یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ حاکمیت (3)


[یعنی مغربی معیاروں کے مطابق] مختلف زمانوں میں مختلف قسم کے معاشروں کے لئے حقوق الف، حقوق ب، حقوق ج اور حقوق د مد نظر رکھنے پڑیں گے [اور ان کی طبقہ بندی کرکے ہر معاشرے کے لئے اس کی اہمیت کے اعتبار سے ہی حقوق متعین کرنے پڑیں گے] یوں ہمارے پاس دنیا کے متعدد معاشروں کی تعداد کے مطابق مختلف قسم کے انسانی حقوق متصور ہونگے۔ اور ہاں!
ہم ایسی کسی بات کے قائل نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے کئی افراد ہیں جو مغربی مشینریوں کا جواب دینا چاہتے ہیں کہ وہ ایک طرف سے انسانوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور دوسری طرف سے دنیا کی سطح پر انسانی حقوق کی پولیس کا کردار بھی خود ہی ادا کرنے پر اصرار کررہے ہیں۔ ان کے پاس کئی ہزار ایٹمی میزائل ہیں اور ایٹم بم مار کر انسانوں کا قتل عام کرتے ہیں اور خود ہی ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے پولیس کا کردار بھی خود ہے ادا کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی اور بھی ایٹم بم بنادے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ان کا یہی کردار ہے۔ دوصدیوں کے دوران مختلف قسم کے عظیم ترین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ خود ہی انسانی حقوق کی پولیس کا کردار بھی ادا کرنے کا دعوی کرتے ہیں! اب ہم میں سے بعض ان کی ان پالیسیوں کا جواب دینا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "انسانی حقوق ایک تہذیبی مقولہ اور ثقافتی زمرہ (Cultural Category) ہے؛ آپ کے انسانی حقوق یوں ہیں اور ہمارے انسانی حقوق یوں ہیں۔ لیکن یہ ایک سیاسی جواب ہے؛ ایک فلسفی جواب نہیں ہے۔
فلسفی جواب یہ ہے کہ اصولی طور پر انسانی حقوق یہاں اور وہاں، اس زمانے میں اور اُس زمانے میں، اِس قوم میں اور اُس قوم میں الگ الگ نہیں ہیں۔ انسانی حقوق ایک ثقافتی زمرہ نہیں ہے بلکہ ایک فلسفی ـ اخلاقی زمرہ ہے جس کی جڑیں شریعت میں پیوست ہیں۔ ہم پوری دنیا کے لئے انسانی حقوق کا ایک ہی نظام تیار کرسکتے ہیں، کیونکہ انسان دنیا کے ہر خطے میں انسان ہی ہے اور انسان کی سعادت و شقاوت ایک ہی ہے اور سب انسانوں کا خدا بھی ایک ہی ہے؛ تاہم سوال یہ ہے کہ حقوق انسانی کا وہ نظام جو تمام زمانوں میں تمام انسانوں کے شایان شان ہے وہ توحیدی ـ اسلامی نظامِ حقوقِ انسانی ہے یا پھر مارکسسٹ ـ فاشسٹ اور لبرل نظامِ حقوقِ انسانی ہے؟ انسانی حقوق کے بارے میں اس طرح بحث ہونی چاہئے؛ نہ یہ کہ ہم کہنا شروع کریں کہ آپ کے ہاں انسانی حقوق کی تعریف یہ ہے تو ہمارے ہاں انسانی حقوق کی تعریف یہ نہیں ہے بلکہ وہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق کے ساتھ اس طرح کا ساپیکشوادی اور اضافیت پرستانہ (Relativistic) برتاؤ کرنا درست نہیں ہے۔ اور یہ بھی قابل غور ہے کہ جو لوگ ہماری طرف سے یہ بات کررہے ہیں وہ بھی شاید ان کے ہی اصولوں سے استناد کررہے ہیں!۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ انسانی حقوق ایک ثقافتی مقولہ ہے، یہ ان ہی کے اصولوں کے مطابق درست ہے لیکن ہمارے اصولوں کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ یہ بہت اہم مباحث ہیں اور دنیا میں انہیں سنجیدگی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر بحث کا فلسفہ یہ ہے کہ حقوق انسان، سیاسی حقوق، حق حکمرانی اور مشروعیت یا قانونی جواز و استحقاق کی تعریف کیا ہوگی؟ جواب یہ ہے کہ سیاسی اور معاشی حقوق کے نظام کے پس منظر میں اور اس کے پس پردہ مادی (Materialistic) فلسفہ ہے یعنی اگر آپ کے خیال میں الہی شعور نے عالم و انسان اور انسان و ہستی کے درمیان کسی قسم کا با مقصد رابطہ اور کوئی آخری تعلق (Ultimate Interest) مدنظر نہیں رکھا ہے اور اگر آپ کے نزدیک عالم و انسان کے لئے کوئی مبدأ و معاد اور غایت و انجام قابل قبول نہیں ہے؛ تو آپ یقیناً عدل، آزادی، انسانی حقوق، حقوق نسوان، حقوق مردان، سیاسی حقوق اور مشروعیت یا قانونی جواز کے لئے کوئی بھی فلسفی اور استدلالی مبادیات و مبانی (Basics or Principles) پیش نہیں کرسکیں گے۔
بے شک وہ اس سلسلے میں شاعرانہ گفتگو کرسکتے ہیں اور حتی شاعری بھی کرسکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں کوئی فلسفہ نہیں لاسکتے۔ جس طرح کہ ایک شخص مادہ پرست (Materialist) اور وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عالم میں مادی (Matter) کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، اور ساتھ ہی "فداکاری" اور "معنویت" کی دعوت بھی دیتا ہے! جبکہ یہ تضاد اور تناقض ہے، کیونکہ ایک طرف سے آپ مجھے جتانا چاہتے ہیں کہ مادہ اور مادہ پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور اگر آپ کی بات درست ہے اور انسان ایک منفعت طلب اور مفاد پرست حیوان ہے تو پھر یہ انقلاب، جدوجہد، قربانی، فداکاری اور ایثار و درگذر کی دعوت کیوں دیتے ہیں؟ یہ شاعری تو ہوسکتی ہے لیکن فلسفہ نہیں ہوسکتا۔ صرف وہ شخص قربانی اور ایثار کی طرف دعوت دے سکتا ہے جو عالم کو محض مادہ نہ سمجھتا ہو، انسان کو ایک پست اور خودپسند مخلوق کے عنوان سے متعارف نہ کرائے بلکہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایک الہی روح کا حامل متعارف کرائے۔ جو شخص انسان اور عالَم کی معنوی تعریف کرتا ہے وہ معنوی اور روحانی ہدایات دینے کا استحقاق رکھتا ہے تاہم جس منطق اور مکتب کی رائے یہ ہے کہ مادہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور کسی بھی چیز کو حسیات اور تجربات کے سوا کوئی بھی معرفت و شناخت قابل قبول نہیں ہے تو وہ کیونکر انسان کی کرامت و شرافت و آزادی اور انسانی حقوق کے تقدس کی بات کرسکتا ہے؟ اصولی طور پر یہ مکتب یہ باتیں لایا کہاں سے ہے؟ تقدس، کرامت و شرافت معنوی مفاہیم ہیں اور مادی مفاہیم نہیں ہیں۔
معرفت شناسی (Epistomology) اور وجود شناسی یا علم موجودات (Ontology) کے حوالے سے اپنے خاص قسم کے نظریات کے ہوتے ہوئے آپ کو ایسی باتیں نہیں کہنی چاہئیں کیونکہ یہ مہملات اور تضادات ہے۔ [البتہ ممکن ہے کہ وہ ان اصطلاحات سے دھوکے اور فریب کا کام لینا چاہیں جو "ہر قیمت پر اقتدار کے حصول اور ہر قیمت پر اس کے تحفظ کے مغربی نظریئے سے مطابقت رکھتا ہے]۔
ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں جو قانونی جواز یا مشروعیت، عدل، آزادی، انسانی حقوق اور سیاسی حقوق کی تعریف و تشریح کرتے ہیں، کہ کیا آپ کے نقطۂ نظر سے انسان اور عالم کے درمیان کوئی حقیقی ـ کائناتی اور با معنی رابطہ ہے یا نہیں ہے؟ اگر کوئی رابطہ نہیں ہے تو آپ کی منطق میں حقوق، عدل، آزادی اور مشروعیت کے لئے کوئی واقعی اور حقیقی معیار نہیں ہوسکتا اور آپ اس کے اثبات کے لئے فلسفی استدلال نہیں کرسکتے اور یہ مفاہیم (Concepts) عقلی استدلال (Rational Reasoning) کے لئے کوئی عقلی استدلال ممکن نہیں ہے۔ اگر ـ انسان اور عالم کے درمیان کوئی حقیقیقی ـ تکوینی (Cosmic) رابطہ ہے ـ اور ہمارے اعتقاد کے مطابق یہ رابطہ موجود ہے ـ پس ہمیں عالم اور انسان کے لئے شعور، غایت و انجام اور حساب و کتاب کا قائل ہونا پڑے گا اور ہمیں اس حقیقت کا قائل اور معتقد ہونا پڑے گا کہ عالم اور انسان کے لئے شعور بھی ہے، غایت و غرض بھی ہے اور حساب و کتاب بھی ہے۔ ہمیں فلسفی انداز سے توحیدی نگاہ ڈالنی پڑے گی تاکہ ہم حقوق اور اخلاق کے لئے فلسفی دلیل فراہم کرسکیں بصورت دیگر حقوق بھی اور اخلاقیات بھی محض قراردادی (Conventional) اکثریتی اور عرفی ہوجائیں گی، کیونکہ اس صورت میں اس کا کوئی معیار نہیں ہے اور ان لئے استدلال نہیں کیا جاسکے گا۔ اس اصول کے مطابق ہم کہہ سکیں گے کہ "الف" کا عمل برا ہے اور کیوں برا ہے؟ یعنی ہم اس کے لئے فلسلفی استدلال کرسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ "الف" نامی شخص کے اعمال انسانوں کی شقاوت کا باعث بنتے ہیں۔ کیونکہ سعادت اور شقاوت کے لئے انسان کی تعریف یہی ہے۔ گو کہ ظاہری طور پر اخلاقیات اور حقوق اعتباری (*) ہیں لیکن ہم ان کے لئے فلسفی دلیل لاسکتے ہیں، کیونکہ اعتبار (*) ایک حقیقی بنیاد پر مبنی ہے اور اس کا سرچشمہ بھی حقیقی ہے محض اعتباری (*) ہی نہیں ہے، لیکن جو لوگ عالم اور انسان کے لئے مبدأ و غایت اور معنی کے قائل ہی نہیں ہیں، وہ حقوق اور اخلاق کے لئے فلسفی برہان (Philosophic Demonstration) نہیں لا سکتے۔ یہ بہت اہم نکات ہیں اور بعض مباحث میں ان سے غفلت برتی جاتی ہے۔
سیاسی مباحث میں تو ان مسائل کی گنجائش نہیں ہے تاہم فلسفی مباحث میں اس قضیئے میں مضبوطی سے کھڑا ہونا چاہئے۔ اگر کہیں آپ
دیکھتے ہیں کہ ان مسائل میں وہ استدلال کررہے ہیں تو یقینی طور پر وہ اپنے اصولوں کے پابند نہیں رہے ہیں اور حقیقت میں وہ دھوکے بازی فراڈ (Sharp Practice) کا دامن تھامے ہوئے ہیں، مثال کے طور پر ایک مغربی مفکر کسی وقت "کارل مارکس" پر تنقید کررہا تھا کہہ رہا تھا: "مارکس نے خدمات کیں اور نقصانات بھی پہنچائے، لیکن اس نے ایک بڑی ٹهگی اور مکاری بھی کی ہے وہ یہ کہ "کہ وہ (مارکس) فلسفی حوالے سے مادہ پرست (Matterialis) ہیں اور کہتے ہیں کہ مادہ کے سوا کوئی چیز بھی نہیں ہے لیکن معاشرتی حوالے سے ایک معاشرتی مصلح میں تبدیل ہوگیا اور اس نے عوام سے مسیح کی زبان میں بات کی"؛ کہا کرتے تهے کہ "اے معاشرے کے محنت کشو! متحد ہوجاؤ، قربانیاں دو اور قیام عدل کے لئے مارے جاؤ" جبکہ یہ باتیں مادہ پرستی سے تعلق نہیں رکھتیں اور ان کا فلسفی مادیت (Philosophic Matterialism) سے کیا تعلق ہے؟ جدلی یا مناظراتی مادیت میں کہا جاتا ہے کہ "عالم جبری طور پر مختلف مراحل سے گذرتا ہے اور بعض مراحل تک پہنچتا ہے۔ اس تسلسل میں انسان کا ارادہ غیر مؤثر ہے اور اس کی معنویت اثرانداز نہیں ہوتی۔ مارکس ایک روزنامہ نویس تھے، جب وہ اس طرح کا فلسفہ لے کر میدان سیاست میں اترتے ہیں تو کچھ اور لکھنے لگ جاتے ہیں جس کا ان کے ابتدائی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہاں وہ مسیح کی ادبیات سے استفادہ کرتا ہے۔ مسیح (ع) یہ باتیں کرسکتے تھے کیونکہ مسیح علیہ السلام کی باتوں کی بنیاد معنوی ہے؛ اب سوال یہ ہے کہ مارکس نے کیوں اس قسم کی ادبیات سے استفادہ کیا ہے"۔ لبرلزم اور کمیونزم کا یہی حال ہے۔ اگر یہ مکاتب اپنے اصولوں کے پابند رہیں تو وہ انسانی حقوق، انسانی عظمت و کرامت کے شعبوں میں بہت سے نعرے ـ جو وہ دے رہے ہیں ـ نہیں دے سکیں گے، کہ یہ نعرے ان مکاتب کے اصولوں سے مغایرت و منافات رکھتے ہیں۔ لیکن حسین بن علی علیہ السلام نے یہی باتیں اپنی توحیدی اور یکتا پرستانہ نگاہ سے کیں کیونکہ ان باتوں کے لئے استدلال کیا جاسکتا ہے۔
میں یہاں ایک استدلال کی طرف اشارہ کرکے اپنے عرائض مکمل کرتا ہوں۔
جو کچھ میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہمارے اسلامی مفکرین نے کہا ہے اور میں دوستوں سے فلسفۂ حقوق کے سلسلے میں آیت اللہ مصباح اور آیت اللہ شہید مطہری نیز علامہ سیدمحمد حسین طباطبائی کی کاوشوں کی طرف رجوع کرنے کی سفارش کرتا ہوں۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ فلسفۂ حقوق (())) کے سلسلے میں ان بزرگوں کے آثار کا ضرور مطالعہ کریں تا کہ آپ دیکھ لیں کہ یہ بزرگ دقیق استدلال کرتے ہیں اور بتادیتے ہیں کہ ہم کن فلسفی دلائل کے ذریعے سے اخلاق اور حقوق کے سلسلے میں استدلال کرتے ہیں اور ہم اس طرح بات کرسکتے ہیں، جبکہ مادیت پرست ایسی بات نہیں کرسکتے اور ایسا استدلال نہیں کرسکتے۔
میں چند ہی آخری دقیقوں میں آخری عبارتیں آپ کے لئے پڑھ لیتا ہوں، البتہ میں ان عبارات کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کروں گا؛ تا ہم یہ وہ عبارات ہیں جن پر ان بزرگوں نے کام کیا اور متعدد کتابیں تألیف کی ہیں۔ میں دوستوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ان کتابوں کا ضرور مطالعہ کریں۔
ہمارے بزرگ اخلاقیات اور حقوق کے لئے جو فلسفہ بیان کرتے ہیں ان کا آغاز یوں ہوتا ہے: توحیدی تفکر میں اشیاء کے درمیان، اور اشیاء اور انسان و عالم کے درمیان ایک با مقصد تعلق ہے، یعنی یہ کہ یہ تمام اشیاء بے معنی نہیں ہیں اور نظام، ضابطے یا قاعدے کے بغیر نہیں ہیں؛ یعنی یہ کہ آپ خود ہی ان کے لئے "چاہئے" یا "نہیں چاہئے" (Ought or Ought not) وضع نہیں کرسکتے۔ جب کہا جاتا ہے کہ عالم قاعدے اور ضابطے پر مبنی ہے اور یہ کہ عالم پر حکمت و مقصدیت (غایت) کی حکمرانی ہے؛ یعنی ہرچیز کسی چیز کے لئے ہے۔ وہ عدل کی تعریف یوں کرتے ہیں: کہا جاتا ہے "العدل هو وضع شیئٍ فی موضعه" "العدل هو وضع كل شيء في موضعه" (کسی چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھ لینا عدل ہے)، ہر چیز اپنے مقام پر۔
ممکن ہے کوئی پوچھ لے کہ پس ہر چیز کا مناسب مقام کیا اور کہاں ہے؟ کیونکہ یہ جملہ عدل کے مصادیق کے لئے کافی نہیں ہے اور اس قاعدے کے مصادیق بھی معلوم نہیں ہیں ہر چیز کا اصل مقام کہاں ہے؟ یہاں ہم عقل کے ساتھ شرع کے تعلق سے ـ وہ بھی وحی کی مدد سے ـ ان مصادیق کا ادراک کرسکتے ہیں۔ تاہم ایک طرف سے یہ تعریف کافی ہے جو ہمیں کہتی ہے کہ یہ جہان قاعدے اور قانون کے بغیر نہیں ہے۔ عدل سے مراد تمام فرائض اور حقوق ہیں؛ چنانچہ ہر چیز کا اپنا مقام ہے پس ممکن نہیں ہے پس [حقوق و فرائض تعریف شدہ ہیں اور موجود ہیں اور] ہم ہر چیز کو اپنے لئے حق قرار نہیں دے سکتے اور مطلق طور پر اپنے لئے کوئی فرض (Assumption)وضع نہیں کرسکتے۔ اگر آپ اس قاعدے کو قبول کرتے ہیں [اور اس کی تردید و انکار کے لئے آپ کے پاس کوئی فلسفی اور شرعی دلیل نہیں ہے] تو [ماننا پڑے گا کہ] حقوق، "فلسفہ، اصول، منطق اور معیار" پر مبنی ہیں۔ توحیدی اور قرآنی منطق میں حقوق اور فرائض ـ یعنی عدل ـ اور حقیقتِ عالَم اور حقیقت انسان ـ کے درمیان ایک حقیقی نسبت موجود ہے جو فرضی (Assumptional) اور قراردادی (Conventional) نسبت نہیں ہے؛ تاہم یہ سب صرف آخرت ہی کے لئے بھی نہیں ہے بلکہ اس کے دنیاوی آثار بھی ہیں۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہم صرف وراءِ مادہ تفکر کی روشنی میں بحث کررہے ہیں کہ مثلاً آپ عدل کا نفاذ کریں تا کہ آخرت میں اس کا ثواب پائیں اور اقبال مند ہوجائیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ نفاذ عدل کا آپ کو اسی دنیا میں بھی فائدہ ملتا ہے؛ جبکہ اس دنیا بھی آپ کا ثواب اور ثمرہ محفوظ ہے۔ یہ سب حقیقی ہیں یعنی اس کے آثار و فوائد دنیا میں واقعی ہیں نیز آخرت میں بھی اس کا ثواب واقعی ہے۔
ان روایات میں فرمایا گیا ہے: "الرعية سواد یستعبدهم العدل" (12) [امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: رعایا ایک سایہ ہیں جس کو عدل ہی اپنی اطاعت پر آمادہ کرتا ہے]۔
یعنی یہ کہ آپ چاہے قانونی جواز یا لیجیٹیمیسی کے مغربی مفہوم کی پیروی کرتے ہوئے صرف مقبولیت اور عوام میں اثر و نفوذ کمانے کے خواہاں ہی کیوں نہ ہوں؛ اس کا راستہ بھی نفاذ عدل ہے۔ یعنی فضیلت، آخرت، فلاح و بھلائی سے در کنار، اگر آپ صرف دنیا میں ہی لوگوں کے لئے قابل قبول بننا چاہیں یعنی یہ کہ اگر آپ محض معاشرے پر مسلط ہوکر اس کا کنٹرول سنبھالنے چاہتے ہیں، اس کے حصول کے لئے بھی عدل کے نفاذ کا راستہ اپنانا پڑے گا کیونکہ لوگوں کو بہرصورت عدل و انصاف تک پہنچنا ہوتا ہے۔ آپ عدل کے ذریعے ہی عوام کو سکون دے سکتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کو فرمانبردار اور پرسکوں بنانا چاہتے ہیں [اور ان کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں] اور چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے بندے اور غلام ہوں پھر بھی آپ کو عدل و انصاف قائم کرنا پڑے گا اور انہیں عدل و انصاف تک پہنچانا پڑے گا؛ انہیں ان کے حقوق دلانے پڑیں گے تب ہی وہ آپ کے تابعدار ہونگے اور آسانی سے آپ کے اقتدار کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پڑیں گے۔ یہ اس صورت میں ہے جب آپ محض اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ [یقینی امر ہے کہ جب آپ عدل بھی نافذ کریں گے اور آپ کا ہدف بھی دینی اور معنوی ہو اور ہدف بھی نفاذ عدل اسلامی ہو تو معنوی اور اخروی بہرہ مندی کا باعث بھی ہوگا]۔
یہاں آپ (ع) نے فرمایا: عوام حاکمیت کے لئے خزینے اور بینک لاکر (Bank Locker) کا مقام رکھتے ہیں "فما اودعها من عدل او جور وجده" (13) پس ان کے دل اپنے اندر صرف وہی چیزیں ذخیرہ کرتے ہیں جو حکام اور فیصلہ ساز قوتیں ان کے دلوں میں ودیعت رکھتے ہیں اسی طرح کا ثمرہ پاتے ہیں؛ [وہ عدل رکھیں گے اس لاکر میں اس کا وہی نتیجہ دیکھیں گے، اگر اس میں ظلم و جور رکھیں گے، تو انہیں اسی طرح کا پھل ملے گا]، اگر وہ اس کھیت میں کینہ اور دشمنی بوئیں گے انہیں وہی ثمرہ ملے گا، اور عشق و محبت بوئیں گے تو انہیں عشق و محبت کا ثمرہ ملے گا۔ اعلی سطحی معاشرتی انتظامات کے موضوع میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ جیسا رویہ روا رکھیں گے معاشرے سے اسی طرح کا جواب وصول کریں گے۔ اگر صادقانہ رویہ اپنائیں گے لوگوں سے بھی صداقت اور صادقانہ رویہ ملے گا؛ اگر ان کے لئے قربانی دیں گے تو ان کی جانب سے قربانیاں ملیں گی؛ جھوٹ بولیں گے [اپنی پالیسیاں نافذ کرنے اور اپنا اقتدار محفوظ کرنے کے لئے] تو وہ بھی [اپنا کام نکالنے کے لئے] جھوٹ کا سہارا لیں گے؛ اگر آپ حاکم ہو کر [مملکت کے وسائل لوٹنے کے لئے] فراڈ اور دھوکہ دہی کا سہارا لیں گے؛ تو [اچھی اور عادل حاکمیت سے محروم اور صحیح رستوں سے اپنے مسائل حل کروانے سے مأیوس] عوام بھی دھوکہ دہی کا سہارا لیں گے حتی ممکن ہے کہ وہ آپ کو ہی اپنے فراڈ کا نشانہ بنائیں۔
چنانچہ جو کچھ ہم عدل کے بارے میں کہتے ہیں اس کا تعلق صرف آخرت سے ہی نہیں ہے؛ گو کہ مسئلے کی بنیاد آخرت ہی ہے؛ تا ہم عدل کے نفاذ سے ہماری دنیاوی سعادت کی ضمانت بھی ملتی ہے۔
حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ایک مقام پر اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: (12)
"اما و الذي فلق الحبة، و برأ النسمة"،
قسم ہے اس ذات کی جس نے جانداروں کو حیات عطا کی اور دانی کو شگافتہ کی
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق کے دنیاوی اور اخروی آثار ہوتے ہیں۔
" لو اقتبستم‏العلم من معدنه "،
اگر تم علم و دانش اس کے اصلی مقام سے اخذ کرتے یعنی اگر ہم [اہل بیت (ع)] کو بولنے دیتے اور ہمارا راستہ نہ روکتے اور ہمیں معاشرتی حیات سے حذف نہ کرتے؛
"و ادخرتم‏الخير من موضعه"
اور بھلائیوں کا ان کے اصل سرچشمے سے ذخیرہ کرتے؛
"و اخذتم‏الطريق من وضحه"،
اگر تم راستے پر اس کے واضح اور روشن سرے سے گامزن ہوتے اور نوالہ گردن کے پیچھے سے گھما کر کھانے کی کوشش نہ کرتے،
"و سلكتم من الحق نهجه"،
اگر حق کی تلاش کے لئے اسی راستے پر قدم رکھتے جو حق لئے بیان ہوتا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیان فرمایا تھا؛ نہ صرف قیامت میں نجات یافتہ ہوتے بلکہ تمہاری دنیا بھی درست سے درست تر ہوجاتی اور تم قیامت میں بھی فلاح یافتہ ہوتے؛
" لنهجت‏بكم‏السبل"،
اگر تم ایسا کرتے تو رشد و ہدایت ، فتحیابی، رفاہ و بہبود کے مختلف راستے تمہارے لئے کھل جاتے حتی تمہاری دنیا کے لئے بھی۔
"و بدت لكم الاعلام"،
اور راستے دکھانے والی نشانیاں تمہارے لئے روشن ہوجاتیں؛
"و اضاء لكم‌ الاسلام"،
اور اسلام کی تابندگی تم پر چھا جاتے
"و اكلتم رغدا "،
اور جیسا تمہا را جی چاہتا اس میں سے مزے لے کر اور بے فکر ی کے سا تھ غذا حا صل کرکے کھالیتے
"اكل رغدا"، یعنی دنیاوی فلاح و بہبود۔
جیسا کہ ترقی سے مطلب لیا جاتا ہے؛ یعنی اگر تم ہمارے حق میں نازل و صادر ہونے والے احکام الہی اور فرامین نبوی پر عملدرآمد کرتے تو تمہاری دنیا بھی مکمل طور آباد ہوتی اور تم بالکل آباد و خوشحال ہوتے۔
"و ما عال فيكم عائل"،‌
اور اس اسلامی معاشرے میں کوئی بھی ذاتی اور گھریلو اخراجات برداشت کرنے سے عاجز نہ ہوجاتا؛ اگر تم اسی مشروعیت اور حاکمیت کے اسی قانونی جواز کے پابند رہتے جو ہم (محمد و آل محمد (ص)) نے بیان کیا تھا اور اسی راستے پر گامزن ہوتے جو ہم نے تمہیں دکھایا تھا اور اسی راہ پر آگے بڑھ جاتے اور محض دنیاوی اقتدار کا پیچھا نہ کرتے پوری اسلامی امہ میں حتی ایک گھرانہ بھی بھوکا نہ رہتا۔
"و لا ظلم منكم مسلم و لامعاهد"، (14)۔
اور کسی بھی مسلمان اور مسلمانوں کے حلیف شخص [ذمی کافر جو دنیائے اسلام میں معاہدے کے تحت مقیم ہیں] پر ظلم نہ ہوتا اور سب کی جان و مال محفوظ ہوتی۔
اور اگر تم حقوق انسانی کی اسی طرح پابندی کرتے جیسا کہ ہم نے بیان کئے تھے، امن و سلامتی، حقوق و رفاہ اور عظمت و کرامت (Dignity) کے مالک ہوتے، یہ سب اس وجہ سے ہوتا کہ ولایت اور عدل لازم و ملزوم ہیں اور ولایت ہی عدل کا نفاذ کرسکتی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
"ان الناس يستغنون اذا عدل بينہم"، (15)
اگر عدل اسی طرح نافذ کیا جائے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے تو اس کا اولین ثمرہ رفاہ عامہ اور غربت کی بیخ کنی ہے۔
"العدل رأس الايمان، جماع الاحسان، و اعلي مراتب الايمان"،
عدل تمام بھلائیوں کا سر، نیکیوں اور احسانوں کا مجموعہ اور ایمان کے مراتب میں سب سے اونچا رتبہ ہے۔
[یعنی تمام نیکیاں عدل میں ہیں، انسانی حقوق کی ضمانت عدل سے فراہم ہوتی ہے، معاشرے کی اصلاح کا راستہ اور مسلمانوں کے امور کو سروسامان دینے کا راستہ عدل ہی ہے]۔
"و قل الرعية يصلحہا الا العدل"، (16)
اور کم ہی ہیں ایسے معاشرے جن کی عدل کے سوا کسی اور چیز کے ذریعے اصلاح کیا جاسکی ہو۔
اگر کوئی ایک معاشرے کی اصلاح کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ عدل کے راستے پر گامزن ہوجائے۔ اگر آپ معاشرے میں تعلیم و تربیت و ادب و ثقافت کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ معاشرے کی معنوی اور روحانی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، آپ کسی سے بھی نہیں کہہ سکتے کہ "میرا تمہارے حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ لیکن میں تمہاری ثقافتی اور معنوی اصلاح کرنا چاہتا ہوں؟"، یہ انہونی بات ہے اور یہ حقوق اور لوگوں کی ثقافت و تعلیم و ادب و تہذیب الگ الگ زمرے نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔
ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام فرماتے ہیں کہ اگر آپ کسی شخص کی معنوی و روحانی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کے حقوق کی طرف بھی توجہ دینا پڑے گی۔ جب آپ اس کو اس کے فرائض کی یادآوری کراتے ہیں تو اس کو اس کے حقوق سے بھی آگاہ کریں۔ اور اگر اس کے حقوق اسے بتانا چاہتے ہیں تو اس کو فرائض کی یادآوری بھی کرائیں۔ ورنہ جو کچھ تم کررہے ہو یہ نہ تو تربیت ہے اور نہ ہی عدل و انصاف ہے [اور نہ ہی یہ اصلاحات کے زمرے میں آتا ہے]۔
بعثت نبی (ص)، غدیر اور اعلان ولایت، عاشورا اور مہدویت سب ہی ایک ہی بات کی مختلف صورتیں ہیں۔
