دوست اور دوستی

دوست ا ور دوستی کی اہمیت:

جہان بود و باش میں قدم رکھنے سے لیکر دار فانی کو وداع کہنے تک انسانی شخصیت کی تعمیر و تشکیل ،اخلاقی وروحانی تربیت ،ذہنی شعور اور فکری ارتقاء، اطراف میں موجود افراد سے وابستہ ہیں۔یہ وابستگی کبھی والدین کی محبت و شفقت کے روپ میں انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے اور کبھی استاد کی کوشش و تربیت کے نتیجہ میں آگے بڑھنے کا انداز بتاتی ہے۔انسانی شخصیت کی تعمیر و تربیت میں والدین اور اساتذہ کا کردار بنیادی نوعیت کا ہونے کے باوجود محدود وقت پر محیط ہوتا ہے اورا سکے مقابلے میں ایک تعلق اور رشتہ ایسا بھی ہے جو ہوش کی وادی میں قدم رکھتے ہی انسان کا ہاتھ ہمیشہ کے لئے تھام لیتا ہے۔
جی ہاں !’’ دوست اور دوستی ایک ایسارشتہ ہے جو نسبی طور پر دور ہونے کے باوجود قریبی ترین افراد سے بھی قریب تر ہوتا ہے‘‘. (۱) یہی وجہ ہے کہ امیر المومنینعلیہ السلام دوستی کو قرابت داری و رشتہ داری قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’المودة قرابة مستفادة‘‘
یعنی’’دوستی انتہائی مفید رشتہ داری و قرابت ہے ‘‘ (۲)
دوستی کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لئے آ پعلیہ السلام فرماتے ہیں :’’رشتہ داری و قرابت ،دوستی کے بغیر بر قرار نہیں رہ سکتی جبکہ دوستی کے لئے رشتہ داری کاہونا ضروری نہیںہے‘‘؟ (3)
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے مذکورہ فرامین سے یہ بات عیاں ہے کہ دنیا میں انسان کا قریبی ترین ساتھی ،دوست ہوتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی شخص انسان کے انتہائی قریب ہوگا تو جہاں اسکے دکھ درد میں شریک ہوگا وہاں بہت سے مفید مشوروں کے ذریعہ ا س کی راہنمائی بھی کرے گا . جس کے نتیجہ میں انسان بہت سی مشکلات اور پریشانیوں سے چھٹکارا پالے گا.اسی لئے مولائے کائنات دوستی کو نصف عقل قرار دیتے ہیں :

’’التودد نصف العقل ‘‘ (۴)
جبکہ دوست اور دوستی کے فقدان کو غربت وتنہائی شمار کرتے ہیں:

’’فقد ا الآحبةغربة‘‘ ۔ (۵)
’’دوستوں کانہ ہونا غربت وتنہائی ہے ‘‘
اور غریب و تنہا در حقیقت وہ شخص ہے جسکا کوئی دوست نہ ہو۔(۶)

دوستوں کا انتخاب:

دوستی کے سلسلہ میں سب سے اہم مرحلہ ’’دوستوں کا انتخاب‘‘ہے۔کیونکہ دوست اور دوستی کا رشتہ صرف با ہمی تعلقات اور زبانی جمع خرچ کا نام نہیں بلکہ یہ ایسا انتہائی نازک رشتہ ہے،جو انسان کی دنیا وآخرت کو بگاڑنے یا سنوارنے کے لئے تنہا ہی کافی ہے .لیکن اس سلسلہ میں جب ہم اپنے معاشرہ پر نظر ڈالتے ہیں تو دو قسم کے طرز فکر سامنے آتے ہیں۔
کچھ لوگ دوست اور دوستی سے زیادہ تنہائی اور مطلب برآوری کو ترجیح دیتے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میںکسی کو دوست نہیں بناتا کیونکہ دوستی،فضول کام اور بے کا رلوگوں کا شیوہ ہے، جو فقط وقت گزارنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔
ان کے بر عکس ،کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر ایرے غیرے کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا لیتے ہیں اور پھر قدم قدم پرٹھوکریں کھا کر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
بنیادی طورپر یہ دونوں طرز تفکر غلط ہیں.چنانچہ امیر المومنین فرماتے ہیں :
’’اعجز الناس من...‘‘’’درماندہ وناتوان ترین شخص وہ ہے جو کسی کو دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھی زیادہ عاجز ونا توان وہ ہے جو بنے بنائے دوستوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے‘‘۔(۷)
دوست کے انتخاب کے سلسلہ میںانسان کو خوددار ہونا چاہئے۔ کیونکہ دوستی ایک ایسا ناطہ ہے جسے برابری کی بنیاد پر جوڑا جاتا ہے. لہذا ایسے افراد کی دوستی سے پرہیز کرنا چاہیے جو خود کو برتر سمجھیںیا دوستی استوار کرنے سے پہلو تہی کریں .
اسی لئے تو امیر المومنین فرماتے ہیں :
’’لا ترغبن فیمن زهد عنک‘‘(۸) یعنی:’’ایسے افراد کی دوستی کے طلبگار نہ بنو جو تم سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہوں ۔اورا گر کوئی شخص تمہاری دوستی کا طلبگار ہو تو اسے مایوس نہ کرو کیونکہ اس طرح تم ایک اچھے ساتھی سے محروم ہو جاؤگے ‘‘۔
چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’زهدک فی راغب فیک نقصان حظ و رغبتک فی زاهد فیک ذل نفس‘‘
یعنی:’’جو تمہاری دوستی کا طلبگار ہو اس سے کنارہ کشی خسارہ ہے اور جو تم سے کنارہ کش ہو اس کی دوستی کے حصول کی کوشش خود کو رسوا کرنے کے مترادف ہے‘‘۔(۹)
دوستی کے سلسلہ میں با ہمی تعلقات کے مقام سے روشناس کروانے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام ایسی صفات کے حامل افراد کی ہم نشینی اختیار کرنے کی تاکید فرماتے ہیں جو انسان کی دنیاوی و اخروی سعادت کا باعث ہوں چنانچہ آپعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قارن اهل الخیر تکن منهم‘‘یعنی : ’’اہل خیر کی ہمنشینی اختیار کرو ممکن ہے کہ تم بھی ان جیسے ہو جاؤ‘‘ (۱۰)
مولائے کائنات علیہ السلام اس جملہ کے ذریعے ایک بہت اہم معاشرتی و تربیتی اصول کی جانب اشارہ کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ ہم نشینی کے نتیجہ میں انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں. اور انسان اس ذریعے سے نہ صرف دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرتا ہے بلکہ ان کے مشوروں اور راہنمائیوں کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ خود بھی ان کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور انہی کا ایک فرد شمار ہونے لگتا ہے۔
نہج البلاغہ میں دوستی کے بارے میں امیر المونین علیہ السلام کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو ایک دلچسپ بات یہ سامنے آتی ہے کہ دوست کے انتخاب کے سلسلہ میں مولائے کائناتعلیہ السلام زیادہ تر دوستی کے لئے لائق و سزاوار افراد کا تعارف کروانے کی بجائے ان افراد کا تعارف کرواتے ہوئے نظرا تے ہیں جن سے دوستی نہیں کرنا چاہئے .امیر المومنینعلیہ السلام کے اس اقدام کی بنیادی وجہ شاید یہ ہو کہ اگر صرف ایسی صفات پیش کی جائیں جو دوست میں ہونا چاہئیں تو اسکا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ

کبوتر با کبوتر باز با باز کند ہم جنس با ہم جنس پرواز

کے تحت دوستی کا دائرہ نہایت محدود ہو جائے گا اور ہر شخص اپنے سے زیادہ بہتر و برتر صفات و عادات کے حامل افراد کی دوستی کے حصول کے چکر میں پڑا رہے گا .جبکہ اگر یہ کہا جائے کہ فلاں فلاں صفات کے حامل افراد سے دوستی نقصان دہ ہے تو اس کے نتیجہ میں جہاں دوستی کا دائرہ وسیع ہوگا وہاں منفی صفات کے حامل افراد کی اصلاح کا پہلو بھی نکل آئے گا۔کیونکہ منفی صفات کے حامل افراد نے اگر اچھے دوستوں کے حصول کے لئے اپنی بری عادات وصفات سے ہاتھ نہ اٹھایا اور اصلاح کی جانب متوجہ نہ ہوئے تو معاشرہ میں تنہا رہ جائیں گے۔
آئیے ایک نظر ان افراد پر ڈالی جائے جن کی دوستی اختیار کرنے سے مولائے کائناتعلیہ السلام روک رہے ہیں اور ساتھ ہی ان خطرناک نتائج کی جانب اشارہ فرما رہے ہیں جو اس قسم کی دوستی کے نتیجہ میں انسان کو بھگتنا پڑتے ہیں۔چنانچہ امیر المومنین علیعلیہ السلام امام حسن علیہ السلام کو وصیت فرماتے ہیں :
’’یا بنی ایاک و مصاحبة الاحمق فانه...‘‘یعنی:’’اے فرزند!بے وقوف سے دوستی نہ کرنا؛ کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا تو نقصان پہنچائے گا.اور بخیل وکنجوس سے دوستی نہ کرنا؛ کیونکہ جب تمہیں اسکی مدد کی اشد ضرورت ہوگی وہ تم سے دور بھاگے گا، اور بدکار سے دوستی نہ کرنا ،وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ سراب کی مانند ہے؛ تمہارے لئے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کرکے دکھائے گا‘‘۔(۱۱)
آپ علیہ السلام ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :
’’لا تصحب المائق...‘‘یعنی’’ بیوقوف کی ہم نشینی اختیار نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے سامنے اپنے کاموں کو سجا کر پیش کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تم اسی جیسے ہوجاؤ ‘‘(۱۲)
یا ’’واحذرصحابة من...‘‘۔:’’کمزور رائے اور برے افعال انجام دینے والے کی دوستی سے بچو کیونکہ آدمی کا اس کے ساتھی پر قیاس کیا جاتا ہے اور فاسقوں کی صحبت سے بچے رہنا
کیونکہ برائی ،برائی ہی کی طرف بڑھا کرتی ہے‘‘۔ (۱۳)
حضرت امیر المومنین علیہ السلامامام حسنعلیہ السلام کو تحریر کئے گئے خط میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’احمل نفسک...‘‘یعنی:’’اپنے نفس کو اپنے بھائی کے بارے میں قطع تعلق کے مقابلہ میں تعلق جوڑنے ،رو گردانی کے مقابلہ میں مہربانی ،بخل کے مقابلہ میں عطا ،دوری کے مقابلہ میں قربت،شدّت کے مقابلہ میں نرمی اور جرم کے موقع پر معذرت قبول کرنے کے لئے آمادہ کرو. گویا تم اس کے غلام اور وہ تمہارا آقا و ولی نعمت ہے۔(۱۴)
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ا س قسم کے فرامین جن میں انسان کو دوستوں سے حسن سلوک اور ان کی غلطیوں سے درگزر کرنے کی تاکید کی گئی ہے در اصل ان موارد کے لئے ہیں جن میں دو دوستوں کے باہمی تعلقات کا جائزہ لیا گیا ہے. یعنی دوست آپس میں کس طرح کا برتاؤ کریں اور کون کون سی باتوں کا خیال رکھیں ۔
مذکورہ فرامین کے علاوہ کچھ ایسے ارشادات بھی ہیں جن میں دوستوں کی غیر موجودگی یا دوسروں کے ساتھ دوستوں کے سلسلہ میں برتاؤ کا انداز بتایا گیا ہے۔ جیساکہ امیر المومنین علیہ السلامفرماتے ہیں:
’’لا یکون الصدیق ...‘‘۔’’دوست ا س وقت تک دوست نہیں ہو سکتا جب تک تین مواقع پر دوست کے کام نہ آئے :مصیبت کے موقع پر ،غیر موجودگی میں اور مرنے کے بعد‘‘۔(۱۵)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’دوست وہ ہوتا ہے جو غیر موجودگی میں بھی دوستی نبھائے اور جو تمہاری پرواہ نہ کرے وہ تمہارا دشمن ہے‘‘۔ (۱۶)
دوستوں کے حقوق کا ایک تصور ہمارے یہاں ’’سب سانجھا‘‘قسم کا پایا جاتا ہے؛ یعنی دوست کے حقو ق و مفادات کو اس قسم کا مشترک امر سمجھا جاتا ہے جس میں دوسرے دوستوں کو دخالت کا پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے. اور بعض اوقات اس قسم کے تصور کے نتیجہ میں دوست کے حقوق دوستوں کے ہاتھوں ہی پائمال ہوتے ہیں .
امیر المومنین علیہ السلام حقوق کے اس ناجائز استعمال سے منع فرماتے ہیں
’’لا تضیعن حق اخیک...‘‘یعنی :’’باہمی روابط و دوستی کی بنیاد پر اپنے کسی بھائی کی حق تلفی نہ کرو کیونکہ پھر وہ بھائی کہاں رہا جس کا تم نے حق تلف کر دیا‘‘۔ (۱۷)
دوستوں کے بارے میں لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرنے کے سلسلہ میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ایها الناس !من عرف من اخیه..‘‘یعنی:’’اے لوگو!اگر تمہیں اپنے کسی بھائی کے دین کی پختگی اور عمل کی درستگی کا علم ہو تو پھر اس کے بارے میں لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہ دو‘‘۔(۱۸)

دوست اور دوستی کی حدیں:

دوست اور دوستی کے بے شمار فوائد اور اہمیت کے پیش نظر بہت سے لوگ دوستی میں کسی قسم کی حدود و قیود کے پابند نہیں ہوتے. اور دوست کے سامنے اپنے سب راز بیان کر دیتے ہیں. لیکن مکتب امام علیعلیہ السلام میں دوستی انتہائی گہری و پاکیزہ ہونے کے باوجود ایک دائرہ میں محدود ہے ،جسے حدّ اعتدال بھی کہا جاتا ہے ۔چنانچہ امام علی علیہ السلامفرماتے ہیں:
’’احبب حبیبک هوناً ما...‘‘یعنی:’’دوست سے ایک محدود حد تک دوستی کرو کیونکہ ممکن ہے وہ ایک دن تمہارا دشمن ہو جائے اور دشمن سے دشمنی بھی بس ایک حد تک ہی رکھو کہ شاید وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے ‘‘۔ (۱۹)
امیر المومنین علیہ السلامکے اس فرمان میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ انسان اپنے راز کا غلام ہوتا ہے .اگر انسان کسی دوست کے سامنے اپنے تمام رازبیان کر دے اور زمانہ کے نشیب و فراز دوست ،کو دشمن بنا دیں تو انسان خود بخود اپنے دشمن کا غلام بن جائے گا۔
ہمارے معاشرہ میں دوست صرف انہی افراد کو تصور کیا جاتا ہے جن سے انسان بذات خود دوستی استوار کرتا ہے۔جبکہ امیر المومنین علیہ السلام دوستوں کے دائرے کو مزید وسعت دیکر انسان کے حلقہ احباب میں دو قسم کے دوستوں کا اضافہ فرماتے ہیں:
’’اصدقائک ثلاثة...صدیقک. . . ‘‘یعنی :تمہارے دوست بھی تین طرح کے ہیں اور دشمن بھی تین قسم کے ہیں۔تمہارا دوست،تمہارے دوست کا دوست اور تمہارے دشمن کا دشمن تمہارے دوست ہیں.....(۲۰)
عام طور پر ہم دوستوں کی ان دو قسموں سے غافل رہتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض اوقات قریبی دوستوں سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔

دوستی کے لئے مفید اور نقصان دہ چیزیں:

دوستوں کے حقوق کی ادائیگی ہی درحقیقت دوستی کو مضبوط اور پائیدار کرتی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے اسباب و عوامل ہیں جودوستی کے رشتے کے لئے نہایت مفید شمار ہوتے ہیں. جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلامفرماتے ہیں :
’’البشاشة حبالة المودة‘‘ ’’کشادہ روئی محبت کا جال ہے‘‘? (۲۱)
اسی طرح آپعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’نرم خو، قوم کی محبت کو ہمیشہ کے لئے حاصل کرلیتا ہے۔‘‘ (۲۲)
اسی طرح جہاں حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کے نتیجے میں دوستی جیسا مضبوط رشتہ کمزور ہوجاتا ہے وہیں کچھ اور چیزوں کی وجہ سے اس میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ حسد الصدیق من سقم المودّة‘‘ یعنی:دوست کا حسد کرنا دوستی کی خامی ہے? (۲۳)
یا حضرتعلیہ السلامکا یہ فرمان:
’’من اطاع الواشی ضیع الصدیق‘‘یعنی:’’ جو چغل خور کی بات پر اعتماد کرتا ہے وہ دوست کو کھو دیتا ہے‘‘۔(۲۴)
ایک اور مقام پر دوستی کے لئے نقصان دہ عامل کی جانب اشارہ فرماتے ہیں:
جس نے اپنے مومن بھائی کو شرمندہ کیا سمجھو کہ اس سے جدا ہوگیا۔ (۲۵)
دوست اور دوستی کے سلسلہ میں مولائے کائنات علیہ السلامکے سنہرے کلمات کو بے ترتیبی سے جوڑ کر دوست اور دوستی کے خواہشمند افراد کی خدمت میں اس امید بلکہ اس یقین کے ساتھ پیش کررہے ہیں کہ اگر ہم ان راہنما اصولوں کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں تو یقینا امیر کائنات۔کے اس فرمان کی عملی تصویر بن سکتے ہیں جس میں آپ فرماتے ہیں:
’’خالطوا الناس مخالطة ان متم . .‘‘: ’’لوگوں کے ساتھ اس طرح رہو کہ اگر مرجا ؤ تو تم پر روئیں اور اگر زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں‘‘? (۲۶)

حوالہ جات:

1۔ (مکتوب/31)
2۔ (حکمت/211)
3۔ (ترجمہ و شرح ابن میثم/ج5ص674)
4۔ (حکمت/142)
5۔ (حکمت/65)
6۔ (مکتوب/31)
7۔ (حکمت/12)
8۔ (مکتوب/31)
9۔ (حکمت/451)
10۔ (مکتوب/31)
11۔ (حکمت/38)
12۔ (حکمت/293)
13۔ (مکتوب/69)
14۔ (مکتوب/31)
15۔ (حکمت/134)
16۔ (مکتوب/31)
17۔ (مکتوب/31)
18۔ (خطبہ/141)
19۔ (حکمت/ 268)
20۔ (حکمت/295)
21۔ (حکمت/6)
22۔ (خطبہ/23)
23۔ (حکمت/218)
24۔ (حکمت/239)
25۔ (حکمت/480)
26۔ (حکمت/10)