یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ حاکمیت (2)


انھوں نے اس لفظ کے لئے جو مساوی مفہوم قرار دیا ہے اور آج کی عالمی سیاسیات کی بنیاد بھی وہی ہے، اس سے یہی مفہوم نکلتا ہے کہ "مشروعیت یا لیجیٹیمیسی ہر وہ چیز ہے جو اقتدار عطا کرتی ہے"۔ یعنی وہ چیز جو آپ کی قوت کو اقتدار اور استحکام میں بدل دیتی ہے مشروعیت یا قانونی جواز ہے۔
یعنی لیجیٹیمیسی وہ چیز ہے جو طبیعی اور فردی یا جماعتی قوت کو اعتباری (*) قوت یا اقتدار میں بدل دیتی ہے۔ ان کے نزدیک لیجیٹیمیسی یہی ہے۔
پولیٹیکل سائنس میں لیجیٹیمیسی سے مراد حق ہونا، حقانیت، شرعی حیثیت کا حامل ہونا اور حق پر ہونا، نہیں ہے۔ سیاسیات میں اقتدار کی روش سے بحث ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ جو آپ حق و باطل کی بات کرتے ہیں "یہ علمی بات نہیں ہے"۔
وہ کہتے ہیں کہ "علمی نہیں ہے" چنانچہ ہم اب دیکھتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں "علم" کیا ہے؟
ان کے نزدیک علم ہر اس وسیلے کا نام ہے جو آپ کی مدد کرے تا کہ آپ زیادہ تیزرفتاری سے اور کم خرچ پر اقتدار حاصل کرسکیں اور اس کا تحفظ کرسکیں۔ چاہے یہ وسیلہ مکاری، دھوکہ دہی یا حیلہ گری ہو، فوجی بغاوت ہو یا پھر جمہوریت بمعنی ڈیموکریسی ہو۔
اب اگر آپ دینی یا اخلاقی اصولوں کے مطابق انہیں قانونی یا غیر قانونی کا نام دیتے ہیں یا ان ہی اصولوں کے مطابق انہیں مشروع Legitimate یا غیر مشروع Illegitimate قرار دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ان معیاروں اور ان کے لئے مصداق یابی کے اس عمل کا علم سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں ہے!۔
چنانچہ ہم خود ان سیاسیات کو قابل قبول نہیں سمجھتے۔ یہ وہی علمانی (Secular) سیاست ہے جس کا مدار و محور دنیا اور جس کا دارومدار دنیا پرستی پر ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے دو قسم کی سیاست متعارف کرائی ہے؛ شیطانی (Evil Politics) اور عقلانی سیاست (Rational Politics) اس سیاست سے مراد عقلانیت ہے جو تربیت اور حقیقت و اخلاق و عدل سے جُڑا ہوا اور متصل ہے۔ وہاں طاقت اور دولت ہدف ہے اور یہاں یہ سب وسائل ہیں۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ سیاسیات کی دو قسمیں ہیں؛ اس کے باوجود بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ ہم سیاسیات کو اسلامی اور غیر اسلامی سیاسیات میں تقسیم نہ کریں۔
مشروعیت اور قانونی جواز مغربی سیاسیات کی تعریف کے مطابق یہ ہے کہ "یہ ہرگز طے نہیں ہے کہ حق حاکمیت (Right of Governance) کے لئے کوئی فلسفی اور برہانی دلیل (Philosophic & Demonstrarional logic) بھی ہو"۔ میں یہ نہیں کہتا کہ "ضرورت نہیں ہے کہ قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لئے کوئی برہانی اور فلسفی دلیل نہ ہو، یہ بھی نہیں کہتا کہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے لئے ایسی دلیل موجود ہو کیونکہ ممکن ہے کہ ان کے ہاں کسی حاکمیت کی مشروعیت کی کوئی برہانی یا فلسفی دلیل بھی ہو۔ لیکن اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ ہر وہ چیز جو شہریوں کی اطاعت پذیری کا سبب بنے اور اسے یقینی بنائے اور اطاعت پذیری کو فروغ دے وہی قانونی جواز اور وہی مشروعیت اور وہی لیجیٹیمیسی ہے۔
یہ عین وہی عبارتیں اور درسی متون اور سیاسیات کے میدان میں ہمارے آکادمک اور جامعاتی دروس ہیں۔
حق و باطل، عدل و ظلم، رشد و غَیّ (ہدایت و گمراہی)، کو ان مسائل میں کوئی عمل دخل نہیں دیا جاتا۔
فلسفۂ سیاست میں البتہ مشروعیت یا لیجیٹیمسی کا نسبتاً زیادہ گہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ نسبتاً زیادہ فلسفیانہ انداز سے سلوک کیا جاتا ہے لیکن سیاسیات کے اندر مشروعیت کے لئے اخلاقی اور بنیادی دلیل و سبب کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر طاقت و اقتدار حاصل کرنے اور اس کا تحفظ کرنے کے میکینزم اور طاقت و اقتدار کو منظم اور ریگولرائز کرنے سے بحث ہوتی ہے؛ ان کا اس ضمن میں حکومت کو تشکیل دینے والے اجزاء و عناصر سے کوئی سروکار نہیں ہے سوائے ان امور کے جو ظاہری اور نمائشی ہیں۔
اس موضوع پر بحث نہیں ہوتی کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اطاعت کی درخواست کیوں کرے؟ کیوں؟ اس کیوں کا کا سیاسیات میں کوئی بھی مدلل اور فلسفی جواب نہیں دیا جاتا۔
کہتے ہیں اس کا سیاسیات سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ دینی فلسفے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا تعلق اخلاقیات سے ہے؛ سیاست میں ہم حقیقی سیاست (Real Politics) کے درپے ہیں۔ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ ان کے ہاں حقیقت پسندانہ سیاست کا مطلب کیا ہے؟
حقیقت پسندانہ سیاست کا کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسی وقت کیونکر تیزرفتاری سے کم خرچ پر اقتدار حاصل کرسکتے ہیں اور اس کا تحفظ کرسکتے ہیں؟ صرف اور صرف طاقت و اقتدار کے لئے کوشش کریں اور بس۔ وہ ہمارے باتیں سن کر کہتے ہیں کہ یہ مباحث علمی نہیں ہیں، حقانیت کو الگ کرکے رکھیں؛ اور پھر اسی سیاست کو علمی اور ماڈرن سیاست کا نام بھی دیتے ہیں!۔
[مگر] اس سیاست میں کونسی چیز جدید ہے؟ [یا پھر شاید یہ سیاست آپ کے ہاں جدید ہے ورنہ ہمارے ہاں تو یہ بہت ہی پرانی ہے اور اس زمانے سے تعلق رکھتی ہے جب ہم کہتے تھے کہ حکومت الہی ہے اور مخالفین کہتے تھے کہ رسالت آپ کی حکومت ہماری؛ اور انھوں نے حکومت کو الہیت سے الگ کردیا یعنی] یہ تو وہی سیاست ہے جو معاویہ اور یزید نے نافذ کی تھی۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ اسی سیاست پر مذہب کی مہر بھی لگا دیتے تھے اور تم نے یہ مہر اس سے اٹھا دی ہے۔
ہم پوچھتے ہیں کہ آپ کیوں کہتے ہیں کہ جمہوریت یا ڈیموکریسی کے بازار میں معاشیات اور سیاست کو مطلق اور سو فیصد آزاد ہونا چاہئے اور اسے فلسفی، اخلاقی اور قانونی و حقوقی اصولوں سے مقید نہیں ہونا چاہئے؟ سیاسیات میں عام طور پر مشروعیت یا لیجیٹیمیسی کو عمرانیاتی اصطلاحات (Sociological Terminlolgy) کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس نقطہ نظر سے مشروعیت صرف اور صرف معاشروں میں اثر و رسوخ بڑھانے کی قوت کے عنوان سے زیر بحث آتی ہے اور اس میں قابل نفاذ اقتدار کی مقدار سے بحث کی جاتی ہے جس کے لئے دلیل پیش کرنے کی کوشش تک نہیں کی جاتی۔ لہذا سیاسیات کے میدان میں جب لیجیٹمیسی کی بات سامنے آتی ہے تو اس میں محض مقبولیت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ البتہ اتنا بھی اس قسم کے نظام میں عروج کی صورت میں ہوتا ہے یعنی صرف اس وقت ان مسائل کا لحاظ رکھا جاتا ہے جب حکومت جمہوری ہو۔
کبھی تو سیاست کے پس پردہ نہایت پیچیدہ اور خفیہ آمریت ہوتی ہے؛ کبھی سیاست کے پس پردہ اغنیاء اور صاحبان ثروت کی خفیہ حکمرانی (Oligarchy) ہوتی ہے اور یہ خفیہ آمریت یا اغنیاء کی خفیہ حکمرانی سیاست کے پس منظر میں اور جمہوریت کے پیش منظر میں اور بالکل سامنے ہوتی ہے۔ تاہم جمہوریت کی خالص ترین قسم ـ جو ابھی میدان عمل میں پرکھنے کے مرحلے تک بھی نہیں پہنچی اور فرض کی حدود تک محدود ہے۔ حتی کہ وہ خود کہتے ہیں کہ یہ جمہوریت ابھی تک عملی جامہ نہیں پہن سکی ہے اور اب تک ان کے لئے ایک آرزو ہے ـ میں بھی عمرانیاتی اصطلاحات سے فائدہ لیا جاتا ہے۔ جبکہ فلسفی اصطلاحات سے گریز کیا جاتا ہے اور ان سے کامیابی اور توفیق مراد لی جاتی ہے۔ مشروعیت اور حقانیت کے لئے سیاسی مشروعیت میں کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ اس مشروعیت پر عوامی اعتماد کا ہے یعنی "مقبولیت"؛ ورنہ تو بذات خود مشروعیت سے بھی ان کو کوئی سروکار نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ایک مثال جس پر دنیا کی سطح پر سیاسی علوم یا سیاسیات میں بحث ہوتی ہے۔
ماکس ویبر (Max Weber) مشروعیت یا حق حکومت کے نظریہ پردازوں میں سے ہیں؛ فلسفہ کی دنیا میں انہیں "سرمایہ داری کا مارکس" شمار کیا جاتا ہے [کارل مارکس کے مقابلے میں جو کمیونزم یا سوشلزم کے نظریہ پرداز ہیں] وہ اپنی کاوشوں میں "حقِ حاکمیت، حقِ حاکمیت کا منشأ اور غایتِ حاکمیت (Extremity of Rule) کے بارے بھی کہیں بھی سنجیدہ فلسفی بحث نہیں کرتے؛ دوسروں کی باتیں ضرور نقل کرتے ہیں لیکن کہیں بھی کوئی دلیل پیش نہیں کرتے۔ جب وہ مشروعیت کی تقسیم کرنا شروع کر دیتے ہیں تو مشروعیت کی تعریف کرتے ہوئے مشروعیت اور حقّ کے بارے میں عمرانی اور معاشرتی نقطہ نظر بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مشروعیت سے مراد کامیابی اور عوامی مقبولیت اور معاشرتی قبولیت (Social Acceptation) ہے وہ مشروعیت کو حکومت کی جانب سے حکومت کرنے کی دلیل قرار نہیں دیتے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ دونوں ضروری ہیں۔
اگرچہ لیجیٹیمیسی اور حقّ سیاست کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے لیکن ماکس ویبر (Max Weber) سیاسی اجبار (Political Obligation) کو مشروعیت کی بنیادی مشکل قرار دیتے ہیں؛ سو ان کے ہاں بھی حکومت کے لئے کہیں فلسفی اور اخلاقی دلیل نہیں دکھائی دیتی۔ ان کو صرف معاشرے پر اقتدار کے نفاذ کی کیفیت کی تو فکر ہے تا ہم حق و باطل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ کہتے ہیں حکومت کی بنیاد معاشرے کا عرف (Folkway) اور تاریخ یا پھر شخصیت کی اپنی قائدانہ صلاحیت (Charisma) ہے یا پھر بعض قوانین اور جدیدتر قانونی طاقت (Legal Power) ہے۔
دوسری طرف سے اس تفکر کے مخالفین بھی اسی شکل میں بحث کرتے ہیں۔ نیومارکسسٹس کہتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام میں شہریوں کی رضا و رغبت کے سرمایہ دارانہ مفہوم (Capitalistic Conception about people’s Acquiescence) کو ـ جو لبرل جمہوریت کی بنیاد ہے ـ مشروعیت یا حق حاکمیت سمجھی جاتی ہے، یہ کیسی مشروعیت ہے؟ شہریوں کی رضا و رغبت سے کیا مراد ہے؟ کہتے ہیں کہ وہ میکنزم ـ یعنی اصلاحات اور جمہوریت، رفاہ و فلاح اور سرمایہ داری، جس ـ کے ذریعے عوام کو راضی رکھا جاتا ہے یہ ظاہراً معاشرتی طبقات میں موجودہ تضادات کو حل کرنے کی کوشش ہے؛ کہتے ہیں یہ حق حاکمیت یا مشروعیت نہیں ہے بلکہ ایک قسم کے نظریاتی تسلط (Ideological Hegemony) کا تحفظ ہے۔
لبرل ڈیموکریسی میں عوامی حقوق اہم نہیں ہیں؛ آپ اس تسلط اور سرمایہ دارانہ نظریئے کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں لیکن کیسے؟
پھر ان ہی کی سیاسی تعلیمات میں دیکھتے ہیں کہ عوام کو دو طریقوں سے کچلا جاسکتا ہے:
ا۔ ڈندا اٹھا کر ان کے سر پر ماریں یا پھر
2۔ ان کے مغز اور ان کی سوچ کو اپنے استعمال میں لائیں، ان سانپوں کی مانند جو ضحاک (11) کے کندھوں پر تھے [اور اس کی کی خوراک لوگوں کا مغز تھا اور ہر روز ان دو سانپوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کئی انسانوں کا خون بہایا جاتا تھا؛ جب معاشرے کا مغز استعمال کرنا شروع کیا جائے] تو پھر وہ خود ذمہ داری کا احساس نہیں کریں گے، نہیں سوچیں گے اور اگر کبھی اچانک وہ سوچنا شروع کریں تو ان کے سرپر ڈنڈا ماریں؛ جیسا کہ اس وقت آپ یورپ میں دیکھ رہے ہیں کہ حالات حکومتوں کے قابو سے باہر ہوگئے ہیں۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ اور بلجئیم؛ لندن اور مانچسٹر کی یونیورسٹیوں کے طلبہ سڑکوں پر نکلے [وہ شاید سوچنے لگے ہیں شاید اب ان کا مغز بروئے کار لانا ممکن نہیں رہا یا پھر دشوار ہوگیا] آپ نے دیکھا کہ پولیس کس طرح زدوکوب کررہی تھی ان کو؟ وہی حکومتیں جو کہا کرتی تھیں کہ "ہماری پولیس کبھی بھی زد و کوب نہیں کیا کرتی ہم بات کرکے مسائل حل کرتے ہیں"؛ [اور ان کا مغز بروئے کار لانا جانتے ہیں]۔
جی ہاں! آپ بات کرتے ہیں لیکن اس وقت تک بات کرتے ہیں جب تک لوگ نہیں بولنا شروع نہیں کرتے۔ جب لوگ نہیں بولتے تو آپ بات کرتے ہیں بولتے ہیں لیکن جب وہ بولتے ہیں تو آپ لاٹھیاں برساتے ہیں۔
یورپ کے حالیہ بحران کے دوران ایک انگریز طالبعلم کا انٹرویو لیا جارہا تھا جس نے کہا: "ہم سوچا کرتے تھے کہ ہمارے حکمران دوسری اقوام کی ٹوپیاں چراتے اور انہیں دھوکا دیتے ہیں لیکن اب معلوم ہوا کہ وہ ہمیں بھی لوٹ رہے ہیں اور ہمیں بھی دھوکا دے رہے ہیں؛ ہم سوچ رہے تھے کہ شاید وہ دوسری قوموں پر تشدد کرتے ہیں لیکن اب دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہم پر بھی تشدد کرتے ہیں گویا اس سے پہلے دوسری قوموں کی باری تھی لیکن اب ہماری باری ہے"۔
یہ وہی بات ہے جس کا جواب نیو مارکسسٹ دیا کرتے تھے؛ وہ کہا کرتے تھے کہ "تمہاری مشروعیت () وہی نظریاتی تسلط کا تحفظ ہے جس کا نام تم جمہوریت، فردی حقوق، انسانی حقوق اور آزادی رکھتے ہو۔ یہ سب لفظوں کا کھیل ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ معاشروں (Capitalist Societies) میں بڑے بڑے بحران رونما ہوتے ہیں اور ان کا سبب بھی سرمایوں کے انبار لگانا ہے لہذا تم معاشروں کو اور شہریوں کو سکون دینے سے عاجز ہو لہذا یا تو تسلسل کے ساتھ بیرونی بحرانوں کو ہوا دیتے ہو یا پھر اگر بیرونی بحرانوں سے تمہارا مسئلہ حل نہ ہوا تو ملک کے اندر بحران کھڑا کردیتے ہو۔ چنانچہ جب تم لبرل قانونی جواز (Liberal Legitimacy) کی بات کرتے ہو تو تمہیں کسی شہری کے شہری حقوق سے کی فکر لاحق نہیں ہوتی بلکہ اپنا عمل جاری رکھنے کے لئے فکرمند رہتے ہو۔ تمہارے رویئے اور روشیں وہی کمیونسٹوں اور فاشسٹوں (()) والے رویئے اور روشیں ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ تمہاری روشیں ان سے تھوڑی زیادہ پیچیدہ ہیں۔
"پس یہ مشروعیت و قانونیت یا حقانیت نہیں ہے بلکہ طاقت و اقتدار کی دوسری شکل ہے"۔
یہ نیو مارکسستوں کا موقف ہے کہ تم مشروعیت اور اقتدار کے بارے میں اور اس کے حصول کی کیفیت کے بارے میں نہیں پوچھا کرتے، یہ طاقت کو بروئے کار لانے کی دوسری شکل ہے۔ اس کا نام تم جمہوری مشروعیت (Democratic Legitimacy) رکھتے ہو۔
میں یہاں قضاوت اور کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا۔ دونوں مشروعیتوں () کے مخالفین اور حامیوں (Neo-Leftists & Neo-Righists) نے اپنی اپنی مشروعیتیں پیش کردیں اور دونوں کا مدار و محور "تحفظ اقتدار کا امکان" ہے۔ دونوں کا مقصد یہ تھا کہ شہریوں کو اطاعت پر آمادہ کرنا ہے چاہے یہ اطاعت استبداد اور مطلق العنانیت کے ذریعے حاصل ہو چاہے جمہوریت کے ذریعے۔
وہ دنیا کی رائج سیاسیات میں اسی طرح بحث کرتے ہیں اور درحقیقت بحث کو بیچ سے ہی شروع کردیتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے سیاسی ـ فلسفی مباحث میں اور ہمارے اصولوں میں مسئلہ ابتداء سے اور جڑ سے شروع ہوتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے وجود شناسی، انسان شناسی، اقدار شناسی، معرفت شناسی، حقوق اور حق و باطل، عدل و ظلم، فلاح و رستگاری اور نجات اور فرد و معاشرہ اور شقاوت و سعادت سے معاملہ طے کرنا ہوتا ہے اور ان سے آگہی حاصل کرنی پڑتی ہے اور انہی کو بنیاد بنانا پڑتا ہے۔ جب یہ معلوم ہوجائیں تو دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔
دوسرے مرحلے میں طاقت و اقتدار کے مکینزم پر بحث ہوگی؛ کہ قبائلی بیعت کیا ہے؟ شہریوں سے ووٹ لینے کی کیا کیفیت ہے؟ اور نفاذ اقتدار اور اقتدار قائم کرنے کی دیگر اشکال کیا ہیں جو انسانی تاریخ میں گذری ہیں اور بعد کے زمانوں میں بھی نافذ ہونگی؟۔
حقیقت یہ ہے کہ کبھی بھی اس مسئلے کے بارے میں بحث نہیں ہوتی کہ معاشرے پر حکمرانی کس طرح ہونی چاہئے؟ اور اس موضوع پر بحث نہیں ہوتی کہ کس طرح ایک معاشرے میں حکومت کی جاسکتی ہے؟ کہیں بھی "باید (Ought)" کی بات نہیں ہے۔ جب باید "یوں ہونا چاہئے" کی بات آتی ہے تو لامحالہ حقوق اور اخلاقیات کی بات بھی سامنے آتی ہے اور آپ مجبور ہیں کہ فلسفی، اخلاقی اور شرعی دلیل پیش کریں۔ ان نظریہ پردازوں کا موقف ہے کہ "ہمیں یوں ہونا چاہئے اور یوں نہیں ہونا چاہئے" سے کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ یہ نظریات اور اعتقادات ہیں اور "Dogma" ہیں جن میں کوئی لچک نہیں ہے اور یہ باتیں علمی نہیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حق اور حقوق سے عمومی طور پر اور سیاسی، معاشرتی اور شہری حقوق سے خصوصی طور پر فلسفی ـ اخلاقی بحث کیونکر ممکن ہے؟ منطق حقوق (Logic of Rights) کیا ہے؟ یہ حضرات حقوق کو بھی ایک اوزار کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن اسلامی مفکریں سیاسی حقوق کو امام حسین علیہ السلام کی منطق کے دریچے سے دیکھتے ہیں، ان کی رائے کی کلیات کو میں نے سیدالشہداء سے منقولہ روایات میں ذکر کیا ہے جس کے متن میں بھی اور حاشیوں میں بھی ان مسائل پر بحث ہوتی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
معرفت شناسی (Epistemology) کے ضمن میں مختلف قسم کے نظریات و آراء میں کبھی بھی "فلسفہ حق" کے بارے میں بحث کرنے کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ مثلاً اگر اضافیت (یا نسبیت) (Relativism) ریبیت((())) (شکاکیت Skepticism) کا معتقد اضافیت پرست شخص قدیم یونانی دور کے سفسطے (یا قدیمی جھوٹے فلسفے) (Sophism) سے لے کر جدید دور کے سفسطے تک کوئی بھی حق کے بارے میں بات نہیں کرسکتا یا تحصلیت (Positivism) کا عقیدہ رکھنے والے حضرات ـ جو ہر چیز کے بارے میں تجربے کے قائل ہیں ((تجربہ پرستی اور تجربے و حسیت پرستی) کے قائل ہیں؛ اور محض تجربہ پسندی اور حسیت پسندی کے ذریعے تو ویسے بھی فلسفۂ حق سے بحث نہیں ہوسکتی، کیونکہ نہ حق تجرباتی اور (Experimental) ہے اور نہ فلسفۂ حق ایسا ہے۔ لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ سیاسیات کی جدید روشوں سے بحث کرنے والے حضرات مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں "عدل، حق، باطل، ظلم، اخلاقی مسائل، روایتی (Traditional) مسائل غیر علمی اور نظریاتی ہیں اور انہیں ایک طرف رکھ کر آئیں اور سیاست کے بارے میں علمی اور تجرباتی بحث کریں۔
طاقت و اقتدار کے بارے میں تجرباتی بحث کا مطلب یہ ہے کہ "وہ اقتدار اور طاقت کیونکر حاصل کرسکتے ہیں اور اس کا تحفظ کیونکر کرسکتے ہیں؟ اور یہاں باید و نباید (Ought or Ought not) کی بات نہیں ہوسکتی؛ اور اگر آپ اس کے بغیر کوئی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ غیر علمی ہے۔ محض تحصلیت (پازٹیوزم) اور تجربہ گرایی (())کے تحت ـ جو کہ دنیا کی جامعات کی غالب روایت ہے ـ حق اور حقوق کے فلسفے کی بات نہیں کی جاسکتی۔
عقل سے دور بھاگنے والی ہر (عقل گریز) سوچ کے نزدیک استدلال کی بات نہیں کی جاسکتی چاہے وہ تفکر مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر اشعریت؛ گو کہ میرے خیال میں اشعریت تحصلیت، شکاکیت (()) اور اضافیت جیسی افکار کے مقابل کھڑی ہے تاہم مسلمان اور مذہبی اشعری ایک طرف سے تحصلیت، شکاکیت اور اضافیت اور حسیت و (()) پر مبنی تفکرات کے آمنے سامنے ہے اور دوسری طرف سے شکاکین (()) سے بہت قریب ہیں۔ یعنی فرض کریں کہ ایک دائرہ ہے جس کی ایک انتہا پر ایک تفکر ہے اور دوسری انتہا پر دوسرا تفکر ہے لیکن یہ دونوں ایک دائرے کے اندر بالکل قریب قریب نظر آتے ہیں؛ اگرچہ یہ لوگ مذہبی ہیں اور اُن میں سے بعض غیر مذہبی اور بعض دوسرے مذہب کے بالکل مخالف ہیں لیکن حقیقت اور حقوق پر ان کی نگاہ تقریباً ایک ہی ہے۔ چنانچہ جن ممالک میں اشعری تفکر غالب اور اسلامی عقلانیت Islamic Rationality غائب ہے وہاں سیکولرزم اور علمانیت نے زیادہ تیز رفتاری سے نشو و نما پائی ہے۔ مثلاً بعض عرب ممالک اور بعض غیر عرب اسلامی ممالک ـ جن کا کلامی اور اعتقادی تفکر اشعری تھا ـ وہاں علمانیت تیزی سے پھیل گئی ہے۔ تحصلیت، شکاکیت، نسبیت، اور علمانیت کو ایران جیسے معاشرے میں ـ جس کی فکر عدل پسند اور عقلانیت پسند اسلام اور مکتب اہل بیت (ع) پر مبنی ہے ـ بہت زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ معاشرہ الف، باء، تاء سے لے کر یاء تک ہر حرف پر بحث کرتا ہے لیکن اشعریت میں بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ عالم اسلام میں اشعریت اور قدیم یونانی سوفسطائیت اور جدید سوفزم یا نئی سوفسطائیت کے درمیان شباہت پائی جاتی ہے۔ کیونکہ سوفسطائیت جب انتہاپسندی کی طرف مائل ہو تو شکاکیت کی شکل میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور اگر اعتدال کی طرف مائل ہو تو اضافیت پر جاکر رکتی ہے؛ یہ سوفسطائیت نفس الامری حقیقت ـ وہی معیار اور وہی پیمانہ جس کا اتباع انسان کے ذہنی اداراکات اور انسانی فکر پر لازم اور واجب اور انسانی فکر کو اس کے مطابق ہونا چاہئے ـ کو قبول نہیں کرتی۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ حق، حقیقت اور حقوق کے لئے کسی واقعی فلسفی کی تلاش نہیں کرنی چاہئے بلکہ حقیقت نیز انسانی حقوق، آپ کے اور آپ کے ذہن کے تابع ہیں۔ یہ آپ ہی تو ہیں جسے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا حق ہے اور کیا حقیقت ہے اور کیا حق نہیں ہے اور حقیقت نہیں ہے! کیونکہ نہ تو حق و حقیقت اور نہ ہی انسانی حقوق اور انسانی فرائض انسان کے لئے قابل ادراک حقیقت نہیں رکھتے۔
ان کی رائے کے مطابق ذہن اور نفس سے باہر کی دنیا میں کوئی نفس الامر نہیں ہے جس تک آپ پہنچنا چاہو۔ قدیم اور جدید سوفسطائیت کہتی ہے کہ حق کے لئے آپ کو فلسفی استدلال کی تلاش نہیں کرنی چاہئے۔ انسانی حقوق لئے فلسفی جڑیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ انسانی حقوق، سیاسی حقوق، سماجی حقوق اور خاندانی حقوق کی حمایت یا مخالفت میں آپ کسی استدلال کی طرف نہ جائیں۔ بلکہ قراراداد لکھتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں اور حکم سناتے ہیں کہ ہم جو بھی ارادہ کریں فرض کریں گے اور وضع کریں گے۔ وہی درست ہے۔ ان کی اس فکر کی جڑ یہ تفکر ہے کہ "انسان کسی مستقل حقیقت کے ادراک کے لئے فکری قوت سے لیس نہیں ہے"۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرف سے اشعری کیا کہتے ہیں؟ یہ بھی بعض احکام اور قوانین میں بعض اختلاقات دیکھتے ہیں اور صحیح تجزیہ کرنے سے عاجز ہیں۔ انھوں نے اسی بنا پر نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حقیقی اور واقعی صلاح و فساد [اور واقعی خیر و شر یا حسن و قبح یا بنیادی اچھائی اور برائی] دین اور شریعت کے احکام و فرامین کا مقیاس و میزان اور حقوق و عدل و انصاف کا معیار نہیں ہے! احکام کے لئے کسی بھی قسم کے ذاتی اور نفس الامری معیارات ـ جو انسان کے لئے قابل فہم و ادراک ہوں ـ موجود نہیں ہیں۔
ہماری بات بھی یہ نہیں ہے کہ تمام معیارات قابل فہم و ادراک ہیں، بلکہ ماننا پڑے گا کہ ایسے معیارات و ملاکات بھی ہیں [جو قابل فہم نہیں ہیں]؛ مثال کے طور پر جب شارع (خدا و رسول خدا (ص)) نے کوئی چیز حرام یا واجب قرار دی ہے یا مثلاً فرمایا ہے کہ یہ تمہارے حق و حقوق میں سے ہے یا تمہارے فرائض میں سے ہے اور وہ نہیں ہے، تو یہ حرام یا واجب یا حق یا فرض حقیقی اور نفس الامری معیارات و ملاکات کی بنیاد پر ہے۔ اشعری تفکر میں چونکہ حق، عدل اور شرع کے لئے کوئی معیار [پیشگی معیار یا قاعدہ] موجود نہیں ہے بلکہ احکام، حقوق اور عدل خدا کی جاعلیت کے تابع ہیں اور وہی انہیں جعل فرماتا ہے، اس حوالے سے اشعری سوفسطائیوں سے شباہت پیدا کرتے ہیں، کیونکہ سوفسطائی بھی حقیقت کو ذہن کا معیار و پیمانہ نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ذہن کو حقیقت کا مقیاس و معیار سمجھتے تھے۔ تاہم یہ لوگ مذہبی ہیں اسی لئے حق و عدل اور شرع کو جعل الہی کے تابع سمجھتے ہیں جبکہ سوفسطائی اسی کو بھی قابل قبول نہیں سمجھتے۔