[بعثت میں نبی اکرم (ص) نے فرمایا: قولوا لا الہ الااللہ تفلحوا، بُعِثتُ لِاُتَمِّمَ مَکارِمَ الاَخلاقِ، آپ (ص) نے ہے غدیر خم کے مقام پر فرمایا: من کنت مولاه فهذا علیٌ مولاه، عاشورا کے روز امام حسین (ع) نے فرمایا: ارید ان آمر بالمعروف و انهی عن المنکر و اسیر بسیرة جدی اور امام مهدی علیه السلام کے بارے میں رسول الله (ص) نے فرمایا: لو لم يبق من الدنيا الا يوم واحد ، لطول اللّه عزوجل ذلك اليوم ، حتى يبعث رجلا من ولدى اسمه اسمى، يملؤها عدلا وقسطاكما ملئت جورا وظلما۔ فقام سلمان رض فقال: يا رسول اللّه، من اىّ ولدك هو؟ قال: من ولدى هذا و ضرب بيده على الحسين عليه السلام۔ (17) اگر دنیا کی عمر ختم ہونے کو صرف ایک دن باقی ہو بھی اللہ تعالی اس دن کو اس قدر طویل فرمائے گا کہ میری نسل میں سے ایک مرد کو مبعوث فرمائے گا جو میرا ہمنام ہوگا اور اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔ رکن خاندان رسول (ص) سلمان محمدی (رض) اٹھے اور عرض کیا یا رسول اللہ (ص) یہ فرزند آپ کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: میرے اس بیٹے کی اولاد سے اور ہاتھ سے امام حسین علیہ السلام کے کندھے پر تھپکی لگائی]۔
یہ جو سیدالشہداء علیہ السلام فرمارہے ہیں کہ "میں چاہتا ہوں اپنے نانا اور بابا رسول اللہ اور امیرالمؤمنین صلوات اللہ علیہما کی سیرت پر گامزن رہوں، یہی بات ہے۔ چنانچہ جب رسول اللہ (ص) نے روز غدیر حضرت امیرالمؤمنین (ع) کو ولی و جانشین و خلیفہ کے طور پر متعارف کرایا اس سے پہلے یا بعد کبھی یہ نہیں فرمایا کہ "چونکہ میں ذاتی طور پر علی (ع) سے محبت کرتا ہوں، لہذا یہ آپ کے حاکم ہوں؛ بلکہ فرمایا: "علي اعدلكم و اعلمكم بھذا الامر" (18) علی (ع) امر حکومت میں تم سب سے زیادہ عادل اور سب سے زیادہ عالم و دانا ہیں؛ امرِ حکومت، حقوق، عدل، تربیت و تعلیم اور مشروعیت کے حوالے سے سب سے زیادہ اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف تم سے زیادہ عالم ہیں بلکہ تم سب سے زیادہ اپنے علم پر عمل بھی کرتے ہیں۔ وہ عدل اور حقوق تم سے زیادہ بہتر جانتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالی نے انہیں ولایت کا عہدہ سونپا ہے اور اللہ تعالی نے یہ عہد اسی حوالے سے ان کے حوالے کیا ہے؛ اللہ کی جانب سے علی علیہ السلام کی ولایت پر تقرری اس لئے نہیں ہے کہ وہ میرے عزیز ہیں، میرے داماد ہیں، ... اگر علی (ع) میرے چچا زاد بھائی ہیں تو میرے کئی دیگر چچازاد بھائی بھی تو ہیں، علی اس لئے خلیفہ نہیں بنے ہیں کہ میرے داماد یا چچا زاد بھائی ہیں، بلکہ اس لئے خلیفہ بنے ہیں کہ اعدل و اعلم (سب سے زیادہ جاننے والے اور سب سے زیادہ عدل برتنے والے) ہیں۔ در حقیقت علی علیہ السلام کی حاکمیت کا جواز علم و عدل ہے۔
مرسوم سیاسیات میں قانونی جواز کا علم و عدل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ سیاسیات کے کسی بھی مکتب میں حاکمیت کے قانونی جواز [حق حاکمیت] کے بارے میں بحث کرتے ہوئے علم و عدل کو نہیں چھیڑا گیا ہے۔
اگر آپ مختلف ممالک کے آئینوں (Constitutions) کا غائرانہ مطالعہ کریں تو دیکھ لیں گے کہ حاکم، وزیراعظم، صدر اعظم (Chanceller) [یا بادشاہ و شیخ یا امیر] کے لئے جو ضوابط ذکر ہوئے ہیں ان میں کہیں بھی حاکم کے لئے عدل، علم، تقوی، معرفت، اخلاق، معنویت و روحانیت، زہد و جہاد کو اہمیت نہیں دی گئی ہے اور ان خصوصیات کا ذکر تک موجود نہیں ہے۔ کیونکہ وہ قانونی جواز یا لیجیٹیمیسی پر اپنی بحث کا آغاز بیچ راستے سے کرتے ہیں؛ میری بات کا مفہوم یہ ہے کہ انھوں نے اپنے یہاں سے شروع کی ہے کہ "کون بر سر اقتدار آسکتا ہے اور اقتدار کا تحفظ کرسکتا ہے"۔ حالانکہ یہ منطق (منطق اہل بیت (ع) اس قضیئے کو اس نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ یہاں قانونی جواز کی مشروعیت یا قانونی جواز کا رجوع لوگوں کے حقوق و فرائض اور عدل و علم کی جانب ہے۔
اس کا استدلال کچھ یوں ہے کہ "عدل بھی کیہانی اور تکوینی (کاسمک) بھی ہو اور نفسانی اور اخلاقی بھی ہو یعنی تقوی نیز معاشرتی عدل بھی ہو۔ فرماتے ہیں: توحید (یکتا پرستی) اور ولایت کا تعلق عدل سے ہے۔ عدل تکوینی، وجود شناسانہ (Cosmic and Anthalogic) ہو؛ یعنی یہ کہ اللہ تعالی نے اس عالم کو اس کائنات کو عادلانہ انداز سے خلق فرمایا۔ اخلاقی اور فردی عدل سے مراد یہ ہے کہ یہ بات کافی نہیں ہے کہ حکام معاشرتی عدل کو باہر کی دنیا میں نافذ کریں بلکہ ذاتی اور اندرونی عدل کی بھی ضرورت ہے۔ اصولی طور پر ایسا شخص سماجی انصاف کا نفاذ کر ہی نہیں سکتا جو ذاتی اور اندرونی طور پر اخلاقی لحاظ سے عادل نہ ہو۔
اس قاعدے کا استدلال بھی بالکل واضح ہے کہ "جو شخص اپنی ذات کی سرزمین میں عدل کا نفاذ نہ کرسکا ہو وہ معاشرے میں کیونکر عدل کا نفاذ کرسکتا ہے؟ جب کوئی اپنی ذات میں تقوی سے عاری ہے وہ اپنی ذات کے قلمرو میں عدل کا نفاذ نہیں کرسکا ہے۔ یعنی در حقیقت عدل میرے ذاتی اخلاقیات میں حاکم نہیں ہے۔ جب ایک فرد اپنے وجود کا انتظام نہیں عدل کے ساتھ نہیں سنبھال سکتا وہ کیونکر ایک بڑے معاشرے کا انتظام و انصراف عادلانہ انداز سے چلا سکے گا؟ اسی رو سے فرمایا گیا ہے کہ "حاکم کے لئے ایک شرط لازم ذاتی تقوی اور عدل ہے؛ محال و ناممکن ہے کہ کوئی شخص ذاتی اور اخلاقی عدل سے دور دور تک کا واسطہ نہ رکھتا ہو اور وہ اسی حال میں سماجی، معاشی یا سیاسی عدل کو نافذ کرسکے۔
ممکن ہے کوئی شخص ذاتی اخلاق و تقوی سے عاری ہونے کے باوجود بعض شعبوں میں نفاذ عدل کے حوالے سے بعض دکھاوے کے اعمال کر دکھائے۔ لیکن یہ سب وقتی، خاص وقتوں کے لئے، مصنوعی اور ظاہری اعمال ہیں۔ چنانچہ انھوں نے (اشعریوں، مرجئہ، بنو امیہ اور بنو عباس اور جدید علمانی جمہوریتوں اور مطلق العنان و شہنشاہی حکومتوں نے) علم و عدل اور حقانیت کی بحث قانونی جواز یا مشروعیت کی بحث سے حذف کرلی ہے۔ اور وہاں بحث یہ ہے کہ کون اقتدار حاصل کرسکتا ہے، آمریت کے ذریعے، فوجی بغاوت کے ذریعے، انتخابات کے ذریعے، روش میں کوئی فرق نہیں پڑتا؛ کیونکہ حصول اقتدار کی دونوں روشوں میں یکسان طور پر عوام کی خاموشی اور اطاعت پر زور دیا جاتا ہے۔ بلکہ اصولوں کے اوپر زیادہ حساس ہونے کی ضرورت ہے۔
چنانچہ ہمارے اصولوں میں فرمایا جاتا ہے کہ:
"العدل اساس قوام العالم"، (19)
[عدل کائنات کی پائیداری اور قیام کی بنیاد ہے]۔
سب سے پہلے کہا جاتا ہے کہ آپ کو کیہانی عدل پر عقیدہ رکھنا پڑے گا؛ یعنی وہی عدل جس میں وجودشناسی والا عدل جس کی بنیاد پر ہی دنیا کو قوام و پائیداری حاصل ہے۔ اور اس کی بدولت کائنات قائم ہے۔ یعنی کائنات کا نظام عدل کے اصول پر استوار و برقرار ہے۔ یعنی وہاں حق کا لحاظ رکھا گیا ہے [یہ تکوینی اور کیہانی اور فطری عدل ہے]، اس کے بعد تشریعی (Legislative) عدل ہے جس کے بارے میں علی (ع) نے فرمایا کہ: "ان العدل میزان اللہ"، (20) عدل اللہ کی میزان اور اللہ کا ترازو ہے " الّذى وضعہ فى الخلق" وہ ترازو جو اس نے مخلوقات میں وضع کیا ہے "و نصبہ لاقامة الحقّ"، اللہ نے اسی حق و حقیقت کے قیام کے لئے نصب فرمایا ہے۔ تا کہ تشریعی اور معاشرتی عدل قائم و نافذ کیا جاسکے۔ اور فرمایا: "قوام العنان و قوام البرية"، عنان يعني عوام اور بریہ یعنی تمام خلائق یا مخلوقات؛ در حقیقت سماجی انصاف انسانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ حیوانات اور نباتات اور [بے جان] اشیاء کے لئے بھی پائیداری، استواری اور برقراری کا ذریعہ ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی حیات طیبہ اور سیرت مقدسہ میں اشیاء پر بھی نام رکھے ہوئے تھے، آپ (ص) کے حیوانات، درختوں، پودوں، لباسوں اور اوزاروں کے بھی اپنے اپنے نام تھے جو نہایت دلچسپ امر ہے۔ اس بات سے دو معانی اخذ ہوسکتے ہیں؛ پہلی بات یہ کہ یہ آپ (ص) کی حیات میں عجیب نظم و ضبط کا پتہ دیتی ہے اور دوسری بات یہ کہ حتی آپ (ص) حیوانات، نباتات اور جامد اشیاء کے لئے شخصیت اور تشخص کے قائل تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (ص) اشیاء سے بھی محبت کرتے اور انہیں اللہ کی نشانیان قرار دیا کرتے تھے۔ [محبت میں بھی عدل]، یعنی یہ کہ آپ (ص) اس شیئے کے لئے نام رکھ کر فرمانا چاہتے تھے کہ میں تجھ سے مخلص ہوں اور تو دوسری چیزوں میں سے کوئی عام سے چیز نہیں ہے۔ محبت اور نظم و ضبط بھری نگاہ ایک ہستی شناسانہ (آنتولوجک) نگاہ ہے۔
جاری ہے