امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


آپ کی ولادت

حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت کے بعد پچاس راتیں گزریں تھیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کا نطفہ وجود بطن مادر میں مستقر ہوا تھا ۔ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ ولادت حسن اوراستقرارحمل حسین میں ایک طہر کا فاصلہ تھا (اصاببه نزول الابرار واقدی)۔
ابھی آپ کی ولادت نہ ہونے پائی تھی کہ بروایتی ام الفضل بنت حارث نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم کے جسم کاایک ٹکڑا کاپ کرمیری آغوش میں رکھا گیا ہے اس خواب سے وہ بہت گھبرائیں اوردوڑی ہوئی رسول کریم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پرداز ہوئیں کہ حضورآج ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ حضرت نے خواب سن کرمسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ خواب تونہایت ہی عمدہ ہے۔ اے ام الفضل کی تعبیر یہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیدا ہو گا جو تمہاری آغوش میں پرورش پائے گا ۔
آپ کے ارشاد فرمانے کوتھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ خصوصی مدت حمل صرف چھ ماہ گزرکرنورنظررسول امام حسین بتاریخ ۳/ شعبان ۴ ء ہجری بمقام مدینہ منورہ بطن مادرسے آغوش مادرمیں آ گئے۔ (شواہدالنبوت ص ۱۳، انوارحسینہ جلد ۳ ص ۴۳ بحوالہ صافی ص ۲۹۸، جامع عباسی ص ۵۹، بحارالانوار و مصاح طوسی ابن نما ص ۲ وغیرہ)۔
ام الفضل کا بیان ہے کہ میں حسب الحکم ان کی خدمت کرتی رہی، ایک دن میں بچے کولے کر آنحضرت کی خدمت میں حاضرہوئی آپ نے آغوش محبت میں لے کرپیارکیا اور آپ رونے لگے میں نے سبب دریافت کیا توفرمایا کہ ابھی ابھی جبرئیل میرے پاس آئے تھے وہ بتلاگئے ہیں کہ یہ بچہ امت کے ہاتھوں نہایت ظلم وستم کے ساتھ شہید ہوگا اور اے ام الفضل وہ مجھے اس کی قتل گاہ کی سرخ مٹی بھی دے گئے ہیں (مشکواة جلد ۸ ص ۱۴۰ طبع لاہور)۔
اورمسن امام رضا ص ۳۸ میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا دیکھو یہ واقعہ فاطمہ سے کوئی نہ بتلائے ورنہ وہ سخت پریشان ہوں گی، ملا جامی لکھتے ہیں کہ ام سلمہ نے بیان کیا کہ ایک دن رسول خدا میرے گھراس حال میں تشریف لائے کہ آپ کے سرمبارک کے بال بکھرے ہوئے تھے اورچہرے پرگرد پڑی ہوئی تھی ، میں نے اس پریشانی کودیکھ کرپوچھا کیا بات ہے فرمایا مجھے ابھی ابھی جبرئیل عراق کے مقام کربلامیں لے گئے تھے وہاں میں نے جائے قتل حسین دیکھی ہے اوریہ مٹی لایا ہوں اے ام سلمہ اسے اپنے پاس محفوظ رکھو جب یہ خون ہوجائے توسمجھنا کہ میرا حسین شہید ہوگیا ۔الخ(شواہدالنبوت ص ۱۷۴) ۔


آپ کااسم گرامی

امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ولادت کے بعد سرور کائنات صلعم نے امام حسین کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور اپنی زبان ان کے منہ میں دے کر بڑی دیرتک چسایا، اس کے بعد داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی، پھردعائے خیرفرما کر حسین نام رکھا (نورالابصار ص ۱۱۳) ۔
علماء کابیان ہے کہ یہ نام اسلام سے پہلے کسی کا بھی نہیں تھا، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نام خود خداوندعالم کا رکھا ہوا ہے (ارجح المطالب و روضة الشہداء ص ۲۳۶) ۔
کتاب اعلام الوری طبرسی میں ہے کہ یہ نام بھی دیگرآئمہ کے ناموں کی طرح لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔


آپ کاعقیقہ

امام حسین کانام رکھنے کے بعد سرور کائنات نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ بیٹی جس طرح حسن کا عقیقہ کیا گیا ہے اسی طرح اسی کے عقیقہ کا بھی انتظام کرو، اوراسی طرح بالوں کے ہم وزن چاندی تصدق کرو، جس طرح اس کے بھائی حسن کے لیے کرچکی ہو، الغرض ایک مینڈھا منگوایا گیا اور رسم عقیقہ ادا کردی گئی (مطالب السؤل ص ۲۴۱) ۔
بعض معاصرین نے عقیقہ کے ساتھ ختنہ کا ذکرکیا ہے جومیرے نزدیک قطعا ناقابل قبول ہے کیونکہ امام کا مختون پیدا ہونا مسلمات سے ہے۔


کنیت و القاب

آپ کی کنیت صرف ابوعبداللہ تھی، البتہ القاب آپ کے بے شمارہیں جن میں سید وصبط اصغر، شہیداکبر، اورسیدالشہداء زیادہ مشہورہیں۔ علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ سبط اورسید خود رسول کریم کے معین کردہ القاب ہیں (مطالب السؤل ص ۳۱۲) ۔


آپ کی رضاعت

اصول کافی باب مولدالحسین ص ۱۱۴ میں ہے کہ امام حسین نے پیدا ہونے کے بعد نہ حضرت فاطمہ زہرا کا شیر مبارک نوش کیا اورنہ کسی اوردائی کا دودھ پیا، ہوتا یہ تھا کہ جب آپ بھوکے ہوتے تھے توسرور کائنات تشریف لا کرزبان مبارک دہن اقدس میں دے دیتے تھے اورامام حسین اسے چوسنے لگتے تھے ،یہاں تک کہ سیر وسیرآب ہوجاتے تھے، معلوم ہوناچاہئے کہ اسی سے امام حسین کاگوشت پوست بنا اورلعاب دہن رسالت سے حسین پرورش پا کر کار رسالت انجام دینے کی صلاحیت کے مالک بنے یہی وجہ ہے کہ آپ رسول کریم سے بہت مشابہ تھے (نورالابصار ص ۱۱۳) ۔


خداوند عالم کی طرف سے ولادت امام حسین کی تہنیت اور تعزیت

علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطرازہیں کہ امام حسین کی ولادت کے بعد خلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمد مصطفی کومیری طرف سے حسین کی ولادت پرمبارک باد دے دو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت ادا کردو، جناب جبرئیل بحکم رب جلیل زمین پر وارد ہوئے اورانہوں نے آنحضرت کی خدمت میں شہادت حسینی کی تعزیت بھی منجانب اللہ اداکی جاتی ہے، یہ سن کرسرورکائنات کا ماتھا ٹھنکا اورآپ نے پوچھا، جبرئیل ماجرا کیا ہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل نے عرض کی کہ مولا ایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے چہیتے فرزند”حسین“ کے گلوئے مبارک پرخنجر آبدار رکھا جائے گا اورآپ کا یہ نورنظر بےیار و مددگار میدان کربلامیں یکہ و تنہا تین دن کا بھوکا پیاسا شہید ہوگا یہ سن کرسرور عالم محو گریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ ہوگئے ۔
جناب سیدہ نے جوحضرت علی کوروتا دیکھا دل بے چین ہوگیا، عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیا ہے فرمایا بنت رسول ابھی جبرئیل آئے ہیں اوروہ حسین کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبردے گئے ہیں حالات سے باخبرہونے کے بعد فاطمہ کے گریہ گلوگیر ہوگیا، آپ نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا، فرمایاجب میں نہ ہوں گا نہ توہوگی نہ علی ہوں گے نہ حسن ہوں گے فاطمہ نے پوچھا بابا میرابچہ کس خطا پرشہید ہوگا فرمایا فاطمہ بالکل بے جرم وخطا صرف اسلام کی حمایت میں شہادت ہوگی، فاطمہ نے عرض کی باباجان جب ہم میں سے کوئی نہ ہوگا توپھراس پر گریہ کون کرے گااوراس کی صف ماتم کون بچھائے گا،راوی کا بیان ہے کہ اس سوال کاحضرت رسول کریم ابھی جواب نہ دینے پائے تھے کہ ہاتف غیبی کی آواز آئی، اے فاطمہ غم نہ کروتمہارے اس فرزند کاغم ابدالآباد تک منایاجائے گا اوراس کا ماتم قیامت تک جاری رہے گا ایک روایت میں ہے کہ رسول خدا نے فاطمہ کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ خدا کچھ لوگوں کوہمیشہ پیدا کرتا رہے گا جس کے بوڑھے بوڑھوں پراورجوان جوانوں پراوربچے بچوں پراورعورتیں عورتوں پر گریہ وزاری کرتے رہیں گے۔


