جناب ِسیدہ فاطمہ الزہراء پہلی قسط


حسب الحکم اپنے عزیز ترئین دوست جناب صفدر ھمدانی اورحسب وعدہ ہم اب اس ہستی پر بات کر نے جا رہے ہیں جن پہ بات کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے یہاں بھی پھر وہی دنیا اور عاقبت دونوں کو خطرہ ہے۔ مگر ہمیں اپنے خدا پر یقین ہے کہ انشا اللہ وہ ہمیں اس مر حلے سے بھی بہ خیر و خوبی نکا ل لے گااور اس کے بعد اپنے قارئین پر بھی یقین ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح پذیرا ئی کر یں گے ۔
ذکران کا ہے جن کے سے ماں باپ کسی کے نہیں تھے اور نہ ان کے جیسے شوہر، اور نہ ان کے جیسے بچے ۔ اور نہ ہی رہتی دنیا تک دوبارہ ایسا اتفاق ہو سکتا ہے کہ پورا کنبہ ہمہ خانہ آفتاب ہو ۔یعنی جو ہے وہ اپنی جگہ کامل ہے۔ کیونکہ کہ یہ انہیں کے نصیب میں لکھا گیا تھا اور ایسے معجزے بار ، بارنہیں ہوا کر تے لہذا آئندہ ایسے اشخاص ایک گھر میں ایک جگہ کبھی اکٹھا نہیں ہو سکیں گے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے محبوب (ص) پر اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنی نوازشات تمام کر دینا چا ہتا تھا۔
والد دیکھئے نبیوں کے سر دار اور رحمت اللعالمین یعنی تمام عالم کے لیئے رحمت، اگر میں ان کی تعریف رقم کر نا شروع کر دوں تو صحیفے رقم ہو جا ئیں اور تعریف رقم نہ ہو سکے۔ اس لیئے کہ جن کی تعریف خود خدا کر دے ،ان کی تعریف انسان سے کہاں ممکن ہے ۔ انسان کر رہی ہی نہیں سکتا ۔ اس کی مثال بھی قر آن جیسی ہے جو کہ اس نے تمام دنیا کو چلینج کی شکل میں دے رکھی کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لا ؤ؟
اور کوئی آج تک نہیں بنا کر دکھا سکا اسی طرح ایک کامل انسان بنا کر دکھادیا اور اس کی تعریف خود فر ما کر سب کو دعوت دیدی کہ تم ایسی تعریف کر کے تو دکھا ؤ ۔ چودہ سو سال سے تمام دنیا کے انسان نعت کہنے اور سیرت لکھنے میں لگے ہو ئے ہیں ، مگر ہر ایک کو اپنی کی ہو ئی تعریف خود اپنی نظر میں تشنہ لگتی ہے ،لہذا پھر لکھتا ہے اور با بار لکھتا ہے اور آج تک لکھے جا رہا ہے اور قیامت لکھتا رہے گا۔ مگر اس کے عطا کردہ ایک خطاب “رحمت اللعالمین ً “ کا حق ادا نہیں کر سکے گا۔


والدہ دیکھئے تو خواتین ِ جہاں میں افضل ۔کیوں ؟

آپ نے تاریخ میں پڑھا ہو گا کہ عمو ما ً انبیا ئے کرام کی بیویاں بھی ان کے تابع نہ تھیں اور ان پر ایمان نہیں لا ئیں ! کیونکہ یہ رشتہ ہی ایسا ہے کہ اس میں دونوں کا ہر وقت کے ساتھ رہنےکی وجہ سے ایک دوسرےکا کچھ چھپانہیں رہتا ہے۔لہذا بیوی کو قول و فعل میں ذراسی کمی بھی نظر آئے تو معتقد ہو نا بہت ہی مشکل ہے۔ مگر یہ فخر بھی حضور (ص) کو ہی حاصل ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بیوی بھی ایسی عطا فر مائی کہ جو بجا ئے عدم اطمینان کا اظہار کر نے اور گھبرا نے کے، الٹا دلجوئی کر رہی ہے کہ اے میرے نیک شوہر گھبرا یئے نہیں ۔ چونکہ آپ بھو کوں کو کھانا کھلاتے ہیں غریبوں اور کمزوروں کی مدد کر تے ہیں لہذا آپ کا رب آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اور اپنی تمام مال و متاع ان کی نظر کر دیتی ہیں۔ جب ماں ایسی ہو تو بیٹی کیسی ہو گی اورانہوں نے حضرت بتول کی تر بیت کیسے فر ما ئی ،وہ آپ آگے چل کر پڑھیں گے۔
شوہر دیکھئے جن کا لقب کرم اللہ وجہ،جو دنیا کے بہادروں کے سردار جو شیر ِ خدا کے لقب سے ظا ہرہے ۔ سردار ِ متقین، جو حضور (ص) کے اس ارشاد ِ گرامی سے ظاہر ہے کہ ً علی کو برا مت کہو۔ وہ تم سب میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے ً یہاں بھی وہی مسئلہ کہ ان کے بھی اتنے القابات اور فضائل ہیں کہ بیان سے باہر ہیں ۔
اب آتے ہیں بچوں کی طرف تو بچے بھی وہ جن کے لیئے ابو سفیان جب حالت ِ کفر میں تھے تو در خواست کر تے ہیں۔ جناب ِ سیدہ ان سے فر ما ئیے کہ یہ اپنے نانا سے میری شفارش کر دیں ؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ در بار ِ رسالت مآب میں یہ سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ وہ بھی دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار اور شہیدوں میں وہ ممتاز مقام حاصل کر نے والے جو شاید ہی کسی کو نصیب ہو ۔لہذا ان کی پیروی کر تے ہو ئے جو آئندہ ظلم کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوا تو وہ حسین ِ ثانی تو کہلا ئے گا مگر حسین نہیں۔ اب آپ ہی بتا ئیے اتنی خوبیاں کسی ایک خاندان میں کبھی پہلے جمع ہو ئیں تھیں۔ اتنی عظمتیں کسی ایک خاتوں کو ملیں ؟ یقینی طورپر میں کہہ سکتا ہوں کہ ہر عادل کا جواب نفی میں ہو گا۔
اور وہ خود کیا تھیں تمام دنیا میں تمام جہا ں کے خواتین کی سردار تو عقبیٰ میں جنت کی خواتین کی سر دار۔ جن کے اخلاق کے بارے میں وہی حضرت عا ئشہ فرماتی ہیں جو ان کے والدِ محترم (ص) کے بارے میں فر ماچکی ہیں کہ انکا خلق قر آن ہے ۔ اب فر ماتی ہیں کہ وہ بالکل عادات و اطوار میں اپنے والد ِ محترم کی (ص) طرح تھیں ۔ حتیٰ کہ ان کی چال بھی حضور (ص) کی طرح تھی۔
اسم مبارک ۔ان کو اسم مبارک بھی فاطمہ عطا ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ ابھی شیر خواری کے مر حلہ میں داخل ہی ہوئی تھیں کہ یہ بے نیازانہ نام عطا ہوا ۔جس کا ترجمہ( معصومہ) بھی ہو سکتا ہے۔ جو کہ لفظ ِ فطم سے بنا ہے جس کے معنی ہیں وہ شیر خوار بچہ جس کا دودھ چھڑا دیا گیا۔ اور آپ سب جانتے ہیں کہ دودھ چھڑانے کے مر حلے میں بچےمیں دونوں خو بیاں ہو جاتی ہیں ۔کہ مصومیت ہنوز باقی رہتی ہے اور وہ عقل سے بھی رو شناس ہو چکا ہوتا ہے۔ اور آپ آگے چل کر پڑھیں گے کہ وہ اپنی پیدا ئش سےوصال تک ان دونوں خصلتوں سے آراستہ رہیں ۔ بعض سیرت نگاروں نے اس کے معنی برا ئی سے رک جانے کے بھی لیئے ہیں۔ اسی کی وجہ وہی ہے کہ عربی میں دودھ پینے سے روکدیئے جانے والے بچے کو فطیم کہتے ہیں ۔
کنیت ااُم ِ محمدتھی۔ اور القابات بہت سے تھے چند ہم یہاں پیش کر نے کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔
بتول ۔ جس کے معنی ہیں کہ اپنے زمانے کی تمام خواتین میں سب پر فضیلت یافتہ ، دین وجمال میں سب سے جد ااور اللہ تعالیٰ کے سوا سب سے بے نیاز ۔
زہراء۔ مثل جنتی خواتین کے دنیاوی آلا ئشوں سے پاک اور اسی خوبی کی وجہ سے کبھی آپکی نماز قضا نہیں ہو ئی اسی لیئے یہ لقب پایا ۔
راضیہ ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول (ص)کی رضا پر خوش تھیں اور وہ ان سے راضی تھے۔
سیدہ النساءالعالمین ۔ اس لیئے کہ وہ تمام جہا ں کی خواتین کی سردار ہیں ۔
سیدة النساءاہل ِ الجنتہ۔ وہ تمام جنت کی خواتین کی بھی سر دار ہیں ۔
زاکیہ ۔ اس لیئے کہ وہ پیدا ئشی زاکیہ تھیں یعنی نہایت اعلیٰ اخلاق، کردار اور عادات کی مالک ۔
طاہرہ پاکباز ہو نے کی بنا پر کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے القابات ہیں ۔


ان کی پیدائش سے پہلے کے حالات ۔

یہ وہ دور تھا کہ دنیا مادیت میں ڈوبی ہو ئی تھی اور کمزوروں کے حقوق غصب کرنا ہر ایک اپنا حق سمجھتا تھا۔ ایسے میں ان کی پیدا ئش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو بھوکوں کو کھانا کھلاتا تھا اور مسکینوں کی اس حد تک اعانت کر تا تھا کہ جس کا ثانی نہ تھا۔ لہذا ان کی طبعیت میں عام لو گوں کے بر عکس قناعت اور سخاوت پیدا ہو گئی تھی ۔ وہ عام خوا تین کی طر ح نہ کبھی والد سے ضد کرتی تھیں اور نہ شوہر سے۔اور ان کی یہ روش اس وقت تک باقی رہی جب تک کہ انہوں نے اس دنیا میں اپنا آخری سانس لیا۔ یہاں بھی حضرت خدیجہ الکبرا یٰ (رض) کی تربیت کار فر ماتھی جو ان کے ذہن میں انہوں نے بچپن سے بٹھا دی تھی۔ جبکہ ان کے آخری دور میں، زمانہ بدل چکا تھا۔
ایک مر حلہ وہ بھی آیا کہ امہات المونین نے بھی مطالبہ شروع کر دیا کہ ان کا روزینہ بڑھاد یا جا ئے؟ جس کی پوری تفصیل قر آن ِ پاک میں موجود ہے۔ جس کی وجہ سے کچھ عرصہ تک حضور (ص)نے ان سے قطع تعلق کر لیا ۔ حتیٰ کہ اللہ سبحانہ نے ان کو صاف صاف ارشاد فر مادیا کہ اگر تم اس پر را ضی ہو جس پر نبی (ص) راضی ہیں تو رہ سکتی ہو، ورنہ نبی (ص) کو حکم دیا کہ جو جانا چاہیں ان کو کچھ دے دلاکر رخصت کردو۔
ایک ایسا ایک مرحلہ حضرت ِ بتول کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے؟ کہ انہوں نے اپنے والدِ محترم کو ہاتھوں میں چکی پیسنے سے پڑے ہو ئے ڈھٹے دکھا کر عرض فر مایا کہ مجھے اب بہت تھکن ہو جاتی ہے، لہذا آپ سب کو غلام اور لونڈیاں بانٹ رہے ہیں، ایک مجھے بھی عنایت فر مادیجیے! حضور (ص) بیٹی کے ہاتھ غور سے دیکھتے ہیں اور فر ماتے ہیں کہ بجا ئے لونڈی عطا کرنے میں تمہیں تھکن دور کر نے کی وہ تسبیح نہ عطا کردوں کہ جس سے تمہیں آئندہ نہ صرف تھکن نہ ہو ،بلکہ قیامت تک امت کے لیئے ثواب اور قربِ خدا حاصل کر نے کا ذریعہ بن جائے۔معصومیت انہیں یہاں تک لے آئی تھی شوہر بھی ہمراہ تھے۔ مگر اب امت کی خیر خواہی غالب آگئی اور انہوں نے اوروں کی طرح ضد نہیں فر مائی اور ٣٤مرتبہ اللہ اکبر ، ٣٣مرتبہ الحمد للہ اور ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ کی تسبیح لے کر خوشی خوشی واپس تشریف لے آئیں جوکہ ان ہی کے نام سی موسوم ہے اور تمام فرقے بلا تفریق پڑھتے ہیں اور قیامت تک پڑھتے رہیں گے ۔( باقی آئندہ