نبوت پرامامت کی برتری کا معیار


سوال: مقام امامت کو رسالت اور نبوت پر کیا فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابرھیم علیہ السلام پر منت رکھتا ہے کہ امتحان کے ختم ہونے پر انھیں امام قرار دیا؟اور اگر مقام امامت نبوت سے برتر ہے تو حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام ،مسلمانوں کے اتفاق نظر کے مطابق کیسے مفضول اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاضل ہیں؟مختصر یہ کہ ”امامت“کی ”نبوت“پر برتری کو بیان فرمایئے؟
جواب:خدائے متعال نے یہ جملہ : (بقرہ /۱۲۴)
”ہم تم کو لوگوں کاامام اور قائد بنا رہے ہیں “
اس وقت حضرت ابراھیم علیہ السلام کو فرمایا جبکہ وہ مسلّم نبی ، رسول اور اولوالعزم نبیوں میں سے صاحب شریعت ا ورصاحب کتاب تھے مزید قدرتی طور پر نبوّت ورسالت کے ہمراہ ہدایت و دعوت کی ذمہ داری بھی رکھتے تھے اور خدائے متعال نے چند جگہوں پر اپنے کلام میں امام کی توصیف میں فرمایا:(انبیاء /۷۳)
”پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں “
اور ہدایت کی صفت کو ”امام“کا معرّف قرار دیاہے ۔
یہاں پر معلوم ہوتاہے کہ امام کی ہدایت،نبی کی ہدایت کے علاوہ ہے اور مسلّم طور پر نبی کی ہدایت دعوت اور تبلیغ ہے اور ہدایت کی اصطلاح راستہ دکھانے اور راہنمائی کر نے کا معنی ہے ۔اس لئے ہدایت کو امام میں مطلوب تک پہنچانے کے معنی میں لینا چاہئے۔پس امام،چونکہ معارف اور احکام کو بیان کرنے کی ذمہ داری رکھتا ہے اور اعمال کو ادارہ کرنے کی مسئولیت بھی رکھتا ہے ،اور اشخاص کی باطنی نشو ونما ،اعمال کو خدا کی طرف ہدایت کرنا اور انھیں مقاصد تک پہنچانا بھی امام کا کام ہے ۔چنانچہ لوگوں کے اعمال امام کے سامنے پیش کرنے،ہر شخص کے موت کے وقت امام کے پہنچنے،قیامت کے دن لوگوں کو اپنے امام کے ساتھ بلانے،نامہ اعمال کی تقسیم اور حساب کا امام کی طر ف رجوع سے متعلق روایتیں اس مطلب کی دلالت کرتی ہیں ۔
شیعوں کے عقیدہ کے مطابق،زمین کسی بھی وقت امام سے خالی نہیں ہوتی ہے اور اس لحاظ سے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی اور رسول ہو نے کے علاوہ اپنے زمانہ میں امام بھی تھے اور نبوت،رسالت اور امامت کے نتیجہ میں حضرت علی علیہ السلام سے افضل ہیں ،چنانچہ امت کا اجماع و اتفاق بھی اسی کی دلالت کرتا ہے ۔



خدائے متعال،خالق موجودات

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں :تمام موجودات اورہستی نے خدائے متعال سے سرچشمہ لیا ہے ،لہذا کلی طور پرسب مخلو قات خدا کی وحدت وجودکے زمینہ میں ہیں ،لیکن ہم ہستی کو مختلف صورتوں میں پاتے ہیں ،مثلاً بعض کو درخت،پتھرآدم وغیرہ کی صورت میں دیکھتے ہیں، اس مسئلہ کے بارے میں آپ کا جواب کیا ہے ؟
جواب: جو برہان واستدلال کا ئنات کے لئے خدا کو ثابت کرتے ہیں ،وہ کائنات کو خدا کا ”فعل“اور خدا کو کائنات کا ”فاعل“کے طور پرتعارف کراتے ہیں اور بدیہی ہے کہ فعل فاعل کے علاوہ ہوناچاہئے اور اگرفعل عین فاعل ہو تو،شئے”فاعل“اپنے وجود”فعل“سے پہلے موجود ہونی چاہے ،لہذاکائنات خد اکے علاوہ ہے اور اس بناء پر یہ جو کہا گیا ہے :”کلی طور پر سب چیزیں خدا کی و حدت وجود کے زمینہ میں ہیں “غلط ہے



کیا مخلوقات،وہم وخیال ہیں ؟

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم دیکھتے اور تصور کرتے ہیں جیسے: پتھر، درخت اور انسان،یہ سب وہم وگمان ہیں بلکہ خود ہماراوجودبھی ایک خیال ہے ،مہر بانی کر کے اس سوال کا جواب بیان فرمائیے ۔
جواب:جو یہ کہتا ہے : جو کچھ ہم دیکھتے یا تصور کرتے ہیں وہ وہم وخیال ہیں اگر وہ اس بات کو سجیدگی کے ساتھ کہتا ہے ،تو اس کے بقول ،خود اس کی یہ بات کہ”سب چیزیں خیال ہیں“وہم وخیال ہے اور اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں ہے اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے ۔
جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں انھیں سوفسطائی کہا جاتا ہے یہ لوگ یا تو نفسیاتی بیمار ہیں یابد نیتی کی بنا پر مغالطہ کرتے ہیں ورنہ جس انسان کی فکر صحیح وسالم ہو اور بدنیتی بھی نہ رکھتا ہو اور کائنات کی خلقت کے بارے میں حقیقت پسند ہو تو وہ حقیقت کا قائل ہو گا ۔یہی کائنات کو وہم وخیال جاننے والے لوگ اپنے لئے اچھی زندگی کو تر تیب دے کر بھوک کے وقت روٹی کے پیچھے دوڑتے ہیں اور پیاس کے وقت پانی کی تلاش کرتے ہیں اور اس وقت یہ نہیں کہتے ہیں کہ روٹی اور پانی وہم وخیال ہے ۔
سوال:فرض کریں اگر یہ سب خیال نہ ہو ،تو خدا ان سب کے اندر داخل ہوا ہے !
آپ کا جواب کیا ہو گا؟
جواب:جس طرح پہلے سوا ل کے جواب میں بتایا گیا ہے یہ بات بھی استدلال کے خلاف ہے اور کوئی منطقی دلیل نہیں رکھتی ہے ۔



ذات باری تعالےٰ کاکنہ کیا ہے ؟

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں :ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ذات خدا کی کنہ اوراصلی خودہم ہیں اور یہ عبارت :”خدانے ہمیں عدم سے وجودمیں لایا ہے “ کوئی مفہوم و دلیل نہیں رکھتی ،اصلاًپوراوجودصرف وہی ہے اور اس کی دوسری کوئی صورت نہیں ہے اگر چہ ہم اشیاء کو ظاہری طور پر متنوّع اور متغیّردیکھتے ہیں ؟آپ کاجواب کیا ہے ؟
جواب: یہ بات بھی ایک بے دلیل بات اور فاقد برہان دعویٰ ہے ۔ایسے لوگوں کا فہم جو بھی ہو انہی کے لئے حجت ہے دوسروں کے لئے نہیں اور دلیل کے بغیردعویٰ کی کوئی قیمت واہمیت نہیں ہے ۔
ہوالاوّل والآخر کے بارے میں صوفیوں کانظریہ
سوال:صوفی کہتے ہیں:سورہ حدیدمیں ”ھو الاول والآخر“ کا مقصودحضرت علی علیہ السلام ہیں ،چنانچہ مر حوم علامہ مجلسی نے بھی بحارالانور کی آٹھویں جلد میں ایسا ہی نقل کیاہے اور یہی زمینہ اشتباہات کو وسیع تر کرتا ہے ۔اس بنا پر اگر ہم مذکورہ دعویٰ کو جھٹلا دیں تو ہم نے علامہ مجلسی کی بات کو ردکیا ہے، کیونکہ خداکی طرف پلٹنے والے ضمائر قرآن مجید میں بہت ہیں ،مثلاً:
(شعراء/۷۸)
(شعراء/۸۰)
(زخرف/۶۴)
(حج/۶۲)
(فرقان/۵۸)
اور اس طرح کے ضمائر قرآن مجید میں بسیار ہیں ،ہم کیسے سمجھ لیں گے کہ ان ضمائر کا مرجع علی علیہ السلام نہیں ہوں گے جبکہ ان آیات کا سیاق، ان ضمائر کے مر جع کو خدا بتاتا ہے ۔
جواب:جو کچھ روایت میں آیا ہے یہ ہے کہ علی علیہ السلام اول وآخر ہیں اور ایک دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ علی علیہ السلام کے اول وآخرہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ پہلے شخص ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اورآخری شخص ہیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہوئے اور یہ وہ وقت تھا جب آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اطہر کوقبر شریف میں رکھ کر باہر آئے ۔
سورہ حدید کے اول کے بارے میں ظاہر سیاق یہ بتاتا ہے کہ ”اوّل“سے مراد وہ ہے جس کا وجودعدم سے مسبوق نہ ہو اور”آخر“سے مراد یہ ہے کہ جس کا وجودعدم سے ملحق نہ ہو اور وہ خدائے متعال ہے ،جیسا کہ فرماتا ہے:
(نجم/۴۲)
”اور بیشک سب کی آخری منزل پروردگارکی بارگاہ ہے “



ممکنات کی نسبت علیّت واجب

استاد اکبر،میزان المفسرین ،علامہ طباطبائی دام بقائ
عرض خدمت ہے کہ” المیزان“ کی پندرھویں جلد کے صفحہ نمبر ۱۴۹اور۱۵۰ پر ”فلسفی بحث“کے عنوان سے ،بعض مسائل بیان ہوئے ہیں جن کی وجہ سے حقیر کے ذہن میں مندرجہ ذیل سوال پیدا ہوا:
سوال:واجب تعالیٰ کے ”جزء العلة“ہونے کا معنی کیسے تصور کیا جاسکتا ہے جبکہ قرآن مجید فرماتا ہے :
(شوریٰ/۱۱)
”اس کاجیسا کوئی نہیں ہے ․“
جواب:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
”المیزان “کی پندرھویں جلد طبع تہران کے صفحہ ۱۴۹اور۱۵۰پر کی گئی فلسفی بحث کے بارے میں آپ کاخط ملا۔اس میں واجب تعا لی کی علیّت کے ممکنات کے بارے میں دو مختلف نظریہ بیان کئے گئے ہیں کہ پہلے نظریہ کے مطابق ،واجب تعا لی علت تامہ کا جزاور دوسرے نظریہ کے اقتضا کے مطابق علت تامہ قرار پایاہے ۔
یہ دو صورتیں آپس میں متقا بل اور متنافی نہیں ہیںجس طرح عام طورپرتصور کیا جاتا ہے بلکہ دوسری صورت پہلی صورت سے د قیق تراور مکمل تر ہے ۔
انسان ابتدائی نظریہ میں ایک ضروری ادراک سے ،ممکنہ موجودات میں کثرت اور مغایرت کو درک کرتا ہے اور اس کے بعد اس کثرت کے آحاد میں وجودی وابستگی کو درک کرتا ہے جو عمومی علیّت ومعلو لیت کے قانون کی بنیاد ہے اور اس کی وجہ سے ہر ممکن الوجود موجود علّت کی ضرورت ہے اور اس کی علّت بھی اگر ممکن الوجودہو تو دوسری علّت چاہتا ہے یہاںتک کہ ایک ایسی علّت تک پہنچے جو ذاتاًواجب الوجود ہو اور علّت سے بے نیاز ہو ،بلکہ تمام ممکن علتیں بلا واسطہ (مثل صدر اول)یا بالواسطہ (مثل باقی ممکنات ) اس کی معلول ہیں، اگر چہ علّت قریب اور مباشر کے معنی میں یہ علّت تامہ اور علّت فاعلی کا جزء بھی ہے ۔
یہ ہے پہلے اورابتدائی نظریہ کے لحاظ سے اور دوسرے نظریہ کے مطابق ممکنات میں حکم فرمااوساط علّیت اور توقف وجودی کی بناپر ،ممکنات کا پورا مجموعہ واحد ہوتا ہے جس کی علت تامہ واجب تعالیٰ ہے اور ممکنات میں سے ہر ایک کا ایجاد ان سب کی ایجاد ہے، جیسے ، تفسیر میں اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔
البتہ واضح ہے کہ دوسرا نظریہ پہلے نظریہ کی بنیاد پر مستحکم ہے، کیونکہ پہلے نظریہ کے باطل ہو نے کی صورت میں قانون علت ومعلول کا باطل ہو نا لازم ہو گا اور نتیجہ کے طور پر اثبات صانع کا طریقہ بالکل بند ہو گا ۔واجب تعالیٰ کو علت کا جزء شمار کرنا آئیہ کریمہ : < لیس کمثلہ شی>کے منافی نہیں ہے ،کیونکہ علّت کی صداقت اورغیر واجب تعالیٰ کاسبب، جب فیض کے واسطہ سے اور واجب تعالیٰ کا جعل ہو تو،امکانی علل کو واجب کے مثل -جبکہ اس کی علّیت ذاتی واستقلال کی صورت میں ہو - نہیں بناتا ہے ۔چنانچہ سائر صفات کمال مانند ،حیّ ،عالم ،قادر ،سمیع،بصیر وغیرہ کی صداقت غیر واجب کی شرکت کی مستلزم نہیں ہے ، کیو نکہ ممکن میں موجودہ صفت کمالی جعل اوراضافہ واجب پر منحصر ہے اورمستقل نہیں ہے ،اس کے بر خلاف واجب تعالیٰ اپنی صفات کمال میں ذاتی طور پر مستقل اور دوسرے سے بے نیاز ہے ۔
اسی طرح آیہ کریمہ :(فاطر/۳)کے منافی نہیں ہے اورآیہ کریمہ میں خالق سے مراد خالقیت سے مستقل خالق ہے جو خالقیت کی توصیف میں دوسروں کا محتاج نہ ہو ،کیونکہ قرآن مجید کی آیتیں خدا کے علاوہ دوسرے خالقوں کو ثابت کرتی ہیں :
(مؤمنون/۱۴)
(۳مائدہ/ہ۱۱)
اور اس سیاق کے بارے میں موجود دوسری آیات۔
اس کے علاوہ قرآن مجید بہت سی آیات میں عمومی علیّت کے قانون کی تصدیق فرماتا ہے ،جیسے :
(سجدہ /۷۔۸)
”اور انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا ہے ۔اس کے بعد اس کی نسل کو ایک ذلیل پانی سے قراردیا ہے ۔“
اور:
(نساء/۱)
”جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور اس کا جو ڑا بھی اس کی جنس سے پید اکیا ہے اور پھر دونوں سے بکثرت مردوعورت دنیا میں پھیلا دئے ہیں “
یہ تصدیق مادی ہے اور مطلقاًممکنات سے علیّت کی نفی اور واجب تعالیٰ سے اس کا حصر اشاعرہ سے منسوب ہے کہ اس کے ثبوت کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔
آپ کی خدمت میں سلام واخلاص کے ساتھ اپنے عرائض کو خاتمہ بخشتا ہوں ۔



عدم زمانی سے مسبوق مادہ کی پیدائش

سوال : مادہ کی ازلیّت ذاتی اور ذاتی طورپر سابقہ ہونے کو کس دلیل سے نفی کیا جاسکتا ہے؟
جواب: ذاتی ازلیّت اور ذاتی خدمت کی اصطلاح ایسی جگہ پر استعمال ہوتی ہے جہاں شئے کی ذات عین ہستی وجود ہو اور ایسی چیز محال ہے کہ عدم اسے قبول کرے اور نتیجہ کے طور پر شئے اپنے صفات اور حالات میں کسی قسم کی تغیر قبول نہیں کرے گی ،اور بدیہی ہے کہ مادّہ ایسا نہیں ہے ۔لیکن ظاہراًسوال میں ذاتی ازلیّت اور ذاتی خدمت وہی زمانہ کے لحاظ سے قدیم ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا مادہ (ایٹم )اپنی پیدائش میں مسبوق بہ عدم زمانی ہے یا نہیں ؟
اس سوال کا جواب مثبت ہے ،کیونکہ علوم مادی کے نظریہ کے مطابق، ایٹم انرژی میں تبدیل ہو نے اور بر عکس کی قابلیت رکھتا ہے اور ہر ایٹم انرجی کے دبے ہوئے ذرّات کا ایک مجموعہ ہے جو ایٹم کو تشکیل دیتے ہیں اور اسے وجود میں لاتے ہیں اور قہراًایٹم مسبوق بہ عدم ہو تا ہے اور اس صورت میں ،ایٹم اور انرژی کے درمیان ایک مشترک مادّہ فرض کیا جانا چاہئے جس کی خاصیت صرف صورت وفعلیّت کو قبول کرنا ہو گی اور اس بناء پر ،یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ:فعلیّت کو انجام دینے والا (صورت فاعل اور فعلیّت) فرض مادّہ ہے بلکہ یہ ایک ماورائے مادہ امر ہے اورمادہ اس فعلیت کے سایہ میں ،فعلیّت اورتحقق پاتا ہے ،لہذاہستی کا مشہود عالم ،ایک ایسے فاعل کا فعل ہے جوازلی اورثابت ورائے عالم ہے اور وہ خدائے متعال ہے ۔



ظلم کا وجود کیوں ہے ؟

سوال: سلام علیکم ،آپ کا خط ملا ،امید رکھتا ہوں آپ اس علمی جدوجہد میں کامیاب رہیں گے۔
آپ نے مرقوم فرمایا تھا:
”جس دنیا میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں ،اس میںچاروں طرف ظلم پھیلا ہوا ہے۔ انسان اور حیوان سے جس قدر ممکن ہو سکتا ہے مظلوم کو زدوکوب کرتے ہیں یا بعض افراد ظالم کے بغیر بھی مظلوم ہیں ،جیسے ایک بچے کا بیمار ہو نا ۔ہم ایک حیوا ن کو دیکھتے ہیں کہ کسی گناہ کے بغیر اپنے سے قوی تر حیوان کا شکار ہوا ہے اور اس کے ذریعہ بدترین صورت میں جان دیتا ہے “۔
جواب : بحث میں داخل ہونے سے پہلے تمہید کے طور پر جاننا چاہئے کہ خلقت کی بنیاد علیّت ومعلولیّت پر ہے اور مادّی دنیا ایک ناقابل استثناصول کی بنا پر ادارہ ہوتا ہے نہ کہ جذبات اور احساسات پر،مثلاًآگ کی خاصیت جلانا ہے خواہ کسی پیغمبر کادامن ہو یا کسی ظالم کا لباس ۔درندہ حیوانات اور شکاری پرندے گوشت خوا ہیں جو اگر گوشت نہ کھائیں تومر جائیں گے اور یہ حق انہیں تخلیق سے ہی بدن کی ساخت اور بناوٹ کے مطابق دیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی ذمہ درای نہیں رکھتے ،چنانچہ انسان بھی حیوانوں کے گوشت سے تغذیہ ہوتا ہے اور نفسیاتی طور پر کسی قسم کی مسئو لیت کا احساس نہیں کرتا ہے ۔
مذکورہ بیان کے مطابق ،ظلم (دوسروں کے حق پر تجاوز کرنے یا قوا نین کے نفاذمیں امتیاز بر تنے کے معنی میں )انسانی معاشرہ سے باہر وجود نہیں رکھتا ہے اور جن ناخوشگوار حوادث کا مشاہدہ ہو تا ہے انہیں ظلم نہیں کہنا چاہئے بلکہ یہ ایسے” شرور“ہیں جو اپنی پیدائش کی علّت کی نسبت ”خیر“ ہوتے ہیں اور عمل کے موقع کی نسبت سے شراورعلّت ،اپنے وجودی اقتضا کے مطابق اپنی کارکردگی کا حق رکھتے ہیں ۔ایک چھ مہینے کے بچہ کی بیماری ظلم نہیں ہے بلکہ شر اور ایک محرومیت ہے جو اسباب کی پیدائش کے نتیجہ میں بیمار ی کی صورت میں پیدا ہوئی ہے، بلّی جو کتّے کے پنجوں میں پھنس کر نا گوشگوار حالت سے دوچار ہوتی ہے ،وہ شر ہے نہ کہ ظلم اور یہی بلّی چوہے کے بارے میں یہی عمل انجام دیتی ہے اور اسے جائز جانتی ہے ۔
جی ہاں !انسان اپنی زندگی کی فعالیت کو اپنی نفسانی خواہشات کے سایہ میں جذبات کی بناء پر اختیاری طور پر انجام دیتا ہے ، اسی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں بے شماراور گونا گوں نیاز مندیاں رکھتا ہے اور تنہا زندگی بسر نہیں کرسکتا ،اس لئے وہ اجتماعی زندگی بسرکرنے پرمجبور ہے اور فطری طور پر اپنے اجتماع کو استحکام بخشنے کے لئے اس نے کچھ واجب الاطاعت قوانین کو قبول کیا ہے ،جن کی رو سے معاشر ہ کے ہر فرد کے منافع کا ،اجتماعی توازن کے مطابق، تحفظ کیا گیا ہے اور اس کے واجب الاطاعت حقوق ثبت کئے گئے ہیں ،کہ قوانین کے مطابق ان کا تحفظ ضروری اور ان قوانین کی خلاف ورزی ممنوع ہے ۔ان ہی وضعی اور قراردادی حقوق کی پائمالی کو ظلم کہا جاتا ہے اور اسے جرم شمار کیا گیا ہے ۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص ناحق طور پر کسی کے ثابت حق پر جارحیت کرکے اسے پائمال کرے۔
اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کے اجتماعی ماحول سے باہر ظلم کا کوئی مصداق نہیں ہے اور بہر حال ظالم کو ظلم کر نے کا حق نہیں ہونا چاہئے ۔اس بناء پر تکوینی علّتوں کے نا خوشگوار اثرات ،جنھیں خلقت نے مجہز کر کے حق دیا ہے ،شرّ ہیں نہ ظلم۔ اور اسی طرح جب انسان ایک اہم تر حق کے لئے کسی غیر اہم حق کو پائمال کرتا ہے وہ بھی شر ہے نہ ظلم اور اسی طرح ظلم کے مقابلہ میں ظالم سے لئے جا نے والا قصاص ظالم کے لئے شرّ ہے نہ ظلم ۔
(بقرہ/۱۹۴)
”لہذا جو تم پر زیادتی کرے تم بھی ویساہی برتاؤ کرو جیسی زیادتی اس نے کی ہے“
اسی طرح خدا سے نسبت دی جانے والی مصیبتیں اور ناخوشگوار حوادث بھی ایسے ہی ہیں ،ان کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔
آپ نے لکھاتھا :ایک صاحب کہتا تھا :جب ایک چھوٹے حیوان کو ایک قوی اور بڑاحیوا ن کھاتا ہے ،تو بڑا حیوان ارتقاء پیدا کرتا ہے (یعنی کمزور حیوان کا گوشت بڑے حیوان کا جزو بن کر اسے مکمل تر کرتا ہے )بلی کا گوشت کتّے کا جزوبننا کونسا ارتقاء ہے ؟
یہ بیان ،نظری ہے فلسفی اورصحیح اوریہ نظریہ ”حرکت جوہری“ کے فروعات میں سے ہے ،لیکن چونکہ یہ مسئلہ فنّی اور وسیع ہے ،اس کو ایک یا دو خطوط میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔
آپ نے مرقوم فرمایا تھا :”کہتے ہیں تمام چیزوں کا مالک خدا ہے سب اسی کی ملکیت ہے ،وہ خود جانتا ہے ،میں بھی جانتا ہوں کہ وہ خودجانتا ہے ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قرآن مجید واضح طور پر فرماتا ہے کہ خدا ہر گز ظلم نہیں کرتا ہے “
اس مطلب کا صحیح بیان یہ ہے کہ عالم خلقت میں جو کچھ ہے اور فرض کیا جانے والاہر کمال، پروردگار عالم کی مطلق ملکیت ہے ،جزئی سے لے کرکلی تک اس کا تحفہ اوربخشش ہے ،اس کے بغیر کہ کسی بھی مخلوق کا استحقاق کی راہ سے خدا پر کوئی حق ہو جو اسے عطیہ وبخشش کے لئے مجبور کرے اور نہ کسی ایسی علت کے بارے میں فرض کیاجاسکتا ہے جس نے خدائے متعال پر اثرڈال کر اسے کسی کام کو انجام دینے یاترک کرنے پر مجبور کیا ہو اور جس حق کا بھی فرض کیا جائے اس کو جعل کرنے والا اور مالک خدا ہے ،اسی طرح خدا کی طرف سے کسی بھی مخلوق کو پہنچنے والی ہر مصیبت اور ناخوشگواری خدا کا حق ہے اور وہ مخلوق اس سلسلہ میں خدا پرکوئی حق نہیں رکھتی:
(ابراھیم/۲۷)
”․․اور وہ جو بھی چاہتا ہے انجام دیتا ہے ۔“
لہذا اصولی طور پر وہ امر ظلم نہیں ہو گا نہ یہ کہ وہ ظلم ہے اورخداسے ظلم قابل مذمت نہیں ہے ۔منتہی یہ کہ خدا کی نعمت و عطیہ ایک ایسی رحمت ہے جسے خدانازل فرماتا ہے اور عذاب ومصیبت،رحمت نازل نہ کرنا ہے جو امرعدمی ہے ،جیسا کہ فرماتا ہے:
(فاطر/۲)
”اللہ انسانوں کے لئے جو رحمت کا دروازہ کھول دے ،اس کا کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جس کو روک دے اس کا کوئی بھیجنے والا نہیں ہے۔“
بعض اوقات انسان کا ظلم اس کی اولاد میں منعکس ہو کر ظاہر ہو تاہے ،لیکن اس صورت میں بچہ کی مصیبت وہی اس کے باپ کا ظلم ہے نہ باپ کے ظلم کی سزا ۔لیکن قیامت کے دن گرفتار ہوئے حیوانات کی پاداش کے بارے میں قرآن مجید کے مطابق حیوانات کے لئے بھی روز محشر ہے :
(انعام/۳۸)
”اورزمین میں کوئی بھی رینگنے والا یادونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نہیں ہے جو اپنی جگہ پر تمہاری طرح کی جماعت نہ رکھتا ہو۔ہم نے کتا ب میں کسی شے کے بارے میں کوئی کمی نہیں کی ہے اس کے بعد سب اپنے پروردگارکی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔“
لیکن ان کے روز قیامت کے بارے میں تفصیلات بیان نہیں ہوئے ہیں۔بعض روایتوں میں ہے کہ خدائے متعال قیامت کے دن سینگ رکھنے والے حیوانوں سے بغیر سینگ والے حیوانوں کا قصاص لے گا ۔کلی طورپرکتاب وسنت سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ کائنات اور اس میں جاری نظام میں کوئی بھی واقعہ مصلحت کے بغیر نہیں ہے خواہ ہم جانیں یا نہ جانیں ۔آپ نے لکھاتھا :میرے عرائض اور ناراحتی کا خلاصہ یہ ہے ۔
۱۔دنیا میں ظلم ہے اور اکثر قصاص بھی نہیں ہو تا۔
۲۔کہیں قیامت کے دن بھی ایساہی نہ ہو اور ان(حیوانات) کے لئے،جو مظلوم واقع ہوتے ہیں ،قیامت کے دن کوئی جزا نہ ہو ۔ظلم کیوں ہوتا ہے ،جبکہ اول سے ہی ظلم ایک غلط کام ہے؟
لیکن آپ نے جو یہ فرمایا ہے : ”اکثرظلم میں قصاص نہیں ہوتا ہے “حقیقت میں اکثر جس کو آپ نے ظلم کہا ہے ،وہ شر ہے نہ ظلم اور قصاص ظلم میں ہو تا ہے نہ مطلق شر میں ۔شرور کے بارے میں کوئی مصلحت اور حکمت ہے ۔نظام خلقت کے بارے میں عموماًیاخصوصاً اور جن مواقع میں واقعاً ظلم ہو تا ہے اور کوئی حق پائمال ہو تا ہے اگر اس کا دنیا میں قصاص ہوا تو بہتر اور اگر دنیا میں قصاص نہ ہوا توخد اکے واضح وعدوں کے مطابق آخرت میں ضرور ہو گا:
(رعد/۳۱)
”بیشک اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ہے ۔“
لیکن یہ کہ مظلوم حیوانات کے لئے قیا مت کے دن جزا ہے یا نہیں ؟خدائے متعال نے آخرت کا (حمد/۴) روز جزا نام رکھاہے اور حیوانات کے روز محشرکے بارے میں واضح طور پر ذکر فرمایا ہے اس کا ضروری پاداش ہو گا ،لیکن یہ کیسے انجام پائے گا ہمارے لئے بیان نہیں فرمایا ہے ،اسی قدرفرمایا ہے -:
(غافر/۱۷)
”آج کسی طرح کاظلم نہ ہو سکے گا ۔“



انسان کی شخصیت اور قیامت کادن

سوال:سائنس کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرنے اوردفن ہو نے کے بعد انسان کا بدن بعض عوامل کے تحت نائٹریٹ اور نائٹروجن میں تبدیل ہو تا ہے ،اس میں سے ایک حصہ مٹی میں جذب ہو تا ہے ،اور زراعت کے بعد یہی مواد کاشت کی گئی چیزوں میں جذب ہوتا ہے اورانسانوں کے ذریعہ انھیں استعمال کرنے کے بعد ،یہی مواد زندہ انسانوں کے نشو ونما کا سبب بنتا ہے اور اس طرح ایک نئے انسان کے بدن کے خلیوں کی بناوٹ کا سبب بنتا ہے۔
قیامت کے دن انسان کے دوبارہ زندہ ہو نے کی صورت میں ، پہلے انسان کے بدن کو بنانے میں اس کے مواد کو کیسے پورا کیا جائے گا ؟اگر اسے اپنے پہلے مواد سے مکمل کیا جائے تو، دوسرے شخص کا بدن نقص سے دوچار ہوجائے گا ،اگر مکمل نہ ہو جائے تو پہلے شخص کا بدن نا مکمل رہے گا!
جواب: سائنسی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ انسان کے بدن کے اجزاء اس کی پوری عمر کے دوران تجزیہ وتغیرات کے نتیجہ میں ہر چند سال کے بعد ایک بار سر تا پا مکمل طور پر تبدیل ہو کر پہلے اجزاء کی جگہ لیتے ہیں وراس کے باوجود یہ شخص بالکل وہی سابقہ انسان ہو تا ہے اور اس کے بدن کے اجزاء کا بدل جانا اس کی شخصیت کے بدلنے میں کوئی اثرنہیں ڈالتا ہے ۔
صاف ظاہر ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کم وبیش پچاس ،ساٹھ سال عمر کرنے کے بعد واضح طور پر مشاہدہ کرتا ہے کہ وہی انسا ن ہے جو کبھی بچہ تھا ،کبھی جوان اور اب بوڑھا ہو چکا ہے ،اور جس حقیقت کا وہ لفظ میں سے تعبیر کرتا ہے ،ہم اسے ”نفس“ کہتے ہیں ،اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی ہے اور اپنی جگہ پر پائداراورثابت ہے اور اسی طرح جوشخص جن جرائم کو بچپن میں انجام دیتا ہے ،ان کے مرتکب ہونے کی وجہ سے اسے بوڑھا پے میں سزادی جاتی ہے ۔
اس نظریہ کے مطابق انسان کی شخصیت اس کے نفس سے ہے نہ بدن سے انسان کے بدن کے مادّہ میں سے کچھ حصہ کے نابود ہو نے سے ، اسی نفس کے ساتھ تعلق کے فر ض کی بناء پر انسان کی شخصیت تبدیل نہیں ہو تی اوراگر قیامت کے دن انسان کا نفس اس کے بدن کے تغیر یافتہ اور نا بود ہو ئے اجزاء میں سے جن اجزاء سے بھی تعلق پید اکرے ،یاان میں کسی بھی قسم کی کمی ہو اور دوسرے اجزاء سے مکمل ہو جائے ،تو انسان کا بدن وہی دنیا کا بدن ہو گا اور شخص انسان وہی دنیوی انسان ہو گا ۔