امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت

1 ووٹ دیں 01.0 / 5

اسم مبارک: موسیٰ
القاب: کاظم، عبد صالح، نفس زکیہ ، صابر، امین، باب الحوائج وغیرہ
کنیت:۔ ابو الحسن، ابو ابراہیم، ابو علی، ابو عبد اللہ
پدر بزرگوار:۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
والدہ گرامی:۔ حمیدہ خاتون
تاریخ ولادت:۔ ٧ صفر ۲۸ھ
تاریخ شہادت: ۲۵ رجب ۱۸۳ھ
مدفن: کاظمین (بغداد) عراق


حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ، رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتویں جانشین اور ہمارے ساتویں امام ہیں ۔سلسلہ عصمت کی نویں کڑی ہیں ۔آپ کے والد محترم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ جناب حمیدہ خاتون تھیں ، جو بربر یا اندلس کی رہنے والی تھیں ۔ امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے ابائو اجداد کی طرح امام منصوص من اللہ، معصوم، اعلم زمانہ اور افضلِ کائنات تھے ۔ آپ دنیا کی تمام زبانیں جانتے تھے اور علم غیب سے آگاہ تھے، آپ دنیا کے عابدوں میں سے سب سے بڑے عبادت گزاراور سخاوت میں سب سے زیادہ سخی تھے۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ٧صفر المظفر ۸۲۱ھ مطابق ۱۰نومبر ۷۴۵ع شنبہ کے روز ابوا کے مقام جو مدینہ و مکہ کے درمیان واقع ہے پیدا ہوئے۔ولادت کے فوراً بعد ہی آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر آسمان کی طرف رخ کرکے کلمہ ¿ شہادتین زبان پر جاری فرمایا۔ یہ عمل آپ نے بالکل اسی طرح انجام دیا جس طرح آپ (ع) کے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انجام دیا تھا۔آپ کے داہنے بازو پر یہ کلمہ ” تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا “ لکھا ہوا تھا۔
۱۴۸ھ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو شہید کیا گیا ۔باپ کی شہادت کے بعد آپ منصب امامت پر فائز ہوئے اور امامت کے تمام فرائض کے ذمہ دار ہوئے ۔اس وقت منصور دوانقی ملعون کی حکومت تھی ۔ یہ وہی ظالم و جابر بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعداد سادات موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا دیوار میں چنوا دئے گئے۔
۱۵۸ھ کے آخر میں منصور دوانقی ملعون واصل جہنم ہوتا ہے، اس کے بعد اس کا بیٹا مہدی تخت سلطنت پر بیٹھتا ہے ۔ شروع میں اس نے امام علیہ السلام کو کسی قسم کی اذیت نہ دی اور نہ ہی بے احترامی کی لیکن چند سال بعد اس کو بھی اولاد پیغمبر کی مخالفت کا جذبہ ابھرا اور ۱۶۴ھ میں حج کے بہانے حجاز کی جانب روانہ ہوا ۔ وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ مکہ سے بغداد لے گیااور بغداد میں امام علیہ السلام کو قید کر دیا ۔ایک سال امام علیہ السلام اس کی قید میں رہے ۔ بعد میں اس ملعون کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور امام علیہ السلام کو آزاد کر کے مدینہ واپس بھیج دیا۔ مہدی کے بعد اس کا بھائی ہادی ۱۶۹ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال اس نے حکومت کی ۔ اس کے بعد ہارون رشید کا زمانہ آیا ۔ اس ملعون کے دور میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو آزادی کی سانس لینا نصیب نہیں ہوا ۔
علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ درجہ امامت پر فائز ہوئے اس وقت آپ کی عمر مبارک بیس سال تھی ۔ 1

 

امام علیہ السلام کی شہادت

امام علیہ السلام کو بصرہ میںایک سال قید رکھنے کے بعد ہارون رشید ملعون نے والی بصرہ عیسیٰ بن جعفر کو لکھا کہ موسیٰ بن جعفر ( امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ) کو قتل کرکے مجھ کو ان کے وجود سے سکون دے ۔ اس نے اپنے ہمدردوں سے مشورہ کرنے کے بعد ہارون رشید ملعون کو لکھا: میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام میں اس ایک سال کے اندر کوئی برائی نہیں دیکھی ۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام روز و شب نمازاور روزہ میں مصروف و مشغول رہتے ہیں اور عوام و حکومت کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور ملک کی فلاح و بہبودی کے خواہشمند ہیں ۔ کس طرح ایسے شخص کو قتل کر دوں ۔میں ان کے قتل کرنے میں اپنے انجام اور اپنی عاقبت کی تباہی دیکھ رہا ہوں لہٰذا تو مجھے اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے معاف کر بلکہ تو مجھے حکم دے کہ میں ان کو اس قید با مشقت سے آزاد کر دوں ۔اس خط کو پانے کے بعد ہارون رشید ملعون نے اس کام کو سندی بن شاہک کے حوالے کیا اور اسی ملعون کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زہر دلواکر شہید کر دیا ۔
علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں ہارون رشید نے آپ کو بغداد میں قید کردیا ” فلم یخرج من حبسہ الا میتا مقیدا“ اور تاحیات قید رکھا، آپ (ع) کی شہادت کے بعدآپ کے ہاتھوں اور پیروں سے ہتھکڑیاں اوربیڑیاں کاٹی گئیں۔آپ کی شہادت ہارون رشید کے زہر سے ہوئی جو اس نے سندی ابن شاہک کے ذریعہ دلوایا تھا۔ 2
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت ٥٢ رجب المرجب بروز جمعہ ۱۸۳ھ میں واقع ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر ٥٥ سال کی تھی ۔ آپ نے ۱۴سال ہارون رشید کے قید خانہ میں گزارے ۔ شہادت کے بعد آپ کے جنازہ کو قید خانہ سے ہتھکڑی اور بیڑی سمیت نکال کر بغداد کے پل پر ڈال دیا گیا تھااور نہایت ہی توہین آمیز الفاظ میں آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو یاد کیا گیا۔سلیمان بن جعفر ابن ابی جعفر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہمت کرکے نعش مبارک کو دشمنوں سے چھین کر لے گئے اور غسل و کفن دے کر بڑی شان سے جنازہ کو لے کر چلے ۔ ان لوگوں کے گریبان امام مظلوم کے غم میں چاک تھے انتہائی غم و اندوہ کے عالم میں جنازہ کو لے کر مقبرہ قریش میں پہنچے۔امام علی رضا علیہ السلام کفن و دفن اور نماز کے لئے مدینہ منورہ سے با اعجاز پہنچ گئے۔آپ نے اپنے والد ماجد کو سپرد خاک فرمایا۔
تدفین کے بعد امام علیہ السلام مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے ۔ جب مدینہ والوں کو آپ کی شہادت کی خبر ملی تو کہرام برپا ہو گیا ۔ نوحہ و ماتم اور تعزیت کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔
مرزا دبیر کہتے ہیں:
مولا پہ انتہائے اسیری گزر گئی ۔
زندان میں جوانی و پیری گزر گئی

 

اقوال امام علیہ السلام

- صالح افراد کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا فلاح اور بہبود کی طرف دعوت دیتاہے۔علماءکا ادب کرنا عقل میں اضافہ کا سبب ہے۔
- جو شخص اپنے غیظ و غضب کو لوگوں سے روکے تو قیامت میں خدا اس کواپنے غضب سے محفوظ رکھے گا۔
- معرفت الٰہی کے بعد جو چیزیں انسان کو سب سے زیادہ خدا سے نزدیک کرتی ہیں وہ نماز ، والدین کے ساتھ اچھا برتائو، حسد نہ کرنا، خود پسندی سے پرہیز کرنا، فخر و مباہات سے اجتناب کرنا۔
- مخلوقات کا نصب العین اطاعت پروردگار ہے ۔ اطاعت کے بغیر نجات ممکن نہیں ۔ اطاعت علم کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔ علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ علم عقل کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ علم تو بس عالم ربانی کے پاس ہے ۔عالم کی معرفت اس کی عقل کے ذریعہ سے ہے۔
- تمھارے نفس کی قیمت تو بس جنت ہے۔بس اپنے کو جنت کے علاوہ کسی اور سے نہ فروخت کرو۔
- نعمت اس شخص کے پاس رہتی ہے جو میانہ روی اور قناعت کو اپناتاہے ۔اور جو شخص بے جا مصرف اوراسراف کرتا ہے تو اس سے نعمت دور ہوجاتی ہے۔
- امانت داری اور سچائی رزق مہیا کرتے ہیں ۔خیانت اور جھوٹ فقر اور نفاق پیدا کرتے ہیں ۔
- عاقل وہ ہے جسے رزق حلال شکر سے باز نہیں رکھتا اور نہ کبھی حرام اس کے صبر پر غالب آتا ہے ۔
- علی بن یقطین سے فرماتے ہیں: ظالم بادشاہ کی نوکری کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ تم اپنے بھائیوں کے ساتھ احسان کرو۔
- جو شخص حمد و ثنائے پرور دگار اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود و سلام بھیجے بغیر دعا مانگتا ہے وہ بالکل اس شخص کے مانند ہے جو بغیر ہدف کے تیر چلائے۔
- غور فکر کرنا نصف راحت ہے اور لوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے کیوں کہ لوگ تمھیں تمھارے عیوب سے آگاہ کریں گے ۔ اور یہی لوگ تمھارے حقیقی مخلص ہیں۔
- وہ شخص ہم سے نہیں ہے ( ہمارا دوست نہیں ہے ) جو اپنی دنیا کو دین کے لئے ترک کر دے یا اپنے دین کو دنیا کے خاطر ترک کردے ۔

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک