جناب ِسیدہ فاطمہ الزہراء .ساتویں قسط


ہم گزشتہ ہفتہ حضرت سیدہ سلام اللہ علہیا پر بات کرتے ہو ئے یہاں تک پہو نچے تھے کہ وہ حجرے او رمسجد ِ نبوی بننے کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے آئیں ۔اب آگے بڑھتے ہیں۔ ان (رض) کے تشریف لانے کے بعد چونکہ حضرت عائشہ (رض) جن کا عقد ہجرت سے پہلے ہو چکا تھا ان کی رخصتی بھی انجام پذیر ہو گئی تھی ،مگر مورخین نے چونکہ یہ نہیں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) اس کے بعد کہاں رہیں، یا ان (رض) کے لیئے کو ئی علیحدہ حجرہ تعمیر ہواتھا، یا کسی کے ساتھ قیام پزیر تھیں؟
ہمارا خیال یہ ہے کہ وہ شروع سے چونکہ ام المو نین حضرت سودہ (رض)کے ساتھ تھیں لہذا یہاں آکر بھی انہیں کے حجرے میں رہتی رہی ہو نگی۔ چونکہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ وہ شعب ابی طالب میں رہنے کی وجہ سے مستقل روزے رکھنے لگی تھیں اور مصروف ِ عبادت رہتی تھیں، پھر تمام عادات اور اطوار بھی وہی اختیار کر لیئے تھے جو حضور (ص)کے تھے۔
لہذاحضور (ص) کی طرح پیوند لگے کپڑے زیب ِ تن کر تیںاور جو روکھی سو کبھی مل جا تی تو تناول فر مالیں ورنہ بھو کی ہی سو جا تیں۔چونکہ یہاں ان کی اپنی زندگی نہ تھی، لہذا بقیہ سخاوت وغیرہ جیسے جو ہر تو ان کے بعد میں جاکر کھلے، جبکہ یہ جو ہر بھی ان (رض) میں اپنے والد (ص) اور والدہ (رض) طرح بدرجہ اتم مو جود تھے۔ مورخین نے ان کے لباس کے بارے میں البتہ کچھ واقعات لکھیں جو کہ ہدیہ نا ظرین کر رہے ہیں ۔جو اس پر شک ظاہر کرتے ہیں ان کے لیئے کو ئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے کہ ہم انہیں مطمعن کر سکیں، سوائے اس کہ، حضور (ص) بہت سی با توں میں دوسرے انبیا ئے کرام (ع) پر فضیلت رکھتے تھے ،جس کااظہار بار بار قر آن اور احادیث میں آیا ہے۔لہذا جو سورہ البقرکی اس آیت کو زیر ِ بحث لا تے ہیں کہ لا نفرق بین احد ۔۔۔۔ اس کے بارے میں مفسریں کا خیال ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیمات کے اعتبار سے تمام انبیا ئے کرام (ع) ایک تھے لہذا ان میں سے کسی کو ماننا اور کسی کو نہ ماننا منع ہے۔ جیسے کہ بعض گزشتہ قومیں کچھ کو مانتی ہیں کچھ کو نہیں مانتی ؟ ورنہ متعدد احادیث مو جود ہیں کہ حضور (ص) نے فرمایاکہ خدیجہ (رض) یہ جبر ئیل (ع) ہیں اور تمہیں سلام کہہ رہے ہیں یا اللہ نے تم کو سلام کہا۔ جبکہ کسی دوسری نبی (ع) کی بیوی پر سلام کا ذکر کم از کم ہمیں قرآن میں نہیں ملا ؟۔ اس سے جو بات میں ثابت کر نا چا ہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ حضور (ص) کے گھرانے کے ساتھ اللہ کا بر تا ؤ قطعی مختلف تھا۔ کیونکہ وہ سب کے سب کردار کی بنا پر اللہ کی نظر میں بر گزیدہ تھے ۔ لہذا اگر ان کے ساتھ کہیں کو ئی خصوصی بر تا ؤ ہوا ہے، تو اس میں نہ ماننے کی کیا بات ہے؟چونکہ میری ذمہ داری بطور مور خ یہ ہے کہ ایمانداری سے جو کچھ جہاں سے مجھے ملے میں نقل کر دوں لہذا مجھے لباس کے سلسلہ میں دو واقعات ان کی شادی سے پہلے کے ملے ہیں، میں ان کو ہدیہ نا ظرین کر رہا ہوں۔
دو عیدوں کے حکم سے پہلے عرب میں بہت سے تیو ہار اور میلوں کا رواج تھا اور بعض میلے صرف خواتین کے لیئے مخصوص ہو تے تھے، ایسا ہی کوئی اجتماع تھا، جس میں انصار اور مہاجرین کی خواتین دونوں کوجمع ہو نا تھا۔ لہذا وہ چا ہتی تھیں کہ جگر گو شہ رسول (ص) بھی اس میں شر کت فر ما ئیں مگر ان کی تربیت کچھ اس طرح ہو ئی تھی کہ وہ کسی قسم کے میلے ٹھیلوں اور کھیل تماشوں کو پسند ہی نہیں کرتی تھیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بچپن سے لیکر جوانی تک کہیں ذکر نہیں ملتا کہ انہوں (رض) نےکہیں کھیل تما شے میں حصہ لیا ہویا دیکھا ہو؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ زیادہ تر وقت عبادت میں صرف کر نا چا ہتی تھیں، جیسے کہ ایک جگہ حضرت امام حسین (ع)نے فر مایا کہ ہما ری والدہ محترمہ (رض)دن و رات کا زیادہ حصہ عبادت میں گزارتی تھیں ۔ لیکن آگے چل کر جو ایککرامت کا ذکر ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان (رض)کے پاس مناسب کپڑے بھی نہ تھے کیونکہ انکا لباس اپنے والدِ محترم (ص) کی طرح پیوند لگا ہو تا تھا۔
مگر حضور (ص) نے ان کا تامل دیکھا توزور دیا کہ تمہیں جانا چا ہیئے کیونکہ ہمارا شیوہ کسی کی دلشکنی نہیں ہے۔ آپ نے حکم سنا اور تشریف لے گئیں مگر جب واپس آئیں تو کچھ زیادہ خوش نہ تھیں، اس پر حضور ( ص)نے بجا ئے ان سے وجہ پو چھنے فرمایا کہ وہاں سے کسی خاتون کو بلا لا ؤتاکہ وجہ معلوم ہو سکے؟
ایسی ایک خاتون دربار ِ رسالت میں حا ضر ہو ئیں۔تب حضور (ص) نے پو چھا کہ تمہارا اجتماع کیسا رہا تو انہوں نے فر مایا کہ سب کی نظریں حضرت سیدہ سلام اللہ علہیا پر مر کوز رہیں کیونکہ وہ جو لباس فا خرہ پہنے ہو ئے تھیں اس سے نور کی شاعیں پھوٹ رہی تھیں ۔تمام خواتین انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھیں کہ ایسے کپڑے کبھی پہلے نہیں دیکھے تھے، یہ کہا ں سے آئے ؟ یہ سن کر حضرت فاطمہ (رض)بھی اپنے حجرے سے باہر نکل آئیں اور فرما نے لگیں کہ مجھے کچھ بھی تبدیلی نظر نہیں آئی اور میں یہ ہی کپڑے پہن کر گئی تھی جو اس وقت پہنے ہو ں؟ حضور (ص) نے فرمایا کہ بیٹی (رض) تجھے ان کپڑوں نے زیبا ئش نہیں دی تھی ،بلکہ ان کپڑوں کو اللہ نے زیبا ئش عطا کر دی تھی کیونکہ (رض)تو انہیں زیب ِ تن کیئے ہو ئے تھی ۔
یہ تھا مومنات میں ان کا جانا کہ وہ کیسے بھی کپڑے پہنے ہوتیں وہ ان کے لیئےقابل ِ احترام تھیں ؟ مگر ایک ایسا ہی دوسرا واقعہ صرف ان کو تنگ کر نے لیئے غیر مسلم خواتین کا بھی ملتا ہے کہ انہوں نے سو چا کہ ہم ان کو بلا ئیں اور جب وہ پیوند لگے ہو ئے کپڑوں کے ساتھ تشریف لا ئیں توہم ان کا مضحکہ اڑا ئیں ۔ لیکن تمام عزتیں اور ذلتیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کو پھر وہی نوری لباس عطا فر مادیا اور ان کو خود خفت اٹھا نی پڑی کہ انہوں نے انتہا ئی مالدار ہو نے با وجود ایسا لباس کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔ اس قسم کے واقعات اور بھی بہت سے ہیں مگر وہ ان (رض) کی حضرت علی کرم اللہ وجہ سے شادی کے بعد کے ہیں ،جب انہوں (رض)نے اپنی ازدواجی زندگی شروع کی، تب ان (رض) کی تمام صفات اور فضا ئل کھل کر سامنے آئے کیونکہ جس طرح حضور (ص) کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مردوں میں اکمل کر کے دنیا کے سامنے ایک نمو نہ کے طور پر پیش کیا تھا۔ اسی طرح خواتین میں حضرت فا طمہ سلام اللہ علیہا کو خواتین کے لیئے مثا لی بنا نا تھا اور دنیا کے سامنے پیش کر نا تھاتاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے ہم صنف ِ نازک ہیں ہم یہ کام کیسے کر سکتے ہیں ۔ اس پر تمام مو رخین متفق ہیں کہ وہ حضور (ص) کی چال ڈھال اور تمام خصا ئل میں ان (ص) کاپر تو تھیں ۔
لہذا انہوں (رض) نے اپنے والدین کی بے مثال خدمت کر کے خود کو بے مثال بیٹی تو دنیا کہ سامنے ثابت کر دیا تھا،مگرابھی انکو خود کو ایک ، بہترین بیوی، بہترین ماں ، اور ان تمام ذمہ داریوں کے ساتھ بھی خود کو بہترین مو منہ بھی دوبارہ ثابت کر نا تھااور اس حیثیت میں بھی امت کے سامنے مزید مثالیں پیش کر نا تھیں تاکہ جو خواتین ان کا اتبا ع کر نا چا ہیں، وہ خود کو ایک مومنہ کے معیار پر لا سکیں ۔کیونکہ ہر بندے کو معیار حاصل کر نے کے لیئے آئینہ ضروری ہے۔لہذا وہ خواتین کے لیئے آئینہ تھیں ۔جس طرح حضور (ص) مردوں کے لیئے آئینہ تھے ۔
غزوہ بدر میں کا میابی کے بعد حضور (ص) اور مسلمانوںکو جب تھوڑا چین نصیب ہوا، کیونکہ اب کفر کا زور ٹوٹ چکا تھالہذاجن لوگوں نے اپنے گھر نہیں بسائے تھے انہیں اب فکر دامن گیر ہوئی کہ گھر بسائیں،اور جنکی بیٹیاں جوان تھیں انہیں بھی یہ فکر دامن گیر ہو ئی کہ بیٹیاں پرا ئے گھر میں ہی اچھی لگتی ہیں؟ اب چونکہ جگر گوشہ رسول (ص) جناب ِ سیدہ بتول سلام اللہ علیہا کی زندگی مکی زندگی نہ تھی، جہا ں کہ کفار نے اس گھرانے کو معتوب قرار دے رکھا تھا اور رشتہ نا تے بند کر رکھے تھے ۔اب وہ خود معتوب ہو چکے تھے۔ اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق کفار کوذلیل کر دیا تھا۔ لہذا جگر گوشہ رسول (ص) کے لیئے رشتوں کی بھر مار تھی، مگر حضور (ص) ہر کام اللہ کی مرضی کے مطابق فرماتے تھے لہذاحکم کے منتظر تھے، سب کو یہ فر ماکر منع کرتے رہے کہ جو اللہ کی مرضی ہو گی وہی میں کرونگا؟
کیونکہ ان (رض) کے لیئے شوہر بھی اسی معیار کا ہونا چا ہیئے تھا جو حضور (ص) کا پرتو ہو۔ وہ نگاہ میں تو تھا ،مگر اس کی فطری حیا اسے زبان کھولنے پر شاید اس لیئے مانع تھی، کہ ہر کام کے لیئے ایک وقت معین ہے اور ہر وقت کے لیئے کام۔ وہ وقت بھی آپہونچا۔یہاں پھر مورخین میں اختلاف ہے ، کچھ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (رض) نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو مشورہ دیا کہ تم (رض) کیوں نہیں حضور (ص)سے حضرت فا طمہ (رض) کے لیئے سوال کر تے، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں ان (رض)کے اہل ِ خاندان نے یہ مشورہ دیا۔(باقی آئندہ