حسین شناسی یعنی حق پرستی( حصہ اول)


دو عنوان حسینیت اور یزیدیت ان کی شناخت کیوں ضروری ہے؟ اگر فقط علم کی حد تک اور معلومات کی حد تک انسان کے علم میں اضافہ ہو تو فرق نہیں پڑتا کہ کربلا کے بارے میں اس کی معلومات زیادہ ہوں یا بغداد کے بارے میں، یہ معلومات انسان کو کہیں بھی نہی پہنچاتیں۔ آج کل کی جو چیز جاننے سے تعلق رکھتی ہے اور ضروری ہے کہ اس سے آگاہ ہوا جائے وہ یہ ہے کہ انسان کربلا میں داخل ہونے کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈے، کربلا کے اندر جانے کا کوئی راستہ ڈھونڈ لے،
جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سید الشہداء علیہ السلام کا تعارف ان الفاظ میں کروایا کہ ''انّ الحسین مصباح الھدیٰ و سفینۃ النجاۃ'' کہ ذات گرامی حسین علیہ السلام ہدایت کے چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔
کشتیاں وہاں انسانوں کو نجات دیتی ہیں جہاں پر گہرے اور عمیق سمندر ہوں اور ان سمندروں میں طوفان بھی ہوں، ان میں ہلاک اور غرق کرنے والی موجیں بھی ہوں، ڈوبنے کا خطرہ ہو، غرق ہونے کا خطرہ ہو، ایسے میں کشتیاں آتی ہیں انسان کو نجات دیتی ہیں اور انسانیت کی نجات کی کشتی کا نام حسین علیہ السلام ہے۔ انسانیت ہلاک کہاں ہوتی ہے، کونسا سمندر ہے، کونسا بحر ہے ایسا عمیق اور گہرا کہ جس میں انسانیت ڈوب کر مر جائے، ہلاک ہوجائے، غرق ہو جائے، وہ ہے کہ جب انسانیت ہلاکت کے قریب جا پہنچے یعنی انسانیت اس حد تک گر جائے، پست ہو جائے، غرق ہو جائے کہ یزید جیسا حکمران، یزیدیت جیسا نظام بر سر اقتدار آ جائے اور انسان بیٹھا تماشا دیکھتا رہے۔ یہ درحقیقت ہلاکت ہے انسانیت کی، بشریت کی۔ اور ایسی ہلاکتوں سے نجات حسینیت کے ذریعے سے ملتی ہے۔ یزیدیت ظلم جوئی کے ایک فرد کا نام ہے۔ یزید ایک طبقہ ہے اور یہ طبقہ ہر دور میں ہے، یزید سے پہلے بھی یہ طبقہ موجود تھا، ابن معاویہ سے پہلے وہ خود بھی یزید طبقے سے تھا۔ اور اس کے بعد بھی یزید طبقہ موجود ہے اور آج تک یزیدیت موجود ہے اور ایسے ہی حسینیت بھی، حسین ایک فرد کا نام نہیں، حسینی بھی ایک طبقہ کا نام ہے، یہ طبقہ امام حسین علیہ السلام سے پہلے بھی موجود تھا، آپ کے زمانے میں بھی موجود تھا اور آپ کے بعد بھی موجود اور آج بھی موجود ہے اور آئندہ بھی موجود رہے گا۔ یہ تو ہم سنتے آئے ہیں کہ واقعہ کربلا رونما ہوا اور یہ بھی کسی حد تک ہم جانتے ہیں کہ کیسے رونما ہوا، اس کے واقع ہونے کی کیفیت کیا ہے؟، کیا حادثے پیش آئے؟، کیا واقعات پیش آئے؟، کیا رودادیں پیش آئیں؟، یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ کب پیش آیا اور کیسے پیش آیا لیکن اس کے باوجود بہت سارے واقعات ایسے ہیں جو رونما ہوئے اور ہم نہیں جانتے، بہت سارے کردار ایسے ہیں جو کربلا میں موجود تھے اور ہم نہیں جانتے۔
