امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

محافظ کربلا ا مام سجاد علیہ السلام

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

 

تاریخ کے صفحات پرایسے سرفروشوں کی کمی نہیں جن کے جسم کوتووقت کے ظالموں اورجلادوں نے قیدی توکردیالیکن ان کی عظیم روح،ان کے ضمیرکووہ قیدی بنانے سے عاجزرہے،ایسے فولادی انسان جوزنجیروں میں جکڑے ہوئے بھی اپنی آزادروح کی وجہ سے وقت کے فرعون وشدادکوللکارتے رہے،تلواروں نے ان کے سر،جسم سے جدا توکردئیے لیکن لیکن ایک لمحہ کے لئے بھی ان کی روح کوتسخیرنہ کرسکے،ایسے انسان جن کی آزادروح،آزادضمیر،اورآزادفکر کے سامنے تیزوتنداسلحے بھی ناکارہ ثابت ہوئے … جب ان کی زبانیں کاٹی گئیں توان لوگوں نے نوک قلم سے مقابلہ کیااورجب ہاتھ کاٹ دئیے گئے اپنے خون کے قطروں سے باطل کوللکاراجب وقت کے فرعون جن کی ہرزمانیں میں شکلیں بدلتی ہوتی ہیں اورمقصدایک ہوتاہے ان کویوں ڈراتے ہیں کہ ”اآمنتم لہ قبل ان آذن لکم… فلاقطعن ایدیکم وارجلکم من خلاف ولاصلبنکم“ (سورہ طہ۷۱) ہماری سرپرستی قبول نہ کرنے کی سزا کے طورپرتمہارے ہاتھ پیرکاٹے جائیں گے اورپھانسی کاپھنداتمہارے لیے آمادہ ہے توتاریخ کے تسلسل میں ان سر فروشوں کاجواب ایک ہی رہاکہ ”فاقض ماانت قاض“ (طہ۷۲) تم وقت کے فرعون جوکچھ کرنا چاہوکرو، لیکن ہماری روح کوقیدکرناتمہارے بس کی بات نہیں،تم موت کی دھمکی دیتے ہواورہم اسی موت کواپنی کامیابی تمہاری شکست سمجھتے ہیں۔

کاٹی زبان توزخم گلوبولنے لگا
چپ ہوگیاقلم تو لہوبولنے لگا

شہادت حسین کے بعدبھی خاندان نبی کو اسیر کرکے کوفہ لے جایاگیا تو یزید نے امام سجاد اور دیگرافراد کو زنجیروں اورہتھکڑیوں میں ضرورجکڑا،ان پرمصائب کے پہاڑ توڑے لیکن یزیداوریزیدیت کے سامنے سرتسلیم نہ کرسکے،ان کی روح و ضمیرکوقیدنہ کر سکے، یزیداسیروں سے یہ توقع رکھتاتھا کہ اب ان میں احساس ندامت ہوگا وہ شہیدوں کی طرح بیعت ٹھکرائیں گے نہیں بلکہ معافی طلب کے کے بیعت پرآمادہ ہوں گے، لیکن جوں جوں زنجیروں میں جکڑے ہوئے آزاد انسانوں کایہ قافلہ آگے بڑھتاگیا یزیدکی شکست اورحسین کی کامیابی کے آثارروشن ہوتے گئے،حالات یزیدکی منشاء کے مطابق نہیں امام حسین کی طرف سے ترتیب دئے گئے پروگرام کے مطابق آگے بڑھ رہے تھے،قافلہ کی باگ ڈورابن زیادکے ہاتھ میں نہیں ،امام سجادکے ہاتھوں میں تھی،حسین کی اسیربہن اوربیٹے کاحالات پرپوراکنٹرول تھا،وہ اپنی روحانی طاقت و شجاعت کی بنیادپراپنی روحانی آزادی وحریت کی بنیاد پریزیدیت کادائرہ حیات تنگ کرتے جارہے تھے۔

 

فتح یزیدکیسے شکست میں تبدیل ہوئی!

یہ کوفہ ہے،یزیدکی منفی تبلیغات کی وجہ سے لوگ اس انتظارمیں بیٹھے ہیں کہ معاذاللہ، دشمنان اسلام کے بچے کھچے افرادکواسیرکرکے لایا جارہا ہے، لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ دشمن کوکربلامیں فوج یزیدنے قتل کردیاہے،خوشی کاسماں ہے،ابن زیادنے اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں دربارکوسجارکھاہے ،ابن زیادکاخیال یہ تھا کہ ان کے سامنے وہ لوگ ہیں جن کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچاہے،لیکن کوفہ کے بازارمیں جب حسین کی بہن اوربیٹے نے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق لوگوں پرحقیقت کوروشن کیاتب جاکے ابن زیادکواحساس ہواکہ روح حسین اس کی بہن اوربیٹے کے جسم میں دوڑرہی ہے اوراب بھی فریاددے رہی ہے ”لااعطیکم بیدی اعطاء الذلیل“ اب بھی حسین نعرہ دے رہے ہیں کہ ”مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتاہے“۔
انقلاب حسین کا پہلامرحلہ یعنی خون وشہادت کہ شہداء نے انجام دیااورانقلاب حسین کادوسرامرحلہ یعنی شہیدوں کاپیغام پہنچانا امام سجاداورزینب کی ذمہ داری ہے، بازارکوفہ کے اس مجمع پریہ واضح کرناہے کہ جوقتل کیے گئے ہیں وہ کوئی اورنہیں اسی پیغمبرکی ذریت ہے جن کالوگ کلمہ پڑھتے ہیں اورجولوگ اسیرکیے گیے ہیں وہ بھی نبی کی ذریت ہیں، امام سجادکواس مجمع کے سامنے واضح کرناہے کہ حسین نواسہ رسول شہیدکئے گئے ہیں ،ابن زیاداوریزیدکے مظالم بیان کرنااوران کے چہرے سے نقاب اتارنا امام سجادکی ذمہ داری ہے، امام نے کوفہ کے اس مجمع کویہ احساس بھی دلاناہے کہ تم لوگوں نے جس امام کودعوت دی تھی کربلامیں اس کویک وتنہاکیوں چھوڑا،جب قافلہ اس بازارمیں پہونچاتوپہلے علی کی بیٹی اورپھرامام سجادنے خون حسین کاپیغام پہونچایا،آپ نے مجمع سے مخاطب ہوکرایک قدرتمند اورآزادانسان کی طرح خاموش رہنے کوکہااورفرمایالوگوں!خاموش رہو،اس قیدی کی آوازسن کرسب لوگ خاموش اورپھرآپ فرماتے ہیں:
”لوگو! جوکوئی مجھے پہچانتاہے پہچانتاہے اورجونہیں پہچانتاہے وہ جان لے کہ میں علی فرزندحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں،میں اس کابیٹاہوں جس کی حرمت کوپامال کریااورجس کامال وسرمایہ لوٹاگیاہے، اورجس کی اولادکواسیرکیاگیاہے،میں اس کابیٹاہوں جس کانہرفرات کے کنارے سرتن سے جداکیاگیاہے،جب کہ نہ اس نے کسی پرظلم کیاتھااورنہ ہی کسی کودھوکادیاتھا… اے لوگوں ،کیاتم نے ان کی بیعت نہیں کی؟ کیاتم وہی نہیں ہوجنہوں نے ان کے ساتھ خیانت کی؟ تم کتنے بدخصلت اوربدکردارہو؟
اے لوگو! اگررسول خداتم سے کہیں: تم نے میرے بچوں کوقتل کیا،میری حرمت کاپامال کیا،تم لوگ میری امت نہیں ہو! تم کس منہ سے ان کاسامناکرو گے؟
امام کے اس مختصرمگر دردمند اور دلسوزکلام نے مجمع میں کہرام برپاکیاہرطرف سے نالہ وشیون کی صدابلندہونے لگی،لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے لوگوہم سب ہلاک ہوئے۔
اوریوں وہ مجمع جوتماشادیکھنے آیاتھا یزیداورابن زیادکابغض وکینہ اوران کے ساتھ نفرت لے کروہاں سے واپس گیا،اورتبلیغات سوء کی وجہ سے پھیلنے والی اندھیری گھٹنے لگی۔

 

یزیدکاآخری مورچہ بھی فتح ہوا

اہل شام، معاویہ اوراموی لابی کی غلط تبلیغات کی وجہ سے اہل بیت کے بارے میں بالکل بے خبرتھے بلکہ اہل بیت کی ایک الٹی تصویران کے ذہنوں میں نقش تھی اہل شام ،علی اورآل علی کودشمن دین سمجھتے تھے اورامویوں کوہی پیغمبرکاحقیقی وارث سمجھتے تھے، جب حسین انقلاب کاپیغام پہونچانے والایہ قافلہ شام پہونچا تو زنجیروں میں جکڑے امام سجادکے لئے ایک سنہری موقع ہاتھ آیاکہ وہ اہل بیت کاصحیح تعارف اہل شام کوکروائیں اوراموی تبلیغات کاجواب دیں چنانچہ امام سجادنے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ایساہی کیوں کیا،چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ جب یزیدکے حکم سے ایک دن ایک خطیب منبرپربیٹھااورامام حسین اورعلی ابن ابی طالب کی شان میں گستاخی کی اورمعاویہ اوریزیدکی مدح ثرائی کی توامام سجادایک آزاداورغیورمجاہدکی طرح بلندہوئے اورخطیب سے مخاطب ہوکرکہا: ”لعنت ہوتم پراے خطیب! تم نے مخلوق کو خوش کرنے کے عوض خالق کے غیظ وغضب کومول لیا اوراپنی جگہ جہنم میں قراردی“۔
اورپھریزیدسے کہا! کیاتم مجھے ان لکڑی کے ٹکڑوں (منبر) پربیٹھنے کی اجازت دیتے ہوتاکہ میں وہ باتیں کہوں جس میں خداکی مرضی ہواورحاضرین کے لئے بھی ثواب ہو؟
یزیدنے پہلے اجازت دینے سے انکارکیالیکن لوگوں کے اصرارکی وجہ سے وہ مجبور ہوا، امام جب منبرپربیٹھے توخداکی حمدوثناکے بعدایک ایساخطبہ دیاکہ ہرآنکھ تراورہردل غمزدہ ہوئی پھراہل بیت کی چھ فضیلتوں کوشمارکیااورپھرلوگوں سے مخاطب ہو کے کہا!
لوگوں ! مجھے پہچانتاہے وہ پہچانتاہے اورجونہیں پہچانتاہے میں خود کو پہچنواتا ہوں میں مکہ ومنی کابیٹاہوں،میں زمزم وصفاکافرزندہوں،میں اس بزرگوارکابیٹا ہوں جس نے حجراسودکواپنی عبامیں اٹھایا،میں بہترین انسان کابیٹاہوں، میں اس کابیٹاہوں جس کو آسمان کی سیرمیں سدرة المنتہی تک لے جایاگیا،میں محمدمصطفی کابیٹاہوں میں علی کافرزندہوں
امام نے دردوجوش کے ساتھ جب اس خطبہ کوجاری رکھاتویزیدلرزنے لگا اور فورا حیلہ کے طورپرمؤذن سے اذان دینے کو کہا،مؤذن نے اذان شروع کی جب مؤذن نے ”اشہدان محمدرسول اللہ “ کہا تو امام نے یزیدکی طرف رخ کرکے کہا:
”یزیدکیامحمدمیرے جدہیں یاتیرے؟ اگرکہتے ہوتیرے جدہیں توجھوٹ بولتے ہواوراس کے حق کاانکارکرتے ہو،اوراگرکہتے ہوکہ میرے جدہیں توبتاؤکیوں اس کے بیٹوں کوقتل کیا؟ کیوں اسکے اہل بیت کواسیرکیااوراس کے بچوں کویوں آوارہ کیا؟“
اس موقع پرامام سجادنے اپناجامہ پارہ کیااوربلندگریہ کرنے لگے اورلوگ بھی بلند آواز میں فریادکرنے لگے۔
ایسے عالم میں مسجدمیں انقلاب برپاہوااورکچھ لوگوں نے نمازپڑھی اورکچھ بغیر نماز کے باہرنکلے اورپورے شہرمیں خبرگشت کرنے لگی۔
امام سجادنے اپنے جکڑے ہوئے ہاتھوں سے امویوں کی بنیادوں کوہلادیااوراپنے دردمنداوردلسوزخطبوں کے ذریعہ ان کے چالیس سال کے پروپیگنڈہ کوناکارہ بنادیااوراہل بیت اورشہداء کربلاکی صحیح تصویرلوگوں کے سامنے رکھ دی،اگرامام سجاداورزینب کایہ قافلہ نہ ہوتاتویزیدشہادت حسین کو کربلاہی تک محدود کردیتا، کتنابڑاجہادکیاحسین کے بیٹے اوربہن جنہوں نے اپنی اسیری میں بھی یزیدویزیدیت کوتاریخ کے سامنے رسوا کیا اور اب اس کے نام کے ساتھ ظلم،بربریت،خونخواری کے علاوہ کچھ نہیں لکھاجاتاہے، اور یہیں پرامام سجادکی مظلومیت کابھی پتہ چلتاہے کہ یہ عظیم مجاہدجس نے اس انقلاب حسین کوپایہ تکمیل تک پہونچایااورپیغام کربلاکوعام کیاجکڑے اوررسن بستہ ہاتھوں کے ذریعہ یزیدیت کی دیوارمنہدم کی وہ امام آج اپنے ماننے والوں کے درمیان ایک بیمار کے طورپرمعروف ہے اوران کے کارناموں میں صرف رونااورگریہ سے واقف ہے اوراس تاریخی کارنامے سے بالکل غافل ہیں جوکہ امام نے انقلاب حسین کی حفاظت،ترویج وتبلیغ کے لئے انجام دیا۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک