نماز ؛ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخری وصیت

عام طور سے لوگ اس بات کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ بزرگ شخصیتوں اور مقدس انسانوں کی آخری وصیت کو جانیں ،کون ہے جس کی شخصیت رسول اکرم(ص) سے زیادہ با عظمت ہوگی ،کون ہے جو رسول اکرم کے کمالات کی منزلوں کو پا سکتاہے تو پھر کون ہوگا جو خاتم الانبیاء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخری وصیت کو جاننا اور سمجھنا نہ چاہے گا ۔
جابر بن عبداللہ ناقل ہیں : کعب الاحبار نے عمر سے پوچھا : پیغمبر(ص) کی آخری وصیت کیا تھی ؟ اس نے جواب دیا : علی سے پوچھو ۔ کعب علی علیہ السلام کے پاس آیا اور یہی سوال ان سے کیا تو حضرت نے جواب دیا : اسندت رسول الله الي صدري فوضع رأسه علي منکبي فقال: الصلاة الصلاة
میں نے رسول اکرم(ص) کو اپنے سینے سے لگایا تو آپ نے اپنا سر میرے کاندھوں پر رکھا اور فرمایا : نماز نماز
یعنی جس چیزکی پیروی تم پر لازم ہے اور دل وجان سے اس کی حفاظت واجب ہے اسے ضائع مت ہونے دینا اور اسے ہلکا نہ سمجھنا وہ نماز ہے ۔ ہمیں دل و جان سے اس کی حفاظت اور پاسداری کرنی چاہئے اور اعزاز و تکریم اور خشوع وخضوع کے ساتھ اسے بجالانا چاہئے ۔
یہ جملہ سن کر کعب الاحبار بولا : کذلک آخر عهد الانبياء و بِهِ امروا و عليه يبعثون
تمام انبیاء کی آخری وصیت یہی تھی اور انھیں اسی پر مامور و مبعوث کیا گیا تھا ۔
کعب گزشتہ انبیاء اور پیغمبروں کی کتب سے واقف تھا اس نے اس بات کی تصدیق کی کہ " ہمیشہ سے پیغمبروں کی روش یہی رہی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں نماز کی وصیت فرماتے تھے ۔"
یقیناً رسول کی آخری وصیت نماز تھی ۔ بیشک نماز ہی وہ پہلا واجب عمل تھا جسے رسول اسلام(ص) نے انجام دیا یہاں تک کہ آغاز اسلام ہی سے پیغمبر اکرم(ص) مسجد الحرام میں باجماعت نماز ادا کرتے تھے جبکہ مردوں میں امیرالمومنین علیہ السلام اور عورتوں میں حضرت خدیجہ(س) کے سوا آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہوتا تھا ۔ اس جماعت میں صرف ایک مرد اور ایک عورت ماموم ہوا کرتے تھے ۔جیسا کہ بعض تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) شنبہ کے دن نماز پر مامور کئے گئے اور دوشنبہ کو مسجد الحرام میں نماز جماعت پڑھی گئی اور جب پیغمبر اکرم(ص) حالت احتضار میں تھے تو بھی یہی وصیت فرما رہے تھے ،اور آخری لمحات میں نماز ہی کا ذکر لبوں پر تھا ۔