حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں ابن ابی الحدید کا نظریہ


جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی عام دعاؤں کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے وہ ولی مطلق، حضور و شہود کی فضا میں زندگی بسر کیا کرتے تھے، کیونکہ آپ خداوندعالم کی بارگاہ میں یوں عرض کرتے تھے:
”سُبْحانَک مَلاٴتَ کلّ شیءٍ و باينْتَ کلّ شيئٍ فاٴنت الّذی لا يفقدک شيئٍ واٴنت الفعّال لما تشاء“۔[1]
”پاک و منزہ ہے کہ تو نے ہر چیز کو بھر دیا ہے اور تو ہر چیز سے الگ ہے پس تو ایسی ہستی ہے کہ جس سے کوئی چیز مخفی نہیں اور تو جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے“۔
اس طرح کے جملوں کا اطلاق ذاتی واجب اور اس کے ہر طرح کے حلول، اتحاد، امتزاج، اختلاط، التقاط اور ترکیب و غیرہ سے پاک ہونے کے پیش نظر اور صاحب ِدعا کے شہود میں اس کا ظہور قابل انکار نہیں ہے، کیونکہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام جو اپنی دعاؤں میں خداوندعالم کو دلوں کو اطمینان دینے والے اور دلوں کے گریہ کو سننے والے، صاحبان عقل کے مونس، عاملین عقلی کا خوف اور خطاکاروں کے دلوں کی پناہ کے عنوان سے تعریف کرتے ہیں اور خداوندعالم کو عارفوں کی امید اور آرزومندوں کی آرزو کے عنوان سے یاد کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ذات، علمی لحاظ سے عالم شہود کو دیکھتی ہے اور آپ عملی لحاظ سے عینی طور پر دیکھنے کی نعمت سے سرفراز ہیں، چنانچہ یہ خاص نظر اور یہ خاص نعمت حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی حیات عارفانہ کی نشاندہی کرتی ہے۔
اِسی وجہ سے آپ نماز شب کی فراغت کے بعد فرماتے تھے:
”... اٴعوذ بک اٴن اٴشِيرَ بقلبٍ اٴو لسانٍ اٴو يدٍ إلی غيرک لا إله إلاّ اٴنت، واحداً اٴحداً، فرداً صمداً ونحن لک مسلمون“۔ [2]
”۔۔۔ میں پناہ مانگتا ہوں اِس بات سے کہ دل یا زبان یا ہاتھ سے تیرے علاوہ کسی اور کی طرف اشارہ کروں ، تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، تو واحد بھی ہے او راحد بھی، ایک اکیلا اور برحق و بے نیاز بھی اور ہم تیرے سامنے تسلیم ہیں“۔
کیونکہ اس طرح کی دعا،خداوندعالم کے جمال و جلال کے شہود میں دعا کرنے والے کے غرق ہونے کی عکاسی کرتی ہے کہ جو لمحہ بھر کے لئے غیرِ خدا پر توجہ نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے ابن ابی الحدید نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں کچھ مطالب بیان کئے ہیں کہ جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
۱۔ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام دنیا پرست نہ تھے۔۔۔”وإنّما کان رجلاً متاٴلّہاً صاحب حقٍّ“۔[3]
متاٴلّہ انسان،خدائی انسان کے علاوہ ہے جو شخص معرفت الٰہی سے سرشار ہو وہ متاٴلّہ ہے۔

۲ - واعلم اٴنّ التوحيد والعدل والمباحث الشريفة الإلهية ما عُرِفَت إلاّ من کلام هذا الرجل واٴنّ کلام غيره من اٴکابر الصحابة لم يتضمّن شيئاً من ذلک اٴصلاً ولا کانوا يتصوّرونه ولو تصوّروه لذکروه، وهذه الفضيلة عندی اٴعظم فضائله (عليه السلام)؛
”توحید ِخدا ، عدلِ خدا اور خدا سے متعلق دیگر مطالب کے بلند و بالا معارف صرف اور صرف حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے کلام سے حاصل ہوئے ہیں اور اُنہی کے ذریعہ پہچانے گئے ہیں جبکہ دوسرے لوگوں اور حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بزرگ اصحاب کے کلام میں اعتقادی اصول سے متعلق مسائل بیان نہیں ہوئے ہیں اور وہ حضرات یعنی دیگر اصحاب رسول اس طرح کے بلند اور عالی مطالب کا تصور بھی نہیں کرتے تھے، (تو ان مطالب کی تصدیق و وضاحت تو دور کی بات ہے!) کیونکہ اگر ان عمیق معارف کے تصوری اُصول واضح اورروشن ہوتے اور وہ اُن مطالب کے تصدیقی بنیادوں کو درک کرتے تو ان کو بیان بھی کرتے لیکن اُن کے کلام میں اِس طرح کے مفاہیم پایا نہ جانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ لوگ ان معارف سے نابلد تھے، صرف حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے جو اِس میدان کے فاتح، اس عالم کے کاشف اور ایسی معرفت کے موجد تھے، میرے نزدیک حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی یہ علمی فضیلت بہت بڑی ہے“۔[4]
معرفت کا رازِ فضیلت یہ ہے کہ علم کے لئے کوئی محدود سرحد نہیں ہے، عمل کے برخلاف کہ اُس کی حد معین اور محدود ہے۔ بعض علوم، کمال نفسی ہیں کیونکہ وہ کسی کا مقدمہ نہیں ہوتے تاکہ اُن کا کمال، مقدمہ اور وسیلہ ہو، جیسے معرفت خدا او راسمائے الٰہی کا علم۔ اسی وجہ سے ذاتاً شریف ہے۔
لیکن اِس حصر سے ابن ابی الحدید کا مقصود، مطلق حصر نہیں ہے بلکہ حصر اضافی ہے، یعنی حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے علاوہ کسی نے معارف الٰہی کو اس طرح بیان نہیں کیا، اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے کہا:”مِنْ اٴکابرِ الصّحابہ“، (یعنی آنحضرت کے بڑے صحابہ میں سے) تو اس سے امت کے علمی رجال کی چھان بین مراد ہے نہ کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ذات پاک اور امت دونوں۔
ابن ابی الحدید کا قول ابن سینا (رحمة اللہ علیہ) کے بلند گفتار کے نزدیک ہے کیونکہ بوعلی ابن سینا کے جملہ کے مطابق حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام، اصحاب رسول کے درمیان محسوس کے درمیان معقول کی طرح ہیں اور ابن ابی الحدید کے جملہ کے مطابق جس چیز کی حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے تصدیق کی اور تعلیم دی اُسے دوسرے افراد بالکل درک ہی نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

۳ - واٴمّا الحکمة والبحث فی الاٴمور الإلهية فلم يکن من فنّ اٴحدٍ من العرب ولا نُقل فی جهاد اٴکابرهم و اٴصاغرهم شیءٍ من ذلک اٴصلاً وهذا فنّ کانت اليونان واٴوائل الحکماء واٴساطين الحکمة ينفردون به واٴول من خاض فیه من العرب علیّ (عليه السلام) ولهذا تجد المباحث الدقيقة فی التوحيد والعدل مبثوثةً عنه فی فرش کلامه وخُطَبِه ولا تجد فی کلام اٴحدٍ من الصحابة والتابعين کلمةً واحدةً من ذلک ولا يتصورونه ولو فُهمّوه لم يفْهموه. اٴنّی للعرب ذلک؛

”حکمت ،استدلالی بحث اور معارف الٰہی کے سلسلہ میں گفتگو کرنے کا فن کسی عرب کے پاس نہیں تھا اور کسی بھی عربی چھوٹے بڑے شخص سے اس سلسلہ میں کوئی چیز نقل نہیں ہوئی ہے، صرف یونانی دانشوروں اور فلاسفہ ، نیز معرفت الٰہی کے بزرگ افراد اس فن میں مشغول تھے سب سے پہلے قوم عرب میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اس طرح کے معارف کو بیان کیا۔ اسی وجہ سے توحید خدا اور عدل الٰہی کی دقیق بحثیں حضرت علی علیہ السلام کے خطبوں اور کلام میں زیادہ دکھائی دیتی ہیں اور کسی بھی صحابی یا اصحاب رسول کے تابعین میں سے کسی نے بھی اس طرح کے بلند معارف بیان نہیں کئے۔ یہ دو نسلیں اِس طرح کے مطالب کا تصور بھی نہیں کرتی تھیں اور اگر کوئی اُن کے لئے اس طرح کے مطالب کی تدریس و تفہیم کرتا بھی تو وہ اُسے سمجھنے سے عاجز تھے، کیونکہ قوم عرب میں (وحی الٰہی اور الہام نبوی نیز الہامِ علوی کے بغیر ) اِس طرح کے بلند مطالب کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں تھی“[5]
موصوف کے گزشتہ کلام سے استفادہ ہونے والے مطالب کے علاوہ اس کلام سے معلوم ہونے والا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام امت اسلامیہ میں معارف الٰہی کے مبتکر تھے اور صحابہ و تابعین میں سے کوئی بھی اس طرح کے مطالب بیان کرنے کی طاقت و توانائی نہیں رکھتا تھا، نیز اُن میں سے کسی ایک میں بھی اُنہیں سیکھنے اور حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ یہ جملہ بھی ابن سینا (علیہ الرحمہ) کے جملے سے ہم آہنگ ہے کیونکہ جو شخص حسّ کے مرتبہ میں ہو وہ نہ صرف یہ کہ ادراک معقول کا مبتکر نہیں ہوسکتا ہے بلکہ وہ مکتبِ عقل کا شاگرد بھی نہیں ہوسکتا، اِس طرح کہ اگر کوئی صاحبِ عقل کسی حسّ رکھنے والے موجود کو کوئی چیز سمجھنا چاہے تو وہ نہیں سمجھ سکتا۔
چنانچہ ابن ابی الحدید کا کہنا ہے:
۴۔ تمام اسلامی متکلمین جو دریائے معقولات کے غوّاص ہیں، نے اپنا علم حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے لیا ہے اور یہ لوگ امام کی طرف منسوب ہیں اوروہ انھیں کو اپنا استاد اور سرپرست اور بزرگ مانتے ہیں۔
اصحاب معتزلہ ، واصل بن عطا سے انتساب رکھتے ہیں، اور واصل، ابوہاشم بن محمد بن حنفیہ کے شاگرد ہیں اور ابوہاشم اپنے والد محمد کے شاگرد تھے اور محمد بن حنفیہ اپنے والد حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے شاگرد تھے، شیعوں کا انتساب چاہے وہ امامیہ ہوں یا زیدیہ یا کیسانیہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف واضح ہے۔
اشاعرہ کا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرف انتساب اس وجہ سے ہے کہ وہ ابوالحسن اشعری کی طرف نسبت رکھتے ہیں اور وہ ابوعلی کے شاگرد ہیں اور ابو علی، ابویعقوب شحّام کے شاگرد ہیں، ابویعقوب ، ابو الہُذیل کے شاگرد تھے، ابو الہذیل ، ابوعثمان طویل کے شاگرد تھے، ابو عثمان طویل ، واصل بن عطا کے شاگرد تھے، لہٰذا آخر کار فرقہ اشعری بھی حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں۔
اسی طرح کرامیہ کا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرف منسوب ہونا اِس وجہ سے ہے کہ اُن کے عقائد دو طریقوں سے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام پر جاکر ختم ہوتے ہیں جیسا کہ ابن ہیصم نے کتاب ”المقالات“ میں بیان کیا ہے۔
خوارج کا کلامی انتساب حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرف روشن ہے کیونکہ وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے اور اُنھوں نے ہی آپ پر خروج کیا تھا۔ [6]
اسی طرح موصوف مزید تحریر کرتے ہیں:

۵۔ ”حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اولیائے الٰہی میں سے ہیں کہ جنھوں نے کبھی ہاتھ اور کبھی شمشیر سے، کبھی زبان و بیان اور کبھی فکر و قلب سے اسلام کی مدد کی ہے۔ اگر جہاد و جنگ کی بات آتی ہے تو آپ سید المجاہدین ہیں، اور اگر وعظ و نصیحت کا نام آتا ہے تو آپ ابلغ الواعظین ہیں اور اگر فقہ و تفسیر کا ذکر ہوتا ہے کہ تو آپ رئیس الفقہاء و رئیس المفسرین ہیں اور اگر عدل و توحید کی بات ہوتی ہے تو آپ اہل عدل و اہل توحید کے امام ہیں۔
” ليس علی اللّٰه بمستنکر، اٴن يجمع العالم فی واحدٍ“۔[7]
”یعنی اللہ کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ کائنات کو ایک شخص میں جمع کردے“۔

۶۔ بیت المال کے مال و پیسے کے سلسلہ میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت یہ تھی کہ وہ ہر جمعہ کے د ن بیت المال میں جھاڑو لگاتے تھے اور اس کے بعد وہاں دو رکعت نماز پڑھتے اور فرماتے تھے: یہ مکان قیامت کے دن میرے لئے شہادت دے گا۔ [8] یعنی ناجائز تصرف، ناروا امتیاز اور ناعادلانہ تبعیض نہ ہونے کی شہادت۔

۷۔ چونکہ طوفان حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے کی تاریخ معلوم نہیں ہے اور مجہول ہے لہٰذا اس حوالہ سے گفتگو نہیں کی جاسکتی، لیکن طوفان نوح علیہ السلام کے بعد کی تاریخ کے سلسلہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا میں تمام قوم و ملت چاہے وہ ترک ہوں یا فارس، عرب ہوں یا رومی یا دیگر اقوام، ان میں کوئی ایسا شخص نہیں مل سکتا کہ جس کی شجاعت حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شجاعت کی طرح ہو کہ جن کے نزدیک شمشیر سے قتل ہونا زندگی سے بہتر ہے۔ [9]
اِس بات پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے تعارف کے سلسلہ میں ابن ابی الحدید کا بیان، عمل کے میدان میں عبادت، زہد، شجاعت اور سخاوت سے آگے نہیں ہے اور علم کے لحاظ سے بھی فلسفہ و کلام کی حد ہی میں ہے۔
اِس بنا پر اِس معتزلی شارح کے کلام سے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی عارفانہ حیات کو ثابت کرنا آسان کام نہیں ہے، البتہ موصوف کے کلام کے ایک دوسرے حصہ سے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی حیاتِ شاہدانہ کو ثابت کرنے کا زمینہ ہموار کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ موصوف نے اُس خطبہ کی شرح میںبیان کیا کہ جس میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے آیہ شریفہ: [10]کی تلاوت کے بعد فرمایا۔[11]
چنانچہ ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

۱۔” جو شخص اِس فصل میں غور و فکر کرے تو وہ معاویہ کے اس کلام کی سچائی کو سمجھ سکتا ہے کہ اُس (معاویہ) نے کہا: خدا کی قسم ! علی (علیہ السلام ) کے علاوہ کسی نے قریش کے لئے فصاحت و بلاغت کا تحفہ نہیں د یا ہے۔

۲۔ سزاوار ہے کہ اگر عرب کے تمام فصحاء ایک معین نشست میں جمع ہوجائیں اور اس خطبہ کی تلاوت کریںتو اُنہیں اس کلام کے آگے سجدہ کرنا ہوگا، کیونکہ شعرائے ادب کہتے ہیں کہ ہم اشعار میں سجدہ کی جگہ جانتے ہیں جس طرح آپ لوگ قرآن میں سجدہ کی جگہ سے واقف ہیں۔

۳۔ مجھے اُس شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ جنگ میں جس کا کلام اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جس کی عادت شیر اور چیتے کی طرح ہے لیکن اسی مقام پر پند و نصیحت پر مشتمل کلام کرتا ہے کہ جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ اُس کی عادت ایک راہب اور تارک دنیا کی طرح ہے کہ جس نے آج تک کوئی خون نہ بہایا ہو۔ اور وہ کبھی بِسطام بن قیس شیبانی و عُتَیْبة ابن حارث یربوعی اور عامر بن طفیل عامری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی سقراط حِبْر یونانی و یوحنّا مَعْمَدان اور مسیح بن مریم کی شکل میں ہیں۔

۴۔میں اُس کی قسم کھاتا ہوں کہ جس کی قسم تمام امتوں نے کھائی کہ میں نے اس خطبہ کو پچاس سال کی مدت میں اب تک ہزار بار سے زیادہ پڑھا اور میں نے اُس کو نہیں پڑھا مگر یہ کہ اپنے دل اور دیگر اعضاء پر اُس کا اثر دیکھا اور اُس میں غور و فکر نہیں کی مگر یہ کہ اپنے مُردوں کو یاد کیا اور اپنے کو مولا کے اِس کلام کا مصداق سمجھا کہ جو حضرت علی علیہ السلام نے مردوں کے بارے میں بیان فرمایا۔ واعظین، خطباء اور فصحاء نے اس سلسلہ میں بہت زیادہ کلام کیا ہے اور میں نے متعدد بار ان کو پڑھا ہے لیکن اُن میں سے کسی میں بھی یہ تاثیر نہیں دیکھی۔ کیا یہ تاثیر اس وجہ سے ہے کہ میں حضرت علی علیہ السلام پر خاص عقیدہ رکھتا ہوں یا یہ اُس کلام کے متکلّم کے نیتِ صالح، یقین ثابت اور اخلاص محض کی وجہ سے ہے“۔ [12]
ایک یادگار واقعہ : جب ہم نے اپنے استاد حضرت سید محمد حسین طباطبائی تبریزی کہ جو علامہ طباطبائی (قدّس اللہ نفسہ الزکیہ)کے نام سے مشہور تھے ، سے سوال کیا کہ آپ مذکورہ خطبہ کے سلسلہ میں ابن ابی الحدید کے اس کلام کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ جس میں اس نے کہا : سزاوار ہے کہ فصحائے عرب اس کے سامنے سجدہ کریں،تو علامہ مرحوم نے فرمایا:
”اُس کلام میں نہ افراط ہے اور نہ مبالغہ، کیونکہ معارفِ قرآن اور تجلی کلام خدا، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے خطبہ میں جلوہ گر ہوا ہے، درحقیقت فصحائے عرب کا یہ سجدہ، قرآن کی عظمت کا سجدہ ہے اگرچہ (قرآن) خطبہ علوی کے صورت میں ظاہر ہواہے“۔
جس چیز کی طرف پہلے اشارہ ہوا تھا کہ شارح نہج البلاغہ کے بعض جملے حضرت علی علیہ السلام کی حیات عارفانہ کا زمینہ فراہم کرتے ہیں، اس قول سے معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ حضرت علی علیہ السلام اہل برزخ کے حالات کو مکمل طور پر مشاہدہ کررہے تھے اور اُن کی جزئیات سے بھی مکمل آگاہ تھے، جیسا کہ حبّہ عرنی [13] کا واقعہ اس بات پر گواہ ہے۔
[1] اثبات الوصیّة، صفحہ ۱۳۷۔
[2] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، جلد۲۰، صفحہ ۲۵۵، حدیث ۱۔
[3] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۲، ص۲۰۳۔
[4] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۶، ص۳۴۶۔
[5] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، جلد۶، صفحہ ۳۷۰ تا ۳۷۱۔
[6] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۶، صفحہ ۳۷۱ تا ۳۷۲۔
[7] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۷، صفحہ ۲۰۳۔
[8] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، جلد۲، ص۱۹۹۔
[9] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید،جلد۷، ص۳۰۱۔
[10] سورہ تکاثر، آیت نمبر۱و ۲، ترجمہ: تمہیں باہمی مقابلہ کثرت مال و اولاد نے غافل بنادیا ،یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی ۔
[11] نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۱۔
[12] شرح ابن ابی الحدید، جلد۱۱، صفحہ ۱۵۲ تا ۱۵۳۔
[13] بحار الانوار، ج۶، ص۲۶۷۔