واقعہ خم غدیر کا تاریخی پسِ منظر


حضور(ص) اپنے آخری اور پہلے ھض سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ یکایک وہاں قیام کا عندیہ ظاہر فرما یا جانثاران ِ حضور نے فو را ً وہاں دو درختوں کے درمیان چادر تان دی اور حضو ر(ص) اس کے نیچے تشریف فر ما ہو گئے۔لوگوں کو جمع کر نے کا حکم ہوا ہر ایک اس غیر معمولی قیام کی وجہ جاننا چاہتا تھا مگر ادب مانع تھا کیونکہ صحابہ کرام (رض) کے سامنے وہ قرآن کی آیت موجود رہتی تھی کہ نبی (ص)سے بہت زیادہ سوال نہ کرو کہیں تم پچھلی امتوں کی طرح مشکل میں پڑجاؤاور اپنی عاقبت بگاڑ بیٹھو۔
آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہو ئیں اور حضور (ص) کےلب ِ مبارک حرکت میں آئےاور انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ء سےفر مایا اور اس کے بعد سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ہاتھ بلند کر کے جو جملہ ادا فر مایاا وہ یہ تھا کہ علی مو لیٰ من کنت مولیٰ۔ جوکہ آج تمام مسالک َ اولیا ئے کرام پھر پہلا نعرہ ہے۔ اس کے بعد مزید ارشاد ہوا کہ لوگوں علی کی شکایت مت کرو وہ تم میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے اس کے علاوہ یہ بھی کہ علی سے مومن محبت کر تا ہے اور منا فق نفرت کر تا ہے۔ غرضیکہ وہ ایک طویل خطبہ تھا جس مقصد حضرت علی کرم اللہ وجہ کے مقام کو لوگوں پر ظاہر کرنا تھا۔ ہم اگر اس پورے پر بات کریں تو کئی بہت ہی ضخیم کتابیں تیار ہو جا ئینگی اور ہم لکھ نہیں پا ئیں گے۔ لہذا صرف اس میں سے ایک حدیث کو لیتے ہیں جس کے راوی حضرت زید بن ارقم (رض) ہیں اور اس کو نسائی (رح) نے بہت سے حوالوں سے تحریر کیا ہے کہ حضور (ص) نے فر مایا ً یوں معلوم ہو تا ہے کہ مجھے مطلع کیا گیااور میں نے جواب دیا کہ میں تمہارےدرمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک کتاب اللہ اور دوسرے اپنی عترت (اہلِ بیعت )کہ دیکھوں کہ میرے بعد تم میری نیابت کیسے کر تے ہو۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگی تاوقتیکہ یہ (سب) قیامت کو مجھ سے حوض کو ثر پر نہ آملیں "
میرے آقا (ص) کی ہر بات سچی تھی سچی ہے اور ہمیشہ سچ ثابت ہو تی ر ہے گی ۔ اس کا ثبوت یہ صرف چند جملے ہیں۔ جن پر میں اب تبصرہ کرنے جا رہا ہوں ۔چونکہ یہ صفحات ، پورے خطبے پر بحث کے متحمل نہیں ہو سکتے لہذا میں مختصرا ً عرض کررہا ہوں ۔
اس کے لیئے مجھے تھوڑاسا تاریخ میں پیچھے کی طرف لو ٹنا ہو گا۔ در اصل یہ اس بچے کی دا ستان ہے جو حضور (ص) کو دیکھتا ہے کہ وہ اور ان کی زوجہ محترمہ (ع) گھر میں عجیب طرح کی حر کات کر رہے ہیں ، تو اس کے ذہن میں تجسس پیدا ہوتا ہےکہ یہ کیا ہے؟
کیونکہ اس وقت تک نہ حضور (ص) کوتبلیغ حکم ملا تھا نہ انہوں عوام یا خوا ص کے سامنے د عوی ٰ نبوت فر مایا تھااور نہ ہی اس شریعت سے پہلے گھروں پر عبادت کر نے کی اجازت تھی، جو عبادت کر نا چا ہتا تو وہ حرم شریف کا رخ کر تا اور وہاں کے مروجہ طریقہ سے عبادت کر تا جس میں سجدہ اور دوسری چیزیں تو تھیں مگر رکوع نہیں تھااور یہ با قاعدگی بھی نہ تھی۔
لہذا اس بچے کے ذ ہن میں تجسس پیدا ہونا قدرتی امر تھا۔لہذا اس نے سوال کیا یہ سب کیا ہے؟ تو حضور (ص) نے فر مایا کہ لا ئق عبادت صرف ایک رب ہے جس کانام اللہ ہے اوروہ واحد ہےاورمیں اللہ کا نبی (ص) ہوں اور ہم دونوں اس کی عبادت کر رہے تھے۔ اس بچے نے جو ان کے زیر ِ کفالت بھی تھا جس نے کبھی کو ئی غلط بات ان سے نہیں سنی فوری طور پر کہا ہے کہ میں بھی آپ کے دین میں شامل ہو تا ہوں! تو حضور (ص) فرماتے نہیں ابھی نہیں تم پہلے اپنے والد محترم سے پو چھ لو مگر ابھی ان کو بتانا نہیں؟
دوسرے دن بچہ پھر ضد کر تا ہے اور وہ ان کے ساتھ نماز شامل ہو جا تا ہے۔اور یہ بچہ تھا علی بن ابی طالب (ع)
اب اس سے اگلا مر حلہ یہ آتا ہے کہ پہلا حکم خاندان کو دعوت دینے کا ہو تا اس کا اہتمام حضرت علی (ع)کے سپرد ہو تا ہے۔ وہاں حضور (ص) اپنی نبوت کاتین بار اعلان فر ماتے ہیں، مگر حا ضریں میں سے تینو ں بار یہ ہی بچہ کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ میں آپ پر ایمان لا تا ہوں ۔ تب تیسری مرتبہ حضور (ص) ان کا ہاتھ بلندکر کےفرماتے ہیں تم آج کے بعد میرے وزیر ہو۔ جس پر ابو لہب کہتا ہے کہ ابو طالب ابھی تک تو تمہارے بھتیجے کا مسئلہ تھا، اب تمہارے بیٹے کی بھی تابعداری کر نا پڑےگی۔اس کے بعد وہ بچہ جس کانام علی (ع) تھا خلوت ہو یا جلوت نبی (ص)کے ساتھ رہتا ہے ۔ اگر بچے انہیں کفار کے کہنے پرپتھر مارتے ہیں تو وہ ان کی پٹا ئی کر تا ہے۔ پھر مدینہ منورہ ہجرت کا مر حلہ آجاتا ہے ۔ وہ واقعہ بھی شامل تا ریخ ہے کہ ان کے سپرد نبی (ص) اپنا بستر اور کفار کی امانتیں سونپ آتے ہیں یعنی وہ اب یہاں بھی نبی کی نیابت فر مارہے ہیں ۔
اب آپ کو میں ایک اور مثال دیدوں تو بات اور واضح ہو جا ئیگی ۔ حضور (ص) ہرمر تبہ اس جوان کو جو ہر وقت ساتھ رکھتے تھے سوائے ہجرت والی شب کے کہ نیابت کے لیئے وہاں چھوڑا آئے تھے ۔ اب ایک مر تبہ پھر چھوڑ تے ہیں۔ وہ غزوہ تبوک کا موقعہ ہے۔ ابھی وہ (ص) ایک منزل پہونچ کر قیام فر ما ہو ئے ہیں کہ حضرت علی (ع) ان کے پاس پہونچ جا تے ہیں اور فر ماتے ہیں کہ میری غیرت نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ آپ خطرات میں گھرے ہو ئے ہوں اور میں آپ کو تنہا چھوڑ دوں۔ حضور (ص) نے فر مایا کہ تم واپس جا ؤ ! کیا تم نہیں چاہتے کہ مجھ میں اور تم میں وہی نسبت ہو جو مو سیٰ اور ہارون علیہ السلام میں تھی؟ حضرت علی کرم اللہ وجہ اس پیغام کو سمجھ لیتے ہیں اور واپس چلے آتے ہیں ۔ان کی عدم مو جود گی میں نیابت فر ماتے ہیں ۔ اس سے آپ کو انکا جو کر دار حضور (ص) نے معین فر مایا تھا اسے سمجھنے مدد ملے گی۔ کیونکہ یہ وہ تمام احادیث ہیں جن پر ہر فرقہ بلا امتیاز متفق ہےاب رہ جا تے ہیں عترت کے معنی اور دین میں عترت کا کر دار؟
