جناب ِسیدہ فاطمہ الزہراء .نویں قسط

ہم گزشتہ مضمون میں جناب ِ سیدہ سلام اللہ علیہا کی شادی کا ذکر کر تے ہو ئے ۔ان کے جہیز کی فہرست تک پہو نچے تھے۔ وہ جہیز نبی (ص) کی اطا عت کے دعویدار حضرات سے سوال پو چھ رہا ہے آج کے ہمارے جہیز کو دیکھ کر ،کہ کیا واقعی آپ حضور(ص) کے اتبا ع کے دعویدار ہیں؟ اس لیئے کہ آجکل ایک جو ڑا لا کھوں کا ہے ۔ ایک آیت میں جبکہ قر آن کہہ رہا ہے کہ فضول خرچی کر نے والے شیطان کے بھا ئی ہیں اور دوسری میں یہ بھی “اور شیطان اللہ کا نا شکرا ہے “
نمعلوم کیوں جنتے مشہور مورخ ہیں وہ اس شادی پر زیادہ تفصیلات میں نہیں گئے ۔ ممکن ہے کہ وہ تو گئے ہوں، مگر بعد میں آنے والے سلاطین نے تا ریخ بدل دی ہوں کیونکہ سلا طین سارے کے سارے کے سارے حضور (ص) اور اہل ِ بیت (رض) کا قد گھٹانے میں مصروف رہے اور آج تک ہیں ۔
جبکہ ایک طبقہ مورخین نے اس شادی کا زمین اور آسمان دونوں جگہ منعقد ہو نا بڑی تفصیل سے تحریر کیا ہے جو کہ زیا دہ تر نزہت المجا لس ، صوا ئق محرقہ، معارج النبوت (ص)اور طبقعات ابن ِ سعد سے لیئے گئے ہیں ۔چونکہ ان میں زیادہ تر واقعات معجزاتی ہیں اور اس کوحضور (ص) اور حضرت سیدہ (رض) کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے وہ ہم طوالت کی وجہ سے سارے یہاں درج نہیں کر رہے ہیں ۔ لہذا وہ شا ئقین اور محبین اہل بیت (رض)ِ وہا ں پڑھ لیں ۔ ان کا خلا صہ یہ ہے کہ یہ تقریب ِ شادی آسمان اور زمین دونوں جگہ پر انجام پا ئی ۔ اور حضرت سیدہ (رض) کو جہیز میں جنت کے قطعات اور شفا عت کی اجازت اللہ سبحانہ تعالیٰ سے عطا ہوئی ۔
یہ حضور (ص) کی اس عظمت کے سامنے جو انہیں با رگاہ ِ خدا وندی میںحاصل تھی ، میرے خیال میں یہ کو ئی ناممکن با ت نہیں ہے ۔ مگر جو منکر ِ معجزات ہیں انہوں نے تو باقی معجزات کو ہی تا ریخ سے حذ ف کر دیا ہے۔ ان کہنا ہے کہ حضور(ص) صرف ایک ہی معجزہ یعنی قر آن دیکر بھیجے گئے تھے۔ جبکہ تمام ثقہ قسم کے مورخین نے حضور (ص) کی سیرت مبارکہ تحریر کرتے ہو ئے قدم قدم پر لا تعداد معجزے رقم کیئے ہیں ۔ جو پرانے نسخو میں تو موجود ہیں،مگر اب نئے نسخوں میں تحریف جا رہی ہے جس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر ابھی بھی یہ تاریخی نسخے محفوظ نہیں کیئے گئے تو آئندہ چل کر ساری پرانی کتابیں نئی نسل تک نہیں پہو نچ سکیں گی اور اس طرح بقیہ معجزات بھی تا ریخ میں متنازعہ بن جا ئیں گے۔لہذا محبان ِ رسول (ص)اور اہل بیت (رض) ِ کو چاہیئے کہ وہ ان نسخوں کو جہاں کہیں بھی ملیں دوبارہ شا ئع کرا کرنئی نسلوں کے لیئے محفوظ کر لیں۔ ورنہ بعد میں افسوس کر نے کے سوا کچھ نہ بچے گا۔
اب آگےجس طرح زمین پر یہ تقریب منعقد ہو ئی اس کی تفصیلات کو ہم پیش کر رہے ہیں ۔ کہ حضور (ص) نے پہلے تو حضرت بلال (رض) کو خو شبو وغیرہ خرید نے بھیجا۔ جب وہ لے آئے تو ان کو حکم دیا کہ وہ تقریب ِ نکا ح کا اعلان کر یں ۔ جب تمام صحابہ کرام (رض) جمع ہو گئے اورحضور (ص) کے چاروں طرف اس طرح گھیرا ڈالکر بیٹھ گئے جیسے کہ چاند کے چاروں طرف ستا رے ۔
تو حضور(ص) نے ایجاب وقبول کے لیئے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو مخاطب فر ما یا اور جب انہوں (رض) نے مقرہ رقم پر حضرت فا طمہ (رض)کو اپنے عقد میں لینے کا اقرار کیا تو حضور (ص) نے مندرجہ ذیل خطبہ نکا ح پڑھا۔ جو اس خطبہ نکا ح سےتھوڑا سا مختلف ہے جو کہ آجکل مسنو نہ خطبہ نکا ح کے طور پر سنی قاضی پڑھتے ہیں ۔ جس کا ترجمہ ہم آگے پیش کر رہے ہیں ۔