فطرس کا واقعہ

علامہ مذکور بحوالہ حضرت شیخ مفید علیہ الرحمہ رقمطرازہیں کہ اسی تہنیت کے سلسلہ میں جناب جبرئیل بے شمارفرشتوں کے ساتھ زمین کی طرف آرہے تھے کہ ناگاہ ان کی نظرزمین کے ایک غیرمعروف طبقہ پرپڑی دیکھا کہ ایک فرشتہ زمین پرپڑاہوا زاروقطار رو رہا ہے آپ اس کے قریب گئے اورآپ نے اس سے ماجرا پوچھا اس نے کہا اے جبرئیل میں وہی فرشتہ ہوں جوپہلے آسمان پرستر ہزار فرشتوں کی قیادت کرتا تھا میرا نام فطرس ہے جبرئیل نے پوچھا تجھے کس جرم کی یہ سزاملی ہے اس نے عرض کی ،مرضی معبود کے سمجھنے میں ایک پل کی دیرکی تھی جس کی یہ سزابھگت رہا ہوں بال وپرجل گئے ہیں یہاںکنج تنہائی میں پڑاہوں ۔
ائے جبرئیل خدارا میری کچھ مدد کروابھی جبرئیل جواب نہ دینے پائے تھے کہ اس نے سوال کیا ائے روح الامین آپ کہاں جا رہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفی صلعم کے یہاں ایک فرزند پیدا ہوا ہے جس کا نام حسین ہے میں خداکی طرف سے اس کی ادائے تہنیت کے لیے جا رہا ہوں، فطرس نے عرض کی اے جبرئیل خدا کے لیے مجھے اپنے ہمراہ لیتے چلو مجھے اسی درسے شفا اورنجات مل سکتی ہے جبرئیل اسے ساتھ لے کر حضورکی خدمت میں اس وقت پہنچے جب کہ امام حسین آغوش رسول میں جلوہ فرما تھے جبرئیل نے عرض حال کیا،سرورکائنات نے فرمایا کہ فطرس کے جسم کوحسین کے بدن سے مس کر دو، شفا ہوجائے گی جبرئیل نے ایسا ہی کیا اورفطرس کے بال وپراسی طرح روئیدہ ہوگیے جس طرح پہلے تھے ۔
وہ صحت پانے کے بعد فخرومباہات کرتا ہوا اپنی منزل”اصلی“ آسمان سوم پرجا پہنچا اورمثل سابق ستر ہزار فرشتوں کی قیادت کرنے لگا، بعد از شہادت حسین چوں برآں قضیہ مطلع شد“ یہاں تک کہ وہ زمانہ آیا جس میں امام حسین نے شہادت پائی اوراسے حالات سے آگاہی ہوئی تواس نے بارگاہ احدیت میں عرض کی مالک مجھے اجازت دی جائے کہ مین زمین پرجا کردشمنان حسین سے جنگ کروں ارشاد ہوا کہ جنگ کی ضرورت نہیں البتہ توستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جا اوران کی قبرمبارک پرصبح وشام گریہ ماتم کیا کر اوراس کا جو ثواب ہو اسے ان کے رونے والوں کے لیے ہبہ کردے چنانچہ فطرس زمین کربلا پرجا پہنچا اورتا قیام قیامت شب و روز روتا رہے گا(روضة الشہدا صص ۲۳۶ تا ۲۳۸ طبع بمبئی ۱۳۸۵ ئھ وغنیة الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی)۔


امام حسین سینہ رسول پر

صحابی رسول ابوہریرہ راوی حدیث کا بیان ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا ہے کہ رسول کریم لیٹے ہوئے اورامام حسین نہایت کمسنی کے عالم میں ان کے سینہ مبارک پرہیں، ان کے دونوں ہاتھوں کوپکڑے ہوئے فرماتے ہیں اے حسین تومیرے سینے پرکود چنانچہ امام حسین آپ کے سینہ مبارک پر کودنے لگے اس کے بعد حضورصلعم نے امام حسین کا منہ چوم کرخداکی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے میں اسے بے حد چاہتا ہوں توبھی اسے محبوب رکھ، ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت امام حسین کا لعاب دہن اوران کی زبان اس طرح چوستے تھے جس طرح کجھورکوئی چوسے (ارجح المطالب ص ۳۵۹ و ص ۳۶۱ ، استیعاب ج ۱ ص ۱۴۴، اصابہ جلد ۲ ص ۱۱، کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۴، کنوزالحقائق ص ۵۹) ۔


جنت کے کپڑے اور فرزندان رسول کی عید

امام حسن اورا مام حسین کا بچپنا ہے عید آنے والی ہےاوران اسخیائے عالم کے گھرمیں نئے کپڑے کا کیا ذکر پرانے کپڑے بلکہ نان جویں تک نہیں ہے بچوں نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں مادرگرامی اطفال مدینہ عید کے دن زرق برق کپڑے پہن کرنکلیں گے اورہمارے پاس بالکل لباس نونہیں ہے ہم کس طرح عید منائیں گے ماں نے کہا بچوگھبراؤ نہیں، تمہارے کپڑے درزی لائے گا عید کی رات آئی بچوں نے ماں سے پھرکپڑوں کا تقاضا کیا،ماں نے وہی جواب دے کرنونہالوں کوخاموش کردیا۔
ابھی صبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا، دروازہ کھٹکھٹایا فضہ دروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدئہ عالم کی خدمت میں اسے پیش کیا اب جوکھولاتواس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامے دوقبائیں،دوعبائیں غرضیکہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کا دل باغ باغ ہوگیا وہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا بچوں کوجگایا کپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کی توکہا مادرگرامی یہ توسفید کپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے، امام جان ہمیں رنگین کپڑے چاہئیں ۔
حضور انورکواطلاع ملی، تشریف لائے، فرمایا گھبراؤ نہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گے اتنے میں جبرئیل آفتابہ لیے ہوئے آ پہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمدمصطفی کے ارادے سے کپڑے سبزاورسرخ ہوگئے سبزجوڑاحسن نے پہنا سرخ جوڑاحسین نے زیب تن کیا، ماں نے گلے لگا لیا باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پرسوارکرکے مہارکے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اورکہا،میرے نونہالو، رسالت کی باگ ڈورتمہارے ہاتھوں میں ہے جدھرچاہو موڑدو اورجہاں چاہولے چلو(روضة الشہداء ص ۱۸۹ بحارالانوار) ۔
بعض علماء کاکہناہے کہ سرورکائنات بچوں کوپشت پربٹھا کردونوں ہاتھوں اورپیروں سے چلنے لگے اوربچوں کی فرمائش پراونٹ کی آوازمنہ سے نکالنے لگے (کشف المحجوب)۔


امام حسین کا سردار جنت ہونا

پیغمبر اسلام کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ ”الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنة و ابوہما خیر منہما“ حسن اور حسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدر بزرگواران دنوں سے بہترہیں (ابن ماجہ)صحابی رسول جناب حذیفہ یمانی کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سرور کائنات صلعم کو بے انتہا مسرور دیکھ کرپوچھا حضور،افراط مسرت کی کیا وجہ ہے فرمایا اے حذیفہ آج ایک ایسا ملک نازل ہوا ہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہا ہے کہ”ان فاطمة سیدة نساء اہل الجنة وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة“ فاطمة جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۷، تاریخ الخلفاص ۱۲۳، اسدالغابہ ص ۱۲، اصابہ جلد ۲ ص ۱۲، ترمذی شریف، مطالب السول ص ۲۴۲، صواعق محرقہ ص ۱۱۴) ۔
اس حدیث سے سیادت علویہ کامسئلہ بھی حل ہوگیا قطع نظراس سے کہ حضرت علی میں مثل نبی سیادت کا ذاتی شرف موجود تھا اورخود سرورکائنات نے باربارآپ کی سیادت کی تصدیق سیدالعرب، سیدالمتقین، سیدالمومنین وغیرہ جیسے الفاظ سے فرمائی ہے حضرت علی کا سرداران جنت امام حسن اورامام حسین سے بہترہونا واضح کرتا ہے کہ آپ کی سیادت مسلم ہی نہیں بلکہ بہت بلند درجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک جملہ اولاد علی سید ہیں یہ اوربات ہے کہ بنی فاطمہ کے برابرنہیں ہیں۔


امام حسین عالم نمازمیں پشت رسول پر

خدا نے جوشرف امام حسن اورامام حسین کوعطا فرمایا ہے وہ اولاد رسول اورفرزندان علی میں آل محمد کے سواکسی کونصیب نہیں ان حضرات کا ذکرعبادت اوران کی محبت عبادت، یہ حضرات اگرپشت رسول پرعالم نمازمیں سوارہوجائیں، تونمازمیں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، اکثرایسا ہوتا تھا کہ یہ نونہالان رسالت پشت پرعالم نمازمیں سوار ہوجایا کرتے تھے اورجب کوئی منع کرنا چاہتا تھا توآپ اشارہ سے روک دیاکرتے تھے اورکبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ سجدہ میں اس وقت تک مشغول ذکررہا کرتے تھے جب تک بچے آپ کی پشت سے خود نہ اترآئیں آپ فرمایا کرتے تھے خدایا میں انہیں دوست رکھتا ہوں توبھی ان سے محبت کر؟ کبھی ارشاد ہوتا تھا اے دنیا والو! اگرمجھے دوست رکھتے ہوتومیرے بچوں سے بھی محبت کرو(اصابہ ص ۱۲ جلد ۲ ومستدرک امام حاکم ومطالب السؤل ص ۲۲۳) ۔


حدیث «حسین منی»

سرور کائنات نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے دنیا والو! بس مختصریہ سمجھ لوکہ ”حسین منی وانامن الحسین“حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں ۔ خدا اسے دوست رکھے جوحسین کو دوست رکھے (مطالب السؤل ص ۲۴۲، صواعق محرقہ ص ۱۱۴، نورالابصار ص ۱۱۳ ،صحیح ترمذی جلد ۶ ص ۳۰۷ ،مستدرک امام حاکم جلد ۳ ص ۱۷۷ و مسند احمد جلد ۴ ص ۹۷۲، اسدالغابہ جلد ۲ ص ۹۱ ،کنزالعمال جلد ۴ ص ۲۲۱)


مکتوبات باب جنت

سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ شب معراج جب میں سیرآسمانی کرتا ہوا جنت کے قریب پہنچا تودیکھا کہ باب جنت پرسونے کے حروف میں لکھا ہوا ہے۔
”لااله الاالله محمد حبیب الله علی ولی الله وفاطمة امةالله
والحسن والحسین صفوة الله ومن ابغضهم لعنه الله“

ترجمہ : خداکے سواکوئی معبودنہیں۔ محمدصلعم اللہ کے رسول ہیں علی، اللہ کے ولی ہیں ۔ فاطمہ اللہ کی کنیزہیں، حسن اورحسین اللہ کے برگزیدہ ہیں اوران سے بغض رکھنے والوں پراللہ کی لعنت ہے(ارجح المطالب باب ۳ ص ۳۱۳ طبع لاہور ۱۲۵۱ )


امام حسین اور صفات حسنہ کی مرکزیت

یہ تومعلوم ہی ہے کہ امام حسین حضرت محمد مصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم کے نواسے،حضرت علی و فاطمہ کے بیٹے اورامام حسن کے بھائی تھے اورانہیں حضرات کو پنتن پاک کہا جاتا ہے اور امام حسین پنجتن کے آخری فرد ہیں یہ ظاہرہے کہ آخرتک رہنے والے اور ہردورسے گزرنے والے کے لیے اکتساب صفات حسنہ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، امام حسین ۳/ شعبان ۴ ہجری کو پیدا ہو کرسرور کائنات کی پرورش و پرداخت اور آغوش مادرمیں میں رہے اورکسب صفات کرتے رہے، ۲۸/ صفر ۱۱ ہجری کوجب آنحضرت شہادت پا گئے اور ۳/ جمادی الثانیہ کوماں کی برکتوں سے محروم ہوگئے توحضرت علی نے تعلیمات الہیہ اورصفات حسنہ سے بہرہ ورکیا، ۲۱/ رمضان ۴۰ ہجری کوآپ کی شہادت کے بعد امام حسن کے سرپرذمہ داری عائد ہوئی ،امام حسن ہرقسم کی استمداد و استعانت خاندانی اورفیضان باری میں برابرکے شریک رہے، ۲۸/ صفر ۵۰ ہجری کوجب امام حسن شہید ہوگئے توامام حسین صفات حسنہ کے واحد مرکز بن گئے، یہی وجہ ہے کہ آپ میں جملہ صفات حسنہ موجود تھے اورآپ کے طرزحیات میں محمد وعلی و فاطمہ اورحسن کا کردارنمایاں تھا اورآپ نے جوکچھ کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا، کتب مقاتل میں ہے کہ کربلامیں حب امام حسین رخصت آخری کے لیے خیمہ میں تشریف لائے توجناب زینب نے فرمایا تھا کہ ائے خامس آل عباآج تمہاری جدائی کے تصورسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد مصطفی، علی مرتضی، فاطمةالزہراء، حسن مجتبی ہم سے جدا ہو رہے ہیں۔


عمرکا اعتراف شرف آل محمد

عہدعمری میں اگرچہ پیغمبر اسلام کی آنکھیں بندہوچکی تھی اورلوگ محمد مصطفی کی خدمت اورتعلیمات کوپس پشت ڈال چکے تھے لیکن پھربھی کبھی کبھی ”حق برزبان جاری“ کے مطابق عوام سچی باتیں سن ہی لیا کرتے تھے ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ عمرمنبررسول پرخطبہ فرما رہے تھے ناگاہ حضرت امام حسین کاادھرسے گزر ہوا آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور عمرکی طرف مخاطب ہوکربولے ”انزل عن منبر ابی“ میرے باپ کے منبرسے اتر آئیے اورجائیے اپنے باپ کے منبر پربیٹھے آپ نے کہا کہ میرے باپ کا توکوئی منبرنہیں ہے اس کے بعدمنبرسے اترکرامام حسین کواپنے ہمراہ گھرلے گئے اوروہاں پہنچ کرپوچھا کہ صاحب زادے تمہیں یہ بات کس نے سکھائی ہے توانہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے سے کہا ہے، مجھے کسی نے سکھایا نہیں اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میرے ماں باپ تم پرفد اہوں، کبھی کبھی آیا کروآپ نے فرمایا بہترہے ایک دن آپ تشریف لے گئے تو عمرکومعاویہ سے تنہائی میں محوگفتگو پا کر واپس چلے گئے

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک