رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اخلاقی صفات


خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :”انک لعلی خلق عظیم“۔ یقینا آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز ہیں۔ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خود بھی ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے مکارم اخلاقی کو احیاء کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے ” انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صفات کے درمیان سب سے اہم صفت ، آنحضرت (ص) کا اخلاق تھا ۔ یہ وہی صفت اور خصوصیت ہے جس کے ذریعہ خداوند عالم نے اپنے رسول کی تعریف کی ہے : ”انک لعلی خلق عظیم“۔ یقینا آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز ہیں۔ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خود بھی ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے مکارم اخلاقی کو احیاء کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے ” انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“۔ اورنئے مسلمان جب بھی دوسروں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی صفت بیان کرتے تھے تو آپ کی دعوت کی اہم صفت اسی کو سمجھتے تھے : ”ویامر بمکارم الاخلاق“۔ مفروق نامی شخص جب مسلمان ہوگیا اوراس نے آپ کی دعوت کے مضمون سے آشنائی حاصل کرلی تو رسول اللہ سے مخاطب ہو کر کہا : اے قریشی بھائی ! آپ لوگوں کو ”مکارم الاخلاق“ اور” محاسن الاعمال“ کے ذریعہ دعوت دیتے ہو ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی اپنی تعلیمات میں اخلاق کے اوپر بہت زور دیتے تھے اور فرماتے تھے : خداوند عالم ، کریم ہے ، کرامت اور اخلاقی تعلیمات (معالی الاخلاق)کو پسند کرتا ہے ، حقیر اور برے کام انجام دینے کوپسند نہیں کرتا (مصنف عبدالرزاق ، ج ۱۱، ص ۱۴۳) ۔ دوسری جگہ فرمایا : قیامت کے روز مومن کی ترازو میں سب سے بھاری چیز ”حسن خلق“ ہوگی (مصنف ج ۱۱، ص ۱۴۶) ۔ نیز فرمایا : تمہارے درمیان میرا بہترین دوست وہ شخص ہے جو لوگوں سے زیادہ دوستی کرتا ہے (مصنف ۱۱، ص ۱۴۵) ۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اخلاق سے متعلق مختلف کتابوں میں بہت زیادہ مطالب بیان ہوے ہیں ، اس مقالہ میں ہم بعض اخلاق اور آنحضرت کے بعض تربیتی طریقے اوراس کے معانی کوبیان کریں گے ۔

خشک مقدسی سے مقابلہ

 پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تاریخ زندگی کا ایک اہم پہلویہ ہے کہ آپ قوانین الہی کی رعایت کرتے تھے ، پیغمبر اکرم ، قرآن کے تابع ہیں اور کبھی بھی قوانین کی خلاف ورز ی کو جائز نہیں سمجھتے تھے ،اس متعلق قرآن کریم کی طرح افراط و تفریط سے بیزار تھے اور کوشش کرتے تھے کہ جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اسی طرح مستقیم حرکت کرے ”واستقم کما امرت“ اور اسی طریقہ کو لوگوں کے درمیان رایج کرتے تھے ۔
آنحضرت (ص) کی کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کو احکام سکھائیں، دین کی حدود اور شرعی احکام کو معین کریں، اسی طرح آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کو یہ سمجھائیں کہ اپنے دین کو خدا اور رسول سے حاصل کریں، حلال و حرام کو قرآن کے ذریعہ پہچانیں۔ قرآ کریم میں یہودیوں متعدد جگہ یہودیوں کی برائی اس وجہ سے بھی بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے بغیر کسی دلیل کے حلال کو حرام کردیا تھا ۔
قرآن کریم، رسول خدا اور ائمہ جس قدر سستی اور لاپروائی سے متنفر تھے اسی قدر خشک مقدسی سے بھی نفرت کرتے تھے ایسی خشک مقدسی جو عقلی قوت کے ضعیف اور ظواہر سے تمسک کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ سفر میں روزہ نہ رکھیں،لیکن کچھ لوگوں نے خشک مقدسی کی وجہ سے روزہ رکھ لیا ۔ آنحضرت (ص) کو ان کی اس رفتار پر غصہ آگیا اور اسی وقت جب وہ اونٹوں پر سوار تھے آپ نے ان کے سامنے پانی بھجوایا اور فرمایا: اے غلطی کرنے والوں! افطار کرو؟ ”افطروا یا معشر العصاة“ ( تہذیب الاثار مسند ابن عباس، ج ۱ ، ص ۹۲) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خداوندعالم کی اجازت کے بغیر کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں کرتے تھے ، چاہے آپ کووہ چیز بری ہی کیوں نہ لگتی ہو۔ آنحضرت کو لہسن سے نفرت تھی ، آپ فرماتے تھے جو بھی لہسن کھاکر آئے وہ میرے پاس نہ بیٹھے لیکن اس کے باوجوداسی وقت فرماتے تھے : میں اس کو حرام نہیں کرتا، کیونکہ جس چیز کو خداوندعالم نے حلال کیا ہے اس کو حرام کرنے کی اجازت نہیں ہے ،لیکن مجھے یہ چیز بری لگتی ہے ۔ ” یا ایها الناس انه لیس بی تحریم ما احل الله ولکنها شجرة اکرہ ریحھا“ (امتاع ، ۳۱۰) ۔
حلال و حرام الہی کی رعایت ان اصول کا جزء تھی جن کو آپ لوگوں کو سکھاتے تھے اوراس کی تاکید کرتے تھے ، قرآن کریم نے اس بات کو بارہا بیان فرمایا ہے کہ یہ حدود الہی ہیں، اور ان سے غفلت کرنا کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے ۔
سب سے اہم یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث کو درایت کے ذریعہ سمجھا جائے کیونکہ ظاہر پر عمل کرنا انسان کو کج فہمی میں مبتلا کردیتا ہے ، اس متعلق ایک روایت نقل کرنا مناسب ہے امام حسین (علیہ السلام) صفین کے مسائل کی وجہ سے عبداللہ بن عمرو عاص سے بات نہیں کرتے تھے ، ابوسعید خدری نے مدینہ میں دونوں کے درمیان صلح کرادی ، جس وقت امام علیہ السلام نے اس سے بات کی تو عبداللہ سے گلا کیا کہ تم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث کے مطابق مجھے آسمان والوں کے نزدیک زمین پر سب سے بہتر سمجھتے ہو ، پھر جنگ صفین میں تم کس طرح میرے والد کے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہوگئے جب کہ میرے والد مجھ سے بہتر تھے ۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص نے اس کی دلیل میں کہا : میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زندگی کے دوران زاہد تھا اور میں نے اپنے اوپر زندگی کو سخت کررکھا تھا ، دن میں روزے رکھتا تھا اور رات کوعبادت کرتا تھا ، میرے والد نے میری افراط کی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے شکایت کی ، آنحضرت (ص) نے مجھ سے فرمایا: اپنے والد کی اطاعت کرو، جب میرے والد صفین گئے تو میں نے اس کی اطاعت کی ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: ” لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“ جو شخص خدا کی معصیت کررہا ہو اس کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے : ” و ان جاھداک ان تشرک بی فلا تطعھما“ اگر تمہارے والدین تمہیں شرک کی دعوت دیں توان کی اطاعت نہ کرنا ۔
اس طرح عبداللہ بن عمرو بن عاص نے یہ ظاہر کیا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس کو والد کی اطاعت کرنے کا حکم دیاتھا ،اس نے اس جملہ سے کس قدر غلط مطلب نکالا اور اس کے ظاہر پر عمل کیا ۔

پاک صاف رہنا اور عطر لگانا

 پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کو معمول کے مطابق بلکہ اس سے بھی بہتر شکل میں بسر کرتے تھے ، سفید کپڑے پہنتے تھے، عطر لگاتے تھے، بالوں میں کنگھا کرتے تھے اور ہمیشہ دانتوں پر مسواک کرتے تھے ۔
ان مسائل میں عطر لگانا آنحضرت کے لئے ایک اصل کی طرح تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گھر میں ایک جگہ تھی جہاں پر آپ عطر لگاتے تھے ، انس کہتے ہیں : ”کانت لرسول الله سکة یتطیب منها“ (امتاع ۱۰۱) ،ایک دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) فرماتے تھے : میں اس دنیا میں عطر، عورت اور نماز کو بہت پسند کرتا ہوں ، البتہ نماز کے متعلق فرماتے تھے ”قرة عینی فی الصلاة“ میری آنکھوں کی روشنی نماز میں ہے(مصنف ، ج ۴، ص ۳۲۱) ۔
ایک شخص نے روایت کی ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں جاتا تھا ، آپ میرے سر پر ہاتھ رکھتے تھے ، جس وقت آپ میرے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے تو مجھے ایسی خوشبو محسوس ہوتی تھی جس کو میں آج تک نہیں بھول سکا، اس کے بعد کہتا ہے : عطر کی خوشبو اس قدر ہوتی تھی جیسے عطر کی دکان کے پاس سے گذرر ہا ہوں(امتاع ۱۰۲) ۔ اگر کوئی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)عطر دیتا تھا تو آپ اس کو منع نہیں کرتے تھے ۔
نیز بیان ہوا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خوشبو کے ذریعہ پہچان لیتے تھے : ”کان رسول الله یعرف بریح الطیب (مصنف ، ج ۴، ص ۳۱۹) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ایسی چیزوں کو کھانے سے پرہیز کرتے تھے جن کی بو سے لوگوں کو اذیت ہوتی تھی،خاص طور سے لہسن کی خوشبو سے اور آپ اس طرح استدلال کرتے تھے : ” اکرهه من اجل ریحه“۔
بالوں پر خضا ب اور رنگ کرنے کو بہت اہمیت دیتے تھے ، عورتوں کو حکم دیتے تھے کہ اپنے بالوں پر خضاب کریں ، اگر شوہر دار ہیں تو اپنے شوہروں کے لئے اور اگر شوہر دار نہیں ہیں تو اس لئے کہ ان کے رشتہ زیادہ آئیں(مصنف ج ۴، ص ۳۱۹) ۔ جس عورت کے ہاتھوں پر خضاب یا مہندی نہیں ہوتی تھی آپ اس کی طرف دیکھنے سے کراہت کرتے تھے (مصنف ، ج۷،ص ۴۸۸) ۔
اس وقت عام تصورایسا تھا کہ اگر کوئی ثروتمند نہیں ہے تو اس کو اس طرح کے وسائل سے استفادہ نہیں کرنا چاہئے جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بہت سادہ زندگی بسر کرتے تھے جس چٹائی پر آپ رات کو نماز پڑھتے تھے ، اسی چٹائی پر دن میں بیٹھتے اور لوگوں سے باتیں کرتے تھے ،اپنے مہمانوں کو اسی چٹائی پر بٹھاتے تھے (امتاع ، ج۷، ص ۱۱۵) ۔ آپ کے کھانا کھانے کا طریقہ بھی معمول کی طرح تھا ، آپ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے : ”کان رسول الله یجلس علی الارض و یاکل علی الارض“ (امتاع ج۷، ص ۲۶۲) ۔

پیغمبر اکرم اور مزاح

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نہایت ظریف انسان تھے ، کبھی بھی آپ میں غصہ اور عصبانیت نہیں دیکھی گئی ،ایک حدیث میں بیان ہوا ہے : ”کان بالنبی دعابة، یعنی مزاحا ۔ لیکن یہ تبسم ، قہقہ لگانے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ آپ فقط مسکراتے تھے : ”مارایت النبی ضاحکا ما کان الا یتبسم“۔
اس ظرافت کی وجہ سے آپ خود بھی خوشحال رہتے تھے اور دوسروں کو بھی خوشحال رکھتے تھے ، آپ دوسروں کو بھی مزاح کرنے کی اجازت دیتے تھے جیسا کہ ایک اعرابی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ایک ہدیہ دیا اور جب آپ نے اس کو استفادہ کرلیا تو اس نے کہا کہ میرے اس ہدیہ کے پیسہ دیجئے ، پیغمبر اس کی اس بات سے بہت خوش ہوئے اور جب بھی آپ دل گیر ہوتے تھے تو فرماتے تھے کہ اس اعرابی کو بلا کر لاؤ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بے وجہ مزاح کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے ،مزاح کرنے والوں میں سے ایک عبداللہ بن حذافہ تھے جن کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک سریہ (جس جنگ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خود شرکت نہیں کرتے تھے اس کو سریہ کہتے تھے) کا سردار بنایا تھا ۔ عبداللہ بن حذافہ نے اپنے سپاہیوں سے آگ جلانے کے لئے کہا ، آگ جلنے کے بعد انہوں نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اس آگ میں کود جاؤ ۔ انہوں نے کہا : ہم اس لئے ایمان لائے ہیں تاکہ آگ سے محفوظ رہیں( ایک دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ انہوں نے آگ میں کودنا چاہا تو عبداللہ بن حذافہ نے ان کو کودنے سے منع کردیا اور کہا کہ میں مزح کررہا تھا) جب یہ لوگ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس آئے اورپورا واقعہ سنایا تو آنحضرت (ص) نے ان کی بات کی تائید کی اور فرمایا : ” لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“ (امتاع ، ج۱۰، ص ۶۳) ۔ جس کام میں خالق کی معصیت ہو اس میں مخلوق کی پیروی نہیں کرنا چاہئے ۔
جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جنگ بدر سے واپس تشریف لائے تو لوگ آپ کے استقبال کے لئے گئے ۔ سلمہ بن سلامہ نے ایک روز غلط مزاح کیا تھا جس کی وجہ سے آنحضرت (ص) اس سے ناراض تھے ، اس نے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا : اس کام کی مبارک باد کی ضرورت نہیں ہے ہم نے تھوڑے سے بوڑھے اور گنجوں کو قتل کیا ہے ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کی بات سن کر ہنسنے لگے اور فرمایا : یہ قریش کے وہ لوگ تھے جن کو دیکھ کر وحشت ہوتی تھی اور اگر ان کو حکم دیا جاتا تو بہت مشکل سے اطاعت کرتے ،اس وقت سلمہ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ناراض ہونے کی علت معلوم کی ، آپ نے فرمایا جب ہم ہم ”روحاء“ میںتھے اور بدر کی طرف جارہے تھے تو ایک اعرابی میرے پاس آیا اور اس نے پوچھا : اگر تم پیغمبر ہو تو یہ بتاؤ کہ میری حاملہ اونٹنی کیا پیدا کرے گی؟ مجھ سے پہلے تم نے اس سے کہا ، تم نے اس سے جماع کیا ہے اور وہ تم سے حاملہ ہوئی ہے، تم نے اس کے ساتھ غلط رفتاری کی تھی! سلمہ نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے معذرت خواہی اور پیغمبر اکرم (ص) نے بھی اس کو معاف کردیا ۔

عبادت آنحضرت(ص)

آپ کی عبادت بھی سب سے جدا تھی ، نماز شب پیغمبر اکرم پر واجب تھی اور خداوندعالم نے ان سے کہا : ”نصفه اوانقص منه الا قلیلا“آدھی رات یا اس سے کم رات میں نماز اور قرآن پڑھو۔ خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے : ” ان ربک یعلم انک تقوم ادنی من ثلثی اللیل و نصفہ و ثلثہ و طائفة من الذین معک“(سورہ مزمل ، آیت ۲۰) ۔
ایک جنگ میں حضرت علی (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ سب لوگ سو رہے تھے لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عبادت میں مشغول تھے : ” لقد رایتنا و ما فینا ثائم الا رسول الله (ص) تحت الشجرة یصلی و یبکی حتی اصبح“۔ ہمارے درمیان صرف پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ایسے تھے جودرخت کے نیچے نماز پڑھتے رہے اورصبح تک گریہ کرتے رہے ۔
ابوذر جو کہ خود زہد اور عبادت میں اپنی آپ مثال تھے کہتے ہیں : ”صلیت مع النبی فی بعض اللیل فقام یصلی فقمت معہ حتی جعلت اضرب راسی الجدرات من طول صلاتہ“۔ ایک رات ہم نے آنحضرت (ص) کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ اس قدر کھڑے رہے اور نماز پڑھتے رہے کہ میں نے تھک کر اپنا سر دیوار پر رکھ لیا ۔
یہی نماز شب تھی جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو مقام محمود یعنی شفاعت کے مقام تک پہنچایا اور یہ حق تعالی کی سفارش تھی : ”ومن اللیل فتهجد به نافلة لک عسی ان یبعثک مقاما محمودا“۔ نافلہ شب کو انجام دو شاید خداوندعالم تمہیں مقام محمود تک پہنچا دے ۔

پیغمبر رحمت

خدا وند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے : ”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین“ ۔ پیغمبر رحمت کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت کبھی بھی لوگوں سے ناراض نہیں ہوتے تھے ، خاص طور سے ان امور میں جن میں لوگوں کو دین کی تعلیمات دیتے تھے ۔ روایت میں موجود ہے کہ ”فکان لا یبغضه شئی و لا یستفزہ“۔ اور یہ بھی ہے کہ ” کان اوسع الناس صدرا“ اس کے علاوہ یہ بھی ملتا ہے کہ ”قد وسع الناس منه بسطه و خلقه فصار لهم ابا“۔ ان تمام عبارتوں کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) لوگوں کی باتوں کوسننے کے لئے اپنے سینہ میں وسیع قلب رکھتے تھے اور بہت جلد ان کی ہدایت فرماتے تھے ۔
پیغمبر رحمت کے معنی یہ ہیں کہ آپ ان بت پرستوں کیلئے بھی نفرین نہیں کرتے تھے جو آپ کو ستاتے اور اذیت کرتے تھے بلکہ آپ ان کے متعلق فرماتے تھے : خدایا میری قوم کی ہدایت فرما ۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کہا گیا کہ مشرکین کیلئے نفرین کرو تو آپ نے فرمایا: ” انی لم ابعث لعانا و انما بعثت رحمة“۔ ( جنة النعیم ، ج ۱، ص ۴۵۴) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تاثیر صرف مسلمانوں کے لئے نہیں تھی اور نہیں ہے بلکہ حضرت ختمی مرتبت کی بعثت تمام عالم کے لئے تھی اور یہ رحمت اسی طرح جاری و ساری ہے ۔

لوگوں کے ساتھ حسن سلوک

 ہر سطح کے لوگوں کے لئے حسن سلوک کے ایک خاص معنی ہوتے ہیں ،ایک رہبر ،خطیب، امام جماعت یا تجارت کرنے والے کے لئے حسن سلوک کا مفہوم جدا ہوتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی خاص رفتار لوگوں کو اپنی طرف جذب کرسکتی ہے ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نماز میں بھی لوگوں کی تھکاوٹ کا خیال رکھتے تھے ،کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نماز جماعت کو لمبی کرتے تھے ، البتہ اگر کوئی جلدی جلدی نماز پڑھتا تھاتو آپ ناراض ہوتے تھے اور آپ اس کو یاددہانی کراتے تھے ۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے متعلق ملتا ہے : ” یکثر الذکر ، یقل اللعن، یطیلا لصلاة یقصر الخطبة و کان لایانف و لا یستکبر، یمشی مع الارملة و المسکین فیقضی له حاجته“۔ خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے، لعنت وملامت کم کرتے، نماز کو آرام سے پڑھتے،نماز کے خطبوں کو بہت کم پڑھتے، تکبر نہیں کرتے ، فقیروں اور یتیموں کے ساتھ بیٹھتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے ۔
اسی طرح آپ اس بات کی توقع نہیں کرتے تھے کہ لوگ آپ کااحترام کریں، البتہ خدا لوگوں سے یہی چاہتا تھا کہ وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا احترام کریں، لیکن خود پیغمبر اکرم احترام کے قائل نہیں تھے،اگر کوئی ان کے سامنے ان کے احترام میں کھڑا ہوتا تھا تو آپ ناراض ہوتے تھے ، اس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی بہت زیادہ محبت ہوگئی تھی ،ایک روایت میں ہے : ”انہ لم یکن شخص احب الیھم من رسول اللہ (ص) فکانوا اذا راوہ لم یقوموا الیہ لما یعرفون من کراھتہ لہ“۔عام لوگ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے زیادہ کسی کو دوست نہیں رکھتے تھے اس کے باوجود وہ جانتے تھے کہ پیغمبر اپنے سامنے کسی کے کھڑے ہونے سے ناراض ہوتے ہیں اس لئے وہ کھڑے نہیں ہوتے تھے ۔
مردم داری کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب آپ نماز پڑھاتے تھے اور کسی بچہ کے رونے کی آواز آتی تھی تو آپ چھوٹا سورہ پڑھتے تھے تاکہ نماز جلدی ختم ہوجائے ، جب آپ سے اس کی علت معلوم کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں نماز کو طول دیتا تو اس کی ماں کا خیال نماز سے ہٹ جاتا : ”فخشیت ان یشق ذلک علی ابویہ ۔
یہاں تک کہ آپ ضعیف ترین انسانوں کے پاس بھی جاتے تھے ، مدینہ میں ایک حبشی خاتون رہتی تھی جو مسجد کے کام انجام دیتی تھی ،کچھ دنوں کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس کو نہیں دیکھا تو لوگوں سے اس کے متعلق معلوم کیا ، سب نے کہا وہ مرگئی ہے ۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا : تم نے مجھے خبر نہ دے کر اذیت کی ہے ۔ اصل میں لوگ خیال کررہے تھے کہ اس عورت کی اتنی اہمیت نہیں ہے جو ہم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے بتائیں ، آپ نے فرمایا اس کی قبرکہاں ہے ، آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس پر درود و سلام بھیجا اور فرمایا : یہ قبریں ظلمت و تاریکی میں گرفتار ہیں اور ہمارے درود و صلوات بھیجنے سے نورانی ہوجائیں گی ۔ ” ان امراة سوداء کانت تقم المسجد او شابا، فقدها رسول اللہ (ص) فسال عنها او عنه، فقالوا  مات ، قال : افلا کنتم آذنتمونی؟ فکانھم صغروا امرھا او امرہ۔ فقال : دلونی علی قبرہ۔ فدلوہ فصلی علیه۔ ثم قال : ان ھذہ القبور مملوئة ظلمة علی اهلها، وان الله تعالی ینورها لهم بصلاتی علیهم (فتح الباری ، ج۳، ص ۱۳۳۷) ۔
لوگوں سے ارتباط برقرار کرتے ہوئے سوء ظن کو دور کرنا ایک اہم نکتہ ہے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں لوگوں سے کہا کہ اگر کوئی خیال کرتا ہے کہ میں نے اس کا کوئی حق ضائع کیا ہے تو وہ اپنا حق مجھ سے لے لے ، یہ لوگوں سے سوء ظن کو دور کرنا ہے ۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ صفیہ کہتی ہیں کہ رسول خدا اسامہ بن زید کے حجرہ میں (ص) اعتکاف کررہے تھے،ایک رات میں آپ کے پاس گئی اور آپ سے بات کرنے کے بعد واپس آنا چاہا تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مجھے پہنچانے کے لئے کھڑے ہوگئے ، راستہ میں انصار سے دوشخص ملے انہوں نے جب پیغمبر اکرم (ص) کو دیکھا تو اپنی رفتار کو بڑھا دیا ، پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ” علی رسلکما انها صفیة بنت حیی، قالا : سبحان الله یا رسول الله ۔ فقال رسول الله : ان الشیطان یجری من الانسان مجری الدم۔ و انی خشیت ان یقذق فی قلوبکما شیئا“ (مصنف ، ج۴، ص ۳۶۰) ۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : یہ صفیہ بنت حیی بن اخطب میری بیوی ہے ، انہوں نے کہا سبحان اللہ۔ حضرت نے فرمایا :شیطان، انسان کے بدن میں ، رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ، مجھے ڈر ہوا کہ تمہارے دلوں میں کوئی غلط چیز نہ آگئی ہو ۔

بادیہ نشیں افراد سے آپ کا سلوک

 پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بادیہ نشین معاشرہ سے سروکار تھا ، عربی معاشرہ نہیں ہے ، اس بناء پر بہت ہی نیچے کی سطح کی رفتار و سلوک کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تحمل کرتے تھے ۔ ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ایک اعرابی مدینہ آیا اور اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ مسجد کیا ہے اور اس نے مسجد کے ایک گوشہ میں جاکر پیشاب کردیا ، اصحاب ناراض ہوگئے اور اس کو برا بھلا کہنا چاہتے تھے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا اس کو اذیت نہ دو ، پھر آپ نے اس کو بلاکر سمجھا یا کہ مسجد عبادت اور نماز کی جگہ ہے ،اس طرح کے کاموں کی جگہ نہیں ہے ۔
معاویہ بن حکم کہتا ہے : ہم نماز پڑھ رہے تھے کسی کو چھینک آئی تو میں نے ”یرحمک اللہ “کہا ، سب میری طرف متوجہ ہوگئے ،اس شخص کو دوبارہ چھینک آئی توپھر میں نے ”یرحمک اللہ“ کہا ، جب میں نے دیکھا کہ لوگ میری طرف دیکھ رہے ہیں تو میں نے ان سے کہا تمہاری ماں تمہارے سوگ میں بیٹھے ، میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو ، لوگوں نے اپنی ران پر ہاتھ مارا ، میں چپ ہوگیا ، جب نماز تمام ہوگئی توآنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مجھے بلایا ، اور مجھے تعلیم دی ،خدا کی قسم میں نے اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ایسا معلم نہیں دیکھا جس نے اس طرح مجھے تعلیم دی ہو ، آپ نے نہ مجھے اذیت دی اور نہ میرے ساتھ غصہ سے پیش آئے ، صرف اتنا فرمایا : تم نے جو یہ نماز پڑھی ہے اس کے درمیان تم نے بات کی ہے لہذا اس نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ نماز ، تسبیح ، تکبیر اور تلاوت قرآن کریم ہے ۔ ” فسکت فلما سلم رسول الله من صلاته، دعانی فبابی و امی ما رایت معلما قبله و لا بعده احسن تعلیما منه ، والله ما ضربنی و لا نهرنی ولکن قال: ان صلاتک هذہ لا یصلح فیها شی من کلام الناس انما هی التسبیح والتکبیر و تلاوة القرآن“ (سبل الهدی ، ج۷، ص۱۹) ۔
دین کی تعلیم دینے کا طریقہ ایک دوسری روایت میں اس طرح بیان ہوا ہے : ایک شخص نے سوال کیا : یا رسول اللہ ، اگر نماز کا وقت آجائے اور میں مجنب ہوں تو کیا کروں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا کبھی کبھی میرے ساتھ بھی ایسا مسئلہ پیش آتا ہے ، اس شخص نے کہا : آپ ہماری طرح نہیں ہیں، اور آپ کو بخش دیا گیا ہے ، آنحضرت (ص) نے فرمایا : خدا کی قسم میں بھی چاہتا ہوں کہ خاضع و خاشع رہوں اور تقوی کے مواردسے آگاہ تر رہوں ۔ ” یا رسول الله تدرکنی الصلواة و انا جنب افاصوم؟آپ نے فرمایا : و انا تدرکنی الصلاة و انا جنب فاصوم ۔ فقال : لست مثلنا یارسول الله! قد غفر الله لک ما تقدم من ذنبک و ما تاخر۔ فقال والله انی لا رجو ان اکون اخشاکم لله و اعلمکم بما اتقی“۔ (صحیح مسلم ۱۱۱۰) ۔
جب معاذبن جبل اورابوموسی اشعری یمن جارہے تھے توپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : یسرا و لا تعسرا، بشرا ولا تنفرا (بخاری ۔ فتح الباری ۱۰۔ ۱۶۲۴) ۔نرمی سے کام لینا، سختی نہ کرنا ، بشارت دینا ، نفرت ایجاد نہ کرنا ۔
بہت سے لوگ مدینہ آئے اور سوال کیا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کس طرح عبادت کرتے ہیں ، جب انہوں نے آپ کی عبادت کے متعلق سنا تو احساس کیا کہ آنحضرت (ص) کی عبادت بہت کم ہے، سب نے کہا کہ وہ پیغمبر ہیں اور خداوند عالم نے ان سے سب چیزوں کو معاف کردیا ہے ،ان میں سے ایک نے کہا میں ہر رات کو صبح تک عبادت کرتا ہوں دوسرے نے کہا : میں ہمیشہ روزہ رکھتا ہوں ، تیسرے نے کہا میں اصلا شادی نہیں کروں گا ۔ پیغمبر اکرم نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا : تم نے اس طرح کہا ہے ،لیکن میں خاشع ترین اور متقی ترین ہوں اور تم ہی میں سے ہوں ، روزہ رکھوں یا نہ رکھوں، میں نماز پڑھتاہوں ، شادی کرتا ہوں اور یہ میری سنت ہے اور جو بھی مجھ سے ہے وہ میری پیروی کرے: ” اما والله انی لاخشاکم لله و اتقاکم له، لکنی اصوم و افطر و اصلی و ارقد و اتزوج من النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی (بخاری ، فتح الباری ،۹ ۔ ۵۰۶۳) ۔