ًہم شکر کرتے ہیں اس خدا وند ِ کریم کا جواپنی نعمتوں کی وجہ سے ہر تعریف اور تحسین کا سزاوار اور اپنی قدرتوں کے با عث لا ئقِ پرستش ہے۔زمینوں اور آسمانوں پر اس کا حکم جاری ہے۔ اس نے تمام مخلو قات کو اپنی قدرت سے پیدا فر مایا۔ پھر اپنے احکام کے لیئے ایک دوسرے سے علا حدہ فر مادیا۔اپنے دین کے ذریعہ انہیں سر فراز کیااور اپنے نبی محمد (ص) کے ذریعہ ان کو عظمتیں عطا فر ما ئیں،بلا شک اور ریب اس نے نکاح کو لازمی قرار دیا اور اس نے خود فر مایاہے کہ “ وہ جس نے انسان کو پیدا کیا پانی سے اور قائم کیا ان کے لیئے رشتہ سسرال کاپروردگار تیرا قدرت والا ہے “ خدا تعالیٰ نے اپنا ہر کام قضا کے تحت کر دیا ہے اور اس کی قضا قدرت کی پابند ہے۔ ہر قضا کے لیئے مقدر ،اورہر قدر کے لیئے وقت مقرر ہے اور ہر وقت کے لیئے کتاب یعنی لو ح ، محفوط ہے۔ (البتول صفحہ نمبر١٠٦
حضور (ص)نے جیسے ہی خطبہ نکاح ختم فر مایا صحابہ کرام (رض) ایک کرکے منظم طریقہ سے ،جو کہ اسلام کا طریقہ ہے آگے بڑھے اور سب نے حضور (ص) کو اورحضرت علی کرم اللہ وجہ کومبارک دی۔اس کے بعدحاضریں میں چھوارے تقسیم کیئے گئے۔ پھر حضور (ص) وہاں سے اس حجرے میں تشریف لے گئے جہاں حضرت سیدہ (رض) امہات المومین اور دوسری خواتین (رض)کے ساتھ تشریف فر ما تھیں۔ آپ نے حضرت سیدہ (رض) کی پیشانی کو چوم کر تسلی دی اور سینے سے لگا یا۔ پھر ایک گلاس پانی طلب فر مایا اور جب وہ آگیا تو اس پر کچھ پڑھ کر دم فر مایا ۔پھر اس میں سے پہلے کچھ چھینٹے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے سینہ مبارک پر ڈالے، پھر حضرت فا طمہ (رض)کے سینہ مبارک پر ڈالے ۔اور اسی میں کا بچاہوا پانی دونوں (رض) کو پلا یا۔ وہ پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو اور بعد میں حضرت فا طمہ (رض)کواس کے بعد ام ِ ایمن (رض) کی سر کردگی میں رخصتی عمل میں آئی اور حضرت فا طمہ (رض) حضرت علی کرم اللہ وجہ کے دولت کدے میں حضرت ام ِ ایمن (رض) اوردوسری خواتین کے جھرمٹ میں لے جا ئی گئیں۔ جہاں حضرت علی کرم اللہ وجہ پہلے سے ان کی پیشوا ئی کے لیئے موجود تھے ۔
دعوت ولیمہ ۔ دوسرے دن دعوت ِ ولیمہ کا انعقاد ہوا۔ جیسا ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ یہ اہتمام اسی رقم سے ہوا جو کہ کل کی تقریب سے بچ گئی تھی اور حضور (ص) کے پاس محفوظ تھی ۔حسبِ دستور اس سے جو کھانا تیار ہوا وہ سب کے سامنے لاکر رکھدیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ کی غیرت نے یہ گوارہ نہیں فر مایا کہ کھانے کی مقدار دیکھتے ہو ئے، چند لو گوں کو دعوت دی جا ئے انہوں نے اپنی سخاوت سے مجبور ہوکر اور اللہ پر بھروسہ فرماتے ہو ئے مسجد ِ نبوی(س) میں جا کر اعلان ِعام فر مادیا ۔ حضور (ص) نے بسم اللہ کہہ کرکھانا شروع کر نے کا حکم دیا اور اپنے دست مبارک حسب عادت د عا کے لیئے اٹھا دئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ کھانا سب کے لیئے نہ صرف پورا ہوگیا بلکہ بہت سے لوگ اپنے اہل و عیال کے لیئے بھی لے گیئے، جب مرد کھاچکے تو حضور (ص) نے خواتین اور امہات المومین (ص)کے گھر بھجوایا اور ایک برتن میں حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت فا طمہ (رض) کے لیئے ان کے گھر بھجوادیا جو دونوں نے ملکر تناول فر مایا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے لذیز اور پرتکلف کھانا ہم نے پہلے کبھی نہیں کھایا۔(باقی آئندہ