جناب ِسیدہ فاطمہ الزہراء .چھٹی قسط

ہم گزشتہ مضمون میں یہاں تک پہونچے تھے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولدہ محترمہ (رض) کی وفات ہو گئی۔اب آگے بڑھتے ہیں ۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد انہیں ایک دوسرے صدمہ سے دو چار ہو نا پڑا، وہ تھا اپنے چہیتے دادا حضرت ابو طالب کا وصال ۔ بعض مورخین ان کا انتقال پہلے لکھا ہے۔ چونکہ اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا کہ کس کا انتقال پہلے ہوا ۔ لہذا ہم اس بحث سے صرف نظر کرتے ہو ئے آگے بڑھتے ہیں کہ جہاں تا ریخ میں سالوں کا فرق ہو وہاں چند مہینوں کا آگے پیچھا ہو نا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ مگر حضور (ص) ان دونوں ہی کے انتقال اتنے زیادہ اہم تھے ۔کہ حضور (ص)نے اس سال کو حزن کا سال قرار دیدیا،کیونکہ یہ دونوںہی ہستیاں اسلام کی بہت بڑی ستون تھیں۔ ان کے وصال بعدکفار مکہ کے حو صلے اب اور بڑھ گئے ۔ حضور نے اطراف کے قبا ئل سے مدد چا ہی، مگر کہیں سے نہ مل سکی۔ ایک دن وہ کسی کو بتا ئے بغیر طائف تشریف لے گئے کہ شاید وہاں کچھ کامیا بی ہو ، مگر وہاں سے بھی لہو لہان لو ٹے ،کہ خون بہہ کر ایڑیوں تک آگیا۔ جب حضرت فا طمہ (رض) جیسی بیٹی نے اپنے والد ِ محترم (ص)کو اس حالت میں دیکھا ہو گا، تو ان کے دل پر کیا گزری ہو گی ۔مگر کیا کر سکتی تھیں خون کے گھونٹ پی کر رہ گئیں ۔

چونکہ بیعتِ عقبہ اولیٰ اور ثانی دونوں ہو چکی تھیں اور اہل ِ یثرب کی اکثریت ایمان لے آئی تھی ۔ اس لیئے جو مکہ سے ہجرت کر نا چا ہتے تھے ان کو اب حبشہ کے بجا ئے مدینہ منورہ جا نے کی اجا زت دیدی گئی اور لوگ چھپ چر کر جانے لگے ۔کیونکہ اس پر بھی کفار مزاحمت کر تے تھے اور بسا اوقات سب کچھ چھین کر بھی جان نہیں چھوڑتے تھے ۔لہذا جانثاران ِ سرکار (ص)تعدادروز بروز کم ہو تی گئی ۔ اب صرف غلام ،قیدی اورمجبور مسلمان ہی رہ گئے تھے ، یا گنتی کے چند آزاد مسلمان مکہ میں باقی تھے ۔
اب مدینہ منورہ میں مسلمانوں کا یکجا ہو نا کفار کو اور بھی زیادہ پریشان کر رہا تھا، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اتنی طاقت پکڑ جا ئیں کہ مکہ فتح کر لیں ۔ کیونکہ وہ زبان سے تو نہیں کہتے تھے۔ مگر ان کے دانشور دل سے مانتے تھے کہ قر آن خدا کی کتاب ہے اور حضور (ص)اس قدر شیریں بیان ہیں کہ جن سے ملتے ہیں انکے دل مو ہ لیتے ہیں ایک دن کفار نے دار الندوہ میں ایک مجلس ِ مشاورت منعقد کی جس میں تمام سردار جمع ہو ئے ۔ اور اس مسئلہ پر سب سے مشورہ طلب کیا گیا۔ لوگ مختلف الرائے تھے ۔کچھ نے کہا کہ حضور (ص) کو پابند ِ سلاسل کر دیا جا ئے، کچھ نے کہا کہ جلا وطن کر دیا جا ئے ۔آخر میں ایک شخص اٹھا جس نے کہ اپنے آپ کو نجدی شیخ کہہ کر متعارف کرایا۔ اس نے تجویز پیش کی “ ایسا کریں کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک فر د لے لیا جا ئے اور جب حضور (ص)صبح کی نماز کو حرم شریف آنے کے لیئے گھر سے باہر نکیں جو انکا روز مرہ کا معمول تھا، تو سب مل کر ایک ساتھ وار کریں اور شہید کر دیں۔
اس صورت میں بنو ہاشم کس کس سے لڑیں گے؟ آخر خون ِ بہا لیکر چپ ہو جا ئیں گے ،یہ سن کر ابو جہل کی با چھیں کھِل گئیں۔ دوسرے طرف اللہ سبحا نہ تعالیٰ نے حضور (ص)کو بذریعہ وحی اس پر مطلع فر مادیا۔ لہذا وہ رات کے پچھلے پہر اپنے بستر پر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو لٹاکر، کفار کی آنکھوں میں خاک جھونکتے ہو ئے ان کے درمیان میں سے تشریف لے گئے ۔
حضرت فاطمہ (رض) کی مدینہ منورہ ہجرت ۔ اس موقعہ پر وہاں پر حضرت فا طمہ (رض) کی موجودگی کا کسی مورخ نے ذکر نہیں کیا۔ صرف ایک مورخ نے ان (رض) کے اور حضور (ص) کے درمیان ہونے والی کچھ گفتگو نقل کی ہے، جس میں کہ ام المو نین حضرت سودہ (رض)بھی مو جود تھیں ۔واضح رہے کہ حضرت خدیجہ (رض) کی وصیت کو عملی جامہ پہنا نے کے لیئے حضور (ص) نےان کے وصال بعد حضرت سودہ (رض)سے شادی کر لی تھی حالانکہ وہ اس وقت سن یاس بھی گزرچکی تھیں ۔ کیونکہ اگر وہ ویسے ہی کسی خادمہ کو گھر میں رکھ لیتے ،تو کفار کو پرو پیگنڈے کا مو قعہ مل جاتا۔ جبکہ حضور (ص)کی امت کو تلقین ہے کہ بد گمانی بچو، اسے مت پیدا ہو نے دو، تو وہ ایسا خطرہ خود کیسے مول لے سکتے تھے؟ لہذا حضرت سودہ (رض) سے نکاح کرلیا؟ ۔ آگے راوی رقمطراز ہے کہ انہوں (رض) نے اپنی تشویش کا اظہار فر ما یا، حضور (ص) نے تسلی دی کہ تم فکر مت کروا للہ میرے ساتھ ہے۔ ہمیں اس وقت کسی کو ساتھ لے جانے کا حکم نہیں ہے ،مگر بعد میں تمہیں جلد ہی بلوالیں گے ۔ واضح رہے کہ یہ ہی جواب انہوں(ص) نے حضرت ابو بکر اور ان کے اہل ِ خاندان (رض) کو دیا تھا۔ جب انہوں نے پو چھا کہ آپ کی اہلیہ اور میرے اہل ِ خاندان (ڑض) کا کیا ہوگا۔ ؟
چونکہ درمیان میں حکم ِخدا تھا اور اس کے بندے اس کے حکم پر صرف سمعنا اور اطعنا آگے کچھ نہیں کہتے ! لہذا حضرت فا طمہ (رض) کے لیئے سوائے اس کے، کوئی چارہ نہ تھا کہ اپنی والدہ (رض) کی جدائی بعد والدِ محترم (ص)کی بھی وقتی جدا ئی برداشت کریں ۔ لہذاوہ خاموش ہو گئیں اور حضور (ص) کو رخصت فر مادیا۔
اب آگے ان کی ہجرت پربھی اختلاف ہے کہ وہ کب ہو ئی ؟ کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ جب تیسرے روز کفار کی امانتیں دینے کے بعد فا رغ ہو ئے، تو انہوں نے اپنے ہمرا ہ فا طمہ نامی کئی خواتین کو لیا تاکہ کفار حضرت فاطمہ (رض)کو شنا خت نہ کر سکیں ۔ پھر بھی کفار نے مزا حمت کی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے سب کو مار کر بھگایا اور وہ حضرت فاطمہ (رض) اور دوسری خوا تین کو لے کر مدینے تشریف لے گئے ۔ اس میں ایک تو یہ مصلحت سمجھ میں نہیں آتی کہ انہوں نےہم نام خواتین کو کیوں اکھٹا کیا؟ کیونکہ یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے بہت پہلے کا ہے جبکہ پردے کی آیتیں مد نی زندگی میں نا زل ہوئیں، دوسرے حیلہ سازی حضرت علی کرم اللہ کی شان اور فطرت دونوں کے خلاف تھی۔ تیسرے وہ آج کا سعودی عرب بھی نہ تھا جہاں سب خواتین نقاب پوش ہوں اور ہر قدم پر چیکنگ ہوتی ہو ۔یہ کہ پردہ نہ ہونے کی وجہ سے کفار سب کو پہچانتے بھی تھے؟
اس کے بر عکس دوسرے گروہِ مورخین نے لکھا ہے کہ وہاں پہونچنے کے بعد جب مسجد نبوی اور حجرے تیار ہو گئے تب حضور (ص)نے حضرت زید بن حارثہ اور ابو رافع (ض) کو پانچ سو در ہم اور دو اونٹ دیکر بھیجا کہ وہ حضرت فاطمہ اور حضرت سودہ وغیرہ کو لے آئیں۔ لہذاان کے ساتھ حضرت فا طمہ ان کے ساتھ تشریف لا ئیں اور اس قافلہ میں نو افراد تھے۔ (طبقات ِابن ِ سعد) اس لیئے قرین ِ قیاس یہ ہی ہے۔ جبکہ دوسرے کئی مورخوں نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی قبا آمد کی اطلا ع حضور (ص) کو ہوئی تو انہوں نے بیچینی سے پوچھا کہ وہ ابھی تک میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ تو لوگوں نےبتایا کہ ان کے پیر پیدل چلنے کی وجہ سے اتنے زخمی ہیں ،کہ وہ چل نہیں سکتے۔ یہ سن کر حضور (ص) خود روانہ ہو گئے۔اور ان کو جاکر گلے لگایا اور ان کے پیر کا ورم اور زخم دیکھ رو دیئے پھر اس پر لعاب دہن لگا یااور دست۔ مبارک ان کے پیروں پر پھیرا جس کا اثر یہ تھا کہ پھر کبھی شہادت تک انکو پیروں کی تکلیف نہیں ہو ئی “ اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی سواری کا جانور بھی نہیں تھا اور وہ انتہائی دشوار گزار راستے سے سفر طے فر ماکر پہونچے تھے۔ اس صورت میں خواتین ان کے ساتھ کیسے ہو سکتی تھیں ؟ پھر اس تمام قصہ میں انکا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے کہ وہ بھی ان کے ہمراہ قیام پذیر تھیں اور ان سے بھی حضور(ص) کی ملاقات ہوئی۔ پھر جب حضور (ص) مدینے منورہ کے لیئے قبا سے روانہ ہو ئے تو اس میں بھی کو ئی ذکر نہیں کہ خواتین بھی ہمرا ہ تھیں، اور نہ ہی حضرت ابوایوب انصاری (رض)کے یہاں حضرت فا طمہ (رض) اور حضرت سودہ (رض) حضور(ص)کے ہمرا ہ قیام پذیر ہو نے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ حضرت فا طمہ (رض) مسجد نبوی اورحجرے بن جانے کے بعد ہی تشریف لا ئیں ۔ واللہ عالم (بقیہ اگلے ہفتہ