کیا مدینہ کے گھروں کے دروازے تھے؟

تاریخ پر باریک بینانہ نظر نہ رکھنے والوں نے دعوی کیا ہے کہ طلوع اسلام کے زمانے میں مکہ و مدینہ کے گھروں کے موجودہ زمانے کی طرح کے لکڑی کے بنے ہوئے دروازے نہیں تھے اور لوگ گھروں کو اغیار کی نظروں سے بچانے کے لئے پردے لگایا کرتے تھے۔ ان حضرات نے اس مفروضے کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ (س) کے گھر کے دروازے کو آگ لگانے اور آنحضرت کو زخمی کرنے کا قصہ درست نہیں ہے!!
یہ شبہہ «ڈاکٹر سہیل زکار» سے منسوب کیا گیا ہے البتہ کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ واقعی انہوں نے یہ رائے دی ہے یا نہیں! لیکن مشہور یہی ہے۔ بہرحال یہ بات بعض دوسروں نے بھی دہرائی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کا مستند تاریخی جواب دے دیا جائے۔
دیکھتے ہیں کہ «علامہ سید جعفر مرتضی عاملی» نے اپنی کتاب «مأساة الزہرا (ع)» ــ مطبوعہ 1997 - دارالسیرة بیروت ــ میں اس موضوع کے بارے میں کیا لکھا ہے اور ان کے دلائل کیا ہیں:

الف ) مدینہ کے گھروں کے دروازے تھے

1۔ «ابو فدیک» کہتے ہیں: میں نے «محمدبن ہلال» سے ام المؤمنین عائشہ کے کمرے اور حجرے کی خصوصیات کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا:
«اس کا دروازہ شام کی جانب تھا»۔ میں نے کہا: «اس دروازے کا ایک مصراع (پٹ﴾ تھا یا دو پٹ تھے؟»۔ انہوں نے کہا:«ایک پٹ»، میں نے پوچھا: «کس جنس کا تھا؟» انہوں نے کہا: «یا تو وہ عرعر کے درخت کی لکڑی کا تھا یا پھر ساج کے درخت سے بنا تھا»۔
( وفاء الوفاء ــ ج2، ص459 و 456 و 542 )

2۔ «ابوموسی اشعری» کہتا ہے: «ہم رسول اللہ (ص﴾ کے ہمراہ تھے کہ "بئر أدیس" کے علاقے میں وارد ہوئے۔ پیغمبر (ص) داخل ہوئے اور ہم باہر رہ گئے اور میں «ایک دروازے کے ساتھ بیٹھ گیا جس کی لکڑی جریب نخل کی تھی»۔
( صحیح مسلم ــ ج7، ص 118و صحیح بخاری ــ ج2ــ ص 187)

3۔ حضرت ابوذر غفاری کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص﴾ نے فرمایا: «اگر کوئی شخص کسی گھر کا سامنے سے گذرے جس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کے اوپر پردہ بھی نہ لٹک رہا ہو اور اس کی نظر گھر کے اندر پڑے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ قصوروار اہل خانہ ہونگے»۔
( مسند احمد ــ ج5 ص153)

4۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ ـ سلام اللہ علیہا ـ کے رشتہ ازدواج کے سلسلے میں وارد ہونے والی حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم (ص﴾ نے ان دو کو امر فرمایا کہ اپنے گھر میں داخل ہوجائیں؛ پھر آپ (ص﴾ نے دونوں کے لئے دعا کی اور پھر اٹھ کر باہر چلے گئے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے گھر کا دروازہ بند کیا (ثم قام فأغلق علیہما الباب بیدہ)۔
(بحار الانوار ـ ج4 ـ ص122و 142 و مناقب خوارزمی ص243)

5۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ (ص﴾ نے فرمایا: «جو شخص لوگوں کے امور میں سے کسی امر کا عہدہ قبول کرے اور پھر غرباء، حاجتمندوں اور مظلوموں پر اپنے گھر کا دروازہ بند کردے خداوند متعال اس کی غربت اور تنگدستی کے ایام میں اپنی رحمت کے دروازے اس کے اوپر بند کردے گا»۔
(مسند احمد ـ ج3 ـ ص 441)

6۔ «ابو حمید» نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (ص﴾ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم رات کے وقت پانی کے برتنوں کو گھر کے ایک کونے میں رکھا کریں اور گھر کا دروازہ بند کیا کریں»۔
(صحیح مسلم ـ ج3ـ ص1593)

7۔ «جابر» اور «ابوہریرہ» سے منقول ہے کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: «اپنے گھر کا دروازہ بند کرو اور خدا کا نام لو؛ بتحقیق شیطان بند دروازے نہیں کھولا کرتا»۔
( سنن ابی داود ـ ج2 ـ ص339 و مسند احمد ـ ج3 ـ ص386 و سنن ابی ماجہ ـ ج2 ـ ص1129 )

8۔ ابوہریرہ اپنی والدہ کے اسلام لانے اور ان کے رسول اللہ (ص﴾ کی دعا والی حدیث میں کہتے ہیں کہ: «۔۔۔ پس میں دوڑ کر اپنی ماں کی جانب چلا گیا تا کہ انہیں خوشخبری دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی ہے۔ جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے اور میں نے مشک کے اندر پانی کے ہلنے کی آواز سنی اور ساتھ والدہ کی آہٹ بھی سنائی دی۔۔۔» ۔
(مسند احمد ـ ج2 ـ ص230 )

وفي حديث لعائشة عن رسول الله ( ص ) : أنه في إحدى الليالي ظن (رسول الله (ص)) أنها رقدت [او ظن أني قد رقدت]، فانتعل رويدا ، وأخذ رداءه رويدا ، ثم فتح الباب رويدا ، ثم خرج وأجافه رويدا ۔ الخ قالت عائشه --- ان رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم --- ظن أنها رقدت فانتعل رویداً و أخذ رداءه رویداً ثم فتح الباب رویداً ثم خرج و أجافه رویداً۔
ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سمجھے کہ گویا میں سورہی ہوں چنانچہ آپ (ص﴾ آہستہ سے اٹھے اور آہستہ سے اپنی رداء اٹھائی؛ آہستہ سے دروازہ کھولا اور پھر آہستہ سے دروازہ بند کیا۔۔۔»۔
(تاريخ المدينة لابن شبة : ج 1 ص 88 و 89 ، وفي هامشه عن : عمدة الأخبار : ص 123 و 124 ، وراجع : وفاء الوفاء : ج 3 ص 883 عن مسلم ، والنسائي۔)
مذکورہ بالا تمام احادیث میں دروازہ بند کرنے کے لئے مختلف اصطلاحات سے استفادہ کیا گیا ہے جیسی : " اغلاق الباب" ، "ردّ الباب" اور "اجافة الباب" اور ان سب کا مفہوم ایک ہی ہے یعنی دروازہ بند کرنا؛ اور پردے یا دیگر چیزوں کے لئے ان الفاظ سے استفادہ نہیں کیا جاتا۔

10۔ متعدد احادیث میں – جن میں سے 21 حدیثین علامہ جعفر مرتضی عاملی نے نقل کی ہیں – دروازے پر دستک دینے کے لئے "دق الباب" ، "طرق الباب" ، "ضرب الباب" اور "قرع الباب" جیسی عبارتیں استعمال ہوئی ہیں اور اس دروازے پر کوئی دستک نہیں دیتا جو پردے پر مشتمل ہو؛ مثال کے طور پر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے «ابو الهیثم بن التیهان» کے گھر جانے سے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ: «پس ہم نے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ ایک عورت نے کہا: کون دستک دے رہا ہے؟ عمر نی کہا: یہ رسول اللہ (ص﴾ ہیں۔۔۔»
(کنزالعمال ـ ج7 ـ ص194 )

11۔ علامہ جعفر مرتضی نے اپنی کتاب مأساة الزہرا (ع) میں 43 حدیثیں نقل کی ہیں جن کے عنوانات یوں ہیں: "الاجابة من وراء الباب = دروازے کے اس پار سے جواب" ، "خلف الباب= دروازے کے پشت پر" ، "حرک الباب = دروازے کو حرکت دینا" ، "وضع الید علی الباب فدفعه = دروازہ کو ہاتھ سے دہکا دینا اور اسے کھول دینا" ، "فتح الباب= دروازہ کھول دینا" ، "الباب المقفل = مقفل دروازہ" اور "کسر الباب = دروازدہ توڑنا"۔ ان ساری تعبیرات کا پردے اور پردے جیسی کسی دوسری چیز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

12۔ شیعہ اور سنی تواریخ میں مذکور ہے کہ ہجرت نبی (ص) سے قبل اہل یثرب (یا اہل مدینة النبي) مسلسل خانہ جنگی کا شکار تھے اور ان کے درمیان خونریز جنگیں جاری تھیں؛ یہاں تک کہ مشہور تھا کہ «اہل یثرب راتوں کو بھی ہتھیار اپنے آپ سے دور نہیں کیا کرتے تھے»۔ (اعلام الوری ـ ص55 و بحارالانوار ـ ج19ـ ص 8 تا 10) تا آنکہ خداوند متعال نے پیغمبر رحمت (ص) بھیج کر ان پر احسان کیا اور ان کے درمیان اخوت و برادری کا دور دورہ ہوا اور اسلام ان کے لئے امن و سلامتی کا تحفہ ساتھ لایا۔ جبکہ اس سے پہلے وہ لوگ جو اپنی پڑوسیوں سے مسلسل خطرہ محسوس کرتے تھے اور ہر وقت جنگ و جدل کی حالت میں تھے حتی کہ نیند کی حالت میں بھی شمشیر ساتھ رکھا کرتے تھے۔ ایسی صورت حال میں کیا عقل و منطق قبول کرسکتی ہے کہ جن گھروں میں وہ رہتے تھے اور اپنے مال و ناموس کو وہاں رکھتے تھے ان کے لئے دروازہ نہ لگائیں اور پردہ لٹکا کر مطمئن ہوجائیں؟ عقل نہیں مانتی۔ یہ امر ہرگز معقول نہیں ہے اور ان گھروں کا دروازہ ہونا چاہئے تھا۔

13۔ دیگر احادیث سی ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ کے گھروں کے نہ صرف دروازے تھے بلکہ ان دروازوں کے تالے بھی تھے اور چابیاں بھی تھیں اور احادیث میں «مفتاح = چابی» کا لفظ مسلسل دہرایا گیا ہے۔
«دکین بن سعید المزني» سے نقل ہے کہ: ایک دفعہ ہم پیغمبر (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (ص) سے کھانا کھلانے کی درخواست کی۔ آپ (ص) نے فرمایا: «اے عمر! جاؤ انہیں کھانا لادو»۔ فارتقی بنا الی علیة ، فأخذ المفتاح من حجزته ،ففتح ۔۔۔»
(سنن ابی داود ـ ج4 ـ ص361 و مسند احمد ـ ج4 ـ ص174)
حین کلّم علی (ع) طلحة في امر عثمان ، انصرف علي (ع) الی بیت المال ، فأمر بفتحه ، فلم یجدوا المفتاح ، فکسر الباب ، و فرق ما فیه علی الناس ، فانصرفوا من عند طلحه حتی بقي وحده ، فسر عثمان بذالک۔ (تاریخ طبری ـ ج4 ـ ص431)

14۔ دیگر روایات بھی ہیں جن سے لکڑی کے بنے ہوئے دروازوں کی موجودگی ثابت ہوتی ہے؛ اور "شق الباب = لکڑی کے بنے ہوئے دروازوں کے شگاف" پر دلالت کرتی ہیں۔ امر مسلم ہے کہ پردے کا کوئی شگاف یا شق یا دراڑ نہیں ہوتی بلکہ لکڑی کے تختوں یا "سعف نخل = کھجور کی شاخوں" سے بنے ہوئے دروازوں میں شگاف ہوتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ سے مروی ہے کہ: «جب لوگ جعفر بن ابی‌طالب اور عبداللہ بن رواحة کی شہادت کی خبر لائے پیغمبر اکرم زمین پر بیٹھ گئے اور حزن و غم کے آثار چہرہ مبارک میں ہویدا ہوئے اور میں "شق الباب = دروازے کے شگاف" سے دیکھ رہی تھی۔۔۔» (کنزالعمال ـ ج15ـ ص732)۔
نیز امام صادق (ع) امیر المؤمنین علی (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ: «۔۔۔ بينا رسول الله صلّى الله عليه واله في بعض حجر نسائه وبيده مدراة، فاطلع رجل من شق الباب، فقال له رسول الله صلّى الله عليه وآله : لو كنت قريباً منك لفقأت بها عينك »۔۔۔ ایک دن رسول اللہ (ص) اپنی ایک زوجہ کے حجرے میں بیٹھے تھے اور ایک «مدرات" (= لکڑی یا دھات کی بنی ہوئی کنگھی) آپ (ص) کی دست مبارک میں تھی اسی وقت ایک مرد نے "شق الباب = دروازے کے شگاف" سے اندر کی طرف نظر ڈالی اور پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر میں تمہارے قریب ہوتا تو اس کنگھی سے تمہاری آنکھ کو پھوڑ دیتا»۔
(رواه الكليني في الكافي 7: 292|11 والصدوق في الفقيه 4 : 74 | 226، والطوسي في تهذيبه 10 : 207 | 818 ، وأماليه 2: 12 بتفاوت يسير، ونقله المجلسي في بحاره 79 : 278 | 4 ۔ قرب الاسناد ـ ص18 و من لایحضره الفقیه ـ ج 4 ـ ص 74)

ب) مکہ کے گھروں کے بھی دروازے تھے

گو کہ مذکورہ بالا سندات اور ثبوتوں کے ہوتے ہوئے دیگر سند وثبوت کی ضرورت نہیں ہے مگر اہل بیت نیوز ایجنسی (ابنا) کے عزیز صارفین کی مزید اطلاع کے لئے وہ روایات بھی پیش خدمت ہیں جو مکہ کے گھروں میں دروازوں کی موجودگی ثابت کرتی ہیں۔ یہاں البتہ اختصار کا لحاظ رکھا جائے گا:

1۔ جب قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو جناب ابوطالب علیہ السلام نے اپنے فرزند علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ: «جان پدر! اپنے چچا ابولہب کے پاس جاؤ اس کے گھر کے دروازے پر دستک دو اور اگر اس نے دروازہ نہ کھولا تو دروازہ توڑ دو اور گھر میں داخل ہوجاؤ اور اس سے کہدو کہ: «میرے والد نے تمہیں پیغام دیا ہے کہ: جس آدمی کا چچا زندہ ہو وہ ذلیل نہیں ہوجاتا»۔ پس علی (ع) ابولہب کے گھر گئے؛ دروازہ بند پایا تو دروازے پر دستک دی اور فرمایا: «دروازہ کھولو» مگر کسی نے جواب نہیں دیا تو آپ نے دروازہ توڑ دیا اور ابولہب کے گھر میں داخل ہوئے۔۔۔
(الکافی ـ ج8 ـ ص276 و 277)

2۔ از «ام ہانی» دختر ابوطالب نقل است کہ: «لما کان یوم فتح مکه أجرت رجلین من أحمائی، فادخلتهما بیتا و اغلقت علیهما بابا»
(مسند احمد ـ ج6ـ ص343)

3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث بھی بہت معروف و مشہور ہے کہ جب فتح مکہ کے دوران لشکر اسلام مکہ معظمہ میں داخل ہوا تو آپ (ص) نے فرمایا: «من دخل دار ابي‌سفیان فہو آمن ، و من اغلق [علیہ] بابہ فہو آمن» یعنی «جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگا اس کے لئے امان ہے اور جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوجائے اور دروازہ اندر سے بند کردے اس کے لئے امان ہے»۔(سنن ابی داود ـ ج2ـ ص162 و مسند احمد ج2ـ ص292 و وسائل الشیعه ـ ج15ـ ص27 و تهذيب الاحکام ـ ج4 ـ ص116 و صحیح مسلم ( انتشارات داراحیاء التراث العربی ) ـ ج3 ـ ص1408 و کافی ج5 ـ ص 12 و بحارالانوار ـ ج 75ـ ص 169 و ۔۔۔)
یہ امر قابل ذکر ہے کہ چونکہ مکہ «حرمِ امن تھا لہذا امن وامان کی حوالی سے مدینہ کی نسبت بہت بہتر تھا اور اس میں خانہ جنگی اور خونریزی کا امکان نہ تھا؛ مگر علامہ سید جعفر مرتضی عاملی کی کتاب مأساة الزہراء میں متعدد احادیث – مدینہ تو کیا - مکہ کے گھروں میں بھی دروازوں کی موجودگی پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے ہم نے تین احادیث پر اکتفا کیا۔