تکبّر

افق زندگی میں فروغ محبت


بشری حیات کا افق ھمیشہ فروغ محبت سے روشن و تابناک رھا ھے ۔ محبت کے نتائج بڑے دور رس ھوتے ھیں ۔ انسان کی مادی و معنوی ترقی میں محبت بڑے عجیب انداز سے اثر انداز ھوتی ھے ۔ یہ عظیم طاقت فطرت کی رہ گذر سے ھوتے ھوئے انسانی ضمیر میں خمیر ھو کر ایک گھرے اور بیکراں سمندر میں جا کر ختم ھو جاتی ھے ۔
اگر محبت کا حیات بخش فروغ افق زندگی سے محروم ھو جائے تو وحشتناک تنھائی و نا امیدی کی تاریکی آدمی کی روح کا محاصرہ کر لیتی ھے اور چھرھٴ حیات رنج و غم کا وہ مرقع پیش کرنے لگتا ھے جس کے دیکھنے سے آدمی زندگی سے بیزار ھو جائے ۔
انسان فطرتاً مدنی الطبع پیدا ھوا ھے ۔ دوسروں سے ربط و ضبط ،میل ملاپ اس کے وجود کے ضروریات میں سے ھے ۔ فکری اختلافات عموماً انسان کو بزم سے بیزار بنا کر تنھائی کا خو گر بنا دیتے ھیں ۔جو لوگ عمومی اجتماعات سے فرار کرتے ھیں اور تنھائی کے خوگر ھو چکے ھیں ان کے وجو د وفکر میں یقینا نقص پیداھوجاتا ھے ۔کیونکہ یہ بات طے شدہ ھے کہ انسان کبھی بھی تنھائی میں خو ش بختی کااحساس نھیں کر سکتا ۔ بس یوں سمجھئے جس طرح انسان کی جسمانی ضروریات بھت زیادہ ھیں اور انسان ان کی تکمیل کے لئے مسلسل تگ ودو میں لگا رھتا ھے ۔ اسی طرح اس کی روح تشنھٴ محبت ھے اور اس کی بیشمار خواھشات ھیں جن کی تکمیل کے لئے مسلسل سعی و کوشش کرتا رھتا ھے ۔ انسان نے جس دن سے دنیا کے اندر قدم رکھا ھے اور اس نے اپنی کتاب زندگی کے اوراق کھولے ھیں اس وقت سے لیکر ان آخری لمحات تک جب اس کی کتاب زندگی ختم ھونے والی ھوتی ھے وہ محبت و خلوص مھربانی و نوازش کا بھوکا رھتا ھے اور اپنے دل میں اس کا احساس بھی کرتا ھے اسی لئے جب زندگی کے بوجہ کو اپنے کندھوں پر زیادہ محسوس کرنے لگتا ھے اور روح فرسا حادثات اس کو جھنجھوڑ کر رکہ دیتے ھیں ۔ مصائب و متاعب ، ناکامی و نا امیدی رشتہ ٴ امید کو قطع کرنے لگتی ھے تو وہ اس وقت بڑی شدت کے ساتھ ضرورت سے زیادہ مھر و محبت کا پیاسا نظر آتا ھے اور اس کا دل چاھتا ھے کہ اس کے دل پر امید کا نور سایہ فگن ھو جائے اور اس وقت اس کے سکون و آرام کی کوئی صورت مھر و محبت کے علاوہ نظر نھیں آتی ایسی حالت میں اس کے زخم و غم کا مرھم صرف نوازش و محبت ھی ھوا کرتی ھے ۔
اپنے ھم نوع افراد سے الفت و محبت انسانی جذبات کا درخشاں ترین جذبہ ھے بلکہ اس کو فضائل اخلاقی کا منبع سمجھنا چاھئے ۔ دل بستگی اورارتباط قابل انتقال چیز ھے ۔ دوسروں کی محبت حاصل کرنے کے لئے سب سے بھترین ذریعہ یہ ھے کہ انسان دوسروں سے محبت کرے اپنے پاک جذبات کو دوسروں پر بے دریغ نچھاور کرے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اپنے ھم نوع افراد سے محبت کرنے کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا فریضہ ھی نھیں ھے ۔ دوسروں سے اظھار محبت بڑا نفع بخش سودا ھے اگر کوئی اپنے خزانھٴ دل کے اس گوھر کو دوسرے کو دیدے تو اس کے بدلے میں اس کو بڑے قیمتی جواھرات ملیں گے ۔ لوگوں کے دلوں کی کنجی خود انسان کے ھاتہ میں ھے اگر کوئی محبت کے گرانبھا خزانوں کو حاصل کرنا چاھتا ھے تو اپنے پاس خلوص و محبت سے بھرا دل رکھے اور لوح دل کو تمام نا پسندیدہ صفات سے منزہ کرلے ۔
اھل فلسفہ کھتے ھیں : ھر چیز کا کمال اس کی خاصیت کے ظھور میں ھے اور انسان کی خاصیت انس و محبت ھے ، یہ انس و محبت کا جذبہ اور روحانی تعلق جو لوگوں کے دلوں میں پیدا ھوتا ھے وہ ھمکاری و ھمزیستی کی بنیاد کو لوگوں میں مضبوط کرتا ھے ۔
ڈاکٹر کارل اپنی کتاب ” راہ و رسم زندگی “ میں تحریر کرتا ھے : معاشرے کو خوشبخت بنانے کے لئے ضروری ھے کہ اس کے افراد ایک مکان کی اینٹوں کی طرح باھم متصل و متحد ھوں لیکن سوال یہ ھے کہ لوگوں کو کس سیمنٹ کے ذریعہ انیٹوں کی طرح متصل کیا جائے ؟ تو اس کا جواب یہ ھے کہ وہ سیمنٹ محبت ھے ۔ جو کبھی کسی ایک خاندان کے اندر دکھائی دیتی ھے لیکن اس خاندان کے باھر اس کا وجود نھیں ھوتا ۔ اپنے ھم نوع افراد سے محبت کرنے کے دو پھلو ھوتے ھیں ایک پھلو تویہ ھوتا ھے کہ اپنے کو اس لائق بنائے جس کی وجہ سے دوسرے اس سے محبت کریں جب تک معاشرے کا ھر فرد اپنی نا پسند عادتوں کو ترک کرنے کی کوشش نہ کرے گا معاشرہ خوشبخت نھیں ھو سکے گا ۔ اس کے لئے ضروری ھے کہ ھم اپنے کو بدلیں اور اپنے ان عیوب سے نجات حاصل کریں جن کی وجہ سے لوگ ھم سے کتراتے ھیں ۔ اس وقت ممکن ھے کہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کو محبت کی نظر سے دیکھے، ملازم آقا سے ، آقا ملازم سے محبت کرے ۔ انسانی معاشرے کے اندر صرف عشق و محبت کے سھارے وہ نظم پیدا کیا جا سکتا ھے ۔ جو فطرت نے ھزاروں سال سے چونٹیوں اور شھد کی مکھی میں پیدا کیا ھے کہ دونوں مٹھاس پر جمع ھوتی ھیں ۔
جز محبت نپذیریم کہ برلوح وجود نیست پایندہ تر از نقش محبت رقمی
ھم اس بات کو نھیں تسلیم کر سکتے کہ لوح وجود پر نقش محبت کے علاوہ کوئی اور چیز پایندہ تر ھو سکتی ھے ۔

تکبر باعث نفرت ھے


”حب ذات “کاغریزہ انسانی فطرت میں ان بنیادی غرائز میں سے ھے جو بقائے حیات کے لئے ضروری ھے ، انسان کی اپنی حیات سے دلچسپی اور اس کی بقاء کے لئے کوشش کا سر چشمہ یھی ” حب ذات“ ھے ، اگر چہ یہ فطرت کا عطا کردہ ذخیرہ ایک بھت ھی نفع بخش طاقت ھے اور بھت سے پسندیدہ صفات کو اسی غریزہ کے ذریعہ انسان میں پیدا کیا جا سکتا ھے ۔ لیکن اگر یہ غیر معقول صورت میں اور بطور افراط نمایاں ھو جائے تو مختلف برائیوں اور اخلاقی انحرافات کا سبب بھی بن جاتا ھے ۔
فضائل اخلاقی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ”حب ذات “ میں افراط ھے ۔ کیونکہ حب ذات میں افراط کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ پھر اس کے دل میں دوسرے افراد سے محبت کرنے کی جگہ ھی باقی نھیں رھتی اور یھی حب ذات میںافراط انسان کو اپنی غلطیوں کے اعتراف سے روکتا ھے اور ان حقائق کے قبول کرنے پر تیار نھیں ھونے دیتا ، جن سے اس کے تکبر کا شیشہ چور ھو جاتا ھو ۔
پروفیسر روبنیسون کھتا ھے : ھم کو بارھا یہ اتفاق ھوتا ھے کہ خود بخود بغیر کسی زحمت و پریشانی کے اپنا نظریہ بدل دیتے ھیں ۔لیکن اگر کوئی دوسرا ھمارے نظریہ کی غلطی یا اشتباہ پر ھم کو مطلع کرے تو پھر دفعةً ھم میں ایک انقلاب پیدا ھو جاتا ھے اور ھم اس غلطی کو تسلیم نھیں کرتے بلکہ اس کا دفاع کرنے لگتے ھیں ھم کسی بھی نظریہ کو خود بڑی آسانی سے قبول کر لیتے ھیں ۔ لیکن اگر کوئی دوسرا ھم سے ھمارا نظریہ چھیننا چاھے تو ھم دیوانہ وار اس کا دفاع کرنے لگتے ھیں ۔ ظاھر سی بات ھے ھمارے عقیدہ و نظریہ میں کوئی مخصوص رابطہ نھیں ھے صرف اسکی وجہ یہ ھے کہ ھماری خود خواھی و تکبر کی حس مجروح ھوتی ھے ۔ اس لئے ھم تسلیم نھیں کرتے اور اسی لئے اگر کوئی ھم سے کھے کہ تمھاری گھڑی پیچھے ھے یا تمھاری گاڑی بھت پرانے زمانہ کی ھے تو ممکن ھے کہ ھم کو اتنا ھی غصہ آ جائے جتنا یہ کھنے پر آتا ھے کہ تم مریخ کے بارے میں جاھل ھو یا فراعنہ مصر کے بارے میں تمھاری معلومات صفر کے برابر ھے ۔ ( آخر یہ غصہ کیوں آتا ھے صرف اس لئے کہ ھمارے تکبر اور ھماری انانیت کو ٹھیس نہ لگ جائے )
انسانی نیک بختی اور بشری سعادت کی سب سے بڑی دشمن ”خود پسندی “ ھے لوگوں کی نظروں میں تکبر و خود پسندی جتنی مذموم صفت ھے کوئی بھی اخلاقی برائی اتنی نا پسند نھیں ھے ۔ خود پسندی الفت و محبت کے رشتہ کو ختم کر دیتی ھے ۔ یگانگت و اتحاد کو دشمنی سے بدل دیتی ھے اور انسان کے لئے عمومی نفرت کا دروازہ کھول دیتی ھے انسان کو چاھئے کہ وہ جتنا دوسروں سے اپنے لئے احترام و محبت کا خواھشمند ھو ، اتنا ھی دوسروں کی حیثیت و عزت و وقار کا لحاظ کرے اور ان تمام باتوں سے پرھیز کرے جن سے حسن معاشرت کی خلاف ورزی ھوتی ھو یا رشتھٴ محبت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ھو ۔ لوگوں کے جذبات کا احترام نہ کرنے سے اس کے خلاف عمومی نفرت کا جذبہ پیدا ھو جاتا ھے اور خود وہ شخص مورد اھانت بن جاتا ھے ۔
معاشرے میں ھر شخص کے حدود معین ھونا چاھئیں۔ ایک شخص اپنی شائستگی اور لیاقت کے اعتبار سے لوگوں کی مخلصانہ محبت و احترام کو حاصل کرتا ھے لیکن جو شخص چھار دیواری میں محصور ھوتا ھے اور تکبر اس کے مکان وجود کو مسخر کر لیتا ھے وہ صرف اپنی خواھشات کو پیش نظر رکھتا ھے اور دوسروں کے حقوق کا بالکل لحاظ نھیں کرتا ۔ اور وہ اپنی سی کوشش کرتا ھے کہ معاشرے میں جس طرح بھی ھو مشھور و محترم ھو جائے اور اپنی موھوم برتری کو معاشرے پر بھی لادنا چاھتا ھے اور یھی بے موقع اصرار و توقع لوگوں کو اس سے متنفر بنا دیتا ھے اور پورا معاشرہ اس سے شدید نفرت کرنے لگتا ھے اور اس کو تکلیف پھونچانے پر اتر آتا ھے اور یہ شخص ( متکبر ) مجبورا ً قلبی اضطراب و روحی تکلیف کے ساتھ خلاف توقع ان مصائب و تکالیف کو برداشت کرتا ھے ۔
تکبر کا لازمہ بد بینی ھے ، متکبر کی آتش بد گمانی کا شعلہ ھمیشہ بھڑکتا رھتا ھے اور وہ سب ھی کو اپنا بد خواہ اورخود غرض سمجھتا ھے اس کے ساتھ مسلسل ھونے والی بے اعتنا ئیوں اور اس کے غرور کو چکنا چور کر دینے والے واقعات کی یادیں اس کے دل سے کبھی محو نھیں ھوتیں اور بے اختیار و نا دانستہ اس کے افکار اس طرح متاثر ھو جاتے ھیں کہ جب بھی اس کو موقع ملتا ھے وہ پورے معاشرے سے کینہ توزی کے ساتھ انتقام پر اتر آتا ھے اور جب تک اس کے قلب کو آرام نہ مل جائے اس کو سکون نھیں ملتا ۔
جب خود پرستی و تکبر کا اھرمن انسان کی فطرت میں اثر انداز ھو جاتا ھے اور انسان اپنی اس روحانی بیماری کی وجہ سے ” احساس حقارت “ میں مبتلا ھو جاتا ھے ، تو پھر یھی بیماری رفتہ رفتھ” عقدہ حقارت “ میں تبدیل ھو جاتی ھے ۔پھر یھی چیز بھت سے خطرات کا مرکز اور مختلف جرائم کا منبع بن جاتی ھے اور متکبر کو روز افزوں شقاوت و بد بختی کی طرف کھینچتی رھتی ھے ۔ اگر آپ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ھو جائے گی اور آپ کو یہ بھی معلوم ھو جائے گا کہ جو لوگ انبیائے الٰھی کی مخالفت کرتے رھتے تھے اور حق و حقیقت کے قبول کرنے سے اعراض کرتے رھے تھے وہ ھمیشہ دنیا کی خونیں جنگوں میں اس بات پر راضی رھتے تھے کہ ھستی بشر سر حد مرگ تک پھونچ جائے اور یہ جذبہ ھمیشہ حاکمانِ وقت کے غرور و خود پرستی ھی کی بنا پر پیدا ھوتا تھا ۔
آپ نے دیکھا ھو گا کہ پست اقوام و پست خاندان میں پرورش پانے والے افراد جب معاشرہ میں کسی اچھی پوسٹ پر پھونچ جاتے ھیں تو وہ متکبر ھو جاتے ھیں ۔ اور اس طرح وہ اپنی اس حقارت و ذلت کا جبران کرنا چاھتے ھیں جو پستیٴ خاندا ن کی وجہ سے ان کے دامن گیر تھی ، ایسے لوگ اپنی شخصیت کو دوسروں کی شخصیت سے ماوراء سمجھتے ھیں ۔ اور ان کی ساری کوشش یھی ھوتی ھے کہ اپنی شرافت کا ڈھنڈھورا پیٹیں ۔ محترم پڑھنے والے اپنے ارد گرد اس قسم کے لوگوں کو دیکہ سکتے ھیں ، جو شخص واقعی بر جستہ پر ارزش ھوتا ھے وہ اپنے اندر کبھی بھی اس قسم کا احساس نھیں کرتا اور نہ اس بات کی کوشش کرتا ھے کہ اپنی بزرگی کی نمائش کرے ، کیونکہ وہ جانتا ھے کہ خود نمائی سر مایہ ٴ برتری نھیں ھے ، اور غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ھے اور نہ کسی کو عظمت و سر بلندی کی چوٹی پر پھونچا یاھے ۔
ایک دانشمند کھتا ھے : امیدوں کے دامن کو کوتاہ کرو اور سطح توقعات کو نیچے لے آؤ ۔اپنے کو خواھشات کے جال سے آزاد کراؤ ۔ غرور و خود بینی سے دوری اختیار کرو قید و بند کی زنجیروں کو توڑ دو ۔ تاکہ روحانی سلامتی سے ھم آغوش ھو سکو ۔

بزرگان دین درس تواضع دیتے ھیں


فضائل اخلاقی میں سے ایک چیز جو رمز محبوبیت ھے اور جلب محبت و دوستی کا بھترین ذریعہ ھے وہ ” تواضع و فروتنی “ ھے ، متواضع شخص اپنے اس اخلاقی فریضہ کے سبب معقول حد تک ترقی کر لیتا ھے ۔
یہ بات ضرور ذھن میں رکھئے کہ ” تواضع “ اور ” چاپلوسی “ میں زمین آسمان کا فرق ھے، انمیں سے ھر ایک کا حساب الگ ھے ۔ کیونکہ تواضع فضیلت اخلاقی کی حکایت کرتی ھے اور شرافت نفس ، عظمت ، شخصیت ، باطنی سکون کا پتہ دیتی ھے لیکن چاپلوسی پستی اخلاق اور عدم شخصیت کا پتہ دیتی ھے ۔
حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو سود مند نصائح کرتے ھوئے فرمایا تھا : نخوت و تکبر سے پرھیز کرنا ۔ قرآن مجید کھتا ھے :” و لا تصعر خدّک للناس و لا تمش فی الارض مرحا انّ الله لا یحب کل مختال فخور “ ( ۱)
اور لوگوں کے سامنے ( غرور سے ) اپنا منہ نہ پھلانا ، اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کیونکہ خدا کسی اکڑ نے والے اور اترانے والے کو دوست نھیں رکھتا ۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں : اگر خدا کسی بندے کو تکبر کی اجازت دیتا تو ( سب سے پھلے ) اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء کو اجازت دیتا ۔ لیکن خدا نے اپنے انبیاء و اولیاء کےلئے بھی تکبر پسند نھیں فرمایا ، بلکہ تواضع و فروتنی کو پسند فرمایا ( اسی لئے ) انبیاء و اولیاء نے ( خدا کے سامنے ) اپنے رخساروں کو زمین پر رکہ دیا اور اپنے چھروں کو زمین پرملا اور ایمانداروں کے سامنے تواضع و فروتنی برتا ۔
تکبر کرنے والے قطع نظر اس بات کے کہ پورا معاشرہ ان کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ھے ان کے لئے سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تکبر سے بچو کیونکہ جب کسی بندے کی عادت تکبر ھو جاتی ھے تو خدا حکم دیتا ھے : میرے اس بندے کا نام جباروں میں لکہ لو ۔(۲)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : جو شخص تکبر کی بیماری میں مبتلا ھو جاتا ھے وہ اپنے باطن میں ذلت و پستی کے احساس کی وجہ سے اس میں مبتلا ھو تا ھے ۔ (۳)
امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں : تکبر و خود پسندی کے مراتب میں : ان مراتب میں ایک مرتبہ یہ ھے کہ خود پسند افراد کی نظروں میں ان کے برے اعمال بھی اچھے معلوم ھوتے ھیں ، لھذا ان برے اعمال سے یہ لوگ محبوب رکھتے ھیں اور خیال کرتے ھیں کہ انھوں نے بڑے اچھے کام کئے ھیں ۔ (۴)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں : خبر دار اپنے نفس سے راضی نہ ھونا ورنہ تمھارے دشمن بھت ھو جائیں گے ۔(۵)
مگ برایڈ کھتا ھے : ایک فرد یا ایک ملت کی برتری طلبی کا مطلب دوسرے اشخاص یا اقوام کو ذلیل کرنا اور پست شمار کرنا ھے ، آج کل کی نفرت، دشمنی اورکشمکش بھی زیادہ تر عقدھٴ حقارت کی پیداوار ھے اس قسم کے طرز تفکر کا مطلب در حقیقت ایک قسم کے جھوٹے احساس حقارت کا جبران ھے ۔ ورنہ کوئی بھی با شرف و پاکیزہ نھاد انسان اپنے اور دوسروں کے درمیان اور اپنے و دیگر اقوام کے درمیان کسی امتیاز و اختلاف کا تصور بھی نھیں کر سکتا !
متکبر و خود خواہ لوگ اپنے تمام اعمال و کردار کو اچھا سمجھتے ھیں اور اپنے نواقص کو فضائل شمار کرتے ھیں جیسا کہ چند سطروں پھلے امام موسی کاظم علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ۔
ایک ماھر نفسیات کھتا ھے : متکبر اپنے نقائص کو فضائل اور اپنے عیوب کو محاسن سمجھتا ھے اگر اس کو اپنے ما تحتوں پر جلدی غصہ آجائے تو اس کو اپنی شخصیت کے قوی ھونے کی دلیل سمجھتا ھے ۔ متکبر اپنی لاغری و ضعف کو اپنی روح کی بلندی خیال کرتا ھے اور دوسروں کے موٹا پے کو مضحکہ خیز سمجھتا ھے اور اپنے موٹا پے کو صحت مندی، سلامتی عقل اور سلامتی جسم خیال کرتا ھے اور کمزوروں کو احمق سمجھتا ھے اوران کو اعتماد و بھروسہ کے قابل نھیں سمجھتا وغیرہ وغیرہ ۔ آج کل کے دانشمند تکبر کو ایک قسم کی بے عقلی اور دیوانگی خیال کرتے ھیں ۔ لیجئے حضرت علی علیہ السلام کے اقوال سنیئے :
۱۔ غرور و خود پسندی عقل و خرد کو بر باد کرنے والی ھے ۔(۶)
۲۔ جس کی قوت فکر ضعیف ھوتی ھے اس کا غرور زیادہ ھوتا ھے ۔(۷)
۳۔ تواضع و فروتنی عقلمندی کی اساس ھے اور تکبر و خود پسندی بے عقلی کی بنیاد ھے ۔(۸)
۴۔ خود پسندی و تکبر ایک اندرونی بیماری ھے ۔(۹)
متبکر و خود پسند کبھی اپنی اصلاح پر موفق نھیں ھوا کرتا ۔ اور نہ اپنی شخصیت کو بلند کر سکتا ھے ۔
۵۔ جو اپنی اچھی حالت پر ناز کرتا ھے اور اپنی رفتار کو دوسروں کی رفتار سے بلند خیال کرتا ھے وہ اپنی اصلاح سے عاجز رھتا ھے ۔ (۱۰)
ڈاکٹر ھیلن شاختر کھتا ھے : اپنی ناکامی کی حالت میں دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک ذریعہ ڈینگ مارنا اور اپنی تعریف کرنا ھے ۔ اور جن کاموں کے واقع ھونے کی امید ھو اور وہ نہ ھو سکیں اور جن توفیقات کی تمنا ھو اور وہ پوری نہ ھو سکیں ان کو واقع شدہ شمار کرنا اور اپنی طرف ان کی نسبت دینا اور جن کاموں کو انجام نہ دے سکا ھو ان کے بدلے میں انکے بارے میں بھت گفتگو کرنا اور اپنے انجام دیئے ھوئے کاموں کو بھت بڑا بنا کر پیش کرنا بھی لوگوں کی توجہ کو مبذول کر لیتا ھے ۔ اس قسم کے لوگ ایسی ڈینگیں مارکے اور ایسے ایسے جھوٹ بولنے میں اپنے کو مشغول رکہ کر اپنا وقت بر باد کر دیتے ھیں ۔
جو شخص خود پسندی کا شکار ھوتا ھے وہ اپنے نقائص کا ادراک نھیں کر پاتا اور نہ دوسروں کے خصائل و برتری کا احساس کر پاتا ھے ۔حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں : اپنے تکبر کو پسند کرنے والا ھمیشہ اپنے عیوب سے بے خبر ھوتا ھے اور اگر اس کو دوسروں کی فضیلت و برتری کا احساس ھو جاتا تو اپنے نقائص کا جبران کر لیتا ۔ (۱۱)
اسلام جو ایک بھترین شھریت کا راہ نما اور حیات بخش معاشرہ کا داعی ھے وہ ھر قسم کے ان امتیازات کو نابود کرنا چاھتا ھے جو خلاف انصاف ھوں اور صرف تقوی و پاکیزگی کے امتیاز کو باقی رکھنا چاھتا ھے حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے : تونگری و مالداری سے خدا کی پناہ مانگو ۔ کیونکہ دولت و ثروت میں مست آدمی کبھی ھوش میں نھیں آتا اور نہ اعتدال کی حالت ا س میں پیدا ھوتی ھے ۔ (۱۲)
حضرت سرورکائنات (ص)کی خدمت میں ایک دن ایک مالدار شخص آگیا اس کے بعد ایک غریب و مفلس آدمی بھی شرف یاب ھوا ۔ اور آکر اس مالدار کے پاس بیٹہ گیا ۔ مالدار شخص نے فورا اپنا لباس سمیٹ لیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس صورت حال کو ملاحظہ فرمارھے تھے آپ نے ایک مرتبہ اس مالدار شخص کو مخاطب کرتے ھوئے فرمایا :
رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم :! کیا تم کو یہ ڈرتھا کہ اس فقیر کی فقیری کھیں تم کو نہ لگ جائے اس لئے تم نے اپنا دامن سمیٹ لیا ؟
مالدار : جی نھیں !
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : کیا تم کو یہ خطرہ تھا کہ کھیں تمھاری دولت و ثروت کا کچھ حصہ اس غریب کو نہ مل جائے اس لئے تم نے دامن سمیٹ لیا ؟
مالدار : نھیں سرکار یہ بات بھی نھیں ھے !
رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : کیا تم کو یہ خوف لاحق ھو گیا تھا کہ کھیں اس کا لباس تمھارے لباس کو آلودہ نہ کر دے اس لئے تم نے اپنے کپڑے سمیٹ لئے ؟
مالدار : نھیں حضور یہ بات بھی نھیں ھے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پھر تم نے اپنا دامن کیوں سمیٹا ؟
مالدار : یا رسول اللہ میری مالداری نے حقائق کا ادراک کرنے اور واقع بینی کو مجھ سے سلب کر لیا ھے اور میری برائیوں اور کمیوں کو میری نظر میں مستحسن بنا دیا ھے اس لئے میں نے ایسا کیا ۔ اے خدا کے رسول میں اپنے اس نازیبا سلوک کے جرم میں اس شخص کو اپنی آدھی دولت دینے کے لئے تیار ھوں !
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس فقیر کی طرف متوجہ ھوتے ھوئے فرمایا : کیا تم اس بخشش کو قبول کرنے پر تیار ھو ؟
مرد فقیر نے کھا : نھیں مجھے قبول نھیں ھے ۔
مالدارنے پوچھا : آخر کیوں قبول نھیں ھے ؟
مرد فقیر : مجھے ڈر ھے کہ دولت پا کر کھیں میرے اندر بھی یہ قبیح صفت نہ پیدا ھو جائے ۔
لھذا اگر متکبر خود پسند واقعی اپنی سعادت و خوش بختی کا خواھاں ھے تو اس کو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاھئے اور اس نفرت انگیز صفت سے اپنی شخصیت کو الگ کرنا چاھئے کیونکہ اگر اس نے اس کی سر کوبی کی کوشش نہ کی تو ھمیشہ نا کامی کا شکار رھے گا ۔

حوالہ


۱۔سورہ لقمان آیت ۱۸
۲۔نھج الفصاحة ص ۱۲
۳۔کافی ج۳ ص ۴۶۱
۴۔وسائل الشیعہ ج۱ ص ۷۴
۵۔غرر الحکم ص ۱۴۷
۶۔غرر الحکم ص ۲۶
۷۔غر ر الحکم ص۶۵۱
۸۔غر ر الحکم ص ۱۰۲
۹۔غرر الحکم ص ۴۷۸
۱۰۔ غرر الحکم ص ۶۷۸
۱۱۔ غرر الحکم ص ۹۵
۱۲۔ غرر الحکم ص ۱۳۸