت کو آسانی سے برداشت کرسکیں۔ 30
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ھے:
"مااصغر المصیبة مع عظم الفافة" 31
کس قدر (دنیا کی) مصیبت آخرت میں ھمارے ھاتھ خالی ھونے کے مقابل چھوٹی ھے۔
آپ نے حضرت پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصیبت کے بعد کسی مصیبت کو بڑا نہ سمجھا اور آسانی کے ساتھ ھر مصیبت کو برداشت کیا۔آپ نے مالک اشتر رضی اللہ عنہ کی شھادت کے موقع پر (جوکہ آپ کی حکومت کے سب سے بڑے فداکار اور بھترین عامل، میدان جنگ کے ساتھی اور سب سے بڑے عقیدت مند سردار تھے) فرمایا:
"وطنا علیٰ انفسنا علیٰ ان نصبر علیٰ کل مصیبة بعد مصابنا برسول الله۔ ۔ ۔" 32
ھم نے اپنے حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصیبت کے بعد ھر مصیبت برداشت کرنے پر آمادہ کرلیا ھے۔
یہ بات امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص نھیں ھے جیسا کہ کئی ایک روایات نے ھمیں مصیبت پڑنے کے وقت حضرت پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کو یاد کرنے کی تاکید کی ھے۔ 33
ھماری تہذیب میں امیر المؤمنین حجرت علی علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت زینب کبریٰ علیھا السلام، حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے عظیم اور عمدہ صبر وتحمل کے نمونے ھیں اور اب بھی شھداء کے غمگین ماں باپ کے لئے باعث تسلیت ھیں۔آپ حضرات کی سیرت پر توجہ دینا مصائب پڑنے کے وقت لازم ھے، جیسا کہ قرآن کریم نے اس مقصد سے الھی انبیاء ومرسلین جیسے ایوب، نوح، داؤد، یعقوب ویوسف علیہھم السلام وغیرہ کی زندگی کی طرف اشارہ کیا ھے۔ 34

1/4) کھوئی ھوئی چیز کی قیمت واھمیت کم سمجھنا
یہ طریقہ جو کہ زیادہ ترمالی دنیاوی مصیبتوں میں قابہ عمل ھے، یہ شناخت مصیبت زدہ شخص کو دیتاھے تاکہ وہ اپنے رنج وغم کی اصل اور بنیاد کو سمجھے۔ھم اس وجہ سے اپنے کو مصیبت زدہ سمجھتے ھیں کہ کسی گرانبھا چیز کے کھوجانے کا غم محسوس کرتے ھیں۔اب اگر وہ کھوئی ھوئی چیز ھماری نظر میں کم قیمت واھمیت رکھتی ھوتو درد کم اور اگر زیادہ قیمت واھمیت کی حامل ھوتو درد زیادہ احساس ھوتاھے۔بھت سی روایات نے اس نکتہ کی طرف توجہ دی ھے کہ ھمارے نزدیک دنیا کا کم قیمت وکم اھمیت ھونا مصیبت کو آسانی سے برداشت کرنے میں مدد دیتا ھے۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
"من زهد فی الدنیا هانت علیه المصیبات" 35
جو شخص دنیا میں زھد اختیار کرے (دنیا سے رغبت نہ کرے) اس پر مصیبتیں آسان ھوجاتی ھیں۔امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے غررالحکم ودررالکلم میں اسی معنیٰ کو "لها عن الدنیا" (دنیا سے دل نہ لگائے) کے الفاظ سے گوش گزار کیا ھے۔ 36
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے بھی دنیا کو بے قیمت سمجھنے کو مصائب کے نا پسند نہ سمجھنے کا سبب جانا ھے اور عبارت "ولم یکرھھا" کا اس معنیٰ وحدیث پر اضافہ فرمایاھے۔ 37 یہ سختی ومصیبت کے استقبال اور خطرہ، درد اور غم کی طرف دوڑنے کے معنیٰ میں ھے۔دنیا اور مال دنیا کے متعلق ایسی نظر انسان کے لئے ھرطرح کی سختی سے مقابلہ کرنے کی ھمت وشجاعت پیداکرتی ھے اور انسانی روح کوھرجانکاہ دردکے برداشت کی قدرت۶ عطاکرتی ھے کہ "الشجاعة صبر ساعة" یا "الصبر شجاعة" شجاعت یعنی ایک طرح پائیدار اور صبر۔۔ 38

2) مصیبت کو زوال پزیر سمجھنا

پرانی کھانیوں میں ھے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ ایک انگوٹھی اس کے لئےبنائے اور اس کے نگینہ پر ایسا جملہ نقش کرے کہ جب بھی غم واندوہ اور سرور وخوشی کی دونوں حالتوں میں اس پر نظر کرے تو وہ فطری حالت کی طرف واپس آجائے۔بھت سے مشوروں میں سے صرف ایک جملہ "یہ بھی گزر جائےگا" پسند کیا گیا اور یہ وھی نکتہ ھے کہ جس کی طرف روایات میں اشارہ کیا گیا ھے۔
ھماری روایات نے اس بات پر تاکید کی ھے کہ دنیا کی سختی اور تنگی رویہ زوال ھے اور اس کی نعمت کے مانند اس کی سختی کی مدت بھی معین اور محدود ھے۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے دنیا کے بارے میں فرمایا ھے۔
"ضرها وبؤسها الیٰ نفاذوکل مدۃ منها الیٰ منتها" 40
اس کا نقصان اور اس کی سختی زوال پزیر ھے اور اس کی ھرمدت تمام ھونے والی ھے۔
بعض روایات میں اس زوال کو مسلسل مشکلات ومصائب واقع ھونے کے وقت بتایا گیاھے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ان لوگوں کو خطاب کرکے پے درپے بلاؤں اور مصیبتوں کی خوفناک موجوں میں گرفتار ھوتے ھیں فرماتے ھیں:
"اذا اضیف البلاء الیٰ البلاء، کان من البلاء عافیة" 41
جب بلا پے درپے آتی ھے تو عافیت کا وقت آپہنچتا ھے۔
اس صورت میں مشاور کا فریضہ یہ ھے کہ مصیبت زدہ شخص کے نفسیات کو سمجھ کراسے اپنے اور دوسروں کے حل شدہ مصائب یاد دلائے اور اس سے مشابہ واقعات کو پیش کرکے اسے سمجھائے کہ یہ نئی مصیبت پھلی دوسری مصیبتوں کے مانند قابل حل اور وقتی ھے۔ھماری دعاؤں میں یہ یاد آوری نظر آتی ھے۔اس دعامیں جو حضرت پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زھر علیھا السلام کو تعلیم دی اس طرح ذکر ھوا ھے:
"یاهازم الاحزاب لمحمد یاکائد فرعون لموسیٰ یامنجی عیسیٰ من ایدی الظلمة یامخلص قوم نوح من الغرق یاراحم عبده یعقوب یاکاشف ضر ایوب یامنجی ذی النون من الظلمات۔ ۔ ۔" 42
اےمحمد(ص) کے لئے گروھوں کو شکست دینے والے، اے موسیٰ (ع) کے لئے فرعون کے خلاف تدبر کرنے والے، اے عیسی(ع) کو ظالموں کے ھاتھوں سے نجات دینے والے، اے نوح(ع) والوں کو غرق سے بچانے والے، اے اپنے بندے یعقوب(ع) پر رحم کرنے والے، اے ایوب(ع) کے مصائب ومشکلات کو دور کرنے والے، اے یونس(ع) کو تاریکیوں سے نجات دینے والے۔ ۔ ۔ ۔
جیسا کہ واضح ھے کہ بڑی بڑی مصیبتوں سےمصیبت زدہ افرادکی رھائی کی یاد آوری اور تمام مصائب ومشکلات کو دور کرنے کے لئےالھی رحمت وقدرت کا تمزکر، ھمارے لئے مصیبتوں کے زوال پزیر سمجھنے اور نتیجہ میں ان کو چھوٹا سمجھنے کاباعث ھوتاھے۔ایک دوسری دعا میں(جس کو روایات کی بنا پر حضرت پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اور حضرت علی علیہ السلام بھی سختیوں اور مصیبتوں کے وقت پڑھتے تھے) اسی نکتہ پر تاکید ھے اور پھلی دعاکے مطالب کے علاوہ غرور کے تسلط سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی نجات کی طرف بھی اشارہ ھے۔
قابل ذکر بات ھے کہ موت کی یاد بھی اس سلسلہ میں راہ حل ھے۔موت جس طرح کہ اس دنیا کی خوشیوں کاآخری نقطہ ھے اور اسی وجہ سے اسے "ھادم الذات" (لذتوں کو ختم کرنے والی) کھا جاتاھے اسی طرح دنیائے خاکی اور زندان افلاک سے مومن کی رھائی اور آزادی کا سرآغاز ھے۔یہ بکتہ خصوصاسخت اور ناقابل علاج بیماریوں میں تسکین بخشتی ھے۔

3) عوض اور بدل کی طرف توجہ دینا

یہ بات گزر چکی ھے کہ کھوئی ھوئی چیز جتنی بڑی ھوگی مصیبت بھی اتنی بڑی ھوگی، اب اگر ھم کو معلوم ھو یاامید ھو کہ دوسری چیز اسی کھوئی ھوئی چیز کے بربر ھمیں مل جائے گی یا کچھ شرائط حاصل کرنے کے ذریعہ اور مختصر کوشش کے ذریعہ اس سے بھتر ھمیں نصین ھوجائے گی توتکلیف بھت حد تک کم ھوجائے گی۔یہ مسٔلہ ھماری روز مرہ کی زندگی میں بارھا سامنے آتاھے۔اس ڈرائیور کی تکلیف جس کا تصادم ھوجاتا ھے حادثہ کے مقصر (قصوروار) کی طرف سے معتبر بیمہ پیش کرنے کے بعد ختم ھوجاتی ھے اور فوت شدہ فرزند کے بعد دوسرے فرزند کی پیدائش بھت حد تک ھم وغم کو خانوادہ کے چھرے سے دور کردیتی ھے۔
بھت سی روایات کی بناپرخداوندکریم یہ عوض اور بدل ھمیں بخشتا ھےاور اس ہستی سے آگا ھی کی بنا پر امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ اسلام، اشعث کو تسلیت دیتے ھیں، آپ اشعث ابن قیس کو اس کے بیٹے کا پرسا دینے کے لئےاس کے پاس جاتے ھیں اور فرماتے ھیں:
"یااشعث !ان تحزن علیٰ ابنک فقداستحقت منک ذالک الرحم وان تصبر فی الله من کل مصیبة خلف۔یااشعث!ان صبرت جری علیک القدروانت ماجور وان جزعت جری علیک القدر وانت مأزور۔یااشعث!ابنک سرک وهو بلاءوفتنة وحزنک وهو ثواب ورحمة۔" 43
اے اشعث!اگر تم اپنے بیٹے پر رنج وملال کرو تویہ خون کا رشتہ اس کا سزاوار ھےاور اگر صبر کرو تواللہ کے نزدیک پر مصیبت کاعوض ھے۔اے اشعث!اگر تم نے صبرکیا توتقدیر الھی نافز ھوگی اس حال میں کہ تم اجروثواب کے حقدار ھوگے اور اگر چیخے چلائے جب بھی حکم قضا جاری ھوکر رھے گامگر اس حال میں کہ تم پر گناھوں کا بوجھ ھوگا۔تمھارے لئے بیٹا مسرت کا سبب ھوا حالانکہ وہ ایک زحمت وآزمائش تھا اور تمھارے لئے رنج واندوہ کا سبب ھوا حالانکہ وہ(مرنے سے) تمھارے لئے اجرورحمت کا باعث ھواھے۔
اس عوض اور بدل سے استفادہ کرنے اور وعدہ کئے گئے ثواب اور جزا حاصل کرنے کی صرف ایک شرط صبر و شکیبائی ھے اور مصیبت کو عاقلانہ طور پر برداشت کرنا۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے خود حضرت پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وفات حسرت آیات کے وقت اپنی اور بنی ھاشم کی تعزیت میں اسی بات کو سنا اور اسی طریقہ سے ان کے غم واضطراب کو کم کرسکے۔آپ نے یہ الھی آواز اور غیبی تسلیت حضرت خضر علیہ السلام کی زبان سے سنی:
"السلام علیکم اهل البیت ورحمة الله فی الله عزاء من کل مصیبة وخلف من کل هالک وردرک من کل مافات، فبالله ثقوا وایاه فارجوا"۔ 44
اے اھل بیت!آپ حضرات پر سلام اور خدا کی رحمت ھو، خداوند تعالیٰ خود ھر مصیبت کی تعزیت دیتا ھے اور ھر ھلاک ھونے والے کا جانشین ھے اور ھر فوت ھونے والی شے کا جبران کرے والا ھے، لہذا خدا ھی پر بھروسہ رکھو اور اسی سے امید لگاؤ۔
جی ھاں، خداوند کریم ھر مصیبت میں اجروثواب کا ایک بدل اور عوض عطا کرتاھے اور ھر دوسرے طاقتور سے زیادہ کھوئی ھوئی چیز کے جبران کی قدرت رکھتاھے۔لہذا آئیں ھم خدا ھی اطمینان کے ساتھ مصیبت زدہ افراد کو بتاسکتے ھیں کہ خداکے وعدہ پر اعتماد کرو اور فوت شدہ چیز کے عوض وبدل کے منتظر رھو، وھی یااس سے بھتر، اس دنیائے فانی میں یا اس عالم بقامیں۔اسی طرح ھم اس کے لئےاس عوض وبدل کے جلدی حاصل ھونے کے لئے دعاکرسکتے ھیں جیسا کہ حضرت امام تقی علیہ السلام نے اس شخص کے خط کاجواب میں تحریر فرمایا تھا جس کا فرزند فوت ھوگیاھے:
"اعظم الله اجرک واحسن عزاک وربط علیٰ قلبک انه قدیر وعجل الله علیک بالخلف وارجوا ان یکون الله قد فعل، ابشاءالله تعالیٰ"۔
خداوند کریم تمھیں اجر عظیم اور صبر جمیل عطاکرے اور تمھارے دل کومضبوط کرے کہ بے شک وہ قادر ھے، اور جلدازجلداس کا نعم البدل تمھیں عنایت فرمائے اور امید رکھتا ھوں کہ خداوند کریم ایسا ھی کرے گا، انشاءاللہ تعالیٰ۔
قابل ذکر بات ھے کہصبر کےعلاوہ ذکر استرجاع بھی عوض وبدل حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ھے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ھیں:
"من استرجع عند المصیبة جبر الله مصیبة" 45
جو شخص مصیبت کے وقت کلمٔہ استرجاع (آئہ انا للہ وانا الیہ راجعون) جاری کرتا ھے خداوند کریم اس کی مصیبت کا جبران کرتا ھے۔

ج) مکمل کنٹرول

اضطراب کے مکمل کنٹرول حتیٰ اس سے پھلے ھی بچنے کے لئے حادثہ سے پھلے ھی اس کے متعلق سوچا جا سکتا ھےاور اس سے بچنے کے کی تدبیر کی جاسکتی ھے، اگر حادثہ اور مصیبت کے وقوع کو نھیں روکا جاسکتا ھے اس لئے کہ وہ خدا کی عام اور قطعی سنت ھے اور صدقہ ودعا بھی کچھ ھی حد تک اسے روک سکتے ھیں لیکن اس سے پیدا شدہ پریشان خاطری اور ذہنی الجھن کو روکا جا سکتا ھے اور مصیبت کے اس چھرہ کو دور کیا جاسکتا ھے جوخطرناک اور نقصان دہ ھے۔ھم جانتے ھیں کہ مصیبت کا مسلسل دباؤمصیبت زدہ شخص کے اضطراب کا سبب ھوتا ھے اور اس کے جسم وروح کو فرسودہ کردیتا ھے اور ھم یہ بھی جانتے ھیں کہ اضطراب، بیرونی عامل وسبب اور اندرونی (روحی) فکرکانتیجہ ھے اور انسان اور ماحول کے درمیان تعامل سے وجود میں آتا ھے،
اس لحاظ سے اضطراب انسان کی فکرواندیشہ نیز اس کے احساسات وجزبات سے وابستہ ھے۔اس بنا پر اگر ھم حتیٰ بیرونی عوامل واسباب کو بدل سکتے یاان کا توازن صحیح بقرار نھیں رکھ سکتے ھیں پھر بھی مصیبت کے متعلق مصیبت زدہ شخص کی اندرونی فکر کو بدل کر اضطراب پیدا ھونے کے اسباب کو دور کرسکتے ھیں۔انسان کی تفسیر زندگی، موت، رنج ومصیبت سے یہ سب مصیبت سے حاصل شدہ نفسیاتی مشکلات کے سامنے اس کے مقابلہ کے لئے مؤثرھیں اور اگر یہ شناخت اور فکرونظر مصیبت سے قبل انسان کے ذہن کے اندر پیدا ھوجائے اور مشکل پیدا ھونے سے پھلے اضطراب سے روکنے میں اپنا کردار اداکرسکےتوھم بھترین حالت میں پہبچ جائیں گے، لیکن اس کے معنیٰ یہ نھیں ھیں کہ ان کو مصیبت کے بعد مصیبت زدہ شخص کےسامنے پہش نھیں کیا جاسکتا۔مصیبت سے پھدا شدہ آگ بجھنے اور پھلے مرحلوں کے ختم ھوجانے کے بعد دھیرے دھیرے مصیبت کے متعلق فکرونظر کی تصیحیح کی جاسکتی ھے۔
ھم روایات کی مصیبت کومفید سمجھ سکتے ھیں اور اسے کچھ شرائط وحالات کے ساتھ انسان کا مددگار کہہ سکتے ھیں۔

1. مصیبت کو مفید سمجھنا پھلے: اجر
روایات کی بنا پر انسان پروارد ھونے والی ھرمصیبت ایک اجر رکھتی ھے جس کے حاصل ھونے کی شرط صبروتحمل ھے اور بے تابی نہ کرنا ھے۔اجروثواب کے لئے مصیبت کے کلید ھونے کے متعلق امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی حسین تعبیر اس الھی ذخیرہ کی نشاندھی کرتی ھےکہ مصیبت جتنی بڑی ھوگی اس کا اجر بھی اتنا ھی عظیم ھوگا:
"کلما کانت البلوی والاختیار اعظم کانت المثوبة والجزاءاجزل" 46
بلا اور امتحان جتنا ھی عظیم ھوگا اجرثواب اتنا جزیل ھوگا۔
یہ پاداش واجر اتنا عظیم ھے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک بزرگ صحابی عبد اللہ بن یعفور (جنھوں نے اپنے پرانے درد کا شکوہ کیا تھا) ان کے جواب میں فرمایا
"یاعبدالله!لو یعلم امؤمن ماله من الاجری المصائب لتمنی انه قرض بالمقاریض" 47
اے عبداللہ!اگر مومن جان لیتاکہ اس کے لئے مصائب میں کتنا اجر ھے تووہ تمنا کرتا کہ قینچیوں سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے ھوجائیں۔
اگر ھم اس نکتہ پر توجہ دیں کہ اجر، اخروی اور نھایت وسیع ابدی عالم ھے اور اس کا مسٔلہ کسی بھی طرح دنیا کی چند روزہ اور زود گزر زحمتوں اور سختیوں سے نھیں کیا جا سکتا اور اس کے حصول کی شرط صرف صبر وتحمل کو سمجھیں تو آسانی سے مصیبت کوقبول کرلیں گے، خصوصا اگراس نقطہ سےواقف ھوں کہ جو کچھ خدا اپنےمؤمن بندہ کے لئےچاھتا ھےاس میں خیر ھی پوشیدہ ھوتا ھے خواہ اسے عافیت اور خوشحالی بشنے یامصیبت میں مبتلا کرے 48 خدا نے خود یہ نقطہ فرمایا ھے:
"عبدی المؤمن لااصرفه فی شیء الا جعلته خیر اله"۔ 49
میں اپنے مومن بندہ کو کسی جگہ اور کسی میں نھیں لے آتا مگر یہ کہ اسے اس کے لئے خیر قرار دیتا ھوں۔

دوسرے: گناہ کا کفارہ
ھم اپنی زندگی کے راستے میں معصیت کے کیچڑ میں کود پڑتے ھیں اور اپنی پاک وصاف روح کوآلودہ کرلیتے ھیں، لیکن انسانیت کا آخری مقصد، قرب الھی کی بہشت ھے جس میں وارد ھونے کا حق صرف پاک وپاکیزہ افراد کو ھے۔لہذا اگر ھم اپنی روح کو رنج وبلا کے حمام سے غسل نہ دیں تواس میں داخل ھونے کی اجازت نہ پائیں گے۔مصیبت وبلا ھماری روح کا حمام ھیں جوھماری روح کو پاک وصاف کرنے کے لئے بنائی گئی ھیں۔اس روح کے پاک وصاف کرنے کا وسیلہ اور اس کے امکانات فراھم کرنا بندہ کی تکریم ھے نہ اس کی اھانت۔
یہ وھی حضرات امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس ارشاد کے معنیٰ ھیں جو آپ نے یونس ابن یعقوب سے فرمایا تھا:
"ای یونس!ان المؤمن اکرم علی اللہ تعالیٰ من ان یمرّ علیہ اربعون لایمحص فیھا ذنوبہ ولو بغمّ یصیبہ لایدری ماوجھہ"۔ 50
اے یونس!مؤمن خدا کے نزدیک اس بات سے بڑا ھے کہ چالیس دن گزر جائیں اور وہ اس کے گناھوں کو پاک نہ کرے اگرچہ ایسے غم کے ذریعہ جس کی وجہ بھی وہ نھیں جانتا۔
اس بنا پر آیہ"وما اصابکم من مصیبة فبما کسبت ایدیکم" 51
(جو مصیبت بھی تم تک پہنچتی ھے وہ تمھارے ھاتھوں کی کمائی ھے) ھم گنہ گاروں کے لئے ایک سخت لیکن نوید بخش آیت ھے۔

تیسرے: کبرو غفلت کی صفائی
ھمیشگی صحت وسلامت، بے انتھا مال ودولت اور دائمی خوشی اور راحت اس دنیا میں انسان کی مصلحت نھیں ھے اس لئے کہ یہ ممکن نھیں اور اگر وجود میں بھی آجائے تو مفید نھیں ھے ۔ خوشی اور عیش میں ڈوبا انسان سرکشی کرنے لگتا ھے اور خداکی بندگی اور خلق خدا کے سامنے تواضع کرنے سے روگردانی کرنے لگتا ھے۔ بلا ومصیبت ھمارے سنبھلنے اور صحیح راستے پر آنے کے لئےٹھوکے ھیں، سختی اور غم اور کبھی کبھی دولت، صحت اور فرزند کا ھاتھ سے جانا تکبر اور اکڑ کو اگرچہ تھوڑے ھی وقت کے لئے ھمارے دلوں سے دور کردیتا ھے اور ھمیں روحی تذلّل وتواضع عطا کرتا ھے۔خدا نخواستہ ھم سرمست مغرور ھوجائیں اور اپنی انسانیت کو کھودیں۔امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ارشادات میں کئ جگہ اس کبر وغرور سے منع کیا ھے اور حجاب غفلت چاک کرنے کا حکم دیا ھے۔ 52
امام (ع) فرماتے ھیں:
"ولکن الله یختبر عبادہ بانواع الشدائد ویتعبّدهم بانواع المجاهد ویبتلیهم بضروب المکاره اخراجاً لتکبّرمن قلوبهم واسکاناًلتذلّل فی نفوسهم ولیجعل ذلک ابواباً فتحاً الیٰ فضله و اسباباً ذللاً الیٰ عفوه"۔
خداوند تعالی اپنے بندوں کا مختلف سختیوں سے امتحان لیتا ھے اور مختلف سخت کاموں میں گرفتار کرتا ھے اور طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کرتا ھے تاکہ ان کے دلوں سے تکبر کو دور کردے اور تواضع وفروتنی ان کی روحوں میں ساکن کردے اور تاکہ اسے اپنے فضل کے لئے کشادہ دروازہ اور اپنے عفو کا وسیلہ قرار دے ۔

حواشی
1. لقد خلق الانسان فی کبد(سورۂ مائدہ: آیہ۴) ۔
"بتحقیق کہ ھم نے انسان کو مشقت میں(رھنے والا) پیدا کیا ھے ۔
2. جامع الصغیر: ج۱، ص۲۸۲، ح۶۳۲۳۔
3. غررالحکم ودررالکلم: ح۴۱۴۴۔
4. شرح نہج البلاغہ: ج۲۰، ص۲۹۱۔
5. غررالحکم ودررالکلم: ح۲۰۴۳، ۷۹۳۶، ۶۵۳۔
6. مائۃ کلمۂ جاحظ: ح۱۲۔
7. ر۔ک: میزان لاحکمۃ: ج۱، باب الجزع ۔
8. بحارالانوار: ج۲۲، ص۵۱۲، ح۱۱، ماخوذ از خصال صدوق(رح) ۔
9. تحف العقول: ص۱۱۴۔
10. الترغیب والترھیب، منزری: ج۴، ص۲۸۶، ح۳۶۔
11. یھاں پر جس بات کو مستثنی قراردیا گیا ھے وہ اپنے دینی بھائی اور صمیمی و حقیقی دوست سے شکوہ کرنا ھے کہ حقیقت میں اس سے شکوہ کرنا خدا سے شکوہ کرنا ھے ۔(بحارالانوار: ج۷۲، ص۳۲۵، ح۱۔
12. دعائم الاسلام: ج۱، ص۲۲۵۔
13. من لایحضرہ الفقیہ: ج۱ص۱۸۷۔
14. دعوات الراوندی: ص۲۸۵، ح۸ ۔
15. غررالحکم ودررالکلم: ح۴۰۵۵۔
16. نھج البلاغہ: حکمت۱۴۴۔
17. غررالحکم ودررالکلم: ح۴۰۱۴۔
18. علل الشرائع: ص۲۹۹، ح۱۔الخصال: ج۱، ص۱۱۲، ح۸۷ ۔
19. الکافی: ج۳، ص۲۲۷، ح۱۔
20. بحارالانوار: ج۷۹، ص۱۳۳، ح۱۷بحوالۂ دعوت راوندی: ص۲۸۷۔
21. سورۂ انبیاء: آیہ۸۷، ۸۸ ۔
22. الطبقات الکبری: ج۲، ص۳۱۲۔
23. الغارات: ج۱، ص۲۶۴۔
24. امالی الصدوق: ص۱۸۸، ح۵ ۔
25. الکافی: ج۲، ص۱۵۹، ح۱۔
26. تحف العقول: ص۲۱۴۔
27. سورۂ آل عمران: آیہ ۱۸۵۔سورۂ انبیاء: آیہ ۳۵۔سورۂ عنکبوت: آیہ ۵۷۔
28. نھج البلاغہ: حکمت۱۴۴۔
29. ر۔ک: بحارالانوار: ج۷۸، ص۴، ح۵۳ ۔
30. الخصال: ص۴۱۴، ح۱۰۔
31. الکافی: ج۸، ص۲۴۔
32. مستدرک الوسائل: ج۲، ص۴۰۴، ح۲۳۰۸۔
33. ر، ک: بحارالانوار: ج۸۲، ص۸۴ ۔
34. سوارۂ صافّات: آیہ۶۵، ۷۴۔سورۂ قمر: آیہ۹، ۱۰۔سورۂ ص: آیہ ۱۷، ۴۱۔سورۂ یوسف: آیہ۱۵، ۳۳۔
35. الکافی: ج۲، ص۵۰، ح۱۔
36. ر، ک: غررالحکم ودررالکلم: ح۸۵۸۷ ۔
37. بحارالانوار: ج۷۸، ص۱۳۹، ح۲۵۔
38. ایضاً: ص۱۱، ح۷۰۔
39. نھج البلاغہ: حکمت۸ ۔
40. من لایحضرہ الفقیہ: ج۱، ص۴۳۰۔
41. تحف العقول: ص۳۵۷۔
42. مکارم الاخلاق: ج۲، ص۱۳۸۔
43. نھج البلاغہ: حکمت۲۹۱۔
44. کنزالعمال: ج۷، ص۲۵۱، ح۱۸۷۸۵۔
45. بحارالانوار: ج۸۲، ص۱۲۶۔قابل ذکر بات ھے کہ اھلسنت کی کتابوں میں یہ حدیث حضرت پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل وئی ھے اور اس کے آخر میں یہ اضافہ بھی ھے: "واحسن عقباہ وجعل لہ خلفا یرضاہ"خدا اسے حسن عاقبت عطا کرے گا اور ایسا نعم البدل قرار دے گا کہ وہ خوش ھوجائے گا۔(ر، ک: مجمع الزوائد: ج۲، ص۳۳۱۔
46. ر، ک: غررالحکم ودررالکلم: ح۴۰۰۔
47. الکافی: ج۲، ص ۲۵۵، ح ۱۵۔
48. ر، ک: مشکاۃ الانوار: ص۵۲۱، ۵۲۰ ۔
49. الکافی: ج۲، ص۶۱، ۶۲۔
50. بحارالانوار: ج۸۱، ص۱۹۱، ح۴۹۔
51. سورۂ شوریٰ: آیہ۳۰۔
52. ر، ک: شرح ابن ابی الحدید: ج۱۳، ص۱۳۱، ۱۵۶۔