اس کو سمجھا نے کے لیئے ہم ایک اور مثال پیش کر تے ہیں وہ یہ ہے کہ جب نجران کے عیسائیوں کے وفد کو دعوت ِ مبا ہلہ دی جاتی ہے تو کہ تم اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو لے آؤتو آستانہ نبوت سے جو نفوس بر آمد ہو تے ہیں وہ حضرت علی (ع) اور ان کا خاندان ہے جن کو اخوت کےاعزاز کے بعد اب شرف دامادی بھی حا صل ہو چکا ہے، بر آمد ہوتے ہیں جو اب کاشانہ نبوت کے ہمسایہ بھی ہیں اور جبکہ اب مدینہ میں سارے مکانات کے نشان بدعت کے نام مٹ چکے ہیں اور ان پر شہزادوں کے ہو ٹل بنا دیئے گئے ہیں۔مگر آجتک حضرت علی کرم اللہ وجہ مکان اپنی جگہ قائم ہے۔ اس میں سے اس وقت بر آمد ہو نے والوں کی ترتیب جو لوگوں نے دیکھی وہ اس طرح تھی کہ سب سے آگے حضور (ص) ان کے پیچھے حضرت علی (ع) اور حضرت فا طمہ (ع) اور ان کے پیچھے جناب ِ حسن اورحسین (ع) بر آمد ہوتے ہیں یہاں اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حضور (ص)کی عترت سے مراد کیا تھی؟اب آپ تقریبا ً ہر جملے کے معنی سمجھ چکے ہونگے۔اب اس حدیث کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میں تم میں اللہ کی کتاب اور اپنی عترت چھوڑ ے جارہا ہوں کہ وہ دیکھیں تم میری نیابت کس طرح کرتے ہو؟اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی عترت کو دین کا نگراں بنا کر چھوڑ گئے تھے۔اور جب کسی کو نگراں بنایا جاتا ہے تو اس کی پوزیشن ان سے اعلیٰ ہوتی ہے جن کا اسے نگرا ں بنا یا گیا ہو۔ میرے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہ کو حضور (ص)نے علم دیکر درجہ ولایت پر فائض فر ما دیا تھا۔چونکہ جو اللہ کا ولی ہو وہ دنیاوی چیزوں سے بے نیاز ہو تا ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ سلسلہ ولایت کی بنیاد رکھ کر امام امام السالکین تھے۔ ان بعد ان کے معمولی غلاموں نے بھی کبھی بادشاہی یا حکومت کی طرف نہیں دیکھا ،بلکہ بادشاہ ، بادشاہت چھڑ کر ولی بنتے رہے جو اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ ولایت بڑی چیز ہے بمقابلہ با دشاہت کے؟
اب میں اس جملہ پر بات کر کے اس بحث کو ختم کر تا ہوں کہ حضور (ص) کی عترت نے نگراں کافرض کس طرح نبھایا؟ حضرت علی (ع) وہ واحد شخص تھے جو کہ حضور (ص) جیسی زندگی اپنا ئے ہو ئے تھے، کیونکہ ان کے پاس بھی ہر غزوہ میں شریک رہنے کی وجہ سے بے انتہا مال ِ غنیمت آیا مگر ان کے ہاں فقر و فاقہ ہی رہا؟ کیوں اس لیئے کہ وہ شام تک سب خیرات کر دیتے تھے اور مورخین اس پر متفق ہیں کہ حضرت فاطمہ (ع)کے وصال تک ان کے پاس سوائے اس جہیز کے اور کچھ نہ تھا جو حضور (ص)نے عطا فر مایا تھا۔ انہوں نے کسی عہدے کی طرف خود کبھی رغبت نہیں دکھائی جبتک کہ انہیں مجبور نہ کیا گیا ۔ اور اسلام کو خطرے میں دیکھا انہوں نے اور انکی اولادوں اپنی جان دینے سے گریز نہیں کیا۔ پھر وہ اپنے پیچھے ایک سلسلہ اولیاءچھوڑ گئے جو حکمرانوں پر نگراں رہے اور اپنے کر دار سے دین کو پھیلانے کا با عث ہو ئے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جہاں مسلمان با دشاہ رہے وہاں مسلمان اکثریت کبھی نہیں رہی اور زیادہ تر ان کے ساتھ اسلام کو بھی دیش نکالا مل گیا جیسے کہ اسپین؟ جبکہ اولیاءکرام جہاں بھی گئے مسلمان آج بھی اکثریت میں ہیں ۔
اس کے بعد ان کے بیٹوں نے پو تی پو توں نے قربانیاں دیں اور وہ انشا اللہ یہ کام کر تے رہیں گے تاوقتیکہ حضور(ص) کی حدیث کے مطابق وہ حوض کو ثر پر ان سے نہ جا ملین ۔