یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ حاکمیت (4)
- شائع
-
- مؤلف:
- حسن رحیم پور ازغدی
- ذرائع:
- ابنا ڈاٹ آئی آر
اسلام کے سیاسی اور سماجی احکام اور حقوق، منجملہ مشروعیت یا قانونی جواز (حق)، انسانی حقوق، سماجی، معاشی، سیاسی شعبوں نیز نظام عدل میں عدل و انصاف سب کے سب انسان شناسی (Anthropology) کے عین مطابق، انسان شناسی ہستی شناسی (آنتولوژی) کے عین مطابق اور ہستی شناسی (یا وجود شناسی) خدا شناسی یا معرفتِ ربّ (یا Theosophy) کے عین مطابق ہے؛ اگر ہم نے انسان کو صحیح طور سے پہچانا، تو ہم اس کی حقیقی ضروریات و احتیاجات، اس کی اہلیتوں اور صلاحیتوں اور اس کے روابط و تعلقات کو صحیح طریقے سے پہچان سکیں گے۔ جب ہم اس مرحلے تک پہنچیں گے تو تب ہی وہ احکام اور حقوق معلوم اور مدلل ہوکر سامنے آئیں گے جو اس موجود کے کمال و ارتقاء اور سعادت و خوشبختی کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ [فلسفہ حقوق و احکام واضح ہوجاتا ہے] معلوم ہوجاتا ہے کہ جب کہا جاتا ہے کہ زنا، شراب نوشی، غصب، ربا (سود خوری) اور جھوٹ کو ترک کرنا چاہئے، تو ایسا کیوں ہے اور یہ افعال کیوں نہیں ہونے چاہئیں؛ ان سب کی دلیل سامنے آتی ہے۔ اسی ترتیب سے جہاد، انفاق، زکاة اور نماز کی فرضیت کی وجہ اور دلیل روشن ہوجاتی ہے۔
ان سب "ہونا چاہئے" اور "نہ ہونا چاہئے" کے لئے دلیل موجود ہے اور ان کے بارے میں بحث ممکن ہے۔ کیونکہ اس کا اصول اور اس کی بنیاد وجود شناسی اور غایت شناسی یا انجام شناسی ہے۔ حکم آتا ہے کہ عقل کو وحی سے جوڑ کر انسان کے وجود کے مختلف پہلوؤں اور جہتوں کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ بنی نوع بشر کے حوالے سے آپ کے تأثر و ادراک کی نوعیت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان کے وجود میں کیا صلاحیتیں اور کیا احتیاجات ہیں؟ جنہیں ایک ایک کر بالیدگی اور شگفتگی تک پہنچنا چاہئے اور اس کی خوابیدہ قوتوں کو فعلیت اور عملیت کے مقام پر فائز ہونا چاہئے۔ علاوہ ازیں اخلاق اور حقوق کی جڑیں انسان شناسی میں پیوست ہیں۔ چنانچہ اخلاق بھی مدلل و مبرہن ہے اور حقوق بھی مدلل و مبرہن ہیں اور یہ دو ـ جو بظاہر اعتباری (*) اور مجازی لگتے ہیں ـ ہماری نگاہ میں اعتباری (*) اور مجازی نہیں ہیں۔ لہذا اخلاقیات و حقوق کے پورے مجموعے کا جائزہ کسی قرارداد یا عوام کی اکثریتی رائے سے ہی نہیں لیا جاسکتا۔ [کیونکہ یہاں کئی سوالات اٹھیں گے اور ان میں سے سادہ ترین سوال یہ ہے کہ] اگر دنیا کے پورے انسانوں سے رائے لی جائے کہ کسی بے گناہ انسان کو پھانسی پر لٹکایا جائے یا نہیں، یا اس کے اموال چھین لئے جائیں یا نہیں، یا اس کی آبرو و عزت کو سربازار نیلام کیا جائے یا نہیں؟ اور دنیا کے تمام انسان رائے دیں کہ اس کو پھانسی دی جائے یا اس کے اموال لوٹ لئے جائیں یا اس کی آبرو نیلام کی جائے اور صرف ایک شخص (یعنی وہ بے گناہ شخص خود) رائے دے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تو کیا یہ ناحق، حق ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں، یہ حق قابل اثبات نہیں ہوگا کیونکہ انسانوں سے رائے اور ووٹ لینے کے لئے بھی عقل اور اخلاق کا دائرہ ہونا چاہئے اور کوئی قرارداد بھی صرف اخلاق اور حقوق اور عقل کے دائرے میں ہی معتبر ہوگی۔
اب [ہم اپنے ابتدائی سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ] اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کیا انسانی علوم (Humanities)، انسانی حقوق، سیاسیات اور مشروعیت (لیجیٹیمیسی) کو اسلامی اور غیر اسلامی میں تقسیم کیا جاسکتا ہے؟ آپ کہہ دیں کہ: "کیوں نہیں"، کیونکہ دنیاوی رجحانات پر مبنی انسانی حقوق، معاشیات اور سیاست کی سیکولر اور علمانی تعریف کا مدار و محور ہی ہوگا۔ انسانی علوم یعنی انسان شناسی کے مختلف مکاتب نے اگر انسان کی مادی تعریف فراہم کی تو اس صورت میں اس کے لئے جو حقوق اور فرائض بھی وضع کئے جائیں گے ان کی اساس بھی دنیاوی مادی رجحانات ہی ہونگے؛ جبکہ اگر انسان کی تعریف الہی ہوگی تو اس حقوق و فرائض بھی الہی ہونگے۔
نہ جانے کہ وہ ان دو کے درمیان موجودہ اختلافات کا ادراک وہ کیوں نہیں کرسکتے؟ جب آپ "الف" کی تعریف کرتے ہیں تو اسی تعریف سے ہی "الف" کی ذات کے عین مطابق ہدایات حاصل ہوتی ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ لبرل ہیومین رائٹس اور مارکسسٹ ہیومین رائٹس میں فرق ہو اور یہ فرق بامعنی بھی ہو اور قابل فہم و ادراک بھی ہو لیکن جب اسلامی انسانی حقوق کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے؛ اس کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ جبکہ اسلام نے اتنی باریک بینی اور اتنی وسعت سے انسان اور اس کے حقوق و فرائض اور معیشت و سیاست کے بارے میں فلسفی اور اخلاقی بحث کی ہے جبکہ مغربی علمانیت انسان کے بارے میں اسلام جتنی وسیع بحث نہیں کرتی۔ تاہم اگر کہیں کوئی بحث ہے تو اس کا عقلی اور تجرباتی حصہ دونوں میں مشترکہ ہے۔ ہمارے مکتب میں نظریہ (Idealogy) مغربیوں کی مانند تعصب آمیز اور جامد نہیں ہے بلکہ ہمارا نظریہ دلیلوں پر مبنی ہے۔ مکتب توحید میں انسانی علوم اور سیاسیات کی روشنی میں انسانی حقوق، عدل اور مشروعیت یا قانونی جواز کا منبع اللہ تعالی کا تشریعی ارادہ اور تشریعی حکم پر استوار ہے۔ [یعنی خدا نے ایسا کرنے کا فرمان جاری فرمایا ہے]، قرآن اور احادیث ان تمام چیزوں کا سرچشمہ ہیں جو انسانی حقوق، عدل و انصاف اور مشروعیت یا قانونی جواز کا منبع کہلاتی ہیں؛ یہ سب اللہ کے تشریعی ارادے کی طرف اشارہ ہیں اور ان سے اللہ کا ارادہ تشریعی بوضوح کشف ہوجاتا ہے۔ یعنی حقوق شناسی، سیاست، معاشیات سے پہلے، مشروعیت یا قانونی جواز کی تعریف سے بھی پہلے، یعنی سب سے پہلے وجود شناسی اور انسانی شناسی کی باری ہے۔ یہ ہم حقوق کے لئے جو فلسفہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حقوق و فرائض کی قانون سازی اور تشریع کا سرچشمہ ذات باری تعالی ہے، اس کے لئے ہم فلسفی استدلال بھی فراہم کرتے ہیں۔
اختصار کے ساتھ کہتا ہوں کہ اللہ کا وجود، اس کے اوصاف، اس کی ذات، صفات، اسماء سب کے سب قابل اثبات ہیں، انسانوں پر ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات پر اللہ تعالی کا حق بھی دلیل و برہان سے ثابت ہوتا ہے اور یہیں سے حقوق، قانونی جواز اور علم سیاست کی بحث بھی شروع کرتے ہیں۔
درحقیقت ایک بنیادی فلسفی بحث کو پکڑلیتے ہیں اور پھر باہر آتے ہیں۔ انسانوں پر خدا کا حق ایک دوسری بحث کے اثبات سے حاصل ہوتا ہے اور ہم اس کو دلیل و برہان سے ثابت کرتے ہیں؛ پہلے ثابت کرتے ہیں کہ خدا عالم اور انسان کا مالک ہے جس کے بعد یہ بحث سامنے آتی ہے کہ خداوند متعال انسان اور عالم میں تصرف کا حق رکھتا ہے، بالفاظ دیگر خالقیت کا اثبات [یعنی عالم مخلوق ہے]، اس کے بعد حقیقی مالکیت کا موضوع سامنے آتا ہے۔ خدا کے سوا کوئی بھی کسی چیز کا حقیقی خالق نہیں ہے۔ یہ خدا ہی ہے جس نے حق اور صاحب حق کو خلق کیا ہے، خدا خالق ہے، پس وہ مالک ہے، پس وہ حاکم ہے، وہ خالق و مالک و حاکم ہے لہذا وہی ذاتی طور پر حق حاکمیت کا مالک ہے اور بس۔ اب جبکہ خدا حاکم ہے اس کو یہ حق حاصل ہے کہ انسان کے حقوق و فرائض کا تعین اور تعریف کرے۔ چنانچہ انسانی حقوق کا منشأ اور سرچشمہ حق اللہ کی بنیاد پر استوار ہے۔ امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: "ہو اصل الحقوق" (19) [خدا کی ذات تمام حقوق کی جڑ ہے]، یعنی وہ تمام حقوق جو ہم اس دنیا میں بیان اور معین کرتے ہیں انسانی حقوق، سیاسی حقوق، خاندانی حقوق وغیرہ سب حق اللہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ "و منہ یتفرق [یا یتفرع)" یعنی یہ سب حق خداوندی کی شاخیں ہیں جو اس تنّے سے مشتق ہوئے ہیں۔ یعنی یہ کہ آپ کو اس امر پر قدرت حاصل ہونی چاہئے کہ تمام حقوق کو حق اللہ کی طرف لوٹائیں ورنہ حقوق کی کوئی بھی فلسفی توجیہ (Philosophic Justification) ممکن نہیں ہوگی۔
دوسرا نتیجہ یہ کہ آپ کسی چیز کو بھی انسانی حقوق کے عنوان سے متعین نہیں کرسکتے جو حق اللہ سے مغایرت رکھتی ہو۔ یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ "الف" انسانی حق ہے جبکہ حق اللہ اور شریعةاللہ کے خلاف ہے، کیونکہ کوئی بھی حق الناس حق اللہ کے بغیر قابل اثبات نہیں ہے، اور تمام حقوق کا منبع و سرچشمہ حق اللہ کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ قطعی اور عقلی ادراک ہے کہ خالقیت، اس کے بعد مالکیت اور اس کے بعد حاکمیت اور آخرالامر ولایت الہی کا حق تصرف، اور نتیجتاً زندگی کے تمام شعبوں میں حقوق و فرائض کا سرچشمہ الہی ہونا چاہئے۔ البتہ عقل اور شرع ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں تا کہ لوگ اس ادراک تک پہنچ سکیں۔ خدا کے سوا کسی کو بھی ذاتی اور حقیقی طور پر کسی بھی شخص یا کسی بھی چیز میں تصرف کا حق حاصل نہیں ہے، کسی کا خدا پر کوئی حق نہیں ہے۔ کوئی بھی حقیقتاً خدا پر کوئی حق نہیں رکھتا۔ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا پر فلان حق ہے اور خدا نے ہمارے سامنے اپنے لئے فرائض مقرر فرمائے ہیں، اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ حق اللہ اور حق انسان یکساں ہے، کیونکہ ہم ادراک نہیں کرسکتے کہ لوگ ہم سے یہ کیسی بات کررہے ہیں۔ ورنہ کسی چیز اور کسی شخص کا خدا پر کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ ساری چیزیں خدا کی مخلوق ہیں۔ یہ صرف خدا کی ذات ہے جو ہر چیز اور ہر فرد پر حق رکھتا ہے۔ البتہ یہاں ایک سوال اور ایک ابہام بھی ہے لیکن چونکہ فرصت نہیں ہے اسی لئے اس سے گذرنا چاہتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ فقط خدا کی ذات ہے جو اپنی ذات پر قائم اور اپنی ذات پر استوار ہے، حقیقی مالکیت صرف اس کی ذات کی زینت ہے اور تمام فلسفی دلیلیں انسانی حقوق کے لئے ہیں نہ کہ خدا کی ذات کے لئے۔ خدا کے سوا کسی چیز اور کسی فرد کے لئے ذاتی طور پر تصرف کا حق حاصل نہیں ہے، کیونکہ حقیقت میں کوئی بھی حقیقی خالقیت اور حقیقی مالکیت موجود ہی نہیں ہے خدا کے سوا۔ سوائے خدا کے، جو صاحب حق ہے، کوئی بھی شخص، کوئی بھی چیز کسی بھی شخص یا کسی بھی چیز پر اور ایک دوسرے پر اور خدا پر کوئی حق نہیں رکھتا۔ اگر خدا کے ذمے ہمارا کوئی حق ہے تو وہ وہی ہے جو خدا نے خود ہی ہمارے لئے متعین فرمایا ہے۔ ہم اپنی جانب سے خدا کے سامنے کسی حق کے مالک نہیں ہیں، اس حق کا ایک حصہ خدا نے رسول اللہ (ص)، اپنے اولیاء اور رسول اللہ (ص) کے اوصیاء اور جانشینوں کو عطا فرمایا ہے اور اسی حق کا کچھ حصہ لوگوں کے لئے قرار دیا ہے۔ دینی اور توحیدی نگاہ کے مطابق عقلی برہان سے استفادہ کرتے ہوئے، حقوق، عدل، حق اور انسانی حقوق کا منشأ و سرچشمہ مدلل طریقے سے بیان اور واضح کیا جاسکتا ہے۔ اب غیر دینی اور غیر توحیدی قوانین میں جب حقوق و اخلاق اور خدا کی خالقیت و حاکمیت ہی قابل اثبات نہیں ہے تو اس کے لئے عقلی برہان لانا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ لہذا ان کے فلسفی ترین استدلالات یا استدلال کی مانند باتیں، دینی نگاہ سے قطع نظر انسانی حقوق و فرائض کے اثبات کے لئے، اٹھارہویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتے ہیں جب مغربی ادبیات فلسفی ـ دینی تھے؛ کہا کرتے تھے کہ "خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا پس کسی کو بھی انسان کے حقوق ضائع کرنے کا حق نہیں پہنچتا"۔ یہ درحقیقت ایک دینی استدلال ہے۔ ہماری رائے کے مطابق، اگر یہی استدلال آزادی، انسانی حقوق اور سیاسی قانونی جواز (حق) کی بنیاد ہے تو کہنا چاہئے کہ "وہی خدا جس نے ہمیں آزاد پیدا کیا ہے اسی نے ہمارے لئے بعض حدود اور سرحدات بھی معین فرمائی ہیں۔ وہی خدا جس نے حقوق اور آزادیاں وضع کی ہیں اسی نے حدود بھی وضع کی ہیں۔ یہ کیسی بات ہے کہ اس نے جو حقوق اور آزادیاں وضع کی ہیں وہ تو قابل قبول ہیں لیکن اس نے جو فرائض مقرر کئے ہیں وہ ناقابل قبول ہیں؟انسانی حقوق قابل قبول ہیں انسانی فرائض ناقابل قبول؟
البتہ آج کی مغربی دنیا میں اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں کے طبیعی اور فطری حقوق کو نہیں زیادہ نہیں چھیڑا جاتا۔ البتہ وہی حقوق حال ہی میں دوسری صورت میں بیان کئے جانے لگے ہیں۔ اب اس زمانے میں جبکہ قراردادی، عرفی، تحصلی، علمانی، جمہوری وغیرہ جیسے حقوق کی باتیں ہونے لگی ہیں تو ان کے لئے کیا فلسفی استدلال کرتے ہیں؟ اب ان کی فلسفی دلیل صرف یہ ہے کہ "اگر ہم ایک دوسرے سے مفاہمت نہ کریں، ایک دوسرے کے لئے حدود کا تعین نہ کریں، تو ہم سب نیست و نابود ہوجائیں گے؛ ہم سب یہی تو چاہتے ہیں کہ زندگی گذاریں اور زندگی سے زیادہ سے زیادہ لذت اٹھائیں تو آئیں اور زیادہ سے زیادہ لذتیں اٹھانے کے لئے اپنی بعض لذتوں سے چشم پوشی کریں!"۔ [یعنی نظریۂ ضرورت کے تحت سماجی سمجھوتہ]۔
کیا یہ ایک فلسفی استدلال ہے؟ کیا آپ کا فلسفی ترین استدلال اصولی طور پر فلسفی بھی ہے؟ یہ نہ تو فلسفی استدلال ہے اور نہ ہی اخلاقی ہے۔ یہ مصلحت پسندی اور نظریۂ ضرورت کے تحت پیش کی جانی والی پراگماتیت((((( پر مبنی (Pragmaitistic) دلیل ہے۔ یعنی چونکہ زندگی گذارنے کا کوئی اور طریقہ ہے نہیں ہے لہذا کہتے ہیں کہ چلئے آپس میں سمجھوتہ کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آخرالامر جنگل میں حیوانات بھی کسی طرح سمجھوتہ کرہی لیتے ہیں، اس طرح کے سمجھوتے اور جنگلی جانوروں کے بیچ کے سمجھوتے میں ماہیت کے لحاظ سے کتنا فرق ہے؟ ایک فرق جو ہماری سمجھ میں آتا ہے یہ ہے کہ جنگلی جانور اس طرح کوئی قرارداد کاغذ پر لکھنے سے عاجز ہیں جبکہ یہ لذتوں کی تقسیم پر طے پانے والی قرارداد کاغذ پر بھی لکھ ڈالتے ہیں۔ حیوانات ایک دوسرے کے احترام کی وجہ سے نہیں بلکہ مار کھانے کے خوف سے ایک دوسرے کے احاطے میں داخلے سے گریز کرتے ہیں چنانچہ جب بھی دیکھتے ہیں کہ لات کھائے بغیر لات مار سکتے ہیں تو بڑے شوق سے جاکر لات مارتے ہیں [قلمرو پر قبضہ بھی کرتے ہیں]، در حقیقت یہ طرز فکر بھی ایسی ہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ عراق، افغانستان، فلسطین اور لبنان کو [لات کھائے اور نقصان اٹھائے بغیر] اپنے تصرف میں لاسکتے ہیں تو منہ اٹھا کر آتے ہیں اور حملہ کرتے ہیں اور جب تک ممکن ہو آتے ہیں اور جب بھی انہیں منہ کی کھانی پڑتی ہے تو پسپا ہوجاتے ہیں۔ اس عمل کا نام انسانی حقوق کا احترام نہیں ہے؛ یہ تو جبری انسانی حقوق ہوئے۔ یعنی جہاں تک ہم میں طاقت ہو پیشقدمی کرتے ہیں اور جب ہماری طاقت جواب دے جاتی ہے تو انسانی حقوق کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔
والسلام عليكم و رحمة الله و بركاته
.......................... حوالہ جات: