خود شناسی(چوتھی قسط)

گذشتہ قسطوں کا خلاصہ:
١۔ اپنے آپ کو پہچاننا خودشناسی ہے یعنی اپنے مقام، اپنی صلاحیتوں اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی۔ انفرادی، معاشی، معاشرتی اور خاندانی ابتری اس بات کی دلیل ہے کہ انسان نے اپنے آپ کو پہچاننے میں ہمیشہ کوتاہی سے کام لیا ہے۔ سائنس نے جو علم دیا انسان نے اسے زندگی کو آرام دہ بنانے کے لئے استعمال کیا نہ کہ خداشناسی کے لئے۔
٢۔ اب ہندو، انگریز سب خودشناسی کی طرف تیزی سے مائل ہو رہے ہیں۔ اسلام خود ١٤٠٠ سال سے خودشناسی کا درس دے رہا ہے۔ اگر ہم سستی اور کاہلی کا شکار رہے اور مزید تاخیر سے کام لیا تو یہ لوگ جلد ہی امامِ زمانہٴ کے لشکر سے جاملیں گے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
٣۔ خودشناسی کا علم حاصل کرنے کے لئے سب سے مستند ذریعہ ’’وحی الٰہی‘‘ ہے نہ کہ سائنس اور عقل۔ کیونکہ وحی الٰہی کے لائے ہوئے نظریات کبھی غلط ثابت نہیں ہوتے جب کہ باقی دونوں ماخذِ علوم کے نظریات وقتاً فوقتاً غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وحی الٰہی کے علم کے اصل وارث اہلِ بیت ہیں چنانچہ علم چاہے خود شناسی کا ہو یا خدا شناسی کا یا کسی اور شے کا ہمارا رخ اہلِ بیت ہی کی جانب ہونا چاہیے۔
________________________________________

حدیثِ رسول ہے!
اول العلم معرفۃةالجبار و آخر العلم تفویض الامر الیه
’’علم کی ابتدائ معرفتِ جبار ہے اور علم کی انتہا اپنے تمام امور اس کے سپرد کر دینا ہے۔‘‘
یعنی علم کا پہلا درجہ خدا کی معرفت ہے اور آخری درجہ اس کی اطاعت میں سرتسلیم خم کردینا ہے۔
لیکن خدا کی معرفت یا خدا شناسی کے لئے آسان راستہ ’’خودشناسی‘‘ کا ہے۔ مولا علیٴ کی روایت کے مطابق من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔ یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ اور اطاعتِ الٰہی کا صحیح طریقہ تزکیہ نفس میں پوشیدہ ہے۔ چنانچہ کسی بھی مومن کے لئے سفرِ آخرت کچھ یوں ہوگا۔۔۔

خودشناسی ۔۔ خداشناسی ۔۔ تزکیہ نفس ۔۔انسانِ کامل۔۔ رضائے الٰہی
تزکیہ نفس کے لئے نفس شناسی یا خود شناسی اتنی ہی ضروری ہے جتنا خود تزکیہ نفس۔ جس طرح جسم کی ساخت معلوم کئے بغیر جسم کے امراض سے آگہی اور ان کا علاج ممکن نہیں بالکل اسی طرح نفس شناسی یا خود شناسی کے بغیر بھی تزکیہ نفس کامل نہیں۔ اس حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے خودشناسی کے مضامین آپ تک پہنچائے جارہے ہیں۔ خداسے دعا ہے وہ اس کوشش میں ہم سب کو کامیاب کرے۔ (آمین!)
٭¥٭¥٭
تعلیماتِ اہلِ بیت گویا خودشناسی کے خزانے کا نقشہ ہے جس کو سمجھنے کے لئے عقل سے زیادہ حکمت کی ضرورت ہے۔ اور اس کا نظارہ بجائے ماتھے پر بنی دو آنکھوں کے قلب پہ لگی ’’تیسری آنکھ‘‘ سے ہی ممکن ہے۔ اس آنکھ کے مختلف نام ہیں، مثلاً تیسری آنکھ، چھٹی حس، چشمِ بصیرت، برزخی آنکھ، چشمِ باطن وغیرہ وغیرہ بلکہ اس آنکھ کو اب جدید سائنس اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں۔
تعلیماتِ اہلِ بیت اس آنکھ کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟ اس کا تذکرہ بعد میں۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ جدید سائنس اور دیگر مکتبِ فکر اس آنکھ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں۔
٭¥٭¥٭

A۔ جدید سائنس اور تیسری آنکھ
سائنس دانوں کے نزدیک ہماری آنکھ میں اب تک تو دو ذرات ہی تھے ایک کا نام Rhododsin ہے جس کا کام اندھیرے میں دیکھنا ہے اور دوسرے کا نام Iodopsin ہے جس کا کام روشنی میں دیکھنا ہے۔
لیکن 1998 میں Dr. Ignacio Provencia نے ایک تیسرے ذرے کو انسانی آنکھ میں دریافت کرڈالا اور اس کا نام رکھا گیا MELANOPSIN۔ اس ذرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نہ تو دن میں دیکھتا ہے، نہ رات میں بلکہ یہ تو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ اس کا کام CIRCADIAN RHYTHM کو کنٹرول کرنا ہے یعنی 24 گھنٹے میں ہونے والی تبدیلیوں (خارجی یا داخلی) سے ذہن کو آگاہی۔ یعنی یہ ذرہ آپ کو بتا سکتا ہے کہ اب رات ہوگئی ہے، سو جاو۔ چاہے آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جائے اور بیرونی دنیا سے آپ کا رابطہ بالکل منقطع ہو چکا ہو تب بھی اور پھر یہی ذرہ یعنی MELANOPSIN آپ کو صبح اٹھا بھی سکتا ہے کہ چلو اٹھو آفس جانے کا وقت ہوگیا ہے اور مومنین کو نمازِ شب کے لئے بھی بیدار کرسکتا ہے اگر مومن اس ذرہ کا صحیح استعمال کر رہا ہو۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ کچھ لوگ ہمیشہ مقررہ وقت پر کیسے اٹھ جاتے ہیں بغیر کسی الارم کے؟
یہ ذرہ گویا آپ کو آپ کی اندرونی دنیا اور اس دنیا سے روشناس کرواتا ہے جو عام دنیا سے مختلف ہے۔ یعنی آپ کی ’’اندرونی دنیا‘‘ ۔۔ ’’خودشناسی‘‘ اور ’’خدا شناسی‘‘ کی دنیا۔ اس ذرے کا اس حقیقی آنکھ یا چشمِ باطن سے کیا تعلق ہے، اس کی وضاحت ابھی تحقیق طلب ہے۔ شاید مستقبل میں مزید انکشافات ہوں جس کا قطعی امکان موجود ہے۔

B۔دیگر مذاہب اور تیسری آنکھ
ہندو، بدھ اور عیسائی مذہب میں بھی اس تیسری آنکھ کا تذکرہ موجود ہے۔ ہندووں کے مطابق انسانی کائنات کے دس دروازے ہیں (آنکھیں، منہ، کان، ناک وغیرہ) جب کہ تیسری آنکھ دسواں دروازہ ہے جس کا مقام دونوں بھنووں کے درمیان ہے۔ کچھ ہندو ماتھے پر ’’تلک‘‘ لگا کر اس کو تیسری آنکھ کی علامت قرار دیتے ہیں۔ ہندووں کی مقدس کتابوں یعنی اپنشدوں کے مطابق اس کا کام ارتکاز، تخیل، تفکر اور خودشناسی ہے۔ اس کی علامت ۔۔۔ ہے۔ اس آنکھ کو ’’علم کی آنکھ‘‘ یا ’’عقل کی آنکھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہی کچھ نظریہ بدھ مذہب کے پیروکاروں کا بھی ہے۔
Samael Aun Weor عیسائیوں کا مشہور پادری، روحانی رہنما تھا۔ اس نے 1950 کی دہائی میں میکسیکو کو مرکز بناکر اپنی تبلیغات کا آغاز کیا اور 60 سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ اس نے بارہا اس بات کا تذکرہ کیا کہ تیسری آنکھ Book of Revelation نامی کتاب میں موجود ہے (جوکہ عیسائیوں کی تحریف شدہ بائبل ہے)۔ سموئیل کی تحقیقات اور تبلیغات نے عیسائیوں کو ایک نئی جہت سے روشناس کروایا جس سے وہ پہلے ناواقف تھے یعنی تیسری آنکھ اور خودشناسی۔

C۔مغرب اور تیسری آنکھ
مشہور مغربی مفکر Max Heindel نے اپنی کتاب Western Wisdom Teaching میں لکھا ہے کہ انسانی دماغ میں ایک اہم عضو ہوتا ہے جسے Pineal Gland کہتے ہیں۔ اسے میڈیکل سائنس میں سکڑی ہوئی تیسری آنکھ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا فعل (Function) اب تک معلوم نہیں ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر انسان اس Pineal Gland کو کسی طور پر دماغ میں بہنے والے پانی Cerebrospinal Fluid سے مربوط کرلے تو وہ ان باتوں کو معلوم کرسکتا ہے جن کے لئے حواسِ خمسہ کی ضرورت نہیں۔ معلومات حاصل کرنے کے اس طریقے کو جدید زبان میں CLAIRVOYANCE کہا جاتا ہے۔ اس کی بہت سے مثالیں عملاً رائج بھی ہوچکی ہیں مثلاً Telepathy، Parapsychology، Extra sesony perception (ESP) وغیرہ۔

D۔ اسلام اور تیسری آنکھ
کیا اسلامی تاریخ میں کسی تیسری آنکھ کا کوئی تذکرہ ملتا ہے؟ یہ تیسری آنکھ کسی مومن کے لئے کیونکر فائدہ مند ہوسکتی ہے؟
١۔ اس کے حاصل کرنے کے کیا طریقے تعلیماتِ اہلِ بیت میں وارد ہوئے ہیں؟ اس کا تذکرہ کچھ دیر بعد۔ پہلے کچھ مناظر دیکھئے (ہوسکے تو تیسری آنکھ سے) اور سوچئے کیا ہم ان واقعات سے گذرتے رہتے ہیں؟

پہلا منظر:
رسول اللہ ۰ کے پاس صبح ایک شخص (اصحاب صُّفہ میں سے) حاضر ہوا جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں ،رنگ زرد تھا اور وہ لڑکھڑارہا تھا۔
رسول۰ : تم نے صبح کیسے کی؟
جواب: اس حالت میں کہ میں اہلِ یقین میں سے ہوں۔
رسول۰: یقین کی علامت کیا؟
جواب: علامت یہ ہے کہ وہ دن کو مجھے پیاسا رکھتا ہے اور رات کو جگائے رکھتا ہے۔
رسول۰ : اس سے آگے بھی کچھ بتاو۔
جواب: یارسول اللہ ۰ اس وقت جب کہ میں اس دنیا میں ہوں تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ میں اس دنیا کو دیکھ رہا ہوں اور وہاں کی آوازیں سن رہا ہوں۔ میں اس وقت اہلِ جنت اور اہلِ جہنم کی آوازیں سن رہا ہوں۔
یارسول اللہ! اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے اصحاب میں سے ایک ایک کے بارے میں بتادوں کہ ان میں سے کون کون جنتی اور کون کون جہنمی ہیں۔
رسول۰ !نہیں۔۔۔ خاموشی اختیار کرو! (کافی۔ ج٧۔ بابِ حقیقت ایمان و یقین)
یہاں یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ تیسری آنکھ انسان کو عالمِ ملکوت اور جنت دوزخ کا مشاہدہ بالکل اسی طرح کرواسکتی ہے جس طرح خود اس دنیا کا!

دوسرا منظر:
کیا یہ تیسری آنکھ خدا کا بھی مشاہدہ کرواسکتی ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کس طرح۔۔۔!
امام علی سے ایک شخص نے سوال کیا: کیا آپٴ نے خدا کو دیکھا ہے؟
امام علی : ’’میں نے جس خدا کو دیکھا نہ ہو اس کی ہرگز عبادت نہیں کرتا۔ ‘‘ پھر فرمایا: ’’یہ خیال نہ کرنا کہ آنکھ سے دیکھنے کی بات کررہا ہوں اور خدا کسی ایک سمت میں بیٹھا ہوا ہے۔۔۔ اس خدا کو آنکھیں ظاہری طور پر نہیں دیکھتیں لیکن دل اسے ایمان کی حقیقتوں کے ساتھ دیکھتے ہیں۔‘‘ (انسانِ کامل صفحہ ٢١١)

تیسرا منظر:
کیا تیسری آنکھ لوگوں کے اصل چہرے بے نقاب کرسکتی ہے کہ اس کا باطن ظاہر بن کر سامنے آجائے۔
ایک دفعہ چوتھے امام زین العابدینٴ کے زمانے میں حج پر کثیر تعداد جمع تھی۔ امامٴ کے ایک صحابی خوشی اور حیرت سے امامٴ سے کہنے لگے، امامٴ! اتنا بڑا مجمع! (جس طرح آج کل کا ایک معصوم بچہ پوچھتا ہے 57 اسلامی ممالک۔۔ اتنے زیادہ مگر؟؟) وہ شخص کہتا ہے مجھے اس کا علم نہیں کہ امامٴ نے کیا کیا۔ مجھے کیسی بصیرت دی اور کونسی ’آنکھ‘ میرے اندر بینا کردی۔ امامٴ نے اس سے کہا: میری دو انگلیوں کے درمیان دیکھو۔ جب اس شخص نے امامٴ کی دو انگلیوں کے درمیان دیکھنا شروع کیا تو اسے پتا چلا کہ ان حجاج کرام میں بیشتر لوگ جانوروں کی صورتوں میں تھے۔ (سفینہ البحار جلد ٢ صفحہ ٧١)

چوتھا منظر:
کیا یہ تیسری آنکھ انسان کو خودشناسی میں بھی مدد دے سکتی ہے؟ اس کو حرام و حلال کے بارے میں Signals دے سکتی ہے۔۔؟ جی ہاں!
کتاب، ’’پھر میں نے خدا کو پالیا‘‘ (کیمیائے سعادت مولف ری شہری) میں اٹھارویں صدی کے مشہور عارف، رجب علی خیاط کے بارے میں درج ہے کہ اگر آپ کے پیٹ میں مشکوک لقمہ جاتا تو آپ کو یکدم پتا چل جاتا اور کچھ عرصے کے لئے حجابات پڑ جاتے بلکہ یہاں تک بھی ہوا ہے کہ ایک دفعہ آپ کے والد کسی دکان سے کھانے کا سامان دکاندار سے پوچھے بغیر لے آئے (رجب علی خیاط اس وقت ماں کے پیٹ میں تھے)۔ جب آپ کی والدہ نے وہ کھانا کھایا تو آپ نے پیٹ میں اپنی لاتیں چلانا شروع کردیں جس سے آپ کی ماں کو اندازہ ہوگیا کہ کچھ غلط ہوا ہے۔
ان واقعات سے شاید آپ کو حیرت ہو لیکن قرآن و احادیث کا مطالعہ کرنے سے حیرت اگر دور نہیں تو کم ضرور ہوجاتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں تیسری آنکھ کے سلسلے میں قرآن اور تعلیماتِ اہلِ بیت ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں۔

١۔ قرآن اور تیسری آنکھ:
ترجمہ (سورہ کہف آیت ٦٥):
اس کو اپنی بارگاہ سے رحمت کا حصہ عطا کیا تھا اور ہم نے اسے اپنی طرف سے کچھ علم عطا کیا تھا ۔
مندرجہ بالا آیت حضرت موسی اور حضرت خضر علیہما السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جس میں خضرٴ نے (کچھ علمائ کے نزدیک وہ نبی نہیں تھے) جناب موسی کو باقاعدہ پڑھایا اور ان کو کچھ اسرار و رموز سے آگاہ کیا حالانکہ وہ نبی تھے۔ اس لئے تیسری آنکھ ایک غیر نبی کے پاس بھی ہوسکتی ہے ۔ رسول۰ اکثر علیٴ سے مخاطب ہوکر کہتے:
’۔۔ اے علیٴ جو میں نے سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو۔‘‘ (نہج البلاغہ ۔ مفتی جعفر حسین خطبہ ١٩٠ صفحہ ٥٣٤)
ارے آپ فقط اس ایمان پر قائم رہ جائیں جو آپ اللہ پر لائے ہیں پھر دیکھئے فرشتے کس طرح قطار در قطار آسمان سے اتر کر آپ کو عالم ملکوت کی خبریں دیتے ہیں، وہ بھی Latest Updates۔
ان الذین قالوا ربنا اللّٰه ثم استقاموا تتنزل علیهم الملائکة۔۔
’’بے شک جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر اس پر قائم رہتے ہیں ان پر فرشتے نازل ہوں گے۔۔‘‘
ویسے بھی اللہ کا وعدہ ہے کہ :
لئن شکرتم لازیدنَّکم۔
اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا۔(القرآن )
یعنی اگر ہم دو آنکھوں کا ’’صحیح‘‘ استعمال کریں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کریں تو کچھ بعید نہیں اللہ ہمیں تیسری آنکھ بھی عطا کردے۔
حدیث میں آیا ہے:
’بندہ اگر ان باتوں پر عمل کرتا ہے کہ جن باتوں کا اسے علم ہوتا ہے تو اللہ اسے ان باتوں کا علم بھی دے دیتا ہے کہ جن باتوں کا اسے علم نہیں ہوتا۔!‘

حدیث اور تیسری آنکھ:
١۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیسری آنکھ یا برزخی آنکھ یا دل کی آنکھ یا چشمِ بصیرت ہمارے اندر کیوں بیدار نہیں ہوتی۔۔؟

(a) خارجی سبب:
حدیثِ رسول ہے:
’’اگر شیاطین بنی آدمٴ کے دلوں کے اردگرد حرکت نہ کرتے اور ان میں غبار اور تاریکی پیدا نہ کرتے تو یہ بنی آدمٴ اپنے دل کی آنکھ کے ساتھ ’عالمِ ملکوت‘ کا مشاہدہ کر سکتے تھے۔‘‘ (معراج السعادہ۔ ص ١١)
درحقیقت انسان اور رحمن کے درمیان ایک بڑی رکاوٹ شیطان ہے جو آدمٴ کے زمانے سے لے کر آج تک دونوں کے درمیان دوری کا سبب بنا ہوا ہے، لیکن یاد رکھئے! کتا وہیں پر منڈلاتا ہے جہاں اسے ہڈی کی امید ہو، گدھ وہیں جھپٹا مارتا ہے جہاں مُردار پڑا ہو۔ مکھی گندگی میں ہی ڈیرہ ڈالتی ہے۔ مچھر رُکے ہوئے گندے پانی میں ہی غول در غول بسیرا کرتا ہے۔ چور غافل لوگوں کا سامان ہی لوٹا کرتا ہے۔ چنانچہ تیسری آنکھ کے نہ کھلنے کا سب سے بڑا سبب خود انسان ہی ہے نہ کہ شیطان

ہنسی آتی ہے مجھے ان حضرتِ انسان پر
فعل بد خود کریں لعنت کریں شیطان پر

(b) داخلی سبب:
ایک دوسری حدیث میں اس کی وجہ داخلی بھی بتائی گئی ہے۔
’’اگرتمہارے دل ’خواہشوں‘ میں نہ کھوئے ہوئے ہوتے یا تم لمبی چوڑی ’باتیں‘ نہ کیا کرتے تو جو میں سنتا ہوں، تم بھی سنتے۔‘‘ (مسند امام حنبل۔ صفحہ ٢٦٦)

(i) خواہشیں:
یہ حقیقت ہے اور اس کا وعدہ شیطان نے بھی خدا سے کیا تھا کہ ’’میں تیرے بندوں کو لمبی آرزووں میں لگادوں گا۔‘‘
٭ آپ نے اپنی درسی کتاب میں ’کتبہ‘ نامی سبق پڑھا ہوگا کہ کس طرح ایک شخص اپنا ذاتی مکان بنانے کی خواہش میں پوری زندگی پیسے کمانے میں گزار دیتا ہے لیکن کبھی پیسہ اس کی شادی میں خرچ ہو جاتا ہے؛ کبھی بچوں کی تعلیم میں اور کبھی اس کی بیماری میں، زندگی بھر فقط اتنی بچت ہوتی ہے کہ وہ گھر کے لئے اپنے نام کی تختی خرید پاتا ہے بالآخر مکان کی حسرت لئے وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور پھراس کے بچے اس کے نام کی تختی اس کی قبر پر بطورِ ’کتبہ‘ لگا دیتے ہیں

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

٭ آپ نے شاید اس مچھیرے اور اس کی بیوی کی بھی کہانی سنی ہوگی کہ جب مچھیرا ایک مچھلی پکڑتا ہے تو مچھلی اس سے التجا کرتی ہے کہ اگر مجھے چھوڑ دو گے تو تمہاری ایک خواہش پوری کروں گی۔ مچھیرا بیوی کے کہنے پر ایک کشتی طلب کرتا ہے۔ کچھ دنوں بعد وہی واقعہ دہرایا جاتا ہے۔ اس دفعہ بھی وہ اپنی بیوی کے کہنے پر ایک گھر کی خواہش کرتا ہے۔ گھر کی خواہش بھی پوری ہوجاتی ہے، پھر محل، پھر بادشاہت اور پوری دنیا کی شہنشاہیت بھی حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایک دفعہ مچھیرے کی بیوی (یعنی ملکہ عالیہ) صبح اٹھی تو دیکھتی ہے، سورج طلوع ہورہا ہے۔ وہ سوچتی ہے سورج مشرق سے کیوں طلوع ہوتا ہے، اس کو مغرب سے طلوع ہونا چاہیے۔ بس اسی خواہش کا اظہار جب بعد میں مچھلی سے کیا گیا تو مچھلی غصہ سے پانی میں واپس چلی گئی اور ۔۔! مچھیرا اور اس کی بیوی بھی اپنی اصلی حالت میں واپس آگئے یعنی وہی غربت و حسرت و یاس کے دن۔ اور بقیہ زندگی اچھے دنوں کو یاد کرتے کرتے گذار دی۔

یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

٭ ہمارے ایک دوست پیسہ کمانے امریکہ گئے، واپس آئے دولت مند بن کر۔۔ ہم نے کہا اب تو آپ کی لمبی گاڑی کی خواہش پوری ہوسکتی ہے نا ۔ انھوں نے کہا ہاں اب میں ایک شاندار گاڑی لے سکتا ہوں مگر امریکہ جیسی سڑکیں پاکستان میں نہیں بناسکتا چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔ کسی ادھوری خواہش کے تعاقب میں پوری زندگی داو پر لگانے !
قولِ معصومٴ ہے:
’’زیادہ کے لئے اپنی زندگی داو پر نہ لگاوجو تمہاری قسمت میں ہے وہ تمہیں مل کر رہے گا۔‘‘
(ii) باتیں:
یہی حال ہماری گفتگو کا ہے یعنی خالی چنا، باجے گھنا یا پھر جو گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
مولا علی کا قول ہے:
’’جب ایمان کم ہوجاتا ہے تو نعرہ ¬گفتگو بلند ہوجاتی ہے۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ نیاگرا آبشار کے سامنے ایک ٹورسٹ گائیڈ سیاحوں کو بتلا رہا تھا کہ اس آبشار کے گرنے سے جو شور پید اہوتا ہے وہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میلوں دور تک کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ پھر اس نے وہاں موجود خواتین سے درخواست کی کہ برائے مہربانی آپ خاموش ہوجائیے تاکہ لوگ آبشار کی آواز سن سکیں۔
بہرحال گفتگو بالخصوص کثرتِ گفتگو صرف خواتین کا ہی نہیں بلکہ مردوں کا بھی مسئلہ بلکہ ہر اس شخص کا مسئلہ ہے جو ہاتھ پیر یعنی اعضائ جوارح کم ہلاتا ہو تگ ودو کم کرتا ہو اور زبان ہلاکر کام کرنے یا زندگی گزارنے کا زیادہ قائل ہو۔
کیا آپ نے کبھی سوچا گھر کے بیڈروم میں دیوار پر لگی گھڑی کی ٹِک ٹِک فقط رات کوہی کیوں سنائی دیتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ دن میں بیوی کی ٹک ٹک ، شوہر کی جھک جھک، ساس کی بک بک، بچوں کی بھیں بھیں، ماسی کی میں میں، ٹی وی کی ٹیں ٹیں اور دوسرا شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ گھڑی کی ٹک ٹک اس شور میں دب جاتی ہے اور زندگی کا ہنگامہ، زندگی کی برف پگھلنے کا احساس بھی نہیں ہونے دیتا

ہورہی ہے عمرِ رفتہ کم سے کم
رفتہ رفتہ، چپکے چپکے، دم بدم

مشکل کا حل:
تیسری آنکھ کھلنے کا سبب تو معلوم ہوگیا، اب آئیے اسے کھولنے کا حل تلاش کرتے ہیں۔
حدیثِ رسول۰:
’’جو شخص چالیس شب وروز خالص اللہ کی یاد میں رہے تو اللہ علم و حکمت کے چشمے اس کے قلب سے اس کی زبان پر جاری کردے گا۔‘‘ (سفینہ البحار۔ مادہ خالص)
حدیثِ رسول۰:
’’جو شخص دنیا میں زہد اختیار کرے اور آرزوئیں کم رکھے تو اللہ اسے بغیر سیکھے علم دیتا ہے اور بغیر رہنمائی کے ہدایت دیتا ہے۔‘‘
اس علم کو ’علمِ لدنّی‘ یا ’علمِ افاضی‘ کہتے ہیں۔ یہ علم آسمان سے زبان پر جاری ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ بہت کم وقت میں بہت سارا علم حاصل کرلیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آرزوئیں نہیں رکھتے اور موسی نہ ہونے کے باوجود ضربِ کلیمی کی استطاعت رکھتے ہیں

نہیں مقام کی خوگر طبیعتِ آزاد
ہوائے سیرِ مثالِ نسیم پیدا کر!
ہزار چشمے تیرے سنگ راہ سے پھوٹیں!
خودی میں ڈوب کر ضربِ کلیم پیدا کر

E۔حرفِ آخر:
سوال: اگر تیسری آنکھ غیر مسلموں کے پاس بھی ہے اور ہمارے پاس بھی تو کیا دونوں اللہ کے نزدیک برابر ہوگئے؟
جواب: جناب غیر مسلم تو کیا یہ تیسری آنکھ تو کچھ مسلمانوں کے پاس بھی ہے جو اسے فقط ذاتی تشہیر اور حبِ دنیا کے لئے استعمال کرتے ہیں نہ کہ خدا کے لئے۔۔!
رجب علی خیاط نے ایک دفعہ ایک عابد کو عالمِ برزخ میں دیکھا کہ وہ پریشان گھوم رہے ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس عابد نے برزخ کے حالات معلوم کرنے کے لئے تیس سال مسلسل عبادت و ریاضت کی اور جب یہ صلاحیت حاصل ہوگئی تو اس کے فوراً بعد ہی اس کا انتقال ہوگیا۔ جب اس کو اللہ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے خوشی خوشی اپنی عبادت و ریاضت کا تذکرہ کیا اور اللہ سے اس کا صلہ مانگا تو اللہ نے جواب دیا ’یہ سب محنت تو تم نے برزخ کے حالات معلوم کرنے کے لئے کی تھی یہ بتاو تم نے میرے لئے کیا کیا؟؟‘
اگر آپ کی تیسری آنکھ بیدار ہوجائے تو خدارا اسے خودشناسی اور خودشناسی اور خدا شناسی کے لئے استعمال کیجئے گا نہ کہ کسی تیسرے شخص کی زندگی کریدنے، پڑوسی کے حالات معلوم کرنے، رشتہ داروں کے ذہن ٹٹولنے اور کریڈٹ کارڈ کا بیلنس معلوم کرنے کے لئے ۔۔۔ ورنہ آپ بھی اس عابد کی طرح عالمِ برزخ میں پریشان گھومتے ہوئے نظر آئیں گے
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
٭ اس کے بعد انسان اور انسان کا نفس کن اجزائ کا مرکب ہے؟ ان اجزائ میں کیا بے اعتدالیاں ہوسکتی ہیں؟ اور اس سے کیا خرابیاں جنم لے سکتی ہیں؟ اس کا تذکرہ انشائ اللہ اگلی قسط میں !