اشعری کہتے ہیں کہ عقلی ادراک محال اور ناممکن ہے لیکن شرعی جعل قابل قبول اور موجود ہے اور سوفسطائی کہتے ہیں کہ دونوں باطل ہیں یعنی نہ عقلی ادراک ممکن ہے اور نہ ہی شرعی جعل موجود ہے۔ اسی فرق کے ساتھ دونوں کا مبنا (()) ایک ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر عقلانیت )( کی حدود میں اشعریوں کو دینی شکاکین (Skepticists) کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے؛ گو کہ اشعری کم از کم شریعت کے قائل ہیں۔ ان مسائل کے پیش نظر، ایک طرف سے ہماری اشعریت اور تحصلی مکتب کے درمیان اور دوسری طرف سے اشعریت اور مغرب کی جدید اور فوق جدیدModern & Post Modern) ) اور قدیم شکاکیت اور اضافیت کے قائلین (Relativists) کے درمیان متعدد شباہتیں موجود ہیں، کیونکہ یہ تین چار چیزیں عقلانیت سے مغایرت رکھتی ہیں۔ تا ہم اسلامی، شیعی اور اہل بیت (ع) کی منطق میں عقلانیت اور عدل ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں، اور آپ جب تک توحید اور وجود شناسی کے لحاظ سے حق و حقیقت کی بنیادوں اور جڑوں کو نہیں سمجھیں گے اور انہیں ثابت نہیں کریں گے منطق کے لحاظ سے انسانی حقوق، سیاسی معاشی، خاندانی حقوق اور اپنے فرائض کی حدود سے بحث نہیں کرسکیں گے۔ [جب ہم ان امور کا ادراک کریں گے اور ان کا اثبات کریں گے تو] تب ہی حقوق کی ہر فہرست جیسے: انسانی مرد، عورت، خاندان، بچوں، حکومت اور عوام کے سیاسی حقوق، معاشی حقوق اور معاشرتی حقوق کے لئے استدلال کرسکیں گے۔ حتی کہ ہمارے نقلی استدلال (قرآن وسنت سے دلیل) کے پس پردہ بھی عقل کا کردار ہے؛ لیکن [یہ ہماری بات ہے اور] مذکورہ بالا کوئی بھی مکتب ایسی بات نہیں کرسکتا کیونکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، ان سے کے مبادیات و مبانی مختلف ہیں۔
عالَم، انسان اور وجود کے بارے میں ہر مکتب کی اپنی نگاہ، اپنی رائے اور اپنی تفسیر ہے اور وہ انسان اور عالم اور انسان اور انسان کے درمیان حقوقی تعلق کی تعریف بیان کرتے ہوئے، اس رائے و اعتقاد کا اظہار کردیتے ہیں۔ جبکہ آپ اس سے وجود شناسی (Ontology)، خدا شناسی یا الہیات (Theosophy)، حقوق کا مسئلہ، حقوق و فرائض استخراج (Explore) کرسکتے ہیں۔ میرے لئے بعض لوگوں کی یہ بات سمجھنا مشکل ہے جو کہتے ہیں کہ "انسانی حقوق میں اسلامی اور غیر اسلامی کی کوئی قید نہیں ہے"۔
ہم پوچھتے ہیں کہ اس بات کا مطلب ہے کیا ہے؟ یہ جو آپ کہتے ہیں کہ حقوق اسلامی اور غیر اسلامی میں تقسیم نہیں ہوتے، اس کا مطلب کیا ہے؟ ظاہری طور پر حقوق و فرائض کی فہرست ایک اعتباری (*) امر ہے گوکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اس اعتباریت (*) کی جڑیں اصلی اور حقیقی ہیں۔ تمہاری اکثریت ـ جو حقوق کے لئے حقیقی جڑوں کے قائل نہیں ہے اور عام طور پر محض اعتباری (*) سمجھتے ہیں اور تقریباً اسے قرادادی (Conventional) اور سماجی اعتبارات (*) کی طرف لوٹاتے ہیں۔ پھر کیسے کہتے ہیں کہ حقوق، اسلامی اور غیر اسلامی میں قابل تقسیم نہیں ہیں؟ آپ ہر زمانے اور ہر معاشرے میں اسی زمانے اور اسی معاشرے کے لئے خاص حقوق بیان کرتے ہیں، کیونکہ آپ کے ہاں تمہارے پاس ان حقوق کے لئے کوئی مدلل اور استدلالی معیار نہیں ہے؛ تحصلی حقوق (Positivistic) اور قراردادی (Conventional) حقوق ہیں کیا؟ اگر آپ جواب دیں کہ "ہم انسانی حقوق کو محض جمہوریت کی بنیاد پر متعین کرتے ہیں" تو ایسی صورت میں آپ کے پاس جمہوریت کے لئے کوئی معیار نہیں رہ سکے گا جس کی روشنی میں آپ کسی چیز کے بارے میں فیصلہ دے سکیں؛ آپ بتائیں کہ حقیقتاً انسان کا حق کیا ہے اور انسان کا حق کیا نہیں ہے؛ بلکہ آپ کو یوں کہنا پڑے گا کہ "ہر معاشرہ ہر خطے اور ہر علاقے میں اپنی تہذیب و ثقافت کی روشنی میں ـ جس چیز کو خود حق سمجھے وہی اس معاشرے کے نزدیک اس معاشرے کا حق ہے!"
جاری ہے