جناب ِسیدہ فاطمہ الزہراء .آٹھویں قسط

ہم گزشتہ ہفتے یہاں تک پہونچے تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے اہل ِ خاندان نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ حضرت فا طمہ (رض) کے لیئے دست ِ سوال دراز کر یں ۔اب آگے بڑھتے ہیں ۔
اس سلسلہ میں بہت سی روایات ہیں مگر مسند ِ علی میں یہ واقعہ حضرت علی کرم الہ وجہ نے خود بیان فر مایا ہے ۔ لہذا پہلے ہم وہ پیش کر رہے ہیں۔ وہ فر ماتے ہیں کہ “ میں نے رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر حضرت فاطمہ(رض) سے نکا ح کا پیغام دینا چاہا تو دل میں سو چا کہ کس طرح پیغام دوں! جبکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔پھر میں نے اس سلوک کے بارے میں نے سوچا جو شروع سے میرے ساتھ رہا، اور اپنے اوپر شفقت اور محبت کا خیال آیا توہمت بندھی، تو میں نے پیغام دیدیا۔ حضور (ص) نے جواب میں پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے؟ تومیں (رض)نے کہا کہ کچھ بھی نہیں۔ تب حضور (ص) نے فرمایا کہ میں نے مال ِ غنیمت میں سے جو تمہیں حطیمہ نامی زرہ دی تھی وہ کہاں ہے ؟میں عرض کیا کہ وہ تو میرے پاس ہے۔ حضور (ص) نے فر مایا یہ ہی اس کو(فا طمہ) کو دیدو۔ میں نے جواب میں آمادگی ظاہر کی اور عرض کیا نعم ! یا رسول اللہ ! ( بہتر ہے! یا رسول اللہ) ۔
اس کے بعد حضور (ص) اس حجرے میں تشریف لے گئے جہا ں اس وقت حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا تشریف فر ما اوراپنی عادت کے مطابق محوِ عبادت تھیں۔جب انہیں حضور (ص) کی آہٹ اور خوشبو محسوس ہوئی تو حضور(ص) کی پیشوائی کے لیئے کھڑے ہو کر آگے بڑھیں۔ حضور (ص) نے حسب عادت ِ کریمہ سلام میں سبقت فر مائی، جس کا جواب حضرت فا طمہ (رض) نے دیا اس کے بعد وہ قریب آئے اور سر پر ہاتھ پھیرا ، دعائیں دیں۔
اس کے بعد فر مایا کہ اے بیٹی(رض)، میرے پاس تیرے لیئے میرے خاندان کا سب سے بہترین فرد سوالی بن کر آیا ہے اس پر اللہ اور اس کا رسول (ص) دونوں خوش ہیں ،اگر تم اجازت دو تو میں تمہیں علی (رض)کے ساتھ رشتہ منا کحت میں منسلک کردو ں ۔ انہوں (رض) نے ایک مشرقی بیٹی کی طرح حیا سے سر جھکا لیا جو کہ خاموش اظہار ِ رضا ،کا اشارہ اس معا شرہ میں سمجھا جا تا تھا۔پھر وہ باہر تشریف لا ئے اور حضرت علی (رض) سے فر مایا کہ علی (رض) مبارک ہو تم اللہ کے رسول (ص) کے داماد بن رہے ہواور ان (رض) کا نکا ح حضرت فاطمہ (ص) سے پڑھادیا۔ یہاں کچھ مورخین یہ لکھا ہے کہ اس زرہ کو فروخت کر نے کی نو بت ہی نہیں آئی بلکہ وہ حضرت عثمان (رض) نے جو وہاں مو جود تھے چا رسو اسی درہم میں خرید کر واپس حضرت علی کو ہدیہ کر دی ۔ واللہ عالم
جبکہ کچھ مورخین میں اختلاف ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ وہ چا ر سو درہم میں فروخت ہوئی اورحضرت علی کرم اللہ وجہ نے وہ رقم لاکر حضور (ص) کے دست ِ مبارک پر رکھدی۔ اس میں سے کچھ رقم حضور (ص) نے حضرت بلال (رض) کو عطا فر مائی کہ اس سے خوشبو وغیرہ خرید لا ئیں ۔ اور بقیہ رقم ولیمے اور جہیز میں کام آئی۔جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ولیمہ کے لیئے یہ سو چا تھا کہ جو اونٹ ان کو غزوہ بدر میں ملا تھا وہ ولیمہ میں کام آجائے گا۔ اور وہ اس سے لا علم تھے کہ وہ ان کے چچا حضر ت حمزہ (رض) نے دعوت میں کا ٹ کر لوگوں کھلادیاہے۔
