خود شناسی(پانچویں قسط)

 

پچھلی اقساط کا خلاصہ
١۔ اپنے آپ کو پہچاننا خودشناسی ہے یعنی اپنے مقام، اپنی صلاحیتوں اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی، انفرادی، معاشی، معاشرتی اور خاندانی ابتری اس بات کی دلیل ہے کہ انسان نے اپنے آپ کو پہچاننے میں ہمیشہ کوتاہی سے کام لیا ہے۔ سائنس نے جو علم د یا انسان نے اسے زندگی کو آرام دہ بنانے کے لئے استعمال کیا نہ کہ خداشناسی کے لئے۔
٢۔ اب ہندو، انگریز سب خود شناسی کی طرف تیزی سے مائل ہورہے ہیں ۔ اسلام ١٤٠٠ سال سے خودشناسی کا درس دے رہا ہے ، اگر ہم سستی اور کاہلی کا شکار رہے اور مزید تاخیر سے کام لیا تو یہ لوگ جلد ہی امامِ زمانہٴ کے لشکر سے جاملیں گے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
٣۔ خودشناسی کا علم حاصل کرنے کے لئے سب سے مستند ذریعہ ’’وحيِ الٰہی ‘‘ ہے نہ کہ سائنس یا عقل۔ کیونکہ وحيِ الٰہی کے لائے ہوئے نظریات کبھی غلط ثابت نہیں ہوتے جب کہ باقی دونوں ماخذ علوم کے نظریات وقتاً فوقتاً غلط ثابت ہوتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں وحيِ الٰہی کے علم کے اصل وارث اہلِ بیت ہیں ، چنانچہ علم چاہے خود شناسی کا ہو یا خدا شناسی کا یا کسی اور شئے کا ہمارا رخ اہلِ بیت کی جانب ہونا چاہیے۔
٤۔ تعلیماتِ اہلِ بیت خودشناسی کے بارے میں جو راہ ہمارے لئے متعین کرتی ہے اس کے لئے ہمیں دو آنکھوں کے علاوہ ایک ’’تیسری آنکھ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے جو باطن کی آنکھ کہلاتی ہے۔ اس آنکھ کے بارے میں ہندو ، عیسائی پہلے ہی تصدیق کرچکے ہیں اور اب مغربی دنیا Clairvoyanceنامی جدید طریقے سے اس آنکھ کو متعارف کروارہے ہیں۔ تعلیماتِ اہلِ بیتٴ کے مطابق یہ تیسری آنکھ اسی صورت بیدار ہوسکتی ہے جب انسان کثرتِ کلام ، کثرتِ آرزو سے پرہیز کرے اور شب و روز اللہ کی یاد میں کھویا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خداوند تعالی سورہ شمس کی ابتدائی آیات میں ١١قسمیں کھانے کے بعد فرماتا ہے :
’’قد افلح من زکّٰیها‘‘
(کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اپنا تزکیہ نفس کیا)
یعنی کامیابی’’تزکیہ نفس‘‘ میں ہے نہ کہ دولت، عزت، شہرت ، کیرئیر میں۔ حتی کہ علم کا حصول بھی تزکیہ نفس کی سیڑھی ہے نہ کہ خود ایک ہدف۔
حدیث : اول العلم معرفة الجبار و آخر العلم تفویض الامر الیه۔
ترجمہ: علم کی ابتدا جبار کی معرفت ہے اور علم کی انتہا اپنے تمام امور اللہ کے سپرد کردینا ہے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ نفس کو سمجھے بغیر اس کا تزکیہ نہیں ہوسکتا یعنی پہلے نفس کا تجزیہ ، پھر تزکیہ۔
جس طرح ایک ڈاکٹر جسمانی امراض کی تشخیص اور علاج اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک کہ جسمانی ساخت اور اس کے اجزائے ترکیبی کو نہ سمجھ لے، بالکل اسی طرح نفس کے امراض کی تشخیص اور علاج کے لئے بھی نفس کا سمجھنا از حد ضروری ہے۔ نفس کیا ہے؟ کن چیزوں کا مرکب ہے ؟ اس کے اجزائے تر کیبی کون کون سے ہیں؟ ہر ہر جز کا کیا فعل ہے؟ ان میں بگاڑ کیسے پیدا ہوتا ہے؟ ان سے کون کون سی برائیاں اور گناہ جنم لیتے ہیں؟ ان امراض کی علامات کیا کیا ہیں؟ ان تمام باتوں کو سمجھنا علاج کی طرح ضروری ہے۔ جیسے واجب کا مقدمہ خودبخود واجب ہو جاتا ہے مثلاً نماز کے لئے وضو، اس طرح نفس کا تجزیہ خودبخود نفس کے تزکیہ کی طرح واجب ہے۔
آئیے اس تمہید کے بعد انسان پر نظر ڈالتے ہیں اور خودشناسی کے سمندر میں اصل گوہر کی تلاش کرتے ہیں یعنی نفس۔

انسانی مساوات
یہ اخوت اور بھائی چارگی والی مساوات نہیں بلکہ ریاضی میں استعمال ہونے والی مساوات (Equation) ہے، جو کچھ یوں ہے:

انسان =جسم+نفس (روح)
بظاہر سادہ سی نظر آنے والی مساوات اپنے اندر ایک بحرِ بیکراں اور اتھاہ سمندر لئے ہوئے ہے۔ آئیے ابتدائ جسم سے کرتے ہیں۔

١۔ جسم
a۔ پہلا نکتہ:
٭ انسان کا جسم بہت سارے نظاموں یعنی Systems سے بنا ہے۔ مثلاً نظامِ تنفس، نظامِ ہاضمہ، نظامِ اعصاب وغیرہ۔
٭ ایک نظام بہت سارے اعضائ (Organs) سے بنا ہوا ہے مثلاً نظامِ ہاضمہ غذا کی نالی، معدہ اور آنتوں سے مل کر بنا ہے۔
٭ ایک عضو بہت سارے نسیج یعنی Tissues سے مل کر بنا ہے مثلاً معدہ خود بہت سارے چھوٹے چھوٹے غدود، جھلیوں اور عضلات سے مل کر بنا ہے۔
٭ ایک نسیج بہت سارے خلیوں یعنی Cellsسے مل کر بنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمار ے جسم میں (100x1012) سو ٹریلین خلیے ہوتے ہیں۔
٭ ہر خلیہ کم از کم ٥ قسم کے مادوں سے مل کر بنا ہے۔
١: پانی water۔
٢: آئنرن Ions ۔
٣: نشاستہ corbohydrates ۔
٤: پروٹین protein۔
٥: لحمیاتFats۔
یعنی ’’پانچ‘‘ عناصر کے بغیر خلیہ نامکمل اور خلیہ کے بغیر ٹشو نامکمل اور ٹشو کے بغیر عضو ادھورا اور عضو کے بغیر نظام تشنہ اور نظام کے بغیر انسانی جسم کا وجود ایک خواب۔

b۔ دوسرانکتہ:
انسانی جسم میں ٹھوس اور مائع کا تناسب بالترتیب ٣¬ا ہے اور مائع ٣¬٢ ہے۔ یہی تناسب دنیا میں خشک و تر کا بھی ہے یعنی زمین کی خشکی ٣¬١ پانی، سمندر اور دریا کی صورت میں ٣¬٢ ۔

c۔ تیسرا نکتہ:
جسم میں پایا جانے والا نمک دیگر ٹھوس سے زیادہ ہے یعنی 97% اور پانی دیگر مایعات میں مقدار میں سب سے زیادہ ہوتا ہے، یعنی 60%۔ یہی تناسب دنیا میں بھی نظر آتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پایا جانے والا ٹھوس‘ نمک (NaCl) ہے جو سمندر کے پانی میں حل شدہ ہے اور سب سے زیادہ پایا جانے والا مائع‘ پانی ہے جو سات سمندر میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ یعنی Mount Everestکو سب سے گہرے سمندر میں ڈبو دیا جائے تو وہ سطح سمندر سے میلوں نیچے ہوگا۔ یعنی سمندر کی گہرائی پہاڑوں کی اونچائی سے کہیں زیادہ اونچی (یا گہری) ہے۔
لیکن سب سے اہم نکتہ جو ہم بتانے جارہے ہیں وہ یہ کہ جسم میں پائے جانے والے مادے یعنی پروٹین، نشاستہ، لحمیات، پانی، آئزن دنیا میں کھیت، سمندر، معدنیات کی صورت میں بکثرت موجود ہیں یعنی کوئی شخص یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ انسان کے زندہ رہنے کے لئے دنیا میں وسائل کم ہیں۔ وسائل نہ صرف کافی ہیں بلکہ انسان کی جسمانی ضرورت سے کہیں زیادہ ہیں لیکن انسان کے نفس کی لالچ نے ان مادی وسائل کو غلط تقسیم کردیا ہے۔ اگر افریقہ میں لوگ قحط سے مر رہے ہیں تو امریکہ میں لاکھوں ٹن گندم سمندر میں ڈبو دیا جاتا ہے کہ کثرت گندم کہیں قیمتوں میں کمی کا سبب نہ بن جائے۔ بہرحال یہ قیمتوں میں کمی کا سبب تو نہیں بنی لیکن انسانوں میں کمی کا سبب ضرور بن گئی۔

نتیجہ:
١۔ مادی وسائل مادی ضروریات سے کہیں زیادہ ہیں، انسان کو اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جس طرح رزق اللہ کے ذمہ ہے اسی طرح جسم کی بقائ بھی اللہ کا ذمہ ہے۔
٢۔ انسانی نفس جسم پر اثر انداز ہوتاہے چاہے منفی ہو یا مثبت۔ یعنی ’’ہوسِ نفس‘‘ مادی وسائل کی تقسیم پر اثر انداز ہوکر نہ صرف انسان بلکہ انسانیت کو تباہ کرسکتی ہے اور ’’عدلِ نفس‘‘ وسائل کی منصفانہ تقسیم کرکے دنیا کوامن وسکون کا گہوارہ بناسکتی ہے۔

٢۔ نفس(روح)
انسان کا دوسرا اوراہم ترین جز ’’نفس یا روح‘‘ ہے۔ دونوں میں فرق اتنا ہے کہ زندہ حالت میں اسے نفس کہتے ہیں اور مرنے کے بعد اسی نفس کو روح کہا جاتا ہے۔
نفس یا روح کی مثال گھڑ سوار کی سی ہے اور جسم کی مثال گھوڑے یا سواری کی، نفس (روح) پرندہ ہے اور جسم پنجرہ، جسم قلم ہے اور نفس قلم سے لکھی گئی تحریر، جسم Hard ware ہے اور نفس کمپیوٹر کا Software، جسم تھرما میٹر ہے تو روح ڈاکٹر۔ جسم شعر کے الفاظ ہیں تو نفس شعر کا مفہوم۔
ان تمام مثالوں سے ظاہر ہے کہ نفس (روح) جسم پر مقدم ہے اور جسم سے کہیں زیادہ گہرائی اور گیرائی رکھتا ہے۔
نفس کے لئے ہم روزمرہ کی بول چال میں مختلف الفاظ استعمال کرتے ہیں مثلاً میں، مجھے، خود، خودی، انا (ego) وغیرہ وغیرہ۔ حقیقتِ نفس (روح)

(١)غیر اسلامی نظریات:
wikipedia جو اس وقت دنیا کا مشہور اور مستند ترین انسائیکلوپیڈیا ہے، نفس یا روح کی تعریف کچھ اس طرح کرتا ہے۔
’’کسی جاندار کی اپنی آگہی جو کہ غیر فانی اور انسان کے وجود سے پہلے تھی ‘‘
نفس یا روح جسے انگریزی میں soul کہتے ہیں، لفظ Sea یا Sele جو کہ جرمن زبان کا لفظ ہے سے مشتق ہے۔ قدیم جرمن عقیدے کے مطابق مرنے کے بعد انسان کی روح سمندر میں چلی جاتی ہے اسی مناسبت سے اسے Soul کہتے ہیں۔

a: فلسفیانہ نظریات
i۔ارسطو:
ارسطو کے مطابق روح جسم کے فعل کا نام ہے ۔
یعنی ! چاقو فاعل ہے تو کاٹنا اس کا فعل
دماغ فاعل ہے توسوچنا اس کا فعل
یعنی ارسطو روح کا الگ سے بلکہ سرے سے قائل ہی نہ تھا۔ لیکن کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد ارسطو روح کا قائل ہوگیا۔

ii۔ سقراط:
سقراط کے مطابق روح ہمارے جسم کی مستقل رہائشی ہے اور مرنے کے بعد ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

iii۔ تھامس ایکانو:
Thomas Aquins روح یا نفس کا قائل تھا اور اس کے مطابق روح جسم کو سمجھتی ہے۔ اس لئے جسم سے الگ ہے۔

b۔ مذہبی نظریات
i۔ہندو انہ نظریات:
روح (نفس) خدا کا حصہ ہے، نہ پیدا ہوتی ہے اور نہ مرتی ہے بلکہ ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

ii۔ سکھ نظریات:
روح خدامیں ہے اور خدا روح میں۔
کچھ سکھوں کے مطابق ’گرونانک‘ کے اندر خدا کی روح تھی۔

iii۔ بدھ نظریات:
روح کچھ نہیں۔۔ دماغ کا فعل ہے۔
تبتی بدھ روح پر یقین رکھتے ہیں۔
دلائی لامہ جوتبتی بدھ کے موجودہ بہت بڑے پیشوا ہیں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی روح کبھی کسی اچھے انسان کی روح تھی۔

iv۔عیسائی نظریہ:
روح اللہ نے پیدا کی ہے۔ مرنے کے بعد روح جنت یا دوزخ میں چلی جائے گی اور یہ انجام انسان کے عقائد اور اعمال کی بنیاد پر ہوگا ۔

v۔ یہودی نظریہ:
تقریباً وہی ہے جو عیسائیت کا ہے اس فرق کے ساتھ کہ روح طاہر یعنی پاک و پاکیزہ ہوکر جنت میں جائے گی۔ یعنی اسلام سے قریب ترین نظریہ۔ یہ بات حیران کن ہے مگرمصدّقہ کہ دنیا کے مذاہب میں یہودیت کو اسلام کے قریب ترین مذہب سمجھا جاتا ہے یہاں تک کہ یہودیت اور اسلام کی مشترکہ تعلیمات کو باقاعدہ طور پہ ’اسرائیلیات‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

c۔ سائنسی نظریات
سائنس دانوں نے روح کو بطور ’دماغ‘ سمجھ کر اس پر 167,244 تجربات کئے مگر ناکام ہوئے۔ اس کے بعد روح کو بطور ’شعور‘ consious سمجھ کر 2,918 تجربات کئے اس کے باوجود بھی ناکام رہے۔ آخر میں روح بطور ’روح‘ قبول کر کے اس پر 552 تجربات کئے لیکن روح کو دیکھنے، سونگھنے، سننے میں ناکام رہے۔ ایک سائنسی تحقیق کے مطابق انسان کے مرنے کے فوراً بعد اس کے جسم میں 28 گرام کی کمی ہو جاتی ہے۔ شاید انسان کے جسم سے کچھ نکل گیا ہو مرنے کے بعد، اسی لئے 28 گرام وزن کم ہوا۔ لیکن ابھی تک حواسِ خمسہ کے ذ ریعے مشاہدات قبول کرنے والی سائنس روح سے کوسوں دور ہے
طلسمِ بود و عدم جس کا نام ہے آدم
خدا کا راز ہے، قادر نہیں جس پہ سخن
اگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہہ دوں
وجودِ حضرتِ انسان نہ روح ہے نہ بدن

٢۔ اسلامی نظریات:
a۔ قرآن:
’’اور آپ سے لوگ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے اور تمہیں اس کا بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ ‘‘(سورہ بنی اسرائیل آیت ٨٥)
قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی روح کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہے مثلاً (زمر ۔٢٤)، (ملک۔٢)، (واقعہ ۔٨٣) وغیرہ۔
کہتے ہیں ایک دفعہ مشرکینِ مکہ میں سے کچھ لوگوں نے منصوبہ بنایا کہ محمد رسول اللہ ۰ سے روح کے بارے میں سوال کریں گے، ا گر محمد۰ نے روح کے بارے میں بتادیا تو وہ نبی نہیں ہوں گے کیونکہ روح کا علم نبی کو بھی نہیں دیا گیا ہے۔ چونکہ محمد۰ اللہ کے سچے نبی تھے اس لئے انھوں نے کچھ دیر توقف کیا اور وحيِ الٰہی کے آجانے کے بعد مشرکینِ مکہ کو وہی کچھ بتایا جو ان کو سورہ بنی اسرائیل کی آیت ٨٥ میں وحی کی گئی تھی۔

b۔ایک اہم نکتہ:
عربی میں روح کے معنی ہیں نفس، دوڑنا، ہوا۔ یعنی روح ایسی متحرک شئے ہے جو ہوا کی طرح دیکھی نہیں جاسکتی اور یہ انسان کا نفس ہی ہے جو انسان کے جسم کو متحرک رکھتا ہے اور خود نظر نہیں آتا۔
یہاںپر ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ
’’کسی چیز کی لاعلمی اس چیز کے ’’عدم ‘‘ پر دلیل نہیں ‘‘
مثلاً بیکٹریا خوردبین کی ایجاد سے پہلے نظر نہیں آئے مگر خوردبین کی ایجاد نے ان کو منکشف کر دیا۔ اسی طرح الیکٹرانک خوردبین نے وائرس کو آشکار کیا اور اس کے بعد الٹرا خوردبین نے Prion نامی خفیف ترین ذرے کو بھی دریافت کر لیا جس کے بارے میں اب تک فیصلہ نہیں ہوپا رہا ہے کہ یہ جاندار ہے یا بے جان۔ یہ وہ ذرہ ہے جو Mad cowdisease اور بڑھاپے میں نسیان کی بیماری Atzehimer's disease کا سبب بنتا ہے۔
بہت سارے سیارے اور ستارے اب تک پردہ غیبت میں تھے مگر اب بڑی بڑی دوربین کے ذریعے ان کو دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلاً Arcturus وغیرہ کہ جن کے سامنے زمین ایک نقطہ کی حیثیت رکھتی ہے جب کہ Antarus کے سامنے زمین اتنی چھوٹی ہے کہ اس کو دیکھا بھی نہیں جاسکتا جیسے انسان کے سامنے بیکٹریا۔
اگر چیونٹی کسی کاغذ کے اوپر سے گذر رہی ہو تو وہ قلم کی نوک کو ہی حاضر سمجھے گی جب کہ قلم اس کے نزدیک غائب ہوگا تو اس کے بعد خود انسان چیونٹی کے احاطہ نظر میں کیسے آسکتا ہے۔
مورخہ 26 جولائی 2009 کے اخبار میں مشہور سائنسدان پروفیسر عطائ الرحمن نے انکشاف کیا کہ سائنسدان تمام تر تحقیقات اور ایجادات کے باوجود اب تک فقط 4% کائنات دریافت کر پائے ہیں یعنی 96% کائنات ابھی دریافت کرنی باقی ہے۔ 4% کائنات دریافت کرنے میں 1400 سال لگائے بقیہ 96% دریافت کرنے میں کتنے سال درکار ہوں گے۔ 96x1400 یعنی 33,600 سال۔ اور یہ وہ کائنات ہے جس کے بارے میں سائنسدانوں کو معلوم ہے کہ انھیں نہیں معلوم، پتا نہیں 33,600 سال بعد مزید کوئی انکشاف ہو جائے کہ ابھی مزید کائنات کی دریافت باقی ہے۔ یعنی وہ کائنات جو سائنس دانوں کو ابھی نہیں معلوم کہ انھیں نہیں معلوم۔ (غور فرمائیے)
آپ ہمیں یہ بتائیے ہم 33,600 سال گذرنے کا انتظار کریں یا اس شخص کی نظر سے کائنات کا مشاہدہ کریں کہ جو کہا کرتا تھا: ’’لو کشف الغطائ ما ازددتُ یقیناً۔

٢۔ روح کے نظریات:
آپ نے روح کی مخالفت میں سائنس کے دلائل سنے، اب وجودِ روح کے اثبات کے بارے میں نظریات سنیے۔

a۔ خارجی نظریہ:
اس نظریہ کے مطابق جسمِ انسان کا داخلی عمل ایک خارجی عمل سے مربوط ہے اور وہ روح ہے ۔ مثلاً معدہ کی تیزابیت ذہن سے مشروط ہے مگر خود ذہن روح سے مربوط ہے یا خوف کی حالت میں آنکھ کی پتلیوں کا سکڑنا ذہن سے مشروط ہے مگر خود ذہن روح سے مربوط ہے۔

b۔ وحدتِ شخصی کا نظریہ :
جسم کے خلیے مسلسل فنا ہوتے رہتے ہیں اور ہر مرتبہ ان کی جگہ نئے خلیے لے لیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ٧ سال بعد ہمارے جسم کے تقریباً سارے خلیے تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ یعنی ٧٠ سال کی عمر میں ایک انسان ١٠ مرتبہ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی چیز ایسی ہے جو مستقل انسان کے ساتھ ساتھ رہتی ہے اور خلیوں کے ساتھ بدلتی نہیں۔ وہ انسان کی شخصیت کا لازمی جز بن کر اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔۔ او روہ ہے انسان کی ’’روح‘‘ یا ’’نفس‘‘۔

c۔ نظریہ انطباق:
ایک انسان جب کسی بڑی چیز مثلاً پہاڑ کو دیکھتا ہے تو وہ اس کی آنکھ میں چھوٹی اور الٹی نظر آتی ہے۔ مگر ذہن میں جاکر دوبارہ سیدھی اور بڑی نظر آتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہاڑ کی اصل اونچائی کے بارے میں ذہن کو خبر کس نے دی حالانکہ آنکھ نے تو اسے چھوٹا بناکر پیش کیا تھا۔ جی ہاں یہ روح یا نفس ہی ہے جس نے ذہن کو خبر دی کہ پہاڑ اس سے کہیں بڑا ہے جو تمہاری آنکھ دکھلا رہی ہے۔

d۔ ESR:
ڈاکٹر حضرات بسا اوقات کسی مریض کو جسمانی یا نفسیاتی طور پر ممیز کرنے کے لئے ایک ٹیسٹ لکھ کر دیتے ہیں اور وہ ہے ESR یعنی Erythrocyte Sedimentation rate۔ اس ٹیسٹ کی نارمل ویلیو mm/hr 5-15 ہوتی ہے۔ اگر ویلیو اس سے زیادہ ہو تو اس کا مطلب ہے انسان کو کوئی جسمانی بیماری ہے اور اگر ویلیو نارمل ہو مگر انسان پھر بھی بضد ہو کہ مجھے کچھ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص کسی ’’نفسیاتی‘‘ بیماری کا شکار ہے۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کیا نفسیاتی بیماری کا تعلق انسان کے جسم سے نہیں ہے؟ اگر ہے تو ESR کی ویلیو نارمل کیوں ہے؟ اور اگر نفسیاتی بیماری کا تعلق انسان کے جسم سے نہیں تو پھر انسان کے اندر وہ کون سی الگ سے شئے ہے جو انسان کو بیمار بنائے ہوئے ہے؟ ہمارے نزدیک وہ شئے ’’روح‘‘ یا ’’نفس‘‘ ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق تمام نفسیاتی بیماریاں حقیقت میں ’’نفسانی بیماریاں‘‘ (یعنی نفس کی بیماریاں) ہیں اور نفسیاتی مریضوں کو اپنے امراض کا علاج ڈاکٹروں کی بجائے علمائ و عرفائ سے کروانا چاہیے۔ (غور فرمائیے!)

٣۔ روح کی اصالت:
امام جعفر صادق سے روایت ہے:
’’روح کا مادہ خون ہے۔۔ جب خون رک جاتا ہے تو روح جسم سے جدا ہوجاتی ہے۔‘‘
اس ضمن میں دو نکات کی وضاحت ضروری ہے:
١۔ اگر روح مادہ کی ضد ہے تو روح خود کس طرح خون سے مربوط ہے اور کیا روح بھی مادہ رکھتی ہے چاہے وہ کتنا ہی خفیف کیوں نہ ہو (مثلاً 28gm ایک سائنسی تحقیق کی بنیاد پر) اس کی وضاحت یوں ہوسکتی ہے کہ اب تک روشنی یا نور کو مادے کی ضد سمجھا جاتا رہا تھا مگر اب پتا چلا ہے کہ روشنی بھی نہایت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل ہے جنھیں Photon کہا جاتا ہے۔ یہ ذرات اتنے چھوٹے ہیں کہ انھیں مادہ کہنا محال ہے اور مادے کے خواص اور اصولوں کو ان پر لاگو کرنا نہایت مشکل ہے۔
٢۔ رہی یہ بات کہ کیا مادہ روشنی میں تبدیل ہوسکتا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم کس طرح؟ مگر آئن اسٹائن کی مختصر سی مساوات E=mc2 کے تحت نظریاتی طور پر ہی سہی مگر تبدیلی ممکن ہے۔
اس بحث کے پس منظر میں اگر ہم یہ کہیں تو صحیح ہوگا کہ رسول۰ حقیقت میں نور تھے مگر خاک کے پیراہن میں لوگوں کے سامنے اس دنیا میں موجود تھے اور جب معراج پر گئے تو مادہ روشنی کی اسپیڈ سے چلا اور مختصر سے وقت میں واپس دنیا میں بھی آگیا کہ بستر ابھی تک گرم تھا۔ بہرحال سائنس یہ کہتی ہے کہ روشنی سورج سے زمین تک کا فاصلہ تقریباً ٨ منٹ ٣٠ سیکنڈ میں طے کرتی ہے۔ یوں کہہ لیجئے برف اور بھاپ کا فارمولا ایک ہی ہے یعنی H2O۔ مگر برف بھاری ہے، زمین کی طرف نسبت رکھتی ہے۔ جبکہ بھاپ ہلکی ہے، فضا اور بلندی کی جانب مائل ہے۔ گناہ گار برف کی مانند ہے اور نیکو کار بھاپ کی مانند ۔!!

روح اور جسم کا موازنہ
١۔عمر:
روح (نفس) انسان کے جسمانی وجود اور پیدائش سے پہلے تھی اور انسان کے جسم کے مرنے یعنی بے حس و حرکت ہونے کے بعد بھی رہے گی۔ چنانچہ روح کی عمر انسان کے جسم سے زیادہ ہے۔

٢۔آغاز:
جسم کا آغاز نطفہ سے جو کہ نجس ہے جب کہ روح امرِ ربی ہے اور طاہر ہے۔

٣۔انجام:
مرنے کے بعد جسم مٹی میں مل کر کیڑوں کی غذا بن جائے گا جب کہ روح عالمِ ملکوت کا سفر کرے گی اور پاک و پاکیزہ ہونے کی صورت میں جسم کو قبر میں کیڑوں کی غذا بننے سے روکے گی۔ جب کہ جسم روح کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں ۔

٤۔ارتقائ:
جسم ماں کے پیٹ میں ٩ مہینے تک ارتقائ کی منزل سے گزرتا ہے اور جب دنیا کے حوادث کو برداشت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو خدا اسے دنیا میں بھیجتا ہے جب کہ روح کا ارتقائ دنیا میں ہوتا ہے جب روح مکمل طور پر اس قابل ہوجائے گی تو پھر اسے آخرت اور برزخ کی منزلوں سے گذرنا ہوگا۔

٥۔ دنیا:
دنیا جسم کے لئے جنت اور روح کے لئے قید خانہ، جسم خاک ہے خاک سے اُنسیت رکھتا ہے، اس دنیا سے اُسے محبت ہے جب کہ روح عالمِ ملکوت سے آئی ہے اسی لئے وہاں جانے کے لئے بے تاب رہتی ہے۔ جسم اور روح کی مثال اس باپ بیٹے کی سی ہے جو کسی بازار سے گذر رہے ہوں اور بیٹا اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر چل رہا ہو مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہر دکان پر ضد کر کے کھڑا ہو جاتا ہو کہ مجھے فلاں کھلونا چاہیے اور باپ اس کو جلد از جلد اس بازار سے نکال کر گھر (عالم ملکوت) لے جانا چاہتا ہو۔

٦۔طبیعت:
جسم مادی چیزوں سے خوش ہوتا ہے اور مرئی چیزوں پر جان چھڑکتا ہے۔ ہر وہ شئے جو جسم کو راحت پہنچاتی ہو، جسم اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً لذیذ کھانے، مزیدار مشروب، نرم بستر، زرق برق لباس، وسیع و عالیشان مکان وغیرہ۔ جبکہ یہ مادی اشیائ جسم کے لئے زندگی ہیں تو روح کے لئے موت۔
جب کہ عبادات، تقوی، تسبیح و تہلیل، اذکار، شب بیداری، تفکر روح کی غذا ہیں جن سے جسم کتراتا ہے۔
جسم کا بھاری پن انسان کو دنیا چھوڑنے سے روکتا ہے اور حجابات بڑھانے کا سبب بنتا ہے جب کہ روح کا غلبہ انسان کو جلد از جلد خدا سے ملنے کے لئے ہمہ وقت تیار رکھتا ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے روح عالمِ ملکوت کا سفر جاری رکھتی ہے اور حجابات کے اٹھ جانے یا کم ہوجانے کا سبب بنتی ہے۔
اس کے بعد روح (نفس) کی اقسام، روح کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد اور اس کے اجزائے ترکیبی آئندہ اقساط میں ۔