شیطان کا وسوسہ

اس مقام پر آدم نے اس فرمان الہی کو دیکھا جس میں آپ کو ایک درخت کے بارے میں منع کیا گیا تھا ادھر شیطان نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ آدم اور اولاد آدم کو گمراہ کرنے سے باز نہ آئے گا وہ وسوسے پیدا کرنے میں مشغول ہوگیا جیسا کہ باقی آیات قرآنی سے ظاہر ہوتا ہے اس نے آدم کو اطمینا ن دلایا کہ اگراس درخت سے کچھ لیں تو وہ اوران کی بیوی فرشتے بن جائیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے یہاں تک کہ اس نے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں _"" (1)
اس طرح اس نے فرمان خدا کو ان کی نظر میں ایک دوسرے رنگ میں پیش کیا اور انہیں یہ تصور دلانے کی کوشش کی کہ اس "" شجرہ ممنوعہ"" سے کھالینا نہ صرف یہ کہ ضرر رساں نہیں بلکہ عمر جاوداں یا ملائکہ کا مقام ومرتبہ پالینے کا موجب ہے_ اس بات کی تائید اس جملے سے بھی ہوتی ہے شیطان کی زبانی وارد ہوا ہے: اے آدم: ""کیا تم چاہتے ہوکہ میں تمہیں زندگانی جاودانی اور ایسی سلطنت کی رہنمائی کروں جو کہنہ نہ ہوگی؟ ""(2)ایک روایت جو "" تفسیر قمی"" میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے اور""عیون اخبار الرضا"" میں امام علی بن موسی رضا علیہ السلام سے مروی ہے;میں وارد ہوا ہے :
""شیطان نے آدم سے کہا کہ اگر تم نے اس شجرہ ممنوعہ سے کھالیا تو تم دونوں فرشتے بن جائوگے ،اور پھر ہمیشہ کے لئے بہشت میں رہوگے، ورنہ تمہیں بہشت سے باہر نکال دیا جائے گا ""_
آدم نے جب یہ سنا تو فکر میں ڈوب گئے لیکن شیطان نے اپنا حربہ مزید کار گر کرنے کے لئے سخت قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیرخواہ ہوں_(3)

حضرت آدم علیہ السلام کو آب حیات کی تمنا آدم، جنہیں زندگی کا ابھی کافی تجربہ نہ تھا، نہ ہی وہ ابھی تک شیطان کے دھوکے، جھوٹ اور نیرنگ میں گرفتار ہوئے تھے ،انہیں یہ یقین نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی اتنی بڑی جھوٹی قسم بھی کھا سکتا ہے اور اس طرح کے جال، دوسرے کو گرفتار کرنے کےلئے پھیلا سکتا ہے، آخرکار وہ شیطان کے فریب میں آگئے اور آب حیات وسلطنت جاودانی حاصل کرنے کے شوق میں مکر ابلیسی کی بوسیدہ رسی کو پکڑکے اس کے وسوسہ کے کنویں میں اتر گئے رسی ٹوٹ گئی اور انہیں نہ صرف آب حیات ہاتھ نہ آیا بلکہ خدا کی نافرمانی کے گرداب میں گرفتار ہوگئے ان تمام مطالب کو قرآن کریم نے اپنے ایک جملے میں خلاصہ کردیا ہے ارشاد ہوتا ہے:""اس طرح سے شیطان نے انہیں دھوکا دیا اور اس نے اپنی رسی سے انہیں کنویں میں اتار دیا ""_(4)
ادم کو چاہئے تھا کہ شیطان کے سابقہ دشمنی اور خدا کی وسیع حکمت ورحمت کے علم کی بناپر اس کے جال کو پارہ پارہ کردیتے اور اس کے کہنے میں نہ آتے لیکن جو کچھ نہ ہونا چاہئے تھا وہ ہوگیا _
""بس جیسے ہی آدم وحوانے اس ممنوعہ درخت سے چکھا، فوراً ہی ان کے کپڑے ان کے بدن سے نیچے گرگئے اور ان کے اندام ظاہرہوگئے""_(5)
مذکورہ بالا جملے سے یہ بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ درخت ممنوع سے چکھنے کے ساتھ ہی فوراً اس کابرا اثر ظاہر ہوگیا اور وہ اپنے بہشتی لباس سے جوفی الحقیقت خدا کی کرامت واحترام کا لباس تھا، محروم ہو کر برہنہ ہوگئے _
اس جملہ سے اچھی طرح ظاہر ہوتا ہے کہ آدم وحوایہ مخالفت کرنے سے پہلے برہنہ نہ تھے بلکہ کپڑے پہنے ہوئے تھے ، اگر چہ قرآن میں ان کپڑوں کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی لیکن جو کچھ بھی تھا وہ آدم وحوا کے وقار کے مطابق اور ان کے احترام کے لئے تھا ،جو ان کی نافرانی کے باعث ان سے واپس لے لیا گیا _
لیکن خود ساختہ توریت میں اس طرح سے ہے :
آدم وحوا اس موقع پربالکل برہنہ تھے لیکن اس برہنگی کی زشتی کو نہیں سمجھتے تھے، لیکن جس وقت انہوں نے اس درخت سے کھایا جو درحقیقت "" علم ودانش"" کا درخت تھا تو ان کی عقل کی آنکھیں کھل گئیں اور اب وہ اپنے کو برہنہ محسوس کرنے لگے اور اس حالت کی زشتی سے آگاہ ہوگئے_
جس "" آدم "" کا حال اس خود ساختہ توریت میں بیان کیا گیا ہے، وہ فی الحقیقت آدم واقعی نہ تھا بلکہ وہ تو کوئی ایسا نادان شخص تھا جو علم ودانش سے اس قدر دور تھا کہ اسے اپنے ننگا ہونے کا بھی احساس نہ تھا لیکن جس "" آدم ""کا تعارف قرآن کراتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اپنی حالت سے باخبر تا بلکہ اسرار آفرینش (علم اسما) سے بھی آگاہ تھا اور اس کا شمار معلم ملکوت میں ہوتا تھا، اگر شیطان اس پر اثرانداز بھی ہوا تویہ اس کی نادانی کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ اس نے ان کی پاکی اور صفائے نیت سے سوئے استفادہ کیا _
اس بات کی تائید کلام الہی کے اس قول سے بھی ہوتی ہے:
""اے اولاد آدم : کہیں شیطان تمہیں اس طرح فریب نہ دے جس طرح تمہارے والدین (آدم وحوا) کو دھوکا دے کر بہشت سے باہر نکال دیا اور ان کا لباس ان سے جدا کردیا ""_(6)
اگرچہ بعض مفسرین اسلام نے یہ لکھا ہے کہ آغاز میں حضرت آدم برہنہ تھے تو واقعاً یہ ایک واضح اشتباہ ہے جو توریت کی تحریرکی وجہ سے پیدا ہوا ہے_
بہرحال اس کے بعد قرآن کہتا ہے : "" جس وقت آدم وحوا نے یہ دیکھاتو فوراًبہشت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرم گاہ چھپانے لگے _
اس موقع پر خدا کی طرف سے یہ ندا آئی:"" کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا کیا میںنے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، تم نے کس لئے میرے حکم کو بھلادیا اور اس پست گرداب میں گھر گئے ؟(7)

شجرہ ممنوعہ قرآن کریم میں بلا تفصیل اور بغیر نام کے چھ مقام پر"" شجرہ ممنوعہ"" کا ذکر ہوا ہے لیکن کتب اسلامی میں اس کی تفسیر دوقسم کی ملتی ہے ایک تو اس کی تفسیر مادی ہے جوحسب روایات "" گندم "" ہے _
اس بات کی طرف توجہ رہنا چاہئے کہ عرب لفظ "" شجرہ ""کا اطلاق صرف درخت پر نہیں کرتے بلکہ مختلف نباتات کو بھی "" شجرہ "" کہتے ہیں چاہے وہ جھاڑی کی شکل میں ہوں یابیل کی صورت میں _
دوسری تفسیر معنوی ہے جس کی تعبیر روایات اہل بیت علیہم السلام میں "" شجرہ حسد"" سے کی گئی ہے ان روایات کا مفہوم یہ ہے کہ آدم نے جب اپنا بلند ودرجہ رفیع دیکھا تو یہ تصور کیا کہ ان کا مقام بہت بلند ہے ان سے بلند کوئی مخلوق اللہ نے نہیں پیدا کی اس پر اللہ نے انہیں بتلا یا کہ ان کی اولاد میں کچھ ایسے اولیاء الہی (پیغمبر اسلام اور ان کے اہل بیت علیہم السلام ) بھی ہیں جن کا درجہ ان سے بھی بلند وبالا ہے اس وقت آدم میں ایک حالت حسد سے مشابہ پیدا ہوئی اور یہی وہ "" شجرہ ممنوعہ"" تھا جس کے نزدیک جانے سے آدم کو روکا گیا تھا_
حقیقت امر یہ ہے کہ آدم نے (ان روایات کی بناپر)دو درختوں سے تناول کیا ایک درخت تو وہ تھا جو ان کے مقام سے نیچے تھا، اور انہیں مادی دنیا میں لے جاتا تھا اور وہ "" گندم"" کا پودا تھا دوسرا درخت معنوی تھا ،جو مخصوص اولیائے الہی کا درجہ تھا اور یہ آدم کے مقام ومرتبہ سے بالاتر تھا آدم نے دونوں پہلوئوں سے اپنی حد سے تجاوز کیا اس لئے انجام میں گرفتار ہوئے_
لیکن اس بات کی طرف توجہ رہے کہ یہ ""حسد"" حسد حرام کی قسم سے نہ تھا یہ صرف ایک نفسانی احساس تھا جبکہ انہوں نے اس طرف قطعاً کوئی اقدام نہیں کیا تھا جیسا کہ ہم نے بارہاکہا ہے کہ آیات قرانی چونکہ متعدد معانی رکھتی ہیں لہذا اس امر میں کوئی مانع نہیں کہ "" شجرہ "" سے دونوں معنی مراد لے لئے جائیں_