کربلا میں دو قسم کے کردار ہیں، مثبت اور منفی، یزیدی اور حسینی۔ حق میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک کردار ہے اور باطل میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک کردار ہے، خصوصاً ہم سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے اور آپ لوگوں کا یہ حق بنتا ہے کہ یہ جو منبر پر آئے اور اسٹیج پر بیٹھے، اس سے پوچھیں کہ ہمیں بتائیں کہ عمر سعد کون تھا؟ کیسے آ گیا؟ اس کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ یہ کس خاندان کا فرد ہے؟ ا س کو کیوں چنا گیا؟ شمر کون ہے؟ شمر کیسے بن گیا؟ یہ چیزیں ہمیں معلوم ہونی چاہیئے۔ اس لئے کہ یہ افراد نہیں ہیں طبقے ہیں اور ایسے طبقے ہیں جو ہر زمانے میں موجود ہیں۔ اگر ہمیں 61 ہجری کے عمر سعد کا علم ہو جائے تو ہم اپنے زمانے کے عمر سعد کو پہچان سکتے ہیں۔ اگر ہمیں 61 ہجری کے شمر کا علم ہو جائے تو ہم آج کے شمر کو پہچان سکتے ہیں۔ کربلا میں ایک فرد نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ ایک پوری نسل کا وارث کھڑا ہوا تھا۔ نسل انبیاء کا وارث کھڑا ہوا تھا۔ وارث وہ ہوتا ہے کہ جس نے کچھ ارث لیا ہو۔ امام حسین علیہ السلام کس چیز میں وارث تھے؟، آیا انبیاء نے اپنی جائیدادیں، اپنی زمینیں، املاک چھوڑی تھیں امام کیلئے۔ کونسی چیز تھی جو انبیاء علیھم السلام سے ارث ملی ہے۔ اس کو ذہن میں رکھیں کونسی چیز تھی؟ غور کریں کہ کیا چیز تھی جو امام حسین علیہ السلام نے انبیاء علیھم السلام سے ارث میں لی اور اسی وراثت کی حفاظت کیلئے کربلا آنا پڑا، یعنی ارث انبیاء ختم ہو رہا تھا، لُٹ رہا تھا، ارث انبیاء خطرے میں تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے مقابلہ میں یزید ہے۔ وہ بھی وارث ہے، وہ بھی تنہا نہیں ہے۔ یعنی وہ بھی ایک نسل کا وارث آ کے کھڑا ہوا ہے۔ وہ کس کا وارث ہے؟ یزید کس کا وارث ہے؟ معاویہ کا وارث ہے، نہ صرف معاویہ کا وارث ہے بلکہ پورے آل سفیان کا وارث ہے، نہ صرف آل سفیان کا وارث ہے بلکہ آل فرعون کا وارث ہے، آل نمرود کا وارث ہے، آل شداد کا وارث ہے، آل قارون کا وارث ہے، آل قابیل کا وارث ہے، یعنی جتنے ستم کار تاریخ میں گزرے ہیں ان سب کا وارث ہے۔ چونکہ ظالم کو بھی ارث ملتا ہے۔ مظلوم کو بھی ارث ملتا ہے۔ درحقیقت یہ دو وارث تھے۔ دو نسلوں کے وارث، دو سلسلوں کے وارث، ایک وارث نسل انبیاء اور ایک وارث نسل ظلم تھا۔ جس طرح یہ وارث تھے اسی طرح مورث بھی ہیں۔ وارث اسے کہتے ہیں جو کسی سے ارث پائے، کسی سے ارث لے، اور مورث اس کو کہتے ہیں جو کسی کے لیے ارث چھوڑے۔ ان دونوں نے اپنے سے پہلے والوں سے ارث لیا اور اپنے بعد والوں کیلئے چھوڑا۔ یعنی یوں نہیں کہ انہوں نے اپنا ارث وہاں دفن کردیا۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنا ارث منتقل کردیا اور یزید نے اپنی وراثت منتقل کردی۔ یعنی جو کچھ فرعون و نمردو سے لیا تھا اس نے وہ کربلا میں لے آیا۔ وہ سب اس نے بعد کیلئے چھوڑا اور اس کی نسل نے اسے سنبھالا۔ امام حسین علیہ السلام کی نسل نے ارثِ حسین کو سنبھالا، پس معلوم ہوا کہ ابھی تک وہ وراثت موجود ہے اور چلی آ رہی ہے۔ ارث حسین علیہ السلام اور ارث یزید بھی، دونوں کا ترکہ دونوں کی وراثت چلی آ رہی ہے۔ اس میں یہ تشخیص دینا اہم ہے کہ مجھے یہ پتا چل جائے کہ میں کس کا وارث ہوں۔ میں نے کس سے کچھ لیا ہے۔ اب ہم یہ تو کہتے ہیں کہ خدا نے ہمیں یہ توفیق اور نعمت عظمیٰ دی ہے کہ ہم اپنے آپ کو حسینی کہتے ہیں۔