اس واقعہ کو بخاری (رح) اور مسلم میں تفصیل سے لکھا جس کو ابن ِ کثیر (رح) نے البدا یہ والنہا یہ میں لکھا ہے، مگر سوائے اونٹ اور عقدکے سارا واقعہ غیر متعلق ہے لہذا ہم اس کو نظر انداز کرکے اس کا لب ِ لباب پیش کر رہے ہیں ،جو یہ ہے کہ پہلے ان کے پاس کچھ نہیں تھا لہذا خواہش کے با وجود ان کی حضور (ص) سے حضرت فا طمہ (رض)کو مانگنے کی ہمت نہ ہو ئی ۔مگر جب ان کو غزوہ بدر میں ایک گھوڑا ، ایک اونٹ اورایک زرہ مل گئی تو انہوں (رض) نے ہمت کی اور دست ِ سوال دراز کیا ۔ اس کو تین حوالوں سے انہوں نے درج کیا ہے کہ حضرت زین العابدین (رض) نے اپنے والد (رض) سے اور انہوں نے اپنے والد (رض) سنا ۔
اس کے علاوہ ایک تیسری روایت بھی ملتی ہے جو کہ بیہقی (رح) نے ابی عبد الہ المندہ کی کتاب ًالمعرفت ً سے لی ہے کہ حضور (ص) نے حضرت علی (رض)سے حضرت فاطمہ (رض) کا عقد پہلے سال ہی فر ما دیا تھا جبکہ رخصتی انہوں نے تین سال بعد کی۔ اور انہوں نے بھی پورا واقعہ حضرت علی کی زبانی متعدد حوالوں سے تحریر کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ جب میں نے حضرت فاطمہ (رض) کا رشتہ دیا تو حضور (ص) نے بلا کر پو چھا کہ تمہارے پاس کیا ہے تو میں نے کہا کہ اس زرہ کے سوا کچھ نہیں ہے “ حضور (ص)نے فر مایا چلو یہ ہی کافی ہے “ یہاں چونکہ بلاکر پوچھنے کا ذکر ہوا ہے اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ رشتہ انہوں (رض) نے براہ راست نہیں دیا بلکہ کو ئی اور درمیان میں تھا ۔ اس کو ثابت کرنے کے لیئے ایک مورخ نے حضور (ص) کی پہلی دایہ حضرت اُم ِ ایمن (رض)کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے رشتہ دیا اور وہ در میان میں تھیں ۔ جبکہ مورخین کی اکثر یت اور پوراواقعہ اس پر دلا لت کر تا ہے کہ یہ تقریب غزوہ بدر کے فورا ً بعد انجام پا ئی ۔ میری نا قص رائے میں یہ ہی درست ہے کہ یہ تقریب غزوہ بدر کے بعد انجام پائی ۔واللہ عالم۔
اسی طرح جہیز میں بھی اختلاف ہے۔ جبکہ ایک مورخ نے سب یک جا کر کے جو جہیز لکھا ہے اس میں تقریبا ً ضرورت کی ہر چیز ہے جو ایک نئے گھر کی ضرورت ہو سکتی تھی ۔اس کی تفصیل اس طرح ہے ۔ ١۔ چادر ایک عدد ٢۔ چکی (ایک عدد) ٣۔بستر سادہ کپڑے کا ایک( عدد) ٤۔ مٹی کے گھڑے (دو عدد) ٥۔کھجور کے پتوں کی چٹائی (ایک عدد )٦۔ گلاس (چار عدد) ٧۔ کپڑوں کا جوڑا (ایک عدد) ٨۔ قیمتی قمیص (ایک عدد ) ٩۔ چاندی کے بازو بند( ایک جوڑ) ٠١۔ موٹے کپڑے کے تکیئے (چار عدد)١١۔تانبے کا لوٹا (ایک عدد)
جبکہ رخصتی سے پہلے حضرت علی (رض) ایک کچا مکان کرایہ پر لے چکے تھے ۔ جس میں پہلے سے جو سامان مو جود تھااس کی تفصیل یہ ہے ۔ایک مینڈھے کی کھال جو بستر اور جا ئے نماز دونوں کاکام دیتی تھی اور اس پر کھجورکے پتوں سے بھرا ہوا تکیہ رکھا رہتا تھا۔ لکڑی کے ستون کے ساتھ ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا،جو کہ وہ پانی لانے کے لیئے استعمال کر تے تھے اور ایک کونے میں پانی کا گھڑا جوکہ ایک پیالے سے ڈھکا ہوا تھا۔جس کے بارے میں یہ بات متفقہ علیہ ہے کہ اس میں حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی وفات تک بقول مور خین کے کو ئی اضافہ نہیں ہوسکا۔ حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے سب غزوات میں شرکت کی سوائے تبوک جس میں ان کو مدینہ میں اپنا نا ئب بنا کر حضور (ص) چھوڑ گئے تھے۔ اور انہیں سوار ہو نے کی وجہ سے دہرا حصہ بھی ملتا تھا جو کہ پیادوں کے مقابلہ میں ہر ایک کو دہرا ملاکرتا تھااس کے علاوہ فتح خیبر کے بعد کچھ جا ئداد بھی سب کی طر ح ان کے حصے میں بھی آئی تھی ۔مگر دونوں (رض) کی بے مثال سخاوت کی وجہ سے کبھی کچھ پس انداز ہی نہیں ہو سکا ،کیونکہ جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں ۔ کے عمل میں دونوں (رض) حضور (ص) کا پرتو تھے ۔ ( باقی آئندہ