اتفاقاًکلمہ "" شجرہ "" قرآن میں دونوں معنی میں آیاہے ، کبھی تو انہی عام درختوں (8)کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور کبھی شجرہ معنوی کے معنی میں استعمال ہوا ہے_(9)
لیکن یہاں پر ایک نکتہ ہے جس کی طرف توجہ دلانا مناسب ہے اور وہ یہ ہے کہ موجودہ خود ساختہ توریت میں ، جو اس وقت کے تمام یہود ونصاری کی قبول شدہ ہے اس شجرہ ممنوعہ کی تفسیر "" شجرہ علم ودانش اور شجرہ حیات وزندگی "" کی گئی ہے توریت کہتی ہے:
""قبل اس کے آدم شجرہ علم ودانش سے تناول کریں،وہ علم ودانش سے بے بہرہ تھے حتی کہ انہیں اپنی برہنگی کا بھی احساس نہ تھا جب انہوں نے اس درخت سے کھایا اس وقت وہ واقعی آدم بنے اور بہشت سے نکال دیئے گئے کہ مبادا درخت حیات وزندگی سے بھی کھالیں اور خدائوں کی طرح حیات جاویدانی حاصل کرلیں_""(10)
یہ عبارت اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ موجودہ توریت آسمانی کتاب نہیں ہے بلکہ کسی ایسے کم اطلاع انسان کی ساختہ ہے جو علم و دانش کو آدم کے لئے معیوب سمجھتا ہے، اور آدم کو علم ودانش حاصل کرنے کے جرم میں خدا کی بہشت سے نکالے جانے کا مستحق سمجھتا تھا، گویا بہشت فہمیدہ انسان کے لئے نہیں ہے

اصحاب الرس ""اصحاب الرس"" (11)کون ہیں (12)اس سلسلے میں بہت اختلات ہے _(13)
وہ ایسے لوگ تھے جو"" صنوبر""کے درخت کی پوجاکرتے تھے اور اسے ""درختوں کا بادشاہ ""کہتے تھے یہ وہ درخت تھا جسے جناب نوح علیہ السلام کے بیٹے ""یافث"" نے طوفان نوح کے بعد ""روشن اب""کے کنارے کاشت کیا تھا ""رس""نامی نہر کے کنارے انھوں نے بارہ شہر اباد کر رکھے تھے جن کے نا م یہ ہیں: ابان ،اذر،دی،بہمن ،اسفند ،فروردین،اردبہشت ،خرداد ،تیر،مرداد، شہریور،اور مہر،ایرانیوں نے اپنے کلنڈر کے بارہ مہینوں کے نام انہی شہروں کے نا م پر رکھے ہوئے ہیں _
چونکہ وہ درخت صنوبر کا احترام کرتے تھے لہذا انھوں نے اس کے بیج کو دوسرے علاقوں میں بھی کاشت کیا اور ابپاشی کے لئے ایک نہر کو مختص کردیا انھوں نے اس نہر کاپانی لوگوں کے لئے پینا ممنوع قرار دے دیا تھا ،حتی کہ اگر کوئی شخص اس سے پی لیتا اسے قتل کر دیتے تھے وہ کہتے تھے کیونکہ یہ ہمارے خداو ں کا سرمایہ حیات ہے لہذا مناسب نہیں ہے کہ کوئی اس سے ایک گھونٹ پانی کو کم کردے.
وہ سال کے بارہ مہینوں میں سے ہر ماہ ایک ایک شہر میں ایک دن کے لئے عید منایا کرتے تھے اور شہر سے باہر صنوبر کے درخت کے پاس چلے جاتے اس کے لئے قربانی کرتے اور جانوروں کو ذبح کرکے اگ میں ڈال دیتے جب اس سے دھواں اٹھتا تو وہ درخت کے اگے سجدے میں گر پڑتے اور خوب گریہ کیا کرتے تھے _ہر مہینے ان کا یہی طریقہ کار تھا چنانچہ جب ""اسفند ""کی ابادی اتی تو تمام بارہ شہروں کے لوگ یہاں جمع ہو تے اور مسلسل بارہ دن تک وہاں عید منایا کرتے کیونکہ یہ ان کے بادشاہوں کا دارالحکومت تھا یہیں پر وہ مقدور بھر قربانی بھی کیا کرتے اور درخت کے اگے سجدے بھی کیا کرتے _
جب وہ کفر اور بت پرستی کی انتہا کو پہنچ گئے تو خدا وند عالم نے بنی اسرائیل میں سے ایک نبی ان کی طرف بھیجا تاکہ وہ انھیں شرک سے روکے اور خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دے لیکن وہ اس نبی پر ایمان نہ لائے اب اس نبی نے فساد اور بت پرستی کی اصل جڑ یعنی اس درخت کے قلع قمع کرنے کی خدا سے دعا کی اور بڑا درخت خشک ہو گیا ،جب ان لوگوں نے یہ صور ت دیکھی تو سخت پریشان ہوگئے اور کہنے لگے کہ اس شخص نے ہمارے خداو ں پر جادو کر دیا ہے کچھ کہنے لگے کہ ہمارے خدا اس شخص کی وجہ سے ہم پر ناراض ہو گئے ہیں کیونکہ وہ ہمیں کفر کی دعوت دیتا ہے_ اب بحث مباحثے کے بعد سب لوگوں نے اللہ کے اس نبی کو قتل کر نے کی ٹھان لی اور گہرا کنوں کھوداجس میں اسے ڈال دیا اور کنوئیں کامنہ بند کر کے اس کے اوپر بیٹھ گئے اور اس کے نالہ و فریاد کی اواز سنتے رہے یہاں تک کہ اس نے جان جان افریں کے سپرد کردی ،خدا وند عالم نے انھیں ان برائیوں اور ظلم و ستم کی وجہ سے سخت عذاب میں مبتلا کر کے نیست و نابود کر دیا _

اصحاب الجنة سر سبز باغات کے مالک قرآن میں پہلے زمانہ کے کچھ دولتمندوں کے بارے میں جو ایک سر سبز و شاداب باغ کے مالک تھے اور اخر کار وہ خود سری کی بناء پر نابود ہوگئے تھے،ایک داستان بیان کرتا ہے ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ داستان اس زمانہ لوگوں میں مشہور و معروف تھی،اور اسی بناء پر اس کو گواہی کے طورپر پیش کیا گیا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:
""ہم نے انھیں ازمایا ،جیساکہ ہم نے باغ والوں کی ازمائشے کی تھی _""
یہ باغ کہاں تھا ،عظیم شہر صنعا ء کے قریب سر زمین یمن میں ؟یا سر زمین حبشہ میں ؟یا بنی اسرائیل کی سر زمین شام میں ؟یا طائف میں ؟اس بارے میں اختلاف ہے ،لیکن مشہور یمن ہی ہے _
اس کا قصہ یہ ہے کہ یہ باغ ایک بوڑھے مر د مومن کی ملکیت تھا ،وہ اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لیا کرتا اور باقی مستضعفین اور حاجت مندوں کو دے دیتا تھا ،لیکن جب اس نے دنیا سے انکھ بند کر لی (اور مر گیا )تو اس کے بیٹوں نے کہا ہم اس باغ کی پیداوار کے زیادہ مستحق ہیں ،چونکہ ہمارے عیال واطفال زیادہ ہیں ،لہذا ہم اپنے باپ کی طرح عمل نہیں کر سکتے ،اس طرح انھوں نے یہ ارادہ کر لیا کہ ان تمام حاجت مندوں کو جوہر سال اس سے فائدہ اٹھاتے تھے محروم کردیں ،لہذا ان کی سر نوشت وہی ہوئی جو قرآن میں بیان ہوئی _
ارشاد ہوتاہے :""ہم نے انھیں ازمایا ،جب انھوں نے یہ قسم کھائی کہ باغ کے پھلوں کو صبح کے وقت حاجت مندوں کی نظریں بچا کر چنیں گے _""اور اس میں کسی قسم کا استشناء نہ کریں گے اور حاجت مندوں کے لئے کوئی چیز بھی نہ رہنے دیں _""(14)
ان کا یہ ارادہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کام ضرورت کی بناپر نہیں تھا،بلکہ یہ ان کے بخل اور ضعیف ایمان کی وجہ سے تھاکیونکہ انسان چاہے کتناہی ضرورت مند کیوں نہ ہو اگر وہ چاہے تو کثیرپیداو ار والے باغ میں سے کچھ نہ کچھ حصہ حاجت مندوں کے لئے مخصوص کرسکتاہے _
اس کے بعد اسی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہتا ہے :
""رات کے وقت جب کہ وہ سوئے ہوئے تھے تیرے پروردگار کا ایک گھیرلینے والا عذاب ان کے سارے باغ پر نازل ہوگیا ""(15)
ایک جلانے والی اگ اور مرگ بار بجلی اس طرح سے اس کے اوپر مسلط ہوئی کہ :""وہ سر سبز و شاداب باغ رات کی مانند سیاہ اور تاریک ہوگیا _(16)اور مٹھی بھر راکھ کے سوا کچھ بھی باقی نہ بچا_
بہر حال باغ کے مالکوں نے اس گمان سے کہ یہ پھلوںسے لدے درخت اب تیار ہیں کہ ان کے پھل توڑ لئے جائیں :""صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو پکارا_انھوں نے کہا:""اگر تم باغ کے پھلوں کو توڑنا چاہتے ہو تو اپنے کھیت اور باغ کی طرف چلو_""(17)
""اسی طرح سے وہ اپنے باغ کی طرف چل پڑے اور وہ اہستہ اہستہ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے _کہ اس بات کا خیال رکھو کہ ایک بھی فقیر تمہارے پاس نہ انے پائے _""(18) اور وہ اس طرح اہستہ اہستہ باتیں کر رہے تھے کہ ان کی اواز کسی دوسرے کے کانوں تک نہ پہنچ جائے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی فقیر خبردار ہو جائے اور بچے کچے پھل چننے کے لئے یا اپنا پیٹ بھر نے کے لئے تھوڑا سا پھل لینے ان کے پاس اجائے _
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان کے باپ کے سابقہ نیک اعمال کی بناء پر فقراء کا ایک گروہ ایسے دنوںکے انتظار میں رہتا تھا کہ باغ کے پھل توڑنے کا وقت شروع ہوتو اس میں سے کچھ حصہ انھیں بھی ملے ،اسی لئے یہ بخیل اور ناخلف بیٹے اس طرح سے مخفی طورپر چلے کہ کسی کو یہ احتمال نہ ہو کہ اس قسم کا دن اپہنچا ہے ،اور جب فقراء کو اس کی خبر ہو تو معاملہ ختم ہو چکا ہو _
""اسی طرح سے وہ صبح سویرے اپنے باغ اور کھیت میںجانے کے ارادے سے حاجت مندوں اور فقراء کو روکنے کے لئے پوری قوت اور پختہ ارادے کے ساتھ چل پڑے _""(19)

سرسبز باغ کے مالکوں کا دردناک انجام وہ باغ والے اس امید پر کہ باغ کی فراواں پیدا وار کو چنیں اور مساکین کی نظریں بچاکر اسے جمع کر لیں اور یہ سب کچھ اپنے لئے خاص کر لیں ،یہاں تک کہ خدا کی نعمت کے اس وسیع دسترخوان پر ایک بھی فقیر نہ بیٹھے ،یوں صبح سویرے چل پڑے لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ رات کے وقت جب کہ وہ پڑے سو رہے تھے ایک مرگبار صاعقہ نے باغ کو ایک مٹھی بھر خاکستر میں تبدیل کر دیا ہے _
قرآن کہتا ہے : ""جب انھوں نے اپنے باغ کو دیکھاتو اس کا حال اس طرح سے بگڑ ا ہوا تھا کہ انھوں نے کہا یہ ہمارا باغ نہیں ہے ،ہم تو راستہ بھول گئے ہیں،""(20)
پھر انھوں نے مزید کہا :""بلکہ ہم توحقیقت میں محروم ہیں _""(21)
ہم چاہتے تھے کہ مساکین اور ضرور ت مندوںکو محروم کریں لیکن ہم تو خود سب سے زیادہ محروم ہو گئے ہیں مادی منافع سے بھی محروم ہو گئے ہیں اور معنوی برکات سے بھی کہ جو راہ خدا میں خرچ کرنے اور حاجت مندوں کو دینے سے ہمارے ہاتھ اتیں _
""اس اثنا میں ان میں سے ایک جو سب سے زیادہ عقل مند تھا ،اس نے کہا:""کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم خدا کی تسبیح کیوں نہیں کرتے_""(22)
کیا میں نے نہیں کہاتھا کہ خدا کو عظمت کے ساتھ یاد کرو اور اس کی مخالفت سے بچو ،اس کی نعمت کا شکریہ بجالاو اور حاجت مندوں کو اپنے سوال سے بہرہ مند کرو لیکن تم نے میری بات کو توجہ سے نہ سنا اور بدبختی کے گڑھے میں جاگرے_
یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ ان میں ایک مرد مومن تھا جو انھیں بخل اور حرص سے منع کیا کرتاتھا ،چونکہ وہ اقلیت میں تھا لہذاکوئی بھی اس کی بات پرکان نہیںدھرتا تھا لیکن اس درد ناک حادثہ کے بعد اس کی زبان کھل گئی ،اس کی منطق زیادہ تیز اور زیادہ کاٹ کرنے والی ہو گئی ،اور وہ انھیں مسلسل ملامت اور سر زنش کرتا رہا_
وہ بھی ایک لمحہ کےلئے بیدار ہوگئے اور انھوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کر لیا :""انھوں نے کہا :ہمارا پرورددگار پاک اور منزہ ہے ،یقینا ہم ہی ظالم و ستمگر تھے،(23)ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اور دوسروں پر بھی _""
لیکن مطلب یہیں پر ختم نہیں ہوگیا:""انھوں نے ایک دوسرے کی طرف رخ کیا او ر ایک دوسرے کی ملامت و سر زنش کرنے لگے ""_(24)
احتمال یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی خطا کے اعتراف کے باوجود اصلی گناہ کو دوسرے کے کندھے پر ڈالتا اور شدت کے ساتھ اس کی سرز نش کرتا تھا کہ ہماری بربادی کا اصل عامل تو ہے ورنہ ہم خدا اور اس کی عدالت سے اس قدر بیگانے نہیں تھے_ اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ جب وہ اپنی بدبختی کی انتہاء سے اگاہ ہوئے تو ان کی فریاد بلند ہوئی اور انھوں نے کہا:""وائے ہو ہم پر کہ ہم ہی سرکشی اور طغیان کرنے والے تھے _""(25)
اخر کار انھوں نے اس بیداری ،گناہ کے اعتراف اور خدا کی بازگشت کے بعد اس کی بارگاہ کی طرف رجوع کیا اور کہا :امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہوں کو بخش دے گا اور ہمیں اس سے بہتر باغ دے گا،کیونکہ ہم نے اس کی طرف رخ کرلیا ہے اور اس کی پاک ذات کے ساتھ لولگالی ہے _لہذا اس مشکل کا حل بھی اسی کی بے پایاں قدرت سے طلب کرتے ہیں _""(26)
کیا یہ گروہ واقعا ً اپنے فعل پر پشیمان ہوگیا تھا ،اس نے پرانے طرز عمل میں تجدید نظر کر لی تھی اور قطعی اور پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ اگر خدا نے ہمیں ائندہ اپنی نعمتوں سے نوازا تو ہم اس کے شکر کا حق ادا کریں گے ؟یا وہ بھی بہت سے ظالموں کی طرح کہ جب وہ عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں تو وقتی طورپر بیدار ہو جاتے ہیں ،لیکن جب عذاب ختم ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ انھیں کاموں کی تکرار کرنے لگتے ہیں _
اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ ایت کے لب و لہجہ سے احتمالی طورپر جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی توبہ شرائط کے جمع نہ ہونے کی بناء پر قبول نہیں ہوئی ،لیکن بعض روایات میں ایا ہے کہ انھوں نے خلوص نیت کے ساتھ تو بہ کی ،خدا نے ان کی توبہ قبول کر لیا اورا نھیں اس سے بہتر باغ عنایت کیا جس میں خاص طورپر بڑے بڑے خوشوں والے انگور کے پُر میوہ درخت تھے _
قرآن اخر میں کلی طورپر نکالتے ہوئے سب کے لئے ایک درس کے عنوان سے فرماتا ہے :""خدا کا عذاب اس طرح کا ہوتا ہے اور اگر وہ جانیں تو اخرت کا عذاب تو بہت ہی بڑا ہے :""(27)

بر صیصائے عابد بنی اسرائیل میں ایک نامی گرامی عابد تھاجس کا نام ""بر صیصا"" تھا(28)
برصیصا نے طویل عرصے تک پروردگار کی عبادت کی تھی جس کی وجہ سے وہ اس مقام پر پہنچ گیا تھا کہ جان بلب مریضوں کو اس کے پاس لایاجاتا تو اس کی دعا سے تندرست ہو جاتے ۔
ایک دفعہ ایک معقول گھرانے کی عورت کو اس کے بھائی اس کے پا س لائے اور طے پایا کہ کچھ عرصہ تک وہ عورت وہیں رہے تاکہ اس کو شفا حاصل ہو_
اب شیطا ن نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی ٹھانی اور اسے اپنے دام میں اسیر کیا حتی کہ اس نے اس عورت کے سا تھ زیادتی کی اور اب شیطان عابد کی پاس آیا اور کہا کہ اب کیا کروگے اب تو اس کی بہائی آئیں گے اور تجہے زندہ نہ چہوڑیں گے.
عابد نے گڑگڑا کر کہا: تو اب تم بتاؤ میں کیا کروں؟
شیطان نے کہا: سیدہی سی بات ہے۔ اس عورت کو قتل کرو اور اپنے بستر کی نیچے زمین کھودلو اور اسے دفن کرو.
عابد نے ایسا ہی کیا اور شیطان اس عورت کی بہائیون کے پاس پہنچا اور انہیں ماجرا کہہ سنایا۔ وہ نہ مانے تو شیطان نے کہا: میری ہمراہ آؤ میں تمہیں اس کا مدفن دکہاتا ہوں. چنانچہ وہ شیطان کے ہمراہ عابد کے اڈے پر پہنچے اور زمین کود کر لاش نکال ڈالی . یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی اور امیر شہر کے کانوں تک بھی جا پہنچی.
امیر حقیقت حال جاننے کی غرض سے کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر چلا۔ پوچھ گچھ کے پعد اس کا جرم ثابت ہؤا تو اس کو اس کی عبادت گاہ سے کھینچ کر باہر لایا گیا۔ اور اقرار گناہ کے بعد اسے سولی پر چڑھائے جانے کا حکم سنایا گیا۔
برصیصا جس وقت وہ سولی پر چڑھایا جانے لگا تو شیطان سامنے نمودار ہؤا اور کہا: میں نے تجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے،اب اگر جو کچھ میں کہوں وہ مان لے تو میں تیری نجات کا سامان فراہم کر تا ہوں۔
عابد نے کہا میں کیا کروں ،اس نے کہا میرے لئے تیرا صرف ایک سجدہ کافی ہے۔
عابد نے کہا: جس حالت میں تو مجھے دیکھ رہا ہے اس میں سجدہ کر نے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
شیطان نے کہا: اشارہ ہی کافی ہے۔
عابد نے گوشہ چشم یا ہاتھ سے اشارہ کیا اور اس طرح وہ شیطان کے سامنے سجدہ بجا لایا اور اسی وقت سولی پر چڑہایا گیا اور مرگیا.
یون تزکیہ نفس نہ کرنے والا عابد اس دنیا سے کافر ہوکر رخصت ہؤا.

جناب ذوالقرنین کے ممتاز صفات قرآن مجیدسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ممتاز صفات کے حامل تھے _اللہ تعالی نے کامیابی کے اسباب ان کے اختیار میں دیئےتھے،انہوں نے تین اہم لشکر کشیاں کیں_پہلے مغرب کی طرف،پھر مشرق کی طرف اور آخر میں ایک ایسے علاقے کی طرف کہ جہاں ایک کوہستانی درہ موجود تھا، ان مسافرت میں وہ مختلف اقوام سے ملے_ وہ ایک مرد مومن،موحد اور مہربان شخص تھے_ وہ عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے_ اسی بناء پر اللہ کا لطف خاص ان کے شامل حال تھا_ وہ نیکوں کے دوست او رظالموں کے دشمن تھے_ انہیں دنیا کے مال و دولت سے کوئی لگائو نہ تھا_ وہ اللہ پر بھی ایمان رکھتے تھے اور روز جزاء پر بھی_ انہو ں نے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی ہے،یہ دیوار انہوں نے اینٹ اور پتھر کے بجائے لوہے اور تانبے سے بنائی(اور اگر دوسرے مصالحے بھی استعمال ہوئے ہوں تو ان کی بنیادی حیثیت نہ تھی)_اس دیواربنانے سے ان کا مقصد مستضعف اور ستم دیدہ لوگوں کی یاجوج و ماجوج کے ظلم و ستم کے مقابلے میں مدد کرنا تھا_
وہ ایسے شخص تھے کہ نزول قرآن سے قبل ان کا نام لوگوں میں مشہور تھا_لہذا قریش اور یہودیوں نے ان کے بارے میں رسول اللہ (ص) سے سوال کیا تھا، جیسا کہ قرآن کہتا ہے: ""تجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں :"" رسول اللہ (ص) اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی ایسی روایات منقول ہیں جن میںہے کہ: ""وہ نبی نہ تھے بلکہ اللہ کے ایک صالح بندے تھے"" _

دیوار ذوالقرنین کہاں ہے ؟ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ اسے مشہور دیوار چین پر منطبق کریں کہ جو اس وقت موجود ہے اور کئی سو کلو میٹر لمبی ہے لیکن واضح ہے کہ دیوار چین لوہے اور تانبے سے نہیں بنی ہے اور نہ وہ کسی چھوٹے کو ہستانی درے میں ہے ،وہ ایک عام مصالحے سے بنی ہوئی دیوار ہے ،اورجیسا کہ ہم نے کہا ہے کئی سو کلو میٹر لمبی ہے اور اب بھی موجود ہے _ بعض کااصرار ہے کہ یہ وہی دیوار"" ما رب"" ہے کہ جو یمن میں ہے ،یہ ٹھیک ہے کہ دیوار ما رب ایک کوہستانی درے میں بنائی گئی ہے لیکن وہ سیلاب کو روکنے کے لئے اور پانی ذخیرہ کر نے کے مقصد سے بنائی گئی ہے اور ویسے بھی وہ لوہے اور تانبے سے بنی ہوئی نہیںہے_
جب کہ علماء و محققین کی گواہی کے مطابق سرزمین ""قفقاز"" میں دریائے خزر اور دریائے سیاہ کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جو ایک دیوار کی طرح شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے اس میں ایک دیوار کی طرح کا درہ کاموجود ہے جو مشہور درہ ""داریال"" ہے ،یہاں اب تک ایک قدیم تاریخی لوہے کی دیوار نظر اتی ہے،اسی بناء پر بہت سے لوگوں کا نظریہ ہے کہ دیوار ذوالقرنین یہی ہے _
یہ بات جاذب نظر ہے کہ وہیں قریب ہی ""سائرس""نامی ایک نہر موجود ہے اور ""سائرس""کا معنی ""کورش""ہی ہے (کیونکہ یونانی ""کورش"" کو""سائرس""کہتے تھے)_ ارمنی کے قدیم اثار میں اس دیوار کو""بھاگ گورائی""کے نام سے یاد کیا گیا ہے ،اس لفظ کا معنی ہے ""درہ کورش""یا""معبر کورش""( کورش کے عبور کرنے کی جگہ) ہے یہ سند نشاندہی کرتی ہے کہ اس دیوار کا بانی ""کورش"" ہی تھا_

یاجوج ماجوج(29) کون تھے ؟ قرآن واضح طورپر گواہی دیتا ہے کہ یہ دو وحشی خونخوار قبیلوں کے نام تھے ،وہ لوگ اپنے ارد گرد رہنے والوں پر بہت زیادتیاں اور ظلم کرتے تھے _ عظیم مفسر علامہ طباطبائی نے المیزان میں لکھا ہے کہ توریت کی ساری باتوں سے مجموعی طورپر معلوم ہوتا ہے کہ ماجوج یا یاجوج و ما جوج ایک یا کئی ایک بڑے بڑے قبیلے تھے ،یہ شمالی ایشیا کے دور دراز علاقے میںرہتے تھے ،یہ جنگجو ،ت گر اور ڈاکو قسم کے لوگ تھے _
تاریخ کے بہت سے دلائل کے مطابق زمین کے شمال مشرق"" مغولستان"" کے اطراف میں گزشتہ زمانوں میںانسانوں کا گویا جوش مارتا ہو اچشمہ تھا، یہاں کے لوگوں کی ابادی بڑی تیزی سے پھلتی اورپھولتی تھی ،ابادی زیادہ ہونے پر یہ لوگ مزرق کی سمت یا نیچے جنوب کی طرف چلے جاتے تھے اور سیل رواں کی طرح ان علاقوں میں پھیل جاتے تھے اور پھر تدریجاً وہاں سکونت اختیار کر لیتے تھے ،تاریخ کے مطابق سیلاب کی مانند ان قوموں کے اٹھنے کے مختلف دور گزرے ہیں _(30)
کورش کے زمانے میں بھی ان کی طرف ایک حملہ ہوا ،یہ تقریباً پانچ سو سال قبل مسیح کی بات ہے لیکن اس زمانے میں ""ماد"" اور"" فارس"" کی متحد ہ حکومت معرض وجود میں اچکی تھی لہذا حالات بد ل گئے اور مغربی ایشیا ان قبائل کے حملوں سے اسودہ خاطر ہوگیا_ لہذا یہ زیادہ صحیح لگتا ہے کہ یاجوج اور ماجوج انہی وحشی قبائل میں سے تھے ،جب کورش ان علاقوں کی طرف گئے تو قفقاز کے لوگوں نے درخواست کی کہ انھیں ان قبائل کے حملوں سے بچایا جائے ،لہذ اس نے وہ مشہور دیوار تعمیر کی ہے جسے دیوار ذوالقرنین کہتے ہیں _

حوالہ جات:
(1) سورہ اعراف آیت20
(2)سورہ طہ آیت 120
(3)سورہ اعراف ایت 21
(4)سورہ اعراف آیت 22
(5)سورہ اعراف آیت 22
(6)سورہ اعراف آیت 27
(7)سورہ اعراف آیت 22
(8) جیسے ( وَشَجَرَةً تَخرُجُ من طُور سَینَا‏‏ءَ تَنبُتُ بالدُّہن )جس سے مراد زیتون کادرخت ہے_
(8)جیسے :( وَالشَّجَرَةَ المَلعُونَةَ فی القُرآن ) جس سے مراد مشرکین یا یہودی یا دوسری باغی قومیں (جیسے بنی امیہ ) ہیں
(10) سفر تکوین فصل دوم نمبر 17
(11)سورہ فرقان ایت 38 میں اس ظالم وستمگر قوم کا ذکر موجود ہے
(12)""رس""کا لفظ در اصل مختصر اور تھوڑے سے اثر کے معنی میں ہے جیسے کہتے ہیں :""رس الحدیث فی نفسی""(مجھے اس کی تھوڑی سی بات یاد ہے )یا کہا جاتا ہے ""وجد رسا من حمی""(اس نے اپنے اندر بخار کا تھوڑا سا اثر پایا)_ کچھ مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ ""رس"" کا معنی ""کنواں"" ہے_ معنی خواہ کچھ بھی ہو اس قوم کو اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا اب تھوڑا سا اثر یا بہت ہی کم نام اور نشان باقی رہ گیا ہے یا اس وجہ سے انھیں ""اصحاب الرس""کہتے ہیں کہ وہ بہت سے کنوو ں کے مالک تھے یا کنوو ں کا پانی خشک ہو جانے کی وجہ سے ہلاک و برباد ہو گئے
(13)رجوع کریں تفسیر نمونہ ج8ص386
(14)سورہ قلم ایت 17_18
(15)سورہ قلم ایت 19
(16)سورہ قلم ایت 20
(17)سورہ قلم ایت 21
(18)سورہ قلم ایت 21و22
(19)سورہ قلم ایت 23و24
(20)سورہ قلم ایت 26
(21)سورہ قلم ایت 27
(22)سورہ قلم ایت 28
(23)سورہ قلم ایت 29
(24)سورہ قلم ایت 30
(25)سورہ قلم ایت 31
(26)سورہ قلم ایت 32
(27)سورہ قلم ایت
(28)اس واقعہ کو بعض مفسرین نے سورہ حشر کی آیات 16 اور 17، کے ذیل میں بیان کیا ہے۔
(29)قران مجید کی دو سورتوں میں یاجوج ماجوج کا ذکر ایا ہے ایک سورہ کہف ایت 94 میں اور دوسرا سورہ انبیاء کی ایت 96 میں _
(30)ان میں ایک حملہ ان وحشی قبائل نے چوتھی صدی عیسوی میں"" اتیلا"" کی کمان میں کیا،اس حملے میں روم کا شاہی تمدن خاک میں مل گیا _ایک اور دور کہ جو ان کے حملوں کا تقریباً اخری دور شمار ہوتا ہے ،وہ بارہویں صدی ہجری میں چنگیز خاں کی سر پرستی میں ہوا ،انھوں نے مسلمان اور عرب ممالک پر حملہ کیا ،اس حملے میں بغداد سمیت بہت سے شہر تباہ بر باد ہو گئے