شریعت النساء

’’موت اور زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ یہ جملہ ہم اپنی زندگی میں گاہے بگاہے سنتے رہتے ہیں۔۔ لیکن بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی سے زیادہ موت مشکل ہوگئی ہے۔ ہوا یوں کہ پچھلے دنوں ہمارے عزیزوں میں ایک صاحب کا انتقال پُرملال ہوا۔ بس جناب اِدھر مرحوم کا دَم نکلا، اُدھر گھر والوں پر ’’شریعت النسائ‘‘ کا نفاذ ہوگیا۔
’’دیکھو، غم اپنی جگہ، لیکن سب لوگ ہوش وحواس میں جو رہنا، جو ہمارے ہاں ہوتا آیا ہے وہی ہوگا ۔ ‘‘ پھپھو نے کچھ دیر تک زور زور سے رونے کے بعد اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’جی جی ۔۔ پھپھو! آپ ہی بڑی ہیں۔‘‘ بڑی بیٹی نے روتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
اِدھر مرحوم امام بارگاہ سے آخری آرام گاہ کی طرف روانہ ہوئے اُدھر شریعت کے احکامات جاری ہونا شروع ہوئے۔ مرحوم کے بھائی نیچے اور خود مرحوم بالائی منزل پر رہائش پذیر تھے، چنانچہ حکم صادر ہوا: ’’دیکھو گھر میں داخل ہونے کے بعد کوئی نیچے نہیں جائے گا۔ پہلے اوپر جائیں گے پھر اگر نیچے کوئی جائے تو جائے۔‘‘
’’جی اچھا!‘‘ بیک وقت کئی آوازیں سنائی دیں۔
’’اچھا پھوپھو! وہ سوئم پرسوں کا ہی رکھا جائے گا نا؟‘‘ بڑی بہو نے پوچھا۔
’’اے راحت کی دلہن کبھی ہفتے کا بھی سوئم ہوا ہے؟!‘‘
’’وہ۔۔ وہ، پھوپھو آج جمعرات ہے نا اس لئے پوچھ رہی تھی۔‘‘ بہو گھبرا گئی۔ نازک معاملات جو ہوتے ہیں۔
’’نہیں بھئی نہیں اتوار کا رکھا جائے گا سوئم۔ اور ہاں ایک بات اور۔۔ جو کھانے کا دسترخوان لگائے گا، وہی اٹھائے گا۔ اور یہ آج نہیں چالیسویں تک ایسا ہی ہوگا۔‘‘ پھوپھو کی بات سُن کر سب ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے کہ دوسرا حکم فتوی صادر ہوا: ’’اور جو سوئم کا کھانا بنائے گا، دسویں، بیسویں اور چالیسویں کا کھانا بھی وہی بنائے گا۔‘‘
لو جی چھٹی ہوئی! اب تو کوئی آگے بڑھ کر کام کرے گا ہی نہیں۔ کیونکہ جس نے کام کو ہاتھ لگایا، وہ چالیسویں تک پھنس گیا۔
سوئم کی مجلس مغرب سے کچھ قبل ختم ہوگئی۔ مردوں میں سے کسی نے آکر کہا کہ مولانا صاحب کہہ رہے ہیں کہ فاتحہ نماز کے بعد کریں گے۔ یہ سُننا تھا کہ گویا دین و شریعت کی روح پامال ہوگئی ہو۔ فوراً چلائیں: ’’نہیں بھئی نہیں! فاتحہ مغرب کے وقت ہی ہوگی۔ روح کو انتظار نہیں کروانا چاہیے۔ جلدی گھر چلو، اذان کے وقت ہی فاتحہ ہوگی۔‘‘
چنانچہ اِدھر موذن نے ’’حی علی الصلوۃ‘‘ کہا اور اِدھر شریعت النسائ نے ’’حی علی الغذائ‘‘ کی آواز لگائی، اور تمام رشتہ دار ان کی آوا ز پر لبیک کہتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوگئے کہ چلو خدا کو بعد میں خوش کرلیں گے (نماز پڑھ کر) پہلے مرحوم کو خوش کرلیں۔ البتہ بہت سے ایسے لوگ بھی اس میں شامل تھے جو عام طور پر اولِ وقت میں نماز پڑھ لیتے تھے لیکن پھوپھو کی ناراضگی اور بدمزگی کے ڈر سے انہوں نے آج کھانے ہی کو ترجیح دی۔
فاتحہ کے بعد دسترخوان لگ گئے اور سب لوگ جلدی جلدی اپنے لئے جگہ بنانے لگے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ مرحوم تو زندگی بھر نماز کے بڑے پابند تھے وہاں جاکر کیسے ہوگئے کہ نماز کے وقت کھانے کا انتظار کرنے لگے۔ خدا کے پاس جاکر تو مذہب سے اور گہر الگاو ہوگیا ہوگا۔
لیکن یہ کیا؟ ۔۔ کھانے کے اختتام پر ایک جگہ سے شور شروع ہوگیا ۔۔ شاید کسی کو کھانے میں کوئی چیز کم ملی ہے یا کوئی اور وجہ ہے، ہم نے بھی کان اس طرف لگانے کی کوشش کی ۔ آواز کی سمت جو بڑھے تو پتہ چلا کہ شریعت النسائ کے زیرِ عتاب چھوٹی بہو ہے: ’’اے میں نے کہا بھی تھا کہ جو دسترخوان لگائے گا وہی بڑھائے گا۔‘‘
’’وہ ۔۔ پھوپھو بھابھی کا چھوٹا والا بیٹا بہت رو رہا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ اس کو دیکھ لیں میں دسترخوان اٹھا لیتی ہوں۔‘‘ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی مجرمہ نے ہکلاتے ہوئے صفائی پیش کی۔
’’ارے رو رہا ہے تو چپ ہو جائے گا۔ اگر اس طرح سے من مانی ہوتی رہی تو میرا تو یہاں چالیسویں تک رکنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر جیسی تم لوگوں کی مرضی۔‘‘ پھوپھو نے آخری چوٹ کی۔
بڑی بہو جلدی سے بچے کو میاں کے حوالے کر کے پھوپھو کے نزدیک آئی اور بولی ۔۔ ’’پھوپھو غلطی میری ہی تھی، مجھے ہی نہیں نہیں جانا چاہئے تھا۔ اب جیسے آپ کہیں گی ہم لوگ اسی طرح کریں گے۔‘‘ (اس نے دل میں سوچا ہوگا کہ چالیس دن تو گزر ہی جائیں گے لیکن زندگی بھر جو باتیں سننے کو ملیں گی وہ ناقابلِ برداشت ہوں گی)
’’پھوپھو دسواں کس دن رکھنا ہے؟ ابھی اعلان کرنا ہے۔‘‘ مرحوم کی بڑی بیٹی نے سوال کیا۔
’’جمعرات کا رکھ لو۔ اور یاد رہے جس دن ایک چیز ہو جائے اس دن دوسرا پروگرام نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ایک نیا فتوی ۔۔
ہم جو کافی باتیں برداشت کر رہے تھے، اب ہم سے برداشت نہ ہوسکا اور ہم نے میدان میں کودنے کا فیصلہ کر لیا۔ ’’پھوپھو اگر جمعرات کو ہی بیسواں رکھ لیا جائے تو کیا ہوگا؟‘‘
پھوپھو نے ہماری طرف غصیلی نگاہوں سے دیکھا کہ یہ کون گستاخ ہے جو ان کی سلطنت شریعت میں سوال کر رہا ہے۔ ہم بھی ان کی نگاہوں سے کچھ لمحوں کے لئے تو گڑبڑائے لیکن پھر دل بڑا کر کے ان کی طرف دیکھنے لگے۔
’’اے ہونے کو کیا ہوگا۔ محمود کے گھر والوں نے بات نہیں مانی تھی، باپ کے انتقال کے چالیس دن کے اندر اندر ماں کا بھی انتقال ہوگیا۔‘‘
’’وہ ۔۔ وہ، محمود بھائی کی امی۔۔‘‘ ہمیں یاد آیا۔ ’’پھوپھو وہ تو بیچاری خود دو سال سے موت اور زندگی کی کشمکش میں تھیں، ویسے بھی بونس میں چل رہی تھیں۔‘‘
’’اے بس رہنے دو، ہمارے ہاں تو ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے، اگر تم لوگوں کو اعتراض ہے تو جو جی چاہے کرو، مجھ سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ آخری جملہ سنتے ہی گھر کی بہوئیں گھبرا گئیں اور ہمیں دور لے جاکر سمجھایا بجھایا اور دوسری طرف پھوپھو کو راضی کیا۔ لیکن ہم سوچتے رہے کہ اس جدید دور میں بھی خوشی اور غم کے موقع پر کچھ گھرانوں میں ’’شریعت النسائ‘‘ ’’شریعتِ محمدی‘‘ سے آگے آگے ہوتی ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانا آپ کے اور ہمارے حق میں بہتر ہے۔